انتہا پسندی کیا
ہے؟
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ590)
اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کی ’’ابتداء‘‘ کا
مالک ہے…اور اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کی ’’انتہا‘‘ کا مالک ہے…
وہی اول … وہی آخر… وہی ظاہر…وہی باطن…
ھُوَ الْاَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاہِرُ
وَالْبَاطِنُ
آج آپ سب سے ایک سوال پوچھنا ہے… یہ
’’انتہا پسندی‘‘ کیا ہوتی ہے؟ مردان کی یونیورسٹی میں ایک لڑکا قتل ہو گیا… اب ہر
طرف شور ہے… مذہبی انتہا پسندی آ گئی، مذہبی انتہا پسندی ختم کرو وغیرہ وغیرہ…
آپ
بتائیں
یہ قتل ایک ’’یونیورسٹی‘‘ میں ہوا… اگر
ایسا کوئی ایک واقعہ ’’دینی مدارس ‘‘ کی طرف سے ہو جاتا تو آج ماحول کیا ہوتا…
دینی مدارس کے چند سو طلبہ کسی مدرسہ سے نکلتے اور کسی ایک ’’شخص‘‘ کو قتل کر دیتے
تو آج ملک کے تمام دینی مدارس پر ٹینک اور بلڈوزر دوڑا دئیے جاتے…انسداد دہشت
گردی کی کوئی نئی کمیٹیاں بن جاتیں… اور منہ کھول کھول کر مدارس کو گالیاں دی
جاتیں… ان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دیا جاتا اور مدارس پر پابندی کی باتیں شروع
ہو جاتیں… مگر یہاں واقعہ ایک ’’یونیورسٹی‘‘ میں ہوا اس لئے مکمل احتیاط برتی جا
رہی ہے کہ… انگریزی تعلیم کے اداروں پر کوئی بات نہ ہو… ان پر پابندی کا کوئی
تذکرہ نہ ہو… کیا یہ انتہا پسندی نہیں ہے؟…
عجیب
بے انصافی ہے
آج دنیا کے کئی ممالک کے حکمران… مکمل
’’انتہا پسند‘‘ ہیں… ان میں سے ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک ایک یہودی کے بدلے دنیا
کے تمام مسلمانوں کا قتل جائز ہے… ان میں ایسے بھی ہیں جو ایک گائے کے بدلے ہزار
مسلمانوں کو قتل کرنا لازمی سمجھتے ہیں… ان میں ایسے بھی ہیں جو اپنا ہر بم صرف
اور صرف مسلمانوں پر گرانا چاہتے ہیں… ان میں سے ایسے بھی ہیں جو مسلمانوں کو
سرعام کتوں سے بدتر اور حقیر قرار دیتے ہیں… ان میں ایسے بھی ہیں جو ہر دن کم از
کم ایک سو مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں…
کیا یہ سب کچھ ’’انتہا پسندی‘‘ نہیں ہے؟…
آج تو دنیا میں غیر مسلم انتہا پسندوں کی باقاعدہ حکومتیں ، باقاعدہ ادارے اور
باقاعدہ فوجیں ہیں… مگر مسلمانوں کے پاس کیا ہے؟ ہمارے حکمران تو خود کو مسلمان
کہلانا گوارا نہیں کرتے… نہ عمل مسلمانوں والے، نہ شکل مسلمانوں والی… جہاں بیٹھتے
ہیں اسلامی احکامات کے خلاف بولتے ہیں… حتی کہ ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو نعوذ
باللہ اذان سے نفرت کرتے ہیں… مساجد سے بغض رکھتے ہیں… وہ غیر مسلموں اور مشرکوں
کے درمیان ہوں تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے… اور جب مسلمانوں کے درمیان ہوں تو ان
کے چہروں پر بارہ بجے رہتے ہیں… کیا یہ سب کچھ ’’انتہا پسندی‘‘ نہیں ہے… میں یقین
سے کہتا ہوں کہ اگر ہمارے مسلمانوں کے ملکوں کے حکمران… صرف ترکی کے ’’صدر‘‘رجب
طیب اردگان جتنے مسلمان بھی ہو جائیں تو… تمام اسلامی ملکوں سے نوّے فیصد ’’دہشت گردی‘‘
ختم ہو جائے گی… ترکی کے صدر نے داڑھی نہیں رکھی… مگر اسے داڑھی سے بغض نہیں ہے…
وہ کسی مسجد کا مولوی نہیں ہے مگر مسجد سے نفرت نہیں رکھتا… اذان کا مذاق نہیں
اڑاتا… وہ انگریزی لباس پہنتا ہے… مگر اسے عمامے سے کوئی عداوت نہیں ہے… وہ خود کو
فخر سے مسلمان کہتا ہے… دنیا بھر کے مسلمانوں کے جنازوں میں جاتا ہے… اور اگر کسی
جگہ مسلمانوں پر ظلم ہو تو بے چین ہو کر آواز ضرور اُٹھاتا ہے…
اسی لئے آج وہ ترکی کی عوام میں بھی مقبول
ہے… اور امت مسلمہ کی آنکھوں کا بھی تارا ہے… ہم میں سے ہر شخص اس کے لئے اپنے دل
میں محبت اور احترام کے جذبات محسوس کرتا ہے… اور کوئی مسلمان جس کو دین کی بنیادی
باتوں کا علم ہو… کبھی بھی اس کے خلاف کوئی مسلح تحریک چلانے کا سوچ بھی نہیں
سکتا… کیا باقی اسلامی ملکوں کے حکمران… صرف اتنا اسلام بھی اختیار نہیں کر سکتے؟…
آخر مسلمان قوم سوچتی ہے کہ… یہودیوں کے پاس ’’بنیامین نیتن یاہو‘‘ جیسا حکمران
ہے جو یہودیوں کی لاشوں تک کی حفاظت کرتا ہے…اوردنیا میں کسی یہودی کو کانٹا چبھے
تو وہ فوراً اس کی مدد کو پہنچتا ہے… ہندؤوں کے پاس ’’مودی‘‘ جیسا حکمران موجود
ہے، جو ہندو تو کیا گائے کی حفاظت کے لئے جان لینے پہ آجاتا ہے… عیسائیوں کے پاس
ٹرمپ ، اولاندوفرانسو اور پاپے جیسے حکمران موجود ہیں جو خود… عیسائی مشنریوں کا
حصہ ہیں… مگر مسلمانوں کے پاس کیا ہے؟… کوئی ایک حکمران جو صرف ہمارے آقا اور
مولیٰ حضرت محمد ﷺ کی حرمت و ناموس ہی کا تحفظ کر سکے… دنیا بھر کے پاگل کتے… حضرت
آقا مدنی ﷺ کو نعوذ باللہ ہر گالی دے رہے ہیں… کارٹون بنا رہے ہیں… کیا کسی
مسلمان حکمران کے کان پر جوں رینگی؟… بس کبھی کبھار مجبور ہو کرکھو کھلے بیانات
اور بس… حالانکہ یہی حکمران جب اذان ، مسجد اور مدرسہ کے خلاف بولتے ہیں تو لگتا
ہی نہیں کہ… یہ کسی مسلمان کی اولاد ہیں…
جب حالات ایسے بن جائیں تو پھر … کئی
مسلمان احساس محرومی اور جذباتیت کا شکار ہو جاتے ہیں… تب شور مچ جاتا ہے… اسلامی
بنیاد پرستی، اسلامی انتہا پسندی، اسلامی دہشت گردی…
آہ میرے اللہ… اپنے حبیب ﷺ کی امت پر رحم
فرما…
آخر
یہ کیا چاہتے ہیں؟
تھوڑا سا سوچیں کہ… ان غیر مسلموں نے
’’افغانستان‘‘ پر حملہ کیا… حملہ صرف ایک شیخ اسامہ بن لادن کی خاطر… حملہ بھی
معمولی نہیں… دنیا کے چالیس ممالک اکھٹے ہو کر افغانستان پر ٹوٹ پڑے… ان سب کو
معلوم تھا کہ شیخ کہاں ہیں؟… مگر ڈیزی کٹر بموں کی کارپٹ بمباری پورے افغانستان پر
ہو رہی تھی… وہاں کے مسلمان اس بمباری سے قیمہ بن رہے تھے… تو کیا افغانی مسلمان
سر جھکا کر مرتے رہتے؟… آخر وہ بھی انسان ہیں، وہ بھی مسلمان ہیں… انہوں نے
مقابلے کا فیصلہ کیا تو فوراً ان کو انتہا پسند قرار د ے دیا گیا… عجیب بات ہے
نا؟… کسی ملک پر وحشیانہ حملہ کرنے والے ’’ انتہا پسند‘‘ نہیں… مگر خود اس ملک کے
باسی اگر اپنے ملک کے دفاع کے لئے کھڑے
ہوں تو وہ انتہا پسند… آخر یہ کہاں کا انصاف ہے؟… اور کہاں کی لغت؟…
انڈیا کے فوجی روزانہ دس بیس کشمیری
مسلمانوں کو بھون ڈالیں… جو بھی احتجاج کے لئے نکلے اس پر گولی برسائیں… اگر بچے
پتھر پھینکیں تو اس کے جواب میں ان کا قتل عام کیاجائے… کیا کشمیری انسان نہیں
ہیں؟… پھر جب وہ اپنے دفاع کے لیے کھڑے ہوں تو ان کو انتہا پسند اور دہشت گرد
قراردے دیا جائے… یہ کون سا انصاف ہے؟…
آج مسلمانوں کے کم از کم دس ممالک پر غیر
ملکی فوجیں دن رات بمباری کر رہی ہیں… یہ فوجیں جو کچھ کرتی رہیں وہ ٹھیک… اور اگر
مسلمان ان کے سامنے کھڑے ہو جائیں تو وہ انتہا پسند اور دہشت گرد؟… آخر یہ چاہتے
کیا ہیں؟… اگر ان کی خواہش ہے کہ… تمام مسلمان ’’برائلر مرغی‘‘ کی طرح ہو جائیں…
یہ جس کو چاہیں ذبح کریں اور مسلمان خوشی سے ذبح ہوتے جائیں… یہ دن رات ہمارے آقا
حضرت محمدمدنی ﷺ کی گستاخیاں کریں اور سب مسلمان اس پر خوشی سے تالیاں بجائیں… یہ
دن رات مسلمانوں کو ذلیل کریں اور مسلمان خوش سے ہر ذلت گوارہ کرتے جائیں… تو ساری
دنیا سن لے کہ… کافروں کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکتی… ہاں رب کعبہ کی قسم!
یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکتی… ہاں رب محمد ﷺ کی قسم! یہ خواہش کبھی پوری نہیں
ہو سکتی… تم جہاں بھی مسلمانوں پر حملہ کرو گے تمہیں جواب ملے گا… تم جب بھی
اسلامی مقدسات پر کیچڑ پھینکو گے تو تمہیں اپنے سامنے اسلام کے سرفروش نظر آئیں
گے… شاید یہی تکلیف تمہیں برداشت نہیں ہو رہی تو اب مسلمانوں کو انتہا پسندی اور
دہشت گردی کی گالی دیتے ہو… اور ذلیل میراثیوں کی طرح شور مچاتے ہو…مسلمانو! اللہ
کے لئے، اللہ کے لئے سوشل میڈیا سے اپنا ایمان بچاؤ… یہ خبیث میڈیا اگر اسی طرح تمہارے
ذہنوں پر مسلط رہا تو یہ تمہیں مسلمان بھی نہیں رہنے دے گا… تمہیں کیا ضرورت ہے کہ
فیس بک پر جاتے ہو… ٹوئٹر پر اور واٹس ایپ پر جا کر… اپنے محبوب نبی ﷺ کی گستاخیاں
سہتے ہو… چھوڑ کیوں نہیں دیتے ان خبیث برائیوں کو… یقین کرو سوشل میڈیا کی طاقت
صرف اسی وقت تک ہے جب تک تم اس پر موجود ہو… اگر تم اسے چھوڑ دو تو یہ حقیر مکڑی
کا جالا ہے…
مثال ابھی ہمارے سامنے ہے… مردان کی
یونیورسٹی میں قتل ہونے والا نوجوان… آج سوشل میڈیا کا ہیرو ہے… لاکھوں کروڑوں
افراد اس کے ساتھ ہیں… لیکن جب وہ قتل ہو رہا تھا تو یہ میڈیا، اس کے فالورز اور
اس کے لورز کہاں تھے؟… آپ فیس بک پر بیٹھ جو دنیا دیکھ رہے ہو… اپنے گھر سے باہر
گلی میں آپ کو اس دنیا کا وجود نظر نہیں آئے گا… وہ جو اس میڈیا پر طاقت کے
فرعون نظر آتے ہیں… جب گھر سے باہر نکلتے ہیں تو کوئی عام آدمی ان کو پکڑ کر ان
کی ایسی تیسی کر دیتا ہے… بس فریب ہے فریب… دھوکہ ہے دھوکہ… نمازوں سے غفلت، مساجد
سے دوری، اپنے اہل حقوق پر ظلم… اور فیس بک کے چمپئین… مسلمانو! کچھ تو سوچو! کچھ
تو سوچو!
ایک
بات سب کو ماننی ہو گی
اگر ’’انتہا پسندی‘‘ بری چیز ہے تو پھر…
اسے ہر سطح پر ختم کرنا ہو گا… یہ نہیں ہو سکتا کہ… ایک طرف تو انتہا پسندی اس
عروج پر ہو کہ… اذان تک برداشت نہ ہو ، مسواک تک کا مذاق اڑے… دینی تعلیم کو
ناجائز قرار دیا جائے… مساجد آنکھوں میں چبھیں، مدارس سے دل جلیں… اور داڑھی پگڑی
تک کو دیکھ کر دل کے وال بند ہونے لگیں… اور دوسری طرف یہ مطالبہ ہو کہ… مسلمانوں
میں کوئی ’’انتہا پسند‘‘ پیدا نہ ہو… جب تم اسلام کے خلاف ایسی خوفناک ’’انتہا
پسندی‘‘ اُٹھاؤ گے تو… مسلمانوں میں سے بھی ’’انتہا پسند‘‘ اُٹھیں گے… تم اسلام
کے خلاف ’’انتہا پسندی‘‘ بند کر دو… میں یقین سے کہتا ہوں کہ مسلمانوں میں سے
’’انتہا پسندی‘‘ خود ختم ہو جائے گی… مسلمان حکمران اگر شرعی جہاد کو راستہ دے دیں
تو کون پاگل مسلمان فساد اور دہشت گردی کی طرف جائے گا… تم اگر یہودیوں کے لئے
بنیامین نیتن یاہو … اور ہندوؤں کے لئے ’’مودی‘‘ کو گوارہ کرتے ہو تو مسلمانوں کے
لئے ملا محمد عمرؒ ، ملا منصورؒ اور ملا ہیبت اللہ جیسے پڑھے لکھے ، روشن خیال اور
معتدل ’’علماء‘‘ کی حکمرانی برداشت کر لو… تم اگر دنیا بھر کی عیسائی مشنریز کو
گوارہ کرتے ہو تو مسلمانوں کے دینی مدارس کو بھی برداشت کر لو… تم اگر ملکہ
برطانیہ کی گستاخی کو ناجائز قرار دیتے ہو تو… حضرت آقا مدنی ﷺ کی گستاخی کے اڈے
بھی بند کردو…تم اگر غیر مسلم ممالک پر متحدہ بمباری نہیں کرتے ہو تو مسلمانوں کے
ممالک پہ بھی بمباری بند کردو… تم اگر مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے عیسائیوں کو
حق خود ارادیت دیتے ہو تو کشمیریوں اور فلسطینیوں کو بھی حق خود ارادیت دے دو…تب
دنیا میں امن قائم ہو جائے گا…لیکن تم انتہاپسند مودی کو گلے لگاؤ اور ملا منصور پر بم گراؤ تو کیا اس سے ’’انتہا
پسندی‘‘ ختم ہو جائے گی؟…
ابھی تو مسلمانوں میں انتہا پسند بہت تھوڑے
ہیں… اکثر تو حق اور انصاف کی دفاعی جنگ لڑ رہے ہیں… لیکن اگر غیر مسلموں کی
انتہاپسندی اسی طرح بڑھتی رہی تو خطرہ ہے کہ …مسلمانوں میں بھی انتہا پسند زیادہ
ہو جائیں گے… تب اس ’’خطۂ زمین‘‘ کا اکثر حصہ تباہ ہو جائے گا… ہمارا کام حق کی
دعوت ہے… اس لئے ہم تمام مسلمانوں کو ’’شرعی جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی طرف بلاتے
ہیں… اور فساد و انتہا پسندی سے روکتے ہیں… وما علینا الا البلاغ
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا
الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ