اللہ تعالیٰ مہربان
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 630)
اللہ تعالیٰ نے ہمارے معاملہ میں جو کچھ کیا …وہی اچھا ہے، وہی ٹھیک ہے… اللہ تعالیٰ ہمارے معاملہ میں جو کچھ کریں گے… وہی اچھا ہے وہی ٹھیک ہے… اللہ تعالیٰ ظلم نہیں فرماتے … اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہیں… اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کیا خیر ہے اور کیا شر… وہ مسلمان کامیاب ہے جو اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ اچھا گمان رکھتا ہے…
بڑی عبادت
اللہ تعالیٰ سے ’’حسن ظن‘‘ رکھنا… اللہ تعالیٰ سے خوش گمان رہنا… اللہ تعالیٰ سے خوش اور راضی رہنا…اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر اور کشادگی کا اُمیدوار رہنا… اللہ تعالیٰ کی طرف سے اچھے حالات کی اُمید رکھنا… اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور بخشش کی اُمید رکھنا… یہ بہت افضل اور بڑی عبادت ہے… جب دل پر ناشکری کا حملہ ہو تو وہ الفاظ دل اور زبان سے کہیں جو آج کے کالم کی پہلی سطر میں لکھے ہیں کہ… یا اللہ! آپ نے جو کچھ کیا وہی اچھا ہے، وہی بہتر ہے اور جو کچھ کریں گے وہی اچھا ہے اور وہی بہتر ہے… ان شاء اللہ دل سے ناشکری دور ہو جائے گی… حضرت سعید بن جبیرؒ یہ دعاء فرمایا کرتے تھے…
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ صِدْقَ التَّوَکُّلِ عَلَیْکَ وَحُسْنَ الظَّنِّ بِکَ
یا اللہ! مجھے آپ پر سچا توکل اور حسن ظن نصیب ہو جائے…
افراتفری کا عالم ہے
دنیا میں شاید کوئی تبدیلی آنے والی ہے… وجہ یہ ہے کہ ہر طرف افراتفری اور بے یقینی کا عالم ہے… آپ خبریں دیکھیں تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا… امریکہ کہاں جا  رہا ہے اور کیا چاہتا ہے؟ …روس کی پالیسی کیا ہے؟ چین کی منزل کیا ہے؟ … انڈیا کس طرف جا رہا ہے؟ … پاکستان میں کون حکمران ہے او رکون غلام؟ کون ظالم ہے اور کون مظلوم؟ … آج کوئی بھی دانشور یا باخبر انسان ان سوالوں کا جواب نہیں دے سکتا… ہر ملک میں عجیب و غریب حالات ہیں… زمانے اور زمین کی تیزی نے لوگوں کی عقلیں اُڑا دی ہیں … ہر ملک کے داخلی ادارے ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں… ہر کوئی بے چین اور پریشان ہے…لوگ جن کو خوش اور کامیاب سمجھ رہے ہیں… وہی لوگ چھپ چھپ کر خودکشیاں کر رہے ہیں… دوسروں کو ہنسانے والے خود تنہائی میں رو رو کر مر رہے ہیں… ظاہری طور پر خوب چمک دمک والی زندگی گزارنے والے… اداسیوں اور غموں کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں… انسان اس دنیا کی سب سے بے قیمت چیز بن چکا ہے… حرص اس قدر بڑھ چکی ہے کہ انسان کو مار کرہی دم لیتی ہے … وہ اعمال جن کی وجہ سے ماضی کی قومیں تباہ ہوئیں… دوبارہ منظم ہو رہے ہیں… کسی شخص کو اپنی زندگی کا مقصد معلوم نہیں ہے… بظاہر بہت روشنی ہے مگر اندر اندھیرا ہی اندھیرا ہے… یہ وہ حالات ہیں جو اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ زمین پر کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے… اللہ کرے خیر والی تبدیلی ہو… بہرحال ایسے حالات میں حالات حاضرہ پر کچھ لکھنا مشکل ہو جاتا ہے… اسی لئے وہ باتیں لکھی جاتی ہیں جن سے ہمیں فائدہ ہو… ذاتی فائدہ ، حقیقی فائدہ ، اجتماعی فائدہ…
سخت پریشانیوں کا ایک علاج
اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم نہیں فرماتے… مگر بندے خود اپنی جان پر بہت ظلم کرتے ہیں… پھر جب درد ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے ناراض ہوتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ سے شکوے کرتے ہیں… ایک شخص سخت غمگین ، سخت پریشان… ہر وقت لوگوں کے شکوے اور حالات کا رونا… ان سے بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ… وظیفے بہت کرتے ہیں… اور وظیفے بھی دشمنوں کی بربادی کے… مجھے ایک بزرگ اللہ والے نے فرمایا تھا کہ… کبھی کسی کے لئے بددعاء نہ کرنا… ان شاء اللہ ہمیشہ خیر رہے گی… وجہ یہ ہے کہ… ہم میں سے ہر شخص کا بڑا دشمن آج کل خود اس کا اپنا نفس ہے… پھر جب ہم دشمنوں کی بربادی کے وظیفے کرتے ہیں تو ان وظیفوں کا شکار… ہم خود ہی ہو جاتے ہیں… کیونکہ وظیفے دشمن کے خلاف تھے… اور ہمارا دشمن اور کوئی نہیں بلکہ ہم خود ہی ہیں… اور یوں بربادی بھی اپنی ہوتی ہے… اگر ہم نے محنت کر کے… اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اپنے نفس کو پاک کیا ہوتا… اس کا’’ تزکیہ‘‘ کیا ہوتا…اسے اپنا دشمن نہیں بلکہ دوست بنایا ہوتا … اور کبھی اپنی ذات کے لئے کسی سے دشمنی نہ کی ہوتی…بلکہ صرف اللہ، رسول اور دین کے دشمنوں کو اپنا دشمن بنایا ہوتا تو… دشمنوں کے خلاف وظیفے بھی ٹھیک رہتے اور بددعائیں بھی … دشمنان دین کے خلاف بددعاء کرنا یہ سنت ہے…لیکن جب دشمنی کا معاملہ شریعت کے خلاف ہے تو پھر… دشمنوں کے خلاف وظیفے اور بددعائیں کرنے میں احتیاط کریں… آج کل کئی لوگ …اس طرح کے وظیفوں کی وجہ سے… بڑی سخت پریشانیوں کا شکار ہیں… یاد رکھیں کہ …غیر مسنون وظیفے ’’دوائیوں‘‘ کی طرح ہیں … کوئی دواء کسی کو فائدہ دیتی ہے او رکسی کو نقصان … اچھا تو یہ ہے کہ’’ غیر مسنون وظیفے ‘‘ کریں ہی نا…بس قرآن مجید کی تلاوت کریں … اور جو اذکار حضرت آقا مدنی ﷺ نے تلقین فرمائے ہیں انہی کو اپنے لئے کافی سمجھیں… پھر بھی اگر کوئی ’’غیر مسنون وظیفہ‘‘ کرنا چاہیں تو دو کام ضرور کر لیں…(۱) استخارہ ( ۲) استشارہ… یعنی استخارہ کریں کہ مجھے یہ وظیفہ کرنا چاہیے یا نہیں؟ … اور پھر کسی صاحب علم ، صاحب دل شخص سے مشورہ کریں کہ مجھے یہ وظیفہ کرنا چاہیے یا نہیں؟ … آپ نے دیکھا ہو گا کہ… زیادہ وظیفے کرنے والے اکثر پریشان حال ہوتے ہیں… وجہ یہ ہے کہ… لوگ کلمات کی تاثیر نہیں سمجھتے… بعض کلمات اور دعائیں ستاروں کی طرح ہوتی ہیں … بعض سورج کی طرح… بعض پانی اور بعض آگ کی طرح… اب پانی اور آگ جمع کریں گے تو… بھاپ ضرور بنے گی… ستاروں پر سورج چمکائیں گے تو… ستارے گم ہو جائیں گے… اس لئے اپنے اوپر رحم کریں… ہر  کسی کا بتایا ہوا وظیفہ شروع نہ کر دیں… بلکہ اپنے وقت کو دین سیکھنے، دین سمجھنے اور دین کی خدمت کے لئے وقف کریں… اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کریں… اپنا دل بغض اور کینے سے پاک رکھیں… جہاد کا کام زیادہ کریں… اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو نفع پہنچائیں…
الحمد للہ مسنون دعائیں… اور مسنون اذکار ہمارے لئے بہت ہیں، کافی ہیں، وافی ہیں … اور ان کی تاثیر اور طاقت بھی… غیر مسنون وظیفوں سے بہت زیادہ ہے… آپ صرف چند دن … ہر نماز کے بعد مسنون تسبیحات فاطمی کا اہتمام کر کے دیکھ لیں… کسی بھی نماز کے بعد … یہ تسبیحات نہ چھوٹیں… سبحان اللہ، الحمد اللہ، اللہ اکبر… تینتیس تینیتس اور چونتیس بار… آپ تین دن بعد اپنے دل کا جائزہ لیں تو عجیب قسم کی قوت اور نور محسوس کریں گے…
ایک اور پریشانی کا علاج
مالی پریشانی کافی سخت ہوتی ہے… اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پریشانی سے بچائے… مالی پریشانی کے مختلف درجات ہیں… بعض لوگ روٹی کپڑے تک کے معاملے میں پریشان ہوتے ہیں …جبکہ کئی لوگوں کو… مال بڑھانے اور مال بچانے کی فکر دن رات کھاتی رہتی ہے…
خیر یہ ایک الگ موضوع ہے… آج یہ عرض کرنا ہے کہ… مالی پریشانی دور کرنے کا ایک بہترین علاج یہ ہے کہ… اپنی مالی پریشانی کسی کو بھی نہ بتائی جائے… اور کسی کے سامنے مال کی کمی، مال کی تنگی یا مال کے نقصان کا تذکرہ نہ کیا جائے…یہ بڑا عجیب ، مؤثر اور عجیب عمل ہے …جو بھی اسے اپناتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے غنی ہو جاتا ہے… مگر بظاہر آسان نظر آنے والا یہ عمل کافی مشکل ہے… اور اکثر لوگ اس پر عمل نہیں کر پاتے… یہ عمل کیوں مشکل ہے اس کی تفصیل میں پڑے بغیر… بس اتنا عرض ہے کہ… مخلوق ہماری کوئی حاجت پوری نہیں کر سکتی … حاجت صرف اللہ تعالیٰ پوری فرما سکتا ہے… جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہماری حاجت پوری نہیں کر سکتا تو پھر… کسی کے سامنے رونے، دھونے ، شکوے کرنے کا کیا فائدہ؟… بیج زمین میں ڈالا جائے تو پودا نکلتا ہے… لیکن اگر بیج کو بستر یا گدے پر ڈال دیں تو کیا فائدہ؟… دوسری بات یہ کہ شکر سے نعمت بڑھتی ہے جبکہ شکوہ کرنا… شکر کے خلاف ہے…ظاہر ہے کہ اس سے نعمت گھٹے گی… تیسری بات یہ ہے کہ … اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ایک ’’وقار‘‘ اور ایک ’’عزت‘‘ عطاء فرمائی ہے… جو انسان اپنے اس ’’وقار‘‘ کی اور عزت کی حفاظت کرے… اللہ تعالیٰ اس کے وقار اور عزت کو قائم رکھتے ہیں اور بڑھاتے ہیں … اور جو اپنے ’’وقار‘‘ کو ضائع کر دے تو… پھر وہ ساری زندگی اسے ترستا ہی رہتا ہے… لوگوں سے سوال کرنا… یا کسی اشارے سے مانگنا… یہ سب ’’انسانی وقار‘‘ کے خلاف ہے…
دوسرا نسخہ
مال کی تنگی دور کرانے کا دوسرا مسنون نسخہ یہ ہے کہ … مال ضائع نہ کریں… نہ ایک قطرہ پانی، نہ ایک لقمہ روٹی…نہ ایک دانہ چاول، نہ ایک یونٹ بجلی… ویسے تو ایک مسلمان کو بارش کی طرح سخی ہونا چاہیے… مگر مال کو ضائع کرنے کے معاملے میں اسے حد درجہ کنجوس ہونا چاہیے… وجہ یہ ہے کہ… اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے جن چیزوں کو مکروہ اور ناپسندیدہ فرماتے ہیں… ان میں سے ایک چیز… مال ضائع کرنا ہے… یہ بات احادیث صحیحہ میں وارد ہوئی ہے… پس جو انسان اللہ تعالیٰ کی رضاء کو مقصود بنا کر… مال کو ضائع ہونے سے بچاتے ہیں… اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ’’برکات‘‘ ملتی ہیں…
وہ مسلمان جو مال کی تنگی کا شکار ہیں… آج سے ہی اس عمل پر مضبوطی اختیار کر لیں تو چند دن میں… ان شاء اللہ… ان کی تنگی دور ہو جائے گی … گھر میں بجلی کا استعمال ہو یا پانی کا… موبائل کارڈ ہو یا… دستر خوان کا کھانا… وہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال کی سونے چاندی کی طرح قدر کریں… اور ایک پیسہ بھی فضول ضائع نہ ہونے دیں… کہتے ہیں کہ… ایک بزرگ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ حضرت! رزق کی تنگی ہے… کوئی وظیفہ ارشاد فرما دیں…
( اگر مقصد صرف دینی رہنمائی اور عمل پوچھنا ہو تو اس طرح اپنی مالی تنگی بتانے میں کوئی حرج نہیں)
بزرگوں نے فرمایا کہ… جب بھی گھر میں کھانا پکاؤ تو صرف چاول پکایا کرو… اور کچھ نہیں … بس یہی علاج ہے… وہ شخص چلا گیا… کچھ دیر بعد ایک اور شخص آیا اور کہنے لگا کہ حضرت ! رزق بہت زیادہ ہو گیا ہے… میں حساب کتاب اور سنبھالنے سے تنگ آ جاتا ہوں… کوئی عمل بتائیں کہ رزق کم ہو جائے… بزرگوں نے فرمایا … جب بھی گھر میں کھانا پکاؤ تو صرف چاول پکایا کرو … اور کچھ نہیں … بس یہی علاج ہے… وہ شخص بھی چلا گیا… حاضرین مجلس حیران تھے کہ مرض الگ الگ تھا… مگر حضرت نے ’’دواء‘‘ ایک ہی تجویز فرمائی… خیر کچھ عرصہ کے بعد غریب شخص آیا اور شکریہ ادا کرنے لگا کہ… اس کا کام بن گیا ہے … اور اللہ تعالیٰ نے اسے ’’غنی‘‘ فرما دیا ہے… پھر مالدار شخص آیا اور اس نے بھی شکریہ ادا کیا کہ… میرا مال اب بہت کم ہو گیا ہے … حاضرین مجلس نے حضرت سے اس علاج کی حکمت پوچھی … فرمایا:غریب آدمی کے پاس مال بہت کم تھا جب اس نے چاول پکائے تو… ایک ایک دانے کی حفاظت کی… دھوتے وقت کوئی دانہ نہ گر جائے … پھر کھاتے وقت کوئی دانہ ضائع نہ ہو… دستر خوان پر جو چاول گرتے وہ اُٹھا اُٹھا کر کھاتا… ایک ایک چاول اُٹھا کر دوبارہ کھانے سے بار بار… گرے ہوئے لقمے اُٹھا کر کھانے کی سنت زندہ ہوئی… بس اس قدر دانی نے… اللہ تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ فرمایا… اور اسے غنی فرما دیا گیا…دوسری طرف مالدار نے دیگیں بھر کر چاول پکائے اور اس میں دھونے سے لے کر … کھانے تک بے شمار دانے ضائع کئے… کیونکہ اسے کوئی کمی نہیں تھی… اس لئے ناقدری کرتا رہا تو… اس کے  رزق کی لگامیں کھینچ لی گئیں… یہ قصہ یہاں ختم ہوا … معلوم نہیں یہ قصہ سچا ہے یا کسی نے بات سمجھانے کے لئے… بطور تمثیل اسے بنایا ہے… مگر اس میں جو سبق ہے وہ بے شک سچا ہے… یہاں کئی لوگ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ… بہت سے مالدار ڈھیروں مال اور رزق ضائع کرتے ہیں… مگر ان کا مال کم نہیں ہوتا… جواب یہ ہے کہ… مال کا کم یا زیادہ ہونا الگ چیز ہے… جبکہ رزق میں تنگی اور وسعت ایک الگ چیز ہے… کئی لوگوں کے پاس مال بہت زیادہ ہوتا ہے مگر اُن کا رزق تنگ ہوتا ہے… وہ طرح طرح کی بیماریوں کی وجہ سے اس مال سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے… وہ ایک غریب آدمی سے بھی کم کھا سکتے ہیں… اور اُن کے دل میں… جو گھٹن اور مزید مال کی خواہش ہوتی ہے وہ انہیں کبھی وسعت اور فراخی کا احساس تک نہیں ہونے دیتی …بلکہ اُن کا مال اُن کے لئے طرح طرح کی پریشانیوں، بیماریوں اور خطرات کا ذریعہ بنا رہتا ہے …میں نے ایک اربوں پتی شخص کا انٹرویو پڑھا… وہ کہہ رہا تھا کہ لوگ مجھے خوش سمجھتے ہیں … حالانکہ میری زندگی بے انتہا مشکل ہے… کوئی شخص ایسی مشکلات ایک دن بھی برداشت نہیں کر سکتا…
بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ… بندہ اللہ تعالیٰ سے راضی اور خوش رہے… اور اپنے برے حالات کی وجہ … خود اپنی ذات میں تلاش کرے … اور پھر اس کی اصلاح کی کوشش کرے…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭