بھاری اعمال ناموں والے
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ577)

اللہ تعالیٰ نے ’’موت ‘‘ کو بھی پیدا فرمایا… اور زندگی کو بھی… موت نہ ہوتی تو زندگی عذاب بن جاتی… اور زندگی نہ ہوتی تو موت بے مقصد رہ جاتی…زندگی بھی ضروری، موت بھی ضروری … زندگی بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور موت بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق… بس خوش نصیب ہے وہ… جس کا جینا بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور مرنا بھی اللہ تعالیٰ کے لئے…

اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

ایک کی خوشی سب کا غم

جب کوئی ’’ اللہ والا‘‘ مومن دنیا سے اُٹھتا ہے … تو ہر طرف غم پھیل جاتا ہے… آسمان بھی روتا ہے اور زمین بھی… اور ایمان والے کمی، غم اور صدمہ محسوس کرتے ہیں… مگر وہ ’’اللہ والا‘‘ بہت خوش ہوتا ہے …وہ جس کا تھا اُس کے پاس چلا گیا…وہ تکلیف سے راحت کی طرف منتقل ہو گیا … وہ فراق سے نکل وصال کی دنیا میں پہنچ گیا … وہ ’’کرنے ‘‘ کی مشقت سے نکل کر ’’ پانے ‘‘ کے مقام پر جا اُترا… وہ دکھوں اور غموں کی وادی سے نکل کر…آرام اور اکرام کے باغات میں جا پہنچا… موت آئی اور اسے اپنے نرم سینے سے لگا کر… اس کے محبوب کے پاس چھوڑ آئی… وہ خوش خوش چلا گیا… پیچھے والے روتے ، تڑپتے رہ گئے… یہی ’’ماضی ‘‘ میں ہوتا رہا ، یہی ’’ حال‘‘ میں ہو رہا ہے… اور یہی ’’  مستقبل ‘‘ میں ہوتا رہے گا…

کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ

دو دن میں دو صدمے

اُمت مسلمہ کو دو دن میں دو بڑے صدمے پہنچے… پہلے خبر آئی کہ سلطان العلماء حضرت اقدس مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحلت فرما گئے … ابھی غمزدہ مسلمان اُن کی مرقد سے اُٹھے ہی تھے کہ خبر آ گئی… سلطان العارفین حضرت اقدس مولانا عبد الحفیظ مکی صاحب وصال فرما گئے…

انا للہ وانا الیہ راجعون… انا للہ وانا الیہ راجعون

اللہ تعالیٰ ان دونوں حضرات کو مغفرت کا بلند مقام … اور امت مسلمہ کی طرف سے بہترین بدلہ عطاء فرمائے…

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہُمْ وَارْحَمْھُمْ… اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنَا اَجْرَھُمْ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَھُمْ

کیا کرنا چاہئے

جب ایسے بھاری اعمال ناموں والے بابرکت اکابر کے انتقال کی خبر آئے تو کیا کرنا چاہیے؟

(۱) فوراً اُن کے لئے دعاء مغفرت، ایصال ثواب ، جس قدر زیادہ ہو سکے…

(۲) اگر کسی بھی طرح نماز جنازہ میں شرکت کا موقع ہو تو اس میں ہرگز کوتاہی نہ کی جائے… سفر، خرچے اور تکلیف کو نہ دیکھا جائے… ان بزرگوں کے جنازے، مغفرت اور خیر کے دروازے ہوتے ہیں… وہاں جانے والوں کو … بہت کچھ عطاء فرمایا جاتا ہے… کیونکہ جو بھی جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نام اور دین کی نسبت سے جاتا ہے… اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے انعام یا انعامات سے نوازہ جاتا ہے…

(۳)زندگی میں کبھی ان بزرگوں کو کوئی تکلیف پہنچائی ہو یا ان کی حق تلفی یا ناقدری کی ہو تو … وفات کی خبر ملتے ہی استغفار کریں… اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور ان بزرگوں کے لئے ایصال ثواب کریں…

(۴) اگر زندگی میں ان وفات پانے والے بزرگ کی طرف سے … آپ کو کوئی تکلیف ، ایذاء یا پریشانی پہنچی ہو …اور اس کا اثر دل میں باقی ہو تو … وفات کی خبر ملتے ہی فوراً ان کو معاف کر دیں … بزرگ وہ نہیں ہوتا جس سے غلطی نہ ہوتی ہو …اللہ والا وہ نہیں ہوتا جس نے کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو… ولی اور مقرب وہ نہیں ہوتا جس کی ہر عادت ہر کسی کو پسند ہو… اولیاء اور مقربین سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں، گناہ بھی ہوتے ہیں… ان کی کئی عادات کئی افراد کے لئے ناپسندیدہ بھی ہوتی ہیں … مگر پھر بھی وہ اپنے اخلاص ، اپنی توبہ اور اپنے مقبول عمل کی وجہ سے… اللہ تعالیٰ کے مقرب ہوتے ہیں… ان کی خیر ان کے شر پر غالب ہوتی ہے… ہم اگر ان کی چند عادتوں یا باتوں کو چھوڑ کر ان کے دینی کام، دینی خدمات اور خیروں پر نظر ڈالیں تو… دور دور تک ان کا فیض پھیلا نظر آتا ہے… ابھی دو دن پہلے میں… حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے بارے میں سوچ رہا تھا… ان کے دینی کارنامے اور ان کی اعلیٰ صفات تو اپنی جگہ… ہم اگر ان کے صرف دو چار شاگردوں کو ہی دیکھ لیں تو… عقل ان کی خوش قسمتی پر حیران رہ جاتی ہے… حضرت مفتی ولی حسن ، حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب، حضرت مولانا سرفراز خان صفدر… رحمہم اللہ … یہ سب حضرت مدنیؒ کے شاگرد اور ان کی علمی نسبت کو عالم بھر میں پھیلانے والے تھے… یہ صرف تین نام عرض کئے… اگر تفصیل میں جائیں تو سینکڑوں نام مل جائیں گے… مگر آپ صرف ان تین حضرات کے شاگردوں کو شمار کریں، ان کی علمی اور دینی خدمت کو دیکھیں … اور پھر یہ سب کچھ حضرت مدنیؒ کے پلڑے میں ڈالیں تو… کتنا بھاری اعمال نامہ سامنے آتا ہے… اس لئے سطحی باتوں کو چھوڑ کر ان اکابر حضرات کی ہمیشہ قدر کرنی چاہیے ان کی زندگی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی…

(۵) جب کسی اللہ والے کی وفات کی خبر سنیں تو اوپر والے چار حقوق ادا کرنے کے بعد… فوری طور پراس اللہ والے سے فیض حاصل کرنے کی کوشش کریں… مثلاً ان کے حالات زندگی پڑھیں… ان کے بیانات سنیں… ان کی تحریریں اور کتابیں پڑھیں… دراصل وفات کے وقت اور ابتدائی دنوں میں… دل اور روحانی لہروں کا ایک جوڑ ہوتا ہے اور دل میں نرمی ہوتی ہے تو بات زیادہ اثر کرتی ہے…

(۶) اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالی وسعت دی ہے تو… وفات پانے والے بزرگ کے اہل خانہ اور پسماندگان کی خبر لیں… اگر ان کو ضرورتمند پائیں تو اخلاص اور خاموشی سے ان کی خدمت کریں… یہ عمل آپ کو بہت سی برکات اور سعادتوں سے ہمکنار کر دے گا… ان شاء اللہ

(۷) کسی بھی بزرگ اور ولی کی وفات کے بعد… فتنوں سے حفاظت کی دعاء کا اہتمام بڑھا دیں… خصوصاً اس وقت جبکہ آپ کا ان بزرگ سے براہ راست تعلق رہا ہو… بزرگوں کے جانے کے بعد… زور دار فتنے حملہ آور ہوتے ہیں…

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ

(۸) کسی بزرگ کی وفات کے وقت ان کی تعزیت کرتے ہوئے یا ان کی صفات بیان کرتے ہوئے یا ان پر کوئی مضمون لکھتے ہوئے… دیگر بزرگوں پر تنقید اور طعنہ زنی نہ کریں… کم از کم موت کے ان لمحات میں… منفی ذہنیت کا شکار نہ ہوں…اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کی عزت کریں… تحقیر ، تذلیل اور طعنہ زنی کی عادت سے توبہ کریں…

(۹) ان بزرگوں کے پسماندگان  اور اہل خانہ سے مسنون تعزیت کریں…

(۱۰) جو اللہ والے، بزرگ، اکابر ، اولیاء زندہ ہیں… ان کی قدر کرنے کی نیت کر لیں… یہ دس باتیں فوری طور پر ذہن میں آئیں تو عرض کر دیں…ورنہ اس بارے میں حقوق اور بھی ہیں اگر دل میں سچی محبت ہو تو…بہت سے راستے خود سامنے آ جاتے ہیں…

حسینوں کے خطوط

رات ارادہ تھا کہ… آج کی مکمل مجلس ’’رنگ ونور‘‘ حضرت اقدس مولانا سلیم اللہ خان صاحب نور اللہ مرقدہ کے بارے میں ہو گی… رات مغرب کے بعد ماہنامہ المرابطون میں ایک مختصر سا مضمون اسی موضوع پر لکھا… اور آج مفصل رنگ و نور کا ارادہ تھا… مگر رات ساڑھے دس بجے کے قریب …حضرت اقدس مولانا عبد الحفیظ مکی صاحب کے سانحہ ارتحال کی خبر بھی آگئی … تب دل مزید غمگین اور ذہن منتشر ہو گیا… دعاء مغفرت اور ایصال ثواب کی الحمد للہ توفیق ملی مگر… غم اور یادوں کے طوفان نے مضمون بکھیر دیا… ویسے بھی مجھ جیسے بے علم اور بے معرفت انسان کے لکھنے سے کیا بنتا ہے؟… حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب اس زمانے کے ’’سلطان العلماء ‘‘ تھے… مسند تدریس و علم کے امام… اور میرے استاذوں کے استاذ… ان کی بلند پایہ علمی، روحانی اور انتظامی شخصیت پر اہل علم ہی بہتر لکھ سکتے ہیں… اور امید ہے کہ ان شاء اللہ لکھیں گے… ان کے کئی نامور اور فیض رساں شاگرد تو ان کی زندگی میں ہی انتقال فرما گئے… حضرت مفتی احمد الرحمن صاحب، حضرت مولانا حبیب اللہ مختار شہید،حضرت مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ… رحمہم اللہ …وغیرہم…

مگر ہزاروں کی تعداد میں آپ کے تلامذہ حیات اور برسرعمل بھی ہیں… بندہ کو حضرت اقدس مولانا سلیم اللہ خان صاحب نور اللہ مرقدہ سے… صرف چند ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا … اور حضرت کا ایک یادگار خط بھی میرے پاس محفوظ ہے… دوسری طرف حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی صاحب نور اللہ مرقدہ سے بھی دیرینہ تعلق رہا ہے… وہ قابل رشک اخلاق، وسعت قلبی اور حسن توفیق کے ’’مرقع ‘‘ تھے… ان کے بارے میں اصحاب معرفت زیادہ بہتر لکھیں گے ان شاء اللہ…

میرے پاس تو بس کچھ یادیں ہیں… اور کچھ خطوط…

لا الہ الااللّٰہ،لا الہ الااللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ


٭…٭…٭