متفرق باتیں

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 566)

اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ…اَللّٰہُ اَحَد… اَللّٰہُ نَاصِرُنَا ، اَللّٰہُ حَافِظُنَا، اَللّٰہُ نَاظِرُنَا، اَللّٰہُ مَعَنَا… لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ… حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ… مَاشَائَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ… وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلیَ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ

اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے… ان تمام مبارک کلمات کو ایک بار پڑھ لیں…


تعزیت

اُستاذ محترم حضرت مولانا منظور احمد نعمانی قدس سرہ کے دست راست… مایہ ناز فاضل، پیکر عجزوو فا حضرت مولانا حاجی ’’احمد‘‘ صاحب وفات پا گئے… انا للہ وانا الیہ راجعون… غالباً ۱۹۹۰؁ء میں اُن سے پہلی ملاقات ’’ افغانستان‘‘ صوبہ خوست کے جہادی مرکز ’’ژاور‘‘ میں ہوئی تھی … حضرت نعمانی ؒ ایک وفد میں وہاں تشریف لائے …بندہ کو میزبانی کا شرف حاصل ہوا… اپنے مرکز میں حضرت کے بیان کے بعد ہم ان کے وفد کو عربوں کے معسکر الفاروق لے گئے… وہاں مجاہدین کا مظاہرہ تھا… کچھ مجاہدین کیموفلاج حالت میں نمودار ہوئے تو حضرت کے وفد میں سے ایک دیہاتی حلیے والے صاحب کو پکار اُٹھے او ڈیکھو گھٹے آندے پِن …وہ دیکھو مینڈھے آ رہے ہیں… ان کے اس فرمان پر جہاں قہقہے بلند ہوئے وہاں وہ خود بھی نظروں میں آ گئے… معلوم ہوا کہ سرتاپا دیہاتی حلیے میں ملبوس یہ صاحب…مایہ ناز عالم دین اور بلند پایہ مدرس ہیں …مگر اس پورے سفر میں وہ اپنی یہ بے ساختہ سادگی ہی بکھیرتے رہے… نہ بیان فرمایا اور نہ کبھی علمیت دکھائی… اللہ تعالیٰ اُن کو مغفرت اور رفع درجات کا اعلیٰ مقام نصیب فرمائے…اُن کے اہل خانہ اور تلامذہ سے قلبی تعزیت ہے…

وضاحت

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ…اس نے ’’مکتوب خادم‘‘ کے سلسلے کو جاری فرمایا ہوا ہے… میرے ذاتی اور پھر جماعتی حالات کے تحت یہ سلسلہ بظاہر مشکل اور نا ممکن نظر آتا ہے… مکتوب لکھنا، اسے پہنچانا ، اسے چلانا یہ سب مراحل ہمارے حالات کے پیش نظر آسان نہیں ہیں… لیکن ’’الحمد للہ‘‘ یہ سلسلہ چل رہا ہے اور ’’ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ ‘‘ دنیا بھر میں مسلمانوں کو اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے… مکتوب کے معاملہ میں ہمارے جو رفقاء محنت اور جانفشانی کرتے ہیں اُن کے لئے دل کی گہرائی سے دعاء نکلتی ہے… اور جو حضرات و خواتین پھر مزید اسے آگے پھیلاتے ہیں اُن کے لئے بھی دل سے ڈھیروں دعائیں ہیں… مکتوب عمومی طور پر ’’استخارے‘‘ اور جماعتی حالات و مہمات کے زیر اثر رہتا ہے… مگر کبھی کبھار اس میں کسی کی وفات کی خبر اور نماز جنازہ کی دعوت بھی آ جاتی ہے… لیکن حقیقت میں  یہ ’’مکتوب‘‘ کا اصل موضوع اور مقصد نہیں ہے… اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ہر شہادت اور ہر وفات پر مکتوب جاری ہو… بعض اوقات رفقاء کی طرف سے تقاضہ آ جاتا ہے کہ… فلاں کی وفات پر مکتوب آ جائے… یہ تقاضہ طبیعت پر بہت بھاری پڑتا ہے… کیونکہ کبھی سفر، کبھی حضر… کبھی اسباب دستیاب ، کبھی مفقود… اور ہر مکتوب کم از کم تین چار افراد کی…کم از کم تین چار گھنٹے کی محنت مانگتا ہے… اس لئے ازراہ کرم ایسا مطالبہ نہ کیا کریں… ویسے بھی رنگ و نور اور مکتوبات کو سب مسلمانوںکے لئے’’ آزاد اور کھلا‘‘ رہنا چاہیے… اور ان کو فرمائشوں اور مطالبات کا تابع نہیں بننا چاہیے… اسی لئے کئی افراد مجھے جماعت کے بارے میں اپنے خواب اور بشارتیں لکھ کر بھیجتے ہیں کہ… ان کو رنگ و نور یا مکتوب میں دے دیں تو میں ان سے معذرت کر لیتا ہوں کہ… اگر کوئی خواب اچھا ہے تو اس کی تعبیر خود آ جائے گی…اور ہر شخص اپنے خواب کو خود سنبھالے…اسی طرح اور بھی کئی فرمائشیں آتی ہیں… جن پر معذرت یا خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے… اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہم سب کی نصرت اور رہنمائی فرمائے… اور ہمیں دین کے مقبول کاموں سے محروم نہ فرمائے… آمین یا ارحم الراحمین

آج کے ملکی حالات

ملکی اور سیاسی حالات آپ سب مجھ سے زیادہ جانتے ہیں… اس وقت جبکہ میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں…یکم نومبر کی تاریخ ہے… اور ملک کے دارالحکومت میں ہنگامے اور جھگڑے جاری ہیں… ملک کا ایک صوبہ …باقی ملک سے کاٹ دیا گیا ہے…اور ملک کی بڑی عدالت میں ایک اہم مقدمہ کی سماعت ہو رہی ہے… شریف برادران کی حکومت نے اس ملک سے صدیوں کا انتقام لیا ہے… مگر معلوم نہیں کہ یہ انتقام کس چیز کا لیا جا رہا ہے… دین دشمنی، ملک دشمنی اور حد درجہ ظلم وستم …ماضی میں جو لوگ پرویز مشرف پر تنقید کرتے تھے اور آج وہ موجودہ حکومت کا حصہ ہیں… معلوم نہیں وہ اپنے ضمیر کو کیسے مطمئن کرتے ہوں گے…
ملک چاروں طرف سے خطرات میں گھر چکا ہے…اور سرحدوں پر انڈین فورسز مسلسل دہشت گردی کر رہی ہیں… ادھر مقبوضہ کشمیر میں… مظالم کی کالی آندھی بدستور چل رہی ہے… مگر کشمیری ماں اور کشمیری بیٹے چٹانوں کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں…ملکی تاریخ میں یہ پہلا سنہری موقع تھا کہ حکومت موجودہ حالات سے فائدہ اُٹھاتی اور انڈیا کو اس کی اوقات یاد دلاتی… مگر ملک کی سیاسی حکومت کے انڈیا کے ساتھ کئی طرح کے خفیہ اور دیرینہ تعلقات ہیں…اسی لئے وہ مجاہدین کشمیر کو دبا کر انڈیا کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے…  حسبنا اللہ ونعم الوکیل…

کھلی آنکھوں سے

چند دن پہلے کسی ایران نواز پاکستانی کالم نویس نے… سعودی حکومت کے خلاف ایک مضمون لکھا ہے… اس میں وہ ایران کو سامراج دشمن اور سعودیہ کو سامراج نواز قرار دیتا ہے… حالانکہ ساری دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ…آج ’’ موصل ‘‘ پر امریکہ اور ایران ایک دوسرے سے کندھا ملا کر ’’حملہ آور‘‘ ہیں… پہلے دکھاوے کے لئے ہی سہی مگر یہ دونوں ملک آپس میں ظاہری فاصلہ رکھتے تھے… مگر ’’موصل ‘‘ کی جنگ میں ان کی مکمل یاری، دوستی اور ناجائز تعلقات کی کیفیات کھل کر سب کے سامنے آ گئی ہیں…اب بھی اگر کوئی شخص ایران کو ’’سامراج مخالف‘‘ سمجھتا ہے تو اسے کیا کہا جا سکتا ہے؟ … کالم نویس نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ… ایران جس ملک میں بھی مداخلت کر رہا ہے وہاں وہ سامراج کے خلاف لڑنے والی طاقتوں سے تعاون کر رہا ہے… حالانکہ یہ کھلا جھوٹ ہے… افغانستان میں ’’امارت اسلامی‘‘ سامراج کے خلاف سب سے بڑا جہاد کر رہی ہے… مگر اسے ایرانی حمایت نہیں بلکہ ایرانی دشمنی کا سامنا ہے… عراق میں بھی ایران اور امریکہ متحد ہیں…باقی رہ گیا شام تو وہاںبھی… اب ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں…
اہل اسلام سے گذارش ہے کہ…وہ حلب اور موصل کے مسلمانوں کے لئے خاص دعاؤں اور توجہات کا اہتمام کریں… موصل پر دنیا بھر کا کفر چڑھ دوڑا ہے… دوسری طرف ’’دولت اسلامیہ ‘‘ کے دنیا بھر میں پھیلے نام نہاد بے وقوف حامیوں نے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے… اہل ایمان کی دعاؤں والے ہاتھ باندھ دیئے ہیں…پاکستان ہو یا افغانستان…سعودیہ ہو یا امارات… دولت اسلامیہ کے نام نہاد حامیوں نے ایسی بھونڈی حرکتیں کی ہیں کہ…مسلمانوں کے کلیجے چھلنی کر دئیے ہیں… چنانچہ دعاؤں کا وہ لشکر جو عسکری لشکر کی کمر پر تھا وہ کمزور پڑ گیا…اور اس کا خسارہ عراق و شام میں دولت اسلامیہ کو بھگتنا پڑا… اللہ تعالیٰ برے حامیوں اور بے وقوف دوستوں سے ہر اسلامی لشکر کی حفاظت فرمائے… بہرحال جو کچھ بھی ہو… موصل پر کفر کی یلغار اور حلب پر کفر کے حملے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا…دعاؤں کے ہاتھ پھیلا دیں…
لاالہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭