مرامرناجینا
مدینہ مدینہ
اللہ تعالیٰ کا شکر ’’ دینِ اسلام ‘‘ پر
الحمد للہ رب العالمین
’’مدینہ مدینہ‘‘ پڑھنے والے… حضرات و خواتین سے یہ پوچھنا ہے کہ
کیا آپ کو میراث کے بنیادی اَحکامات معلوم ہیں؟
جب کوئی مسلمان وفات پاجاتا ہے تو اُس کے مال کو کس طرح تقسیم کیا جائے گا؟
مرنا بھی سب نے ہے… اور جو بھی مرتا ہے کچھ نہ کچھ مال تو چھوڑ جاتا ہے
اِس مال کی تقسیم … اللہ تعالیٰ نے خود فرمائی ہے… جی ہاں اتنا اِہتمام کہ کئی رشتے داروں کے تو حصے تک خود مقرر فرما دئیے… باقی باتیں حضرت آقا مدنی ﷺ نے سمجھا دیں
مال کی یہ تقسیم ’’فرض ‘‘ ہے… ’’فریضۃ من اللہ‘‘ … یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر فرمودہ ’’حدود‘‘ میں سے ہے… پس جو اس تقسیم کو شریعت کے مطابق جاری نہیں کرتا وہ… بڑا ظلم کرتا ہے… وہ کافروں والا کام کرتا ہے… وہ اللہ تعالیٰ کے فریضے کو توڑتا ہے… وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کی خلاف ورزی کرتا ہے…اور وہ دوسروں کے مال پر قبضہ کر کے… آگ اور اَنگارے کھاتا ہے
آج جو ہمارے معاشرے میں… ظلم، گناہ، حرام خوری اور مصیبتیں عام ہیں، اُن کی ایک بڑی وجہ… میراث کے معاملے میں … غفلت ہے… اللہ تعالیٰ نے ہمیں ”اسلام“ کی نعمت عطاء فرمائی… مگر واپس ”جہالت“ کی طرف دوڑ رہے ہیں… اکثر مسلمانوں کو میراث کے بنیادی احکامات تک معلوم نہیں… کئی جگہوں پر عورتوں اور بچوں کو میراث میں سے حصہ نہیں دیا جاتا
ایک بات ہر مسلمان یاد کر لے کہ:
جو حصہ کسی کا… اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے… وہ بس اُسی کا ہے… اب جو بھی اس حصے پر قبضہ کرے گا وہ ’’غاصب‘‘ ہو گا… چور اور ڈاکو ہو گا… اور یہ حصہ کبھی بھی اس کے لئے حلال نہیں ہو گا… بلکہ یہ اُس کے لئے… دنیا اور آخرت کا وَبال بنے گا
اس لئے لازم ہے کہ… ہم میراث کے بنیادی اَحکامات سیکھیں … ان کو مسلمانوں میں عام کریں… اور ان پر مضبوطی کے ساتھ عمل کریں
ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ… بعض لوگ تمام عمر اللہ تعالیٰ کی اِطاعت میں مشغول رہتے ہیں لیکن موت کے وقت میراث میں وارثوں کو  نقصان پہنچاتے ہیں ایسے افراد کو اَللہ تعالیٰ سیدھا جہنم میں پہنچا دیتے ہیں ( مشکوٰۃ )
حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تم فرائض ( یعنی میراث کا علم) سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ کہ وہ نصف علم ہے بلاشبہ اسے بھلا دیا جائے گا اور میری اُمت سے یہی علم سب سے پہلے اٹھایا جائے گا ( ابن ماجہ)
آہ افسوس… آج کسی جگہ ایک ہزار مسلمانوں کو جمع کریں… اور ان سے میراث کے بنیادی اَحکامات پوچھیں تو اِمکان یہی ہے کہ… کسی ایک کو بھی معلوم نہیں ہوں گے… ویسے باتیں بہت… ہر موضوع پر تبصرے بہت مگر… جس مسئلے پر قرآن مجید نے ایک ایک جزئی کھول کر بیان فرمائی… بار بار تاکید فرمائی… اس مسئلے کا ہزار میں سے ایک مسلمان کو بھی علم نہیں ہے… حالانکہ سب نے مرنا ہے… ہر کوئی کسی نہ کسی کا وارث بنتا ہے… مال کا معاملہ بہت اِحتیاط والا ہے… مگر پھر بھی یہ غفلت
انا للہ وانا الیہ راجعون
دیکھیں حضرت آقا مدنی ﷺ کیا ارشاد فرما رہے ہیں… فرمایا :
’’ تم علم فرائض ( یعنی میراث کا علم ) سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھاؤ کیونکہ میں دنیا سے جانے والا ہوں اور بلاشبہ عنقریب علم اٹھا لیا جائے گا۔ اور بہت سے فتنے ظاہر ہوں گے۔ یہاں تک کہ دو آدمی میراث کے حصے کے بارے میں جھگڑا کریں گے ( یعنی ان میں اختلاف ہو گا) اور انہیں ایسا کوئی شخص نہیں ملے گا جو ان کے درمیان اس کا فیصلہ کرے ۔‘‘ ( المستدرک )
میراث کا علم کوئی مشکل علم نہیں ہے… ٹھیک ہے اگر آپ ا س کی تفصیلات اور جزئیات نہیں سیکھ سکتے تو وہ ’’علماء کرام ‘‘ سے پوچھ لیں… مگر بنیادی باتیں تو آپ ایک دن میں سیکھ سکتے ہیں … یاد کر سکتے ہیں…مثلاً … جو آدمی وفات پا جاتا ہے … اس کے مال کو فوراً ہر طرح کے خرچے سے روک دیا جائے… کیونکہ اب اس مال کے مالک اس کے وُرثاء بن چکے ہیں… دوسری بات یہ کہ… وفات پانے والے شخص کی ملکیت میں جو کچھ بھی ہو گا… وہ سب ’’شرعی قانون‘‘ کے مطابق تقسیم ہو گا… حتی کہ اس کی جیب میں جو چھوٹی موٹی چیزیں ہوں وہ بھی… تقسیم سے پہلے کوئی نہیں لے سکتا… حتی کہ ایک الائچی کا دانہ بھی… اسی طرح کسی کو یہ حق نہیں کہ اس مال میں سے… مہمانوں کے لئے چاول پکائے یا غریبوں میں بانٹے
خلاصہ یہ کہ… اللہ تعالیٰ کا حکم مانتے ہوئے… اس سارے مال کو جمع کیا جائے… اب اس میں پہلا حق … میت کے کفن دفن کا ہے… درمیانی درجے کا کفن دفن… اس کا انتظام میت کے مال سے کیا جا سکتا ہے… کوئی اور اگر اپنی خوشی سے دے تو اچھی بات ہے کوئی حرج نہیں… جبکہ بیوی کا کفن دفن خاوند کے ذمہ ہے… کفن دفن کے بعد… اب قرضوں کو دیکھا جائے گا… وفات پانے والے نے اگر اپنی بیوی کا حق مہر ادا نہیں کیا… یا اس پر کوئی اور قرضہ ہے تو وہ اس مال سے ادا کیا جائے گا… اگر کفن دفن کے بعد اتنا مال نہ بچا کہ… قرضے ادا ہوں تو اب… ورثاء کے ذمہ نہیں ہے کہ وہ قرضہ ادا کریں… قرض خواہوں کو اختیار ہے کہ وہ… یا تو قرضہ معاف کر کے… آخرت کا بڑا اجر کمائیں… یا پھر… معاف نہ کریں اور معاملہ قیامت پر چھوڑ دیں… قیامت کے دن اس قرضے کا حساب ہو گا… نیکیوں اور گناہوں کے تبادلے سے… یااللہ آپ کی پناہ… قرضہ ادا کرنے کے بعد اب دیکھا جائے گا کہ میت نے کوئی وصیت کی ہے یا نہیں؟… اگر وصیت کی ہو… اور جن کے لئے وصیت کی ہے وہ شرعی وارث نہ بنتے ہوں تو… مال کے تہائی حصے سے وصیت پوری کی جائے گی… اسی طرح اگر اس نے اپنے شرعی حقوق کی وصیت کی ہو… مثلاً حج فرض ادا نہیں کیا وہ کرادیا جائے… کئی سال زکوٰۃ نہیں دی… وہ ادا کردی جائے… فرض روزے نہیں رکھے اُن کا فدیہ دیا جائے تو یہ سب وصیتیں… مال کے تیسرے حصے سے پوری کی جائیں گی… یعنی سب سے پہلے تین کام تین خرچے:
(۱کفن دفن
(۲قرضے
(۳وصیت
اب ان تین کاموں کے بعد جو مال بچے گا وہ ”ورثاء“ میں تقسیم ہوگا… ورثاء مرد ہوں یا عورتیں… بچے ہوں یا بوڑھے… پیدا ہوچکے ہوں یا حمل میں ہوں… فرمانبردار ہوں یا نافرمان…بس شرط یہ کہ مسلمان ہوں… ماں، باپ، بیٹا، بیٹی… خاوند، بیوی…وغیرہ… پھر بعض رشتہ داروں کو تو ہر حال میں حصہ ملتا ہے… جبکہ دوسرے بعض کو… بعض صورتوں میں ملتا ہے اور بعض میں نہیں… مثلاً دادا… اگر میت کے والد زندہ ہوں تو دادا کو کچھ نہیں ملتا… لیکن اگر والد زندہ نہ ہوں تو دادا کو حصہ ملتا ہے… یہی حال بہن بھائیوں وغیرہ کا ہے کہ… اُن کو بعض صورتوں میں حصہ ملتا ہے اور بعض میں نہیں… مگر والدین اور اولاد اور خاوند یا بیوی کو ہر حال میں ضرور ملتا ہے… یہ تمام مسائل بہت آسان ہیں… اور اُن کو سیکھے بغیر ہم… پورے قرآن مجید کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔
چونکہ ”علم میراث“ نہ سیکھنے اور اسے فراموش کرنے پر وعیدیں بھی آئی ہیں تو اس لیے… اہل علم نے ہر زمانے میں اس علم پر خاص محنت کی ہے… اور زمانے کے حالات کو سامنے رکھ کر… آسان سے آسان الفاظ میں یہ علم سکھانے کی ترتیب بنائی ہے… الحمدللہ مسلمانوں کو ملنے والے… قانونِ وراثت نے… دنیا کے معاشی نظام کو بدل کر رکھ دیا تھا… دنیا میں اِرتکازی نظامِ معیشت چل رہا تھا… زیادہ سے زیادہ مال… بس چند اَفراد میں گھومتا رہے… اور ہر آئے دن اُن کے سرمائے میں ہوشربا اضافہ ہوتا چلا جائے… اسی غلط اور ظالمانہ نظام کو… بچانے کے لیے ہر باطل مذہب نے ”قانون وراثت“ بھی اسی کے مطابق بنا رکھے تھے … یہودیوں کے ہاں ساری وراثت کا وارث ”بڑا بیٹا“ ہوتا تھا… تاکہ دولت ایک جگہ ٹکی رہے… ہندوئوں نے تو ظلم کی انتہا کردی کہ عورتوں کو بالکل وراثت سے محروم کردیا… عربوں کے زمانہ جاہلیت میں… وراثت کے اپنے قانون تھے…جس کے تحت مال کے وارث صرف وہ مرد بنتے تھے جو لڑ سکیں اور دفاع کرسکیں… عورتیں بھی محروم بچے بھی محروم… وراثت کے بارے میں یہ سارے غلط قانون … معاشرے میں خون کی طرح رچ بس چکے تھے… جب اسلام آیا تو اس نے ”مدینہ مدینہ“ میں اپنا معاشی نظام پیش فرمایا… اِرتکاز نہیں… تقسیم دولت کا نظام… ہر فرد خوشحال اور مالک… اور ریاست بھی خوشحال اور مستحکم… مال ہے تو ضرور اس کا کوئی مالک بھی ہو… اور مال چونکہ ضرورت ہے تو یہ… مسلسل چلتا رہے، گھومتا رہے… اس طرح یہ پاک رہے گا اور زیادہ سے زیادہ افراد کو سیراب کرے گا… رسومات بہت گہری تھیں تو ”مدینہ مدینہ“ میں… تدریج اور ترتیب کے ساتھ ان رسومات کو توڑا گیا… دِلوں کو پاک کیا گیا… اور آخر میں… وراثت کا اٹل قانون نافذ فرمادیا گیا… تب ساری دنیا کی آنکھیں کھلیں
مسلمان تو خیر… اس قانون کے مکمل پابند اور شیدائی تھے ہی… غیر مسلموں نے بھی اس قانون کے بہت سے حصے لئے اور اپنے علاقوں اور ملکوں میں نافذ کئے… ماضی کے زمانے گزر چکے… ماضی میں اچھا کرنے والے اپنے ساتھ اچھائی کے ذخیرے لے گئے… اور بُرا کرنے والے اپنے سر وَبال کے بورے لاد گئے… اب ہمارا زمانہ ہے… اور ہم سے… صرف ہمارے اعمال کی پوچھ ہوگی… الحمدللہ قرآن مجید ہمارے پاس محفوظ ہے… حدیث شریف محفوظ ہے… قانونِ وراثت محفوظ ہے… اس قانون کو یاد کرنا، سیکھنا اور آگے سکھانا اب ہماری ذمہ داری ہے… اور اس قانون کو نافذ کرنا ہم پر فرض ہے… جہاد کی برکت سے… اسلام اب تیزی سے پھیل رہا ہے… آج ہی نیت کریں…اور ترتیب بنائیں کہ ہم اس… قانون کو سیکھیں گے… پورا مکمل یا صرف ضروری ضروری… اور ہم اپنے مال میں…اسے مکمل تاکید اور اہتمام سے نافذ کریں گے… ان شاء اللہ
ہمیں وہ ملا ہے ، ہمیں وہ ملے گا
وہی جو دِلا دے مدینہ مدینہ
مسلماں اگر ہے ، تو دنیا سے کہہ دے
میرا مرنا جینا مدینہ مدینہ
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہم صل وسلم وبارک علی سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭…٭…٭