بھیانک جرم…قتل ناحق
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ582)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑے جرائم میں سے ایک خطرناک جرم… ’’قتل ناحق‘‘
ہے… ناحق قتل نہ کسی انسان کا جائز ہے اور نہ چند مخصوص جانوروں کے سوا کسی جانور کا…
’’قتل ناحق‘‘ نہ مسلمان کا جائز ہے نہ کافر کا… نہ کسی دیندار کا جائز ہے اور نہ کسی
فاسق کا… نہ کسی متقی کا جائز ہے اور نہ کسی بدعتی کا…
ایک انسان جب تک ’’قتل ناحق‘‘ کے جرم میں مبتلا نہیں ہوتا… اس کے لئے
اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت گنجائش رہتی ہے… لیکن جیسے ہی وہ ناحق خون بہاتا ہے تو اس کے
لیے گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے… اللہ معاف فرمائے ایسے لوگوں کو ’’توبہ‘‘کی توفیق بھی
کم ملتی ہے اور اُن میں سے کئی … ایمان اور اسلام سے بھی محروم ہو جاتے ہیں … زمین
پر گناہوں کا آغاز اسی ’’قتل ناحق‘‘ کے بھیانک گناہ سے ہوا… اس گناہ سے پہلے زمین
بہت خوبصورت تھی… مگر اس ایک گناہ نے پورے خطہ زمین کو… کانٹوں، کڑواہٹوں اور دُکھوں
سے بھر دیا… کسی کو قتل کرنا نہ کوئی بہادری ہے اور نہ کوئی عزت… ناحق قتل سے اللہ
تعالیٰ کا غضب اور اللہ تعالیٰ کی لعنت نازل ہوتی ہے … اگر کوئی شخص کسی چڑیا کو بھی
بلاوجہ ناحق قتل کر کے پھینک دے گا تو وہ چڑیا قیامت کے دن اس پر دعویٰ کرے گی کہ میری
جان کیوں ضائع کی؟ … اور احکم الحاکمین کا ’’قہر‘‘ قیامت کے دن قاتلوں پر خوفناک برسے
گا… اسلام نے ’’قتل ناحق‘‘ کا دروازہ بند کرنے کے لئے بڑے بڑے اقدامات فرمائے… ان دروازوں
کو بند کیا جن سے یہ موذی جرم امت میں داخل ہوتا ہے… اور قتل ناحق پر ایسی شدید وعیدیں
نازل فرمائیں کہ… جو مسلمان بھی انہیں پڑھ لے وہ کبھی قتل ناحق کی جرأت نہیں کر سکتا…
یہ وعیدیں اتنی سخت اور شدید ہیں کہ انہیں پڑھ کر دل خوف سے کانپنے لگتا ہے… حضرات
صحابہ کرام ان وعیدوں اور احکامات کو سن کر اس معاملے میں ایسے حساس تھے کہ… قتل ناحق
سے بچنے کے لئے اپنی بڑی سے بڑی توہین برداشت فرما لیتے تھے… یہاں تک کہ خود قتل ہونا
بھی گوارہ کر لیتے تھے… اور یہی کامیاب ترین انسانوں کا دستور ہے کہ… وہ قتل ناحق سے
بچنے کے لئے اپنی جان تک دے دیتے ہیں مگر ’’قتل ناحق‘‘ سے اپنے ہاتھ آلودہ نہیں کرتے…
حضرت ہابیل علیہ السلام نہ اپنے بھائی سے کمزور تھے اور نہ وہ لڑنے سے
عاجز تھے… وہ نہ بزدل تھے اور نہ اپنے بھائی کی نیت سے غافل تھے … مگر وہ ’’قتل ناحق‘‘
سے بچنے کے لئے ’’مقتول‘‘ اور ’’شہید‘‘ ہو گئے… اور یوں ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گئے…
ان پر اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں… جبکہ ’’قابیل‘‘ نے اپنی انا، اپنی ضد اور
اپنے حسد کی پیروی کی…وہ قتل ناحق کے جرم میں مبتلا ہو کر … دنیا میں بھی مر گیا اور
آخرت میں بھی زمین پر ہونے والے ہر… ’’قتل ناحق‘‘ کی سزا میں حصہ دار بن گیا…… حضرت
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شخص نے آپ کی شان میں بہت سخت گستاخی کی…
آپ کے رفقاء میں سے ایک ’’صاحب‘‘ اس کو قتل کرنے کے لئے اُٹھے تو حضرت صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ نے سختی سے منع فرمادیا… اور فرمایا کہ یہ حکم حضرت آقا مدنی ﷺ کے لئے خاص
ہے کہ… ان کے گستاخ کو قتل کرنا’’ برحق ‘‘ ہے ان کے بعد کسی کے لئے ایسا کرنا جائز
نہیں … ’’قتل ناحق‘‘ کا جرم چونکہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور لعنت کا سبب ہے اس لئے… اس
کے اثرات دور دور تک پھیلتے ہیں … اور ایک قتل کئی مزید ہلاکتوں کا باعث بنتا چلا جاتا
ہے… پاکستان اس وقت اس عذاب کا شکار ہے… ایک طرف ’’تخریب کار‘‘ ہیں … جن کے نزدیک
’’قتل ناحق‘‘ نعوذ باللہ ثواب کی چیز ہے … اور دوسری طرف حکومت ہے جس کے نزدیک ’’قتل
ناحق‘‘ ملک کے امن کے لئے ضروری ہے … ’’قتل ناحق‘‘ کا یہ بھیانک سلسلہ ’’پرویز مشرف‘‘
نے شروع کرایا… اور پورے ملک کو ایک آگ میں دھکیل دیا…پرویز مشرف ہم پر یہ الزام لگاتا
ہے کہ… ہم نے اس کے قتل کی کوشش کی… اسی طرح جماعت سے بھاگے ہوئے بعض افراد نے بھی
یہ دعویٰ کر رکھا ہے… حالانکہ الحمد للہ ثم الحمد للہ… ہم نے ’’قتل ناحق‘‘ کے جرم سے
بچنے کے لئے… پاکستان میں کبھی نہ کوئی کارروائی کی اور نہ اس کی ترتیب بنائی… پرویز
مشرف یا کسی اور کو مارنا کوئی ایسا ناممکن کام بھی نہیں تھا مگر ہم… اس آگ میں مزید
انگارے نہیں ڈالنا چاہتے تھے کیونکہ یہ جہاد نہیں… ایک آگ ہے اور ایک سازش… مارکیٹوں
میں یہ طریقہ چلا آ رہا ہے کہ جب کسی کا کوئی ’’برانڈ‘‘ بہت مقبول ہو جائے تو اس کے
مخالف… اس ’’برانڈ‘‘ کو ناکام اور بدنام کرنے کے لئے… اسی نام کی نقلی اور نقصان دہ
چیز بازار میں لے آتے ہیں… مثلاً کسی جگہ ’’ محمد بدر‘‘ نام کا ’’ حلوہ‘‘ بہت مشہور
بہت مقبول ہو گیا… ہر کوئی یہی حلوہ خرید رہا ہے… اور دُکان پر ہر وقت بھیڑ رہتی ہے…
اب مخالفوں نے ’’محمد بدر‘‘ کے نام اور پیکٹ کے ساتھ ’’ نقلی حلوہ‘‘ مارکیٹ میں چلا
دیا… اس حلوے کو جو کھاتا ہے اس کے پیٹ میں درد ہوتا ہے اور وہ الٹیاں کرنے لگتا ہے…
اب اصلی ’’محمد بدر‘‘ کمپنی والے ہر جگہ اپنی صفائیاں دیتے ہیں…لوگوں
کو اصلی، نقلی کا فرق سمجھاتے میں… مگر اب ان کی شہرت اور مقبولیت پہلے جیسی نہیں رہتی…
اور پھر جب ان کی دکان پر مخالفین سرکاری چھاپہ ڈلواتے ہیں تو لوگ… ان کی مدد کے لئے
بھی نہیں نکلتے… کیونکہ نقلی حلوہ اپنا کام دکھا چکا ہوتا ہے… اللہ تعالیٰ نے امارت
اسلامی افغانستان کے ذریعہ ’’جہاد‘‘ کو بے پناہ مقبولیت اور شہرت عطاء فرمائی … امارت
اسلامی افغانستان کے حکام ’’ طالبان ‘‘ کہلاتے تھے اور طالبان کا نام… عزت و وقار ،
امن و سکون اور امات و دیانت کا ’’برانڈ ‘‘ بن چکا تھا … آج جو آپ پاکستان اور اس
کے آس پاس اور دور دور تک اسلام، دینی مدارس اور مساجد کی ترقی دیکھتے ہیں… اس کے
پیچھے ’’ طالبان‘‘ کی محنت و دیانت کا بڑا ہاتھ ہے… انہی کے زمانے میں لوگ جوق در جوق
جہاد پر آئے اور انہی کے زمانے میں مسلمانوں کے مالدار اور پڑھے لکھے طبقے نے دین
پر خرچ کرنے کے لئے اپنا ہاتھ اچھی طرح کھولا… طالبان کی وجہ سے اسلام اور جہاد کو
الحمد للہ عزت و شوکت ملی… اب جب ’’عالم کفر‘‘ نے طالبان پر حملہ کیا تو ضروری تھا
کہ طالبان کی شہرت کو بھی نشانہ بنایا جائے… چنانچہ طالبان کے نام سے ایسے افراد کھڑے
کئے گئے… جنہوں نے اغوا کاری، بھتہ خوری اور قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا… یہ سب
کچھ امریکہ اور پرویز مشرف کی قیادت میں ہوا… انہوں نے خود ایسے افراد مقرر کئے جو
…نوجوانوں کو ملک میں کارروائیوں پر اُبھارتے تھے اور ان کی فنڈنگ کرتے تھے… پھر انہوں
نے سرکاری اداروں کے ذریعہ جہادی جماعتوں کو توڑا اور ان میں سے ایسے افراد نکالے جو
جذباتیت کا شکار ہو سکیں… پھر انہوں نے مجاہدین پر مظالم ڈھائے تاکہ وہ غصے اور انتقام
میں آ کر کارروائیاں کریں… پھر انہوں نے مساجد و مدارس پر مظالم کی آگ برسائی تاکہ…
اس کے منفی ردعمل میں… نوجوان شدید انتقامی جذبے کا شکار ہوں… اور پھر ان نوجوانوں
کو ’’طالبان‘‘ اور ان کی کارروائیوں کو ’’جہاد‘‘ کا نام بھی دلوایا… اور یوں وہ اصلی
طالبان لوگوں کو بھول گئے… جن طالبان کی مثالیں دے کر لوگ اپنے ملکوں کے حکمرانوں کو
جوتے دکھاتے تھے… ’’طالبان‘‘ کی وہ مقبولیت اسی طرح برقرار رہتی تو ہزاروں لاکھوں مسلمان
پوری دنیا سے… افغانستان کا رخ کرتے اور ’’طالبان‘‘ پر حملہ کرنے والی طاقتوں کو عبرت
کا نشان بنا دیتے… وہ افراد جو پاکستان وغیرہ میں کارروائیاں کرتے رہے اگر یہ سب افغانستان
چلے جاتے اور وہاں کارروائیاں کرتے تو آپ اندازہ لگائیں کہ حملہ آور اتحاد کا کتنا
برا حشر ہوتا… اسی لئے ایک سازش کے تحت کئی ریٹائر افراد، کئی مشکوک پیر، کئی ظاہری
دیندار… اپنے ہاتھوں میں بریف کیس لے کر مجاہدین کی صفوں میں گھس گئے… اور نوجوانوں
کو پاکستان میں کارروائیاں کرنے پر اُبھارنے لگے… ساتھ انہوں نے یہ نعرہ بھی عام کر
دیا کہ… پاکستان کے جو مجاہدین افغانستان اور کشمیر میں لڑ رہے ہیں وہ ایجنسیوں کے
ایجنٹ اور چابی والے خرگوش ہیں … ان کو بڑی بڑی رقمیں ملتی ہیں… اور یہ خود کوئی فیصلہ
نہیں کر سکتے… چنانچہ سیدھے سادے جذباتی نوجوان ان باتوں کا شکار ہو کر وزیرستان کا
رخ کرنے لگے … اور یوں ایک نیا سلسلہ چل پڑا … اس وقت جو نوجوان اس سازش کا شکار ہوئے
… وہ اکثر بے قصور تھے… ان کو جس طریقے سے جذبات دلائے گئے اور جس طرح سے بھڑکایا گیا…
اس کو سن کر کسی مسلمان کے لئے سوائے اسے قبول کرنے کے اور کوئی چارہ باقی نہیں رہتا
… اور پھر لال مسجد کے واقعے نے… اس جنگ کو مستقل بنیادوں پر کھڑا کر دیا…امریکہ اور
پرویز مشرف کی ایجنسیوں کے پلان میں یہ بھی شامل تھا کہ…اس طرح کے جذباتی افراد کو
استعمال کر کے… ایک طرف تو اصلی طالبان کو بدنام کیا جائے گا… اور دوسری طرف ان نوجوانوں
کی کارروائیوں کو جواز بنا کر پاکستان سے جہادی جماعتوں ، مدارس اور دینی جماعتوں کا
خاتمہ کر دیا جائے گا… چونکہ لوگ اغوا کاری، بھتہ خوری، عوامی قتل عام سے تنگ ہوں گے
تو یوں اس کے پردے میں … پاکستان کے دینی طبقے کو مجرم قرار دے کر اس کا خاتمہ کر دیا
جائے گا… اور یہ ملک ایک سیکولر لبرل ریاست بن جائے گی… مگر امریکہ، نیٹو اور ان کے
پالتو پرویز مشرف کی یہ سازش مکمل کامیاب نہ ہو سکی… وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ
اپنے دین کا، اپنے بندوں کا اور جہاد کا محافظ ہے… وہ تحریک جسے جذبات کے جھٹکے لگا
کر… کچھ مقاصد کے لئے کھڑا گیا تھا وہ اتنی مضبوط ہو گئی کہ… حکومت کو بھی چکر آنے
لگے … جمہوری نظام حکومت کی ایک خرابی یہ بھی ہے کہ… لوگ آتے ہیں جاتے ہیں، افسر بدلتے
ہیں، اداروں کے سربراہ تبدیل ہوتے ہیں… پالیسیاں تسلسل سے جاری نہیں رہتیں… کئی افراد
کو اپنا کام ادھورا چھوڑ کر ہٹنا پڑتا ہے… اور نئے افراد کو پرانوں کے کارناموں کا
علم تک نہیں ہوتا … بس یہی کچھ یہاں ہوا…جذبات کے تندور میں جلائے جانے والے نوجوان
ایک منظم تحریک بن گئے… پورا ملک دو طرفہ ’’قتل ناحق‘‘ کی آگ میں جلنے لگا… پہلے جو
جنگ محض جذبات پر مبنی تھی… اب اس میں تنظیمی اصول اور طرح طرح کے سرپرست آتے گئے…
تب ریاست نے ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کر دیا… تو ان لوگوں کو افغانستان نے جگہ
دے دی… آپریشن ضرب عضب شروع ہوتے وقت بندہ نے جو ’’رنگ ونور‘‘ لکھا تھا اسے ملاحظہ
فرما لیجئے… آپ حیران ہوں گے کہ اس میں آئندہ کے جن حالات کی نشاندہی کی گئی تھی
وہ کھلی آنکھوں سے سب کے سامنے آ گئے… اب آپ دیکھیں … پہلا مقصد طالبان کو بدنام
کر کے ان کو اکیلا کرنا تھا اور انہیں شکست دینی تھی… الحمد للہ یہ مقصد پورا نہ ہوا…
امارت اسلامی افغانستان آج بھی قائم ہے ، میدان میں ہے اور فاتح ہے… اگرچہ اس فتح
میں وقت زیادہ لگا… اور یہ بھی درست ہے کہ طالبان کی پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک
میں پہلے جیسی مقبولیت نہیں رہی… مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟… میدان میں وہ آج بھی
فاتح ہیں… اور ان کا دشمن خود شکست تسلیم کر رہا ہے … دوسرا مقصد … پاکستان میں قائم
شرعی جہادی جماعتوں کو ختم کرنا اور مدارس و مساجد کا ناطقہ بند کرنا تھا… سول سوسائٹی
کے نام سے میراثیوں کا ایک پورا لشکر… اور میڈیا کے نام سے کئی غیر ملکی ایجنٹوں کا
ایک پورا ٹولہ… اسی کام کے لئے وقف ہے کہ… جیسے ہی پاکستان میں کوئی تخریبی کارروائی
ہوتی ہے تو وہ فوراً شور ڈال دیتا ہے کہ … ہر دیندار کو مارو، ہر مدرسہ بند کرو، ہر
جماعت پر پابندی لگاؤ…اور ملک سے دین کا خاتمہ کرو…
مگر الحمد للہ یہ مقصد بھی آج تک پورا نہیں ہو سکا… اور اگر اللہ تعالیٰ
نے اس ملک کو قائم رکھنا ہے تو یہ مقصد کبھی بھی پورا نہیں ہو سکے گا…
خلاصہ یہ کہ امریکہ اور پرویز مشرف نے… ’’قتل ناحق‘‘ کا یہ دو طرفہ سلسلہ
جن مقاصد کے لئے شروع کرایا تھا وہ تو پورے ہوئے نہیں … جبکہ پاکستان کے خلاف مستقل
ایک جنگ کے اسباب تیار ہو گئے… اب بھی اس لڑائی کو بند کیا جا سکتا ہے مگر نہ حکومت
ایسا چاہتی ہے اور نہ غیر ملکی طاقتیں… بلکہ غیر ملکیوں کی تو یہ خواہش ہے کہ وہ لوگ
جو ابھی تک پاکستان کے خلاف نہیں لڑ رہے … پاکستان حکومت ان کو بھی اتنا مجبور اور
تنگ کرے کہ وہ بھی لڑنے پر اتر آئیں… دوسری طرف وہ افراد جو… فوجی آپریشن سے بچنے
کے لئے افغانستان جا بیٹھے ہیں وہاں ان کو عالمی طاقتیں اس بات پر مجبور کرتی ہیں کہ…
وہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ کارروائیاں کریں … اور ساتھ ہی امارت اسلامی افغانستان
کو ختم کرنے میں ان کی مدد کریں…زمانے کا انتقام دیکھیں کہ وہ لوگ جو کل تک…پاکیزہ
کشمیری مجاہدین اور باہمت افغان مجاہدین کو… ’’آئی ایس آئی‘‘ کا ایجنٹ کہتے تھے آج
سب لوگ اُن کو ’’را‘‘ کا ایجنٹ کہہ رہے ہیں…بے شک جھوٹی گالی بالآخر گولی بن کر گالی
دینے والے کی طرف واپس لوٹتی ہے…
ہم نے کئی بار کوشش کی کہ… یہ جنگ کسی طرح بند ہو یا کم ہو… مگر ہماری
نہ تو حکومت سنتی ہے… اور نہ مسلح جنگجو… کیونکہ دونوں طرف کے عزائم بھی بڑھ چکے ہیں،
مجبوریاں بھی بڑھ چکی ہیں… اور مظالم بھی بڑھ چکے ہیں…
یہاں تک کہ جو ان کو سمجھانے کی کوشش کرے تو وہ اسے بھی قتل کرنا ضروری
سمجھتے ہیں… اور یہ جنگ اب جنگل کے قانون سے بھی زیادہ بے اصول ہو چکی ہے… آخر ’’شہباز
قلندرؒ‘‘ کے مزار پر دھمال ڈالنے والوں کا اس جنگ سے کیا تعلق تھا؟ وہ اچھے لوگ تھے
یا بُرے مگر ان کے جسموں میں اللہ تعالیٰ نے جان رکھی تھی… اسلام نے کسی بھی جان کے
’’قتل برحق‘‘ اور ’’قتل ناحق‘‘ کے جو اٹل اصول ارشاد فرمائے ہیں ان کی رو سے ان افراد
کا قتل… ’’قتل ناحق‘‘ بنتا ہے… پھر دوسری طرف حکومت نے بھی دیر نہیں لگائی جیلوں اور
تفتیشی مراکز میں سے ایک سو افراد کو نکالا اور ان کا ’’قتل ناحق‘‘ کر دیا… اور یوں
ملک میں ’’قتل ناحق‘‘ کا عفریت ہر طرف چھا گیا…
اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے… اہل پاکستان کے لئے یہ دعاء اور استغفار کی
گھڑی ہے…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول
اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭