مقبولیت،قبولیت
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ543
(
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نزدیک قبولیت اور
مقبولیت عطاء فرمائے…لوگوں میں ’’مقبول ‘‘ ہونا …عوام میں مقبول ہونا ، میڈیا پر مقبول
ہونا…نہ کوئی فخر ہے، نہ کوئی کمال …نہ کوئی نیکی ہے اور نہ کوئی کام آنے والی چیز…
عوامی مقبولیت کا شوق خطرناک ہے…یہ شوق دینداروں کے لئے زہر اور مجاہدین کے لئے ناکامی
ہے…
یہ اخلاص کا جنازہ…ترقی کی راہ میں رکاوٹ…اور
بربادی ہے… ہاں! اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت ہو…پھر وہ اپنے فضل سے اپنے مخلص بندوں
میں بھی کسی کو مقبول بنا دے، محبوب بنا دے تو یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے…اُس کا فضل
ہے…
ایک ضروری نکتہ
دین ضروری ہے اور دنیا ضرورت ہے… مسلمان
کا کام یہ ہے کہ دین پر رہے…اور دین پر رہتے ہوئے اپنی
دنیوی ضرورتیں پوری کرے… دنیا کی جو ضرورت دین سے ٹکراتی ہو اُسے چھوڑ دے… مگر اب مسلمانوں میں وہ طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو دنیا کو ہی ضروری اور اصل سمجھتا ہے…اور دنیا کو اصل مقصد بنا کر ساتھ تھوڑا بہت دین پر چلنا چاہتا ہے… اس سے بہت خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں …مسلمانوں کے دلوں سے بڑے بڑے گناہوں کی نفرت ختم ہو رہی ہے…نعوذ باللہ مساجد میں کرکٹ ٹیم کے جیتنے کی دعائیں چل پڑی ہیں … حالانکہ کرکٹ میچ لاکھوں افراد کو نماز سے روکتے ہیں … اور طرح طرح کی برائیاں اور گناہ پھیلاتے ہیں…اب نعوذ باللہ’’ نور جہاں ‘‘ کی بھی تعریفیں ہو رہی ہیں…حالانکہ اب بھی اس کے ساز اور گانے روزانہ لاکھوں افراد کو اللہ تعالیٰ سے غافل کرتے ہیں… اور گناہوں میں غوطے دیتے ہیں …اور تو اور نعوذ باللہ بالی وڈ کے فنکاروں کے تعریف بھرے تذکرے منبر رسول ﷺ پر ہو رہے ہیں …عامر خان وغیرہ نے نہ تو فلمیں چھوڑیں اور نہ اپنے غلط نظریات… اُن کے ہاں مسلمانوں کی ہندوؤں سے شادی حلال ہے…جو کہ خالص کفریہ عقیدہ ہے…اُن کے ہاں ہر فلم میں ہندو بن جاناجائز ہے…اور اُن کی فلمیں کروڑوں مسلمانوں کو گناہ، غفلت اور گمراہی میں ڈال رہی ہیں…مگر ہم اس پر خوشی منا رہے ہیں کہ اس نے ہمیں فون کیا، میسج کیا…اور ایک آدھ بار ملاقات کا شرف بخشا… یہ درست ہے کہ…ہمیں ہر طبقے میں دین کی محنت کرنی ہے…مگر یہ محنت اس طرح جائز نہیں کہ…ہم دنیا کو اصل بنا دیں اور دین کو محض ایک وقتی ضرورت… کوئی سود نہیں چھوڑنا چاہتا ہے تو ہم اس کو تجارتی حیلے سکھا دیں… کوئی فلم نہیں چھوڑنا چاہتا تو ہم اسے فلم کی اجازت دے دیں…آپ لوگوں کو دین بتائیں… دین کی طرف بلائیں …نیکی اور گناہ کا مفہوم سمجھائیں …نیکی پر شکر اور گناہ پر استغفار کا طریقہ سکھائیں … مگر گناہوں کی حوصلہ افزائی نہ کریں…گناہوں کو حلال نہ کریں…اور صرف کسی کے رمضان المبارک میں مرنے کو دلیل بنا کر اُسے جنت میں محلات اَلاٹ نہ کریں… ہمیں کیا معلوم کون کفر پر مرا اور کون اسلام پر؟… اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے…مگر اللہ تعالیٰ کا غضب بھی بہت سخت ہے… جو لوگ نہی عن المنکر چھوڑ دیتے ہیں…جو لوگ گناہوں کو پُرکشش بناتے ہیں…جو لوگ گناہوں کو بُرا نہیں سمجھتے… وہ بڑی غلطی کر رہے ہیں…اللہ تعالیٰ کا واضح فرمان ہے
دنیوی ضرورتیں پوری کرے… دنیا کی جو ضرورت دین سے ٹکراتی ہو اُسے چھوڑ دے… مگر اب مسلمانوں میں وہ طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو دنیا کو ہی ضروری اور اصل سمجھتا ہے…اور دنیا کو اصل مقصد بنا کر ساتھ تھوڑا بہت دین پر چلنا چاہتا ہے… اس سے بہت خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں …مسلمانوں کے دلوں سے بڑے بڑے گناہوں کی نفرت ختم ہو رہی ہے…نعوذ باللہ مساجد میں کرکٹ ٹیم کے جیتنے کی دعائیں چل پڑی ہیں … حالانکہ کرکٹ میچ لاکھوں افراد کو نماز سے روکتے ہیں … اور طرح طرح کی برائیاں اور گناہ پھیلاتے ہیں…اب نعوذ باللہ’’ نور جہاں ‘‘ کی بھی تعریفیں ہو رہی ہیں…حالانکہ اب بھی اس کے ساز اور گانے روزانہ لاکھوں افراد کو اللہ تعالیٰ سے غافل کرتے ہیں… اور گناہوں میں غوطے دیتے ہیں …اور تو اور نعوذ باللہ بالی وڈ کے فنکاروں کے تعریف بھرے تذکرے منبر رسول ﷺ پر ہو رہے ہیں …عامر خان وغیرہ نے نہ تو فلمیں چھوڑیں اور نہ اپنے غلط نظریات… اُن کے ہاں مسلمانوں کی ہندوؤں سے شادی حلال ہے…جو کہ خالص کفریہ عقیدہ ہے…اُن کے ہاں ہر فلم میں ہندو بن جاناجائز ہے…اور اُن کی فلمیں کروڑوں مسلمانوں کو گناہ، غفلت اور گمراہی میں ڈال رہی ہیں…مگر ہم اس پر خوشی منا رہے ہیں کہ اس نے ہمیں فون کیا، میسج کیا…اور ایک آدھ بار ملاقات کا شرف بخشا… یہ درست ہے کہ…ہمیں ہر طبقے میں دین کی محنت کرنی ہے…مگر یہ محنت اس طرح جائز نہیں کہ…ہم دنیا کو اصل بنا دیں اور دین کو محض ایک وقتی ضرورت… کوئی سود نہیں چھوڑنا چاہتا ہے تو ہم اس کو تجارتی حیلے سکھا دیں… کوئی فلم نہیں چھوڑنا چاہتا تو ہم اسے فلم کی اجازت دے دیں…آپ لوگوں کو دین بتائیں… دین کی طرف بلائیں …نیکی اور گناہ کا مفہوم سمجھائیں …نیکی پر شکر اور گناہ پر استغفار کا طریقہ سکھائیں … مگر گناہوں کی حوصلہ افزائی نہ کریں…گناہوں کو حلال نہ کریں…اور صرف کسی کے رمضان المبارک میں مرنے کو دلیل بنا کر اُسے جنت میں محلات اَلاٹ نہ کریں… ہمیں کیا معلوم کون کفر پر مرا اور کون اسلام پر؟… اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے…مگر اللہ تعالیٰ کا غضب بھی بہت سخت ہے… جو لوگ نہی عن المنکر چھوڑ دیتے ہیں…جو لوگ گناہوں کو پُرکشش بناتے ہیں…جو لوگ گناہوں کو بُرا نہیں سمجھتے… وہ بڑی غلطی کر رہے ہیں…اللہ تعالیٰ کا واضح فرمان ہے
اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّۃ
پورے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ…
ہاں پورے پورے… اور جو کچھ نہیں کر سکتے
اُس پر توبہ کرو ، استغفار کرو…
ایک اور اہم نکتہ
میں کسی پر تنقید نہیں کر رہا…مجھے ’’تنقید‘‘
کرنے سے ڈر لگتا ہے…میں اپنے رفقاء کو بھی روکتا ہوں کہ… جن معاملات میں مستند اہل
علم کا اختلاف ہے اُن معاملات میں اپنا مؤقف مضبوط رکھیں… مگر دوسرے مؤقف پر لعن
طعن نہ کریں … اسی طرح اگر آپ خود کوئی کام چھپ چھپا کر کرتے ہیں اور اُس پر توبہ،
استغفار نہیں کرتے تو … دوسروں پر اسی کام کے بارے میں لعن طعن نہ کریں… کئی لوگ خود
تصویر بازی کرتے ہیں… جہاں موقع ملے موبائل نکال کر ذی روح کا فوٹو، ویڈیو بناتے ہیں…
مگر وہ دوسروں پر تصویر کے بارے میں لعن طعن کرتے ہیں …یہ طرز عمل انتہائی خطرناک ہے…
یہ عمل آپ کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ رازداری خراب کر دے گا…آپ تصویر کو بُرا سمجھتے
ہیں تو آپ کو یہ حق نظریہ بہت مبارک…
آہ افسوس! اس نظریے کے اَفراد اب دنیا
میں بہت کم رہ گئے ہیں…یہ افراد حق کے زیادہ قریب ہیں…لیکن ان افراد کے لئے ضروری ہے
کہ وہ خلوت، جلوت ہر جگہ اپنے نظرئیے کی پاسداری کریں… تاکہ یہ ثابت ہو کہ آپ کا نظریہ
اللہ تعالیٰ کے لئے ہے، دوسروں کو ذلیل کرنے کے لئے نہیں … اور اللہ تعالیٰ ہر چیز
ہر جگہ دیکھتے ہیں…لیکن اگر آپ لکھنے اور بولنے کی حد تک تو تصویر کے مخالف ہوں …مگر
خود تصویر بنانے اور بنوانے سے پرہیز نہ کرتے ہوں تو آپ کی یہ حالت خود آپ کے لئے
خطرناک ہے… اب سنئے ایک اہم نکتہ… ایک آدمی ’’صالح ‘‘ ہے… یعنی نیک، اس کو سب اچھا
سمجھتے ہیں…لیکن جیسے ہی وہ ’’مصلح‘‘ بنا…یعنی نیکی کی دعوت دینے والا اور گناہوں سے
روکنے والا… تو اب اس کی عوامی مقبولیت ایک دَم کم ہو جائے گی…اور بہت سے لوگ اس کے
مخالف ہو جائیں گے…
مگر ایک مسلمان کے لئے یہی حکم ہے کہ وہ
…’’مصلح ‘‘ بنے… لوگوں میں مقبولیت کی قربانی دے…اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اپنی مقبولیت
چھوڑے… تب اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں… بڑی خاص ’’قبولیت‘‘ اور ’’مقبولیت‘‘ نصیب ہو تی
ہے …اس دنیا میں رہتے ہوئے… جو انسان اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے… اسے لوگوں
میں مقبولیت کا شوق دل سے نکالنا ہو گا…اگر یہ شوق دل سے نہ نکلا تو…یہ کسی بھی وقت
اس کے دین کو برباد کر دے گا…لوگ دینداروں سے کیا چاہتے ہیں؟ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہم
ان کی مرضی کا دین بیان کریں… ایسا دین جس سے ان کی دنیا داری پر کوئی فرق نہ پڑے…
وہ آپ سے تعویذ چاہتے ہیں… عملیات چاہتے ہیں…اور استخارے… ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ
کی نعوذ باللہ بس یہی عزت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے مسائل حل کرتا رہے…اور انہیں خود
اللہ تعالیٰ کے لئے دو رکعت کی تکلیف بھی نہ کرنی پڑے…بلکہ کوئی اور نمائندہ ان کے
لئے اللہ تعالیٰ سے استخارہ پوچھ دے… استغفر اللہ ، استغفر اللہ ، استغفر اللہ
وہ چاہتے ہیں کہ… اپنی مرضی کا کھائیں،
اپنی مرضی کا پئیں، اپنی مرضی سے خوشی غم منائیں …اور اپنی مرضی سے کمائیں… دین کو
ان معاملات میں مداخلت کا حق نہیں… دیندار بس ان کا نکاح پڑھا دیں اور جنازہ…
اب جو دیندار …لوگوں کی ان خواہشات کے
برعکس چلتا ہے تو وہ ان میں ’’غیر مقبول ‘‘ ہو جاتا ہے…پھر جو جس قدر زیادہ خالص دین
کی طرف بلائے گا وہ اسی قدر زیادہ غیر مقبول ہو گا…
ایک نظر ڈالیں
لوگ چاہتے ہیں کہ… ان کی دنیاداری چلتی
رہے… گناہوں کا کاروبار چلتا رہے… اور اس کے ساتھ تھوڑا بہت دین بھی آ جائے…لوگوں
کی اس خواہش کو دیکھتے ہوئے ایسے اَفراد میدان میں آ گئے ہیں جو لوگوں کو اُن کی پسند
کا دین سپلائی کرتے ہیں…اور یوں ان کی مقبولیت خوب بڑھتی ہے…
پھر اس میں کئی درجے ہیں:
٭ کچھ لوگ نہ کسی کو نماز کی دعوت دیتے ہیں…اور
نہ کبیرہ گناہوں سے بچنے کی…بلکہ شریعت کا ہر حکم دنیا داروں کے لئے معاف کراتے رہتے
ہیں…نہ نماز، نہ روزہ…نہ قربانی نہ شریعت… یہ لوگ آج کل سب سے زیادہ مقبول ہیں… یہ
خود کسی قدر دیندار ہیں…مگر لوگوںکو دین کے نام پر دین سے دور کرتے ہیں…ان میں کچھ
دانشور ہیں… کچھ عامل …کچھ پروفیسر اور کچھ کشف کے دعویدار…
٭ کچھ لوگ نماز روزے کی دعوت دیتے ہیں…مگر شریعت
کے باقی احکامات میں آزادی کی آواز لگاتے ہیں…اور کسی بھی گناہ سے کسی کو نہیں روکتے…
یہ لوگ پہلے طبقے سے کچھ کم مگر پھر بھی بہت مقبول ہیں…
٭ کچھ لوگ پورے دین کی دعوت کا اعلان کرتے ہیں…ماحول
بھی دینی بناتے ہیں…مگر دین کے ان احکامات کے قریب بھی نہیں پھٹکتے جو کفریہ سامراجی
طاقتوں کو ناپسند ہیں…مثلاً جہاد فی سبیل اللہ ، اسلامی نظامِ انصاف…اسلامی معیشت وغیرہ…
یہ لوگ پہلے دو طبقوں سے کم…مگر پھر بھی
کافی مقبول ہیں…
لوگوںمیں’’مقبولیت‘‘ کا شوق اور لوگوں
تک ان کی پسندیدہ دین کی سپلائی کے اس رجحان نے … اسلامی معاشرے کو گلابی بنا دیا ہے…سچے،
خالص اور پورے دین کی خوشبو اب اکثر جگہ نہیں ملتی… دنیا، دنیا اور دنیا جبکہ دین ہر
جگہ دنیا کے تابع… (نعوذ باللہ)
آہ کیسا دُکھ بھرا ماحول بن گیا…وہ جگہیں
جہاں ایک سنت چھوٹ جانے پر آنسو قطار بنا لیتے تھے…آج وہاں ’’منکرات‘‘ کا طوفان قہقہے
لگا رہا ہے…یا اللہ! رحم…
سب سے غیر مقبول
زیادہ لوگ جب ’’بد دینی‘‘ اور ’’ بے دینی‘‘
پر ہوں تو ایک قانون بن جاتا ہے…وہ قانون یہ کہ لوگوں کے نزدیک جو چیز جتنی ’’غیر مقبول‘‘
ہوتی ہے… اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ اسی قدر ’’مقبول ‘‘ ہوتی ہے… آج دین کا کونسا فرض
اور کون سا مسئلہ لوگوں میں زیادہ ’’غیر مقبول ‘‘ ہے؟… جواب واضح ہے … جہاد فی سبیل
اللہ
دنیا کے تمام کفار اس کے شدید مخالف… دنیا
کے تمام منافقین اس کے شدید دشمن… دنیا کے تمام دنیا پرست اس کے شدید ناقد… اور دنیا
کے تمام فاسق اس کے شدید معاند… آج مسلمانوں میں بھی… ہر وہ شخص جو مہذب کہلاتا ہے…وہ
جہاد کا نام سن کر بدک جاتا ہے…آج دنیا پرست دینداروں کے ہاں… نہ جہاد کو سنا جاتا
ہے اور نہ جہاد کو بولا جاتا ہے… حالانکہ جہاد قرآن مجید میں موجود ہے… ایک بار نہیں
ہزار بار… جہاد رسول اللہ ﷺ کی سیرت مبارکہ میں موجود ہے…ایک بار نہیں سینکڑوں بار…
جہاد تمام حدیث کی کتابوں میں موجود ہے… ایک بار نہیں ہزاروں بار … جہاد تمام فقہ کی
کتابوں میں موجود ہے… ایک بار نہیں لاکھوں بار…
جہاد حضرات صحابہ کرام کی زندگیوں میں
موجود ہے…ایک بار نہیں ہزاروں بار…
ہمارا دین تو یہی ہے…جو قرآن میں آ گیا
…جو سنت میں آ گیا… جو حدیث میں آ گیا… جو صحابہ کرام میں آ گیا… جو فقہ میں آ
گیا… ہمارا دین یہ تو نہیں کہ جو حکم عالمی طاقتوں کو ناپسند ہو … وہ دین سے خارج…
وہ بیان سے خارج…
ہاں آج …عمومی، عوامی حلقوں میں جہاد
سب سے ’’غیر مقبول‘‘… بلکہ اب تو ’’خطرناک‘‘ بھی ہے کیونکہ نام کے مسلمان حکمرانوں
کی طرف سے…یہ کفریہ فیصلہ صادر ہو چکا ہے کہ…جہاد کو نعوذ باللہ مٹا دو…جہاد کو مٹانے
میں اچھے برے کی تفریق نہ کرو…بس جو بھی جہاد فی سبیل اللہ پر کھڑا ہو اسے گرا دو…
جب اہل کفر ، اہل نفاق، اہلِ فسق اور دنیا
پرستوں کے نزدیک… جہاد سب سے غیر مقبول ہوا…تو ان شاء اللہ یہی عمل اس وقت اللہ تعالیٰ
کے نزدیک سب سے زیادہ قبولیت اور مقبولیت والا ہو گا… پس اللہ تعالیٰ کے عاشق اسے مضبوط
پکڑیں … اس میں بھرپور محنت کریں… اور اس میں خوب آگے بڑھیں… عشر مہم چل رہی ہے…اس
کو اخلاص کے ساتھ تیز کریں… دورات تفسیر آ رہے ہیں اس سال مثالی کارکردگی دکھائیں…
جو صرف عوام میں مقبول ہوتے ہیں وہ ہمیشہ عوام کے جوتوں تلے رہتے ہیں…اور جو اللہ تعالیٰ
کے ہاں مقبول ہوتے ہیں…ان پر تو جبرئیل علیہ السلام اور فرشتے بھی سلام بھیجتے ہیں…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ
الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ
وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول
اللّٰہ
٭…٭…٭