حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ
قلم تلوار …شمارہ)694(
اللہ کے محبوب ﷺ اپنے رَفیقِ خاص حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ قریش کی تکالیف سے بچنے کے لئے ایک روز مکہ کے پہاڑی سلسلے کی طرف نکلے اور بہت زیادہ چلنے سے آپﷺ تکان سے نڈھال تھے جس کی وجہ سے بہت آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور شدید پیاس کی وجہ سے حلق خشک ہوچکا تھا جبکہ دور دور تک پانی کا نام و نشان نہ تھا کہ اس وقت اس پہاڑی سلسلے میں ایک کمر عمر لڑکا بکریاں چَراتے ہوئے نظر آیا۔ آپﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ اس لڑکے کے پاس گئے اور سلام کے بعد اس لڑکے سے کہا: ہم پیاسے ہیں لہٰذا ہمارے لئے اپنی بکریوں سے دودھ نکال کر دو۔ لڑکے نے جواب دیا میں ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ یہ بکریاں میری نہیں ہیں کسی اور کی ہیں اور میں اس کا امین ہوں،مالک نہیں ہوں … لڑکے کا جواب سن کر آپﷺ نے ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس کی امانت داری سے خوش ہوئے‘یہ نوجوان حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ تھے… یہ آپﷺ سے شناسائی کا آغاز تھا۔ عبد اللہ بن مسعودؓ اس وقت کم سن تھے۔ وہ روزانہ مکہ کے ایک رئیس عقبہ بن معیط کی بکریاں چرانے مکے سے دور پہاڑوں پر آتے تھے اور اس وقت واپس جاتے جب رات کی تاریکی پوری طرح چھا جاتی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، آپﷺ کے بارے میں اکثر سنا کرتے تھے مگر ملاقات نہ ہوسکی اور اس روز مکہ کے باہر پہاڑی سلسلے میں ملاقات ہوگئی‘ اس ملاقات کے دوران آپﷺ کے معجزے کو دیکھ کر کہ آپﷺ نے ایک ایسی بکری کے تھن پر ہاتھ پھیر کر دُعا مانگی جس نے کبھی بچہ نہیں جنا تھا اس میں دودھ آگیا اور پھر دعا مانگنے پر تھن سکڑ کر اپنی پرانی حالت میں چلا گیا‘حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بہت متاثر ہوئے اور آپﷺ سے درخواست کی کہ یہ کلمات مجھے بھی سکھا دیجیے، جس پر آپﷺ نے فرمایا تم ایک سکھائے پڑھائے لڑکے ہو… اس واقعے کے کچھ ہی دنوں بعد حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اسلام قبول کرلیا اور آپﷺ کی خدمت میں مستقل رہنے لگے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ہر وقت سفر میں‘ گھر کے اندر ‘ گھر کے باہر سائے کی طرح آپﷺ کے ساتھ ساتھ رہتے۔ جب آپﷺ غسل فرماتے تو یہ پردے کا انتظام کرتے‘ جب آپﷺ باہر جانے کا ارادہ کرتے تو یہ جوتے پہناتے اور جب گھر میں آپﷺ داخل ہوتے تو وہ جوتوں کو پائوں مبارک سے نکالتے۔ آپﷺ کی عصا اور مسواک کی حفاظت کرتے‘ آپﷺ کے ساتھ قرب و تعلق کا یہ حال تھا کہ آپﷺ نے انہیں ہر وقت اپنے گھر آنے اور اپنے رازوں میں شریک رکھنے کی اجازت دی تھی… اسی وجہ سے انہیں ’’رازدانِ رسولﷺ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ، آپﷺ کے گھر میں آپﷺ کے زیر تربیت بڑے ہوئے اور اپنی زندگی کو آپﷺ کے اَخلاق کے سانچے میں ڈھال لیا اور جس طرح آپﷺ چلتے اسی طرح چلتے تھے۔ اٹھنا بیٹھنا غرض یہ کہ اپنے اخلاق اور معاملات کے لحاظ سے آپﷺ کے قریب تر تھے… اسی دوران جب آپﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے وہاں بھی حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ہر وقت موجود رہے… یہاں تک کہ غزوہ بدر کا معرکہ پیش آیا۔ اس عظیم لڑائی میں جب دو بچوں حضرت معاذؓ اور حضرت معوذ ؓ نے اس امت کے فرعون کو مار گرایا تو آخری وقت میں ابوجہل بدبخت کا سر بھی حضرت عبد اللہ بن مسعود  ؓنے کاٹ کر الگ کر دیا…
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی دین سے محبت نے انہیں علومِ قرآن کا بڑا عالم بنا دیا۔ وہ صحابہؓ میں سب سے بڑے قاری تھے اور قرآن کے معانی کے سب سے بڑے رمز شناس اور شریعت الٰہی کے سب سے بڑے نکتہ دان تھے اور دوسری طرف جہاد جو کہ ایک فرض ہے اس کے میدانوں میں ہر جگہ نظر آئے اور دشمنان اسلام کے خلاف لڑے… آپؓ اس درد ناک انداز میں تلاوت کرتے تھے کہ لوگ آپ کی آواز کے سوز میں مسحور ہوکر کھڑے رہتے۔ ایک رات کا واقعہ ہے کہ آپﷺ اپنے رفیق خاص حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس تشریف فرما تھے اور دینی امور پر بات چیت ہو رہی تھی‘ حضرت عمرؓ بھی اس اہم مجلس میں موجود تھے جب یہ تینوں حضرات باہر نکلے تو ان کی نظر ایک شخص پر پڑی مگر اندھیرے کی وجہ سے پہچان نہ سکے وہ تلاوت کر رہا تھا۔ آپﷺ تھوڑی دیر تک تلاوت سنتے رہے‘پھر آپﷺ نے اپنے دونوں ساتھیوں کو مخاطب کرکے کہا ’’جو شخص قرآن کو اس طرح پڑھنا چاہے جیسا کہ نازل ہوا ہے تو اسے چاہیے کہ ابن ام عبد (حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ) کی قراء ت کے مطابق پڑھے پھر حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیٹھ کر دعا مانگنے لگے تو آپﷺ بار بار کہتے گئے‘ مانگو دیا جائے گا مانگو دیا جائے گا… حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ صبح میں جب یہ خوشخبری دینے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس گیا تو مجھ سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ آکر جاچکے تھے ۔
حضرات صحابہ کرامؓ ذکر اذکار کے ساتھ بہادر بھی تھے اور ایسے کئی مواقع آئے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے کافروں کے درمیان اس وقت جب مسلمانوں کی تعداد قلیل تھی قرآن کا پیغام ببانگ دہل پہنچایا‘ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ وہ پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے آپﷺ کے بعد مشرکین مکہ قریش کے مجمع میں باآواز بلند قرآن پڑھ کر سنایا۔ مشرکین مکہ مارتے جاتے مگر آپؓ نے تلاوت ختم نہیں کی‘ جسم سے خون بہتا رہا مگر برابر پڑھتے رہے۔ لوگوں نے ان کو اس حالت میں دیکھ کر کہا کہ اس کے متعلق ہم کو اسی طرح امید تھی۔ 
اسلام کے لئے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی بے شمار خدمات ہیں… وہ ہر جگہ میدان جہاد ہو ‘ میدان علم ہو ‘ مسلمانوں کی رہنمائی کرتے رہے۔آج بھی ان کی تعلیمات کی روشنی میں مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ خلافت حضرت عثمانؓ تک زندہ رہے۔ جب آخری وقت قریب آیا تو حضرت عثمانؓ ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے۔ حضرت عثمانؓ نے پوچھا کہ کسی چیز کی شکایت ہے؟ آپؓ بولے ’’اپنے گناہوں کی‘‘ حضرت عثمانؓ نے پھر پوچھا کیا کوئی خواہش ہے؟ بولے ’’اپنے رب کی رحمت کی‘‘ پھر پوچھا کیوں نہ آپ کے وظیفے کی ادائیگی کا حکم جاری کر دوں جس کو لینے سے آپؓ نے کئی سالوں سے انکار کیا ہوا ہے۔ فرمایا مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت عثمانؓ نے پھر کہا کہ آپ کے بعد آپ کی بچیوں کے کام آئے گا۔ جواب دیا‘ کیا آپ کو میری بیٹیوں کے متعلق محتاجی کا خدشہ ہے… میں نے انہیں ہر رات سورہ واقعہ پڑھنے کی ہدایت کر دی ہے کیونکہ میںنے آپﷺ سے سنا ہے کہ ’’جو شخص ہر رات کو سورہ واقعہ پڑھ لیا کرے گا وہ فقر و فاقہ سے دوچار نہیں ہوگا۔ غرض یہ ان کی وہ گفتگو ہے جو تاریخ کا حصہ ہے۔ بالآخر9 رمضان المبارک32ہجری میں اس دارِفانی سے رخصت ہوئے اور آخری وقت میں زبان مبارک پر اللہ کا ذکر جاری تھا۔ اللہ ہماری زبانوں پر بھی آخری وقت میں کلمہ شہادت جاری فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭