محبت اور عشق
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے
قلم سے (شمارہ 619)
اللہ تعالیٰ کا وہ عاشق
بندہ… ’’دمشق‘‘ میں پیدا ہوا… پھر وہاں سے مصر کے شہر ’’دمیاط‘‘ جا بسا … ’’دمیاط‘‘
کے مضافات میں ’’الطینہ‘‘ نامی مقام پر… ایک معرکہ میں ’’شہید‘‘ ہوا… واپس ’’دمیاط
‘‘ لایا گیا… جہاں وہ مدفون ہوا… آج اُس کی یاد بہت شدت سے آ رہی ہے… اُس کی زندہ
کتاب میرے سامنے رکھی ہے… اور اُس کی کامیاب زندگی کے حسین نقشے میرے سامنے مسکرا رہے
ہیں … سلام اے شہید اسلام
کون تھا وہ
تاریخ پیدائش کہیں نہیں
ملی… پہلے بھی تلاش کی تھی، آج پھر ڈھونڈی… ہر جگہ بس تاریخ وفات … یعنی تاریخ شہادت
درج ہے… جمادی الآخر کا مہینہ اور ۸۱۴ھ… ویسے اس اللہ والے فقیر کی حقیقی زندگی ، حقیقی
حیات اسی تاریخ سے شروع ہوئی… یعنی آج سے تقریباً چھ سو سال پہلے… وہ ’’دمشق‘‘ میں
پیدا ہوئے… ’’دمشق‘‘ بھی عجیب جگہ ہے… عشق ہی عشق ہے… برکت والی سرزمین… حضرات انبیاء
علیہم السلام کی سرزمین… زمین پر جنت کی جھلک… اللہ تعالیٰ ملک شام اور دمشق کو آزادی
عطاء فرمائے … وہاں پھر جہاد اُٹھا ہے اور اب عالمی جہادبنتا جا رہا ہے… مجوسیوں، ایرانیوں،
نصیریوں، حوثیوں ، حزبیوں، روسیوں، امریکیوں… اور اسرائیلیوں کے لشکر وہاں تحریک جہاد
کو کچلنے کی اپنی اپنی کوشش کر رہے ہیں… مگر یہ جہاد ان شاء اللہ ایک بار ماند پڑنے
کے بعدبڑی شدت سے اُبھرے گا… ہاں تو وہ اسی ’’دمشق‘‘ میں پیدا ہوئے… دین کا علم پڑھا اور پھر اس کا حق ادا کر دیا… تفسیر و حدیث کے ساتھ
ساتھ علم فرائض یعنی میراث کے ماہر تھے… حساب اور ہندسہ کے متبحر تھے… فقہ میں امام
مانے جاتے تھے …ساتھ ساتھ داعی بھی تھے…دین اور اصلاح کی دعوت دینے والے … اُن کے زمانے
میں ایک طرف فرنگیوں کی عالم اسلام پر یلغار تھی تو دوسری طرف تاتاری سرگرم تھے… مسلمانوں
میں تیمور لنگ کا شور تھا… تب آپ دمشق سے مصر کی طرف روانہ ہوئے… دراصل ’’محاذ جنگ‘‘
کا قرب چاہتے تھے… اسلامی سرحد کی ’’رباط‘‘ یعنی پہرے داری کے مزے لوٹنا چاہتے تھے…
اور وہ مٹی بھی اُنہیں اپنی طرف بلا رہی تھی جہاں اُنہوں نے اپنے خون سے عشق کی بازی
جیتنی تھی… اور جہاں گر کر اور پچھڑ کر انہوں نے اپنی محبت کو پانا تھا، دبوچنا تھا
… دمشق کے اس سراپا عشق کا نام ’’احمد‘‘ تھا… والد کا اسم گرامی ’’ابراہیم‘‘ دادا کا
نام نامی ’’محمد‘‘… یوں پورا نام بنا’’ احمد بن ابراہیم بن محمد‘‘… بیٹے کا نام زکریا
تھا تو کنیت’’ابو زکریا‘‘ پائی… دین کی شاندار،جاندار
اور ایماندار خدمات کے اعتراف میں اہل علم نے ان کو ’’محی الدین‘‘ کا لقب دیا تھا وہ
بھی نام کا حصہ بنا… دمشق اور دمیاط بھی ان کے نام میں شامل ہوئے… اور اُن کا مشہور
عرف ’’ابن النحاس‘‘ پورے نام پر غالب رہا… پھر شہادت پائی تو’’ شہید‘‘ بھی کہلائے اور
یوں پورا نام بنا… الشیخ ، الشہید محی الدین ابوزکریا احمد بن ابراہیم بن محمد ابن
النحاس الدمشقی الدمیاطی… حضرت علامہ ابن العماد ؒ نے ان کے تذکرے میں لکھا ہے کہ وہ
’’الشیخ، الامام ، العلامہ ، القدوہ‘‘ تھے… اور ’’داعیۃ الصلاحی ‘‘ بھی تھے… یعنی اصلاح
کے داعی… علامہ ابن حجر رحمہ اللہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
کان ملازما للجہاد
بثغردمیاط وفیہ فضیلۃ تامۃ وجمع کتاباحافلا فی احوال الجہاد فقتل فی المعرکۃ مقبلا
غیرمدبر
(
ترجمہ) وہ دمیاط کے محاذ پر جہاد کو لازم پکڑے ہوئے تھے اور یہی اُن کی فضیلت کے لئے
کافی ہے اور انہوں نے جہاد پر ایک بڑی کتاب لکھی اور وہ ایک جنگ میں اس حالت میں شہید
ہوئے کہ وہ پیش قدمی کر رہے تھے… اور انہوں نے پیٹھ نہیں دکھائی…
کتاب کا عجیب نام
دمشق کے اس صادق عشق نے
جہاد پر ایک کتاب لکھی ہے… ویسے وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں… اُن کی ایک اصلاحی کتاب
کا نام ’’ تنبیہ الغافلین‘‘ ہے… ایک کتاب کا نام ’’ المغنم ‘‘ بھی ہے… شاید یہ دعاؤں
کی کتاب ہے… چونکہ خود پورے کے پورے ’’عشق‘‘ تھے اس لئے ’’عشق‘‘ کے سارے ’’اجزاء‘‘
اُن میں بھرپور تھے … مثلاً علم ، جہاد ، شوقِ شہادت، ذوقِ دعاء، شانِ عبادت وغیرہ
…بے شک ’’علم‘‘ اگر سچا ہو تو ’’ جہاد‘‘ کی طرف ضرور لے جاتا ہے… اور ’’جہاد‘‘ اگر
سچا ہو تو ’’علم‘‘ سے پیار ضرور سکھاتا ہے… اُن کی اور کتابیں معلوم نہیں دستیاب ہوں
گی یا نہیں … مگر ’’جہاد‘‘ پر انہوں نے جو کتاب لکھی وہ اب تک زندہ ہے، تابندہ ہے…
روز اول کی طرح عشق سے بھرپور اور تاثیر سے معمور ہے… مصنفؒنے کتاب کا نام بھی عجیب
رکھا ہے… مشارع الاشواق الی مصارع العشاق… ’’مشارع‘‘ کہتے ہیں راستوں کو ، راہوں کو…
’’الاشواق‘‘ یہ شوق کی جمع ہے… یعنی شوق کی راہیں، محبت کے راستے… مگر کس طرف؟… ’’
الی مصارع العشاق‘‘ … عاشقوں کے قتل ہو کر گرنے کے مقامات کی طرف … ’’مصارع‘‘ جمع ہے
’’مصرع‘‘ کی… پچھڑنے کی جگہ ، قتل ہو کر گرنے کی جگہ… مقتل… شہادت گاہ… اور ’’العشاق‘‘
جمع ہے عاشق کی… یعنی شوق اور محبت کے وہ راستے جو سچے عاشقوں کو اُن کی منزل کی طرف
لے جاتے ہیں… اور عاشقوں کی منزل… اُن کی قتل گاہ، شہادت گاہ… یا مقام شہادت ہے… وہ
قتل ہو کر اپنی منزل پر گرتے ہیں اور اسے پا لیتے ہیں… عشق کی یہ منزل… قتل ہوئے بغیر
نہیں مل سکتی… شہید ہوئے بغیر نہیں پائی جا سکتی … اور اسی کتاب کا دوسرا نام یا نام
کا دوسرا حصہ بھی بہت عجیب ہے… مثیرالغرام الی دار السلام… عاشقوں کو جنت کی طرف اُبھارنے
والی…
سبحان اللہ وبحمدہ…
سبحان اللہ العظیم
سچی دعوت کی عجیب تاثیر
سچی دعوت… سب سے پہلے خود
دعوت دینے والے پر اثر کرتی ہے… بالکل اُس مشہور زمانہ حریص کی طرح… جس سے پوچھا گیا
کہ تمہارے حرص کا کیا حال ہے؟… کہنے لگا:میرا حرص اتنا بڑھا ہوا ہے کہ… جب کبھی شہر
کے بچے مجھے تنگ کرتے ہیں تو میں انہیں بھگانے کے لئے ویسے ہی کہہ دیتا ہوں کہ… فلاں
جگہ مٹھائی بٹ رہی ہے… وہ بچے ادھر بھاگتے ہیں تو میرا حریص نفس اچھلنے لگتا ہے کہ
کہیں واقعی مٹھائی بٹ نہ رہی ہو… چنانچہ میں ان سے آگے دوڑ کر اس جگہ پہنچ جاتا ہوں…
سچے داعی کی یہی حالت ہوتی
ہے… وہ دوسروں کو دعوت دیتا ہے مگر اس دعوت کا زیادہ اثر خود پر محسوس کرتا ہے… اور
یوں وہ سب سے آگے نکل جاتا ہے… اپنے عمل کا اجر الگ، دعوت کا اجر الگ… دعوت کے بعد
عمل میں مزید پختگی کا اجر الگ… اور دعوت کے نتیجے میں عمل کرنے والوں کا اجر الگ…
درجے ہی درجے، مقامات ہی مقامات… حضرت علامہ ابن النحاس رحمہ اللہ نے اُمت کے درد میں
تڑپ کر… اور عشق الہٰی میں ڈوب کر… جو کتاب لکھی اور اس کا نام’’شوق کے راستے‘‘ منتخب
کیا تو… پھر خود بھی شوق کی انہیں راہوں میں گہرے اُترتے چلے گئے… وہ اپنے زمانے کے
علمی امام تھے… چاہتے تو علم کی دنیا کے تاجدار بنے رہتے… وہ بزرگ اور صاحب نسبت تھے…
چاہتے تو اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ کی مسند کو رونق بخشتے… مگر عشق کی راہیں… محبت
کے راستے اُن کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتے تھے… چنانچہ وہ مسلسل دس سال تک جہاد میں
لگے رہے … اور رباط میں جمے رہے… اُن کے ہاں ’’جہاد‘‘ کوئی وقتی چیز یا عارضی جذبہ
نہیں تھا… وہ تو جہاد میں … اپنا وہ ’’مصرع‘‘ تلاش کر رہے تھے … جہاں انہوں نے لہولہان
ہو کر اپنی ’’محبت‘‘ کو دبوچنا تھا… اور اپنی منزل کو پانا تھا…
دعوت سچی تھی… داعی بھی
سچا تھا… اس کا درد بھی سچا تھا… اور اس کی آہیں بھی سچی تھیں … چنانچہ اللہ تعالیٰ
نے فضل فرمایا اور پھر… علم سیدھا عمل سے جا ملا… دعوت سیدھی کردار کے گلے جا لگی…
قول نے صداقت کے ہونٹوں کو چوما … اورجہاد کا داعی اور شہادت کا داعی… شہادت کے حیات
افزا جام پینے میں کامیاب ہو گیا… آج کل ہم حضرت شہید ابن النحاس کی کتاب کا … اٹھائیسواں
اور انتیسواں باب مطالعہ کر رہے ہیں … اسی مناسبت سے آج حضرت علامہ شہید بھی بہت یاد
آئے… اور پیارا طلحہ شہید بھی خیالوں میں… خوب مسکرایا… توفیق ملی تو اس کتاب اور
اس کے ترجمے کے بارے میں… مزید کچھ باتیں اگلے ہفتے … ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا
الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا
محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد
رسول اللّٰہ
٭…٭…٭