بَلْ اَحْیَائٌ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 617)
اللہ تعالیٰ ہمیں ’’یقین‘‘ کی دولت عطاء فرمائیں… اللہ تعالیٰ کی ذات کا یقین… اللہ تعالیٰ کی باتوں کا یقین…اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا یقین… ہاں بے شک!یقین بڑی نعمت ہے… اور بے یقینی بڑا وبال
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ اِیْمَاناً دَائِماً وَّیَقِیْناً صَادِقاً
دیوانہ چھا گیا
جمعۃ المبارک کے دن … جمعہ نماز کی پہلی اذان ہوتے ہی ’’خرید و فروخت‘‘ ناجائز ہو جاتی ہے… صرف خرید و فروخت ہی نہیں بلکہ… ہر وہ کام جو جمعہ نماز کے لئے جانے میں رکاوٹ بنے … گپ شپ ہو یا کھیل کود… نیند ہو یا مطالعہ …یاکچھ بھی… جمعہ کی اذان کے بعد سب ناجائز … اب ایک ہی کام کرنا ہے… اور وہ ہے جمعہ نماز کے لئے لپکنا… یعنی اہتمام و شوق سے جانا… یہ بڑا اہم مسئلہ ہے… آج اسی پر لکھنے کا ارادہ تھا… کئی فتاویٰ اور حوالے بھی جمع کر رکھے تھے… مگر ایک ’’دیوانہ‘‘ دل و دماغ پر چھا گیا… اور اس نے خیالات سے لے کر آنسوؤں تک ہر جگہ اپنی حکومت قائم کر لی… پھر کوئی اور موضوع کس طرح یاد رہتا؟…
سب کچھ لٹا کے راہِ محبت میں اہلِ دل
خوش ہیں کہ جیسے دولتِ کونین پا گئے
صحنِ چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
 وہ آگئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے
جگر مرحوم نے بالکل درست فرمایا
میں ہوں دیوانۂ بے کس کہ جب گلشن میں جا نکلا
تو اک شورِ قیامت ہو گیا برپا عنادل میں
اللہ تعالیٰ ہمیں یقین نصیب فرمائے… حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:
شہید کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں چھ خصوصی انعامات ہیں:
(۱) خون کے پہلے قطرے کے ساتھ اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے اور جنت میں اس کا مقام اس کو دکھلا دیا جاتا ہے (۲) اسے عذاب قبر سے بچا لیا جاتا ہے (۳) قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے وہ محفوظ رہتا ہے (۴) اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے (۵) بہتّر۷۲ حورعین سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے (۶) اور اس کے اقارب میں ستر کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے( ترمذی)
سبحان اللہ !کیسے بلند فضائل ہیں… اور کیسے اونچے مقامات… جن کو یقین ہے وہ پالیتے ہیں… اور اُن کا راستہ ہی اُن کی منزل بن جاتا ہے… اسی لئے ’’دیوانے‘‘ کامیاب رہتے ہیں
یوں تو ہونے کو گلستاں بھی ہے ویرانہ بھی ہے
دیکھنا یہ ہے کہ ہم میں کوئی دیوانہ بھی ہے
حاصلِ ہر جستجو آخر یہی نکلا جگر
 عشق خود منزل بھی ہے ، منزل سے بے گانہ بھی ہے
جان بے قرار
ابھی صرف اکیس دن پہلے ایک مجلس سجی… اس میں کلمہ طیبہ، نماز اور جہاد کی دعوت کے ساتھ ’’شہادت‘‘ بھی بیان ہوئی… شہید کی زندگی، شہداء کرام کی حیات… اور قرآن مجید کا اعلان’’ بل احیاء‘‘ … اس مجلس میں وہ ’’دیوانہ‘‘ بھی تھا اور بھی بہت سے ’’دیوانے‘‘ چمکتی ، مسکراتی … نور یقین سے دمکتی…سچے آنسوؤں سے بھیگتی آنکھیں… اور انتظار کی گرم گرم آہیں… پھر ایک رات وہ ملنے آ گیا اور سینے سے لپٹ گیا… میں جا رہا ہوں…
پھر دل ہے قصد کوچۂ جاناں کیے ہوئے
رگ رگ میں نیشِ عشق کو پنہاں کیے ہوئے
پھر عزلتِ خیال سے گھبرا رہا ہے دل
ہر وسعت ِخیال کو زنداں کیے ہوئے
پھر چشم شوخ دیر سے لبریز شکوہ ہے
قطروں کو موج، موج کو طوفاں کیے ہوئے
پھر جان بے قرار ہے آمادۂ فغاں
سو حشر اک سکوت میں پنہاں کیے ہوئے
پھر کیف بے خودی میں بڑھا جا رہا ہوں میں
سب کچھ نثار شوقِ فراواں کیے ہوئے
قیامت کے دن … اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تم میرے ان دوستوں کو لے آؤ جنہوں نے میری رضا کے لئے اپنا خون بہایا تھا، پھر شہداء آئیں گے اور قریب ہو جائیں گے ( کتاب الجہاد لابن مبارک)
سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کے قریب… اللہ تعالیٰ کے دوست… اللہ تعالیٰ کے پیارے… دیوانوں کو ان کی دیوانگی مبارک ہو…
واہ رے شوق شہادت! کوئے قاتل کی طرف
گنگناتا ، رقص کرتا، جھومتا جاتا ہوں میں
میری ہستی شوق پیہم، میری فطرت اضطراب
کوئی منزل ہو مگر گذرا چلا جاتا ہوںمیں
زندگی کی تلاش
زندگی یعنی ’’ حیات‘‘ بڑی نعمت ہے… دنیا اور آخرت کی ہر نعمت اسی ایک نعمت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے… اگر زندگی نہ ہو تو… پھر کچھ بھی نہیں ہوتا… اللہ تعالیٰ نے ’’انسان‘‘ کو زندگی بخشی… جب انسان نے زندگی دیکھی تو اس کا عاشق ہو گیا … جان ہے تو جہان ہے…
انسان جانتا ہے کہ… وہ موت سے نہیںبچ سکتا… مگر پھر بھی وہ یہی کوشش کرتا رہتا ہے کہ اس کی زندگی قائم رہے … باقی رہے… ماضی کے لوگوں نے طرح طرح کی دوائیاں بنائیں… طرح طرح کے وظیفے کئے… اور اب سائنسدان اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ … انسان کس طرح زیادہ سے زیادہ لمبی زندگی پا لے… مگر ابھی تک کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی… انسان نے ہر حال میں مرنا ہی ہوتا ہے… مصر کے فرعونوں نے اپنی لاشیں محفوظ رکھنے کی دوائیاں ایجاد کیں … اُن کا خیال تھا کہ… جسم اور روح میں گہرا رشتہ ہے …دونوں سالہا سال اکٹھے رہے ہیں … اب ’’روح‘‘ اس ’’جسم‘‘ سے روٹھ کر چلی گئی ہے… لیکن اگر جسم سلامت رہا تو کسی دن ’’روح‘‘ واپس آ جائے گی… لوگ دنیا میں شادیاں کرتے ہیں… تاکہ اولاد ہو… اور اولاد اپنی زندگی کا حصہ ہوتی ہے… اولاد اور نسل چلتی رہے گی تو گویا کہ انسان کی زندگی چلتی رہے گی … کئی لوگ یادگار عمارتیں بناتے ہیں کہ… ان عمارتوں کے ذریعہ ان کا نام زندہ رہے گا… خلاصہ یہ کہ… انسان زندگی کے پیچھے دوڑ رہا ہے … مگر اپنی محدود عقل کی وجہ سے ابھی تک… موت کو شکست دینے کا رازوہ معلوم نہیں کر سکا… انسان بے چارہ ہے بھی کتنا سا؟…پانچ چھ فٹ کا ایک کمزور سا ڈھانچہ… جبکہ کائنات بہت بڑی ہے… اتنا بڑا آسمان، اتنی بڑی زمین… بڑے بڑے سمندر اور پہاڑ… سورج اور چاند… انسان ابھی تک اپنی زمین کو پورا نہیں دیکھ سکا… جبکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں… زمین سے بڑے بڑے سیارچے، ستارے اربوں کھربوں کی تعداد میں موجود ہیں… سائنسدان ابھی تک ان ستاروں کی گنتی نہیں کر سکے جو نظر آ رہے ہیں… مگر وہ کتنے ہوں گے جو نظر نہیں آ رہے؟…
اتنی بڑی کائنات… اتنا وسیع نظام… نہ انسان اس کے بارے میں سوچ سکتا ہے اور نہ اندازہ لگا سکتا ہے… پھر اللہ تعالیٰ جو اس کائنات کا خالق ہے… وہ کتنا عظیم ہوگا؟… اللہ اکبر کبیرا …اسی اللہ تعالیٰ نے موت بھی بنائی اور زندگی بھی …اور یہ فیصلہ سنا دیا کہ ہر زندہ نے ضرور مرنا ہے … پھر موت سے کون بچ سکتا ہے؟ … موت کو کون شکست دے سکتا ہے؟… فرعونوں کی لاشیں دوبارہ زندہ نہ ہو سکیں… البتہ لوگوں کے ہاتھ کا کھلونا بن گئیں… فاتحین کی یادگاریں اور عمارتیں… طوفانوں اور زلزلوں نے گرا دیں … اب وہی ’’رب کائنات‘‘ اپنی سچی کتاب میں… زندگی کا راز بیان فرماتا ہے کہ … میرے راستے میں جان دے دو… اور مجھ سے ’’زندگی‘‘ لے لو … بس موت کو شکست دینے کا یہی ایک طریقہ ہے… شہادت فی سبیل اللہ … اسی لئے قرآن مجید میں دو جگہ بڑی تاکید کے ساتھ فرما دیا… ’’بل احیاء‘‘ کہ شہید زندہ ہے … یہ کوئی اعزازی اعلان نہیں… بلکہ انعامی اور حقیقی اعلان ہے… پھر مزید تاکید کے لئے فرمایا کہ… وہ اللہ تعالیٰ کا رزق بھی کھا پی رہے ہیں … برزخ کی روحانی زندگی کھانے پینے کی محتاج نہیں… مگر یہ شہید کی الگ اور خاص زندگی ہے جس میں وہ کھاتا پیتا بھی ہے… شہداء کی غمزدہ ماؤں کو… کیسی عظیم خوشخبری ہے… تم یہی چاہتی تھی کہ تمہارا بیٹا اچھا کھائے، اچھا پئے… وہ دیکھو ’’عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْن‘‘ … وہ اپنے رب کا رزق کھا پی رہا ہے… ایسا رزق تم تو انہیں نہیں دے سکتی تھیں… پھر ساتھ مزید تاکید کے لئے … یہ بھی فرما دیا کہ وہ بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں…بل احیاء… بل احیاء … وہ زندہ ہیں… وہ زندہ ہیں… معلوم ہوا کہ … موت اُن پر آئی مگر شکست کھا گئی اور ان کے لئے زندگی بن گئی… شہید کے مرنے کا انکار نہیں … وہ ضرور مرا ہے… مگر اس کے مردہ ہونے کا انکار ہے کہ … وہ موت آنے کے بعد مردہ نہیں ہوا … انہیں مردہ کہو گے تو قرآن کے نافرمان… انہیں مردہ سمجھو گے تو قرآن کے نافرمان… تو پھر ہم انہیں کیا سمجھیں… فرمایا! بل احیاء… وہ زندہ ہیں…انہیں زندہ مانو… انہیں زندہ سمجھو…
ہاں! ان کی یہ زندگی… تمہاری محدود عقل سے سمجھی نہیں جا سکتی… مگر تم نے نہ عرش دیکھا… نہ کرسی… مگر یقین رکھنا ضروری ہے کہ… عرش بھی ہے اور کرسی بھی… پس اسی طرح یہ یقین رکھنا لازمی ہے کہ… شہید زندہ ہے… دیوانے کو سلام… دیوانے کو پیار… اس کے ہم سفر اور ہم منزل کو سلام…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭