اصل پیغامِ محبت    
      رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے شمارہ627
اللہ تعالیٰ نے’’ قرآن مجید‘‘ میں’’ دوستی اور دشمنی‘‘ کا مسئلہ تفصیل کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے …دراصل دوستی اور دشمنی انسان کی فطرت میں شامل ہے… دوستی اور دشمنی کے صحیح استعمال سے انسان کامیابی اور ترقی پاتا ہے… اور دوستی، دشمنی کے غلط استعمال کی وجہ سے… انسان بڑے نقصانات اور بربادی پاتا ہے
اپنی فطرت اور طبیعت میں سے … کوئی شخص دوستی اور دشمنی نکال دے…یہ ممکن نہیں ہے… بہت سے لوگ دوستی اور دشمنی سے تنگ آ کر اسے بھلانے اور مٹانے کی کوشش کرتے ہیں … تب وہ طرح طرح کے نشے کرتے ہیں… زیادہ وقت مدہوش اور بے ہوش رہتے ہیں… مگر وہ اپنی اس کوشش میں نئے دوست اور نئے دشمن بنا لیتے ہیں… نشے کی عادت بھی نشے کے ساتھ دوستی… اور عقل کے ساتھ دشمنی ہے
دوستی،دشمنی کی ترقی دیکھنی ہو تو… بہترین مثال حضرات صحابہ کرام ہیں… انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے دوستی کی… اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر دشمن سے دشمنی کی… پس یہی عمل اُن کی ہر کامیابی اور ہر ترقی کا ذریعہ بن گیا… اور اگر دوستی اور دشمنی کی بربادی دیکھنی ہو تو حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی مثال سامنے رکھ کر… یہ معاملہ پوری طرح سمجھا جا سکتا ہے… قرآن مجید نے جس کو مثال بنایا ہو… وہ واقعی’’ مثال‘‘ ہوتا ہے… انسان جس قدر غور کرتا جائے مسئلہ اسی قدر واضح ہوتا چلا جاتا ہے
کتابت کی غلطی
گذشتہ کالم کے آخری جملے میں لکھا تھا کہ …ہر دشمنی کا ختم ہونا یہ فطرت کے خلاف ہے … اخبار والے حضرات نے ’’دشمنی‘‘ کو ’’دشمن ‘‘  بنا دیا کہ… ہر’’ دشمن‘‘ کا ختم ہونا یہ فطرت کے خلاف ہے… بات تو قریب قریب ایک ہی ہے … دشمنی کے لیے دشمن کا ہونا ضروری ہے… مگر میرا مقصد ایک قرآنی نکتے کی طرف توجہ دلانا تھا… وہ نکتہ ہے :
بعضکم لبعض عدو
یعنی انسان جب اس زمین پر اُتارا گیا تو اس کی فطرت میں ’’دشمنی‘‘ کا مادہ بھی رکھ دیا گیا… دراصل ’’دشمنی‘‘ انسان کی ایک اہم ترین ضرورت ہے… جن افراد میں دشمنی کم ہوتی ہے یا کمزور ہوتی ہے… وہ انسان کبھی کامل نہیں ہو سکتے… ایسے افراد دنیا میں کوئی بڑا کام بھی نہیں کر سکتے… مضبوط دوستی اور مضبوط دشمنی یہ انسان کے کمالات میںسے ہے… اور یہ ایک انسان کی اہم ضرورت ہے… اگر ’’دشمنی‘‘ نہ ہو تو انسان کو ’’دوستی‘‘ سمجھ میں نہیں آ سکتی کیونکہ اگر ’’اندھیرا ‘‘ موجود نہ ہو تو ’’روشنی‘‘ کا فائدہ نہیں سمجھاجا سکتا … ’’کڑوا‘‘ موجود نہ ہو تو ’’میٹھے‘‘ کا کیا پتا چلے گا … ’’دشمنی‘‘ ہی کی وجہ سے ’’دوستی‘‘ کی قدر ہے اور ’’دوستی‘‘ کی لذت… دوسری بات یہ ہے کہ ’’دوستی‘‘ انسان کو اونچا اڑاتی ہے… جبکہ ’’دشمنی‘‘ انسان کو مضبوط بناتی ہے… آپ دیکھ لیں گے کہ جس انسان کے دشمن کم ہوتے ہیں وہ کمزور ہوتا ہے… اور جس کے دشمن جس قدر زیادہ ہوتے ہیں وہ اسی قدر مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے… خلاصہ یہ کہ… ’’دشمنی‘‘ ایک ضروری ، ایک مفید اور مقوی چیز ہے
یہ انسان کی قدر بھی بڑھاتی ہے اور قوت بھی … یہ انسان کی اصلاح بھی کرتی ہے اور اسے ترقی بھی دلاتی ہے… شرط یہ ہے کہ… ’’دشمنی‘‘ ٹھیک جگہ استعمال ہو… لیکن اگر اسے ’’غلط‘‘ استعمال کیا جائے تو یہ انسان کو… محرومی، ناکامی اور ذلت میں گراتی چلی جاتی ہے
مکہ کے سردار ’’ابو جہل‘‘ جیسا بہادر، باصلاحیت ، مقبول شخص اس زمین پر بہت کم پیدا ہوا ہے مگر اس نے ’’دشمنی‘‘ کی صفت کا غلط استعمال کیا تو… ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ناکامی اور ذلت کی مثال بن گیا… اس لئے جو انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے… اسے اپنی ’’دشمنی‘‘ کو بھی… اپنی ’’دوستی‘‘ کی طرح… درست استعمال کرنا ہو گا
یہ سب جھوٹے ہیں
اوپر جو باتیں عرض کی ہیں… بہت سے لوگوں کے لئے یہ باتیں حیرانی کا باعث بنی ہوں گی… کیونکہ آج کل ہر طرف یہ نعرے گونج رہے ہیں
٭سب کے لئے دوستی، سب کے لئے محبت
٭ دوستی پھیلاؤ، دشمنی مٹاؤ
٭امن، شانتی ، دوستی اور عدم تشدد ہی میں کامیابی ہے
٭محبت اور دوستی کا پیغام عام کرو (وغیرہ، وغیرہ(
واقعی یہ سب بہت میٹھے جملے ہیں… یہ جملے دل پر بہت اثر بھی کرتے ہیں… عیسائی مشنریاں اور یہودی این جی اوز ان نعروں کو… ہر جگہ پہنچاتے اور پھیلاتے ہیں… ویسے بھی جو انسان ان جملوں کو سنتا ہے وہ ضرور اثر لیتا ہے… کیونکہ فطری طور پر ہر انسان کو دوستی اور محبت اچھی لگتی ہے… لیکن سوال یہ ہے کہ… ان جملوں پر اس دنیا میں عمل کون کرتا ہے؟… ہم نے ’’محبت، محبت‘‘ کرنے والے کئی افراد سے پوچھا کہ… کیا آپ مجاہدین اسلام سے بھی ’’محبت‘‘ رکھتے ہیں؟ … تب ان کے چہروں سے نفرت کی ناگواری برسنے لگتی ہے… ارے بھائی! جب محبت سب کے لئے ہے تو پھر… مجاہدین کے لئے کیوں نہیں؟… تب وہ غصے پھنکارتے ہیں کہ… مجاہدین چونکہ انسانیت کے دشمن ہیں اس لئے ہم ان سے محبت نہیں رکھتے… معلوم ہوا کہ… محبت محبت کا پیغام دینے والوں کے دل بھی… دشمنی سے بھرے ہوئے ہیں… ویٹی کن کا پوپ ہر جگہ محبت، محبت کی آواز لگاتا ہے… لیکن اگلے ہی لمحے وہ جہاد والے اسلام… جہاد والے نبی او رجہاد والے قرآن کی نفرت سے پھٹنے لگتا ہے… اور اس کی عالمگیر محبت… صرف چند افراد تک سمٹ کر رہ جاتی ہے
یہی حال انسانی حقوق کے اداروں …اور اسی طرح کی دیگر تنظیموں کا ہے… یہ لوگ ’’محبت‘‘ کا لیبل لگا کر… دشمنی کا سودا بیچتے ہیں
دراصل یہ لوگ… قرآن مجید کے ’’نظام محبت‘‘ اور ’’اصول عداوت‘‘ کو مٹانا چاہتے ہیں …یہ کہتے ہیں کہ… جن سے دشمنی کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے … اُن سے محبت کرو… اور جن سے محبت کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے… اُن سے نفرت کرو
ان لوگوں کے سامنے اگر آپ سورہ فاتحہ کی تفسیر بیان کریں تو ’’نعوذ باللہ‘‘ وہ اسے بھی نفرت کا سبق کہہ دیتے ہیں… کیونکہ اس میں برے یہودیوں اور برے نصرانیوں کے راستے سے بچنے کی دعاء مانگی گئی ہے
ان کی زندگیوں میں جھانک کر دیکھیں
عیسائی مشنریوں اور این جی اوز کے اہلکاروں کی نجی زندگیوں میں جھانک کر دیکھیں … آپ کو یہ لوگ بغض ، عداوت اور دشمنی کی بھری ہوئی بوریاں نظر آئیں گی… یہ اللہ تعالیٰ کے دین سے نفرت رکھتے ہیں… یہ قرآن مجید سے نفرت رکھتے ہیں… یہ باعمل مسلمانوں کے جانی دشمن ہیں… یہ مجاہدین اسلام کا نام و نشان تک گوارہ نہیں کرتے… یہ اپنے ماتحتوں اور ملازموں سے کتوں جیسا سلوک کرتے ہیں… یہ حرص اور لالچ کی وجہ سے ہر کسی کو نقصان پہنچانے کی فکر میں رہتے ہیں… باقی رہا ’’محبت محبت‘‘ کا پیغام تو وہ اُن کی نوکری اور اُن کی ڈیوٹی ہے… طوطے کی طرح وہ صرف زبان سے کہتے ہیں اور بس… کیونکہ اگر اُن کے دل میں… واقعی انسانیت کے لئے ’’محبت محبت‘‘ کی بات ہوتی تو… برما سے لے کر بوسنیا تک… مسلمانوں کا اس طرح سے قتل عام نہ ہوتا… دنیا کی ہر جیل میں با عمل مسلمانوں کو… اتنی بے دردی کا سامنا نہ ہوتا… اور دنیا کے ظالم حکمران اتنی آزادی سے … دنیا میں ظلم نہ ڈھا رہے ہوتے…پوپ اگر واقعی ’’محبت‘‘ کا علمبردار ہے تو… اس نے ’’ٹرمپ‘‘ جیسے نفرت کے گیس سیلنڈر کو… ویٹی کن میں کیوں خوش آمدید کہا… اور یہی پوپ اپنے منہ پر سولہ لگامیں لگا کر برما میں بھی… خطاب جھاڑ آیا … کیا یہی ہے ’’محبت محبت‘‘ کی صداؤں کی حقیقت؟… آج دنیا کے ہر ظالم کی پشت پر سرپرستی کا ہاتھ رکھ کر… پوپ کہتا ہے… محبت محبت… کیا آج زمین پر اس سے بڑی منافقت کوئی اور ہو سکتی ہے؟
اصل پیغام محبت
قرآن مجید ہی اصل ’’پیغام محبت‘‘ ہے… اسلام ہی اصل میں ’’دین محبت‘‘ ہے… مگر اسلام کا ’’پیغام محبت‘‘ … جھوٹ اور منافقت سے پاک ہے… اسلام کے ’’پیغام محبت‘‘ میں ساری مخلوق کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے… اور جھوٹے میٹھے دعووں کی جگہ … حقیقت کو اختیار کیا گیا ہے… نفرت سے پاک دل ، نفرت سے پاک سینے، نفرت سے پاک نفس … یہ اسلام کا تحفہ ہیں… خیر خواہی ہی خیر خواہی یہ اسلام کا پیغام ہے… اسلام سمجھاتا ہے کہ… ایک انسان ’’محبت‘‘ میں تبھی کامل ہو سکتا ہے… جب وہ اپنی ’’دشمنی‘‘ کی صفت کا درست استعمال کرے… انسان جب زمین پر اُترا تو اس کے دشمن بھی زمین پر اُتار دئیے گئے… اب ان دشمنوں سے دشمنی کرنا یہ انسان کی ایک ضرورت ہے… اور دنیا کا کوئی انسان ’’دشمنی‘‘ سے خالی نہیں ہے
گاندھی سے لے کر پوپ تک… جو لوگ خود کو ’’دشمنی‘‘ سے پاک قرار دیتے رہے… اُن کی زندگیاں… اور اُن کا طرز عمل… اُن کے دعوے کی تصدیق نہیں کرتا… بلکہ اُن لوگوں کا طرز عمل ’’انسانیت ‘‘ کے لئے زیادہ خطرناک ہے … خود ’’گاندھی‘‘ کی ناک کے نیچے نہرو اور پٹیل نے برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کا بے دردی سے خون کیا… تب گاندھی نے اسی خونخوار ملک کا ’’ راشٹرپتا‘‘ یعنی ’’بابائے قوم‘‘ ہونا قبول کر لیا… جبکہ سلطان صلاح الدین ایوبی کئی رات دن جاگ کر… فتح بیت المقدس کے معاہدے کو یقینی بناتے رہے… اور انہوں نے تمام عیسائیوں کو امن اور حفاظت کے ساتھ وہاں سے نکالا… مگر تاریخ کا ستم دیکھیں کہ گاندھی… امن پرست جبکہ… صلاح الدین ایوبی… شدت پسند
دل کی اصلاح کریں
مقصد آج کی گفتگو کا یہ ہے کہ… ہم دنیا میں پھیلے ہوئے غلط نعروں کا شکار ہو کر… اپنے ایمان اور اپنے عقیدے سے محروم نہ ہو جائیں… آج دنیا میں لفظ ’’دشمنی ‘‘ یعنی ’’عداوت‘‘ کو ایک گالی بنا دیا گیا ہے… حالانکہ ہر دشمنی اور ہر عداوت بری نہیں ہے… بلکہ بعض دشمنیاں اور عداوتیں ’’فرض ‘‘ ہیں… بعض واجب ہیں، بعض مستحب
جبکہ کئی دشمنیاں ’’حرام ‘‘ ہیں… بعض مکروہ ہیں… اور بعض ناپسندیدہ… یہی حال’’محبت‘‘ کا ہے… بعض ’’محبتیں ‘‘ فرض ہیں… لازم ہیں ، اچھی ہیں … جبکہ بعض ’’محبتیں‘‘ حرام ہیں… ناجائز ہیں ، مکروہ ہیں
قرآن مجید ہمیں بعض دشمنیوں کا حکم دیتا ہے… مثلاً
اِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌّفَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا
اس آیت مبارکہ میں… شیطان سے عداوت اور دشمنی رکھنے کا اہل ایمان کو باقاعدہ حکم فرمایا گیا ہے
اس لئے مسلمانوں پر ضروری ہے کہ… وہ دنیا میں پھیلے ہوئے غلط نعروں کا شکار نہ ہوں… وہ نہ ہر دوستی کو اچھا سمجھیں اور نہ ہر دشمنی کو برا… بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہو کہ… دوستی اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی… محبت اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی… یہی حال دشمنی کا ہے… دشمنی اچھی بھی ہوتی ہے… اور بری بھی… ہر ’’دشمنی‘‘ کو برا کہنا یہ جرم اور گناہ ہے… مسلمانوں کے لئے دوسرا کام یہ ضروری ہے کہ وہ… قرآن و سنت میں دوستی اور دشمنی کے ’’اسلامی اصولوں‘‘ کو پڑھیں، سمجھیں اور اپنائیں… وہ اپنی ’’دوستی‘‘ اور ’’دشمنی‘‘ کو اپنے نفس اور وقت کی ضرورت کے حوالے نہ کریں… بلکہ اپنے نفس کا مجاہدہ کر کے، خوب محنت کر کے… اپنی ’’دوستی‘‘ اور اپنی ’’دشمنی‘‘ کے نظام کو درست اور مضبوط کریں… تب وہ بہت سے فائدے پا لیں گے… اور بہت سے نقصانات سے بچ جائیں گے
آخر میں ایک تحفہ
ہماری دوستی اور ہماری دشمنی کا نظام تب درست ہو گا جب ہمیں… اس کے بارے میں درست علم حاصل ہو گا… اور ہمارا نفس پاک ہو گا … اصلاح نفس کے لئے ایک مؤثر نسخہ حاضر خدمت ہے… حضرت شیخ یعقوب چرخی ؒنے اپنے مرشد حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبندؒ سے عرض کیا کہ… حضرت! اگر کسی کو شیخ کامل کی صحبت میسر نہ ہو تو وہ اپنے نفس کے شرور سے کیسے بچے؟… حضرت نے فرمایا :اس کو چاہیے کہ استغفار کی کثرت کرے اور ہر نماز کے بعد بیس بار استغفار کی پابندی کرے
بندہ سعدی عرض کرتا ہے کہ… اس عمل کے لئے بہترین استغفار یہ ہے
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭