قیمتی وقت
نقش جمال …شمارہ)694(
رمضان کا مبارک مہینہ چل رہا ہے اور ہم میں سے ہر اس میں جتنا کچھ کما سکتا ہے کما رہا ہے، مگر خود یہ رمضان ایک طے شدہ ترتیب کے موافق اپنے دن رات کے حساب سے گزر رہا ہے۔ ہم میں سے کوئی اسے گزارنا چاہیے یا نہ گزارنا چاہے اس نے گزر ہی جانا ہے۔ اسے کوئی روک نہیں سکتا۔
ہم اس عام دنوں میں بھی اور خاص کر اس رمضان میں جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ محفوظ کر دیا جاتا ہے اور عقل مند وہ ہیں جو اس مہینے میں اچھے اعمال کا ذخیرہ محفوظ کراتے ہیں اور بدبخت ہیں وہ جو اس مبارک مہینے میں بھی بُرائی کماتے اور اپنے نامہ اعمال کو بُرائیوں سے بھرتے ہیں۔
اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اپنے فضل سے بے پناہ نیکیاں کمانے کا ایک خاص مہینہ عطا فرمادیا۔ اس ماہ میں خیرو برکت کے دریا جاری فرمادیے۔ اور فرمایا کہ رمضان المبارک میں شیاطین کو قید کرلیا جاتا ہے تا کہ وہ اپنا شر نہ پھیلائیںاورمؤمن اپنے معبودِ برحق کی بندگی بجا لانے کا خصوصی اہتمام کریں۔ رمضان المبارک میں خداوند قدوس کی بے پایاں رحمتیں دن رات نازل ہوتی ہیں۔ کوئی لمحہ ، کوئی ساعت اور کوئی گھڑی ان رحمتوں سے خالی نہیں ہوتی۔ بندہ مؤمن ان ساعتوں میں عبادت کرکے اپنے دل کو منور کرتاہے۔ جس طرح سے ساون کا مہینہ ہریالی کے لیے ہوتا ہے اسی طرح ماہ صیام مؤمن مسلمانوں کی روحانی ترقی کا مہینہ ہے۔ رمضان المبارک میں ہر نفل عمل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض عمل کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارمضان المبارک میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ سرکش شیاطین کو قید کر لیا جاتا ہے۔اللہ پاک کے بے شمار انعامات میں سے اپنے بندوں کے لیے ایک بہترین انعام رمضان ہے۔مؤمن رمضان المبارک میں اپنے وقت کو قیمتی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔کیوں کہ نظام ِدنیا میں ہر چیز وقت کے مطابق ہورہی ہے۔ آسمان وزمین اپنے مقررہ وقت پر چلتے ہیں۔ اندھیرا ، اجالا ، دن رات ،ہفتے، مہینے ،سال ہر چیز مقررہ ترتیب کے مطابق چل رہی ہے۔ اس لیے مسلمان کو بھی چاہیئے کہ وہ ہر وقت کو جس طرح گزارنا چاہیے اسی طرح گزارنے کی کوشش کرے تاکہ وہ اس ذمہ داری کو نبھانے والا شمار ہو۔ اور اگر انسان اس ذمہ داری کو پورا نہ کر سکے تو اس کے لیے ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔
اسی لیے تو حضرت سیدنا جبریل امین علیہ السلام نے یہ بددعاء فرمائی تھی کہ ہلاکت ہے اس کے لیے جس نے رمضان پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوسکی اور نبی کریمﷺ نے بھی اس پر آمین فرمائی تھی۔
رمضان المبارک عبادات کے لیے آتا ہے۔ روزے کے لیے آتا ہے۔ قرآن کریم کی بکثرت تلاوت کے لیے آتا ہے۔ راتوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اس کے سامنے اپنی نیاز مندی اور بندگی ظاہر کرنے لیے نماز پڑھنا اس رمضان کی اہم ترین عبادت ہے، جسے قیام اللیل اور تروایح کہا جاتا ہے۔ اس مبارک مہینے میں سحری مستقل عبادت اور باعث برکت ہے، تو افطاری خوشی اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی پانے کا موقع ہے۔ رمضان المبارک میں اہل ایمان کے رزق کو کشادہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ چوں کہ نزول قرآن کا مہینہ ہے اس لیے قرآن کی برکت سے زندگیوں میں ایمان و یقین کی روشنیاں پید اہوتی ہیں۔ ہر جگہ امن وامان وبھائی چارے کی فضا بن جاتی ہے۔ تنگ دل نرم پڑ جاتے ہیں۔ سینے کھل جاتے ہیں اور مسلمانوں میں آپسی بہت لڑائیاں، جھگڑے اور خلفشاریں ختم ہوجاتی ہیں۔اللہ پاک کی طرف سے ماہ رمضان میں ایک منادی اعلان کرتا ہے کہ اے خیر کی طلب کرنے والو! بھلائی کے کام کی طرف آجاؤاور اے برائی چاہنے والو! برائیوں سے رک جاؤ۔ ایک مرتبہ رمضان المبارک سے قبل حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو خطبہ دیا اور رمضان المبارک کی فضیلت و اہمیت بیان فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان میں عبادت کے لیے ہمہ تن تیارر ہیں اور اپنے معمولات میں تمام عباتوں کو داخل کردیں۔ جس مقصد کے لیے رمضان کی مبارک گھڑیاں ملی ہیں ،ان میں عبادت کے سوا کچھ نہ کیا جائے۔کیوں کہ یہ مہینہ عبادتوں کا موسم اور نیکیوں کے سیزن کاہے۔مؤمن مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ رمضان میں عبادت کے لیے خود کو فارغ کرلیں اور طاعات میں سرگرداں ہوجائیں۔
مسلمانوں کورمضان المبارک میں اعمال کی فکر کرنا لاز م ہے۔ معصیت سے دوری ،اعمال خیر میں رغبت ہو۔ یہی رمضان کا بہترین احترام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی خطبات رمضان المبارک کے احترام اورتعظیم میں بیان فرمائے۔ رمضان کا احترام یہ نہیں کہ صرف ظاہری گناہوں کو ترک کردیا جائے اور باطنی گناہوں کی دلدل میں پھنسے رہیں۔ اصل روحِ رمضان تو باطن کی پاکی ہے۔ اس ماہ مبارک کا احترام کرنا گویا اللہ پاک کا احترام کرنا ہے۔ کیوں کہ یہ مہینہ اللہ کا مہمان ہے جسے اللہ نے ہماری طرف بھیجا ہے۔اس کا احترام کرنا اللہ پاک کے نزدیک سب سے عظیم نیکی ہے۔ ہم رمضان کی قدر کرکے اللہ پاک کے محترم بندے بن سکتے ہیں۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ اس ماہ میں ثواب بڑھا دیاجاتا ہے، لیکن یہ بات نہیں جانتے کہ اگر نافرمانی کردی تو اس کی سزا میں بھی اضافہ ہوگا۔ لہذا ہمیں اپنے اعمال کی فکر میں لگے رہنا چاہیے اور رمضان المبارک میں بے احترامی والے کاموں سے احتراز کرنا چاہیے۔اس کے لیے سب سے بہترین ترتیب یہ ہے کہ :
زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں گزارا جائے۔
زیادہ سونے کی کوشش نہ کی جائے۔
روز مرہ کی دوستانہ مجالس کم سے کم سجائی جائیں۔
جامع کلمات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے۔ مثلا: لاالہ الا اللہ کا وِرد، استغفار، اور درود شریف کی کثرت۔
اگر حافظ بھی نہ ہوں اور قرآن کریم دیکھ کر تلاوت کرنے کی فرصت بھی کم ہو تو سورۃ الاخلاص اور سورۃ الفاتحہ اور آیت الکرسی کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں۔
جو بھی ذکر یا کسی خاص سورت کی تلاوت کریں تو کوشش کریں کہ کچھ عدد مقرر کر کے اس مقررہ عدد کو پورا کریں۔ مثلا ایک سو مرتبہ، دو سو مرتبہ یا ہزار مرتبہ وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ ہماری اس گنتی کے محتاج نہیں ہیں مگر ہم خود اس کے محتاج ہیں کیوں کہ اس سے روز مرہ کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی راہ کھلتی ہے ، ورنہ کبھی تو انسان ایک ذکر ہزار مرتبہ کر لے گا اور پھر کئی دنوں کی سستی میں سو کا عدد بھی پورا نہ کرپائے گا ،لیکن اگر ایک مقررہ عدد ہوگا تو پھر اس کی کوشش ہوگی کہ یہ عمل اس مقدار سے کم نہ ہو، بلکہ اس پر دوام اختیار کرے گااور نبی کریمﷺ کا فرمان موجود ہے کہ: اللہ تعالیٰ کو وہ عمل بہت محبوب ہے جو دائمی ہواگرچہ قلیل ہو۔
٭…٭…٭
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے، وہ پاکیزہ چیز کے سوا کچھ قبول نہیں کرتااوراللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اْسی بات کاحکم دیا ہے جس بات کا انبیائے کرام کو حکم دیا۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے (قرآن میں)فرمایا:’’اے رسولو! کھاؤپاکیزہ چیزوں میں سے اور نیک عمل کرو۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤجو ہم نے تمہیں عطاکی ہیں۔‘‘
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ذکر کیاجو لمباسفر کرتاہے، بال بکھرے ہوئے، غبار آلود۔ وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف لمبے کرتاہے اورکہتاہے:’’اے میرے پررودگار! اے میرے پروردگار!اے میرے پروردگار! جب کہ اس کا کھانا حرام کا، اس کا پینا حرام کا، اس کالباس حرام کا، اسے غذا حرام دی گئی ہے تو اس کی دعاکیسے قبول ہوگی؟‘‘(مسلم شریف)
اس حدیث شریف کے بنیادی اَسباق درج ذیل ہیں:
اہل ایمان کو حرام سے بہت زیادہ اجتناب کرنا چاہیے۔
اہل ایمان کو حلال کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔
نیک عمل میں آگے بڑھنا چاہیے۔
دعاؤں کی قبولیت میں حرام کمائی بہت بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔
گویا کہ حرام کی نحوست کے ہوتے ہوئے دعا کی قبولیت کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں بندے کی دعاء ہی قبول نہ ہو تو پھر اس کے پاس کیا بچتا ہے؟ وہ کس در پر جائے گا؟ کون اس کی تمام مشکلات دور کرسکتا ہے؟ کون اسے ہمیشہ کی کامیابی دِلاسکتا ہے؟ کائنات کے کل خزانے تو اللہ تعالیٰ کے ہی ہیں، اور جب وہ ہی کسی بندے کی دعاء قبول نہ کرے تو پھر کون اس کی پکار سن سکتا ہے؟ اور کون اس کی دعاء قبول کر سکتا ہے؟ اور کون اس کی حاجت روائی پر قادر ہوسکتا ہے؟
عبادات کی قبولیت کے لیے حلال رزق بنیادی شرط ہے اور پھر دعاء تو عبادات کا مغز ہے، اسی لیے نبی کریمﷺ نے مستجاب الدعوات بننے کا یہی نسخہ بتایا ہے کہ انسان حرام رزق سے بچے۔
حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ سے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے مستجاب الدعوات بنادے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اے سعد! اپنی غذا، طیّب(پاک) رکھو تو تم مستجاب الدعوات بن جاؤ گے۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی جان ہے، آدمی ایک حرام لقمہ اپنے پیٹ میں ڈال لیتاہے تو(اس کی نحوست سے)چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔‘‘
اندازہ کیجیے کہ حرام کی نحوست کتنی بڑی ہے؟
 اس سے دعاء قبول نہیںہوتی۔
عبادات قبول نہیں ہوتیں۔
زندگی کا سکون ختم ہوجاتا ہے۔
مال سے برکت اُٹھ جاتی ہے۔
گھر میں ناچاکی چھا جاتی ہے۔
انسان ، اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا مستحق بن جاتا ہے۔
لوگوں کے دلوں میں سے اس کی محبت نکل جاتی ہے۔
یہ چند نقصانات ہیں، ورنہ اس کی فہرست بہت طویل ہے اور پھر اس مختصر سی فہرست میں بھی ہر نقصان ہی اتنا بڑا ہے کہ انسان کو برباد کرنے کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔ اس رمضان میں عزم کریں کہ اپنے لین دین کے حساب اور معاملات میں اچھی طرح غور کریں گے اور اگر کہیں حرام کی آمیز اور ملاوٹ ہورہی ہے تو اسے دور کریں گے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ دعاء کریں کہ اے اللہ! میرے لیے حرام سے بچنا آسان فرمااور مجھے حرام سے بچنے کے راستے نصیب فرما۔ انسان کا سچا عزم، پختہ ارادہ، مضبوط کوشش اور اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال ہوجائیں تو کسی بھی دلدل سے نکلنا ناممکن نہیں ہوتا۔
٭…٭…٭