کتاب کہانی
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے
قلم سے (شمارہ 620)
اللہ تعالیٰ حضرت امام ابن
النحاس شہید رحمہ اللہ تعالیٰ کو… شہادت، مغفرت اور اکرام کا اونچا مقام عطاء فرمائے…
انہوں نے ’’مشارع الاشواق‘‘ کتاب لکھ کر امت پر احسان فرمایا ہے …ہم مقبوضہ جموںوکشمیر کے علاقے’’ کوٹ بھلوال ‘‘ کی
جیل میں تھے… جہاں یہ کتاب ہم تک پہنچی… اور یہ ہمارے زخموں کا مرہم… اور راتوں کا
سکون بن گئی… کتاب کے مصنف جیسا کہ آپ نے گذشتہ کالم میں پڑھ لیا… جہاد میں شہید ہو
گئے …اللہ تعالیٰ نے شہداء کے بارے میں قطعی فیصلہ فرمایا ہے کہ وہ زندہ ہیں… بل احیاء…
اور یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ … اللہ تعالیٰ اُن کے اعمال کو ضائع نہیں ہونے دیتا… چنانچہ
حضرت مصنف شہید کی یہ عجیب جہادی کتاب بھی …ضائع ہونے سے بچ گئی… حالانکہ اُس زمانے
نہ پریس تھے نہ کمپیوٹر… جبکہ آج کل ہر سہولت موجودہونے کے باوجود … کوئی کتاب دس
سال میں ختم ہو جاتی ہے اور کوئی بیس سال میں … اور بعض کتابیں تو بس اپنے پہلے ایڈیشن
کے بعد ہی… منظر سے غائب ہو جاتی ہیں… مگر جس کام کو اللہ تعالیٰ نے چلانا ہو، جاری
فرمانا ہو تو وہ… بغیر ظاہری اسباب کے بھی خوب چلتا رہتا ہے… پھر شہداء کے ساتھ تو
اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہی بالکل الگ ہے… حیرانی ہوتی ہے کہ… شہداء بالاکوٹ کا پیغام
اور دعوت کس طرح سے قریہ قریہ گلی گلی پھیل گئی… حالانکہ وہ ایسی جگہ شہید ہوئے تھے…
جہاں اُن کو دفنانے کفنانے والا بھی… کوئی قریب نہیں آ سکتاتھا… یعنی ظاہری طور پر
بے کسی اور اجنبیت کا عالم تھا… اپنے وطن سے بہت دور… غربت،مسافری اور مظلومیت… مگر
بعد میں یہ ہوا کہ اُن کے قاتلوں کے نام کسی کو یاد نہیں…جبکہ اُن کے نام بھی زندہ
رہے اور کام بھی زندہ رہا… اور اُن کی دعوت بھی ہر جگہ پھیلی اور آج تک پھیل رہی ہے…
اللہ تعالیٰ نے باحشمت حکمرانوں، صاحب قلم مصنفوں اور علم کے شہسوار داعیوں کو… شہداء
بالاکوٹ کی خدمت پر لگا دیا… اور یوں دو صدیاں گزرنے کے باوجود ان کی زندگی آج بھی
چمکتی ہے اور روشنی بکھیرتی ہے… آپ بھائی محمد افضل گورو شہید ؒ کو دیکھ لیں… ایک
طرف مجبوری ، بے کسی اور مظلومیت کا یہ عالم ہے کہ… پھانسی سے پہلے اہل خانہ تک سے
ملاقات نہیں کرائی گئی… حالانکہ آج کی دنیا کا یہ ایک لازمی قانون ہے… کوئی شخص اگر
ملک کے صدر اور وزیر اعظم کا قاتل ہو… یا کسی نے ہزاروں خون کئے ہوں … ایسے قاتل کو
بھی سزائے موت سے پہلے اس کے گھر والوں سے آخری بار ضرور ملوایا جاتا ہے… مگر ہمارے
بھائی محمد افضل گورو شہید کو یہ سہولت بھی نہیں دی گئی… بس رات کو اچانک انہیں بتایا
گیا کہ… علی الصبح آپ کو پھانسی دی جانی ہے… بے بسی، مجبوری اور گھٹن کا اندازہ لگائیں
کہ… ایک کال کوٹھڑی … چاروں طرف دشمن ہی دشمن… اور درمیان میں ایک نہتا قیدی… ہر طرف
سے طنزیہ جملے، چبھتی نگاہیں، اذیت ناک نگرانی… اور دور دور تک کوئی بھی اپنا نہیں…
نہ یاروں کو خبر، نہ گھر والوں کو علم… نہ اپنے ایڈووکیٹ سے رابطہ اور نہ جیل کے کسی
قیدی دوست تک رسائی… سبحان اللہ! مظلومیت بھی عجیب چیز ہے… اس کا خیال اور تذکرہ بھی
دلوں کو پھاڑنے لگتا ہے…لیکن اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیں کہ ’’مظلوم‘‘ کا جو مقام ہے
…وہ اگر’’ ظالم‘‘ دیکھ لے تو ساری دنیا کی دولت دے کر… اسے خریدنے کی کوشش کرے… اور
مظلوم اگر شہید بھی ہو تو پھر… اس کے مقام کے کیا کہنے…بس اتنا سمجھ لیں کہ… راحت ہی
راحت ہے، ترقی ہی ترقی ہے… اور کامیابی ہی کامیابی ہے… بھائی محمد افضل شہید نے… وہ
آخری رات قرآن مجیدکے ساتھ گذاری… صبح ہم نے اُن کی شہادت کی خبر سنی اور پھر اللہ
تعالیٰ نے ہمیں اُن کی خدمت پر لگا دیا… آناً فاناً اُن کی کتاب تیار کی گئی… یہ کوئی
آسان کام نہیں تھا … مگر شہید کی زندگی… بہت عجیب ہے… بہت عجیب … بالکل نہ سمجھ آنے
والی… مگر بہت کچھ سمجھانے والی… لوگ طنز کرتے ہیں کہ… جماعتیں زندہ ساتھیوں کی قدر
نہیں کرتیں… شہید ہو جائیں تو سر پر بٹھا لیتی ہیں … ممکن ہے ایسا ہوتا ہو… مگر ہمارے
ہاں الحمد للہ زندوں کی بھی پوری قدر ہے… مگر شہداء کی قدر بہت زیادہ کی جاتی ہے… وجہ
یہ کہ شہداء کی زندگی بلند ہے تو اُن کی قدر بھی زیادہ ہے… اور شہداء کی روحانی زندگی
خود بھی… اپنی قدر دلوں میں اُتارتی ہے … اور اپنی قدر دوستوں اور دشمنوں سے منواتی
ہے… ہم اگر بھائی افضل شہید کی قدر نہ کرتے تو دنیا میں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا…ایصال
ثواب ہوتا اور بات ختم… مگر وہ بڑے شہید تھے… شہداء کے بھی الگ الگ طرح کے مقامات ہیں
… افضل شہید کا مقام … ان شاء اللہ بہت اونچا ہے تو انہوں نے اپنی زندگی منوائی … صرف
ایک اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے ہم نے اُن کے درد اور پیغام کو آگے بڑھانے کا فیصلہ
کیا… آہستہ آہستہ تمام رفقاء بھی ہمنوا بنتے گئے…اور پھر افضل گورو شہید کی کتاب
بھی اُٹھی… اجتماع بھی گرجا… اور اُن کے انتقام کی ایک لہر نے… کشمیر کی تحریک کو دوبارہ
اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا… یہ سب کچھ شہید اور شہادت کی کرامت ہے… بے شک شہید کی زندگی
خود کو منواتی ہے… آج انڈیا میں خود وہاں کے کئی سیاستدان کہہ رہے ہیں کہ… افضل گورو
کو پھانسی دینا ایک بڑی غلطی تھی… جسے آج پورا ملک بھگت رہا ہے… یہاں ایک اہم نکتہ
سمجھ لیں… قرآن مجید نے اعلان فرمایا ہے کہ … بعض انبیاء کرام دوسرے بعض انبیاء کرام
سے افضل ہیں… قرآن مجید کے تیسرے پارے کا آغاز ہی اسی علان سے ہو رہا ہے… اب اس اعلان
کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ… بعض انبیاء کرام کم درجے والے ہیں… بلکہ مطلب یہ
ہے کہ حضرات انبیاء کرام تمام کے تمام بڑے رتبے والے ہیں… کوئی بھی صحابی، ولی، شہید،
صدیق… کسی نبی کے برابر نہیں ہو سکتے… ہاں اُن انبیاء علیہم السلام میں سے بعض کا رتبہ
دوسرے بعض سے زیادہ بلند اور اونچا ہے … یہی حال شہداء کرام کا ہے… شہادت بہت اونچی
چیز ہے … بہت بلند مقام اور بہت قیمتی نعمت… کوئی شہید بھی کم اور ادنیٰ درجے والا
نہیں ہے… اور انبیاء کرام اور صدیقین کے علاوہ کوئی بھی مومن، ولی ، بزرگ کسی شہید
کے برابر نہیں ہو سکتا…ہاں شہداء کرام میں سے بعض کا رتبہ دوسرے بعض سے زیادہ بلند
اوراونچا ہے… دوسرا نکتہ یہ ذہن میں رکھیں کہ… شہداء میں سے کون کس مقام کا ہے؟ یہ
بات صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے… اور اس کا فیصلہ اس پر موقوف نہیں کہ اس شہید کا
اس کے بعد کتنا چرچہ ہوا؟ … اس کا نام اور کام کتنا پھیلا… اس پر کتنی کتابیں لکھی
گئیں…
ان چیزوں کا افضلیت کے ساتھ
کوئی تعلق نہیں…بعض شہداء بالکل گمنام رہتے ہیں مگر ان سے مقامات بہت اونچے ہیں… بعض
شہداء کو تو کوئی شہید ہی تسلیم نہیں رکتا مگر وہ بڑے درجے والے شہداء ہوتے ہیں… شہداء
کا نظام اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے… یہ اللہ تعالیٰ کی پیاری مخلوق ہے … یہ اللہ تعالیٰ
کے لاڈلے بندے ہیں… ان کی حیات یقینی ہے… مگر ہم اس کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے… اُن کا کام ضرور جاری رہتا ہے خواہ نظر آئے
یا نہ آئے… اُن کا عمل جاری رہتا ہے … کسی کو محسوس ہو یا نہ ہو… باقی ہم جو کسی شہید
کے بارے میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ بڑے درجے والا شہید ہے تو… یہ اپنے حسن ظن اور بعض
شرعی قرائن کو دیکھ کر… ایک ظنی رائے ہوتی ہے… اور اگر اللہ تعالیٰ شہید کی کوئی کرامت
بعد والوں کو دکھا دے تو اس سے بھی… بعد والے اس کے افضل شہید ہونے کا اندازہ لگا لیتے
ہیں… جیسے ہمارے بھائی افضل گورو شہید… وہ غزوہ ہند میں شہید ہوئے، مظلوم شہید ہوئے…
آخری وقت تک ثابت قدم رہے جیسا کہ اُن کی آخری تحریر سے اندازہ ہوتا ہے… اور پھر
اُن کی محبت اور اُن کا درد تیزی سے اہل ایمان کے قلوب میں اُترا … اُن کی کتاب کی
تیاری میں خصوصی نصرت ہوئی اور یہ کتاب خوب مقبول ہوئی… اُن کا اجتماع مثالی رہا… اور
اُن کی قربانی نے دشمن پر ایسے تابڑ توڑ حملے کئے کہ…دشمن پچھتانے پر مجبور ہوا… اب
حال ہی میں شہید ہونے والے ہمارے پیارے طلحہ رشید کی شہادت میں بھی… محبوبیت ، جذبات
اور قبولیت کا عجیب رنگ نظر آ رہا ہے… امید ہے کہ ان شاء اللہ بہت جلد… اُن کی کارروائیوں
کا طوفانی آغاز ہو گا اور طلحہ شہید کی کتاب… جو ان کی سوانح اور دعوت پر مشتمل ہو
گی … ان شاء اللہ جلد منظر عام پر آ جائے گی… شہادت کے بعد جس محبت اور کثرت کے ساتھ
اُن کے ایصال ثواب کی مجالس ہوئیں… جس والہانہ انداز میں اُن پر لکھا گیا… یہ سب کچھ
اس دیوانے شہید پر اللہ تعالیٰ کے فضل کی علامات محسوس ہوتی ہیں… اللہ تعالیٰ اسے قبولیت
کا اعلیٰ مقام عطاء فرمائے…
بات کافی دور نکل گئی… عرض
یہ کر رہا تھا کہ حضرت علامہ ابن النحاس شہیدؒ کی کتاب’’ مشارع الاشواق‘‘ ماشاء اللہ
آج تک چل رہی ہے… اصل کتاب عربی زبان میں ہے… مگر آج افغانستان سے لے کر کشمیر تک
کے گرم محاذوں پر … اس کی اردو اور پشتو میں تعلیم ہوتی ہے… پاکستان سے لے کر یورپ
کے کئی ممالک تک… مسلمانوں کے گھروں میں اس کی تعلیم ہوتی ہے … مصنف ؒ نے اس کتاب کو
اپنے دل کے درد سے ایسا بھرا ہے کہ… زبان بدلنے یا اتنا زمانہ گزرنے کے باوجود اس کی
تاثیر ماند نہیں پڑتی … مصنف شہیدؒ جہاد کے باقاعدہ ’’فقیہ‘‘ ہیں… جہاد کی اتنی گہری
سمجھ کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے… مصنف فضائل جہاد کے دوران ایسے زبردست علمی نکتے بیان
فرماتے ہیں کہ… دل عش عش کر اٹھتا ہے… اور می رقصم ، می رقصم کا نعرہ لگاتا ہے… مقروض
آدمی کے شہید ہونے اور قرضے کے معاف ہونے نہ ہونے پر مصنفؒ جو تحقیق لکھی ہے… آپ
صرف اسی کو دیکھ لیں تو مصنف کے پاؤں چومنے کو بے تاب ہو جائیں… ہم کوٹ بھلوال جیل
کی پر مشقت زندگی میں تھے کہ… یہ کتاب وہاں پہنچ گئی… بس پھر کیا تھا یوں لگا کہ… ہمارے
مردہ ہوتے ہوئے عزائم کو اُبھارنے کے لئے… اللہ تعالیٰ کا سچا عاشق، جہاد کا بے تاب
دیوانہ اور شہادت کا دولہا… علامہ ابن النحاس جیل کی دیوار پھاند کر اندر تشریف لے
آیا ہے… بندہ نے مطالعہ شروع کیا تو دل خوشی سے کھلتا چلا گیا… تب مصنف سے یاری اور
اس کتاب سے دوستی ہو گئی… سب سے پہلے تو جیل میں اس کتاب کا درس شروع ہوا… محترم کمانڈر
حافظ سجاد خان شہید اس درس میں پیش پیش رہتے تھے اور اس پر بہت خوشی کا اظہار کرتے
تھے… دوسرا کام یہ ہوا کہ بندہ نے… اس کتاب کے بعض دلائل کو بنیاد بنا کر مضامین کا
ایک سلسلہ شروع کیا… وہ سلسلہ ماشاء اللہ بہت مقبول ہوا … اور بعد میں دروس جہاد کے
نام سے شائع ہوا … اور الحمد للہ آج تک شائع ہو رہا ہے… مگر ان مضامین میں حضرت مصنفؒ
کی باتیں کم… اور میری فضولیات زیادہ ہوتی تھیں… کیونکہ حالات حاضرہ کے تحت اُن کو
ڈھالنا مقصود تھا… یہ دونوں کام چل رہے تھے مگر دل نہیں بھر رہا تھا… بار بار اس کتاب
کے اردو ترجمے کا داعیہ دل میں اُٹھتا … مگر اپنی کم علمی ، اپنے حالات اور کم ہمتی
سینہ تان کر سامنے کھڑی ہو جاتی… ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا اور وہ بھی
اس طرح کہ مضمون کی طاقت کمزور نہ ہو… یہ کافی مشکل کام ہے… میرے پاس نہ لغت کی کتابیں
تھیں اور نہ علم کا ماحول… مگر شہید کی کرامت پھر ظاہر ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس
مشکل کام پر بٹھا دیا… پھر تو رات دن کافرق بھی مٹ گیا اور زمانہ بھی سمٹنے لگا تھوڑی
سی رکاوٹ کے بعد کام ایسا چلا کہ… آج بھی سوچتا ہوں تو شکر کے ساتھ حیرانی کا غلبہ
ہونے لگتا ہے کہ… سب کچھ کیسے ہو گیا؟… کاغذ بھی مل گئے ، قلم بھی وافر آ گئے… خدمت
والے رفقاء بھی میسر رہے، وقت میں بھی برکت ہوئی… اور ساتھ ساتھ یہ سارا کام ایک عرب
ملک کے راستے بذریعہ ڈاک پاکستان بھیجنے کی حیرت انگیز سہولت بھی ہاتھ لگ گئی… اور
یوں الحمد للہ چالیس دن سے کم عرصے میں… ’’فضائل جہاد‘‘ تیار ہو گئی… یہ نہ ’’مشارع
الاشواق‘‘ کا باقاعدہ ترجمہ ہے اور نہ باقاعدہ خلاصہ … بلکہ کہیں ترجمہ ہے، تو کہیں
تشریح، کہیں تلخیص ہے تو کہیں تنقیح اور کہیں حذف ہے تو کہیں اضافہ … حضرت مصنف شہیدؒ
کی کرامت کہ ’’فضائل جہاد‘‘ بھی الحمد للہ مقبول ہوئی… اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس
کے کئی زبانوں میں تراجم بھی ہوئے اور شائع بھی ہو رہے ہیں…’’ فضائل جہاد اردو‘‘ کی
داستان بہت مفصل اور دلچسپ ہے… یہ کتاب کس کس ملک میں پہنچی… اس کتاب کے کتنے ترجمے
ہوئے… یہ کتاب کتنی بار شائع ہوئی… یہ سب ایک دلچسپ کہانی ہے… جو نہ آج سنانی ہے اور
نہ آئندہ سنانے کا ارادہ ہے… بندہ نے ’’فضائل جہاد‘‘ کا کام گرفتاری سے کچھ عرصہ پہلے
… پاکستان میں شروع کر دیا تھا… دس جلدوں میں کتاب لکھنے کا ارادہ تھا… پہلی جلد صحیح
بخاری کی چالیس احادیث پر مشتمل تیار ہو چکی تھی… اور اردو اور انگلش میں بار بار شائع
ہو چکی تھی… دوسری جلد سے پہلے ہی بندہ گرفتار ہو گیا… جب جیل میں ’’مشارع الاشواق‘‘
ملی تو… اپنی فضائل جہاد کو مکمل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا… اور اسی کتاب کی خدمت کو
اپنے لئے سعادت سمجھ لیا… اور فضائل جہاد کی جو ایک جلد پہلے سے شائع ہو رہی تھی اسے
بھی اس کتاب کے آخر میں جوڑ دیا … اور اس مجموعے کا نام ’’فضائل جہاد کامل‘‘ رکھ دیا…اللہ
تعالیٰ محض اپنے فضل سے قبول فرمائے … گذشتہ دو ہفتوں سے فضائل جہاد کے باب 28اور
29 کے مطالعے کی ترغیب چل رہی ہے … الحمد للہ جنہوں نے مطالعہ کیا بہت فائدہ اور تازگی
پائی… جنہوں نے اب تک مطالعہ نہیں کیا وہ اب کر لیں… بس اسی مناسبت سے اس کتاب کے اصل
مصنف حضرت علامہ ابن النحاس شہید یاد آ گئے تو… یہ چند باتیں عرض کر دیں…
لا الہ الا اللّٰہ، لا
الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا
محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد
رسول اللّٰہ
٭…٭…٭