مولانا مامون اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ587)

اللہ تعالیٰ کے وہ خوش نصیب بندے… جو اللہ تعالیٰ کے دین کا علم سیکھتے اور سکھاتے ہیں… ان کا درجہ بہت بلند اور ان کی شان بہت اونچی ہے… یہ بات میں نہیں بتا رہا… یہ بات ’’قرآن مجید ‘‘ بتا رہا ہے… ایک آیت میں نہیں کئی آیات مبارکات میں… ہاں بے شک ایسے لوگوں کا مقام اتنا عالی شان ہے کہ… حضرات انبیاء علیہم السلام اور حضرات صحابہ کرام کے بعد انہی کا درجہ ہے… بس شرط یہ ہے کہ وہ ’’ دین کا علم ‘‘ اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے سیکھیں اور سکھائیں… اور اس علم پر عمل بھی کریں…ایسے علماء اور ایسے طلباء جب اس دنیا سے کوچ کرتے ہیں تو ان کی جدائی کے صدمے میں زمین بھی روتی ہے اور آسمان بھی روتا ہے… اور ہر زندہ دل مسلمان ایسی خبر سن کر گہرے آنسو روتا ہے… آہ! مولانا مامون اقبال… ایک درویش صفت نوجوان عالم باعمل… مجاہد، مدرس اور داعی جہاد… وہ گذشتہ کل اچانک ہم سے رخصت ہو گئے…

انا للہ وانا الیہ راجعون

نام کیسے کاٹیں؟

اس وقت میرے سامنے ایک فہرست ہے… اس فہرست میں ہر وہ بات ہے جس پر دل کی گہرائی سے ’’ الحمدللہ‘‘ نکلتا ہے… یہ اس سال رجب اور شعبان میں ہونے والے مجوزہ ’’دورات تفسیر آیات الجہاد‘‘ کا برنامج ہے… اس میں لکھا ہے کہ اس سال ان شاء اللہ اکیاون مقامات پر ’’دورات تفسیر‘‘ ہوں گے… الحمد للہ، الحمد للہ…

پہلے جب یہ دورہ شروع ہوا تھا تو سال میں صرف ایک دو مقامات پر ہوتا تھا… یعنی اللہ تعالیٰ نے اس میں پچاس گنا ترقی عطا فرمائی ہے الحمد للہ، الحمد للہ… اس سال کل انتیس اساتذہ یہ اکیاون دورے پڑھائیں گے الحمد للہ ، الحمد للہ… پہلے ان دورات کا استاذ صرف ایک تھا… اب اللہ تعالیٰ نے اس میں اٹھائیس گنا ترقی عطا فرمائی ہے الحمد للہ ، الحمد للہ… ان اساتذہ میں سے بعض ایک مقام پر اور بعض مختلف تاریخوں میں دو مقامات پر یہ دورے پڑھائیں گے الحمد للہ، الحمد للہ… یہ مبارک دورے ملک کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، اور قبائلی علاقہ جات تک میں ان شاء اللہ ہوں گے الحمد للہ، الحمد للہ… ان دورات سے الحمد للہ، الحمد للہ ہزاروں مسلمان مرد و خواتین استفادہ کرتے ہیں… اور اپنے ایمان ، عقیدے اور عمل کی اصلاح کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ نے دورات تفسیر کا یہ منفرد سلسلہ اس زمانے میں عطا فرمایاہے جب کہ… جہاد فی سبیل اللہ کو مٹانے کے لئے… دنیا بھر کا اسلحہ، دنیا بھر کے دماغ اور دنیا بھر کے خزانے استعمال کئے جا رہے ہیں… مگر ایسے میں کچھ ’’صاحبِ علم‘‘ فقراء اٹھتے ہیں… اور وہ مسلمانوں کو ’’آیاتِ جہاد‘‘ سنا کر بتاتے ہیں کہ… ’’ جہاد‘‘ ہماری بات نہیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے… آؤ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات سنو ، سمجھو اور پھر خود فیصلہ کرو… یہ خوبصورت فہرست اس وقت میرے پاس ہے… اور اس کی ہر سطر مجھے الحمد للہ، الحمد للہ پڑھوا رہی ہے… مگر یہ کیا… اس میں دو سطریں ایسی ہیں جن کو میں دیکھتا ہوں تو انا للہ، انا للہ پڑھنے لگتا ہوں… ایک سطر میں شہر کا نام ڈیرہ اسماعیل خان اور مدرس کا نام مولانا مامون اقبال… اور دوسری سطر میں شہر کا نام ’’ ہری پور‘‘ اور مدرس کا نام مولانا مامون اقبال…

انا للہ وانا الیہ راجعون… انا للہ وانا الیہ راجعون… ہمارے مولانا مامون اقبال صاحب کئی سال سے یہ ’’ مبارک دورہ ‘‘ مکمل ذوق و شوق اور تحقیق کے ساتھ پڑھا رہے تھے… ان کے تدریسی اور تفہیمی انداز کو پسند کیا جاتا تھا…اس سال بھی انہوں نے دو جگہ یہ ’’دورہ ‘‘ پڑھانا تھا… مگر کل وہ خاک کی چادر اوڑھے… آفاق میں گم ہو گئے… اب اس فہرست میں سے ان کا نام کیسے کاٹیں، کیسے کاٹیں؟

ایک سچا قصہ سن لیں

حافظ ابن بطّال القرطبیؒ نے اپنی سند کے ساتھ یہ واقعہ لکھا ہے… بندہ آپ کے سامنے اس کا خلاصہ پیش کر رہا ہے… امام یحییٰؒ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں علم حاصل کرنے کا شوق الہام فرمایا تو میں سفر کرکے اپنے رفقاء کے ساتھ ’’مدینہ منورہ‘‘ حضرت امام مالک ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا… پہلے ہی دن امام مالکؒ نے مجھ سے میرا نام پوچھا جو میں نے عرض کر دیا… میں اپنے تمام رفقاء میں کم عمر نوجوان تھا… حضرت امام مالکؒ نے مجھے فرمایا:

’’ یا یحییٰ اللہ، اللہ علیک بالجد فی ہذا الامر‘‘

یعنی امام صاحب نے اللہ، اللہ فرما کر مجھے تاکید فرمائی کہ علم حاصل کرنے میں خوب محنت کرنا… میں تمہیں عنقریب ایک ایسا واقعہ سناؤں گا کہ جسے سن کر تمہارے اندر علم کا شوق بڑھ جائے گا اور دوسری چیزوں سے تم بے رغبت ہو جاؤ گے… پھر امام صاحب نے یہ قصہ سنایا…

ہمارے ہاں مدینہ منورہ میں ملک شام سے تمہاری عمر کا ایک نوجوان علم حاصل کرنے آیا تھا… وہ تحصیل علم میں بہت محنت کرتا تھا… مگر اچانک اس کا انتقال ہو گیا… میں نے اس کے جنازے میں ایسی چیزیں دیکھیں جو اس سے پہلے میں نے کسی عالم یا طالبعلم کے جنازے میں نہیں دیکھی تھیں… میں نے دیکھا کہ مدینہ کے سارے علماء اس کے جنازے کی طرف بڑھ چڑھ کر دوڑ رہے تھے، جب مدینہ کے گورنر نے یہ منظر دیکھا تو اس نے جنازے کی نماز رکوا دی اور اعلان کیا کہ… اہل مدینہ اپنے سب سے محبوب عالم اور بزرگ کو آگے کریں… عوام اور علماء نے حضرت امام ربیعہ رحمہ اللہ کو آگے کیا… اور امام ربیعہ نے اس زمانے کے بڑے اہل علم کو ساتھ لے کر اس نوجوان طالبعلم کو قبر میں اتارا اور اس کی تدفین اور جنازے کے تمام مراحل پورے کرائے… تدفین کے تیسرے دن مدینہ منورہ کے ایک مشہور بزرگ نے اس نوجوان کو خواب میں دیکھا وہ بہت حسین و جمیل شکل میں سبز عمامہ باندھے ایک عمدہ گھوڑے پر سوار ہے اور آسمان سے اتر رہا ہے… اور کہتا ہے مجھے یہ مقام علم کی برکت سے ملا ہے… اللہ تعالیٰ نے علم کے ہر اس ’’باب‘‘ کے بدلے جو میں نے پڑھا تھا جنت میں میرا ایک درجہ بلند فرمایا… مگر پھر بھی میں ’’ اہل علم‘‘ کے ’’درجے‘‘ تک نہ پہنچ سکا… تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا… میرے انبیاء کے وارثوں کو زیادہ دو میں نے اپنے اوپر اس بات کی ضمانت لے لی ہے کہ جو بھی اس حال میں مرے گا کہ وہ میری سنت اور میرے انبیاء کی سنت کا عالم ہو گا یا اس کا طالبعلم ہو گا تو ان سب کو ایک درجے میں جمع فرما دوں گا…

اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے بعد مجھے بھی اہل علم کے درجے میں پہنچا دیا گیا… اور اس درجے میں ہمارے اور جناب رسول اللہ ﷺ کے درمیان صرف دو درجوں کا فاصلہ ہے… ایک وہ درجہ جس میں آپ ﷺ تشریف فرما ہیںاور آپﷺ کے گرد حضرات انبیائِ کرام ہیں… اور دوسرا وہ درجہ جس میں آپ ﷺ اور حضرات انبیاء کرام کے صحابہ کرام تشریف فرما ہیں … پھر ان کے بعد ’’ اہل علم‘‘ کا درجہ ہے… مجھے وہاں لے جایا گیا یہاں تک جب میں ان کے درمیان پہنچا تو اہل علم نے مجھے ’’مرحبا مرحبا‘‘ فرمایا… یہ تو ہوا میرا درجہ… اس کے علاوہ بھی بہت کچھ مزید اللہ تعالیٰ نے عطاء فرمایا ہے… بزرگ نے پوچھا… وہ مزید کیا ہے؟ اس نوجوان نے کہا… اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ حشر کے دن اللہ تعالیٰ اہل علم سے فرمائیں گے… اے علماء کی جماعت! یہ میری جنت ہے جو میں نے تمہارے لئے حلال فرما دی ہے… اور یہ میری رضا ہے جو میں نے تمہیں عطاء فرما دی ہے… مگر تم اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤ گے جب تک مجھے اپنی ہر تمنا اور اپنی ہر شفاعت نہ بتا دو تاکہ میں تمہاری ہر تمنا پوری کر دوں اور تم جس کے بارے میں بھی شفاعت کرو میں اسے بخش دوں… یہ اس لئے کہ تمام لوگ میرے ہاں تمہارے اعزاز ومقام کو دیکھ لیں…

مدنی بزرگ نے صبح اٹھ کر یہ خواب اہل علم کو سنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر ہر طرف پھیل گئی…مدینہ منورہ میں کچھ لوگ ایسے تھے جو پہلے ہمارے ساتھ علم حاصل کرتے تھے مگر پھر چھوڑ گئے تھے …انہوں نے یہ واقعہ سنا تو وہ بھی مکمل ہمت اور جذبے کے ساتھ واپس لوٹ آئے… اور آج وہ اس شہر کے اہل علم میں شمار ہوتے ہیں… بس اے یحییٰ … اللہ، اللہ… علم میں خوب محنت کرو… حضرت امام مالک ؒ کی نصیحت اس نوجوان کے دل میں اتری اور وہ بھی زمانے کے معروف و مقبول اہل علم میں شمار ہوئے…

یہ واقعہ کافی پہلے پڑھا تھا… کل بھائی مامون صاحب کے انتقال کی خبر آئی تو اسی وقت سے یہ واقعہ ذہن میں چمکنے لگا… مولانا مامون اقبال صاحب کی مختصر سی پوری زندگی علم اور جہاد کی محنت میں گذری… زندگی کے آخری دن تک وہ دین کی ان دو عظیم نسبتوں سے مکمل طور پر جڑے رہے… بچپن میں قرآن مجید حفظ کیا… پھر دینی تعلیم حاصل کرنے میں لگ گئے… اور پھر یہی دینی علم پڑھاتے رہے… اور ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کی خدمت بھی کرتے رہے… نہ کوئی وقفہ، نہ کوئی چھٹی اور نہ کوئی آفت…

ساری زندگی سعادت ہی سعادت… اور موت ایسی تشکیل میں آئی اور ایسی محبت سے آئی کہ ہر دیکھنے والا شہادت، شہادت پکارنے لگا… پیشانی کا پسینہ چہرے پر مسکراہٹ اور سکون… اور ہر طرف ’’محبوبیت‘‘ کے عجیب والہانہ مناظر… بظاہر خاموش طبع فقیر مزاج مولانا… کس طرح سے مسلمانوں کے دلوں میں بستے تھے… یہ ان کی وفات کے وقت معلوم ہوا… ہاں بے شک وہ ساری زندگی اللہ تعالیٰ کے دروازے اور اللہ کے راستے پر پڑے رہے تو… اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر قبولیت و محبوبیت کے انوارات برسا دئیے…

آخری دن بھی گھر سے نکل کر مدرسے میں آئے سبق پڑھایا پھر اگلے سبق کے لئے جانے والے تھے کہ… بے ہوش ہو گئے، ہسپتال لے جایا گیا… مگر وہاں جانے کے چند گھنٹوں کے بعد وفات پا گئے اور واپس اپنے مدرسے میں آ کر مدرسہ کے قبرستان میں اپنے محبوب چچا جی کے پڑوس میں… اپنے باغات پر چلے گئے…

کئی رشتے

مولانا مامون اقبال صاحبؒ پوری زندگی میرے خاموش ہمسفر اور معاون رہے… ان کے ساتھ میرے کئی رشتے تھے… وہ میرے چچا زاد بھائی بھی تھے اور خالہ زاد بھائی بھی… وہ اول دن سے جماعت کے قیمتی رکن تھے… ان کا اصلاحی بیعت کا سلسلہ بھی مجھ ’’ بے کار‘‘ سے تھا اور میری ہر محنت میں مکمل طور پر شریک اور معاون تھے… اور اب انہوں نے ’’ جامعۃ الصابر‘‘ کا نظام اتنی عمدگی سے سنبھالا ہوا تھا کہ… کل جامعہ کا ہر پتھر اور ہر پتا رو رہا تھا… ان تمام ’’ اہل محبت‘‘ کا شکریہ جنہوں نے غم کے اس موقع پر تعزیت کی اور مولانا مرحوم کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کیا… اللہ تعالیٰ مولانا مامون صاحب کو اپنے خاص جوار میں مغفرت ، شہادت اور اکرام کا مقام عطاء فرمائیں… ان کے والدین، اہل خانہ ، بھائیوں اور تمام غمزدہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیں… اور مولانا کے چاروں معصوم یتیموں کو ایمان اور اچھی قسمت کا ’’دریتیم ‘‘ بنائیں…

آمین یا ارحم الراحمین

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭