ایک درد
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ575)
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر نماز فرض فرمائی …وَاَقِیْمُو الصَّلٰوۃَ… اور قائم کرو نماز کو…
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر جہاد فرض فرمایا … کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ… فرض کیا گیا تم پر قتال…
یعنی نماز سے پہلے بھی ’’ایمان ‘‘ ضروری… بے ایمان کی نماز نہیں ہوتی… اور جہاد سے پہلے بھی ’’ایمان‘‘ ضروری…بے ایمان کا جہاد نہیں ہوتا… امید ہے کہ یہ بات آپ کے ذہن میں بیٹھ گئی ہو گی… اب آئیے اگلی بات کی طرف… نماز کے لئے جتنا ایمان ضروری ہے بس اتنا ہی ایمان جہاد کے لئے ضروری ہے… جہاد کے لئے کسی الگ سپیشل ایمان کی ضرورت نہیں… بلکہ… جتنے ایمان سے نماز ادا ہو جاتی ہے اتنے ایمان سے جہاد بھی ادا ہو جاتا ہے… ایک آدمی نماز ادا کر رہا ہے معلوم ہوا کہ وہ خود کو ایمان والا سمجھتا ہے… اب اگر اسے جہاد کے لئے کہا جائے تو وہ فوراً اپنے ایمان کا انکار کر دے اور یہ کہے کہ… پہلے میںایمان بناؤں گا پھر جہاد کروں گا یا پھر جہاد کو مانوں گا… تو یہ بڑی خطرناک غلطی اور گمراہی ہے… امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ بات بھی آپ کے دل میں اتر گئی ہو گی… اب آئیے اگلی بات کی طرف…
نماز زیادہ افضل ہے یا جہاد؟… اس بات پر تو اہل علم کا اتفاق ہے کہ نماز کی فرضیت بھی قرآن مجید میں نازل ہوئی ہے… اور جہاد بمعنیٰ قتال فی سبیل اللہ کی فرضیت بھی قرآن مجید میں نازل ہوئی ہے… چنانچہ یہ دونوں دین اسلام کے اہم فرائض ہیں… ان کا انکار کرنا ’’کفر‘‘ ہے… اور ان کو چھوڑنا بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے… مگر ان دونوں میں سے زیادہ اہم کون سافریضہ ہے… حضور اقدس ﷺ نے کبھی نماز کی وجہ سے جہاد کو نہیں چھوڑا… اور کبھی جہاد کی وجہ سے نماز کو نہیں چھوڑا… ہاں جہاد کی مشقت میں چند نمازیں قضاء ضرور ہوئیں مگر ان کو فوراً بعد میں ادا کر لیا گیا… اور ان کے قضاء کروانے پر مشرکین کو سخت بددعاء دی گئی…
جہاد اور نماز کا آپس میں کوئی ٹکراؤ بھی نہیں … البتہ دونوں ایک دوسرے کو قوت اور سہولت دیتے ہیں… چنانچہ جہاد میں ایسی نماز کی بھی اجازت ہے…جو چلنے پھرنے اور لڑنے سے نہیں ٹوٹتی… اور دو قسطوں میںادا ہوتی ہے… اسے ’’صلوٰۃ خوف‘‘ کہتے ہیں… معلوم ہوا کہ جہاد بھی بہت اہم ہے… اور نماز بھی بہت اہم ہے… مگر سوال وہی کہ ان دونوں میں سے زیادہ اہم کون سا فریضہ ہے؟ …اہل علم کے مختلف اقوال ہیں… بندہ کم علم کو جو بات سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ… نماز جہاد سے زیادہ اہم ہے اور جہاد نماز سے زیادہ افضل ہے واللہ اعلم بالصواب
اب جبکہ ہم یہ مان رہے ہیں کہ… نماز زیادہ اہم ہے تو پھر نماز کے لئے زیادہ ایمان کی ضرورت ہو گی یا جہاد کے لئے؟ …اگر آج ہم کسی مسلمان سے کہیں کہ بھائی نماز ادا کرو… وہ جواب دے کہ نہیں جی… میرا تو ایمان ہی نہیں بنا… میں تو کچا مسلمان ہوں پھر میں ایسے کچے ایمان اور اسلام کے ساتھ مسجد میں کیسے جاؤں؟ … اللہ تعالیٰ کے سامنے کیسے کھڑا ہوں؟ … میں پہلے ایمان بناؤں گا پھر نماز ادا کروں گا… آپ بتائیے کہ اس آدمی کی بات ٹھیک ہے؟… آپ یہی جواب دیں گے کہ… نہیں جی اس کی بات ٹھیک نہیں ہے… ایمان لانے کے بعد ایمان بنانے کا سب سے ضروری طریقہ یہ ہے کہ… فرائض کی پابندی کرو… نماز ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، زکوٰۃ دو، حج کرو، جہاد کرو… جب تم فرائض کی پابندی کرتے چلے جاؤ گے تو … تمہارا ایمان بنتا چلا جائے گا… لیکن اگر تم فرائض چھوڑ کر ایمان بنانے کی کوشش کرو گے تو قیامت تک تمہارا ایمان نہیں بنے گا… نماز اور جہاد سے پہلے ایمان لانے کی ضرورت ہے… اب ایمان بنانے کے لئے تمہیں نماز بھی ادا کرنی ہو گی اور جہاد بھی کرنا ہو گا… اور یہ کہنا کہ پہلے ایمان بناؤں گا پھر جہاد کروں گا… پہلے ایمان بناؤں گا پھر نماز ادا کروں گا… یہ بالکل غلط شیطانی وسوسہ ہے جو وہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے لئے… ان کے دل میں ڈالتا ہے…
دیکھو! سورہ حجرات میں واضح اعلان ہو رہا ہے کہ
’’ایمان والے تو صرف وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر شک میں نہ پڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑے یہی لوگ سچے ہیں ‘‘( الحجرات ۱۵)
امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ بات بھی آپ سمجھ گئے ہوں گے …اب آئیے اگلی بات کی طرف …نماز تب فرض ہوتی ہے جب نماز کا وقت داخل ہو جائے… بالکل جہاد بھی اس وقت فرض ہوتا ہے جب جہاد کا وقت آ جائے… مگر یہ کون بتائے گا کہ وقت آیا یا نہیں؟ تو اس میں فطری بات یہ ہے کہ… وقت خود آ جاتا ہے نہ وہ کسی کے اعلان کا محتاج ہے اور نہ کسی کی تصدیق کا… ہر دن صبح صادق خود آ جاتی ہے… ساتھ فجر کی نماز بھی اتر آتی ہے… سورج اللہ تعالیٰ کے حکم سے زوال پذیر ہوتا ہے تو ظہر آ جاتی ہے… اسی طرح جہاد کا وقت بھی خود آ جاتا ہے… کسی کے اعلان یا کسی کی تصدیق کی ضرورت نہیں ہوتی… جہاد کے اوقات خود قرآن مجید نے اور حضور اقدس ﷺ کی احادیث مبارکہ نے طے فرمادئیے ہیں … اور یہ وہ اوقات ہیں جو ہر زمانے میں آتے رہتے ہیں …جس طرح نماز کے اوقات ہر زمانے میں آتے رہتے ہیں… اب کسی نے نماز نہ پڑھنی ہو… اور وہ فوراً اعلان کر دے کہ جی ہم تو حالات کے بھنور میں پھنس گئے ہیں … اور ہم اب بنی اسرائیل سے روشنی پائیں گے… اور بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ…اپنے گھروں میں نماز ادا کرو… اور صرف دو نمازیں ادا کیا کرو…ہم چونکہ کچے مسلمان ہیں… مسجد نبوی ہمارے لئے مثال نہیں بن سکتی… اس لئے ہمیں بہت دور، بہت پیچھے جا کر اپنے لئے مثال اور روشنی ڈھونڈنی ہو گی… ہمیں بنی اسرائیل کے دور میں داخل ہو کر ان سے سبق پڑھنا ہو گا… اور بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ ’’ وَاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً‘ ‘ … کہ اپنے گھروں میں نماز ادا کرو… ہم بھی آج سے ہر نماز گھر میں پڑھا کریں گے… اور بنی اسرائیل کے لئے چونکہ دو نمازوں کا حکم تھا تو ہم بھی پانچ کی جگہ دو نمازیں پڑھا کریں گے… آپ بتائیے کہ یہ بات درست ہے یا غلط؟… اگر یہ غلط ہے تو پھر جہاد سے جان چھڑانے کے لئے… خود کو بنی اسرائیل کے زمانے میں کیوں لے جایا جا رہا ہے؟ …اگر صحابہ کرام سے مثال اور روشنی لینی ہے تو نماز میں بھی لینی ہو گی… اور جہاد میں بھی… اور اگر بنی اسرائیل سے روشنی اور مثال لینی ہے تو… وہ نماز میں بھی لینی ہو گی اور جہاد میں بھی… یہ نہیں ہو سکتا کہ… نماز کے بارے میں تو حضرات صحابہ کرام کو مثال بنایا جائے… اور جہاد کے بارے میں … حضرات صحابہ کرام سے اپنا رشتہ اور تعلق توڑ کر… خود کو بنی اسرائیل کا پیروکار بنا دیا جائے… بات بالکل واضح ہے…حضرات صحابہ کرام کو مثال بنائیں گے تو نماز کا وقت بھی نظر آ جائے گا… اور جہاد کا وقت بھی… مگر چونکہ جہاد مشکل فریضہ ہے… اس لئے لوگ جہاد سے اپنی جان بچانے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ…ابھی جہاد کا وقت نہیں آیا… ان سے پوچھا جائے کہ جہاد کا وقت کب آتا ہے؟…کفر بھی موجود ہے اور اس کا فتنہ بھی… مسلمانوں پر حملے بھی موجود ہیں اور قبضے بھی…شعائر اسلام پر پابندی بھی ہے … اور حرمتوں کی پامالی بھی… اور ان سے پوچھا جائے کہ اگر آپ کے نزدیک جہاد کا وقت کبھی آ بھی گیا تو آپ نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ جہاد کی تیاری تو ہر وقت اور ہر حال میں فرض اور لازم ہے… امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ بات بھی آپ کے دل و دماغ میں سما گئی ہو گی… اب آئیے اگلی بات کی طرف… اوپر جو چند باتیں عرض کی گئیں ان کا مقصد کسی کی تنقیص یا توہین نہیں… بس دل میں یہ درد اور کڑھن ہے کہ … کوئی مسلمان اس حال میں نہ مرے کہ… وہ جہاد فی سبیل اللہ کا منکر ہو… قرآن مجید کی ایک ہزار کے لگ بھگ جہادی آیات کا انکار… حضور اقدسﷺکی جہادی سیرت کا انکار… حضور اقدسﷺکی ہزاروں جہادی احادیث کا انکار … اسلام کے ان غزوات کا انکار جن پر قرآن مجید نے سورتیں نازل فرمائیں… کیا اللہ تعالیٰ نے اتنی آنکھیں بھی نہیں دیں کہ…مسلمانوں کو وہ تلوار نظر آ جائے جو حضرت آقا مدنی ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک میں اُٹھائی اور چلائی… کیا مسلمانوں کی آنکھیں اس خون کو نہیں دیکھ رہیں جو جہاد میں حضرت آقا مدنی ﷺ کے جسم مبارک سے ٹپکا… اگر یہ سب کچھ نظر آ رہا ہے تو بات ہی ختم… آپ ان لوگوں کا کیوں اعتبار کرتے ہیں جو آپ کے آقا حضرت محمد ﷺ کے اس طرز عمل کے…عملی مخالف ہیں… ذرا دل پر ہاتھ رکھیں … اگر اسلحہ اُٹھانا ہر حال میں دہشت گردی ہے تو…حضرت آقا مدنی ﷺ نے جو اسلحہ اُٹھایا ، جو اسلحہ چلایا، جو اسلحہ سکھایا، جو اسلحہ خریدا، جو اسلحہ سجایا، جو اسلحہ بنایا… اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اے مسلمانو! آپ کے محبوب نبی ﷺ کی ملکیت میں گیارہ تلواریں تھیں… تو وہ لوگ آپ کی کس طرح سے درست رہنمائی کر سکتے ہیں جو دن رات … تلوار اور اسلحہ کے خلاف ذہن سازی کرتے ہیں… اور نعوذ باللہ حضور اقدس ﷺ کے غزوات کوبھی… اپنے لئے مثال نہیں سمجھتے… کیا میرے آقا ﷺ کا جہاد میں نکلنا… بار بار نکلنا اور زخم کھانا… یہ امت کے لئے نہیں تھا؟… کیا یہ امت کے لئے مثال نہیں ہے؟… تو کیا نعوذ باللہ نعوذ باللہ یہ سب کچھ فضول تھا؟… اے مسلمانو! میڈیا، شوبز اور کرکٹ کی بدبو سے باہر نکل کر حضور اقدس ﷺ کے غزوات مبارک کو پڑھو… انہیں غزوات کو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے لئے ’’اسوہ حسنہ‘‘ اور بہترین مثال بنایا ہے…
ٹھیک ہے آپ جہاد نہیں کر سکتے تو… اس پر توبہ، استغفار کرو، اللہ تعالیٰ سے مدد اور توفیق مانگو… اور دل میں شرمندگی اور ندامت اختیار کرو … مگر یہ کونسا دین ہے کہ…خود کو کچا مسلمان کہہ کرجہاد کا انکار کرو اور پھر اپنے کارناموں پر فخر بھی کرو… اور خود کو سب سے افضل اور اعلیٰ بھی سمجھو … ہائے کاش ، ہائے کاش، ہائے کاش… کوئی مسلمان قتال فی سبیل اللہ کی فرضیت کا انکار نہ کرے… بس یہی درد ہے، یہی فکر ہے…اور اسی کے لئے یہ چند باتیں لکھی ہیں… یا اللہ! قبول فرما… یا اللہ! ہم سب پر رحم فرما …
آمین یا ارحم الراحمین…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭