دوکام
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 629)
اللہ تعالیٰ سے ہر ’’خیر ‘‘ کا سوال ہے… ہم اسے جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں… اور اللہ تعالیٰ کی پناہ، حفاظت ہر ’’شر‘‘ سے… ہم اسے جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہٖ عَاجِلِہٖ وَاٰجِلِہٖ مَا عَلِمْنَا مِنْہُ وَمَا لَمْ نَعْلَمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنَ الشَّرِّکُلِّہٖ عَاجِلِہٖ وَاٰجِلِہٖ مَا عَلِمْنَا مِنْہُ وَمَا لَمْ نَعْلَمْ
زمین اور زمانہ تیز ہو رہا ہے
زمین بھی قیامت کی طرف بڑھ رہی ہے اور زمانہ بھی قیامت کے قریب ہو رہا ہے… قیامت جیسے جیسے قریب آ رہی ہے زمین بھی تیز ہو رہی ہے … اور زمانہ بھی تیز ہو رہا ہے… پہلے لوگ آرام آرام سے جیتے تھے… آرام آرام سے مرتے تھے… آرام آرام سے خوش ہوتے تھے… آرام آرام سے پریشان ہوتے تھے… مگر اب سب کچھ تیز ہو چکا ہے… ہم جلدی جلدی جیتے ہیں …جلدی جلدی مرتے ہیں… جلدی جلدی پریشان ہوتے ہیں… زندگیوں میں سے سکون اور اطمینان ختم ہو رہا ہے… ہر شخص ایک ہی وقت میں دس جگہ لٹکا ہوتا ہے… موبائل کے ذریعہ وہ دس جگہ موجود ہوتا ہے… گھر والے پیچھے کھینچ رہے ہیں، دفتر والے آگے کھینچ رہے ہیں… اسپتال والے تڑپا رہے ہیں… شادی والے خوشی میں شریک کرنا چاہتے ہیں… اور کوئی فضول آدمی فضول چیزیں بھیج رہا ہے… زمین اور زمانے کی تیزی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آپ جہاں بھی جائیں آپ کو ترقی اور اضافہ نظر آئے گا… مثلاً علاج بھی زیادہ ہو گئے ساتھ بیماریاں ان سے بھی زیادہ ہو گئیں… اسپتال بہت بڑھ گئے… مگر بیماروں کی تعداد پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی… عدالتیں، تھانے ، قانون نافذ کرنے والے ادارے بہت بڑھ گئے … مگر ساتھ ظالم، مجرم اور قاتل بھی بڑھ گئے… ڈاکٹروں کے بقول جان بچانے والی دوائیاں زیادہ ایجاد ہو گئیں… مگر لوگ بھی پہلے سے زیادہ مرنے لگے… گناہوں کے اڈے بے شمار ہو گئے … ساتھ نیکی کے مراکز بھی کئی گنا بڑھ گئے… مالدار بہت زیادہ ہو گئے… مگر ساتھ غربت بھی پہلے سے زیادہ پھیل گئی … امن قائم کرنے والے ادارے بہت بن گئے… ساتھ بد امنی بھی ہر گلی میں گھس آئی…
یعنی ہر طرف ترقی ہی ترقی ہے… اضافہ ہی اضافہ ہے… معلوم ہوا کہ… زمین اور زمانہ تیز ہو گئے ہیں… اب جوبھی کچھ کرنا چاہتا ہے… وہ بہت جلدی جلدی کر سکتا ہے… پس اہل ایمان کو اس صورتحال سے فائدہ اُٹھانا چاہیے… اور جلدی جلدی نیکی کے کام کرنے اور پھیلانے چاہئیں … ایسا نہ ہو کہ ہم سستی کرتے رہیں… اور تیز رفتار فتنے اور گناہ ہمارے گھروں اور ہماری گردنوں تک پہنچ جائیں…
زمین اور زمانے کی اس تیزی میں… اگر ہم ’’خیر‘‘ حاصل کرنا چاہتے ہیں… اور ’’شر‘‘ سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں دو کام کرنے ہوں گے… پہلا کام اپنے وقت کی حفاظت… اور دوسرا کام اچھی منصوبہ بندی یعنی پلاننگ… ہم اپنا وقت ضائع نہ کریں… بلکہ اپنے وقت کو قابو کریں… اور اچھا اور مضبوط منصوبہ بنا کر زندگی گذاریں…
خسارے کے اسباب
جو مسلمان اپنا وقت ضائع کر رہا ہے وہ خسارے میں جا رہا ہے… یہ قرآن مجید کا فیصلہ ہے… ہمارے پاس تھوڑا سا وقت ہے… اور اس وقت میں ہم نے اپنی قبر اور آخرت کا سارا سامان برابر کرنا ہے… قبر کی زندگی کتنی ہو گی؟ …حشر کا دن کتنا بڑا ہو گا؟… اور آخرت کا زمانہ کتنا بڑا اور دائمی ہے؟… اگر ہم غور کریں تو صرف سوچتے ہوئے پسینہ آ جاتا ہے… مگر ہمارے اردگرد… ہمارا وقت ضائع کرنے کے لئے… بڑے بڑے فتنے وجود میں آ چکے ہیں … آج کل خبریں دیکھنا کس قدر مشکل ہے… دیکھنے سے مراد اخبارات میں دیکھنا ہے… ٹی وی پر نہیں… ٹی وی تو ویسے ہی ’’ٹی بی‘‘ کی بیماری اور مصیبت ہے… اور افسوس کہ اب ’’ ٹی وی‘‘ سے نفرت کرنے والے بھی بہت تھوڑے رہ گئے ہیں … اور جو تھوڑے سے رہ گئے ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ تصویر بازی، ویڈیو بازی  اور فوٹو بازی کی طرف کھسکتے جا رہے ہیں… آہ افسوس! تصویر بازی اور ویڈیو بازی نے منبر ومحراب کی رونق اور برکت تک کو چاٹ لیا… جب خطیب کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تصویراور ویڈیو بن رہی ہے تو… اس کی توجہ بس اپنی بناوٹ کی طرف رہ جاتی ہے… حالانکہ دین اسلام کا خطیب…جناب رسول اللہﷺ کے منبر پر ہوتا ہے… اس کے دل کا اخلاص اور دل کی کڑھن اس کی تقریر سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے… اُمت کے مقبول خطباء اپنی تقریر سے پہلے باقاعدہ غسل یا وضو کرتے تھے… پھر صلوٰۃ استخارہ اور صلوٰۃ حاجت پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے تھے… پھر استغفار میں ڈوب جاتے کہ قیامت کے دن… مجھے میری تقریر پر پکڑا نہ جائے کہ… دوسروں کو سمجھاتے تھے جبکہ خود بے عمل تھے… پھر دل میں اُمت محمدیہ کا درد بھر کر درود شریف اور اذکار کے ساتھ… خطیب منبر کی طرف بڑھتا تھا… دل میں اخلاص، طبیعت میں عاجزی اور تواضع… اور ایک فکر کہ … آج میری جھولی بھی بھر جائے اور مکمل مجمع کی بھی مغفرت و اصلاح ہو جائے… مگر آج بس یہی شور کہ کیمرہ کہاں لگانا ہے؟… خطیبوں کے چہروں پر کیا لگانا ہے؟… آہ افسوس کہ… نور بھری محفلیں کیسے اُجڑ گئیں؟…
اللہ تعالیٰ معاف فرمائے کہ… اب تویہ فوٹو باز کسی کو چین اور سکون سے مرنے بھی نہیں دیتے … آدمی مر رہا ہوتا ہے اور یہ اس کو کلمہ پڑھانے کی بجائے… اس کی ویڈیو بنا رہے ہوتے ہیں… یا اس کی یہ حالت دور بیٹھے رشتے داروں کو براہ راست دکھا رہے ہوتے ہیں… یا اس کا کسی جگہ باتصویر رابطہ کرانے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں … مسلمانو! کچھ تو اللہ تعالیٰ سے ڈرو… کعبہ شریف، روضہ اطہر، مسجد نبوی شریف، منیٰ، عرفات ، مزدلفہ… مرنے والے مسلمان اور دینی روحانی مجالس کو تو… اللہ کے لئے، اللہ کے لئے اپنی فوٹو بازی سے پاک رکھو… اللہ تعالیٰ نے دین کا کام چلانا ہو تو… بغیر گناہ بھی… صدیوں تک چلا دیتے ہیں…اُمت کے ائمہ، فقہاء، مفسرین کی تقریریں، تحریریں… سب کچھ ماشاء اللہ آج تک محفوظ ہے… بات تو یہ چل رہی تھی کہ… ٹی وی تو ویسے ہی خباثت اور گناہ کا اڈہ ہے… مگر اخبارات میں خبریں دیکھنا بھی… اب کتنا مشکل ہو چکا ہے… میں روزانہ عموماً … اور جس دن کالم لکھنا ہو خصوصاً … پانچ چھ بڑے اخبارات دیکھتا ہوں… تب یوں محسوس ہوتا ہے کہ… آدمی کانٹوں بھری زمین پر  ننگے پاؤں چل رہا ہے… اکثر خبریں ناپاک ، اکثر کالم ناپاک… ایک ننھی منی پیاری سی بچی زینب کا واقعہ ہوا… اخبارات اس پر یوں خبریں لگا رہے ہیں جیسے … کوئی خوشی یا شادی کی خبر ہے…
مجھ سے اس پورے واقعے کی ایک خبر بھی نہیں پڑھی گئی… بس پہلے دن سرخی دیکھی اور دل رونے لگا… اور یہی دعاء جاری ہو گئی کہ… اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کی بہنوں ، بیٹیوں کی عزت کی حفاظت فرمائے… کیسی خوفناک اور دردناک خبر ہے؟… سوچ کر جسم غم اور درد سے کانپنے لگتا ہے … تو پھر ایسی خبر کو چٹخارے دار بنانا… اس کے ہر پہلو کو بار بار لکھنا اور اس پر طرح طرح کی سیاست اور صحافت چمکانا… کم از کم کسی انسان کو تو زیب نہیں دیتا… پھر ہر اخبار شرمناک اور فحش خبروں سے الگ بھرا ہوتا ہے… ان خبروں کو پڑھنا گناہ… اور ان کو نہ پڑھنا ایک بڑی نیکی ہے… خلاصہ یہ کہ… ہمارے ہر طرف ایسے بے شمار فتنے بکھرے ہوئے ہیں جو ہمارا قیمتی وقت ضائع کرنا چاہتے ہیں… اس لئے سنبھل کر اپنی یہ تیز رفتار زندگی گزاریں… بریک پر اپنا پاؤں ہوشیار رکھیں… اور خسارے کے اسباب سے بچیں… خسارے کے اسباب وہ ہیں… جو ہمارے وقت کو گناہ یا فضولیات میں ضائع کراتے ہیں…
اس زمانے کے دو متعدی گناہ
بعض لوگ اپنے’’ موبائل‘‘ میں دنیا کی ہر الا بلا بھر کر پھرتے رہتے ہیں… اور پھر جو بھی اُن کے ہاتھ آ جائے اسے فوراً یہ سب کچھ دکھانے لگتے ہیں… اور اپنا یہ گند دوسروں کو بھی بھیجتے رہتے ہیں… یہ ایک خطرناک متعدی گناہ ہے… کوشش کریں کہ آپ کے موبائل میں… سوائے خیر کے کوئی چیز نہ بھری ہوئی ہو… کیونکہ کسی بھی وقت موت آ سکتی ہے… نہ کوئی فلم نہ ڈراما، نہ کارٹون، نہ لطیفے، نہ گانے… اور نہ کھیل کود ، لہو و لعب اور حیرت انگیز چیزیں…
اور دوسروں کو دکھانے ، سنانے اور بھیجنے کا تو تصور ہی نہ کریں… صرف مفید بیانات وغیرہ اور دینی دعوت کے سوا نہ کچھ بھیجیں اور نہ دکھائیں… دوسرا کام یہ کریں کہ… اس زمانے میں کبھی بھی… کسی کو موبائل فون، لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر وغیرہ ہدیہ نہ کریں… اس کی تفصیل بڑی درد ناک ہے… بس آپ اعتبار کر کے مان لیں… اور اسے اپنی زندگی کا پختہ اصول بنا لیں…
منصوبہ بندی
پہلا کام یہ کہ وقت ضائع نہیں کرنا… اس کی کچھ اشارۃً تفصیل عرض کر دی… جبکہ دوسرا کام منصوبہ بندی ہے… ابھی ہم نے حال ہی میں ’’مکتوباتِ خادم‘‘ کے ذریعہ ایک مشق کی… الحمد للہ حیرت انگیز نتائج اور فوائد سامنے آئے… ہر ہفتے ایک کام… اللہ تعالیٰ کی رضاء… اور آخرت کے سرمائے کے لئے مقرر کر لیا… اور پورا ہفتہ اس پر محنت کی… الحمد للہ اس معمولی سی منصوبہ بندی نے کئی لوگوں کی زندگی ہی بدل دی …ہزاروں افراد نے ضروری دعائیں یاد کیں … شہادت کا مسئلہ سمجھا… فرائض میں مضبوطی پائی… اور زندگی کے بہت سے اوقات پکڑ لئے … آپ پوچھیں گے کہ… وقت پکڑنے کا کیا مطلب؟ … تو اسے ایک مثال سے سمجھیں… حضرت امام بخاری ؒ … اپنی زندگی کے جن اوقات میں ’’صحیح بخاری‘‘ لکھ رہے تھے… شاہ عبد القادرؒ اپنی زندگی کے جن اوقات میں ’’موضح قرآن‘‘ لکھ رہے تھے… اُن کا یہ وقت آج تک چل رہا ہے … ختم ہی نہیں ہو رہا… بلکہ اپنی زندگی کے یہ دن انہوں نے ایسے پکڑے اور ایسے محفوظ کئے کہ… یہ دن بڑھتے بڑھتے صدیاں بن گئیں… بخاری آج بھی روز ہزاروں جگہ پڑھی جاتی ہے… اگر امام صاحب کا یہی وقت کھانے پینے ، گپ شپ کرنے یا لذتوں کے حصول میں گذر جاتا تو… بس ختم ہو جاتا… مگر انہوں نے اسے پکڑ لیا… اور اسے اپنا بنا لیا… اب وہ اُن کے کام آ رہا ہے اور اُن کی آخرت کا سرمایہ بنانے کا کارخانہ بن چکا ہے…
بس اسے کہتے ہیں وقت پکڑنا… جو لوگ اپنا’’ وقت‘‘ نہیں پکڑتے وہ ضائع ہو جاتے ہیں … خسارے میں چلے جاتے ہیں… اور جو لوگ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت پکڑ کر… قید کر لیتے ہیں وہ بڑی بڑی کامیابیاں پا لیتے ہیں… ہم اچھی ’’منصوبہ بندی ‘‘ کے ذریعے اپنے زیادہ سے زیادہ وقت کو… اپنے لئے ’’قابو‘‘ کر لیں… مثلاً ہر ہفتے ایک دن مقرر کر لیں… اس میں پکا عزم کریں کہ… اس ہفتے میں نے یہ کام کرنا ہے… کوئی سورۃ یاد کرنی ہے… قرآن مجید کا کوئی حصہ سمجھنا ہے… علم کا کوئی باب پڑھنا ہے… کسی اچھی کتاب یا بیانات کو سننا ہے… کوئی نیکی کا کام سیکھنا ہے… کوئی نیکی والا ہنر حاصل کرنا ہے… کوئی دعاء یاد کرنی ہے… کوئی معمول پختہ بنانا ہے… کسی ذکر کا خصوصی حال پانا ہے… روز جہاد میں خرچ کرنے کی ترتیب مضبوط کرنی ہے … روزانہ کے صدقے کا نظام بنانا ہے… اپنی فلاں کوتاہی دور کرنی ہے وغیرہ وغیرہ… اور پھر پورا ہفتہ مضبوطی اور فکر سے اس کام کو کریں اور اس نعمت کو حاصل کریں… یہاں پھر ایک پریشانی آ گئی… کئی لوگوں کو اعتراض ہو گا کہ ’’ہفتہ واری‘‘ ترتیب اسلام میں ٹھیک نہیں… اسلام میں عشرے کی ترتیب ہوتی ہے… جبکہ کفار کے ہاں ’’ہفتہ واری‘‘ ترتیب ہوتی ہے… تو پھر آپ ہفتہ واری منصوبہ بندی کی ترغیب کیسے دے رہے ہیں؟ …جواب یہ ہے کہ… ہفتہ واری ترتیب کو اسلام کے خلاف قرار دینا غلط ہے… یہ بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک بات گھڑ لی ہے … اسلام میں جمعہ مبارک کی ترتیب ’’ ہفتہ واری‘‘ ہے… بس یہی بات ہمارے لئے کافی ہے… باقی اس طرح کی فضول بحثوں میں اُلجھنا بھی وقت کا زیاں ہے… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو … جھولی بھر کر’’ خیر ہی خیر‘‘ عطاء فرمائے… اور ہم سب کی ہر ’’شر ‘‘ سے حفاظت فرمائے… آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭