کامیابی کا راستہ 


کلمہ حق

"الرحمت "کے زیر اہتمام رحمتوں بھری انفاق فی سبیل اللہ مہم کا آغاز ہو چکا ہے ۔یہ مہم ہم سب کے لیے کا میابی کا ذریعہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ انسانوں سے بے انتہا محبت کرتا ہے اور اس محبت کا ہی تقاضہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو دنیا و آخرت میں کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ُاس نے پہلے انسان حضرت آدم ؑکو ہدایت سے سرفراز کیا، انھیں علم بخشا اور عبادت و دعاکا طریقہ سکھایا جس کے ذریعہ وہ رب کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔  حضرت آدم ؑ کے بعد یہ سلسلہِ ہدایت آخری نبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جاری رکھا۔قرآن کا نزول کیا اور اس کو کتاب فرقان بنا یا،جو حق و باطل کا فرق واضح کرنے والی کتاب ٹھہری اور اس پر عمل کرنے والوں کو اللہ رب العالمین نے فلاح کی سند عطاکردی۔اسی پاک کتاب میں اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز سے اپنے بندوں کو کا میابی کا راستہ بتایا ہے ۔ 
انسان ہر زمانے میں مال و دولت اور اولاد کے گھمنڈ میں مبتلا رہا ہے۔یہی وہ ذرائع ہیں جو انسان کو دیگر انسانوں پر دنیامیں بظاہر فوقیت بخشتے ہیں ۔اس برائی کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب انسان اپنی سابقہ زندگی کے مقابلہ موجودہ زندگی میں کچھ برتری حاصل کرنے لگتا ہے،چاہے وہ علم ہو، مال و دولت اور جائیداد ہو، طاقت و قوت ہو یا پھر اولاد۔یہ وہ نقطہ آغاز ہے جو اس کے اندر تکبر و بڑائی اورغرور پیدا کرتاہے۔ایسی صورت میں انسان کی حالت کیا ہوتی ہے اس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں فرماتا ہے:
"تو جس نے بخل کیا اور (اپنے خداسے)بے نیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا، اس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ اور اس کا مال آخر اس کے کس کام آئے گا جبکہ وہ ہلاک ہو جائے "(الیل:-)۔
جب انسان کو مال و دولت سے بے انتہا رغبت ہو جاتی ہے نیز اس کو بافراغت یہ سب چیزیں میسر بھی آتی ہیں ایسے مرحلے میں وہ بخل کا رویہ اختیار کرنے لگتا ہے۔یہ بخل خود کی ، اپنے اہل و عیال کی اور معاشرہ کی ضرورتوں پر خرچ کرنے سے روکتا ہے ۔اسی کے ساتھ ساتھ یہ بخل مزید بری شکل جب اختیار کرتا ہے جبکہ اسلامی احکامات پر عمل درآمد میں رکاوٹ بننے لگے نیز اسلامی نظام کے فروغ و قیام میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہوجائے۔ اس مرحلے میں بخیل انسان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے احکامات کو جھٹلاتا ہے، اپنے قول کے ذریعہ اور اپنے عمل کے ذریعہ ۔ساتھ ہی اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگتا ہے۔ ایسے انسان کے لیے ہلاکت میں پڑنا آسان ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ہ وقت قریب آجاتاہے جبکہ وہ قبر میں لٹا یا جائے۔غور کرنے کا مقام ہے کہ اس حالت سے کیسے نکلا جائے؟اس کا حل بھی اللہ تعالیٰ خود ہی قرآن حکیم میں پیش کرتا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے:
"تم جو کچھ راہ حق میں خرچ کرو گے وہ تمہارے ہی لیے بھلائی ہے جبکہ تم اپنے اس خرچ میں خدا کے سوا کسی اور کی خوشنودی نہیں چاہتے، اس طرح جو کچھ بھی تم کار خیر میں صرف کرو گے اس کا پورا فائدہ تم کو ملے گا اور تمہارے ساتھ ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا"(البقرہ:)۔
مزید فرمایا:
"اے ایمان والوں! مال اور اولاد کی محبت تم کو خدا کی یاد سے غافل نہ کردے، جو ایسا کرے گا خود وہ ٹوٹے میں رہنے والا ہے"(المنافقون:)۔
مال میں برکت:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
" بندوں پر کوئی صبح بھی نہیں آتی ہے مگر دو فرشتے اترتے ہیں،ایک یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تو اپنی راہ میں مال خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا فرما اور دوسرا یہ دعا کرتا ہے کہ تو بخیل کو بربادی اور نقصان عطا فرما"(متفق علیہ)۔
اس حدیث میں صراحت کے ساتھ یہ بات بیان کر دی گئی ہے کہ انسانوں کے گروہ دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک ہدایتِ ربّانی پر عمل کرنے اور اس کو قائم کرنے والے اور دوسرے وہ جو برائیوں کو فروغ دینے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔ہدایت یافتہ لوگ اپنے مال کو صحیح سمت میں صرف کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے فرشتے دعائیں کرتے ہیں کہ اللہ اس کا انھیں بدل عطا کرے۔یہ برکت کیسے پیدا ہوتی ہے اور اس کا بدل کس طرح انھیں ملتا ہے اس کے تعلق سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ، ان کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک دانہ بو یا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میںسو دانے ہوں۔اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، کئی گنا کر کے عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی"(البقرہ:)۔
یہ ہے اللہ رب کریم کی رحمت و فیاضی کا مظاہرہ ہے جووہ ایک نیک انسان کے تعلق سے اختیار کرتا ہے۔ایسے انسان کی روزی میں برکتیں نازل ہوتی ہیں اور اس کا رزق کشادہ کر دیا جاتا ہے۔ اس کو ان مقامات سے عنایات بہم پہنچائی جاتی ہیں جہاں اس کا وہم و گمان تک نہیں ہوتا۔اللہ رب رحیم فیاض ہے اور وہ فیاضی کو پسند کر تا ہے۔تو جو لوگ اپنے مال و اولاد میں برکت حاصل کرنا چاہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کریں،جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہیں ان کو ادا کریں اورخدمتِ خلق کے کاموں کو خوب انجام دیں۔ایسا کرنے سے ان کے مال میں اضافہ ہوگا اور آخرت کے دن کامیا بی ان کا مقدر ٹھہرے گی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"شیطان تم کو ڈراتا ہے کہ خرچ کروگے تو فقیر ہو جاو گے وہ تمہیں شرمناک چیز یعنی بخیلی کی تعلیم دیتا ہے"(البقرہ:)۔
یہ وساوس شیطانی ہی ہیں جو اس کے دل میں آتے رہتے ہیں اور وہ سوچتا ہے کہ ابھی تو میرے پاس بہت قلیل رقم ہے جس سے میری اپنی ضروریات بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتیں۔جب ہاتھ کھلا ہوگا اور ہماری ضروریات سے زائد بچ رہے گا تو ہم اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے، لوگوں کے کام آئیں گے، غریبوں ،مسکینوں اور محتاجوں کی مدد کریں گے۔ لیکن یہ وسوسہ شیطان کا دل میں ڈالا ہوا ہوتا ہے اور اس وسوسہ کے شکار لوگ کبھی بھی اور کسی بھی حالت میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اب وہ اپنے علاوہ دوسروں پر خرچ کرنے کے لائق ہو چکے ہیں۔ اللہ ربِ رحیم ہماری رہنمائی فرماتا ہے اور بتا تا ہے کہ یہ خیال تمہارے دل میں جو آچکا ہے وہ شیطان کا ڈالا ہوا ہے تم اس سے تب ہی بچ سکتے ہو جبکہ شیطان سے دوری اور اللہ سے قربت قائم کر لو۔ اس کے لیے ایک ذریعہ نماز ہے تو دوسرا روزہ۔ ان کو اختیار کرو تو تمہیں ذلت و رسوائی کی زندگی سے نجات ملے گی۔ پھر تم اس تجارت کو انجام دو گے جس کا ایک فریق اللہ ہوگا اور دوسرے تم خود۔ فائدہ یہ بھی ہوگا کہ تم بخیلی سے بچ جاو گے اورکامیابی سے ہمکنار ہوگے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
"اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو"(البقرہ:)۔
معلوم ہوا کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کے معنی ہلاکت اور بربادی کے ہیں۔پھر کہا :
"اورجو تنگ دلی سے بچ گئے وہی فلاح پانے والے ہیں"(الحشر:)۔
اللہ کی راہ میں اپنے مال کو خرچ کرنا، لوگوں کی مدد کر نا، ان کی ضروریات کی تکمیل کرنا،فلاحِ عام کے کاموں کو فروغ دینا اور اس سب کے لیے اپنی گاڑھی کمائی کو خرچ کرنا اور اس بات کی توقع رکھنا کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کا بدل عطا فرمائے گا۔یہ عمل پسندیدہ ہے اور اللہ تعالیٰ انسانوں کو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس کا بہترین بدلہ دیگا۔لیکن یہ عمل جس قدر اہم اور فائدہ مند ہے اس ہی قدر محتاط رہتے ہوئے انجام دیا جانے والا ہے۔ اگر اس میں کوتاہی برتی گئی تو پھر ہماری محنت ضائع ہو سکتی ہے۔ یہ احتیاط کیا ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میںخرچ کرتے ہیں، پھر اپنے اس انفاق کے پیچھے احسان اور ایذا کی آفت نہیں لگادیتے ان کا صلہ ہے ان کے رب کے پاس ۔نہ ان کے لیے کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے، ہمدردی کا ایک کلمہ اور بخش دینا بہتر ہے اس صدقہ سے جس کے پیچھے دل آزاری ہو اور اللہ بے نیاز ہے اور علیم ہے۔ اے ایمان والو تم اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دل آزاری کرکے باطل نہ کرو، اس شخص کے مانند جو اپنا مال دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا، اس شخص کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان ہوجس پر کچھ مٹی ہو، اور اس پر بارش ہو جائے اور اس کو بہا کر چٹان کو چٹیل چھوڑ دے ایسے لوگوں کو ان کی کمائی سے کچھ بھی پلّے نہ پڑے گا اور اللہ کافروں کو راہ یاب نہیں کرتا "(البقرہ:-)۔
ان آیات ِ ربانی میںاللہ تعالیٰ بہت صاف الفاظ میں اپنے بندوں کو بتا رہا ہے کہ اگر تم لوگوں کو اپنے احسان میں دبانا چاہتے ہو تو جان لو یہ تمہارے لیے خسارہ کا سودا ہوگا۔یہ مال و دولت جو آج تمہارے پاس ہے وہ سب اللہ کا دیاہوا ہے ،تم خود اس کو کہیں سے حاصل کرکے نہیں لائے تھے۔ لہذا اللہ رحمان و رحیم کی صفات کو اختیار کرو، توقع ہے کہ تمہیں اس کے ذریعہ ابدی فلاح حاصل ہو جائے۔
 قرآن مجید میں  اللہ تعالیٰ اپنے راستے میں خرچ کرنے والوں کو خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
اوراللہ تعالیٰ کواچھاقرض دو اورجونیکی تم اپنے لیے آگے بھیجوگے اسے اللہ تعالیٰ کے ہاںبہتر سے بہتر اورثواب میںبہت زیادہ پاوگے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہو یقینا اللہ تعالیٰ بخشنے والامہربان ہے۔(المزمل)
جب یہ آیت نازل ہوئی توحضرت ابولدحداحؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہو اللہ تعالیٰ ہم نے قرض مانگتے ہیں حالانکہ وہ ذات قرض سے بے نیاز ہے۔
آپ نے فرمایا ہاں اللہ ہی قرض مانگتے ہیں تاکہ اس کے بدلے میں وہ تمہیں جنت میں داخل کر دے ۔انھوں نے عرض کی تومیں اپنے پروردگار کو قرض دیتا ہوں، کیا وہ مجھے اور میری بچی دحداحہ کوجنت میں داخل کرے گا؟آپ نے فرمایا: ہاں تو انھوں نے کہا لائیے اپنا دست مبارک بڑھائیے توآپﷺ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا تو اسے پکڑ کر کہنے لگے دوباغ میری ملکیت میں ہیں ۔ایک مدینے کے زیریں علاقہ میں ہے اوردوسرا بالائی حصہ میں ہے ۔ان دوباغوں کے علاوہ اللہ کی قسم اور کوئی چیز میرے پاس نہیں۔ میں یہ دونوں باغ اللہ کو قرض دیتاہوں، توآپ ﷺ نے فرمایا ان میں سے ایک اللہ کی راہ میں دے دو اوردوسرااپنی اور اپنے اہل وعیال کی گذراوقات کے لئے رکھ لو ۔اس پر ابوالداحدحؓنے کہا پھر اے اللہ کے رسول ان میں سے جو بہتر ہے وہ اللہ کی راہ میں دیتاہوں۔ آپ گواہ رہیں اس باغ میں چھ سوکھجور کے درخت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس انفاق کے بدلے میں اللہ تعالیٰ آپ کو جنت میں داخل کرے گا۔حضرت ابولدحداحؓ یہ کہہ کر چل دیئے اور باغ میں پہنچے جہاں ام لداحداح اپنے بچوں کے ہمراہ کھجوروں کے درختوںمیں پھررہی تھیں ۔انھیں دیکھ کر آپ نے یہ کہا:میںیہ باغ اللہ کو بطور قرض خوش دلی سے دے دیاہے۔ یہ سنتے ہی آپ کی بیوی نے اپنے شوہر کی تحسین فرماتے ہوئے بچوں کو لے کر باغ سے نکل گئی اوربچوں کے دامن وجیب میں جو کھجوریں تھیں اور جو ان کے منہ میں تھی سب نکلوا کر وہیں ڈھیر کر دیں۔
قرآن مجید کی ان ہی آیات کے پیش نظر نبی آ کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کرامؓ کو فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی ترغیب دلائی تو حضرت ابوعقیل انصاریؓ نے ایک عجیب وغریب مثال قائم فرمائی خود اپنی زبانی وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم پاتے ہی میں تڑپ اٹھا اور اس وقت میرے پاس کچھ نہ تھا کہ خرچ کروں آخرکام کی تلاش میںنکل پڑاتو اللہ تعالیٰ نے میری تمناپوری فرمادی مجھے ایک جگہ مزدوری مل گئی ایک یہودی کاکھیت سیراب کرنے کا کام دوصاع کھجور کے بدلے تومیں نے ساری رات اپنی پیٹھ پرپانی لاد کر سینچائی کرتارہا صبح تک پوراکام کیا، صبح ہوئی تواس یہودی نے دوصاع کھجوریں مزدوری میں دیں تو ایک صاع نکال کر اپنے گھر والوں کے لئے لے گیا اوردوسراصاع اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے درباررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میںحاضر کر دیا (الطبرانی)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دولت دنیا کی حقیقت سمجھ کر اپنی راہ میں خوب خرچ کرنے اور اپنے لیے ذخیرہ آخرت بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین ثم آمین)