صلیبی دہشت گرد اور مغربی ایجنٹ
قلم تلوار …شمارہ 686
آسٹریلیا کے صلیبی دہشت گرد نے نیوزی لینڈ کی دو مسجدوں پر حملہ کرکے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف 49 مسلمانوں کو شہید کرنے کے بعد اس قتل و غارت گری کو جس طرح سے سوشل میڈیا پر براہِ راست دِکھانے کی کوشش کی، اس نے اس خونی واردات کو مزید بھیانک بنا دیا...
اب یہ بات بھی دُنیا پر عیاں ہوچکی ہے کہ مغرب کی  گود میں پلنے والے صلیبی دہشت گردوں کا متبادل دُنیا میں اور کہیں نہیں ہے...نائن الیون کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک کے حکمرانوں اور میڈیا نے اِسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کے جو بیج بوئے تھے لگتا ہے کہ اب وہ تنا آور درخت بن کر مسلمانوں کو مٹانے کے لئے آمادۂ دہشت ہیں...
میرا موم بتی مافیا سمیت ’’جہاد‘‘ مخالف مخصوص گروہ کے کارندوں سے سوال ہے کہ نیوزی لینڈ کی مسجد النور کو نمازیوں کے خون سے رنگین کرنے والے بدمعاش نے کس ’’مدرسے ‘‘ سے تعلیم حاصل کی تھی؟ اس سفاک قاتل کو جہادی ٹریننگ کس نے دی؟
 کیا مغرب کی ان یونیورسٹیوں کو بند نہیں ہونا چاہیے کہ جہاں سے تعلیم حاصل کرکے ایسے سفاک دہشت گرد بنتے ہیں؟
کیا مغرب کے تعلیمی اداروں  میں پڑھائے جانے والے اس نصاب تعلیم کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جس نصاب تعلیم کو پڑھ کر مسلمانوں کے خلاف جنونی دہشت گرد تیار ہوتے ہیں؟
ہے کوئی بلاول زرداری کہ جو مغرب کے حکمرانوں سے صلیبی دہشت گرد تیار کرنے والی فیکٹریوں کو بند کرنے کا مطالبہ کرسکے؟ بلاول زرداری کے حوالے سے پاکستانی قوم میں یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ وہ غیر ملکی طاقتوں کو خوش کرنے کے لئے پہلے سے حکومتی عتاب کا شکار کالعدم جہادیوں کے خلاف جذبات سے مغلوب ہو کر پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں‘ بلاول اردو بولنے میں اچھے خاصے نااہل واقع ہوئے ہیں‘ لیکن پریس کانفرنس کے دوران گلابی اردو میں بات کرتے کرتے جب جہادیوں کا ذکر آئے تو فوراً انگلش کی پٹڑی پر چڑھ جاتے ہیں...کہا جاتا ہے کہ وہ انگلش کا سہارا  لے کر جہادیوں کے خلاف سات سمندر پار گوروں کو مسیج دے رہے ہوتے ہیں،اس لئے مجھے آج کے کالم میں امریکہ یا مغربی ممالک کی بجائے پاکستان میں موجود ان کے راتب خوروں سے بات کرنی ہے...
اگر یہ پاکستان میں رہ کر مغربی دِن منا سکتے ہیں تو نیوزی لینڈ میں 49 نمازیوں کو شہید کرنے والے دہشت گرد تیار کرنے والی مغربی تربیت گاہوں پر پابندی کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر کیوں نہیں آسکتے؟ سوال یہ ہے کہ 50لاکھ کی آبادی والے نیوزی لینڈ کے کسی چرچ میں کوئی ایک عیسائی بھی اگر اس قسم کے حملے میں کسی مسلمان کے ہاتھوں مارا جاتا تو پھر امریکہ مغربی دنیا اور پاکستان میں موجود موم بتی مافیا این جی اوز کا ردعمل کیا ایسا ہی ہوتا؟
ہرگز نہیں،بلکہ امریکہ سمیت پوری مغربی دنیا اس کا میڈیا اور پاکستان میں موجود ڈالر خور اس دہشت گردی کو مذہبِ اِسلام کے ساتھ نتھی کرکے دینِ اسلام کا مذاق اُڑا رہے ہوتے...فرانس سے لے کر لندن تک مسلمانوں کی مسجدوں اور نقاب اوڑھنے والی مسلم خواتین پر حملے شروع ہو چکے ہوتے‘ نیوزی لینڈ کی مسجدوں میں مسلمان نمازیوں کو تاک تاک کر نشانہ بنانے والے 28 سالہ آسٹریلوی دہشت گرد نے فوجی وردی  پہن رکھی تھی، وہ ہیلمٹ میں لگے کیمرے سے اپنی دہشت گردی کی لائیو ویڈیو بھی بناتا رہا‘ اس سے قبل دُنیا میں دہشت گردی  اور انتہا پسندی کا ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ جس میں دہشت گردوں نے انسانوں کے قتل عام کی یوں لائیو ویڈیو بھی بنائی ہو...
یہ اعزاز بھی مغرب کے حصے میں آیا کہ آسٹریلوی دہشت گرد نے سفاکیت اور جنونیت کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے تڑپتے انسانوں کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی‘ یہ آسٹریلوی دہشت گرد امریکی صدر ٹرمپ کے خیالات سے متاثر تھا،کوئی ہے کہ جو ٹرمپ کو بھی زیر تفتیش لا کر اس سے پوچھے کہ اس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کو پروان کیوں چڑھایا؟
پاکستان سمیت پوری امت مسلمہ تو ماریں سہہ کر بھی ، لاشیں اُٹھا کر بھی دنیا میں امن، امن، امن کی صدائیں لگاتی ہے...دنیا کے کسی مسلمان ملک کی حکومت نے آج تک نہ دہشت گردوں اور نہ دہشت گردی کے کسی واقعہ کی حمایت کی، لیکن اس سب کے باوجود  اگر بے گناہ اور معصوم نمازی بھی صلیبی دہشت گردوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں تو پھر مغرب کو اس بات کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ دہشت گردی اور مسلمانوں کے خلاف عسکریت پسندی کی کمین گاہیں اور اڈے وہیں کہیں ہیں...
جس مغربی میڈیا کو پاکستانی میڈیا میں گھسے ہوئے بعض راتب خور بڑا ’’مقدس‘‘ تصور کرتے ہیں... اس مغربی میڈیا کے تعصب اور شدت پسندی کا اندازہ لگائیے کہ وہ نیوزی لینڈ میں چار درجن سے زائد انسانوں پر خوفناک حملے کی واردات کو دہشت گردی کی بجائے ’’شوٹنگ‘‘ قرار دیتا رہا،یہ وہ ’’مغرب‘‘ ہے کہ جو پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کو ڈالر دے کر یہاں بین المذاہب ہم آہنگی کے پروگراموں کی آڑ میں جہاد مقدس کے خلاف سازشوں کو پروان چڑھاتا ہے،اسلام آباد کے مہنگے ہوٹلوں میں بین المذاہب کے نام پر گل چھرے اڑانے والوں کو چاہیے کہ وہ مغربی ممالک کو ڈالر واپس لوٹا کر انہیں بتائیں کہ الحمدللہ پاکستان کی مسلح افواج یہاں دہشت گردوں کو کچل کر امن قائم کرنے میں کامیاب ہوچکی ہیں...اب ان ڈالروں اور بین المذاہب پروگراموں کی آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ فرانس اور  دیگر مغربی ممالک کو زیادہ ضرورت ہے...
مدرسوں میں یتیموں کا مال کھا کر لوگوں کی زکوٰۃ صدقات اور عطیات کے بل بوتے پر پل بڑھ اور پڑھ کر جوان ہونے والے مدرسوں کے بعض بھگوڑے ٹوپیاں اُتار کر اور ڈاڑھیاں ترشوا کر صرف ڈالر بٹورنے کے لئے مغربی این جی اوز کے مہرے بنے ہوئے ہیں...
مجھے یقین ہے کہ میرے یہ الفاظ ان پر ہتھوڑے کی طرح برس رہے ہوں گے...لیکن ایسے نان اسٹیٹ ایکٹرز کے حوالے سے آواز حق بلند کرنا سب کی ذمہ داری ہے ... مغربی ممالک انہیں چند ٹکے دے کر پاکستانیوں کو ہومیو پیتھک بنانا چاہتے ہیں،جبکہ ’’مغرب‘‘ کی اپنی صورتحال یہ ہے کہ ان کی کوکھ سے ایسے خطرناک دہشت گرد جنم لے رہے ہیں کہ جو عبادت میں مصروف انسانوں کو عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی تمیز کئے بغیر نہ صرف چن چن کر گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ اس خوفناک دہشت گردی کو ہیلمٹ میں لگے کیمرے کے ذریعے دنیا بھر میں لائیو نشر بھی کرتے ہیں... (وماتوفیقی الاباللہ)
٭…٭…٭