اللہ تعالیٰ کے ’’بھلانے‘‘کا مطلب
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ596)

اللہ تعالیٰ کی پناہ اس بات سے کہ… اللہ تعالیٰ ہمیں بھلا دے…

سورۃ التوبہ میں بعض لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا…

’’نسوااللّٰہ فنسیھم ‘‘ ( التوبہ ۶۷)

ترجمہ: انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے ان کو بھلا دیا…

اللہ تعالیٰ بھول چوک سے پاک ہے… وہ کسی چیز کو نہیں بھولتا… کوئی چیز چھوٹی ہو یا بڑی اس کے علم سے اوجھل نہیں ہو سکتی… پھر ’’ بُھلا‘‘ دینے کاکیا مطلب؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو چھوڑ دیتا ہے اُن کی رہنمائی نہیں فرماتا… اُن کی پرواہ نہیں فرماتا، اُن پر خاص رحمت نہیں فرماتا… اُن کو آخرت اور نیکی کی طرف متوجہ نہیں فرماتا… بس اُن کو چھوڑ دیتا ہے، پھینک دیتا ہے کہ… وہ چند دن مزے لوٹ لیں اور پھر عذاب ہی عذاب آگ ہی آگ… یا اللہ آپ کی پناہ

آپ نے دیکھا ہو گا

آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض افراد… کسی کو ایک تھپڑ بھی ناحق مار دیں تو… انہیں کوئی سزا یا تنبیہ فوراً مل جاتی ہے… کبھی ہاتھ ٹوٹ جاتا ہے یا کوئی اور تکلیف اُن کو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کر دیتی ہے…تب وہ معافی مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں… مگر بعض افراد روز کئی کئی قتل کرتے ہیں…مگر اُن کو بخار تک نہیں ہوتا… حکمران، خفیہ ادارے، انڈر ورلڈ مافیا… اور بے وقوف بدمعاش یہ سب روز ناحق خون بہاتے ہیں …زندہ انسانوں کو لاشوں میں بدلتے ہیں اور لاشوں کو بے دردی سے جلاتے، چھپاتے اور ڈبوتے ہیں… مگر اُن کو فوری کوئی سزا نہیں ملتی … دراصل اُن بد نصیبوں کو اللہ تعالیٰ نے بھلا دیا ہے… اب وہ اُن کا ہاتھ نہیں پکڑتا کہ انہیں گناہوں سے روکے …یہ لوگ درندوں کی طرح قتل وغارت کرتے ہیں … بس اُن کے لئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے… اس وقت کے آنے تک اُن کو ڈھیل اور آزادی دی جاتی ہے…پھر وہ وقت آجاتا ہے اوریہ افراد ایسے عذاب میں ڈال دئیے جاتے ہیں جس کا ہراگلا لمحہ پچھلے لمحہ سے زیادہ سخت ہو گا… اور وہاں یہ روتے چیختے رہیں گے… مگر اُن کی کوئی نہیںسنے گا… کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پھینک دیا ،چھوڑدیا،بھلا دیا…

’’یا اللہ آپ کے بھلانے سے آپ کی پناہ‘‘

کامیابی نہیں پھندا

آج کل ’’دنیا پرست‘‘ افراد ایک موضوع بڑی دلچسپی سے بیان کرتے ہیں… فلاں شخص سائیکل چلاتا تھا آج وہ پچاس گاڑیوں کا مالک ہے … فلاں شخص دیہاڑی مزدوری کرتا تھا آج وہ ارب پتی ہے… فلاں شخص باورچی تھا آج وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مالک ہے… فلاں شخص کچرا اُٹھاتا تھا آج اس کے جہاز سمندر میں چل رہے ہیں… وغیرہ وغیرہ… افسوس یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کو ’’کامیابی ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے … جو کہ سراسر ظلم ہے… آپ اسے ’’مالداری‘‘ کا نام دے دیں… آپ اسے ’’قارونیت‘‘ کا لقب دے دیں… آپ اسے ’’سرمایہ داری ‘‘ کہہ لیں…

مگر آپ اسے کامیابی نہیں کہہ سکتے… اگر ’’کامیابی ‘‘ اسی کا نام ہے تو نعوذ باللہ آپ کو کئی بڑے بڑے ظالموں، کافروں اور فسادیوں کو ’’ کامیاب‘‘ سمجھنا پڑے گا… کیونکہ وہ سب مالدار تھے اور غریبی سے مالدار بنے تھے… اگر آپ ’’ مالداری‘‘ کو کامیابی قرار دیں گے تو آپ کو بہت سی مقدس ہستیاں نعوذ باللہ ’’ناکام‘‘ نظر آئیں گی… کیونکہ وہ مال سے دور رہے اور وفات تک غریب رہے… اچھا اب ایک بات پرغور فرمائیں… آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض افراد اگر ایک روپے کا سودی کاروبار کر لیں تو… سخت پکڑ میں آ جاتے ہیں وہ اگر خیانت کر لیں تو فوراًکوئی مصیبت آ جاتی ہے … وہ اگر کسی کا تھوڑا سا مال دبا لیں تو طرح طرح کی آفتوں کا شکار ہو جاتے ہیں … کئی افراد جو اپنے حلال کاروبار کی وجہ سے خوب مالدار تھے انہوں نے جیسے ہی بینک کا سودی قرضہ لیا…ایک دم آسمان سے زمین پر گرے اور قرضے اور غربت کا شکار ہوگئے… یہ دراصل وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بھلایا نہیں بلکہ یاد رکھا … اور انہیں حرام خوری اور حرام کاری سے زبردستی باہر کھینچ لیا… یہ دنیا میں وقتی طور پر غریب ہو گئے مگر آخرت کے ہمیشہ والے عذاب سے بچ گئے… دنیا کی ساری زندگی کے مزے آخرت کے ایک منٹ عذاب سے ختم ہو جائیں گے… اب یہ لوگ مالدار نہیں مگر اللہ سے جڑے ہوئے ہیں … توبہ استغفار کرتے ہیں… اور اپنے گناہ پر نادم رہتے ہیں…

مگر دوسری طرف آپ کو ایسے افراد مل جائیں گے جو … روز کروڑوں کا سودی کاروبار کرتے ہیں… ان کی معیشت کا سارا دارو مدار حرام رشوت پر ہے … وہ ہر ناجائز اور حرام مال کو لیتے اور کھاتے ہیں …مگر ان پر نہ تو کوئی پکڑ آتی ہے اور نہ سزا…بلکہ اُن کا کاروبار ایک ملک سے دوسرے ملک…اور ایک کمپنی سے دوسری کمپنی تک پھیلتا چلا جاتا ہے…یہ وہ بدنصیب لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بھُلا دیا…یعنی چھوڑ دیا، پھینک دیا، وہ اُن کا ہاتھ کسی حرام سے نہیں روکتا …اور وہ انہیں کسی خیر کی طرف متوجہ نہیں فرماتا …دراصل ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو ہر موقع پہ بُھلایا…بالآخر اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بُھلا دیا کہ …اب حرام کماتے ہیں، حرام کھاتے ہیں، حرام جمع کرتے ہیں، حرام میں جیتے ہیں…اور بالآخر حرام میں مرکر…آگ میں جاگریں گے … جہاں ان کی کچھ بھی نہ سنی جائے گی…یااللہ آپ کی پناہ…

اپنا جائزہ

ہم نے آیت مبارکہ پڑھ لی کہ…منافق اللہ تعالیٰ کو بُھلا دیتا ہے…تو اللہ تعالیٰ بھی اُسے بُھلادیتے ہیں…اللہ تعالیٰ کو بُھلانے کا مطلب یہ ہے کہ…نہ زبان اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے نہ دل میںاللہ تعالیٰ کی یاد ہو…اور نہ اپنے کاموں اور معاملات میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کا لحاظ ہو … مؤمن کا ’’اللہ‘‘ ہر وقت اُس کے ساتھ ہے…وہ جو کام بھی کرتا ہے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے…مگر منافق کی زندگی میں ’’اللہ تعالیٰ‘‘ نہیں ہوتا…وہ ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کو بُھلاتا ہے…تب اللہ تعالیٰ بھی اس کو بُھلادیتے ہیں…

اللہ تعالیٰ کسی بندے کو بُھلادیں اس کی علامت یہ ہے کہ…اس بندے کو ’’آخرت‘‘ بالکل بھول جاتی ہے…تب وہ اپنی ذات کے لیے آخرت میں کچھ بھی جمع نہیں کرتا…

حالانکہ اصل زندگی ’’آخرت‘‘ ہے…اصل ’’کھانا ‘‘ آخرت میں ہوگا، اصل ’’پینا‘‘ بھی آخرت میں ہوگا…اصل عیش وعشرت بھی آخرت میں ہوگی …اصل جینا بھی آخرت کا جینا ہوگا…اصل مزے بھی آخرت کے ہوں گے…

بس جو آخرت میں کامیاب رہا اُس نے سب کچھ پالیا…اور جو آخرت میں ناکام رہا وہ بڑا محروم ہے…پس جس مسلمان کو ’’آخرت‘‘ یاد ہے…اور وہ ہر وقت اپنی آخرت کی اصل زندگی کا سامان تیار کرتا رہتا ہے…یہ وہ مسلمان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے یاد رکھا ہوا ہے…اور اسے بُھلایا نہیں ہے…اور جس شخص کو آخرت یاد نہیں … اور وہ آخرت کی تیاری نہیں کررہا…یہ وہ بدنصیب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بُھلادیا ہے … یعنی پھینک دیا ہے، چھوڑ دیا ہے…

اب ڈرتے دل کے ساتھ ہم اپنا جائزہ لیں …کیا ہم اُن لوگوں میں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نہیں بُھلایا؟…تب الحمدللہ الحمدللہ…اور اگر ہم اُن لوگوں میں ہیں جن کو آخرت کی کوئی یاد، کوئی فکر نہیں…تو پھر بہت ڈرنے کا مقام ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ ہمیں بُھلاہی نہ دے…تب تو کوئی نصیحت بھی ہم پر اثر نہ کرے گی…

اُمید کی روشنی

جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ بُھلا دیتے ہیں…اُن لوگوں پر نصیحت کی بات اثر نہیں کرتی…نہ ہی اُن کو اپنے گناہوں پر ندامت ہوتی ہے…اور نہ ہی انہیں اپنی اصلاح کا خیال آتا ہے…الحمدللہ ہماری یہ حالت تو نہیں ہے…جتنے بھی سیاہ کار گناہگار ہیں…مگر اللہ تعالیٰ سے جڑے رہنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں…اور اپنی اصلاح چاہتے ہیں …یہ اس بات کی علامت ہے کہ…اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہیں بُھلایا…ہمیں نہیں پھینکا…اب ضرورت اس بات کی ہے کہ…ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے رشتے کو مزید مضبوط بنائیں…اور اپنی آخرت کے لیے زیادہ سے زیادہ سامان آگے بھیجیں…

اس کے لیے…اللہ تعالیٰ نے ہمیں ’’رمضان المبارک‘‘ کا تحفہ عطا فرما دیا ہے…یہ وہ مہینہ ہے جس کی ہر گھڑی اور ہر لمحہ ہمیں…اللہ تعالیٰ کے قریب کرتا ہے…پس ہم سب اس مہینے کی بھرپور قدر کریں…اس مہینے کو پانے کی ترتیب بنائیں …اور اس مہینے میں غفلت ومحرومی کا شکار نہ ہوں …ہم اللہ تعالیٰ کو اخلاص کے ساتھ یاد کریں … اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت اور اپنے فضل کے ساتھ یاد فرمائے گا…اگر ہوسکے تو ’’شھر رمضان‘‘ کتاب کا ضرور مطالعہ فرما لیں…

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭