مسلمان جیت رہا ہے
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ611)

اللہ تعالیٰ نئے ہجری سال کو ہم سب کے لئے ’’مبارک‘‘ بنائے… خیر والا، برکت والا، نور والا، نصرت والا، فتوحات والا اور ہدایت والا… اور ہمیں اس سال کے تمام شرور سے اپنی پناہ اور حفاظت عطاء فرمائے…

سال کا نام

ابھی پانچ دن پہلے جو نیا ہجری ، قمری ، اسلامی سال شروع ہوا ہے… اس کا نام ہے سن ۱۴۳۹ ہجری…یعنی حضور اقدس ﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جو ہجرت فرمائی تھی … اس ہجرت کو چودہ سو اڑتیس سال پورے ہوئے … اور چودہ سو اُنتالیسواں سال شروع ہو گیا …یا اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ چودہ صدیاں پوری ہوئیں…اور پندرہویں صدی کا بھی اُنتالیسواں سال شروع ہوگیا…

سبحان اللہ! ہجرت، ہجرت، ہجرت… جی ہاں! ہجرت ایک مسلمان کے لئے شکست نہیں بلکہ فتح کا دروازہ ہے… ہجرت سے ایمان اُبھرتا ہے، ہجرت سے جہاد کھڑا ہوتا ہے …ہجرت سے زمین کھلتی ہے… ہجرت سے فتوحات آتی ہیں … آج بھی مسلمانوں میں ہجرت زندہ ہے… جہاد زندہ ہے…

پندھوریں صدی آدھی گذرنے کو ہے… مگر قرآن بالکل وہی کا وہی ہے… اسلام بالکل اپنی اصلی حالت پر محفوظ ہے… اسی لئے کہتا ہوں کہ… مسلمان جیت رہا ہے … مسلمان جیت رہا ہے…

سال کی مختصر تفصیل

مسلمانوں کا سال ’’قمری‘‘ ہوتا ہے… یعنی اس کا تعلق ’’چاند‘‘ کے ساتھ ہے…سورج کے ساتھ نہیں…قمری سال تقریباً تین سو پچپن دنوں کا ہوتا ہے… یعنی شمسی سال سے تقریباً دس دن چھوٹا… اسلامی قمری سال کے پہلے مہینے کا نام ’’محرم الحرام‘‘ اور آخری مہینے کا نام ’’ذوالحجہ‘‘ ہے… اسلامی سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے زیادہ احترام اور حرمت والے ہیں…پہلا مہینہ محرم اور آخری مہینہ ذوالحجہ بھی … حرمت والے چار مہینوں میں شامل ہیں… اسلامی تاریخ مغرب کے وقت سے شروع ہوتی ہے… یعنی اذان سے اس کا آغاز ہوتا ہے… اسلامی سال کبھی گرمیوں میں شروع ہوتا ہے کبھی سردیوں میں … کبھی خزاں میں کبھی بہار میں … جبکہ شمسی سال ہمیشہ سردیوں میں شروع ہوتا ہے… حضرات خلفاء راشدین بڑے باذوق اور ’’ملہم من اللہ‘‘ تھے … جب اسلامی سال کی ترتیب شروع کرنے کا مشورہ ہوا تو… حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مشورے کو ترجیح دی…اور اسلامی تاریخ کا آغاز حضور اقدسﷺ کی ہجرت سے فرما دیا… اس میں یہ بات سمجھائی گئی کہ…ہجرت جو کہ بظاہر ایک شکست نظر آتی ہے حقیقت میں بڑی فتح ہے… ظاہری طور پر ہجرت میں یہ نظر آتا ہے کہ… آپ دشمنوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنا وطن چھوڑ آئے … اپنا گھر ،اپنا مال سب دشمنوں کے ہاتھوں میں دے آئے… آپ بے وطن اور بے سہارا ہو گئے …آپ بے گھر اور بے آسرا ہو گئے… مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا… ہجرت ایک مسلمان کو بہت بلند کر دیتی ہے… اسے آسودہ حال اور بامقام بنا دیتی ہے… اس کے لئے فتوحات کے دروازے کھول دیتی ہے … اور اس کے سابقہ سارے گناہ معاف کرا دیتی ہے… ہجرت رہے گی تو مسلمانوں میں جہاد رہے گا… ہجرت ختم تو بہت کچھ ختم… اللہ تعالیٰ آپ کو اگر موقع دے تو ان آیات مبارکہ اور ان احادیث کو پڑھ لیجئے جو ہجرت کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں… یقیناً آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی… ہجرت دراصل غیرت کا دوسرا نام ہے… مسلمان ایسی جگہ رہنا گوارہ نہیں کرتا جہاں اسلام مغلوب ہو، جہاں اسلامی شعائر پر پابندی ہو… ایسی جگہ مسلمان یا تو مزاحمت کرتا ہے… اور اگر مزاحمت کی طاقت نہیں پاتا تو وہاں سے ہجرت کر جاتا ہے… کیونکہ اسلام کو مغلوب دیکھنا اور اسلامی شعائر کے خلاف سمجھوتہ کرنا یہ مسلمان کے بس میں نہیں ہے… چنانچہ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر دوسری زمین کی طرف چلا جاتا ہے … تاکہ وہاں قوت اور ٹھکانہ پا کر… جہاد کے لئے خود کو تیار کرے اور پھر اپنی سرزمین پر اسلام کے غلبے کے لئے جنگ کرے…

ابھی جب نیا سال سن ۱۴۳۹ ہجری شروع ہوا تو بندہ نے ایک مختصر مکتوب جاری کیا جس میں یہ بھی لکھا کہ… مسلمان جیت رہا ہے… تب کئی افراد نے حیرت کا اظہار کیا… اور برما کی مثال پیش کر کے پوچھا کہ… کیا برما میں بھی مسلمان جیت رہا ہے؟… جی ہاں برما میں بھی مسلمان جیت رہا ہے… اگر برما کا مسلمان اپنا گھر بچانے کے لئے … نعوذ باللہ اسلام کو چھوڑ دیتا… اپنی جان بچانے کے لئے ’’بدھ مت‘‘ کا مذہب اختیار کر لیتا… حکومتی عہدے اور امن حاصل کرنے کے لئے دین اسلام سے ہٹ جاتا تو پھر ہم کہہ سکتے تھے کہ… مسلمان ہار رہا ہے… مگر برمی ماں ، بہن ،بیٹی نے… اسلام کو سینے سے لگائے رکھا … برما کے بزرگوں اور نوجوانوں نے اپنے دین پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا… انہوں نے مسلمان ہونے کی سزا کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا … تو پھر ہم کیوں نہ کہیں کہ برما کا مسلمان بھی جیت رہا ہے … آج اگر یہ جملہ کہنے والا میں اکیلا ہوں تو دیکھ لینا آگے چل کر ان شاء اللہ… ساری دنیا کہے گی کہ برما کا مسلمان جیت رہا ہے … مسلمان کا اسلام پر رہنا اس کی جیت ہے … مسلمان کا ہجرت پر آنا اس کی جیت ہے… مسلمان کا جہاد پر کھڑا ہونا اس کی جیت ہے… مسلمان کا جہاد میں شہید ہونا اس کی جیت ہے … مسلمان کی جیت اور ہار کا بس ایک ہی معیار ہے…مسلمان اگر ایمان پر رہے اور ایمان کا تقاضا پورا کرے تو وہ جیت گیا… اسے فتح مل گئی… خواہ اس کی لاش کو پرندے نوچ رہے ہوں… اور مسلمان اگر خدانخواستہ ایمان سے ہٹ جائے یا ایمان کے تقاضے پورے نہ کرے تو پھر اس کے لئے شکست ہے… خواہ وہ… امریکہ کا صدر یا برطانیہ کا وزیراعظم بن جائے…

دیکھو قرآن مجید صاف فرما رہا ہے

وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُوْمِنِیْنَ

تم ہی فاتح ہو… اگر تم ایمان پر ہو…

مبارکباد دینے کا عمل

سنا ہے کہ سوشل میڈیا پر بحث چل نکلی ہے کہ…نئے اسلامی سال کی مبارکباد دینا جائز ہے یا نہیں؟… بندہ نے اپنے مکتوب میں ’’مبارکبار‘‘ نہیں دی تھی… برکت کی دعاء دی تھی… نیا مہینہ نیا سال مسلمانوں کو مبارک ہو … برکت کی دعاء دینا بلاشبہ جائز بلکہ مستحسن ہے… جبکہ نئے سال کی باقاعدہ ایک دوسرے کو مبارکباد دینا… سنت سے ثابت نہیں… لیکن چونکہ نیا سال نصیب ہونا ایک نعمت ہے تو ایسے موقع پر… ایک دوسرے کو دعاء کی نیت سے کلمات تبریک کہنے میں کوئی حرج نہیں… مگر اس کو باقاعدہ رسم نہ بنا لیا جائے…

دارالعلوم دیوبند سے لے کر… جامعہ بنوری ٹاؤن تک کا یہی فتویٰ ہے… سوشل میڈیا برادری اپنی مکھی مار عادت کی وجہ سے… بس اسی طرح کی بحثوں میں الجھی رہتی ہے… عالم کفر نے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی ہر کوشش کر لی … اسلام کو بدلنے اور قرآن مجید میں تبدیلی لانے کے لئے…ہزاروں ہوش ربا سازشیں بروئے کار لائی گئیں… مگر پندرھویں صدی میں بھی… حالت یہ ہے کہ… حضرت آقا مدنی ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے… اپنے محفوظ قلعوں میں مارے جاتے ہیں… اور جو بچ جاتے ہیں وہ پوری زندگی خوف اور ذلت میں گذارتے ہیں…اور سوشل میڈیا جیسے کافرانہ محاذ تک میں حالت یہ ہے کہ …ایک انڈین گویّا اذان کے خلاف چند ٹوئیٹس کرنے پر ایسا گھبرایا کہ… اسے اپنا سر منڈوانا پڑا…

جی ہاں اسی لئے کہتا ہوں… اور بطور شکر کے عرض کرتا ہوں کہ…پندرھویں صدی آدھی گذرنے کو ہے… اسلام اور مسلمانوں پر لاکھوں طوفان آئے اور گذر گئے… مگر آج بھی کعبہ شریف شان سے کھڑا ہے… اسلام مسکرا رہا ہے اور مسلمان جیت رہا ہے…

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭