اہل اور نااہل
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ606)
اللہ تعالیٰ مجھے اور
آپ سب کو ’’نا اہلی‘‘ سے بچائے… اور ہمیں ’’اہل‘‘ بنائے…
اہل ایمان، اہل اسلام
، اہل جنت ، اہل امانت… اور اہل صداقت میں ہمیں شامل فرمائے…
آج دو موضوع ساتھ ساتھ
لے کر چلنے کا ارادہ ہے… ان شاء اللہ…
یا اللہ آسان فرما… یا
اللہ قبول فرما… لا حول ولا قوۃ الا باللہ…
نا
اہل کا مطلب
پاکستان کی سپریم کورٹ
نے اپنے ایک متفقہ فیصلے میں… وزیر اعظم پاکستان کو ’’نا اہل‘‘ قرار دیا ہے…’’نا اہل‘‘
فارسی کا لفظ ہے اور اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے… لغت کی کتابوں میں اس لفظ کے کئی
مطلب لکھے ہیں چند معانی ملاحظہ فرمائیں
نا اہل (۱) نالائق (۲) ناقابل (۳) ناخلف (۴) کمینہ (۵) بے تہذیب
(۶) ناموزوں (۷) بے ادب (۸) ناشائستہ
یعنی سپریم کورٹ نے
’’وزیراعظم‘‘کو نالائق ، ناقابل، ناخلف وغیرہ قرار دیا ہے… اور یہ آٹھ لقب اُن کے
لئے مقرر کر دئیے ہیں… جو آپ نے ابھی نا اہل کے معنی میں پڑھے ہیں… اور سپریم کورٹ
نے وزیراعظم سے دو لقب چھین لئے ہیںایک صادق اور دوسرا امین… کہ اب وہ صادق نہیں رہے
کاذب بن گئے ہیں یعنی جھوٹے اور امین نہیں رہے… بلکہ خائن بن چکے ہیں…
آٹھ القاب مل گئے… اور
دو لقب چھن گئے… تو قانون کے مطابق وزیراعظم کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا… اور وہ ’’مری‘‘
جا بیٹھے… مگر ’’ مر‘‘ کر بھی چین نہ آیا تو اپنی عزت کا جنازہ کندھوں پر اُٹھائے
’’جی ٹی روڈ‘‘ پر آ گئے اور بالآخر رینگتے رینگتے چار دن میں … اپنے گھر لاہور پہنچ
گئے…
جتھوں دی کھوتی … اُتھے
اَن کھلوتی…
لاہور میں ہمارے کئی اللہ
والے،مظلوم ، بے قصور ساتھی… اس وزیر اعظم نے قید کر رکھے تھے … مجھے رمضان المبارک
میں وہ ساتھی یاد آتے تو آنکھیں بھیگ جاتیں… وہ اہل قرآن … رمضان میں خوب قرآن
سناتے تھے… اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیں کہ اُن اہل ایمان کی آہیں عرش تک پہنچیں اور
اُنہیں اپنی ذاتی ضد پر گرفتار کرانے والا شخص… نا اہل ہو کر اُسی لاہور میں آ گرا…
واہ سبحان تیری قدرت…
عشرہ
مبارکہ آ گیا
ذو القعدہ کا آخری عشرہ…چل
رہا ہے… اور چند دن بعد ’’ذو الحجہ‘‘ کا مبارک عشرہ شروع ہونے والا ہے… اللہ کرے آپ
سب نے ’’افضل ایام الدنیا‘‘ کتاب پڑھ لی ہو… اس سال معلوم نہیں کیوں زیادہ شدت سے
’’عشرہ مبارکہ‘‘ کا انتظار ہے…
وَالْفَجْرِ
وَلَیَالٍ عَشْرٍ
اللہ تعالیٰ ذوالحجہ کے
پہلے عشرے کی راتوں کی قسم قرآن مجید میں کھاتے ہیں… یہ دس ایام ’’اہل عشق‘‘ اور
’’اہل سعادت‘‘ کے لئے عظیم تحفہ ہیں… اس سال ہم سب سچی نیت کر لیں کہ… ان شاء اللہ
ان دس دنوں میں اپنی قسمت سنوارنی ہے… یہ دس دن ایک انسان کو زمین سے آسمان پر پہنچا
سکتے ہیں … ان دس دنوں کا ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں جہاد سے بھی زیادہ مقبول ہے
تو پھر ان دس دنوں میں خود جہاد کا اجر کتنا ہو گا… معلوم ہوا کہ یہ دن کمانے کے ہیں
، بنانے کے ہیں اور پانے کے ہیں… ان دنوں کی دعاؤں کا مقام بھی بہت اونچا ہے… یعنی
دعائیں بہت زیادہ قبول ہوتی ہیں… اور خوش نصیب انسانوں کی قسمت کو پر لگ جاتے ہیں…
ابھی سے ہم روزانہ دو رکعت نماز ادا کر کے اللہ تعالیٰ سے دعاء اور التجا کیا کریں
کہ… اس سال ہمیں یہ دس دن مکمل قبولیت اور تمام خیروں کے ساتھ نصیب ہوجائیں… وہ جو
ہر وقت اپنی قسمت کا رونا روتے ہیں… وہ ’’ذوالحجہ‘‘ کے چاند کا انتظار کریں اور جیسے
ہی چاند نکلے فوراً … اعمال و دعاء میں لگ کر خوش نصیبی کے راستے پر چل پڑیں… ان دس
دنوں اور راتوں کے اعمال انہیں ان شاء اللہ کہاں سے کہاں تک پہنچا دیں گے…
دشمنی
صرف دین سے ہے؟
سابق وزیر اعظم کو سپریم
کورٹ نے’’ نا اہل‘‘ قرار دیا… ان پر دس سے زیادہ سنگین الزامات تھے جن کے ثبوت عدالت
نے تسلیم کئے… یہ غلط ہے کہ ان کو صرف اپنے
بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کیا گیا… دھوکہ ، فراڈ، لوٹ مار اور جعل سازی
کا ایک وسیع سلسلہ انہوں نے شروع کر رکھا تھا… جس کی ایک مثال بیٹے کی کمپنی اور وہ
باپ ہو کر اس میں ملازم اور تنخواہ دار… جب تنخواہ لیتے نہیں تھے تو کاغذات میں تنخواہ
لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟…یہ سارا بندوبست کسی فراڈ یا کالے دھن کو چھپانے کے لئے کیا
جاتا ہے… ورنہ اس کی کیا ضرورت ہے کہ کمپنی بیٹے کے نام ہو اور باپ کو اس میں ملازم
اور تنخواہ دار لکھا جائے… جبکہ باپ بیٹا تمام معاملات میں اکٹھے ہیں… خلاصہ یہ کہ
سابق وزیراعظم پر بڑے بڑے جرائم ثابت ہوئے… ان کے خلاف چھ محکموں کے چھ اعلیٰ افسروں
نے تحقیق کی… اور ان کو مجرم پایا… پھر سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے انہیں مجرم پایا
… اب آپ پاکستان کے حالات دیکھیں… کسی مدرسے، مسجدیا مجاہد پر… اگر سپیشل برانچ یا
پولیس کا کوئی ادنیٰ سا اہلکار کوئی الزام ڈال دے تو … اس مدرسے پر نگرانی لگ جاتی
ہے… اور اس مجاہد اور اس کے اہل خانہ کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے … اگر ایک حوالدار
بھی کسی دیندار مسلمان کی کوئی مشکوک جھوٹی رپورٹ لکھ دے تو… اس مسلمان کا نام فورتھ
شیڈول میں ڈال کر اس کی زندگی ویران کر دی جاتی ہے… مگر جس شخص کو سپریم کورٹ اور ملک
کے چھ محکموں نے… مجرم قرار دیا… وہ شخص کھلے عام گھوم رہا ہے… ریلی نکال رہا ہے… وزیراعظم
کا پروٹوکول لے رہا ہے… سیکورٹی کے نام پر کروڑوں کا بجٹ اُڑا رہا ہے … پوری حکومت
اس کے اشارے پر ناچ رہی ہے … اور وہ فوج اور عدالتوں کو دھمکیاں دے رہا ہے … آخر اس
ملک میں اتنا بڑا تضاد کس لئے ہے؟ … نا اہل وزیراعظم نے ایک معمولی سی ریلی نکالی پاکستان
میں کئی افراد جب چاہیں اس سے بڑی ریلی نکال سکتے ہیں… پھر اس نا اہل کے اتنے نخرے
اور اتنی دھمکیاں کیوں برداشت کی جا رہی ہیں… اسے حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے
کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے؟ کیا صرف اس لئے کہ وہ ’’دیندار‘‘ نہیں ہے… اور اس ملک
میں ہر ظلم ، ہر پابندی اور ہر قانون صرف مدرسہ، مسجد اور جہاد سے وابستہ دیندار مسلمانوں
کے لئے ہے؟ … یہ وہ سوال ہے جو پاکستان کے کروڑوں مسلمان سوچتے ہیں… اور جس دن اس سوال
کی گرمی زمین پر اتر آئی تب درجہ حرارت شاید قابو سے باہر ہو جائے… ملک کے خیر خواہ
طبقے کو یہ صورتحال فوری طور پر درست کرنی چاہیے…
عشرہ
مبارکہ کیسے پانا ہے
ذوالحجہ کا عشرہ پانے
کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ… دل میں اس کی اہمیت اور ضرورت بٹھا کر اللہ تعالیٰ سے مدد
اور توفیق مانگی جائے… اور دوسرا یہ کہ اپنے حالات کے مطابق ابھی سے اس عشرے کے لئے
نیکیوں میں اضافے کا ایک نصاب مقرر کر لیں…
جو گھریلو اور معاشی ذمہ
داریوں میں مشغول ہیں… وہ ان نیکیوں کا ارادہ کریں جو ان کے لئے آسان ہیں… اور جن
کو معاشی مشغولیت نہیں ہے وہ اپنے لئے زیادہ نیکیوں کا ایک پورا نصاب مقرر کر لیں…
مثلاً ان دس دنوں میں نو روزے رکھنے ہیں… ایک یا دو قرآن پاک ختم کرنے ہیں… رات کو
روزانہ صلوٰۃ التسبیح پڑھنی ہے… ہر نماز کے بعد ایک سو بار تکبیر کا ورد کرنا ہے… اور
زیادہ سے زیادہ واجب اور نفل قربانی کرنی ہے …دراصل اسلام بہت وسیع اور جامع دین ہے
… اس میں صرف نیت اور جذبے کو درست کر کے ہر چیز کو نیکی بنایا جا سکتا ہے… کئی دن
سے مجھے’’شارجہ‘‘ کے ایک نابینا عالم دین یاد آ رہے ہیں … معلوم نہیں وہ حیات ہیں
یا نہیں… بہت پہلے ان سے ملاقات ہوئی تھی… ان کا نام شیخ عمران تھا اور وہ مصر کے رہنے
والے تھے…شارجہ میں جہاں ہمارا قیام تھا … وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک مسجد کے وہ امام
و خطیب تھے… پہلی ملاقات میں ہی دوستی بن گئی…وہ جہاد کے شیدائی اور صاحب علم آدمی
تھے… جہاد کشمیر کا سن کر فوراً حضرت مولاناانور شاہ کاشمیری ؒ کا تذکرہ لے کر بیٹھ
گئے … حضرت کی علمی تحقیقات کے وہ معترف تھے … اُن کی ایک عادت نے مجھے بہت متاثر کیا…
وہ تقریباً اکثر وقت مسکراتے رہتے تھے… اور اچانک بیٹھے بیٹھے یوں گہری مسکراہٹ میں
ڈوب جاتے جیسے انہیں اندر سے کسی نے گدگدایا ہو… یہ شکرِ نعمت اور مراقبہ منعم کی کیفیت
ہوتی ہے… یعنی اللہ تعالیٰ کے انعامات، احسانات اور صفات سوچ سوچ کر خوش ہونااور ان
پر شکر ادا کرنا… یہ بڑی اونچے درجے کی عبادت ہے… آنکھوں سے محروم ایک شخص کو یہ عبادت
ایسی نصیب تھی کہ… آنکھوں والے بھی اس پر رشک کرتے رہ جائیں…
آپ صرف زندگی کا ایک
دن اس طرح گزاریں کہ… مسلسل نعمتوں کے مراقبے میں رہیں اور مسکرا مسکرا کر اللہ تعالیٰ
کا شکر ادا کرتے رہیں… تب معلوم ہو گا کہ یہ کتنی عظیم عبادت ہے… اور یہ ہم جیسے ناشکرے
لوگوں کے لئے کس قدر مشکل ہے … اللہ تعالیٰ ہمیں شکر گذار بندہ بنائے…عرض کرنے کا مطلب
یہ ہے کہ … نیکیاں بے شمار ہیں…بس نیکی کی نیت اور جذبہ پیدا ہو جائے… ایک بار حضور
اقدس ﷺ نے صدقہ یعنی نیکی کے کام ارشاد فرماتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ… اپنی بیوی سے
ہمبستری بھی صدقہ ہے… اس پر صحابہ کرام میں سے بعض نے حیرت سے سوال کیا تو آپ ﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ… اگر وہ یہ کام غلط جگہ کرتا تو کتنا گناہگار ہوتا… یعنی گناہ سے بچنے
کی ہر کوشش یہ بھی نیکی ہے… اب بازار میں کام کرنے والے جب نظر کی حفاظت کریں گے… جھوٹی
قسموں اور دھوکے سے بچیں گے تو وہ بھی بے شمار نیکیوں کے مالک بن جائیں گے… اس لئے
ہر شخص ان مبارک ایام میں اپنے کام اور مشغولیت کے مطابق… نیکیوں کا ایک نصاب بنا لے
اور ان دس دنوں میں… اپنی پرانی ساری زندگی کی کمی کوتاہی کا ازالہ کر لے… اس سلسلہ
میں تازہ کتاب’’ افضل ایام الدنیا‘‘ آپ کے بہت کام آ سکتی ہے ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ،
لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا
محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭