اَلْوَکِیلُ جَلَّ جَلَالُہ
رنگ و نور…540
اللہ تعالیٰ ہمارے لئے کافی
ہیں…اور وہی بہترین وکیل اور کارساز ہیں
حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ
حضرت خواجہ کا واقعہ
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء
رحمۃ اللہ علیہ ’’ بادشاہوں‘‘ سے اجتناب فرماتے تھے، اس لئے اکثر بادشاہ ان سے ناراض
رہتے تھے…ایک دفعہ ایک بادشاہ نے اپنے درباریوں اور لشکر کے سپاہیوں کو جو حضرت خواجہ
کی خدمت میں ہدیے، نذرانے دیا کرتے تھے…ان پر پابندی لگا دی کہ نہ تو حضرت خواجہ سے
ملیں گے اور نہ ہی اُن کو ہدیے ، نذرانے دیں گے… بادشاہ کا خیال یہ تھا کہ جب ہدیے،
نذرانے بند ہوں گے تو خواجہ کا لنگر بھی بند ہو جائے گا اور آپ بادشاہ کی طرف رجوع
کرنے کے لئے مجبور ہوں گے…حضرت کو جب اس بات کا علم ہوا تو لنگر کے نگران سے فرمایا
کہ آج سے آٹا دوگنا کر دو… یعنی پہلے سے دُگنی روٹی پکایا کرو… تاکہ بادشاہ کو
معلوم ہوجائے کہ لنگر چلانے والا کوئی اور ہے…یعنی اللہ تعالیٰ
معلوم ہوجائے کہ لنگر چلانے والا کوئی اور ہے…یعنی اللہ تعالیٰ
حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ، حَسْبُنَا اللّٰہُ
وَنِعْمَ الْوَکِیلُ،حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ
سید جی کے تحفے
گذشتہ جمعۃ المبارک کا اختتام
تھا کہ…تحفے شروع ہو گئے…کراچی سے ایک قریبی دوست نے پیغام بھیجا کہ ایک پوری مسجد
تعمیر کرانے کا انتظام ہو گیا ہے… آپ جگہ منتخب کر کے کام شروع کرا دیں… سبحان اللہ…ایک
ہی مسلمان نے پوری مسجد کا کام اپنے ذمہ لے لیا… غمناک خبروں کے درمیان ملنے والی یہ
پہلی خوشخبری تھی… دل بہت خوش ہوا…مسجد، اللہ تعالیٰ کا گھر… سبحان اللہ … اُسی وقت
ناظم مساجد کو کام دے دیا گیا اور وہ اللہ تعالیٰ کا گھر بنانے اور آباد کرنے میں
لگ گئے… ایک مسجد کے لئے کافی چندہ کرنا ہوتا ہے… مگر جب چندے پر خوفناک پابندی لگی
تو یوں ایک ایک فرد پوری مسجد بنانے والا سامنے آ گیا… معلوم ہوا کہ دین کا کام چلانے
والا کوئی اور ہے…یعنی اللہ تعالیٰ
حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ، حَسْبُنَا اللّٰہُ
وَنِعْمَ الْوَکِیلُ
پھر اس کے بعد خوشخبریوں کی
قطار لگ گئی… کئی ساتھیوں کو عدالتوں نے بری کر دیا…کئی اجتماعی اور اِنفرادی ضروریات
اللہ تعالیٰ نے پوری فرما دیں…جماعت کا حج وفد بھی مقرر ہو گیا…مجاہدین پر آپریشن
کرنے والے حکمران طرح طرح کی پریشانیوں میں پھنس گئے…اور ان کا جارحانہ انداز… ایک
دَم دِفاعی رُخ پر چلا گیا…انڈیا کو اَقوام متحدہ میں ایک ذلت ناک شکست ہوئی…اور آج
کل پھر انڈین میڈیا پر مجاہدین کی تصویریں، بیانات اور جھلکیاں … گھنٹوں کے حساب سے
چل رہی ہیں… اور ساتھ ہی ساتھ ’’چین‘‘ کو بھی منہ کے گٹر کھول کر گالیاں دی جا رہی
ہیں…
جمعۃ المبارک سے ہمیں محبت ہے…یہ
’’سید جی‘‘ ہے… دنوں کا سردار… اب اس ’’جمعۃ المبارک‘‘ اپنے اسیر رفقاء کی رہائی…اہل
جماعت نے مانگی ہے…اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، آسانی فرمائے… وہی کافی ہے اور وہی کارساز…
حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ، حَسْبُنَا اللّٰہُ
وَنِعْمَ الْوَکِیلُ،حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ
ایک اور اچھی خبر
اَمیر المؤمنین جناب ملا اختر
محمد منصور……زِیْدَ قَدْرُہْ کی اِمارت پر افغان
مجاہدین کا اِتفاق بڑھتا جا رہا ہے… یہ اُمت مسلمہ کے لئے بہت شاندار خوشخبری ہے…حضرت
امیر المؤمنین کی وفات و شہادت کے بعد ’’اِمارت اسلامیہ ‘‘ شدید خطروں اور سازشوں
کی زَد میں تھی مگر اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل فرمایا… اندرونی اور بیرونی سازشیں ناکام
ہوئیں …اور فراست و تدبر سے مالا مال جناب ملا اختر منصور صاحب اِمارت اسلامی کے متفقہ
’’امیر المومنین‘‘ قرار پائے… اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم نے روز اول سے ہی اُن کی
حمایت کی، اُن کے مخالفین سے دور رہے…اور امارت اسلامی میں اِتفاق و اِتحاد کے لئے
دعاء گو رہے… جمعۃ المبارک کے دن اس بارے بھی اچھی خبریں آ گئیں… بے شک اللہ تعالیٰ
ہی کافی ہے اور وہی بہترین وکیل اور کارساز ہے…
حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ، حَسْبُنَا اللّٰہُ
وَنِعْمَ الْوَکِیلُ
اَلْوَکِیْلُ جَلَّ شَانُہ
کالم میں بار بار قرآنی دعاء…
حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ
الْوَکِیْلُ آ رہی ہے… دل چاہتا
ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے نام ’’اَلْوَکِیْلُ ‘‘ پر بھی تھوڑی سی
بات ہو جائے… وکیل وہ ہوتا ہے جس کے ذمہ اپنے کام سپرد کر کے آدمی مطمئن ہو جائے…
اپنے کام کسی کے ذمہ کیوں لگائے جاتے ہیں؟… اس کی دو وجہیں ہوتی ہیں…پہلی یہ کہ وہ
کام ایسے مشکل ہوتے ہیں کہ انسان انہیں خود سر انجام نہیں دے سکتا… اسی لئے اُن کاموں
کے ماہر سے رجوع کر کے اُس کے سپرد کرتا ہے… اور دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ…ہمیں اگر
کوئی بہت با اختیار اور بے حد طاقتور ،بااعتماد محبوب دوست مل جائے تو پھر اپنے کام
اس کے سپرد کرتے ہیں کہ… وہ لمحوں اور منٹوں میں یہ کام کرا دے گا…اندازہ لگائیں …جو
شخص ان دو معنیٰ کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کو اپنا ’’وکیل‘‘ بنا دے… اور اللہ تعالیٰ
اس کا وکیل بن جائے تو پھر کون سا کام ہے جو نہ ہو سکے اور کون سا مسئلہ ہے جو حل نہ
ہو…اسی لئے ’’عارفین ‘‘ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے نام ’’الوکیل‘‘ میں بھی ’’اسم اعظم
‘‘ کی تأثیر ہے…خصوصاً oدشمنوں
سے مقابلہ میں o آسمانی آفات کے سامنےo گناہوں
سے بچنے کے لئےo ظالموں سے حفاظت کے لئےoاور تمام حاجات کے لئے
حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ، حَسْبُنَا اللّٰہُ
وَنِعْمَ الْوَکِیلُ،حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ
حضرت جیؒ یاد آ گئے
آج رنگ ونور کا موضوع کچھ اور
تھا …آغاز میں ’’حَسْبُنَا
اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ‘‘ آ گیا تو اُسی نے کھینچ لیا…ابھی مزید ’’الوکیل‘‘ پر کچھ
لکھنے لگا تو میرے محبوب اُستاذ اور شیخ حضرت مفتی ولی حسن صاحب نور اللہ مرقدہ یاد
آ گئے…حکومت نے ان پر بڑا سخت مقدمہ قائم کر کے انہیں عدالت میں طلب کیا تھا… عدالت
میںرُعب اور دہشت کا سب سامان جمع تھا…مگر جب حضرت شیخ بیان دینے کھڑے ہوئے تو آغاز
اس حدیث شریف سے فرمایا:
الدین النصیحۃ
اور پھر بے ساختہ اس حدیث شریف
کے طُرُق اور تشریح میں لگ گئے… باحشمت جج صاحبان اور ہزاروں مسلمانوں کے درمیان…حضرت
جی پر کوئی رُعب نہیں تھا…حدیث شریف کی اسناد اور دیگر تفصیلات یوں بتا رہے تھے جس
طرح اپنے طلبہ کے سامنے تشریف فرما ہوں… یہ اُن کے مزاج کا خاص حصہ تھا… ابھی جب میں
اصل موضوع چھوڑ کر …’’الوکیل‘‘ کے معنی میں اُتر گیا اور ابھی مزید آگے جا رہا تھا
تو …ایک رقت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ حضرت شیخ ؒ یاد آ گئے…کہ آج مجھ بے رنگ و بے صفت
پر اُن کا رنگ آ رہا ہے… اللہ تعالیٰ اُن کے درجاتِ مغفرت بلند فرمائے… اور اُن کے
حقوق اور اُن کی قدر و منزلت کے بارے میں ہم سے جو کوتاہی ہوئی ہے…اللہ تعالیٰ وہ معاف
فرمائے…بے شک وہ اللہ تعالیٰ پر حقیقی توکل کرنے والے انسان تھے… جامعہ میں ایک بار
اَموال کی کمی ہوئی تو…اَساتذہ کرام کو دو تین ماہ تک تنخواہ نہ دی جا سکی… حضرت بنوریؒ
نے اَساتذہ کو بلا کر صورتحال بتائی کہ تنخواہ دینے کے لئے رقم موجود نہیں…اور آگے
کا بھی کچھ پتہ نہیں… آپ حضرات کو اختیار ہے جو رہنا چاہے یا جانا چاہے… حضرے شیخ
مفتی ولی حسن صاحب نے فرمایا: حضرت ! میں تو تنخواہ کے لئے نہیں آیا چنے چبا کر گذارہ
کر لوں گا مگر کہیں نہیں جاؤں گا… حالانکہ اُس وقت حضرت کے مالی حالات کافی کمزور
تھے… مگر انہوں نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا ’’وکیل‘‘ بنائے رکھا…دو تین ماہ بعد
جامعہ میں رقم کی فراوانی ہو گئی، حضرت بنوری ؒ نے حضرت شیخ کو بلا کر سابقہ مہینوں
کی تنخواہ دینا چاہی تو قبول نہ کی…فرمایا! حضرت! وقت تو گزر گیا اب پچھلی رقم لے کر
کیا کروں گا… باوجود اِصرار کے وہ رقم نہ لی…بس اُسی مہینے کا مشاہرہ قبول فرمایا…
دراصل ’’الوکیل ‘‘ کے اسم مبارک
میں چار چیزیں آ جاتی ہیں:
(۱)
الحفیظ (۲) الکفیل (۳) المُقسِط
(۴)
الکافی
حفاظت بھی، کفالت بھی، رزق بھی،
کفایت بھی…اور اِقامت بھی…
حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ، حَسْبُنَا اللّٰہُ
وَنِعْمَ الْوَکِیلُ،حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ
دعاء کی تصحیح
آج ایک اہم موضوع پر گفتگو
تھی…دینی مدارس کے بارے میں نعوذ باللہ ایک بہت مکروہ اور ناجائز پروپیگنڈہ عام ہو
رہا ہے…ایسے نور بھرے پاکیزہ اِدارے پر…ایک ناپاک اور غلیظ گناہ کا الزام… ایسا الزام
جس کو لکھنے سے قلم شرماتا ہے… اچھے خاصے لوگ اب اس الزام سے متاثر ہو رہے ہیں …اس
لئے تفصیل کے ساتھ لکھنے کا ارادہ تھا تاکہ… کسی کے دل میں ایسی ناجائز بد گمانی نہ
رہے… اور کوئی اپنے معصوم بچوں کو مدرسہ بھیجنے سے نہ گھبرائے…موضوع مفصل ہے اس لئے
ان شاء اللہ کسی اور مجلس میں آ جائے گا…بندہ نے ’’المرابطون ‘‘ کے گذشتہ شمارے میں
مدارس کے بارے میں ایک مضمون لکھا تھا ہو سکے تو فی الحال وہ ملاحظہ فرما لیں…
القلم کے مہربانوں نے گذشتہ
کالم میں… حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول مغفرت کی دعاء غلط چھاپ دی…ویب سائٹ وغیرہ
پر تو ٹھیک کرا دی گئی تھی مگر اخبار میں غلط شائع ہوئی…وہ دوبارہ درج کی جا رہی ہے
ازراہِ کرم گذشتہ ہفتے کے اَخبار میں اپنے قلم سے درست کر دیں…
دعاء اس طرح ہے:
لَا اِلٰہَ اِلّا اللّٰہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیْمُ،لَا
اِلٰہَ اِلّا اللّٰہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ،اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
بس اسی مبارک دعاء پر آج کی
مجلس مکمل ہوئی
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ