مقام عبدیت
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے
قلم سے (شمارہ 664)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا
’’ذکر‘‘ نصیب فرمائے …ذکر اللہ کے برابر کوئی عمل نہیں، کوئی چیز نہیں …ولذکراللّٰہ
اکبر… اللہ تعالیٰ کا ذکر سب سے بڑا… اللہ تعالیٰ سب سے بڑا… اللہ، اللہ، اللہ… ہماری
آج کی مجلس … ذکر اللہ کا طریقہ … اور حضرت بابا جی فرید الدین مسعود رحمہ اللہ تعالیٰ
کے کچھ وظائف…
ایک ضروری بات سمجھیں
’’ذکر
‘‘ کہتے ہیں ’’یاد‘‘ کو… ذکر اللہ کے کئی طریقے ہیں…بلکہ بے شمار طریقے ہیں… مگر سب
سے اہم یہ ہے کہ… بس اللہ تعالیٰ کی یاد ہو … نہ کوئی غرض نہ کوئی فریاد…بس اللہ کی
یاد… بس اللہ کی یاد… نہ کوئی دعاء نہ کوئی التجاء … صرف اللہ کی یاد… صرف اللہ کی
یاد… نہ کوئی خوف نہ کوئی امید… صرف اللہ تعالیٰ کی یاد… صرف اللہ تعالیٰ کی یاد… اللہ،
اللہ ، اللہ…اللہ تعالیٰ کو اپنی کسی غرض کے لئے یاد کرنا… کچھ برا نہیں…اللہ تعالیٰ
سے فریاد کر کے اسے پکارنا عبادت ہے… اللہ تعالیٰ سے دعاء کرنا عبادت کا مغز ہے… اللہ
تعالیٰ سے التجاء کرنا بڑی نیکی ہے …اللہ تعالیٰ سے خوف اور امید رکھنا… یہ ایمان کا
حصہ ہے… مگر کبھی کبھی… ایسی’’ یاد‘‘ جو بس’’ یاد‘‘ ہو … ایسا ’’ذکر‘‘ جو بس ’’ذکر‘‘
ہو… اللہ، اللہ، اللہ… زبان سے ہو یا دل سے… ہڈیوں سے ہو یا کھال سے… بس انسان ڈوب
جائے … اپنے محبوب اور مالک کا نام لیتا جائے اور اس میں ڈوبتا جائے… ڈوبتا جائے… اللہ،
اللہ، اللہ… نہ دائیں کی خبر نہ بائیں کی خبر…اللہ، اللہ ، اللہ… بس’’ اللہ‘‘ مل جائے،
’’اللہ‘‘ کی یاد مل جائے… انسان خود مٹتا جائے… اور اللہ، اللہ ہر چیز پر غالب آتا
جائے… یہ ذکر بہت اونچا ہے … بہت ضروری ہے، بہت کام آنے والا ہے … یہ اس طرح ہے جیسے
اپنی روح… اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دی… ایسے ذکر سے… اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں… اور
یہ ذکر انسان کو سیدھے راستے پر لے جاتا ہے… اللہ کا ذکر، اللہ کے لئے ، اللہ کی خاطر…
اللہ، اللہ، اللہ… اللہ
تعالیٰ نے بغیر مانگے ہمیں پیدا فرمایا… بغیر مانگے ہمیں پالا… بغیر مانگے ہمیں سانس
دے رہے ہیں… بغیر مانگے ہمیں ہوا اور پانی دے رہے ہیں… بغیر مانگے ہمارے جسم کا نظام
چلا رہے ہیں…اللہ تعالیٰ بغیر مانگے ہمارا خون چلا رہے ہیں… اللہ تعالیٰ ہمارے محبوب
ہیں… مالک ہیں رازق ہیں… ہم نے ان کی طرف لوٹنا ہے… دن رات ہم کیسی کیسی باتوں میں
اور یادوں میں کھوئے رہتے ہیں … کبھی اپنے حقیقی محسن، حسین اور محبوب کو بھی یاد کر
لیا کریں … سچی یاد … محبت بھری یاد… اس کی عظمت کا استحضار… اللہ، اللہ، اللہ…
نماز کے بعد یا معمولات
کے بعد… بس تھوڑی دیر آنکھیں بند کریں… اور زبان سے پڑھیں… اللہ، اللہ، اللہ… سانس
سے پڑھیں … اللہ، اللہ، اللہ…
پھر زبان بند کر دیں… اور
دل سے پڑھیں اللہ، اللہ، اللہ… اور پھر اسی میں کھو جائیں… ڈوب جائیں… اللہ، اللہ،
اللہ… اگر اس میں واقعی کھو گئے تو… اب آنکھیں برسیں گی… دل پاک ہو گا… اور نور ٹھاٹیں
مارے گا… تب خود کو بزرگ نہ سمجھ لیں… اس انتظار میں نہ جائیں کہ اب دنیا میں میرا
ادب کرے گی… بلکہ اسی ذکر میں ڈوب جائیں… اور اللہ کو بڑا اور خود کو چھوٹا دیکھتے
جائیں… ہم سمندر میں ہوں تو… سمندر سے کتنے چھوٹے… پہاڑ کے دامن میں ہوں تو ہم… پہاڑ
سے کتنے چھوٹے… ارے یہاں تو اللہ ہے… پہاڑ اور سمندر جس کے سامنے ایک ذرے کے برابر
نہیں… اور ہم تو ویسے ہی بے کار… اصلی ذکر… انسان میں عاجزی اور تواضع پیدا کرتا ہے…
کیونکہ دل پاک ہوتا ہے تو اس میں اپنی حقیقت نظر آتی ہے… نہ نماز سیدھی نہ کلمہ سیدھا…
بس غلاظت اور گندگی… اور گناہ ہی گناہ… اللہ تعالیٰ کا احسان کہ… وہ اتنا عظیم ہو کر
… ہم جیسوں کو اپنا نام لینے دے… اللہ، اللہ، اللہ…
ایک مشق
انسان کا دماغ ہر وقت متحرک
رہتا ہے… کسی ایک جگہ نہیں ٹکتا… گناہوں میں تو شیطان نے… ایک کشش لگا دی ہے… مقناطیس
…اس لئے … فلموں وغیرہ میں… لوگ ڈوب جاتے ہیں… مگر نماز اور ذکر میں… توجہ ایک طرف
نہیں رہتی… اگر رہے تو جلدی تھک جاتی ہے…
اس لئے روزانہ ایک مشق کیا
کریں… اس ’’مشق‘‘ سے خیالات کو قابو کرنا آسان ہو جاتا ہے … اور بکھرا ہوا ذہن مجتمع
ہو جاتا ہے… زمین پر بیٹھ جائیں… اگر مٹی یا گھاس ہو تو بہت اچھا… ورنہ فرش پر ہی بیٹھ
جائیں…
اب آنکھیں بند کر کے… اپنے
سانس کی نگرانی کریں… سانس اندر جا رہا ہے… سانس باہر نکل رہا ہے… پوری توجہ سانس پر
ہو… اور ہر سانس کی مکمل نگرانی ہو کہ… کب اندر گیا اور کب باہر نکلا… اس طرح روز بیس
سانس سے سو سانس تک یہ مشق کریں… اس سے ان شاء اللہ بہت فائدہ ہو گا… ایسے کئی افرادجن
کا دماغ کسی وجہ سے تھک جاتا ہے…ان کو بھی ہم یہی مشق بتاتے ہیں … بیچارے دماغ پر جب
ہم تین سو چینل چلائیں گے تو وہ گرم ہو گا…تھکے گا… تب اس میں طرح طرح کے غم… بدگمانیاں…
تنگی اور الجھن پیدا ہو گی… بہت سے لوگوں پر نہ جادو ہوتا ہے اور نہ جنات… بس ان کا
داغ تھک چکا ہوتا ہے… جب دماغ تھکتا ہے تو… وہ پورے بدن کو گرا دیتا ہے… اور دماغ اکثر
دو وجہ سے تھکتا ہے… ایک تو اوپر چڑھنے والی گیس… اور دوسرا خیالات کا بے ہنگم ہجوم…
اور آج کل نیند کی کمی … اور فون سکرین کی ریڈیائی لہریں بھی دماغ کو تھکا دیتی ہیں…
بہرحال دماغ تھک جائے تو وہ انسان کو طرح طرح کی اُلٹی حرکتوں اور شہوتوں میں ڈالتا
ہے … غم اور بدگمانی میں ڈالتا ہے… مایوسی اور بد دلی میں دھکیلتاہے… اور کبھی کبھی
تو … ’’نقلی فلمیں‘‘ بھی بنانے لگتا ہے…جیسا کہ بعض لوگ … کہتے ہیں کہ… مجھے یہ آواز
آ رہی ہے ، مجھے وہ آواز آ رہی ہے… پانی مجھ سے باتیں کر رہا ہے… دیواریں مجھے سمجھا
رہی ہیں… اور مجھے فلاں چیز نظر آ رہی ہے… جن نظر آ رہا ہے … روح نظر آ رہی ہے…
یہ سب کچھ دماغ کی تھکاوٹ اور خشکی سے ہوتا ہے… فون، ٹی وی وغیرہ کی سکرین پر زیادہ
دیر نظر ڈالنا چھوڑ دیں … اور اوپر جو ’’مشق‘‘ عرض کی ہے وہ کریں…
اور حضرت آقا مدنی ﷺ کی
سنت کے مطابق سر پر خوب تیل ڈالا کریں… کوئی دن تیل ڈالنے سے خالی نہ رہے… دماغ کو
تیل کی سخت ضرورت ہوتی ہے… کاش ہم ہر سنت کو ہی اپنا مستقل فیشن بنا لیں تو… ہمارے
لئے دنیا و آخرت میں کتنی خیر ہو جائے…
عبدیت … بندگی
ہم اللہ تعالیٰ کے ’’عبد‘‘
یعنی غلام اور بندے ہیں… آج ہماری پریشانیوں کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ… ہم میں ’’عبدیت‘‘
نہیں ہے… ہم ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ سے سودے بازی کرتے ہیں… ہم نے یہ کیا تو یہ
کیوں نہیں ہوا؟… نہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی عظمت کو سمجھا اور نہ اللہ تعالیٰ کے مقام
کو پہچانا… یہ اسلام کے فدائی آخر شہادت کی اتنی زیادہ تڑپ کیوں رکھتے ہیں؟ … کیا
ان کے جسم میں ہماری طرح خواہشات نہیں ہوتیں؟… کیا انہیں دنیا میں کچھ کشش محسوس نہیں
ہوتی؟… سب کچھ ہوتا ہے… مگر وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو تھوڑا سا پہچان لیتے ہیں تو
پھر… اس پر بے قرار ہوتے ہیں کہ… اتنے عظیم رب کو… ہم کیسے راضی کریں؟پھر ان کے پاس
جو سب سے آخری اور قیمتی چیز ہوتی ہے… یعنی اپنی جان… وہ اسے پیش کر کے… اللہ تعالیٰ
کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں… وہ سمجھتے ہیں کہ… اتنی عظیم بارگاہ میں… اس سے کم
چیز پیش کرنا بے ادبی ہے… اور دوسری طرف ہم ہیں کہ… دن رات اللہ تعالیٰ سے صرف سودے
بازی کرتے ہیں … اگر دنیا کے مسائل حل ہوتے رہیں تو ہم اعمال میں لگے رہتے ہیں… لیکن
اگر دنیا کے مسائل حل نہ ہوں تو ہم اعمال سے بھی ہٹ جاتے ہیں… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی
اپنا اصلی ذکر… اور اپنی حقیقی یاد نصیب فرمائے… صرف ایک دن … یعنی چوبیس گھنٹے تو
ہم… اللہ تعالیٰ کے ’’عبد‘‘ یعنی غلام بن کر گذاریں… نماز اسی کی رضاء کے لئے ادا کریں
… سارے اعمال اس کی رضاء کے لئے اداکریں…اور اسی کے ذکر میں ڈوبے رہیں … اللہ، اللہ،
اللہ…
مقام عبدیت
اللہ تعالیٰ کا ’’عبد‘‘
یعنی بندہ بننا ہی اصل مقام ہے… آج اسی کے لئے ذکر کا یہ ایک طریقہ… عرض کیا ہے …
روزانہ تھوڑی دیر… اس ذکر کو ہم اپنے معمولات میں شامل کر لیں… کیا معلوم کہ… ہمیں
بھی… عبدیت کے مقام کا … کچھ ذرہ نصیب ہو جائے… بات لمبی ہو گئی … اس لئے وظائف نہ
آ سکے… بہت معذرت … ذکر اللہ ہی سب سے بڑا وظیفہ ہے…
اللہ، اللہ، اللہ…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ
الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد
والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد
رسول اللّٰہ
٭…٭…٭