ذہین حکمران
السلام علیکم …شمارہ)694(
امریکی میڈیا میں ایک ایوارڈ ہوا کرتا ہے جو سال میں سب سے بڑی ’’بونگی ‘‘ مارنے والے سیاسی رہنما کے نام کیا جاتا ہے۔ اس سال یہ ایوارڈ کون لے گا مقابلہ بہت سخت ہے۔ سب سے مضبوط امیدوار تو لازمی بات ہے آپ کے خیال میں ٹرمپ ہی ہو گا۔ البتہ اس کے حوالے سے ججز کو جو مشکل پیش آ سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے کس بیان کو سب سے بڑی بونگی قرار دے کر قابلِ ایوارڈ گردانا جائے۔ اس کا تو ہر جملہ ایسا ہے کہ:
کرشمۂ دامن دل می کشد کہ جا اینجا ست
ہمارے ’’ رہونیت‘‘ کے علمبردار کٹے، انڈے اور مرغی فروش بھی یقیناً اس صف میں ہوں گے۔ ویسے بھی بڑے لیڈروں کی کون سی ایسی ( اچھی یا بُری ) فہرست ہو سکتی ہے جس میں موصوف کا نام موجود نہ ہو؟ ایسا ممکن ہی نہیں ہے اور کم از کم ان کے سپورٹرز کے خیال میں تو ہرگز ممکن نہیں ہے۔
لیکن جناب یہ سب پیچھے رہ گئے ہیں اور ہندوستان کا سپُتر چوکیدار سب سے بازی مار گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل لطیفوں سے اگرچہ یہ خیال ایک اجماعی سوچ کے طور پر سامنے آیا تھا کہ ہمارے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر سے زیادہ سائنسی معلومات دنیا میں کسی شخص کے پاس نہیں لیکن مودی نے یہ خیال بھی غلط ثابت کر دیا اور یہ سوچ بھی غلط ثابت کر دی کہ امریکہ پاکستان یا دنیا کے کسی بھی دیگر ملک کے حکمران بونگی مارنے میں اس سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ مودی نے ہندوؤں کے ایک دیوتا گنیش کو لے کر یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستان  میں کاسمیٹکس سرجری کا صدیوں پہلے سے رواج تھا۔ رامائن اور مہا بھارت کی اساطیری داستانوں سے سپیس ٹیکنالوجی ، انٹرنیٹ اور میزائل ٹیکنالوجی کا بانی بھی ہندوستان کو قرار دیا۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن جس سائنسی، عسکری اور ٹیکنیکل مہارت کا مظاہرہ اس نے اپنے اس حالیہ انٹرویو میں کیا ہے وہ بلاشبہ اسے اس ایوارڈ کا یقینی اور حقیقی مستحق بناتی ہے۔
بحیثیت کمانڈر انچیف ہندوستانی اَفواج کو حکم دیا کہ وہ اس دن بالاکوٹ پر حملہ کریں کیونکہ بادل اور بارش کا موسم ہے ایسے میں ہندوستانی طیارے پاکستانی راڈار پر نہ آئیں گے اور کارروائی کامیاب ہو جائے گی۔
اور ہندوستانی فوج نے بھی اس کا یہ حکم مان لیا۔ سائنس کے ایک طالبعلم سے لے کر راڈار ایجاد کرنے والے سائنسدانوں اور کمپنیوں تک سب پریشان و حیران ہیں کہ جس بات کا آج تک کسی کو بھی پتا نہ چل سکا اور جو سائنسی راز اب تک کسی پر نہ کھلا، جس بھید سے نیوٹن اور آئن سٹائن پردہ نہ ہٹا سکے۔
در حیرتم کہ چائے فروش از کجا شنید؟؟…
قرآن کی رو سے شرک جس جہالت اور مشرک جس جاہل کا نام ہے وہ ہندوستان کے عوام کی اکثریت کو دیکھ کر باآسانی سمجھا جا سکتا ہے، جو ایک طرف علم و فضل کے دُنیا میں بانی ہونے کے دعویدار ہیں اور دوسری طرف مودی جیسوں کو اپنا رہنما اور لیڈر منتخب کرتے ہیں۔ ہندوستان کے لوگ سیکولر ہونے کے دعویدار ہیں۔ آئینی مساوات اور برابری کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں اَقوام مغرب کے شانہ بشانہ چلنے کی بات کرتے ہیں۔ امن اور محبت کا راگ الاپتے ہیں لیکن حقیقت میں اندر سے ’’مودی‘‘ ہیں۔بالکل جاہل ، ایک نمبر جھوٹے، بہترین درجے کے بونگی باز اور متعصب ظالم۔
مشرک کی یہی تاریخ ہے اور یہی حال۔ مستقبل جس تاریکی اور تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے اللہ تعالیٰ جلد ظاہر فرما دیں اور مشرک کو تباہی سے بچانے کے لئے استعمال ہونے والے مسلمانوں کو ہدایت نصیب فرما دے کہ وہ شرک کی بجائے اسلام سے تعلق نبھائیں اور وفاداری کا مظاہرہ کریں۔ مشرک تو کبھی اپنوں کے کام نہیں آیا آپ کے کیا کام آ سکتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کا مجرم ہے اس کی آپ کے ساتھ دوستی یا معاہدے کس طرح سچے ہو سکتے ہیں؟
مشرکین کی تباہی سے یاد آیا کہ رمضان المبارک ’’بدر‘‘ کا مہینہ ہے ۔ وہ بدر جو مشرکین کی تباہی کی قیامت تک ’’حجت‘‘ ہے۔ ایک ایسا دن جسے مشرکین کبھی نہیں بھلا پائے نہ بھلا پائیں گے۔ ’’یوم الفرقان‘‘ فیصلے کا دن ایک عجیب اِمتیازی شان والا دن جس دن مشرک تباہ کئے گئے اور انہیں قیامت تک کے لئے یہ دھمکی بھی سنا دی گئی۔
’’ اگر تم پھر لوٹو گے تو ہم بھی لوٹیں گے ‘‘
یعنی اگر تمہارے سروں میں پھر اسلام دشمنی کا سودا سمایا اور تم نے اسلام کے خلاف جنگ چھیڑی تو ہم بھی بدر والی شان دِکھاتے رہیںگے۔ مشرک بدر کو نہیں بھولے، افسوس کہ مسلمان بھول گئے لیکن سارے نہیں اور یہ بھی تو بدر والے رب کا فیصلہ ہے کہ سارے کبھی نہیں بھولیں گے۔ ایک جماعت ، ایک گروہ قلیل یا کثیر ایسا ہر زمانے میں موجود رہے گا بدر جس کا روحانی قبلہ ہو گا۔ ان کے نظریات کا رُخ ہمیشہ بدر کی طرف رہے گا اور بدر ان کے عمل میں مہکتا رہے گا اپنی لَودیتا رہے گا۔ وہ جماعت موجود رہے گی اور رب کی حفاظت میں رہے گی نہ کسی ظالم کا ظلم اسے ختم کر پائے گا اورنہ کسی عادل کا عدل انہیں میدانوں سے موڑ پائے گا۔
اِسلام کے حقیقی قلعے میں بدر والوں پر رب کی رحمت یوں برس رہی تھی کہ فرشتوں کے سامنے ان پر فخر کیا جا رہا تھا اور ان پر ایسے انعامات کی بارش ہو رہی تھی جو ان کے بعد کسی کو بھی نہ ملے۔
’’اعملوا ما شئتم قد غفرت لکم ‘‘
بدر والوں سے اگلی زندگی میں بھی اگر کوئی گناہ ہو جائے تو وہ پیشگی معاف ہے ۔ وہ اسلام کے اس قلعے میں سب سے معزز لوگ شمار ہوتے تھے۔ سیدنا جبریل امین علیہ السلام حضرت آقا مدنیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کیا :
آپ کی جماعت میں سب سے معزز کن کو گردانا جاتا ہے؟
فرمایا : اہل بدر کو
عرض کیا :
آسمانوں پر بھی ایسا ہی ہے۔
یعنی جو نوری وجود بدر کے دن اُترے تھے اور اہل بدر کے ہمرکاب ہوئے تھے وہ باقی سب نوریوں کے نزدیک قابل رشک اور لائق تکریم ہیں۔
سبحان اللہ !
ایک اسلام کا قلعہ ہے ۔ یہاں اللہ کے بندوں پر اس عنوان کی ایف آئی آر کٹتی ہے۔
کہ اکبر نام لیتا ہے ’’بدر‘‘ کا اس زمانے میں
مولوی صاحب نے منبر پر غزوۂ بدر کا واقعہ بیان کیا اور اس کے ذریعے شدت پسندی کو فروغ دینے کی کوشش کی۔
کتنی مبارک ایف آئی آر ہے اور کیسا مقدس جرم۔ جس پر درج ہو جائے وہ تو قیامت تک لازم ہے کہ اس کا ہر دن شکر ادا کرے اور کرتا رہے۔
بدر والوں کے پاس رب کو منانے کے لئے اس دن کیا سامان تھا؟
وہ نہتے تھے، بے سروسامان تھے اور انہیں یہ گمان نہیں تھا کہ وہ اپنے دشمن پر غالب آ سکتے ہیں۔
بس دو چیزیں تھیں جو انہوں نے پیش کر دیں:
اللہ اور رسول سے وفاداری
مشرکین سے عداوت
انہوں نے ان دونوں پر استقامت اختیار کر لی۔ دشمنوں کی ظاہری طاقت، سازوسامان کی کثرت اور ہر طرح کی مضبوطی انہیں نہ تو اللہ اور رسول کی وفاداری سے ہٹا سکے اور نہ شرک اور مشرکین کی دشمنی کا جذبہ کم کر سکے۔ وہ ان دونوں جذبوں کے ساتھ ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہو گئے کہ انہیں کاٹ کر گرایا تو جا سکتا ہے لیکن اللہ و رسول کی وفاداری سے ہٹایا نہیں جا سکتا ،کفر و شرک کی دوستی اور محبت یا اس کے سامنے جھکنے دبنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔ پھر وہ ایسا کچھ پا گئے کہ قیامت تک مثال بنے، حجت ٹھہرے اور معیار قرار پائے۔
بدر والوں کا راستہ کٹھن ضرور ہے۔ اس میں شدید خوف آتا ہے۔ مستقبل کے خدشات اور وساوس آتے ہیں۔ جان و مال کا خطرہ آتا ہے۔ مشرکین اور ان کے دوستوں کا دباؤ آتا ہے۔ اس میں رونا گڑگڑانا پڑتا ہے۔ اس میں کلیجے حلق کو آ جاتے ہیں۔ اس میں لاشیں گرتی ہیں اور پیارے جدا ہوتے ہیں لیکن اسکی منزل بہت حسین ہے، بہت اونچی ہے اور بہت عزت والی ہے۔
لیجئے ! بات مودی سے شروع ہوئی اور بدر پر جا پہنچی۔ مشرک کی بات ہو تو بدر تک ہی پہنچنی چاہیے اصل ترتیب تو یہی ہے۔ ابوجہل کی بات بھی تو بدر تک پہنچی اور ختم ہوئی۔
آئیے نیک فال لیتے ہیں کہ حضرت آقا مدنی ﷺ کی سنت ہے۔ بات خود ہی آن پہنچی ہے ارادہ نہیں تھا۔ مودی کی بات بدر تک پہنچی ہے۔ وہ کنواں قریب ہی ہوگا ان شاء اللہ جس میں یہ مردار وجود جہنم رسید کئے جاتے ہیں۔
٭…٭…٭