اُٹھا اِک اَیوبی مدینہ مدینہ


 

اُٹھا اِک اَیوبی …….. مدینہ مدینہ

اللہ تعالیٰ ساتھ ہوں تو پھر… سب کچھ آسانی سے ہو جاتا ہے

اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ

اللہ تعالیٰ ’’ صابرین‘‘ کے ساتھ ہے… صابرین یعنی استقامت والے… ڈٹ جانے والے …نہ اُکتانے والے… نہ بھاگنے والے 

مثال سے سمجھیں … آپ نے ارادہ کیا کہ ’’قرآن مجید ‘‘ حفظ کریں… پورا قرآن مجید یا چند سورتیں… اب اس نعمت عظمیٰ کو حاصل کرنے کے لئے آپ کو جم کر بیٹھنا ہو گا… صبر اختیار کرنا ہو گا… صابر بننا ہو گا… مگر تھوڑا سا بیٹھیں گے تو دل اکتانے لگے گا… نفس تھکنے لگے لگا… وہ نفس جو گناہوں سے بالکل نہیں تھکتا… تین گھنٹے کی فلم جم کر دیکھنا بالکل آسان… مگر تین گھنٹے قرآن مجید کو دینا گویا کہ قیامت… کبھی پیٹ میںدَرد ہو گا… کبھی وضو ٹھوکریں مارے گا… کبھی نفس مفتی بن جائے گا کہ… قرآن حفظ کرنا کون سا فرض ہے ؟ مگر ایک شخص ان تمام وساوس اور پریشانیوں کے سامنے ڈٹ جاتا ہے کہ جو کچھ ہو جائے… میں نے روز تین گھنٹے دینے ہیں… یہ ہے ’’صبر‘‘ جب صبر کریں گے تو پھر… اللہ تعالیٰ کی رحمت آ جائے گی…مشکلات آہستہ آہستہ ختم ہو جائیں گی… اور عظیم خزانہ ’’قرآن مجید ‘‘ مل جائے گا… یہ موت کے وقت بھی ساتھ… قبر میں بھی ساتھ… حشر میں بھی ساتھ… جنت میں بھی ساتھ… تھوڑا سا صبر کیا تو… قبر کا تاریک گڑھا… وائٹ ہاؤس سے بھی بہت زیادہ کھلا اور راحت والا محل بن گیا… اور یہ قرآن مجید اب دنیا میں بھی نفع دے گا اور ان شاء اللہ نسلوں میں چلے گا

اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ

صبر کا معنیٰ سمجھنے کے لئے یہ بس ایک مثال تھی… ورنہ صبر کا معنیٰ بہت وسیع … اور صبر کا مقام بہت بلند ہے… اِنسان کا نفس وہ گھوڑا ہے… جس پر اگر کوئی صبر کی لگام ڈال کر قابو پا لے تو پھر وہ… دنیا و آخرت کی ہر کامیابی حاصل کر سکتا ہے… آج کل ’’اکتوبر‘‘ کا مہینہ چل رہا ہے… حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے میں… مسلمانوں  نے ’’بیت المقدس ‘‘ فتح کیا تھا… یہ ’’فتح‘‘ بغیر جنگ کے ہوئی تھی… جہاد جب پوری طاقت پکڑ لیتا ہے تو پھر وہ اپنے رعب اور نور سے بھی … بڑی بڑی فتوحات حاصل کرتا ہے… بغیر خون بہائے اور بغیر جنگ اٹھائے… اسی لئے تو قرآن مجید میں ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کو زمین کی بقاء اور امن کا ذریعہ ارشاد فرمایا گیا ہے

حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ …’’مدینہ مدینہ ‘‘ سے تشریف لائے… راستہ اتنا پُر اَمن ہو چکا تھا کہ… کسی حفاظتی دَستے … یا اِنتظام کی ضرورت نہیں تھی… آج کوئی حکمران اتنا لمبا سفر ایک اونٹ اور ایک خادم کے ساتھ کر کے دکھائے؟ … جہاد کو دہشت گردی کہنے والوں کو یقیناً قیامت کے دن … بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا ہو گا… ایک مسلمان ہو کر … قرآن مجید کے ’’نسخہ اَمن“ …یعنی جہاد کو دہشت گردی کہنا یا سمجھنا … بہت سخت جرم اور گناہ ہے… اہل یورپ اپنے ماضی کے تجربات نہیں بھولے… ایک زمانہ تھا کہ… یورپ والے بہت خونخوار جنگجو تھے… خاندان کے خاندان… اور قبیلوں کے قبیلے دن رات صرف جنگ اور لڑائی کے لئے وقف تھے… یہ لوگ نہانے ، دھونے اور پاک صاف رہنے کو بھی… بہادری کے خلاف سمجھتے تھے… جنگ ہی ان کی تجارت تھی… اور جنگ ہی ان کی معیشت… اور جب انہیں ’’صلیب‘‘ کے سائے میں… کسی مذہبی جنگ کے لئے پکارا جاتا تو وہ… سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو جاتے تھے… آپ تاریخ پڑھ لیں… صلیبی جنگوں کے حالات پڑھ لیں… آپ حیران رہ جائیں گے… جب سے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ’’بیت المقدس‘‘ فتح فرمایا… صلیبی اس کوشش میں رہے کہ وہ … اس مقدس سرزمین کو مسلمانوں سے چھین لیں … مگر وہ ہر آئے دن کے ساتھ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوتے چلے گئے… اور ان کی سرحدیں اناطولیہ کے پاس جا گریں… صدیاں اسی حالت میں بیت گئیں…مسجد اقصیٰ سے اذان کی آواز بلند ہوتی رہی…مسلمانوں کی توجہ جہاد سے کم ہوئی تو صلیبی پھر آگے بڑھنے لگے… اور بالآخر انہوں نے بیت المقدس اور یروشلم پر قبضہ کر لیا… ان وحشی درندوں نے وہاںمسلمانوں کا قتل عام کیا… اور اس ’’سرزمین مقدس‘‘ کو اہل اسلام کے لئے ایک ’’مقتل ‘‘ بنا دیا… مسلمانوں کی حکومتیں اور ریاستیں آس پاس موجود تھیں… مگر کسی میں یہ ہمت نہ تھی کہ وہ آگے بڑھے… سب ہی ایک دوسرے سے الجھتے رہتے… اور اپنی داخلی لڑائیوں اور سازشوں میں اپنی طاقت برباد کرتے تھے… صلیبیوں کا اثرو رسوخ ہر اسلامی محل میں داخل ہو رہا تھا … مگر دو اَفراد کے مثالی’’ صبر ‘‘ نے …صلیبیوں کی طاقت کے سمندر کو اُلٹ کر رَکھ دیا اور یوں وہ… ایک صدی بھی… یروشلم پر اپنی فتح قائم نہ رکھ سکے… صبر و استقامت کا یہ بیج… حضرت سلطان نور الدین زنگی رحمہ اللہ تعالیٰ نے بویا… اور پھر اس کا پھل حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ  تعالیٰ نے… حاصل کیا… آج کل اکتوبر کا مہینہ چل رہا ہے تو اسی کی مناسبت سے یہ ساری بات یاد آ گئی… یہ  583؁ھ رجب کا مہینہ تھا … جبکہ شمسی حساب سے اکتوبر 1187؁ء کی تاریخ تھی…یروشلم کے جنگجوؤں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے… اور سلطان نے پورے شہر میں اَمن کا اعلان فرما دیا… چنانچہ صیلبیوں کی فتح کے برعکس اس اسلامی فتح میں… نہ کسی کا خون بہا… نہ کوئی عزت لٹی اور نہ کوئی گھر جلا… جمعہ کے دن ہونے والی یہ فتح ایسی مبارک ثابت ہوئی کہ پھر… سات سو اکسٹھ سال تک یروشلم پر مسلمانوں کی حکومت رہی… یعنی تقریباً آٹھ صدیاں

کیا یہ سب کچھ آسانی سے ہو گیا ؟ … نہیں بالکل نہیں… آپ حالات پڑھیں… دل ڈوبنے لگتا ہے… سلطان کے راستے میں مشکلات ہی مشکلات تھیں… اور سازشیں ہی سازشیں… حتی کہ اس مبارک فتح کے بعد جب سارا یورپ، فرانس اور جرمنی سمیت … برطانیہ کے بادشاہ رچرڈ شیر دل کی قیادت میں… سطان سے یہ فتح چھیننے کے لئے امڈ آیا تو… سلطان کے اپنے بھائی اور بیٹے تک کچھ وقت کے لئے اس کا ساتھ چھوڑ گئے… مگر یہ صبر کی برکت تھی کہ سلطان کو … اللہ تعالیٰ کا ساتھ نصیب رہا… اللہ تعالیٰ ساتھ ہوں تو پھر … تدبیر و تقدیر کی کڑیاں خودبخود جڑتی چلی جاتی ہیں… رات منہ پھاڑ کر کھانے کو لپکتی ہے مگر وہ اچانک دن بن جاتی ہے… دشمن کامیابی کا جشن منانے کے قریب ہوتے ہیں کہ اچانک ان پر… ماتم کی آگ برسنے لگتی ہے… جب تک اللہ تعالیٰ کا مخلص بندہ یہ نہ کہے کہ بس یا رب… اب میں تھک گیا ہوں… اس وقت تک اللہ تعالیٰ اس کی مدد جاری رکھتے ہیں… کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں تھکتے… لیکن جب بندہ… اپنی تھکاوٹ کا اِعلان کر دے … خود کو بے بس قرار دے دے… اور ہتھیار ڈال دے تو پھر… اللہ تعالیٰ کا ساتھ اُٹھ جاتا ہے… کیونکہ

اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ

اسی لئے قرآن مجید نے جو چار نکاتی نصاب بیان فرمایا ہے… اس میں آخری چیز… ’’وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘‘ ہے … کہ اے مسلمانو! ایک دوسرے کو صبر کی تاکید کرتے رہو… یعنی خود بھی جمے اور ڈٹے رہو اور دوسرے مسلمانوں کو بھی… اس کی دعوت دیتے رہو… صبر کی یہ عظیم صفت ہمیں کیسے حاصل ہو گی… اس کا طریقہ بھی… اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرما دیا ہے… کوشش ہو گی کہ… اگلی ملاقات میں اس کی کچھ تفصیل آ جائے… ان شاء اللہ تعالیٰ

رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْراً وَّ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ

یا اللہ! ہمیںوافر صبر دیجئے ہمارے قدم جما دیجئے اور کافروں پر ہمیں فتح عطا فرمائیے … آمین یا ارحم الراحمین

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علیٰ سیدنا محمد وعلی اٰلہ وصحبہ   وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

٭…٭…٭