بڑھاتاہے ہمت مدینہ مدینہ
اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے… وَالضُّحٰی…میں قسم کھاتا ہوں چاشت کے وقت کی… وَ اللَّیْلِ اِذَا سَجٰی…اور رات کی جب وہ ڈھانپ لے… نکتہ معلوم ہوا کہ… دنیا میں رات دن ہوتے رہتے ہیں… روشنی کبھی کبھار… اور اندھیرا زیادہ…چاشت کا وقت تھوڑی دیر کا… اور رات کا اندھیرا… بہت لمبا… یہ بیرونی حالات سمجھائے… اور اشارہ دیا کہ… اپنے اندر کی روشنی کو مستقل بنائو… پکا کرو… تمہارے اندر روشنی ہوگی تو… باہر دن ہو یا رات… اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا… تمہاری ترقی جاری رہے گی… تمہاری کامیابی کا سفر آگے بڑھتا چلا جائے گا… افغانستان کو دیکھ لیں… گزشتہ چالیس سال میں کیسے کیسے حالات گزر گئے… سویت یونین کا اندھیرا… کیمونسٹوں کا اندھیرا… امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اندھیرا… امارت اسلامیہ کی روشنی…چالیس سال میں صرف سات سال… مگر جن کے اندر روشنی تھی… وہ آگے ہی بڑھتے رہے… وہ ہر حال میں ڈٹے رہے…وہ کامیابیاں پاتے گئے… وہ قربانیاں پیش کرتے گئے… اور ان کی ان قربانیوں نے… مشرق تا مغرب زمین کے حالات بدل ڈالے… پہلے سرخ انقلاب خاک میں ملا… پھر ہتھوڑا اور درانتی ٹوٹے… پھر درجن سے زائد اسلامی ملک نقشے پر نمودار ہوئے… پھر یورپ کے قلب میں اذانیں اور تکبیریں گونجیں… پھر دوسری سپر پاور لرز اٹھی… اور پھر چالیس ملکوں کی اجتماعی طاقت کا غرور ٹوٹا… اور پھر… قطر کے شہر ’’دوحہ‘‘ میں وہ ہوا… جس کا تصور بھی کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا… ساری دنیا حیران ہے… مگر ’’مدینہ مدینہ‘‘ مسکرا رہا ہے… یہ اس کی تربیت کا اثر ہے… یہ اس کی عظمت کی ایک جھلک ہے…
دِکھاتا ہے عظمت … مدینہ مدینہ
بڑھاتا ہے ہمت … مدینہ مدینہ
بات معمولی نہیں ہے… اٹھارہ سال پہلے کے دلخراش مناظر ایک ایک کرکے سامنے آتے ہیں… اگر ’’مدینہ مدینہ‘‘ نے غزوہ اُحد کے اسباق… اپنے ماننے والوں کو یاد نہ کرائے ہوتے تو… کوئی میدان میں کھڑے رہنے کی ہمت بھی نہ کرتا… حضرت مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ کاآنسوئوں سے بھرا چہرہ نہیں بھولتا… افغانستان پر امریکہ کے حملے کو ایک ماہ ہوا تھا… سات سالہ امارت اسلامیہ کا سقوط ہوچکا تھا… مجاہدین کے میلوں پر پھیلے قافلے… ڈیزی کٹر بموں نے… منٹوں میں مٹا ڈالے تھے… حضرت تشریف لائے اور بیان کے لیے بیٹھے تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے… بڑی مشکل سے اپنی تقریر کا آغاز جگر مراد آبادی کے اس شعر سے کیا:
اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دُعاء ہے
اُمت پہ تِری آ کے عجب وقت پڑا ہے
اپنا خطاب مکمل کرکے خصوصی مجلس میں تشریف فرما ہوئے تو فرمایا… مجھے طالبان نے بتایا ہے کہ ہمارے پاس لڑنے کے لیے کچھ نہیں بچا… حضرت سے عرض کیا کہ… یہ آغاز ہے… ان شاء اللہ حالات سنبھل جائیں گے… بس قیادت محفوظ رہے… اور اسے پائوں رکھنے کی جگہ مل جائے تو پھر جہاد اپنی کرامات دکھاتا ہے… عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ… حالات اتنے دَردناک…دور دور تک اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی تھی… مگر ’’مدینہ مدینہ‘‘ کی تربیت نہ حوصلہ ہارنے دیتی ہے… اور نہ گردن جھکانے کی اجازت دیتی ہے… حضرت ملا عمر رحمہ اللہ تعالیٰ پر ’’مدینہ مدینہ‘‘ کے فیض کا غلبہ تھا… وہ پُرسکون تھے…مطمئن تھے… اور ہر مایوسی سے دور تھے… دوسری طرف…اہل کفر اور اہل نفاق یہ سوچ بیٹھے تھے کہ… بس اب دنیا سے جہاد کا نام ختم…مجاہدین کی فصل اور نسل ہی ختم… اب اپنی مرضی کا نیا اِسلام بنایا جائے گا… اور تمام اہلِ اسلام کو اپنی مکمل غلامی میں لایا جائے گا…
کسی کے نزدیک یہ جنگ بس ایک ماہ کی تھی… جبکہ بعض چھ ماہ کی مہلت دینے کو تیار تھے… کسی نے لکھا تھا کہ ایک سال بعد… دنیا میں طالبان، ملا عمر اور مجاہدین کا نام لینے والا کوئی نہیں بچے گا…
اگر یہ سب کچھ لکھنے اور سوچنے والے… ۲۹ فروری ۲۰۲۰ کے دن زندہ تھے تو معلوم نہیں…اُن کے شیطانی دِلوں پر…کیا گزر رہی ہوگی…
کلمہ طیبہ سے مزین سفید پرچم لہرا رہا تھا… اور تکبیر کے نعرے گونج رہے تھے…
تِری شان اونچی مدینہ مدینہ
تِری آن اونچی مدینہ مدینہ
مٹانے جو آئے ، وہ خود مٹ رہے ہیں
تِری بات اونچی … مدینہ مدینہ
کچھ لوگ خود کو تسلیاں دے رہے ہیں کہ…یہ معاہدہ اِمارتِ اِسلامی کی فتح نہیں ہے…اب افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی شروع ہوجائے گی…کوئی کہہ رہا ہے کہ ٹرمپ اگر اِنتخابات جیت گیا تو وہ یہ معاہدہ توڑ دے گا… کوئی کہہ رہا ہے کہ… اَفغان حکومت اس معاہدے کو ختم کردے گی… اور اَشرف غنی نے طالبان قیدی آزاد نہ کرنے کا اِعلان کر بھی دیا ہے… طرح طرح کی باتیں ہیں… اور طرح طرح کی طفل تسلیاں …بات یہ ہے کہ اَمریکہ اور اِس کے اِتحادی… اَفغانستان سے نکلنے اور بھاگنے پر مجبور ہوئے… کیا یہ چھوٹی فتح ہے؟… امریکہ نے طالبان کو تسلیم کیا… وہ طالبان جن کے خون کا وہ پیاسا تھا… کیا یہ چھوٹی فتح ہے؟…امریکہ افغانستان سے نکلنے کے لیے مجاہدین سے تعاون مانگ رہا ہے… کیا یہ چھوٹی فتح ہے؟… اِسلامی دنیا کے حکمران… امریکہ کے ایک ایک شارے پر…اپنے ملکوں میں کیسے کیسے ظالمانہ اِقدامات کرتے ہیں جبکہ…طالبان نے امریکہ کو اپنی شرطوں پر مجبور کردیا…کیا یہ چھوٹی فتح ہے؟…مسلمانوں میں سے اگر کسی کے بارے میں معلوم ہوجاتا کہ… اس نے طالبان سے ملاقات کی ہے… ان کو کھانا کھلایا ہے تو اُسے بھی مار دیا جاتا تھا… یا طرح طرح کی پابندیاں لگادی جاتی ہیں… مگر اب امریکی حکام خود طالبان سے مصافحے معانقے کررہے ہیں اور اُن سے امریکہ کے دورے کی منتیں کررہے ہیں…کیا یہ چھوٹی فتح ہے؟… اب آگے کیا ہوگا؟… ہمیں اس کی فکر نہیں… آج شکر اور تشکر کا دن ہے… اس پر اللہ تعالیٰ کا بے حد، بے اِنتہا شکر…اگر دُنیا یہ معاہدہ توڑے گی تو… فائدہ اسلام کا ہوگا… جہاد کا ہوگا… ابھی کسی نے اپنے چہرے کا غبار نہیں دھویا… اور کسی نے اپنا اسلحہ نیام میں نہیں ڈالا… ظلم وستم اور وعدہ خلافی جس قدر بڑھتی ہے جہاد بھی… اس کے خاتمے کے لیے مزید طاقت پکڑتا ہے… ساری دنیا نے مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو جہاد عراق وشام تک پھیل گیا… اب پھر بدعہدی اور ظلم ہوگا تو… جہاد اپنا راستہ خود پکڑ لے گا… کاش مسلم دنیا کے حکمران… اب ہوش کریں… جہاد جیسی عظیم عبادت کو… اِنتہا پسندی شدت پسندی اور دہشت گردی کہہ کر… وہ بڑا گناہ کررہے ہیں… وہ مدینہ مدینہ کی نعوذ باللہ توہین کررہے ہیں… وہ ایمان پر اپنے خاتمے کو مشکوک بنا رہے ہیں… کاش حضرات علماء کرام بھی اسی طرح کھل کر جہاد کا بیان فرمائیں… جس طرح کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے… وہ حالات کے ستم اور اپنی کمزوری کا رونا چھوڑ کر… صرف ایک بار دِل کی آنکھوں سے… قرآن مجید کی آیاتِ جہاد پڑھ لیں… وہ ایک بار… بخاری شریف کی کتابُ الجہاد کو مکمل توجہ اور یقین سے پڑھ لیں… جہاد کی آیات جس زمانے میں نازل ہوئیں… اس زمانے میں بھی مسلمان تھوڑے تھے… کفر بہت طاقتور تھا… جہاد کی احادیث جس زمانے میں بیان ہوئیں… اس زمانے میں تو اسلام ابھی جزیرۃ العرب سے بھی باہر نہیں نکلا تھا…مگر انہوں نے… دل سے سنا اور مانا تو پھر… روم وفارس کے خزانے… مدینہ مدینہ کے بازاروں میں بکتے تھے…
جگاتا ہے ہم کو … مدینہ مدینہ
بلاتا ہے ہم کو … مدینہ مدینہ
نہیں بزدلوں کی یہ دنیا … نہ جنت
بتاتا ہے ہم کو … مدینہ مدینہ
 لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد وعلی آلہ و صحبہ وبارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭