رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 652)
اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے سب سے پہلے ’’کمان‘‘ بنائی… تیر کمان… جبکہ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ ’’تیر کمان‘‘
کی ایجاد حضرت سیدنا شیث علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک بادشاہ نے کی… اور سب سے
پہلے اس کے ذریعہ سے ایک سانپ کو مارا… حضرت سیدنا اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا
تیر انداز ہونا تو بہرحال حدیث صحیح سے ثابت ہے… تیر اندازی بڑا نورانی عمل ہے… آپ
اس مبارک عمل پر اگر تھوڑا سا بھی مطالعہ کریں تو آپ کو اس کے فضائل ہی فضائل اور
فوائد ہی فوائد ملیں گے… اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ میں اس جہادی، روحانی ، نورانی اور
مفید عمل کو جاری فرمائے… دل چاہتا ہے کہ ایک مستقل کتاب ’’تیر اندازی‘‘ پر لکھ دوں…
اللہ تعالیٰ آسان فرمائے ، توفیق عطاء فرمائے…
سیاسی ماحول
ہمارے جو ساتھی الحمد للہ… اپنی آخرت کے باغات آباد کرنے میں مشغول
اور منہمک ہیں …اُنہیں اس بات پر کوئی شکوہ نہیں ہے کہ ہم سیاست پر کیوں نہیں لکھ رہے…
وہ سب خوش نصیب ساتھی اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں … کوئی میدان جہاد میں ہے تو
کوئی میدان تربیت میں… کوئی کلمہ ، نماز اور جہاد کی آواز لگا رہا ہے تو کوئی شہداء
کرام کے اہل خانہ کی خدمت میں لگا ہے… کوئی مساجد کی تعمیر میںمست ہے …تو کوئی مدارس
کی بنیادیں مضبوط کرنے میں مگن ہے …کوئی تعلیم امت میں مشغول ہے تو کوئی تزکیہ کی محنت
میں جڑا ہوا ہے… کوئی تیراکی سیکھ اور سکھا رہا ہے تو کوئی تیر اندازی کی مشق میں عرق
آلود ہے … کوئی امت کو جگا رہا ہے تو کوئی سنت نکاح میں مسلمانوں کا تعاون کر رہا
ہے… کوئی اسلحہ اٹھائے شہادت کے پیچھے دوڑ رہا ہے تو کوئی قلم تھامے امت کی اصلاح میں
مگن ہے…کوئی دینی دعوت شائع کرنے میں لگا ہے تو کوئی حجامہ کے ذریعے خدمت میں مشغول
ہے…
ان حضرات کی زندگی خسارے کے گڑھے سے نکل کر… کامیابی کی شاہراہ پر دوڑ
رہی ہے … اور وہ مطمئن ہیں اور مزید آگے بڑھنا چاہتے ہیں… ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ…
مگر ہمارے وہ کرم فرما جو سوشل میڈیا کی بھوت بھری دنیا میں جاتے رہتے ہیں… ان کو بہرحال
کمی محسوس ہوتی ہے اور وہ پوچھتے ہیں کہ… آپ سیاست اور انتخابات پر کیوں نہیں لکھ
رہے… تو بات یہ ہے کہ سیاست اور انتخابات پر لکھنا بہت ہی آسان کام ہے… کسی ایک پہلو
کو ہی پکڑ لیں تو کالم مکمل ہو جائے… عبرت ہی عبرت ہے… لطیفے ہی لطیفے ہیں اور تماشے
ہی تماشے ہیں… کسی کی تائید میں لکھنا چاہیں تو ہزاروں پیدل دلائل سامنے آ جاتے ہیں
اور اگر کسی پر تنقید کرنا چاہیں تو… لاکھوں شواہد قطار جوڑ لیتے ہیں… سنجیدہ لکھنا
چاہیں تو وہ بھی آسان… سیاست میں دکھ کی داستانیں بہت ہیں اور اگر دلچسپ مزاحیہ فکاہیہ
لکھنا چاہیں تو وہ اور آسان کیونکہ… ہمارے سیاستدان بذات خود بڑے کثیف لطیفے ہیں…
مگر یہ سب کچھ لکھنے سے فائدہ کیا ہو گا؟ … اس کا کوئی جواب موجود نہیں ہے… اب جب کوئی
فائدہ ہی نظر نہیں آ رہا تو اس کام پر وقت کیوں لگایا جائے؟… کبھی کسی نتیجے یا فائدے
کا امکان ہوا تو ان شاء اللہ ضرور لکھیں گے… اور ایسے حالات جہاد کی برکت سے ان شاء
اللہ ضرور آئیں گے جب… سیاست کے تلوں سے بھی کچھ کچھ تیل نکلنے لگے گا…فی الحال تو
یہ حالت ہے کہ… ایک بار ایک معروف سیاستدان کے بعض بیانات سے بہت تکلیف ہوئی … ارادہ
کیا کہ انہیں جواب دیا جائے… رات کو خواب میں تشریف لائے اور فرمایا… کس پریشانی میں
پڑ گئے ہیں آپ؟ ہمارا تو دنیا داری کا کام ہے… چنانچہ صبح اُٹھ کر اس موضوع پر لکھنے
کا ارادہ ترک کر دیا کہ… دنیاداری میں پڑے لوگ کبھی جہاد کی حمایت کرتے ہیں کبھی مخالفت…
کبھی دین کے طرف دار ہو جاتے ہیں کبھی بددینی کے… تو ان کی کس کس بات کو پکڑا جائے…
اچھا یہی ہے کہ جتنی عمر باقی ہے دین کے کام میں لگ جائے… دین کے کام اور دین کی دعوت
میں الحمد للہ نفع ہی نفع ہے… باقی یہ بات نہیں ہے کہ ’’دینی دعوت‘‘ کو لوگ پڑھتے نہیں…
الحمد للہ اُمت مسلمہ میں ’’خیر‘‘ موجود ہے… اور دینی جہادی دعوت کو پوری دنیا میں
مسلمان قبول کر رہے ہیں… اور اپنا رہے ہیں… اگر میں ان میں سے بعض کے خطوط اور جذبے
شائع کر دوں تو یقیناً آپ حیران ہوں گے کہ… کیسے کیسے ماحول میں رہنے والے نوجوان
مرد اور خواتین… الحمد للہ دین اور جہاد سے نظریاتی طور پر جڑ رہے ہیں… ماشاء اللہ
لاقوۃ الا باللہ
ایک اور ابراہیم
پہلے ہم نے پڑھ لیا کہ… کمان حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام
کی ایجاد ہے… اب ایک اور پیارے ابراہیم کا تذکرہ پڑھتے ہیں… یہ ہیں بادشاہت چھوڑ کر…
اللہ تعالیٰ کی محبت اور معرفت میں قربانیاں اٹھانے والے… اولیاء کرام کے سرتاج ، اہل
علم کے رہنما… حضرت الشیخ ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ… ان کے بارے میں یہ بات کہی
جاتی تھی کہ آپ علم کی مفتاح یعنی چابی تھے… ہاں بے شک ہم جب بھی ان کا تذکرہ اور
ان کے اقوال پڑھتے ہیں تو … علم کا کوئی نیا باب دل و دماغ میں روشن ہو جاتا ہے… اللہ
تعالیٰ ان کو مغفرت ، اکرام ، اعزاز اور جزائے خیر کا اعلیٰ مقام عطاء فرمائیں… مشارع
الاشواق سے ان کا یہ قصہ ملاحظہ فرمائیں…
’’ابو عبد اللہ الجوزجانی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ سمندر میں جہاد کے لئے
تشریف لے گئے، جس رات آپ کا انتقال ہوا تکلیف کی وجہ سے آپ کو پچیس بار قضائے حاجت
کے لئے جانا پڑا اور ہر بار آپ آ کر نماز کے لئے نیا وضو فرماتے تھے۔ جب انہیں موت
قریب محسوس ہوئی تو فرمایا: میری کمان تیار کر کے مجھے دے دو، چنانچہ انہوں نے کمان
اپنے ہاتھوں میں پکڑی اور اسی حال میں انتقال فرمایا ( التہذیب) مصنف ( ابن النحاس)
فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں انہوں نے ایسا اس لئے کیا تاکہ وہ قیامت کے دن اس حالت
میں کھڑے کئے جائیں کہ جہاد کے لئے کمان ان کے ہاتھ میں ہو…‘‘ ( فضائل جہاد)
سبحان اللہ… سمندری جہاد میں وفات جو کہ خود بڑی شہادت ہے… پھر پیٹ کی
تکلیف سے وفات جو کہ خود شہادت کا ایک باب ہے … اور پھر ہاتھ میں کمان اور اس کمان
میں جڑا ہوا تیر … سبحان اللہ! کیسا زبردست حسن خاتمہ ہے… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی جہاد
اور جہادی اسلحہ سے سچی محبت اور تعلق نصیب فرمائے… تیر کمان میں تو اللہ تعالیٰ نے
ویسے ہی بڑی برکت رکھی ہے… جو مسلمان اسے اپنے گلے میں لٹکائے اس کے دل کے غم دور ہو
جاتے ہیں…اور جو اچھی نیت سے خرید کر گھر میں رکھے تو اس کے گھر سے فقر و فاقہ چالیس
سال دور بھاگ جاتا ہے… حضرات صحابہ کرام اپنے ورثے اور ترکے میں… اپنی اولاد کے لئے
اور مجاہدین کے لئے اچھی سے اچھی تیر کمانیں چھوڑ کر جاتے تھے… حضرت سیدنا عقبہ بن
عامر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ… انہیں تیر اندازی کا بہت شغف تھا… وہ آخری
عمر تک بڑے اہتمام سے تیر اندازی کی مشق فرماتے رہے… اور پھر اپنے ورثے میں ستر سے
زائد کمانیں چھوڑ گئے اور وصیت فرمائی کہ… یہ سب کمانیں مجاہدین کو جہاد کے لئے دے
دی جائیں… خود حضرت آقا مدنیﷺنے اپنے مبارک ورثے میں پانچ یا اس سے زائد کمانیں چھوڑیں…
ہم اللہ تعالیٰ کا جس قدر شکر ادا کریں کم ہے کہ… اس نے ہمیں مرنے سے پہلے تیر اندازی
کی توفیق اور تیر کمان کی ملکیت عطاء فرمائی ہے… اللہ تعالیٰ مرتے دم تک اس نورانی
اور مبارک عمل سے جوڑے رکھے… اور امت مسلمہ میں اس عظیم سنت اور حکم کو جاری فرمائے…
ذوق دیکھیں، مہارت دیکھیں
بھائیو! اور بہنو! پرانی باتوں میں بڑی خیر ہے … پرانے طریقوں میں بڑی
بھلائی ہے… یہ قدامت پسندی نہیں… فطرت پسندی ہے… دیکھیں یہ حضرت آقا مدنی ﷺ کے خادم
ہیں… دس سال خدمت کا شرف… ارے کسی کو ایک لمحہ بھی… حضرت آقا مدنیﷺ کی خدمت کو موقع
مل جائے تو دو جہانوں سے بڑھ کر ہے… جبکہ ان کو دس سال یہ سعادت نصیب رہی… واہ انس!
تیری قسمت پر قربان… حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ روئے زمین کے خوش نصیب ترین انسانوں
میں سے ایک تھے…حضرت امام بیہقی نے سند صحیح کے ساتھ ان کا یہ عمل لکھا ہے کہ… ان کے
لئے بستر بچھا دیا جاتا جس پر وہ تشریف رکھتے … اور پھر ان کے سامنے ان کے بیٹے تیر
اندازی کرتے ( ماشاء اللہ ان کی اولاد کثیر تھی اور حضرت آقا مدنی ﷺ کی دعاء کا فیض
تھا) حضرت ثمامہ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت انس رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہم تیر اندازی
کر رہے تھے … فرمایا ! تم لوگ کتنی بُری تیر اندازی کر رہے ہو … پھر آپ نے کمان لے
لی اور تیر پھینکے تو کوئی تیر بھی ہدف سے خطا نہیں ہوا… (یعنی سب تیر درست نشانے پر
لگے)…
یہ تھا رسول کریم ﷺ کے تربیت یافتہ روشن ستاروں کا ذوق… اور یہ تھی ان
حضرات کی جہادی مہارت… الحمد للہ امت میں تیر اندازی واپس آ رہی ہے… ہم یہ سمجھ بیٹھے
تھے کہ… مروّجہ اسلحہ اب تیر اندازی کا قائم مقام ہے… اور یہ بات درست بھی ہے… مگر
اصل تو اصل ہوتا ہے… تیر اندازی اصل حکم ہے… اور اس کی برکات بے شمار ہیں… بس اتنا
یاد رہے کہ… تیر اندازی ہو یا گھڑ سواری… تیراکی ہو یا حجامہ… ان سب میں اچھی نیت اور
اخلاص ضروری ہے … اگر اللہ تعالیٰ موقع عطاء فرمائے تو ایک بار ’’فضائل جہاد‘‘ میں
سے… تیر اندازی کی فضیلت کا باب ضرور پڑھ لیں…
بہت کچھ ہاتھ لگ جائے گا… ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭