بس چھری چلانے کی دیر ہے
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے
قلم سے (شمارہ 625)
اللہ تعالیٰ ہی نے ہمیں’’
آنکھیں‘‘ عطاء فرمائی ہیں … اللہ تعالیٰ ہمیں ان آنکھوں سے اپنا گھر ’’بیت اللہ شریف‘‘
دکھائے… بار بار دکھائے…قبولیت کے ساتھ دکھائے…اور آخرت میں ہمیں بار بار اپنی زیارت
کرائے … آمین یاارحم الراحمین
بہت سے چہرے اس دن تروتازہ
ہوں گے… اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے ( القرآن)
تاخیر نہ کریں
ہماری خوش نصیبی کہ روئے
زمین پر’’ بیت اللہ شریف ‘‘موجود ہے… ہماری خوش نصیبی کہ ہمارے پاس آنکھیں موجود ہیں…
پھر اگر ان آنکھوں نے ’’بیت اللہ‘‘ کو نہ دیکھا تو پھر کیا دیکھا؟ … آج ’’ حج بیت
اللہ‘‘ کافی آسان ہے… کیا معلوم کہ کل بہت مشکل ہو جائے… بہت سے مسلمان جو وہاں مقیم
تھے آج کل دھڑا دھڑ واپس آ رہے ہیں… اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کئی ایسے زمانے
آئے کہ دور والوں کے لئے’’حج بیت اللہ‘‘ بہت مشکل ہو گیا … کبھی سمندر قزاقوں سے بھر
گئے… وہ بحری جہازوں کو لوٹ لیتے تھے اور عازمین حج کو قتل کر دیتے تھے… کبھی ایسا
بھی ہوا کہ راستے ڈاکوؤں نے بانٹ لیے… ایسا بھی ہوا کہ صلیبیوں نے راستوں پر قاتلانہ
ناکے لگا دئیے …آج کل اچانک کوئی جنگ چھڑتی ہے تو فضاؤں میں ’’نوفلائی زون ‘‘ بن
جاتے ہیں… کہیں ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ… اللہ نہ کرے پھر ’’حج بیت اللہ‘‘ مشکل ہو
جائے… آج کل الحمد للہ بہت آسانی ہے… آج کل جتنا پیسہ رسومات پر ذبح ہوتا ہے ’’حج
بیت اللہ‘‘اس سے بہت سستا ہے… فضول پڑے ہوئے پلاٹ جن پر… ہمارے مرنے کے بعد ورثانے
جھگڑے ڈالنے ہیں… ان پلاٹوں سے ’’ حج بیت اللہ‘‘ بہت آسانی سے ہو جاتا ہے… پلاٹ تو
یہیں رہ جائے گا… جبکہ’’حج بیت اللہ‘‘ ہمارے ساتھ آگے جائے گا… اور اس دن انسان ایک
ایک نیکی کا محتاج ہو گا… ہر شخص بس یہی دیکھ رہا ہو گا کہ وہ… آخرت میں اپنے ساتھ
کیا لایا ہے… ویسے بھی سوچیں کہ… اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کا گھر نہیں دیکھا… تو پھر
ہم اس کے شوق میں تڑپتے کیوں نہیں؟ روتے کیوں نہیں؟… اپنے محبوب رب سے اتنا بھی عشق
نہیں کہ جتنا… ایک نفس پرست عاشق کو اپنے محبوب سے ہوتا ہے؟… آہ بیت اللہ، واہ! بیت
اللہ، ھا ! بیت اللہ
حالات بدلتے رہتے ہیں
حکومت نے اس سال کی حج پالیسی
کا اعلان کر دیا ہے… اسی مہینے حج کے داخلے بھرے جانے ہیں …حج اسلام کے محکم اور بنیادی
فرائض میں سے ایک فریضہ ہے… صاحب استطاعت مسلمانوں پر زندگی میں ایک حج کرنا فرض ہے…
جو مسلمان استطاعت کے باوجود حج ادا نہیں کرتے ان کا انجام اور خاتمہ بہت خطرے میں
پڑ جاتا ہے… حج ایک عاشقانہ عبادت اور لاکھوں سعادتوں کا ایک مجموعہ ہے… حج کرنے سے
نہ تو کسی مسلمان کا مال کم ہوتا ہے… اور نہ ہی اسے فقر و فاقے کا خطرہ رہتا ہے…حج
کے ذریعہ ہم براہ راست اسلام کے مقدس ترین مقامات کو دل اور آنکھوں میں بسا لیتے ہیں…
حج بیت اللہ تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے مکمل پاکی کا بہترین نسخہ ہے… حج بیت اللہ
ہمیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے جوڑتا ہے اور یہی وہ مقامات ہیں جہاں… اللہ تعالیٰ
نے قرآن عظیم الشان کو نازل فرمایا ہے… حج بیت اللہ اللہ تعالیٰ کا تاکیدی حکم ہے…
اور مسلمانوں کے لئے حج بیت اللہ کھولنے کے لئے… حضرت آقا مدنی ﷺ نے بڑی محنتیں اور
بڑا جہاد فرمایا ہے… حج ایسی عبادت ہے جو سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک
ایک مسلمان کو نور اور پاکی سے بھر دیتی ہے… حج کے اجتماع میں شرکت حشر کے دن کے اجتماع
میں ہمارے لئے آسانی اور راحت کا ذریعہ ہے… حج بیت اللہ کا ہر لمحہ ایمان اور عشق
سے معمور ہے… حج بیت اللہ ایسی والہانہ عبادت ہے کہ … اس عبادت کا شوق بھی عبادت کی
طرح لذیذ ہے… اس لئے جو مسلمان مرد اور عورت حج بیت اللہ کے لئے جا سکتے ہوں وہ ایک
منٹ کی تاخیر نہ کریں … حالات بدلتے رہتے ہیں… معلوم نہیں کب آنکھیں اچانک دیکھنا
بند کر دیں… بہت سے لوگ نابینا ہو جاتے ہیں… معلوم نہیں کب اچانک کہیں گریں اور جسم
کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں … معلوم نہیں کب کوئی پکڑ کر کسی جگہ قید کر دے … معلوم نہیں کب
کوئی بیماری اچانک آئے اور زندگی ایک بستر تک محدود ہو جائے… پھر کیوں اپنی آنکھوں
کو کعبہ کی زیارت سے محروم رکھیں؟… پھر کیوں اپنے قدموں کو بیت اللہ کے طواف سے محروم
رکھیں… آج اگر صحت بھی ہے… اور کسی جگہ کوئی مال بھی خوامخواہ پڑا ہوا ہے تو… اسے
قیمتی بنا لیں …معلوم نہیں کب یہ مال اچانک ضائع ہو جائے …جب تک کوئی عبادت آسان ہو
تو یہ اللہ تعالیٰ کا ’’فضل‘‘ ہوتا ہے… جو خوش نصیب ہوتے ہیں وہ اس فضل الہٰی کے خوب
مزے لوٹ لیتے ہیں… لیکن جنہوں نے محروم رہنا ہو وہ آج کل پر ٹالتے رہتے ہیں… بھائیو!اور
بہنو! یہ دنیا تیزی سے قیامت کی طرف جا رہی ہے… یہ ہر دن رسول نبی کریم ﷺ کے مبارک
زمانے سے دور ہوتی جا رہی ہے… یہ ہر لمحہ خیر القرون سے شر القرون کی طرف سفر کر رہی
ہے… اس لئے اس زمانے میں کسی نیکی کو کل پر ٹالنا بہت خطرناک ہے …اچھے کل کی اللہ تعالیٰ
سے ضرور امید رکھنی چاہیے مگر… اپنے آج کو بہت قیمتی بنانا چاہیے … ممکن ہے کل کا
دن آج کے دن سے بہتر نہ ہو … حج کی عبادت ، صحت اور جوانی کے زمانے میں زیادہ جچتی
ہے… ویسے تو اللہ تعالیٰ جس عمر میں بھی نصیب فرما دیں… یہ بہت بڑی نعمت ہے… مگر جوانی
تو جوانی ہوتی ہے… اور جوانی کی عبادت کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے … ویسے بھی ہر مسلمان
کو پہلی فکر یہ ہونی چاہیے کہ… اس کے ’’فرائض‘‘ جلد از جلد پورے جائیں… کیونکہ ’’فرائض‘‘
کے بغیر زندگی بے کار اور ادھوری ہے… فرائض کے بغیر زندگی صرف خسارہ ہی خسارہ ہے… ہم
کب تک ہر نیکی کو کل پر ٹالتے رہیں گے… کوئی کہتا ہے کہ بس کچھ دن بعد تہجد شروع کروں
گا؟… اللہ کے بندے! کچھ دن بعد کیوں؟آج سے کیوں نہیں؟… یہی حال حج کا ہے… پہلے مکان
بنانا ہے، پھر کاروبار سیٹ کرنا ہے… پھر بچوں کی شادیاں کرنی ہیں… پھر حج کا سوچیں
گے… آہ! مسلمان تجھے اپنے رب کے گھر کو دیکھے بغیر آخر چین کس طرح آ جاتا ہے؟… ٹھیک
ہے اگر حج پر جانے کے اسباب نہیں ہیں تو نہ جانے میں کوئی گناہ نہیں… مگر حج کے شوق
کے اسباب تو تیرے پاس بے شمار ہیں… پھر دل میں شوق کیوں نہیں؟… کیا شوق کے لئے بھی
ٹکٹ اور ویزے کی ضرورت پڑتی ہے؟… تو اللہ کا بندہ ہے… اور بیت اللہ، اللہ کا گھر ہے…
بس اسی پر غور کر لے توشوق کی موجیں تیرے دل سے اُٹھ کر … آنکھوں کا سیلاب بن جائیں
گی… تب تو شوق کی ان لہروں میں ڈوب کر دعاء مانگے گا تو … تیری دعاء ضرور عرش تک جا
پہنچے گی… تب تیری روح میں قوت پرواز آئے گی… تب تیرے خواب بھی بار بار مبارک سفر
کریں گے… اور تو ’’حرمین شریفین‘‘ سے مستقل جڑ جائے گا… ان شاء اللہ
چھری چلانی پڑتی ہے
قرآن مجید نے حج کی ترغیب
دی ہے… قرآن مجید نے حج کی فرضیت بیان فرمائی ہے … قرآن مجید نے حج کے مناسک اور
احکامات سکھائے ہیں… ایک مسلمان کو چاہیے کہ قرآن مجید میں ان تمام باتوں کو پڑھے
… تب اسے معلوم ہو گا کہ… حج ایک مسلمان کے لئے کس قدر اہم، کس قدر ضروری اور کس قدر
مفید ہے… مگر ایک مسلمان حج پر جائے کیسے؟ اتنا لمبا سفر، اتنا زیادہ خرچہ اور اہل
و اقارب سے جدائی… تب قرآن مجید نے ایک واقعہ سنا کر مسئلہ آسان فرما دیا … قرآن
مجید بتا رہا ہے کہ… ایک بوڑھے باپ کو اپنے نوجوان بیٹے سے بہت پیار تھا… بڑھاپے کی
اولاد تھی… اور سالہا سال کی دعاؤں کے بعد ملی تھی… اور بیٹا بھی ایسا کہ اسے دیکھتے
ہی باپ کی آنکھیں اور دل محبت کی ٹھنڈک میں ڈوب جاتے تھے… حسین و جمیل ، نیک و صالح
ذہین اور فرمانبردار… دلکش اور باصفات… اب باپ کو حکم ملا کہ… اللہ تعالیٰ کی رضاء
کے لئے اپنا یہ بیٹا اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دے… اس حکم میں کوئی ایک ’’امتحان ‘‘ نہیں
تھا بلکہ کئی سخت امتحانات تھے… جن میں سب سے مشکل اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا تھا… باپ
اللہ تعالیٰ کا وفادار تھا… وفادار لوگ بہت عجیب ہوتے ہیں…وہ بہت زیادہ اور بہت لمبا
نہیں سوچتے… وہ بس یہ دیکھتے ہیں کہ جو حکم آیا ہے بس اسے پورا کرنا ہے… اور وہ بس
ایک ’’لمحے‘‘ کا فیصلہ ہوتا ہے کہ … اس ’’ایک لمحے‘‘ میں ہم نے مضبوط ہونا ہے … پہلے
کیا ہو گا، بعد میں کیا ہو گا وہ سب اللہ تعالیٰ کے سپرد… ہم نے تو بس اس ایک لمحے
میں ثابت قدم رہنا ہے…
باپ نے بیٹے کو لٹا دیا…
خود کو ’’ایک لمحہ‘‘ کے لئے تیار کیا… اور چھری چلا دی… بس دو سیکنڈ کا امتحان… چھری
چلانے سے پورا ہو گیا … اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کا سلسلہ ایسا شروع ہوا
کہ… آج تک جاری ہے… اور ہمیشہ جاری رہے گا… اگر وہ اُس لمحہ چھری نہ چلاتے تو سب کچھ
چھن جاتا … مگر انہوں نے چھری چلا کر… اپنے گمان میں اپنا بیٹا ذبح کر دیا… تب وہ بیٹا
بھی واپس مل گیا… اس بیٹے کی نسل میں بھی برکت ہو گئی… اور مزید بے شمار نعمتیں بھی
جاری ہو گئیں … یہی حال ہر مسلمان کا ہے… جو اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے قربانی کی
چھری چلا دیتا ہے… وہ کامیاب ہو جاتا ہے… اور جو آگے پیچھے دیکھتا رہتا ہے اس کے ہاتھ
کچھ نہیں آتا… حج کا ارادہ کیا اور زیورات پر چھری چلا دی، پلاٹ پر چھری چلا دی …
ان شاء اللہ حج بھی ہو جائے گا… اور مال بھی واپس مل جائے گا … مگر چھری چلاتے وقت
مال واپس ملنے کی نیت نہ ہو… بس عشق ہو… جنون ہو… تڑپ ہو، قربانی ہو… اور دل کا اخلاص
ہو…
لا الہ الا اللّٰہ،لا
الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا
محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد
رسول اللّٰہ
٭…٭…٭