سانحہ ٔ نیوزی لینڈ کا ایک اہم سبق
کلمۂ حق…مولانا محمد منصور احمد (686)
وقت نے ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا کہ آسمان نیچے آسکتا ہے اور زمین اوپر جا سکتی ہے لیکن رب کے قرآن کا ارشاد غلط نہیں ہو سکتا ۔
سانحہ نیوزی لینڈ کئی اعتبار سے دورِ حاضر میں مذہبی تعصب،سفاکیت اور درندگی کا سب سے بڑا واقعہ ہے ۔ اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے بلاشبہ وہ بہت کم ہے لیکن یہاں اہم ترین سوال اب ہمارے سامنے یہ ہے کہ کیا صرف مذمت کے دو بول کہہ دینے سے،غیر مسلموں کی طرح ایک منٹ کی خاموشی اختیار کر لینے سے یا قومی پرچم سرنگوں کر دینے سے ایسے واقعات کا سد باب ہو جائے گا یا صلیبی جنونی دہشت گرد اپنی کاروائیوں سے باز آجائیں گے ۔
اس سوال کا جواب یقینا نفی میں ہے،اگر مسلمانوں نے موجودہ حالات کی طرح اپنے ملکوں اور گھروں کو شیروں کی کچھار بنانے کے بجائے،فارمی مرغیوں کے ڈربے بنائے رکھا تو سب باری باری ذبح ہوتے رہیں گے لیکن سوائے چند بے حیثیت آوازیں بلند ہونے کے اور کچھ بھی نہیں ہو گا ۔ کیونکہ:ـ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب واردات صرف ایک نوجوان کی شدت پسندی اور انتہائی پسندی ہے تو یقینا وہ بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہے ۔ آپ اُن چند بیانات اور پھولوں سے دھوکہ نہ کھائیں جنہیں میڈیا بہت نمایاں کر کے پیش کر رہا ہے ، آپ ذرا ان اقدمات کی تپش کو محسوس کریں جو پے درپے یورپی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عمل میں لائے جا رہے ہیں ۔ آپ کا میڈیا ان کے صرف وہ افراد دکھاتا ہے جو آپ کو میٹھی چھری سے ذبح کرنے کا فن جانتے ہیں لیکن وہ زہریلی زبان اور سوچ رکھنے والے سیاستدان یورپ میں تعداد اور طاقت کے اعتبار سے کہیں آگے ہیں ‘ جو مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا اعلانِ جنگ کرتے پھرتے ہیں اور یورپی معاشرہ ان کی بھرپور پذیرائی کرتا ہے ۔
جرمنی جو وسطی یورپ کا مشہور ملک ہے اور آبادی کے اعتبار سے تمام یورپی ملکوں سے بڑا ہے،اس کی سرکاری رپورٹ کے مطابق صرف ۲۰۱۸ء کے ایک سال میں وہاں مسلمانوں اور مساجد پر ایک ہزار حملے ہوئے ہیں ۔ جبکہ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کا کہنا ہے کہ: ’’حملوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ مختلف ادارے اور پولیس چونکہ ان معاملات میں غیر حساس ہیں ،اس لیے بہت سے واقعات درج ہی نہیں کیے جاتے
یورپ کے جن ممالک میں حجاب یعنی شرعی پردے کو باقاعدہ قانون سازی کر کے مسلم خواتین کو ان کے انسانی حق سے کلی یا جزوی طور پر محروم کیا گیا ہے‘ ان میں فرانس‘ اسپین ، بلجئم ، اٹلی ، سوئٹز ر لینڈ ، ڈنمارک اور ہالینڈ جیسے مشہور ملک شامل ہیں ۔
یہ تو ان ممالک کی داخلی پالیسیوں میں اسلام دشمنی کی ہلکی سی جھلک ہے لیکن بیرونی دنیا میں تو یہ جس طرح اسلام اور مسلم دشمنی میں پیش پیش ہیں اور اپنا سارا وزن ہر علاقے میں مسلمانوں کے قاتلوں کے پلڑے میں ڈالے ہوتے ہیں، اس کو بیان کرنے کیلئے پورے رجسٹر بھی ناکافی ہیں ۔یہی وہ منافق لوگ جو اپنے جنونی قاتلوں کو ذہنی مریض قرار دے کر بہترین سہولتوں والے قید خانوں یا بہترین آسائشوں والے ہسپتالوں میں چند سال کیلئے بند کر دیتے ہیں لیکن اگر ایسا ہی کوئی واقعہ کسی مسلم ملک میں پیش آجائے تو اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے متفق ہو جاتے ہیں ۔ انہیں اپنے ہم مذہب عیسائیوں پر ہونے والے مظالم دیکھ کر تو رونا آجاتا ہے لیکن فلسطین پر جب معصوم بچے اسرائیلی ٹینکوں کے نیچے کچلے جاتے ہیں‘ کشمیری مائیں بہنیں انڈین آرمی کے خلاف آہ و فغاں کرتی ہیں یا روہنگیا کے دبلے پتلے کمزور بوڑھے مسلمان زارو قطار رو کر بڈھسٹ فوجیوں سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں تو ان کی انسانیت خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی ہے۔
نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملہ آور کا تعلق آسٹریلیا سے ہے اور اس کے اسلحہ پر لکھے ہوئے الفاظ بتا رہے ہیں کہ وہ نہ صرف یہ کہ اپنے آبائو اجداد کی تاریخ سے واقف ہے بلکہ مسلمانوں کی تاریخ سے بھی اچھی خاصی واقفیت رکھتا ہے ۔ کم از کم ہمارے کالج اور یونیورسٹی کے بہترین طالب علم سے بھی زیادہ اسے تاریخ اسلام کے بارے میں معلومات ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ اُسے نہ تو پیدائش کے دن سے معلوم تھا اور نہ ہی گھر بیٹھے اس کا یہ خوفناک ذہن بنا ۔ یقینا اس سب کے پیچھے پورا ایک نظام تعلیم اور مکتب فکر ہے،جس نے یہ جنونی قاتل تیار کیا ہے ۔ ایسے میں کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ آسٹریلیا کو فوری طور پرایک خطرناک ترین ملک قرار دے کر وہ تمام تعزیرات لاگو کی جائیں جن سے مسلم ممالک کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے ۔
آسٹریلوی باشندوں کو چیک کرنے کیلئے دنیا بھر کے ائیر پورٹس پر الگ کائونٹر قائم کیے جائیں ۔ ان کے تعلیمی اداروں کو دہشت گرد پیدا کرنے والی نرسریاں کہا جائے اور ان کے نصاب تعلیم کو زبردستی تبدیل کروایا جائے ۔یہ تو بہت بڑے اقدامات ہیں،ہر شخص جانتا ہے کہ اس کی کوئی توقع نہیں لیکن کم از کم آسٹریلیا کو ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ کی طرح ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل تو کرنا چاہیے تاکہ اصلی دہشت گردوں کو مالی امداد کے راستے روکے جا سکیں اور ہمارے ان بے بصیرت افراد کو بھی کچھ آسرا ملے جو ایف اے ٹی ایف کے اقدامات کو بہانہ بنا کر مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ اس طرح یقینی طور پر یہ لوگ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو زبردست ریلیف دینے جا رہے ہیں ، جس کے ذریعے وہ کل مزید مسلمانوں کا خون بہانے کی پوزیشن میں ہو گا ۔ جس طرح ان لوگوں نے جنگ کی دھمکیوں کے مقابلے میں امن ، امن کی رٹ لگائے رکھی ہے اور اب کشمیر ی شہداء کی نسلوں سے بے وفائی کرنے جا رہے ہیں ،اُس سے تو عربی کا وہ مشہور شعر یاد آجاتا ہے،جو قریط بن انیف تمیمی نے اپنی قوم کی بزدلی اور حد سے بڑھی ہوئی امن پسندی پر طنزاً کہا تھا :
کان ربک لم یخلق لخشیتہ
سوا ھم من جمیع الناس انسانا
( یہ لوگ تو اتنے جنگ سے گھبراتے ہیں کہ گویا تیرے رب نے تمام انسانوں میں سے بس صرف انہی کو اپنے سے ڈرنے کیلئے پیدا کیا تھا )
یہ سب حالات اس لیے نہیں لکھے گئے کہ ہمیں صلیب پر ستوں کی اسلام دشمنی میں ذرہ برابر بھی کوئی شک و شبہ ہے اور یقینا جن قارئین کی نگاہ کے سامنے صلیبی جنگیں اور گزشتہ تیس برس کے عالمی حالات ہوں گے،وہ کبھی بھی دوستی اور محبت کے ان دلفریب نعروں سے متاثر نہیں ہو سکتے ، جن کے ذریعے مغربی اقوام دنیا بھر کے مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ ’’اُلّو ‘‘ بناتی ہیں بلکہ انہیں اپنی غلامی اور نقالی پر بھی ذہنی طور پر تیار کرتی ہیں ۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلم ممالک میں اقلیتوں پر ظلم یا ان کی عبادت گاہوں پر حملے ‘ خواہ رد عمل کے طور پر ہی ہوں، شرعی طور پر بالکل ناجائز ہیں اور آج تک کسی بھی مستند عالم نے اس کی تائید یا حمایت نہیں کی ۔ ذمی یعنی اسلامی ممالک کے غیر مسلم شہریوں کے حقوق کی تاکید کے بارے میں احادیث مبارکہ کی کتب میں کئی مستقل ابواب موجود ہیں ۔ البتہ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اقلیت کو اکثریت پر مسلط کر دیا جائے اور تعلیمی‘ ثقافتی ، معاشی پالیسیاں صرف اقلیتوں کے مفاد میں بنائی جانی لگیں ۔
بہرحال وقت نے ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا کہ آسمان نیچے آسکتا ہے اور زمین اوپر جا سکتی ہے لیکن رب کے قرآن کا ارشاد کبھی غلط نہیں ہو سکتا ۔ اللہ کریم نے اپنی محکم کتاب میں اہل ایمان کو پہلے ہی خبردار کر دیا تھا:
ولا یزالون یقاتلونکم حتی یردوکم عن دینکم ان استطاعوا
’’ اور وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر ان کا بس چلے۔‘‘ (البقرہ )
اس آیت مبارکہ کو بار بار پڑھیں اور پھر اندازہ کریں کہ جب مسلمان خود کو بے بس بنا کر اپنے آپ کو کفار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے ‘ دشمن تو اپنے آپ کو ہر اعتبار سے مضبوط سے مضبوط تر کرتا رہے گا اور مسلمان امن پسندی کے نام پر بے کار اور غافل کر دینے والے مشغلوں میں لگے رہیں گے تو نتائج کیا ہوں گے؟
آیت مبارکہ نے جو نتائج ہمیں بتائے تھے‘ وہ ہی ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ اس لیے سانحۂ نیوزی لینڈ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ مسلمان دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں،اپنے دفاع سے غافل نہ ہوں اور اپنے آ پ کو بے بس بنا کر کفار کے بس میں ہرگز نہ دیں ۔ اہل اسلام کو کبھی بھی ایسے حالات میں نہیں رہنا چاہیے کہ دشمن جب چاہے ، انہیں لقمہ تر سمجھ کر ہڑپ کر لے اور وہ اپنا دفاع کرنے کے بھی قابل نہ ہوں ۔
اللہ کریم تمام مسلمانوں کے جان ، مال ، عزت و آبرو اور ایمان و اعمال کی حفاظت فرمائے ۔(آمین ثم آمین)
٭…٭…٭