یاددہانی
نقش جمال …شمارہ6)68(
چند باتیں ترتیب وار ذکر کی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے نفع عطاء فرمائے۔
(۱)ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمیشہ ہی اچھا گمان رکھنا چاہیے اور ہر قسم کی بدگمانی سے بچنا چاہیے، ورنہ یہ بدگمانی ایمان کو دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ بدگمانی کی ایک شکل یہ ہوتی ہے کہ کسی کے دل میں یہ بات جم جائے یا ذہن میں بیٹھ جائے کہ باطل غالب رہے گا، کافر دنیا پر حکمران رہیں گے، انہی کا سکہ چلتا رہے گا، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے، ایسے جو بھی حالات آتے ہیں تو یہ محض آزمائش اور امتحان کی ہی ایک شکل ہوتی ہے اور اچھے اور بُرے کی تمییز کرنا اس کا مقصد ہوتا ہے۔
قرآن کریم نے صاف بتادیا ہے:
’’جو لوگ کافر ہیں اپنا مال خرچ کرتے ہیں تاکہ (لوگوں کو)اللہ کے راستے سے روکیں۔ سو ابھی اور خرچ کریں گے مگر آخر وہ (خرچ کرنا)ان کے لیے (باعثِ) افسوس ہوگا اور وہ مغلوب ہوجائیں گے اور کافر لوگ دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے ۔‘‘ (سورۃ الانفال:۳۶)
اسی طرح بدگمانی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مومن مایوس ہوجائے اور یہ گمان کرلے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی مدد نہیں کررہے ہیں اور نہ ہی اپنے دوستوں کی مددکررہے ہیں، قرآن کریم نے واضح کیا ہے کہ ایسا گمان منافقین میں سرایت کیے ہوتا ہے:
’’اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو جنہیں اپنی جانوں کی فکر پڑی ہوئی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں حق کے علاوہ جاہلیت والا گمان باندھ چکے تھے۔‘‘(سورۃ آل عمران )
(۲)اہل باطل اور اہل کفر ہمیشہ آپس میں جنگوں میں الجھے رہتے ہیں، مگر جب معاملہ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کاہو، تو یہ سب یکجا ہوجاتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنا سب سے بڑ ادشمن مسلمانوں کو سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ آج عالم کفر کی عالم اسلام پر جگہ جگہ ہوتی یلغار سے یہ حقیقت عیاں ہے۔
قرآن کریم ان کی باہمی عداوت کو بیان کرتے ہوئے بتلاتاہے:
’’ان کی آپس کی لڑائیں بہت سخت ہیں، تم انہیں یکجا سمجھتے ہو، حالانکہ ان کے دل بکھرے ہوئے ہیں۔‘‘(سورۃ الحشر)
اسی لیے قرآن کریم نے مسلمانوں کو بھی یہ تاکید کی ہے کہ جب وہ یکجا ہو کر تمہارے خلاف لڑنے پر آمادہ ہیں تو تمہیں بھی ان کے مقابلے میں یکجا ہوجانا چاہیے:
’’اور تم سب مشرکین سے اُسی طرح قتال کرو، جس طرح وہ سب تم سے قتال کرتے ہیں۔‘‘(سورۃ التوبہ:۳۶)
روس کی جنگ کس لیے تھی؟
مجوسیوں کی جنگ کس لیے ہے؟
امریکہ کی دہشت گردی کس لیے ہے؟
صلیبیوں کی یلغار کا مقصد کیا ہے؟
کیا ان سب کا ایک ہی مقصد نہیں ہے؟ یعنی مسلمانوں کی قوت کا پاش پاش کرنا اور انہیں کمزور سے کمزور تر بنانا؟؟
کتنے اَفسوس کی بات ہے کہ عالَم کفر تو مسلمانوں سے لڑنے کے لیے یکجا ہے، مگر مسلمان ان کے مقابلے کے لیے یکجا نہیں ہیں۔
(۳)کیا ہمارے لیے اللہ کے پاک نبیﷺ کی پُر مشقت اور پُرآزمائش جہادی زندگی بہترین مثال نہیں ہے؟
کیا نبی کریمﷺ نے دنیاوی عیش و آسائش کی خاطر جہاد کو ترک کیا ؟ بلکہ غزوہ احزاب کے موقع پر آپ کی زبانِ حق ترجمان پر اگرکوئی بات تھی تو وہ آخرت کی یاد تھی اور آپ فرما رہے تھے:
اللھم ان العیش عیش الآخرۃ
فاغفر الانصار والمہاجرۃ
اے اللہ! اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، پس آپ انصار اور مہاجرین کو بخش دیجیے۔
یہ کس لیے تھا؟ یہی یاددہانی کیلئے کہ کبھی بھی دنیاوی عیش کو ترجیح دے کر جہاد سے روگردانی نہ کرنااور کبھی بھی دنیاوی عیش کو آخرت کی زندگی پر مقدم نہ کرنا۔ مگر ہم کیا کر رہے ہیں؟
اور اُدھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھئے ، وہ بھی اس موقع پر کسی مصلحت پسندی اور کافروں کے سامنے جھکاؤ کی پالیسی کا ذہن رکھنے کے بجائے عین اس وقت جبکہ کافروں مارنے پر تلے ہیں اور جری ہو کرکہہ رہے تھے:
نحن الذین بایعوا محمدا
علی الجہاد بقینا ابدا
ہم نے تو محمدﷺ سے بیعت کی ہے کہ جب تک باقی رہیں گے، جہاد کرتے رہیں گے۔
(۴)نبی کریمﷺ کا زمانہ دیکھئے کہ آپ کی زندگی میں ایک پورا سال بھی ایسا نہیں ملتا کہ کسی دشمن کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو، مگر کیا کبھی کم ہمتی دکھائی گئی؟
کیا ہمت تھی اُن کہ ہر کچھ عرصہ بعد کسی نہ کسی دشمن کا سامناہے، ہر کچھ عرصہ بعد کوئی نہ کوئی لشکر حملہ آور ہوتا نظر آتا ہے، مگر وہ نہ ڈرے، نہ گھبرائے، نہ سست ہوئے، نہ بدگمان ہوئے، نہ ہی انہوں نے نام نہاد امن امن کی رَٹ لگائی، بلکہ جب بھی کوئی کفریہ لشکر اُن کی طرف بڑھا تو انہوں نے ایمان افروز ان خیالات کا اظہار کیا:
’’اور جب ایمان والوں نے لشکر دیکھے تو کہنے لگے: یہ تو وہی کچھ ہے جس کا ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ کیا ہے، اور اللہ اور اس کے رسول سچے ہیں، اور ان لشکروں سے ان کے ایمان اور تسلیم میں مزید اضافہ ہوگیا۔‘‘ (سورۃ الاحزاب:۲۲)
غزوہ احزاب کو ہی دیکھئے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام اسباب و وسائل کو منقطع دیکھ کر نبی کریمﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ! اب تو دل منہ تک آ رہے ہیں، ہم کیاکہیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا:یہ کہو:
اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَ آمِنْ رَوْعَاتِنَا
اے ہمارے اللہ! ہمارے پردے کی چیزوں کو پردے میں رَکھ اور ہمارے خوف کو دور کرکے امن عطاء کر۔
خلاصہ یہ کہ مشکل کے وقت ہمت سے کام لیجیے، شرعی اسباب پر بھرپور توجہ دی جائے، معطل اور بے کار ہونے کے بجائے شرعی ذمہ داریوں کو نبھانے کی فکر کی جائے اور یہ عقیدہ رکھا جائے:
’’جو بھی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اللہ کی اجازت سے ہوتی ہے اور جو بھی اللہ پر ایمان رکھے گا، تو وہ اس کے دل کو ہدایت کی راہ دکھا دے گااور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔ (سورۃ التغابن:۱۱)
٭…٭…٭