مخالفت کا وبال
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ581)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ’’رحمت‘‘ عطاء فرمائے…

حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ… جہاد فی سبیل اللہ کو ادا کرنے کی محنت کرنا اللہ تعالیٰ کی عمومی رحمت چھا جانے کا ذریعہ ہے…

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ’’لعنت‘‘ سے بچائے…

حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ… جہاد کے خلاف کوشش کرنا دراصل ’’لعنت‘‘ چھا جانے کا سبب ہے…( حجۃ اللہ البالغہ)

خلاصہ یہ کہ…جہاد فی سبیل اللہ کی خدمت سے مسلمانوں پر عمومی رحمت برستی ہے… اور جہاد فی سبیل اللہ کی مخالفت سے ان پر عمومی لعنت اور عذاب کا ماحول بن جاتا ہے…

وجہ کیا ہے؟… وجہ بالکل واضح ہے کہ… جہاد فی سبیل اللہ، اللہ تعالیٰ کا ’’حکم‘‘ ہے…اور ’’مجاہد‘‘ اللہ تعالیٰ کا ’’محبوب‘‘ ہے… اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے… اس کا حکم بھی سب سے اونچا ہے… اللہ تعالیٰ زمین پر جو تبدیلیاں چاہتے ہیں … ان کے لئے وہ اپنے خاص الخاص بندوں کو استعمال فرماتے ہیں… حضرت شاہ ولی اللہؒ لکھتے ہیں:

اللہ تعالیٰ عرب و عجم پر غضبناک ہو گیا اور اس نے ان کی حکومت اور سلطنت کو برباد کرنے کا فیصلہ فرما لیا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جناب رسول اللہ ﷺکے دل میں… اور آپ ﷺ کے ذریعہ آپ کے صحابہ کے دل میں… القاء فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑیں… تاکہ مقصد حاصل ہو جائے…( یعنی عرب و عجم کے کفار کی سلطنت ختم ہو جائے) ( حجۃ اللہ البالغہ)

اس لئے جہاد کی  مخالفت کرنا… لعنت پانے کا ذریعہ ہے…اور ’’مجاہدین کرام‘‘ کو ایذاء پہنچانا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعلان جنگ کرنے کے مترادف ہے…

ابو جہل کا اونٹ

حضور اقدسﷺ  ۶؁ ہجری میں… اپنے چودہ سو صحابہ کرام کے ساتھ ’’عمرہ‘‘ کے لئے تشریف لے گئے… عمرے کا یہ پر امن سفر … بعد میں جہادکا سفر بن گیا… کیونکہ اس سفر میں ’’حدیبیہ‘‘ کے مقام پر… بیعت علی الجہاد ہوئی… تمام صحابہ کرام نے حضور اقدسﷺ کے ہاتھ مبارک پر جہاد کی بیعت کی… اس ’’بیعت‘‘ کا عنوان تھا… ہم زندگی کے آخری سانس تک لڑتے رہیں گے…اور میدان جہاد سے پیٹھ نہیں پھیریں گے… سفر’’ عمرہ‘‘ کا تھا مگر پھر یہ جہاد کا سفر بن گیا… اس لئے اس سفر کا نام ہے’’غزوہ حدیبیہ‘‘… غزوہ اس جہادی سفر کو کہتے ہیں جو حضور اقدس ﷺ کی قیادت میں ہوا ہو… حضرت امام بخاریؒ جیسے بلند پایہ محدث سے لے کر… علامہ ابن کثیرؒ جیسے نامور مفسر و مؤرخ تک… سب حضرات اس واقعہ کو ’’غزوہ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں… معلوم ہوا کہ ہمارے پاک نبی ﷺ کی سنتوں میں سے ایک عظیم سنت یہ بھی ہے کہ… مومن کو ہر وقت ’’ جہاد‘‘ کے لئے تیار رہنا چاہیے… ’’حدیبیہ‘‘ میں جہاد کی بیعت کرنے والے حضرات …گھر سے جہاد کے لئے نہیں نکلے تھے… وہ ’’عمرہ‘‘ ادا کرنے جا رہے تھے… مگر اچانک ایک مسلمان کی جان اور حرمت کا معاملہ سامنے آگیا… تب احرام میں ملبوس… یہ قافلہ ایک دَم طوفانی جہادی لشکر بن گیا… حالانکہ احرام میں جنگ کرنا ممنوع ہے… پھر یہ مہینہ بھی’’ذوالقعدہ‘‘ کا تھا… اور ’’ذوالقعدہ‘‘ حرمت والے مہینوں میں سے ہے… اور پھر جس جنگ کی بیعت کی جا رہی تھی وہ جنگ حدود حرم میں لڑی جانی تھی… حالانکہ حدود حرم میں جانور مارنا اور درخت کاٹنا بھی جائز نہیں… مگر جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے شہید ہونے کی خبر آئی تو … تمام احکامات تبدیل ہو گئے… احرام کے لباس اور نیت کے باوجود جہاد کی بیعت ہوئی… اور اس بیعت کے رعب نے…مشرکین مکہ کو ان کے اپنے گھر میں شیر سے بلی بنا دیا…

بات کچھ دور نکل رہی ہے…عرض یہ کر رہا تھا کہ حضور اقدس ﷺ جب عمرے کے اس سفر پر روانہ ہو رہے تھے تو آپ نے… قربانی کے لئے جانور بھی ساتھ لئے… اور ان میں خاص طور پر…وہ اونٹ اپنے ساتھ لیا جو ابوجہل کا قابل فخر اونٹ تھا اور ابو جہل نے اس اونٹ کو چاندی کے زیورات پہنا رکھے تھے… غزوہ بدر میں جب ابو جہل مارا گیا تو یہ اونٹ بطور مال غنیمت مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا…

آپ ﷺ نے حدیبیہ کے سفر میں یہ اونٹ خاص طور پر ذبح کرنے کے لئے اپنے ساتھ لیا… ’’زاد المعاد‘‘ میں لکھا ہے کہ… آپ ﷺ اس کے ذریعہ سے مشرکین کو غم ، غیظ اور تکلیف میں ڈالنا چاہتے تھے… اور یہ عمل اللہ تعالیٰ کو پسند ہے کہ… مسلمان، کافروں کا دِل جلائیں…

القلم کے قارئین میں سے کئی افراد کو آج کی یہ باتیں عجیب سی لگ رہی ہوں گی… کیونکہ آج کئی لوگوں کے بیانات میں… بس اخلاق، اخلاق کا شور ہوتا ہے… اور اخلاق کے پردے میں غلامی سکھائی جاتی ہے… حالانکہ ’’اخلاق‘‘ وہ ہیں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے… اور ’’اخلاق‘‘ وہ ہیں جو حضرت مدنی ﷺ کی سنت سے ثابت ہیں…اسلام دشمن کافروں کا دِل جلانا … ان کو غم و غیظ میں ڈالنا یہ حضرت آقا مدنی ﷺ کی سنت ہے… زاد المعاد میں دلیل کے ساتھ اس سنت کا ثبوت موجود ہے… پس وہ لوگ کتنے مبارک ہیں… جن کے وجود سے ہی مشرکین اور کفار جلتے ہیں… ڈرتے ہیں اور غم و غیظ میں مبتلا ہوتے ہیں… اب آپ غور فرمائیں کہ عمرے کے پر امن سفر میں بھی… حضرت آقا مدنی ﷺ نے ابو جہل کا اونٹ ساتھ لے کر… اپنی ایک جہادی ادا کا اظہار فرمایا… کیونکہ ’’جہاد‘‘ اللہ تعالیٰ کا محبوب ترین عمل ہے… اور کوئی مسلمان کسی حال میں بھی… جہاد سے غافل نہیں رہ سکتا … پس وہ لوگ جو جہاد کی مخالفت کرتے ہیں…حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے سچ فرمایا کہ… وہ معاشرے میں ’’لعنت‘‘ پھیلانے کا جرم کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کی ’’لعنت‘‘ سے حفاظت فرمائے… لعنت بہت بری چیز ہے… اور اس کا مطلب ہے پھٹکار، ذلت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محرومی…

دِل کی سلامتی

حضور اقدس ﷺ کی مبارک دعاؤں میں سے ایک دعاء ’’قلب سلیم‘‘ کی بھی ہے… یعنی بندہ اللہ تعالیٰ سے اپنے دل کی سلامتی مانگے… وَاَسْئَلُکَ قَلْبًا سَلِیْمًا… روحانی بیماریوں اور شیطانی تیروں اور زخموں سے محفوظ دل… حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے یہ تحقیق بھی فرمائی ہے کہ … جہاد کو وہی مسلمان کرتا ہے اور وہی مسلمان سمجھتا ہے  جس کا دل سلامت ہوتا ہے… اور اس دل میں دین بہت پختہ اور راسخ ہوتا ہے… اور وہ دل شیطانی اور حیوانی شرور سے پاک ہوتا ہے…اب آپ اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں …آج جہاد فی سبیل اللہ ہر کافر کی نظر میں… سب سے بڑا عیب ہے… آج جہاد فی سبیل اللہ ہر منافق کی نظر میں سب سے بڑا جرم ہے… آج جہاد فی سبیل اللہ ہر مشرک اورہر ملحد کی نظر میں سب سے بڑا فساد ہے… اور دنیا کے بیشتر حصوں پر حکومت بھی انہی کافروں ، مشرکوں اور منافقوں کی ہے… آپ جہاد کا نام لیتے ہیں تو آپ دنیا بھر میں آسانی سے سفر نہیں کر سکتے… آپ جہاد کو مانتے ہیں تو… پھر آپ دنیا والوں کے نزدیک قابل قبول نہیں ہیں… اب آپ بتائیے کہ ان سارے حالات میں… کوئی کمزور دل والا شخص … جہاد کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے؟؟ مگر دوسری طرف… قرآن مجید کی سینکڑوں آیات ہیں جو جہاد کا حکم سناتی ہیں… حضور اقدس ﷺ کی سینکڑوں احادیث ہیں… جو جہاد کی طرف بلاتی ہیں… خود حضرت آقا مدنی ﷺ کے مبارک غزوات… اور آپ ﷺ کا مبارک خون ہے … جو ہمیں جہاد کی دعوت دیتا ہے… پس وہ شخص جس کا دل ’’سلیم‘‘ ہو گا… اور اس دل میں ’’اللہ تعالیٰ‘‘ ہی سب سے بڑا ہو گا…اور اس دل میں دین مکمل راسخ ہو گا… وہی جہاد کو مانے گا اور جہاد پر نکلے گا… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو …دل کی سلامتی او دین کی سلامتی عطاء فرمائے … بات بالکل واضح ہے کہ… جہاد فی سبیل اللہ کی محنت کرنے سے رحمت پھیلتی ہے… اور جہاد فی سبیل اللہ کی مخالفت کرنے سے لعنت پھیلتی ہے … آئیے ہم سب ’’رحمت‘‘ پانے … اور لعنت سے بچنے کی دعاء اور کوشش کریں…

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭