اندرونی صفات
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ610)
اللہ تعالیٰ ہمیں اچانک
آنے والی ’’خیر‘‘ عطاء فرمائے… اور اچانک آنے والے ’’شر‘‘سے بچائے…
اَللّٰھُمَّ اِنَّا
نَسْئَلُکَ مِنْ فُجَائَ ۃِالْخَیْرِ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ فُجَائَ ۃِ الشَّرِّ
اچانک
، اچانک
انسان سو رہا ہوتا ہے
کہ اچانک کوئی ’’خیر‘‘ آ جاتی ہے… وہ اسے جگاتی ہے اور اس کی زندگی خوشی اور روشنی
سے بھر جاتی ہے… مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان سو رہا ہوتا ہے…اچانک کوئی شر آتا
ہے اسے جگاتا ہے اور ا س کی زندگی کو غم، دکھ اور کانٹوں سے بھر دیتا ہے… میں نے اپنی
زندگی میں اچانک آنے والی بڑی بڑی خیریں دیکھیں … الحمد للہ رب العالمین… اور اچانک
آنے والے بڑے بڑے شر بھی دیکھے… الحمد للہ رب العالمین علی کل حال
یہی حال آپ سب کا ہو
گا… آپ نے بھی اپنی زندگی میں کئی اچانک خیریں اور کئی اچانک شر دیکھے ہوں گے… حدیث
شریف میں دعاء سکھا دی گئی کہ… اللہ تعالیٰ سے اچانک آنے والی خیر مانگ لیا کرو… اور
اچانک آنے والے شر سے پناہ مانگا کرو… اچانک آنے والا شر انسان کے ہوش و حواس اُڑا
دیتا ہے… اکثر لوگوں کی قوت فیصلہ فوراً کام نہیں کرتی… اس لئے جب اچانک ’’شر‘‘ آتا
ہے تو انسان کئی غلط فیصلے کر بیٹھتا ہے … کئی غلط قدم اُٹھا لیتا ہے… اچانک آنے والے
شر کا مقابلہ ہر کوئی نہیں کر سکتا… کئی لوگ تو ایسے گھبرا جاتے ہیں کہ… نعوذ باللہ
کفر و شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں … اسی لئے دعاء مانگا کریں
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ فُجَائَ ۃِالْخَیْرِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ فُجَائَ ۃِ
الشَّرِّ
کیا
کرنا چاہیے؟
قرآن مجید نے اس موضوع
پر بار بار رہنمائی فرمائی ہے… اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے…
قرآن مجید نے ایک لحظے میں مسئلہ حل فرما دیا… خیر آئے تو نیکی میں لگ جاؤ شر آئے
تو صبر اختیار کرو… بس یہی کامیابی کا راستہ ہے… حالات بدلتے رہتے ہیں… ابھی دیکھیں
کہ ہمارے برما کے مسلمان بھائی اپنے گھروں میں تھے… اپنا گھر اپنا ہوتا ہے… کچا ہویا
پکا… انسان کو اس میں راحت اور عزت کا احساس ہوتا ہے… مگر اچانک حالات بدلے اور وہ
پناہ گزینوں کی زندگی گذارنے پر مجبور ہو گئے …اسلام میں تو ہجرت بہت اعزاز والی چیز
ہے … مگر اللہ تعالیٰ معاف فرمائے ہم نے ’’قرآن مجید‘‘ کو چھوڑا تو ہماری ذہنیت ہی
بدل گئی… اب مسلمانوں میں بھی ’’مہاجر‘‘ کو نعوذ باللہ حقیر سمجھا جاتا ہے… اللہ تعالیٰ
نے اسلام میں پہلا نمبر ’’مہاجرین‘‘ کو عطاء فرمایا… اللہ تعالیٰ نے ’’ایمان‘‘ میں
پہلا نمبر ’’ مہاجرین‘‘ کو عطاء فرمایا … اللہ تعالیٰ نے مال فئے جو کہ پاکیزہ ترین
مال ہے اس میں پہلا نمبر’’ مہاجرین‘‘ کو عطاء فرمایا… اللہ تعالیٰ نے درجات میں سب
سے اونچا درجہ ’’ مہاجرین‘‘ کو عطاء فرمایا… اللہ تعالیٰ نے ’’ مہاجرین‘‘ کے لئے خصوصی
فضائل اور خصوصی احکامات کی آیات نازل فرمائیں… اور مسلمانوں کو شوق دلایا کہ وہ اُن
مہاجرین کے مددگار اور ’’انصار‘‘ بنیں…تب اُن کو بھی اونچے اونچے مقامات ملیں گے… مگر
ہمارے ہاں نعوذ باللہ نعوذ باللہ ہجرت ایک عیب… اور ’’مہاجر‘‘ ایک گالی بن گئے… لوگ
انہیں دیتے ہیں مگر حقارت کے ساتھ… کئی لوگ اُن کی خدمت کرتے ہیں مگر بوجھ سمجھ کر…
ہجرت کا دروازہ بند ہوتا ہے تو مسلمان عمومی جہاد سے محروم ہو جاتے ہیں… اور جب مسلمان
جہاد سے محروم ہوتے ہیں تو وہ عمومی عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں…برما کے مسلمانوں کی
حالت اچانک بدلی وہ ایک دم مقیم سے مسافر بن گئے… اور اُن کو ہجرت کی پناہ گزین زندگی
اختیار کرنی پڑی… کل تک اپنا گھر تھا… آج کچھ بھی اپنا نہیں
یُقَلِّبُ اللّٰہُ
اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ
ایسا ہم میں سے کسی کے
ساتھ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے… بعض اوقات خیر اچانک آ جاتی ہے … اور بعض اوقات شر اچانک
آ جاتا ہے… خیر آ جائے تو مسلمان کو غافل نہیں ہونا چاہیے بلکہ زیادہ سے زیادہ نیکی
کرنی چاہیے…اور شر آ جائے تو مسلمان کو مایوسی میں نہیں گرنا چاہیے بلکہ صبر اختیار
کرنا چاہیے… اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے حالات پر غور کرنا چاہیے اور اس شر کو خیر میں
بدلنے کی تدبیر کرنی چاہیے… تب ایک مومن کے لئے کامیابی ہی کامیابی ہے… خیر میں بھی
کامیابی اور شر میں بھی کامیابی…
وَنَبْلُوْکُمْ
بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃ
اندر
کی صفات
ایک بہت عجیب نکتہ سمجھیں…
اگر انسان اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگ کر اپنے اندر اچھی صفات پیدا کرے تو … یہ صفات
خیر کے وقت بھی اس کے کام آتی ہیں اور شر کے وقت بھی… ایک شخص کا قصہ ہے کہ… وہ اچانک
شر کی لپیٹ میں آ گیا … اپنے گھر سے دور بہت دور جا پہنچا… نہ مال نہ کوئی زاد راہ…
بس ایسے تھا کہ کسی شخص کو اچانک گھر سے اُٹھا کر قبر میں دفن کر دیا گیا ہو… نہ روٹی،
نہ کپڑا، نہ ٹھکانہ… مگر اس نے اپنے اندر ایک صفت روشن کر رکھی تھی… وہ قرآن مجید
کا حافظ تھا، اچھا قاری اور قرآن پاک کو سمجھنے والا… ایک نئی بستی میں پہنچا تو مسجد
میں جا بیٹھا… پہلے پہل لوگوں نے مسافر سمجھ کر تھوڑا سا کھانا لا دیا… پھر جب اس کے
قرآنی انوارات روشن ہونے لگے تو وہ پوری بستی اس کی اپنی ہو گئی… بستی والے اس سے
قرآن مجید پڑھنے لگے، کسی نے اپنا گھر اسے دے دیا… ایک مالدار مسلمان نے اسے اپنا
داماد بنا لیا… وہ رو رو کر شکر ادا کرتا تھا کہ یا اللہ قرآن پاک تو قبر کی تنگی،
تنہائی ، آخرت کی کامیابی اور آپ کی رضاء کے لئے پڑھا تھا مگر اس نے تو میری دنیا
کو بھی قبر بننے سے بچا لیا… یہ سارا منظر دیکھ کر اس کے ایمان اور اخلاص میں مزید
ترقی ہو گئی… ہندوستان کے مغل شہزادے جب اچانک شر کا شکار ہوئے… ایک ہی دن میں بادشاہ
سے بھکاری بنا دئیے گئے تو جن جن کے اندر داخلی صفات تھیں وہ ضائع نہیں ہوئے… نہ کفر
میں مبتلا ہوئے اور نہ محتاجی میں… مگر جو داخلی صفات سے محروم تھے… اور صرف خاندان
کی نسبت سے شہزادے بنے ہوئے تھے وہ بڑی مصیبت اور بڑے فتنوں کا شکار ہو گئے… اگر ان
کے اندر دین کا اور ایمان کا علم ہوتا تو اللہ تعالیٰ سے بدگمان نہ ہوتے… انسان جب
اللہ تعالیٰ سے بدگمان ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے چھوڑ دیا ہے تو پھر
وہ کہیں کا بھی نہیں رہتا… کبھی کفر میں گرتا ہے کبھی شرک میں… اور کبھی غلامی اور
محتاجی کی ذلت سے دوچار ہوتا ہے…
مسلمانوں کو چاہیے کہ…
اپنے باطن کی تعمیر کریں… اپنے اندر صفات پیدا کریں… ایمان کی صفت، علم کی صفت … اور حلال روزی کمانے کے لئے مختلف فنون سیکھنے کی صفت…
تب اچانک شر آ جانے کی صورت میں… وہ خود کو بے بس محسوس نہیں کریں گے اور تب اُن کی
اندر کی صفات باہر نکل کر … اُن کے ایمان، اُن کی عزت اور اُن کے مسائل کو سنبھال لیں
گی… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو حقیقی داخلی صفات عطاء فرمائیں…
ایک
مثال دیکھیں
افغانستان پر سوویت یونین
نے حملہ کیا تو … لاکھوں افغان مسلمانوں کو ہجرت کرنی پڑی … افغانستان کے مسلمان جفاکشی
اور سادہ زندگی گذارنے کے عادی ہیں… انہوں نے ہجرت کی تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت
کیا تو… اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیاب ترین جہاد کی نعمت عطاء فرمائی… انہوں نے سوویت
یونین کو ختم کیا… اور پھر امریکہ اور نیٹو ممالک کو بھی شکست سے دو چار کیا… افغان
مہاجرین حضرات میں جو… اندرونی صفات سے مالا مال تھے… انہوں نے ہجرت کے چند دن ہی تکلیف
میں گذارے … اور پھر اُن کی اندرونی صفات نے …انہیں معزز بھی بنا دیا اور مالدار بھی
…اللہ تعالیٰ ’’ اہل صلاحیت‘‘ پر بہت مہربانی فرماتے ہیں… کیونکہ یہ ’’اہل صلاحیت‘‘
اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے ہوتے ہیں… یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے وقت کو ضائع
نہیں کرتے بلکہ اس وقت کو قیمتی بنا کر … اس میں خود کو باصفات اور باصلاحیت بناتے
ہیں… افغان مہاجرین میں سے جو اہل علم تھے … انہیں ہر کسی نے ہر جگہ آنکھوں پر بٹھایا…
جو اہل ہنر تھے انہوں نے ہر جگہ عزت پائی… اور جو اہل امانت تھے وہ بھی مسلمانوں کی
آنکھوں کا تارا بنے… اور سب سے زیادہ کامیاب وہ مہاجرین رہے جنہوں نے… ہجرت کے بعد
جہاد کے راستے کو اختیار کیا… بس دارالہجرت میں اپنے بچوں کے سر چھپانے کا انتظام کیا
اور فوراً جہاد کی طرف لپکے… اُن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی نعمتوں سے مالا
مال فرما دیا… اور اُن کے اہل و عیال کو بھی اللہ تعالیٰ نے خوب وسعت اور فراوانی عطاء
فرمائی… لیکن جو مہاجرین اندرونی صفات سے خالی تھے تو وہ طرح طرح کے گناہوں ، جرائم
اور خرابیوں میں مبتلا ہوئے… کئی نعوذ باللہ ایمان سے محروم ہوئے اور کئی اپنی تہذیب
اور قوم تک سے کٹ گئے…
حالات
کسی پر بھی آ سکتے ہیں
حالات بدلنے کا کچھ پتا
نہیں چلتا… مجھے یاد ہے کہ کوٹ بھلوال جیل میں جمعہ کے دن میں نیند سے اٹھا تو قید
کی حالت میں تھا… مگر اچانک رہائی کا عمل اتنی تیزی سے شروع ہوا کہ زندگی ایک دم سے
بدل گئی… اس سے چھ سال پہلے میں آزاد فضاؤں میں گھوم رہا تھا ایک دن کمانڈر حافظ
سجاد شہیدؒ کے ساتھ پرانی یادوں پر باتیں ہو رہی تھیں کہ اچانک انڈین آرمی نے گھیر
لیا تو ہماری زندگی… ایک تاریک کوٹھڑی تک محدود ہو گئی…
ہر انسان کے ساتھ حالات
بدلنے کا یہ عمل کسی وقت بھی ہو سکتا ہے… اس لئے خود کو ہر طرح کے حالات کے لئے تیار
رکھنا چاہیے… اپنے وقت کو قیمتی بنا کر اور اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگ کر اپنے اندر
داخلی صفات پیدا کرنی چاہئیں… قرآن پاک کے ساتھ خوب دوستی بنانی چاہیے… کیونکہ یہ
تو کسی بھی وقت ہو سکتا ہے کہ ہماری جان نکل جائے تو ہمیں قبر میں دفن کر دیا جائے…
اپنے قرضے ادا کر دینے چاہئیں… اپنے پاس موجود مال کے بارے میں بھی تفصیل لکھ رکھنی
چاہیے کہ… کون سا اپنا ہے کون سا کسی اور کا اور کون سا اجتماعی… اور آخرت کے بارے
میں زیادہ سے زیادہ سوچنا چاہیے تاکہ… دنیا کے حالات ہی ہمیں سب کچھ محسوس نہ ہوں…
اللہ تعالیٰ ہمیں …اچانک
آنے والی خیریں کثرت سے عطاء فرمائے… اور اچانک آنے والے شرور سے ہماری حفاظت فرمائے
اَللّٰھُمَّ اِنَّا
نَسْئَلُکَ مِنْ فُجَائَ ۃِالْخَیْرِ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ فُجَائَ ۃِ الشَّرِّ
لا الہ الا اللہ،
لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا
محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭…٭…٭