اہل شام کو سلام
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے
قلم سے (شمارہ 633)
اللہ تعالیٰ نے ملک ’’شام
‘‘ کو برکت سے بھر دیا ہے… یہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی سرزمین ہے… یہ ’’مسجد اقصیٰ‘‘
اور تمام انبیاء علیہم السلام کے اجتماع کا مقام ہے… یہ انجیر اور زیتون والی سرزمین
ہے… اسی سرزمین سے معراج کا سفر ہوا … اور اسی سرزمین سے آخری زمانے اسلام کے عروج
کا سفر ہو گا… یہ فاتحین کی سرزمین ہے حتی کہ سیف اللہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا
قیام بھی اسی میں ہے… یہ بہادروں کی زمین اور شیروں کا مسکن ہے… یہ زمین ہے مگر یہاں
ستارے اُترتے ہیں… یہاں ظاہری اور باطنی حسن کی بہاریں پھوٹتی ہیں… یہاں علم ، جہاد
اور روحانیت کے سہ دھاری چشمے بہتے ہیں… شام اُس اسلامی سلطنت کا دارالخلافہ تھا جس
کی سرحدیں چین اور فرانس تک پھیلی ہوئی تھیں… اور پھر شام ہی سے اسلام کا وہ لشکر چلے
گا… جس کی قیادت حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام… اور حضرت محمد بن عبد اللہ المہدی
رضی اللہ عنہ فرمائیں گے… ملک شام نے حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا استقبال
کیا… اور پھر حضرت عمر بن عبد العزیز کا ناقابل فراموش دور خلافت بھی دیکھا … اسی ملک
شام نے امین الامۃ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ… اور سیف اللہ حضرت خالد بن
ولید رضی اللہ عنہ کا جہاد دیکھا… شام کا دامن ہمیشہ آباد رہا… شام کی گود ہمیشہ ہری
رہی … شام کا جنون ہمیشہ سرگرم رہا… شام کبھی نہیں جھکتا… شام کبھی نہیں مٹتا… شام
کے سر پر حضرت آقا مدنی ﷺ کی دعاؤں کا پہرہ ہے… چار دن کی کالی رات بیت جائے گی…شام
پھر مسکرائے گا… شام پھر یکجا ہو جائے گا… شام پھر گرجے گا… سوریا، اردن ، فلسطین اور
لبنان کے ناموں میں بٹا ہوا شام… پھر ایک ہو جائے گا … شام میں نہ روس رہے گا نہ ایران…
وہاں صرف بسے گا ایمان… اسد خاندان کے خوفناک مظالم کے بعد ہر کوئی یہی سمجھ رہا تھا
کہ شام بجھ گیا … شام دب گیا… مگر پھر دنیا بھر نے شام کے جہاد کی چمک دیکھی… شام کی
ہر گلی نے مجاہد نکالے…یہ مفسرین کی سرزمین…جہاد اور اسلام سے نہیں کٹ سکتی… یہ محدثین
کی سرزمین … عساکر اور ابن عساکر اُٹھاتی رہے گی …یہ مشارع الاشواق کی سرزمین… ’’مصارع
العشاق‘‘ کی داستان دُہراتی رہے گی… شہداء غوطہ کو سلام… شہداء شام کو سلام… ارض مبارک
کو سلام…
اندھی یلغار
شام پر اس وقت کئی غیر ملکی
قوتیں حملہ آور ہیں… شام کا اصل مسئلہ وہاں کا قابض اور ظالم حکمران’’بشار الاسد‘‘
ہے… یہ بھورا چوہا ایک قاتل، دہشت گرد اور فرقہ پرست انسان ہے… اس کے باپ ’’حافظ الاسد‘‘
نے لاکھوں شامی مسلمانوں کو شہید کیا… اور مرتے وقت حکومت اپنے بیٹے کو دے گیا… شام
کا جہاد کئی دہائیوں سے سلگ رہا تھا… مگر چند سال سے وہ قوت کے ساتھ بھڑک اُٹھا ہے…
قریب تھا کہ ’’بشار الاسد‘‘ کی حکومت ختم ہو جاتی مگر ایران پوری قوت کے ساتھ شام میں
گھس آیا… ایران کے قائد اعلیٰ نے شام میں اپنی جنگ کو ’’افضل جہاد‘‘ قرار دیا… اور
وہاں مرنے والے ایرانیوں کو ’’شہید ‘‘ قرار دیا… یعنی اس کے نزدیک سنی مسلمانوں کو
شہید کرنا افضل جہاد ہے… پاکستانی حکومت کا رجحان پہلے شامی مجاہدین کی طرف تھا مگر…
زرداری نے اپنی فرقہ پرست ذہنیت کی وجہ سے… پیپلز پارٹی کو ایران کی پالیسیوں کا تابع
بنا دیا ہے… اس وقت زرداری صاحب صدر تھے چنانچہ انہوں نے … پاکستان کو ایران کی حمایت
میں کھڑا کر دیا… حالانکہ ایران ہمیشہ سے پاکستان کا بدترین دشمن رہا ہے… آپ کبھی
ایرانی میڈیا سن لیں اس کی زبان پاکستان کے خلاف مودی اور ایڈوانی سے زیادہ سخت چلتی
ہے… اور ایران ہر معاملے میں پاکستان کے خلاف انڈیا کا ساتھ دیتا ہے… شام میں ایران
کے علاوہ لبنان کی حزب اللہ بھی ’’بشار الاسد‘‘ کی حمایت میں اُتر آئی… اور یمن کے
حوثیوں نے بھی پوری قوت کے ساتھ بشار الاسد کا ساتھ دیا… مگر یہ سب مل کر بھی مجاہدین
کا مقابلہ نہ کر سکے… شامی حکومت مسلسل پسپا ہوتی گئی… ایران کے کئی جنرل اور ہزاروں
جنگجو اس لڑائی میں مارے گئے… اور حزب اللہ نے اپنے قابل فخر کمانڈر اس جنگ میں کھو
دئیے … تب بشار الاسد نے روس سے مدد مانگی اور روس شام میں داخل ہو گیا… ابھی دنیا
کے حسین ترین شہر ’’غوطہ‘‘ پر جو بمباری ہو رہی ہے… اس میں روسی ، ایرانی اور شامی
تینوں افواج مل کر… مجاہدین پر بمباری کر رہی ہیں… اس بمباری میں اب تک سینکڑوں افراد…
جن میں شیر خوار معصوم بچے بھی شامل ہیں … شہید ہو چکے ہیں… امریکہ جو خود شام کی لڑائی
میں… بعض افراد کا ساتھ دے رہا ہے… خاموشی سے مسلمانوں کا قتل عام دیکھ رہا ہے… اور
ترکی جس سے شام کے مسلمانوں نے اچھی امید باندھ رکھی تھی… ابھی تک دور دور بیٹھا ہے
… سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک جو کہ … شامی مجاہدین کی کسی قدر حمایت کر رہے تھے
اب اپنے داخلی معاملات میں اُلجھ چکے ہیں… ایران کا شیطان ننگا ناچ رہا ہے اور اس کے
منہ سے مسلمانوں کا خون ٹپک رہا ہے… شام اور غوطہ پر اس اندھی یلغار نے امت مسلمہ کو
بے چین کر دیا ہے… ہر مسلمان چاہتا ہے کہ وہ شامی مسلمانوں کی مدد کرے… مگر راستے بند
اور بے بسی کا منظر ہے… مگر اللہ تعالیٰ قادر ہے… اور ہر امید اللہ تعالیٰ ہی سے وابستہ
ہے… وہی مظلوموں کو قوت دینے والا… اور وہی انصار کے لئے راستے کھولنے والا ہے…ہمارے
پاکستان میں عجیب ستم ظریفی یہ ہے کہ… یہاں اگر ایران کا نام لے کر اس پر صرف تنقید
بھی کی جائے تو فوراً ’’فرقہ پرستی‘‘ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے… جبکہ ایران دن رات مسلمانوں
کو شہید کرتا رہے تب بھی اُسے ’’فرقہ پرست‘‘ نہیں کہا جاتا… دراصل ایران کی مسلکی،
مذہبی ، صحافتی اور سفارتی یلغار ہمارے ملکوں پر بہت بڑھ چکی ہے… اور اب تو کئی اچھے
خاصے افراد بھی… اس یلغار کا شکار نظر آتے ہیں… ابھی حال ہی میں اپنے چند فوجی دستے
سعودی عرب بھیجنے پر… پاکستان کی ایرانی لابی نے جو اودھم مچایا ہے… وہ پاکستان کے
لئے ایک لمحہ فکریہ ہے…
مولانا ! یہ مندر نوازی؟
ہندوستان میں عجیب ستم برپا
ہوا ہے… حضرت سید احمد شہیدؒ اور حضرت مولانا ابو الحسن ندویؒ کے خاندان کے ایک…معروف
فرد… مولانا سلمان ندوی نے نعوذ باللہ ’’بابری مسجد‘‘ سے دستبرداری کا اعلان کر دیا
ہے… اگرچہ ’’مولانا ‘‘ کے اس اعلان سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا… مگر دل کو دکھ ضرور
پہنچا کہ کیسے خوفناک فتنوں کا دور آ گیا ہے… مولانا سلمان ندوی اپنی شہرت پسند طبیعت
اور مزاج کے چھچھورے پن کی وجہ سے … ہندوستان کے مسلمانوں میں زیادہ معتبر حیثیت نہیں
رکھتے… اور ان کی جھولی میں ان کی خاندانی نسبت کے علاوہ کوئی خاص خوبی بھی موجود نہیں
ہے… وہ اپنے اسلاف کی طرح نہ علم میں کوئی مقام بنا سکے اور نہ تحریکی طور پر کوئی
کارنامہ سر انجام دے سکے…مگر چونکہ آج کل تصویر، ویڈیو اور سوشل میڈیا کا زور ہے تو
اس میدان میں… مولانا کا نام اور فوٹو بھی کچھ چل نکلا ہے… اُن کے بزرگوں میں سے حضرت
علامہ سید ابو الحسن علی ندویؒ نے… مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسی مضبوط تنظیم کی سالہا
سال تک قیادت فرمائی… اور کئی مواقع پر ہندوستان کی فرقہ پرست پارٹیوں کو اپنے قدموں
پر جھکایا…
چاہیے تو یہ تھا کہ … مولانا
سلمان ندوی بھی اپنے اکابر و اسلاف کی طرح عزیمت کے اس میدان میں اپنا مقام بناتے مگر…
بُرا ہو جدت پسندی کا کہ جس نے… اہل علم کے کئی خانوادوں کو اُجاڑ کر رکھ دیا ہے… اُمید
تو یہی ہے کہ… مولانا سلمان ندوی اپنے اس نئے ظالمانہ موقف سے جلد رجوع کر لیں گے…
اور وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور مسلمانوں سے معافی چاہیں گے… لیکن اگر وہ اپنی غلط
بات پر ڈٹے رہے تو… اس کا نقصان خود ان کی ذات کو ہی پہنچے گا… مسلمان جانتے ہیں کہ
کوئی شخص اپنے نام کے ساتھ ’’مولانا‘‘ اور’’ ندوی ‘‘ لکھنے سے… اتنا معتبر نہیں ہوجاتا
کہ… وہ اُس کے کہنے پر… اپنی مقدس مسجد سے دستبردار ہو جائیں… اور اس مسجد کے سینے
پر شرک کے مندر کو گوارہ کر لیں… الحمد للہ ہندوستان کے مؤقر ’’مسلم پرسنل لاء بورڈ‘‘
نے مولانا سے برأت کا اعلان کر دیا ہے… اور دیگر اہل علم بھی ان کے اس موقف سے بے
زاری کا اظہار کر رہے ہیں… ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ… عمر کے ساتھ ساتھ ’’مولانا
‘‘ کے جذبے بھی… اس قدر بڑھاپے کا شکار ہو جائیں گے… اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان اور
دین پر استقامت اور ثابت قدمی عطاء فرمائے…
آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اللّٰہ، لا
الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا
محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد
رسول اللّٰہ
٭…٭…٭