ایک فتنہ

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ545)
اَللّٰھُمَّ یَا رَبِّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الْھُدیٰ وَالتُّقیٰ وَالْعَفَافَ وَالْغِنیٰ
یا اللہ! ہمیں ہدایت ، تقویٰ ، عفت اور غنا عطاء فرما دیجئے
وہ افراد جن کے دل پر گناہوں کا زیادہ حملہ ہوتا ہے… اور وہ برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں … اُنہیں ہمارے حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحب (نور اللہ مرقدہ) یہ مسنون دعاء تلقین فرماتے تھے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْھُدیٰ وَالتُّقیٰ وَالْعَفَافَ وَالْغِنیٰ
جو لوگ توجہ سے یہ دعاء مانگتے ہیں… ان کے دل کی بھی اصلاح ہوتی ہے اور مزاج کی بھی
مثلاً ’’اَلْغِنٰی‘‘ کہتے ہیں…محتاجی سے حفاظت کو…شیطان کوشش کرتا ہے کہ آدمی کی طبیعت محتاجوں والی ہو جائے…ہر چیز میں محتاج … گپ شپ کا محتاج، اپنا حال اور بیماری بتانے کا محتاج… مال کا محتاج… لوگوں کی توجہ کا محتاج … لوگوں کی اطاعت کا محتاج… ہر کسی سے یہ تمنا کہ وہ مجھے کچھ دے… حتی کہ بیت الخلاء سے نکلتے ہی ایسے افراد کی ضرورت جن کو بیت الخلاء کی کار گزاری سنا سکے اور اپنی بیماریاں بتا سکے… مجلس میں بیٹھے تو ہر ایک پر دل پھنسایا ہوا ہے کوئی اُٹھا تو فوراً سوال کہ کیوں اُٹھے؟… کوئی جانے لگا تو فوراً سوال کہ کہاں جا رہے ہو؟… محتاجی ہی محتاجی… مگر جب اللہ تعالیٰ کسی کے دل کو ’’غنی‘‘ فرما دے تو اسے نہ ان چیزوں کی فکر ہوتی ہے نہ ضرورت… غنی دل، بادشاہ دل… نہ کسی کے اکرام کا محتاج اور نہ کسی کی ہمدردی کا محتاج…اپنے کام سے کام اور اپنے مالک سے ہمکلام
واقعی بڑی عجیب دعاء ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْھُدیٰ وَالتُّقیٰ وَالْعَفَافَ وَالْغِنیٰ
ہدایت مل گئی تو گمراہی سے حفاظت ہو گئی… فتنوں سے حفاظت ہو گئی…قرآن مجید نے ہمیں بہت سے فتنوں سے آگاہ کیا ہے… سورہ انفال میں ایک بڑے فتنے سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے:
وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً
ترجمہ: اور تم ایسے فتنہ سے بچو جو خاص کر انہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں سے گناہوں کے مرتکب ہوئے
یعنی وہ ایسا خطرناک فتنہ ہے کہ…جو گناہگاروں اور بے گناہوں سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا…وہ کون سافتنہ ہے؟… مفسرین لکھتے ہیں: وہ جہاد چھوڑنے کا فتنہ ہے… اس فتنے کے نقصانات عوام اور خواص سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں…کیونکہ جہاد کے ذریعہ دین کی حفاظت ہے، شعائر دین کی حفاظت ہے… اور جہاد ہی کے ذریعہ تمام مسلمانوں کی حفاظت ہے … اسی لئے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ ہمیشہ جہاد کرتے رہیں… اگرچہ کفار نے ان پر حملہ نہ کیا ہو تب بھی مسلمان خود آگے بڑھ کر لڑتے رہیں… اور جب کفار مسلمانوں پر حملہ آور ہو جائیں تو پھر جہاد سے پیچھے ہٹنے کی گنجائش ہی نہیں ہے…تفسیر انوار البیان میں لکھا ہے:
’’جہاد کا سلسلہ جاری نہ رکھنے کی ہی وجہ سے دشمن کو آگے بڑھنے کی جرأت ہوتی ہے اور جب دشمن چڑھ آتے ہیں تو بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کی حفاظت کے لئے فکر مند ہونا پڑتا ہے لہٰذا جہاد جاری رکھا جائے اور اس سے پہلو تہی نہ کریں ورنہ عوام و خواص مصیبت میں گھر جائیں گے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی قوم جہاد چھوڑ دے گی اللہ تعالیٰ اُن پر عذاب بھیج دے گا۔ ( انوار البیان)
بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ… وہ فتنہ ’’نہی عن المنکر ‘‘ چھوڑنے کا فتنہ ہے…لوگوں کو گناہوں سے نہ روکنا…اس میں جب عذاب آتا ہے تو گناہگار بھی رگڑے جاتے ہیں…اور ساتھ وہ لوگ بھی جو انہیں گناہوں سے نہیں روکتے… اللہ تعالیٰ رحم فرمائے یہ وہ فتنہ ہے جو (نعوذ باللہ) دین کا حلیہ ہی بدل دیتا ہے…پھر گناہوں کی دو قسمیں ہیں…یہ دونوں قسمیں سخت خطرناک ہیں…مگر ایک ان میں سے بہت ہی زیادہ خطرناک ہے… ایک تو وہ گناہ ہے جو انسان کی اپنی ذات تک محدود ہے…اس گناہ میں دوسروں کو گناہوں میں مبتلا کرنے کی دعوت یا انتظام نہیں ہے… مگر ایک گناہ ایسا ہے کہ اس میں دوسروں کو بھی گناہ کی دعوت موجود ہے اور اس گناہ کے ذریعہ دوسرے مسلمان بھی گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں…یہ گناہ … ’’سیئہ جاریہ‘‘ ہے… یعنی جاری رہنے والی برائی … آگے بڑھنے والا گناہ… اس گناہ کے علمبردار اللہ تعالیٰ کے اور ایمان والوں کے دشمن ہوتے ہیں … کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایمان اور تقوے کی طرف بلاتا ہے جبکہ یہ لوگ اس کے مدمقابل گناہوں کو کھڑا کر کے… لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف بلاتے ہیں…قرآن مجید کی کئی آیات میں ایسے گناہگاروں پر سخت وعید فرمائی گئی ہے… وہ جو لوگوں میں فحاشی پھیلاتے ہیں…وہ جو لوگوں کو کھیل کود اور لہو و لعب میں غافل کرتے ہیں… وہ جو دوسروں کو گناہوں کی طرف مائل کرتے ہیں …ایسے لوگوں کے لئے بڑی ذلت اور بڑا عذاب ہے… مگر توبہ کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے سب کے لئے کھلا رکھا ہے… ذاتی گناہ کرنے والوں کے لئے بھی…اور گناہوں کو پھیلانے والوں کے لئے بھی…لیکن گناہ پھیلانے والوں کی توبہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا گناہ اعلان کر کے چھوڑیں…اور اس گناہ کے جتنے اثرات معاشرے میں جاری ہوں…اُن کو مٹانے کی حتی الوسع کوشش کریں
تب ان شاء اللہ ان کی توبہ قبول ہو گی… جبکہ اہل ایمان کا فریضہ یہ ہے کہ وہ ان گناہگاروں کو ان کے گناہوں سے روکیں…انہیں قرآن و سنت کی وعیدیں سنائیں… اورانہیں دو ٹوک الفاظ میں بتائیں کہ آپ کا یہ عمل اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے … لیکن اگر اہل ایمان یہ فریضہ چھوڑ دیں… گناہ گاروں کو اُن گناہوں سے نہ روکیں… اور اس بات پر کھلے عام فخر بھی کریں کہ…ہم نے فلاں سے ملاقات کی اور اسے اس کے عالمگیر گناہوں کا احساس تک نہیں ہونے دیا تو پھر ایسے حالات میں وہ عذاب اور فتنہ آتا ہے جس کی لپیٹ میں سب آ جاتے ہیں…نہی عن المنکریعنی گناہوں سے روکنے کے کئی درجات ہیں…اس میں سب سے اونچا درجہ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے کیونکہ وہ سب سے بڑے ’’منکر‘‘ یعنی کفر سے روکتا ہے… اس کے بعد کا درجہ گناہ کو ہاتھ سے روکنے کا ہے… اس کے بعد زبان سے روکنے کا مرتبہ ہے… اور سب سے آخری درجہ یہ ہے کہ دل سے گناہ کو گناہ سمجھے اور اس سے نفرت رکھے…اور اس سے بیزار ہو… اس کی مثال یہ ہے کہ… کسی کے گھر میں آگ لگ جائے اور وہ آدمی ہاتھ، پاؤں اور زبان سے معذور ہو…وہ نہ خود آگ بجھا سکتا ہو اور نہ کسی اور کو مدد کے لئے بلا سکتا ہو …تو ایسے آدمی کے دل میں جو غم اور گھٹن ہو گی اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے … بس اسی طرح وہ مسلمان جو گناہوں سے دوسروں کو نہیں روک سکتے…وہ گناہوں سے اپنے دل میں شدید نفرت اور بے زاری رکھیں… یہ ایمان کا سب سے آخری اور کمزور درجہ ہے… اور اللہ تعالیٰ معاف فرمائے…آج مسلمانوں کو ایمان کے اس آخری درجے سے محروم کرنے کی سخت محنت جاری ہے… انہیں سمجھایا جا رہا ہے کہ…گانے بجانے کو برا نہ سمجھو کیونکہ ساری زندگی ہزاروں گانے ریکارڈ کرنے والی… چھبیس سے زائد ناجائز معاشقے لڑانے والی…بارہ سے زائد مشکوک شادیاں بھگتانے والی’’مائی ‘‘ جنت میں ہے… بالی وڈ کی فلموں کو برا نہ سمجھو کیونکہ ان میں کام کرنے والے کئی افراد بڑے جینئس، حاجی اور مثالی لوگ ہیں… لہو و لعب اور کھیل و کود میں زندگی برباد کرنے کو برا نہ سمجھو کیونکہ وہاں تو دین کی بہاریں پھوٹ رہی ہیں…گناہوں کی تو دور کی بات… اب اسلام دشمن کافروں سے بھی نفرت نہ کرو … بلکہ ہاتھ میں کتبے لے کر فوٹو بنواؤ کہ…ہم مودی سے نفرت نہیں کرتے… ہم ایڈوانی سے بغض نہیں رکھتے…ہم مشرکوں سے محبت کرتے ہیں… پھر یہ کتبے رکھ کر نماز کی امامت کے لئے آگے بڑھو … اور بڑے سوز سے تلاوت کرو
والذین معہ اشداء علی الکفاررحماء بینھم
ترجمہ: جو صحابہ حضور ﷺکے ساتھ تھے وہ کفار کے لئے بہت سخت اور آپس میں بڑے ہمدرد تھے
پھر نماز کے بعد دوبارہ کتبہ اُٹھا کر بیٹھ جاؤ کہ:
’’ میں سشما سوراج اور اندرا گاندھی کا دیوانہ ہوں …اور عجیب بات یہ کہ میں مسلمان بھی ہوں‘‘…
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ…اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگنے کی ضرورت ہے اور ہدایت کی حفاظت تقویٰ سے ہوتی ہے… اور تقویٰ عفت سے مضبوط ہوتا ہے…ا ور عفت تب آتی ہے جب انسان کا دل غنی ہو… اور وہ شہوات اور اغراض کی حرص سے پاک ہو…اسی لئے حضور اقدس ﷺ نے اپنی امت کو یہ جامع دعاء سکھا دی:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْھُدیٰ وَالتُّقیٰ وَالْعَفَافَ وَالْغِنیٰ
الحمد للہ فتنوں سے حفاظت کے لئے… دعوت جہاد کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جاری ہے… اس وقت ملک کے پچیس اضلاع میں ’’دورہ تفسیر آیات الجہاد‘‘ جاری ہے… جماعت کی تین نکاتی جامع دعوت کا اثر بھی الحمد للہ دور دور تک پھیل رہا ہے… کلمہ طیبہ، اقامت صلوٰۃ اور جہاد فی سبیل اللہ…ابھی دو روز قبل بیرون ملک سے ایک صاحب نے بتایا کہ وہ بیان سن کر تائب ہوئے… اور شراب خانے کی نوکری چھوڑ دی… انہوں نے رزق حلال کے لئے دعاء کی درخواست کی ہے… ایک خاتون نے لکھا کہ…انہوں نے این جی او کی نوکری اور بیوٹی پارلر بند کر دیا ہے… اور ’’الی مغفرۃ‘‘ کتاب کو حرز جان بنا کر دن رات توبہ استغفار اور قضا نمازوں میں مشغول رہتی ہیں … اور الحمد للہ شرعی پردہ اپنا لیا ہے…ایک اور مسلمان بہن نے بھی اپنی توبہ کا بہت عجیب حال لکھا ہے… تمام قارئین سے گذارش ہے کہ… ان سچے’’ تائبین‘‘ کے لئے اللہ تعالیٰ سے استقامت، ترقی اور وافر رزق حلال کی دعاء فرمائیں…بے شک توبہ کرنے والوں کا مقام بہت بلند ہے… اللہ تعالیٰ کا عرش اُٹھانے والے فرشتے ان کے لئے خاص دعائیں کرتے ہیں…اور اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنَا مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭