مدارس کی منزل……..مدینہ مدینہ

اللہ تعالیٰ ’’دینی مدارس‘‘ کی حفاظت فرمائیں… ان ’’مدارس‘‘ کو مزید شان اور مزید ترقی عطاء فرمائیں…الحمد للہ ”کرونا“ کے موسم میں بھی… ان ’’مدارس‘‘  نے اپنا ایک سال پورا کر لیا ہے… پابندیوں، نگرانیوں اور سازشوں کے باوجود… یہ ”مدارس“ ہر سال اُمتِ مسلمہ کو بے شمار تحفے عطاء کرتے ہیں… ہرسال قرآن مجید کے نئے حفاظ… سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم… اور پورا قرآن مجید اول تا آخر زبانی یاد کرنے والے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے… یوں لگتا ہے جیسے پاکیزہ نورانی موتی… پوری دنیا میں کسی ایک شخص کو بھی پوری ’’بائبل‘‘ یاد نہیں… کوئی ایک شخص بھی ’’ توراۃ ‘‘ کا حافظ نہیں… بائبل بدل دی گئی… تورات تبدیلیوں کا شکار ہو گئی… بدھ مت والے تو کوئی کتاب رکھتے ہی نہیں… بس ورزش، اور دماغی مشقیں… ہندؤں کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں… پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی گیتا، رامائن اور افسانوں پر مشتمل ’’مہا بھارت‘‘ … یہ کتابیں بھی پوری کسی کو یاد نہیں… مگر قرآن مجید ’’محفوظ‘‘ ہے… اور دنیا کے ہر خطے میں اس کے ’’حافظ‘‘ موجود ہیں…اور اللہ تعالیٰ خود اس کتاب کے ’’محافظ‘‘ ہیں… قرآن مجید کے الفاظ بھی ’’نور‘‘ اور اس کے معانی بھی ’’نور‘‘ … حیرانی ہوتی ہے ان مسلمانوں پر جن کے دل میں ’’قرآن مجید‘‘ سمجھنے کا شوق نہیں ہے… وہ یہ نہیں جاننا چاہتے کہ اُن کے ’’رب تعالیٰ‘‘ نے ان سے کیا باتیں فرمائی ہیں… قرآن مجید کی ہر آیت ’’محبت کا جام“ ہے…قرآن مجید کا ہر مضمون کامیابی کا راز ہے… قرآن مجید میں ’’شفاء‘‘ ہے… رحمت ہے… ہدایت ہے… کاش ہر مسلمان عزم باندھ لے کہ وہ روزانہ کچھ وقت ’’قرآن مجید‘‘ کی پاکیزہ اور نورانی صحبت میں گذارے گا… اور کم از کم روزانہ ایک آیت مبارکہ کو سمجھنے کی کوشش کرے گا…دینی مدارس ہر سال کے اختتام پر امت مسلمہ کو…قرآن مجید سمجھنے اور سمجھانے والا… ’’علماء کرام‘‘ عطا کرتے ہیں… اب تو ماشاء اللہ یہ تعداد ہر سال… ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے… مدارس کا تعلیمی سال رمضان المبارک کے فوراً بعد شوال میں شروع ہوتا ہے… اور رمضان المبارک سے کچھ پہلے شعبان کے آغاز میں ختم ہوتا ہے… اور یوں شعبان کے مہینے میں امت مسلمہ کو… نئے علماء ، نئے مفتی اور نئے فضلاء ملتے ہیں … جو کہ… ان مدارس کا اُمت مسلمہ پر… ایک ناقابل فراموش احسان ہے… ان مدارس کو… کوئی حکومت نہ تو فنڈ دیتی ہے… اور نہ ان کو وہ عزت دیتی ہے جس کے وہ حقدار ہیں…ایک زمانہ تھا جب مسلمان حکمران…مدارس کی تعمیر اور مدارس کی خدمت کو اپنی لازمی ذمہ داری سمجھتے تھے … سلجوقیوں کے دور حکومت میں… ایک سلجوقی وزیر… نظام الملک طوسی رحمۃ اللہ علیہ نے… بہت عظیم الشان مدارس قائم کئے اور ان مدارس کی ایسی خدمت کی کہ آج تک اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے … اور اسے یاد رکھا جاتا ہے…ان اسلامی سلطنتوں میں مدارس کے علماء کرام کی عزت… امراء اور کمانڈروں سے بڑھ کر تھی… اور خود مسلمان سلاطین ان مدارس میں با ادب حاضر ہوتے تھے… پھر زمانہ بدل گیا… نہ مسلمان سلاطین رہے… اور نہ نظام خلافت… مسلمانوں نے جہاد چھوڑا تو زمین ان سے روٹھ گئی…اور آسمان نے بھی اپنے تیور بدل لئے… بارہ سو سال تک مسلمانوں سے مار کھانے والے صلیبی غالب آ گئے… اور انہوں نے دنیا کو ظلم اور اندھیرے سے بھر دیا… اللہ تعالیٰ حضرات علماء کرام کو جزائے خیر عطاء فرمائیں… انہوں نے غلامی کے دور میں بھی اپنے دل و دماغ کو غلام نہ بننے دیا… وہ قرآن مجید کے علوم کی حفاظت کے لئے زیر زمین غاروں ، کچی مساجد اور درختوں کی چھاؤں میں… مدرسے کھول کر بیٹھ گئے…حضرت آقا مدنی ﷺ کا ایک لقب ’’النبی الامّیّ‘‘ ہے… اس لقب کی نسبت امت میں اسطرح منتقل ہوئی کہ… ’’دین کا علم‘‘ کسی کاغذ، قلم، عمارت اور معاوضے کا محتاج نہ رہا … اور اصل’’علم‘‘ سینوں میں محفوظ رکھنے کا امت میں ذوق پیدا ہوا… اگرچہ علم کی خدمت قلم نے بھی کی، کاغذ نے بھی کی… عمارت نے بھی کی… لیکن جب یہ چیزیں کبھی چھن بھی گئیں تب بھی ’’علم دین‘‘ کا کوئی نقصان نہ ہوا… کیونکہ علم کو سینے، دل اور ذہن میں بسانا اس امت کی شان ہے… اور یہ شان اسے حضرت آقا محمد مدنی ﷺ کی برکت اور تربیت سے نصیب ہوئی ہے… گذشتہ دو دنوں سے ایک بار پھر… حضرت امام بخاری نور اللہ مرقدہ کے حالات زندگی پڑھ رہا ہوں… ان کی قوت حافظہ کے سچے واقعات پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے … بچپن ہی میں قرآن مجید حفظ کر لیا… اور دس سال کی عمر میں حدیث شریف یاد کرنے کا سلسلہ شروع فرما دیا… اندازہ لگائیں… دس سال کی عمر ہوتی ہی کیا ہے ؟اس عمر کے بچے تو درست جملے تک نہیں بول سکتے… مگر حضرت امام محمد بن اسماعیل بن مغیرہ یعنی امام بخاری اس عمر میں احادیث مبارکہ سند اور متن کے ساتھ یاد کر رہے تھے… سولہ سال کی عمر میں… حضرت امام بخاری خود مکمل عالم، محدث ، مصنف اور استاذ بن چکے تھے… ہزاروں احادیث مبارکہ ان کو یاد تھیں اور وہ کاغذ و قلم کی مدد لئے بغیر ایک ہی مجلس میں ہزاروں احادیث مبارکہ زبانی سنا اور لکھوا دیا کرتے تھے… اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ محنت قبول فرمائی اور ان سے… حدیث شریف کی سب سے بلند پایہ اور سب سے مستند کتاب ’’صحیح بخاری‘‘ لکھوانے کا کام لے لیا… ایسا کام جو صدیوں سے زندہ ہے، روشن ہے اور حضرت امام کا نہ رکنے والا ’’صدقہ جاریہ‘‘ ہے…

آج تمام دینی مدارس میں…آخری سال کے طلبہ کو ’’بخاری شریف‘‘ پڑھائی جاتی ہے اور جب وہ ’’بخاری شریف‘‘ پڑھ لیتے ہیں تو انہیں ’’عالم و فاضل‘‘ کی سند دے دی جاتی ہے… اور بخاری شریف کے توسط سے… ان کی علمی سند سیدھی ’’مدینہ مدینہ‘‘ تک پہنچتی ہے… حضرت آقا مدنی ﷺ تک پہنچتی ہے…اہل علم فرماتے ہیںکہ…امام بخاریؒ نے چھ لاکھ احادیث میں سے … چھانٹ چھانٹ کر … سات ہزار دو سو پچھتر احادیث مبارکہ منتخب کیں … اور ان سات ہزار دو سو پچھتر احادیث مبارکہ کو… اپنی کتاب ’’صحیح بخاری ‘‘ کا حصہ بنایا… اور اس میں اس قدر محنت اور اہتمام سے کام لیا کہ…ہر حدیث شریف لکھنے سے پہلے غسل فرماتے… دو رکعت نماز ادا کرتے اور پھر ایک حدیث یا ایک باب لکھتے… اس طرح سولہ سال کے عرصے میں آپ نے یہ کتاب مکمل فرمائی… حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تمام احادیث سند اور متن کے ساتھ امام صاحب کو زبانی یاد تھیں… جبکہ آج یہ عالم ہے کہ کسی مسلمان کو…سات احادیث بھی متن اور سند کے ساتھ یاد نہیں ہوتیں…مسلمانوں کو چاہئے کہ احادیث مبارکہ کو یاد کرنے کی کوشش کیا کریں… یہ حضرت آقا مدنی ﷺ کی وہ محبت بھری ، حکمت بھری اور نور بھری باتیں ہیں جو آپ ﷺ نے اپنی امت سے فرمائی ہیں… دینی مدارس میں ’’بخاری شریف‘‘ کے اختتام پر… ’’ختم بخاری‘‘ کے جلسے کا رواج بھی پڑ گیا ہے…دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارنپور میں تو… دسیوں ہزار افراد ’’ختمِ بخاری‘‘ کے اِجتماع میں شریک ہوتے تھے… مجمع اتنا ہوتا کہ مسجد ، مدرسہ کے ساتھ ساتھ آس پاس کی گلیاں اور راستے بھی لوگوں سے بھر جاتے… پھر جس طرح عام لوگوں کی عادت ہے… ان اجتماعات میں کچھ منکرات بھی داخل ہو گئے…  تب ان مدارس کے حضرات اکابر نے… ختم بخاری شریف کا اجتماع بند کر دیا…مگر ہمارے ہاں پاکستان میں… اکثر مدارس شرعی احکامات کا خیال رکھتے ہوئے ’’ختم بخاری شریف ‘‘ کا اجتماع رکھتے ہیں… اور ان اجتماعات میں حضرات اکابر علماء کرام بخاری شریف کی آخری حدیث شریف کا مفصل درس دیتے ہیں…ابھی ’’رجب‘‘ کا مہینہ شروع ہونے والا ہے… ختم بخاری کے یہ اجتماعات اکثر جگہ رجب کے مہینے میں ہوتے ہیں… اگر آپ کو کسی اجتماع میں شرکت کا موقع ملے تو… ذوق و شوق سے ’’درس حدیث‘‘ سننے جائیں… بات دور نکل گئی… عرض یہ کر رہا تھا کہ جب ’’صلیبیوں ‘‘ کا اس دنیا پر غلبہ ہوا تو انہوں نے… اسلامی حکومتیں ختم کر دیں… بڑے بڑے مدارس بند ہو گئے… مگر چونکہ دین کا علم سینوں میں موجود تھا تو حضرات علماء کرام نے اپنی استطاعت کے مطابق… جہاں بن پڑا مدرسہ قائم کر دیا… دارالعلوم دیوبند کا مدرسہ ایک درخت کے نیچے شروع ہوا… صرف ایک استاذ اور ایک طالبعلم… اسی طرح کئی علماء کرام نے اپنی مساجد میں مدرسے قائم کئے… اور جہاں سختی زیادہ تھی وہاں زیر زمین سرنگوں اور غاروں میں دینی مدارس چلتے رہے… ظلم و جبر کا وہ دور تمام ہوا اور کچھ آزادی ملی تو… عام مسلمانوں کے تعاون سے مدارس ترقی کرنے لگے… اور افغانستان میں امارت اسلامیہ کے قیام نے… مدارس کو بہت طاقت ، ترقی اور حوصلہ بخشا… اب پھر پاکستان میں گذشتہ چند سالوں سے مدارس کے خلاف سازشیں اور تدبیریں زوروں پر ہیں… جبکہ ہندوستان میں بھی مدارس کے خلاف شکنجہ کسنے کی کوشش جاری ہے… اہل ایمان کو چاہیے کہ… مدرسہ کی قدر کریں، مدرسہ کے مقام کو سمجھیں… مدارس کے لئے دعاء کو اپنا مستقل معمول بنائیں … اور مدارس کی جس حد تک بھی ممکن ہو خدمت اور حفاظت کریں… اور اپنے بچوں میں سے سب سے بہترین اور سب سے ذہین بچوں کو مدارس سے تعلیم دلوائیں… مدارس ہمیں دین سے جوڑتے ہیں…مدارس ہمیں ’’مدینہ مدینہ‘‘ کی حقیقت سکھاتے ہیں… اللہ تعالیٰ سے قوی امید ہے کہ…مدارس کے خلاف ہونے والی تدبیروں ، کوششوں اور سازشوں کو… وہ اپنی ’’قدرت کاملہ‘‘ اور ’’قوت قاہرہ‘‘ سے ناکام فرمائیں گے… مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللہُ …وَ اللہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ…

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللہم صل علی سیدنا محمد وعلیٰ الہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

٭…٭…٭