اگلا جزیرہ

رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 549)

اللہ تعالیٰ ’’آخرت‘‘ پر ہمارے یقین کو مضبوط فرمائے… اور ہمیں دنیا سے زیادہ ’’آخرت‘‘ کی فکر عطاء فرمائے…

کوئی مانے یا نہ مانے

دنیا میں رہتے ہوئے ہر انسان…اپنی ’’ آخرت‘‘ بنا رہا ہے… کوئی اچھی اور کوئی بری… اندازہ لگائیں ایک موبائل فون پر انسان جو کچھ کرتا ہے… وہ سارا ڈیٹا کئی جگہ محفوظ ہوتا رہتا ہے… تو کیا انسان کے اعمال اور اقوال بے کار جا رہے ہیں؟…ہرگز نہیں… ہر انسان کا ہر عمل اور ہر قول آگے جا رہا ہے ، محفوظ ہو رہا ہے… اور انسان نے آگے چل کر …اپنے انہی اعمال کے ساتھ رہنا ہے…
اب کوئی آخرت کو مانے یا نہ مانے وہ اپنی اچھی یا بری آخرت خود بنا رہا ہے… بس موت آنے کی دیر ہے، تب آنکھوں سے سارے پردے ہٹ جائیں گے…

عجیب تمثیل

ایک ملک تھا… خوبصورت، سرسبز اورپُر کشش… اس ملک کے مناظر بھی حسین و جمیل تھے اور لوگ بھی…یہاں پھلوں، پانی اور عیاشی کی فراوانی تھی… ملک کی سب سے قیمتی اور پرتعیش جگہ ملک کے بادشاہ کے لئے مختص تھی… وہاں اس کا محل بھی تھا اور وسیع و عریض باغ بھی… اور دنیا بھر کی عیاشی و سرمستی کا سامان اور عملہ بھی… اس ملک کا دستور یہ تھا کہ لوگ مل کر ایک شخص کو اپنا بادشاہ بناتے… پھر یہ سارا عشرت کدہ اس کے حوالے کر دیتے… اس کی بھرپور اطاعت کرتے …اسے بے شمار مال و دولت دیتے اور اسے ہر طرح کے اختیارات سپرد کر دیتے… بادشاہ کے لئے حکومت کی مدت تین سال مقرر تھی… تین سال کے بعد ملک کے لوگ جمع ہو کر اس بادشاہ کو ایک بڑے بحری جہاز پر بٹھاتے اور دور ایک جزیرے پر چھوڑ آتے …اور اپنے ملک کے لئے نیا بادشاہ مقرر کر دیتے…
یہ سلسلہ سالہا سال سے اسی طرح چل رہا تھا … بادشاہ آتے اور خوب عیش و عشرت کے مزے لوٹتے… دو چار گھنٹے امور مملکت اور باقی دن رات عیش اور عیاشی… کھانا ، پینا ، ملنا، ناچنا ، گانا… اور ہر اچھی بری لذت کا حصول… تین سال اسی مدہوشی میں گزر جاتے، اچانک ملک کے لوگ آتے اور بادشاہ کو اٹھا کر …دور دراز گمنام جزیرے پر اکیلا چھوڑ آتے… پھر کوئی خبر نہ ملتی کہ… اس بادشاہ کے ساتھ جزیرے پر کیا بیتی؟… نہ کبھی کوئی وہاں سے واپس آیا…اور نہ کوئی وہاں خبر لینے گیا … ایک بار ملک کے لوگوں نے ایک نیا بادشاہ مقرر کیا…اور اسے شاہی محل اور عشرت کدے میں چھوڑ آئے… یہاں ہر چیز دل کو کھینچنے والی اور ہر فکر سے غافل کرنے والی تھی… مگر یہ نیا بادشاہ ان چیزوں میں نہ کھویا… اسے یہ فکر لاحق تھی کہ … تین سال بعد کیا ہو گا؟… اور وہ کیسی جگہ ہو گی جہاں میں نے تین سال بعد جانا ہے… یہ بادشاہ نوجوان تھا اور اسے شدت سے یہ فکر لاحق تھی کہ…تین سال بعد والے جزیرے پر باقی عمر کیسے گذرے گی… چنانچہ نہ وہ شراب و کباب میں مست ہوا اور نہ حسن و جمال میں مدہوش ہوا…اس نے ایک بحری جہاز لیا اور ملکی فوج کے ایک دستے کو اس جزیرے کا جائزہ لینے بھیج دیا… یہ فوجی جب اس جزیرے پر اترے تو وہاں بڑے خوفناک مناظر تھے…ہر طرف وحشی درندے ، زہریلے سانپ اور خاردار درخت … کسی کسی جگہ سابقہ بادشاہوں کی کچھ ہڈیاں اور باقیات بھی موجود تھیں…اور باقی ہر طرف خوف، اندھیرا ، دلدل ، جنگل اور وحشت کا راج تھا… جائزہ رپورٹ جب بادشاہ کو پہنچی تو اس کی فکر اور بڑھ گئی… اس نے اپنے زیر اختیار تمام اموال جمع کئے… اور اس جزیرے کو درست کرنے کی ٹھان لی… پہلے اس نے مسلح دستے بھیجے جنہوں نے آگ لگا کر جھاڑ اور کانٹے ختم کئے… اور درندوں، سانپوں کو ختم کیا…
پھر اس نے وہاں زمینداری کے ماہرین بھیجے…جنہوں نے آبپاشی اور زمین زرخیزی کا نظام درست کیا…اسی طرح وہ اس جزیرے کو نہایت تیزی سے بدلتا گیا…وہاں اس نے کچھ پسندیدہ لوگ آباد کئے…اپنے لئے محل تعمیر کروایا …اور پورے جزیرے کو وحشت کدے سے عشرت کدہ بنا ڈالا… تین سال کا عرصہ بہت کم تھا … مگر اس نے رات دن محنت کی… اور اپنے ہاتھ میں موجود ہر چیز… اگلے جزیرے کی بہتری کے لئے لگا دی… تین سال بعد ملک کے لوگ جب اسے جزیرے پر چھوڑنے جا رہے تھے تو وہ…بے انتہا خوش تھا…اسے نہ کوئی خوف تھا نہ ڈر… نہ کوئی خدشہ اور نہ پریشانی…وہ راحت اور لذت کے گھر میں جا رہا تھا…اور اس کی ہر پسندیدہ چیز پہلے سے وہاں موجود تھی…

قرآنی حکم

اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے… یہاںہمیں چند دن رہنا ہے اور پھر فرشتے آئیں گے اور ہمیں یہاں سے اُٹھا کر لے جائیں گے … دنیا میں ہمارے لئے کشش کا سامان بھی بہت ہے اور یہاں پھنسانے اور الجھانے والی چیزیں بھی بے شمار ہیں… انسان دنیا میں آتا ہے تو اس دنیا ہی میں کھو جاتا ہے… اور دنیا کو آباد کرنے میں خود کو خرچ کر دیتا ہے…پھر جب اس کی مدت پوری ہوتی ہے تو یہ دنیا کو چھوڑ کر آگے چلا جاتا ہے…
قرآن پاک ہمیں بار بار حکم فرماتا ہے کہ… آگے کے لئے تیاری کرو…اپنے لئے آگے سامان بھیجو… تم یہاں رہتے ہوئے جو کچھ بھی آگے بھیجو گے وہ سب تمہیں وہاں ملے گا… بلکہ اسے مزید بڑھا دیا جائے گا…

عقلمند لوگ

وہ بادشاہ عقلمند نہیں تھے جنہوں نے تین سال کے عیش وآرام میں ڈوب کر… اپنی اگلی منزل کو بھلادیا… ان کے پاس اموال بھی تھے اور اختیارات بھی… مگر وہ غفلت میں پڑے رہے اور وقت ختم ہوگیا … اور پھر وہ درندوں، سانپوں اور گڑھوںکے حوالے کردئیے گئے…دنیا میں جو انسان آخرت سے غافل زندگی گذارتا ہے… اس کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا ہے… مرنے کے بعد وہ درندوں ،سانپوں اور آگ کے عذاب میں جا پڑتا ہے… دنیا میں اس نے جو برُے اعمال کئے وہ سب اس کے لئے قبر اور آخرت کا و بال بن جاتے ہیں… آپ پوری انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں… یہ سچ ہے کہ … جو بھی آیا اسے جانا پڑا… اور اس سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ ہم بھی اس دنیا سے چلے جائیں گے… اور ہمارا چہرہ مٹی کے نیچے دبا ہوگا … نہ سوٹ نہ بوٹ نہ گاڑی نہ خادم… اکیلی قبر، نئی منزل، گمنام جزیرہ…
لیکن وہ بادشاہ عقلمند تھا جس نے تین سال کے عرصے کو غنیمت جانا…اس نے خود کو عیاشی اور لہو و لعب میں غافل نہیں ہونے دیا… اس نے اپنے اموال بھی اپنے لئے آگے بھیج دئیے اور اپنے اختیارات کو بھی… اپنے اگلے گھر کی بہتری پر لگادیا… یہی حال دنیا میں ان انسانوں کا ہے… جو آخرت پریقین رکھتے ہیں… اور دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری کرتے ہیں… وہ اپنے لئے زیادہ سے زیادہ ،راحت کا سامان آگے بھیجتے ہیں ان کو یہاں جو مال ملتا ہے وہ سارا مال آگے اپنے لئے بھیج دیتے ہیں… اور ان کو یہاں جو قوت ملتی ہے… جو اختیارات ملتے ہیں… وہ انہیں بھی اپنے اگلے گھر کی بہتری کے لئے استعمال کرتے ہیں… یہ عقلمند لوگ ہیں… ان کو موت کے وقت نہ کوئی غم ہوتا ہے اور نہ کوئی پریشانی … بلکہ وہ خوشی خوشی جاتے ہیں اور وہاں جا کر بھی خوشیاں پاتے ہیں… ایسے عقلمند لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ موسم مقرر فرمادئیے ہیں… ان موسموں میں اللہ تعالیٰ اعمال اور اقوال دونوں کا وزن بہت بڑھا دیتے ہیں…حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ… رمضان المبارک کی برکات صرف مسلمانوں کے لئے ہیں… اہل ایمان کو روزے اورقرآن کی وجہ سے اس مہینے کی برکات ملتی ہیں… جبکہ کفار اور دشمنان اسلام کا بغض اور شر اس مہینے میں اور بڑھ جاتا ہے… کیونکہ وہ رحمت والے اعمال سے دور ہیں… اس لئے ان پر زیادہ لعنت برستی ہے…( خلاصہ حجۃ اللہ البالغہ)
رمضان المبارک میں ابو جہل کا شر پوری قوت سے بھڑکا… اور وہ مسلمانوں کو مٹانے کے لئے مکہ مکرمہ سے نکل کھڑا ہوا… رمضان المبارک میں مجاہدین کی نصرت خاص اور انوکھے انداز سے ہوتی ہے… بدر کے میدان میں مقابلہ ہوا…ایک طرف اہل رحمت تھے اور دوسری طرف اہل لعنت …اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی نصرت فرمائی …اور سخت خطرناک مشرکین مقتول ہو کر ایک کنویں میں پھینکے گئے…
یہ جہاد کا ایک باقاعدہ شاندار آغاز تھا… اور یہ جہادی سلسلہ دجال کے قتل تک چلتا رہے گا… ابو جہل کے قتل سے دجال کے قتل تک… مسلسل جہاد ،مقبول جہاد اور منصور جہاد…
اس رمضان المبارک میں … ہر مسلمان یہ نیت کر ے کہ… وہ اس مبارک جہادی سلسلے میں شامل رہے گا… کیونکہ یہ ’’اہل رحمت‘‘ کا سلسلہ ہے… اور اس سلسلے کے مقبول افراد کی آخرت بہت تابناک ہے ان شاء اللہ… حضرات صحابہ کرام نے آخرت کی تیاری اور وہاں کے لئے سامان بھیجنے کا نصاب بار بار حضور اقدسﷺ سے پوچھا اور سیکھا… جواب میں فرمایا گیا… ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ یعنی آخرت میں سب سے زیادہ فائدہ دینے والی چیز… ایمان کے بعد جہاد فی سبیل اللہ ہے…
اور اس طرح اسلام کے باقی فرائض… نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج… پھر درجہ ہے خدمت خلق کا… اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے کام آنا… اور ان کے کام بنانا… پھر درجہ ہے نوافل و صدقات کا… اور پھر درجہ ہے… لوگوں کو اپنے شر سے بچانے کا …یعنی اگر کوئی نیکی نہیں کر سکتے تو کم ازکم اتنا کرو کہ… لوگوں کو شر نہ پہنچائو تب یہ عمل بھی آخرت میں کام آئے گا… ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭