اخلاص
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ591)
اللہ تعالیٰ کا پیارا مہینہ ’’رمضان المبارک‘‘
آنے والا ہے… معلوم نہیں ہم میں سے کون یہ ’’رمضان‘‘ زمین پر گزارے گا اور کون’’ قبر‘‘
میں؟ … اس اُمت پر’’اللہ تعالیٰ ‘‘کا احسان یہ ہے کہ …اسے اچھی نیت پر بھی’’ اجر‘‘
ملتا ہے… اسی لئے ابھی سے ہم ’’رمضان المبارک‘‘ کے لئے بہت سی اچھی اور پکّی نیّتیں باندھ لیں…
ترجیح کس کو؟
ہم دنیا میں رہتے ہیں… اور دنیا مسائل کی جگہ
ہے… انسان کی عمر جوں جوں بڑھتی جاتی ہے ’’دنیا‘‘ کے بارے میں اس کی’’ فکریں‘‘ بھی
بڑھ جاتی ہیں…خاندان ، اولاد، صحت، روزی اور بہت سے تفکرات… یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی
انسان دنیا کی فکروں سے مکمل نجات پا لے… مگر دو کام ممکن ہیں اور وہ ہمیں ضرور کرنے
چاہئیں … پہلا یہ کہ دنیا ہی کی فکروں کو مقصود نہ بنا لیں …اور دوسرا یہ کہ دنیا کی
فکروں کو مزید بڑھنے سے روکیں… اب میں بھی اپنے حالات پر غور کروں اور آپ بھی… کہ
(۱) ہمیں دنیا کی فکر زیادہ
ہے یا آخرت کی؟
(۲) دنیا کے بارے میں ہماری
خواہشات اور فکریں بڑھتی تو نہیں جا رہیں…
اکثر جب ہم مکمل یکسوئی کے ساتھ ان دو سوالات
پر غور کرتے ہیں تو نتیجہ افسوسناک اور خطرناک سامنے آتا ہے… جب نتیجہ یہ سامنے آتا
ہے کہ… ہم دنیا کی فکر کو آخرت کی فکر پر ترجیح دے رہے ہیں تو یقینی بات ہے کہ… ہم
گھاٹے، نقصان اور خسارے میں جا رہے ہیں اور اگر ہر آئے دن ہماری دنیوی فکریں بڑھتی
جا رہی ہیں تو … معاملہ اور زیادہ افسوسناک ہے… اب ہم کیا کریں؟ جواب یہ ہے کہ نہایت
درد کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں…
’’
یا اللہ!دنیا کی فکروں کو ہمارا مقصود نہ بنا‘‘…
اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلِ الدُّنْیَا
اَکْبَرَھَمِّنَا وَلَامَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلَاغَایَۃَ رَغْبَتِنَا
باربار یہ دعاء مانگیں کہ… یا اللہ! ہمیں آخرت
کی حقیقی فکر عطاء فرما اور اس کی تیاری کی توفیق عطاء فرما … اور ہماری دنیا کی فکروں
کو کم فرما، ختم فرما…
دوسرا یہ کہ کبھی کبھار تنہائی میں بیٹھ کر…
موت کو یاد کر کے اپنی دنیا کے کچھ منصوبے ختم کیا کریں… یا کم کیا کریں…
تیسرا یہ کہ اگر محاذ پر نہ ہوں تو مسجد میں
زیادہ سے زیادہ وقت گزارہ کریں اور خواتین اپنے مصلّے پر… اور کچھ وقت خالص آخرت کی
فکر والی دعائیں مانگا کریں…حسن خاتمہ، اچھی موت، اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق… نزع
کے وقت کی آسانی… قبر کے عذاب سے حفاظت، حشر، پل صراط اور میزان پر رسوائی سے حفاظت
وغیرہ … اور چوتھا یہ کہ روز یہ دیکھا کریں کہ آج میں نے اپنی آخرت کے لئے کیا کیا
ہے؟ میں نے آگے کے لئے کیا بھیجا ہے؟
پس جو آخرت کی فکر کو دنیا کی فکر پر ترجیح
دے گا وہ ان شاء اللہ کامیاب ہو جائے گا…
ایک
اہم مسئلہ
اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ جو مانگا جائے
وہ ملتا ہے… ہم جب اللہ تعالیٰ سے آخرت کی فکر مانگیں گے تو ان شاء اللہ ہمیں یہ مبارک
فکر ضرور نصیب ہو گی… اور جس کو آخرت کی فکر نصیب ہو جاتی ہے اس کی دنیا کی فکریں
کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں… اور اسے نیک اعمال کی زیادہ توفیق ملنے لگتی ہے… مگر اب
شیطان ایک پرانا وار کرتا ہے… یہ وار ہے ریاکاری کا وسوسہ … جیسے ہی کوئی نیک اعمال
میں لگا اسی وقت شیطان ملعون نے اسے ڈرانا شروع کر دیا کہ… تو ’’ریاکار‘‘ ہے تو یہ
سب کچھ دکھاوے کے لئے کر رہا ہے… یہ وسوسہ اکثر انسانوں کی ہمت توڑ دیتا ہے… اس لئے
اس معاملے کو اچھی طرح سے سمجھ لیں
(۱) ریاکاری کا وسوسہ ریاکاری
نہیں ہے … اگر روزے دار کو وسوسہ آئے کہ وہ شربت پی رہا ہے… بریانی کھا رہا ہے تو
کیا اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا؟…
(۲) آپ کے عمل کا کسی کو پتا
چلنا یہ بھی ’’ریاکاری‘‘ نہیں ہے… خود اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ تم
اگر صدقات ظاہر کر کے دو تو یہ بہت اچھا ہے اور اگر چھپا کر دو تووہ تمہارے لئے زیادہ
بہتر ہے… ظاہر نیکی کی برکت سے نیکی پھیلتی ہے اور نیکی کا ماحول بنتا ہے… اس لئے بعض
اوقات ظاہر نیکی چھپی ہوئی نیکی سے افضل ہو جاتی ہے… جیسے حضرات صحابہ کرام جب تبوک
کا چندہ دے رہے تھے تو سب کچھ ظاہر تھا اور اس سے قیامت تک کے مسلمانوں کو ہمت اور
ترغیب ملی… اگر ہر نیکی چھپانا ہی’’اخلاص‘‘ ہو تو پھر … ہمارے سامنے حضرات صحابہ کرام
اور حضرات اسلاف کی نیکیاں نہ آتیں … بعض لوگ اس بارے میں بہت غلط راہ پر ہیں… اُن
کے سامنے اگر کوئی بھی اپنی نیکی بتا دے تو وہ یہ فیصلہ کر دیتے ہیں کہ… بس یہ نیکی
ضائع ہو گئی ، ختم ہو گئی… اس میں ریاکاری ہو گئی… یہ دراصل اُن لوگوں کی اپنی شیطانی
سوچ ہوتی ہے … جو بھی اس سوچ میں مبتلا ہو … وہ اپنی اصلاح کی فکر کرے…
(۳) آپ کے کسی عمل پر اگر لوگ
آپ کی تعریف کریں تو یہ بھی ریاکاری نہیں ہے… بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی
آزمائش ہے … جواپنی تعریف سن کر اسے اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھے وہ کامیاب ہے… جو یہ
تعریف سن کر اپنی نیکیاں بڑھا دے وہ بھی اچھا ہے… مگر جو یہ تعریف سن کر اسے اپنا کمال
سمجھے اور تکبر میں مبتلا ہو وہ غلط ہے اور بُرا ہے…
(۴) چھپا کر نیکی کرنا اچھی
بات ہے لیکن اپنی ہر نیکی کو چھپانے کی زیادہ کوشش کرنا یہ خطرناک ہے آپ نیکی کریں
اور پھر اس سے بے فکر ہو جائیں کہ وہ چھپی رہی یا ظاہر ہوئی… مالک کی مرضی وہ جو معاملہ
چاہے کرے…
(۵) آپ اگر ایک عمل ہر حال
میں کرتے ہیں… خواہ کوئی دیکھ رہا ہو یا نہ دیکھ رہا ہو یہ آپ کے اخلاص کی علامت ہے…
اب کوئی لاکھ دیکھتا رہے تو اس کے دیکھنے سے ’’ریاکاری‘‘ نہیں ہو گی … مثلاً آپ کا
معمول ہے کہ اشراق کے نوافل ادا کرتے ہیں… اکیلے ہوں یا لوگوں کے درمیان … اب اگر کبھی
زیادہ لوگوں کے درمیان اشراق ادا کرتے ہوئے… شیطان ’’ریاکاری‘‘ سے ڈرائے تو ہرگز نہ
ڈریں… کیونکہ اگر یہ لوگ موجود نہ ہوتے تب بھی آپ نے اشراق ادا کرنی تھی…
(۶) اخلاص ایک ’’مخفی‘‘ چیز
ہے… یہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان وہ راز ہے جو کسی کو نظر نہیں آ سکتا … قرآن
مجید میں سورۂ اخلاص موجود ہے… اس پوری سورت میں’’اخلاص‘‘ کا لفظ نظر نہیں آتا… معلوم
ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ ماننا اور اس کی رضا کے لئے عمل کرنا یہ اخلاص ہے…
اس لئے کسی کو حق نہیں کہ وہ کسی اورکو غیر مخلص اور ریاکار سمجھے… ریاکار صرف وہی
ہے جو لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کرتا ہو… یعنی جب لوگ دیکھ رہے ہوں تو عمل کرے اور
جب نہ دیکھتے ہوں تو اس عمل کے قریب بھی نہ آئے… ریاکار وہ ہے جو لوگوں کی خاطر عمل
کرتا ہو…جیسا کہ مدینہ کے منافقین تھے…وہ نماز کو مانتے ہی نہیں تھے… مگر خود کو مسلمان
دکھانے کے لئے نماز پڑھتے تھے…
(۷) ریاکاری سے حفاظت کا عظیم
تحفہ… وہ دعاء جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے امت کو ملی… اس دعاء کو
جس قدر توجہ اور محبت سے پڑھا جائے اسی قدر شرک اور ریاکاری سے نفرت ہونے لگتی ہے…
اور اخلاص مضبوط ہو جاتا ہے …اور اس دعاء کو پڑھنے والے کے لئے ’’ریاکاری‘‘ کا خطرہ
ہی نہیں رہتا…
دعاء کا خلاصہ یہ ہے کہ… یا اللہ! جان بوجھ
کر شرک و ریاکاری کرنے سے بچا لیجئے اورجو نادانی میں ہو جائے وہ معاف فرما دیجئے…
معلوم ہوا کہ یہ بندہ… شرک سے انتہائی نفرت
کرتا ہے… اور ریاکاری بھی شرک کا حصہ ہے… اس لئے اہل علم فرماتے ہیں کہ… ہر مسلمان
کو چاہیے کہ یہ دعاء صبح شام تین بار ضرور پڑھا کرے اور کبھی ناغہ نہ کرے… تاکہ شرک
و ریاکاری سے ہمیشہ بچا رہے… دعاء یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ
اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیْئاً وَاَنَا اَعْلَمُ بِہٖ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا
اَعْلَمُ بِہٖ
یا اللہ! میں آپ کی پناہ اور حفاظت چاہتا ہوں
اس بات سے کہ میں جان بوجھ کر کسی چیز کو آپ کے ساتھ شریک کروں… اور میں آپ سے معافی
چاہتا ہوں اس کے بارے میںجو بغیر جان بوجھ کے ہو جائے
شہررمضان
الحمد للہ کئی سال کی تمنا اس سال… ان شاء اللہ
پوری ہونے کو ہے… رمضان المبارک کی ’’گرمیٔ عشق‘‘ اور’’ گرمیٔ بازار ‘‘ کو پانے کے
لئے… ایک کتاب تیار ہو چکی ہے… اور ان شاء اللہ بہت جلد آپ کے ہاتھوں میں ہو گی… بندہ
نے دو روز قبل اس کتاب کا مختصر تعارف لکھا ہے جو کہ یہاں پیش خدمت ہے
تعارف
اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہر’’حمد‘‘ ہر’’شکر‘‘
ہر’’ثنا‘‘ اور ہر بڑائی ہے…
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ…
اَللّٰہُ اَکْبَرْ
کَبِیْراً،وَالْحَمْدُلِلّٰہِ کَثِیْراً، وَسُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃً
وَّاَصِیْلاً
اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں …اس کتاب کا نام ہے’’شھررمضان‘‘…’’شھر‘‘
عربی زبان میں’’مہینے‘‘ کو کہتے ہیں… اسلامی ،ہجری، قمری سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں…ان
میں سے نویں مہینے کا نام’’رمضان‘‘ ہے… اسلام کا ایک محکم،بنیادی اورقطعی فریضہ اس
مہینے میں ادا ہوتا ہے… اس فریضے کا نام’’صیام رمضان‘‘…یعنی رمضان کے روزے…
’’رمضان‘‘
کی فضیلت کچھ’’ظاہر‘‘ ہے …اور کچھ مخفی…اگر یہ فضیلت مکمل طور پر ظاہر ہو جائے تو ہر
مسلمان کی خواہش ہو کہ…پورا سال رمضان رہے… زندگی پوری’’رمضان‘‘ میں کٹے… اور موت تک
کبھی’’رمضان‘‘ سے جدائی نہ ہو…
’’رمضان‘‘
عربی زبان کا لفظ ہے…اس لفظ میں گرمی، حرارت، روشنی… اور جلانے، کوٹنے کا معنی چھپاہوا
ہے…
اس لئے بعض حضرات نے فرمایا…
سُمّی رمضان لانہ یرمض الذنوب ای یحرقھا
’’رمضان‘‘
کو اس لئے رمضان کہتے ہیں کہ گناہوں کوجلا دیتا ہے…
بعض نے فرمایا کہ…یہ ’’رمض الصائم ‘‘ سے ہے
کہ روزے کی وجہ سے روزہ دار کے معدے میں بھوک پیاس کی گرمی پیدا ہوتی ہے اور یہ گرمی
اس کے ’’باطن‘‘ کو مضبوط کردیتی ہے…
بعض نے کہا کہ… رمضان میں انسانی
دل حرارت، روشنی اور گرمی پاتے ہیں…دلوں کی غفلت، سستی اور ٹھنڈک دور ہوجاتی ہے…
بعض نے فرمایا کہ…یہ ’’رمضت النصل‘‘ سے ہے…
تیر اور نیز ے کی دھار کو دو پتھروں کے درمیان کوٹ کر تیز کیا جاتا ہے … عرب کے جنگجو’’رمضان‘‘
میں اپنے ہتھیار تیز کرتے تھے تاکہ …شوال میں خوب جم کر لڑائی کر سکیں اور حرمت والے
مہینے’’ذوالقعدہ‘‘ کے آنے سے پہلے اپنی جنگ نمٹادیں… رمضان بھی ایک مومن کے ایمان
کو ایسا تیز کردیتا ہے کہ پورا سال یہ ایمان درست رہتا ہے او ر ٹھیک کام کرتا ہے… اس
لئے وہ تو شخص’’خسارے‘‘ کی انتہا پرہے جو ’’رمضان‘‘ کو ضائع کردے…
خلاصہ یہ ہوا کہ رمضان میں گرمی
ہے ، حرارت ہے، روشنی ہے…ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ رمضان اللہ تعالیٰ کا نام ہے… اس
قول کی تائید میں وہ حدیث پیش کی جاتی ہے… جس میں فرمایا گیا کہ… رمضان نہ کہا کرو
کیونکہ ’’رمضان‘‘ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، بلکہ شھرِ رمضان کہا کرو
یعنی رمضان کا مہینہ … (بیہقی)
مگر اس حدیث کو حضرات محدثین نے ’’ضعیف‘‘ قرار
دیا ہے… چنانچہ وہ قول بھی ضعیف ہوگیا…اس لئے ہم وہی بات دوبارہ عرض کرتے ہیں کہ’’رمضان
‘‘ کے لفظ میں ’’گرمی‘‘ تشریف فرماہے…’’گرم مہینہ‘‘…آپ تاجروں سے پوچھ لیں وہ زیادہ
نفع والے دن کہتے ہیں’’آج بازار گرم‘‘ ہے…جس دن کسی جگہ زیادہ رونق اور مجمع ہوتاہواسے ’’گرم دن ‘‘کہاجاتاہے…جس محبت میں وفااورقربانی ذیادہ ہووہ’’گرم محبت‘‘کہلاتی ہے…کسی کی ذیادہ الفت کو’’گرمجوشی‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے … رمضان واقعی گرم مہینہ ہے…قرآن مجید اس
کانام لیتا ہے … اور بتاتا ہے کہ میں اسی میں نازل ہوا… اسی مہینے میں اللہ تعالیٰ
کی رحمت گرم جوشی سے اہل ایمان کوسینے سے لگاتی ہے … رمضان گرم مہینہ … ایک ایک لمحہ…
گرم ،قیمتی، حرارت بخش، روشن …اور پھر گرمی کا رمضان تو…سبحان اللہ… اس کی گرمیٔ بازار
کے کیا کہنے…
مؤمن کا ایک خاص ’’رنگ‘‘ ہوتا ہے… مؤمن اللہ
تعالیٰ کے رنگ میں’’رنگا‘‘ ہوتا ہے… گناہوں کی کثرت اس’’رنگ‘‘ کو پھیکا کر دیتی ہے…اور
اس’’رنگ‘‘پر’’ زنگ‘‘ کی میل جما دیتی ہے … گناہ کہتے ہیں اپنی ناجائز خواہشات کو پورا
کرنا … تب’’گرم رمضان‘‘ تشریف لاتا ہے … اس کی گرمی اور حرارت مؤمن کے اصل ’’رنگ‘‘
کو نکھاردیتی ہے… اور اس کے ’’رنگ‘‘ پر جمے’’زنگ‘‘ کو دور کردیتی ہے… کہاں وہ وقت کہ
وہ ناجائز خواہشات پوری کررہا تھا… اور کہاں یہ وقت کہ وہ اپنے محبوب کی خاطر جائز
خواہشات کو بھی روکے بیٹھا ہے…واقعی اگر ’’رمضان‘‘نہ آئے تو اکثرلوگ تباہ ہوجائیں…
یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ…ہر سال ہماری صفائی،دھلائی،ترقی اور چارجنگ کے لئے
’’ رمضان المبارک‘‘کو بھیج دیتے ہیں…مگر رمضان کافائدہ اُسی مسلمان کو پہنچتا ہے جو…رمضان
المبارک کی قدر کرے… اور اس کے فوائد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے…گذشتہ کئی سالوں سے…رمضان
المبارک کے موقع پر اپنی اور اہل ایمان کی یاددہانی کے لئے…کچھ باتیں عرض کی جاتی ہیں…
کبھی مضمون کی صورت میں اور کبھی مکتوب کی شکل میں…اب الحمدللہ ان’’باتوں ‘‘کو اختصار
کے ساتھ کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے…عزیز مکرم مولانا عبیدالرحمن صاحب نے اس کام
میں بھرپور تعاون کیا اور احادیث بھی انہوں نے جمع کیں… اللہ تعالیٰ ان کو فیض تام
عطاء فرمائے… اوربھی بعض رفقاء کابہت گرمجوش تعاون رہا…اللہ تعالیٰ انہیں کامل جزائے
خیر عطاء فرمائے…کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے…رمضان المبارک بھی قریب ہے… بندہ اللہ تعالیٰ
کی مغفرت ورحمت کا محتاج ہے…
آپ سب سے’’حسب سہولت‘‘ دعاء کی درخواست ہے…
۲۴ رجب ۱۴۳۸یوم السبت
22
اپریل 2017ء
لاالہ الا اللّٰہ،لاالہ الا اللّٰہ،لاالہ
الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمدوالہ وصحبہ وبارک
وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭