تین دلچسپ واقعات
رنگ و نور سعدی کے قلم سے(684)
اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ… میں ابھی تک زندہ ہوں… جبکہ دنیا بھر میں میرے مرنے کی خبر چل رہی ہے… بے شک اللہ تعالیٰ ہی اصل طاقت ، اصل اقتدار والے ہیں…
کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَأْنٍ
آج مارچ کی چار تاریخ 2019 ؁ء ہے … اصل اسلامی تاریخ ابھی جمادی الآخر کی ستائیس شروع ہو چکی ۱۴۴۰؁ھ کا سال ہے… پیر کا دن گذر گیا ابھی رات کے نو بجے ہیں… منگل کی رات شروع ہے… معلوم نہیں جب یہ تحریر آپ تک پہنچے گی تو اس وقت میں زندہ ہوں گا یا نہیں … موت ہر ذی روح کے سر پر کھڑی ہوتی ہے … اللہ تعالیٰ ہمیں خالص اپنی رضاء کے لئے… موت یعنی اپنی ملاقات کا شوق نصیب فرمائے… موت وہ پل ہے جو محبوب تک پہنچاتا ہے…
کُلٌّ اِلَیْنَا رَاجِعُوْنَ
اس لئے دل چاہتا ہے کہ آپ… سب اہل محبت سے… جی بھرکر باتیں کروں… اسی کے لئے استخارہ کی دو رکعت ادا کر کے… محبوب و مالک حقیقی سے مدد مانگ کر آ بیٹھا ہوں… ابھی لکھنا شروع ہی کر رہا تھا کہ… ایک اجتماعی کام آ گیا… اس کے لئے پانچ صفحات… یعنی ایک رنگ و نور کے برابر تحریر لکھنی پڑ گئی…لکھنے کا کافی سارا جذبہ تو ادھر بہہ گیا… اسی میں خیر ہو گی ان شاء للہ… وہ بھی بہت ضروری کام تھا… اللہ تعالیٰ اس تحریر کو بھی قبول فرمائیں… اور ہم سب کے لئے مفید رنگ و نور کی مجلس بھی نصیب فرمائیں… آئیے حضرت آقا مدنی ﷺ پر درود و سلام پڑھ لیتے ہیں…
اللھم صل وسلم وبارک علیٰ سیدنا ومولانا محمد ن النبی الامی وعلیٰ وصحبہ وبارک وصل وسلم تسلیما
چیخوں کے ذریعے دفاع
ہمیں جیل میں بھی کئی بار جیل ہوئی… جیل کے اندر جیل یہ ہوتی ہے کہ کسی قیدی کو… مزید سزا دینے کے لئے… الگ تھلگ سخت سیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے… یا جیل سے نکال کر چند دن کے لئے پھر… کسی عقوبت خانے یعنی ٹارچر سیل میں منتقل کر دیا جاتا ہے… یہ ہمارے ساتھ وہاں کئی بار ہوا…ایک بار ہمیں کوٹ بھلوال سنٹرل جیل سے … تالاب تلو جے آئی سی منتقل کر دیا گیا … وہ بڑی خوفناک وحشت ناک جگہ تھی … وہاںہر قیدی کو جاتے ہی زخمی کر دیا جاتا تھا تاکہ … کوئی بھاگ نہ سکے… ٹانگوں پر زخم دینے کا یہ طریقہ بہت وحشیانہ تھا… پھر کئی دن تک مسلسل ٹارچر کیا جاتا تھا… قصہ یہ عرض کرنا ہے کہ … ہمیں جب وہاں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تو کوشش رہتی تھی کہ چیخ و پکار نہ کریں … تب وہاں کے ایک تجربہ کار قیدی نے بتایا کہ … آپ لوگ اپنے اوپر یہ کیا ظلم کر رہے ہیں؟ … یہ جب بھی ماریں تو آپ سخت چیخا کریں اس سے یا تو مارنے والا گھبرا کر جلد چھوڑ دیتا ہے… یا اکثر اہلکار اپنے افسر کی اجازت کے بغیر شوقیہ ظلم کرتے ہیں…چیخنے سے انہیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ آواز افسر تک جائے گی اور وہ پوچھے گا کہ… بغیر تفتیش کے خوامخواہ کیوں مار رہے ہو؟… چنانچہ اس ڈر سے یہ جلد جان چھوڑ دیتے ہیں… ساتھیوں نے اس نصیحت پر عمل شروع کیا تو واقعی ٹارچر میں پچاس فی صد سے زائد کی کمی ہو گئی…اس میں ایک لطیفہ یہ ہوا کہ … ہمارے ایک ساتھی بلند آواز تھے …ایک بار ایک سپاہی ان کو مارنے کے لئے جیسے ہی ڈنڈا لے کر ان کے قریب بڑھا تو انہوں نے… ایسی بلند چیخ ماری کہ وہ سپاہی خوفزدہ ہو پیچھے بھاگا اور گرتے بچا… لگتا ہے آج کل یہ’’انڈین فارمولہ ‘‘ خود انڈیا استعمال کر رہا ہے… وہ مسلسل مار کھا رہا ہے … لیکن ساتھ چیخیں اتنی زوردار مارتا ہے کہ… ان سے ہمارے حکمران حضرات بھی کانپنے لگتے ہیں … پلوامہ میں کشمیری مجاہدین نے مارا تو انڈیا نے رو رو کر چیخ چیخ کر دنیا کو سر پر اُٹھا لیا… پھر حملے کی کوشش کی تو ناکام ہوا… پاکستانی بہادر افواج نے حملہ کیا تو… انڈیا کو خوب مار پڑی… جہاز گر گئے… پائلٹ پکڑا گیا… تب اس نے ایسی خوفناک چیخیں ماریں کہ… مارنے والے بھی گھبرا اُٹھے… ابھی صورتحال یہ ہے کہ انڈیا درد سے چیخ رہا ہے… پاکستان انڈیا کو مار کر اس کی چیخوں سے پریشان ہے… عالمی برادری تماشہ دیکھ رہی ہے… کبھی انڈیا کے سر پر ہاتھ رکھ کر سموسے کھا لیتی ہے اور کبھی پاکستان والوں کی حمایت میں ایک آدھ بیان دے کر چائے پی لیتی ہے…دیکھیں آگے کیا بنتا ہے … مجاہدین نے پاک انڈیا جنگ نہیں کرائی… یہ جنگ آر ایس ایس نے الیکشن جیتنے کے لئے شروع کی ہے … اور مجاہدین کے خوف کی وجہ سے… یہ جنگ آگے بڑھنے سے رکی ہوئی ہے…
پھر بھی… پاکستان میں کہا جا رہا ہے کہ… مجاہدین کشمیر نے ہمیں مروا دیا…ہمیں جنگ میں جھونک دیا… انڈیا کے حامی موم بتیاں پکڑ کر… اپنی لبرل ازم کی دال پکانا چاہ رہے ہیں…مگر اللہ تعالیٰ موجود ہے… اللہ تعالیٰ ایک ہے…اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے ساتھ ہے…
کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَأْنٍ
انڈیا کا مضبوط ترین ہتھیار
ہم جب سری نگر کے بادامی باغ ٹارچر سنٹر میں تھے تو… وہاں جو فوجی ہم پر مسلط رہتے تھے ان میں ایک ’’حوالدار‘‘ بھی تھا… وہ نشے کا عادی اور فخر میں غرق رہنے والا فوجی تھا… روز ہمیں اپنی بہادری کے قصے سناتا…چونکہ بے وقوف تھا تو ہمارے ساتھی… اس کے ساتھ کھیلتے تھے اور اسے ہر طرح سے نشانہ بناتے تھے…کبھی اس کے بازوؤں کی تعریف کر کے اس سے ڈنڈ ( پش اپ) نکلواتے تو کبھی…اس کے ہاتھوں کی مضبوطی کی تعریف کر کے لوہے کے دروازے پر مکے مرواتے … وہ ہیرو بننے کے لئے ہر کام بڑی لگن سے کرتا تھا… اور یوں مظلوم قیدیوں کو تفریح کا ایک سامان ملا ہوا تھا… ایک بار اس نے اپنا قصہ سنایا کہ… میں اپنے علاقے میں بہادر مشہور ہوں … اور میری بہن بھی بہت بہادر ہے… ایک بار گاؤں کے ایک بدمعاش نے میری پٹائی کی… اور مجھے بہت بری طرح سے مارا… میں مار کھا کر گھر آیا تو میری بہن سے میری حالت دیکھی نہ گئی اس نے کہا… میں ابھی بدلہ لیتی ہوں… وہ نئی ساڑھی پہن کر اس بدمعاش کے پاس گئی… اس کو باتوں میں لگا کر …اچانک اپنی ساڑھی اُتار پھینکی اور شور مچا دیا کہ … اس بدمعاش نے میرے ساتھ بدکاری کی ہے …بس پھر کیا تھا …لوگ جمع ہوگئے اور اس بدمعاش کو مار مار کر اس کا برا حال کر دیا… دو دن بعد میں گھر سے نکلا … اس بدمعاش کی طرف گیا تو وہ… پٹیاں باندھے بیٹھا تھا… میں نے اس کے پاس سے گذر کر اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا اور کہا… دیکھا میرا انتقام … حوالدار کی غیرت اور بہادری کا یہ قصہ سن کر ہم ہنستے ہنستے بے حال ہو گئے… اور وہ خوشی اور فخر کے ساتھ اکڑ کر چلتا رہا… یہ قصہ واقعی سچا ہے… میرے لئے اسے لکھنا کافی مشکل تھا مگر انڈیا کے مزاج اور ہتھیار کو سمجھنے کے لئے… یہ قصہ پوری ایک کتاب کا کام کرتا ہے…آج بالکل وہی صورتحال ہے…انڈیا ساڑھی اُتار کر چیخ رہا ہے … عالمی برادری کو بلا رہا ہے… اور ہمارے پیر جی قریشی صاحب … شرمائے شرمائے سے صفائیاں دیتے پھر رہے ہیں… کاش پاکستان کے حکمران … انڈیا کے مزاج کو سمجھ کر اس کے ساتھ معاملہ کریں تو… سارا دباؤ اور پریشانی ہی ختم ہو جائے گی… مگر نہ دباؤ ختم ہو رہا ہے اور نہ پریشانی … اور اس کی وجہ… پاکستان میں موجود… ’’اشوک طبقہ ‘‘ ہے… اشوک کون ہے؟اگلے قصے میں ملاحظہ فرمائیں…
ہاں بھئی نکالو دو خروڑ
تہاڑ جیل نمبر (2) کے سیکورٹی وارڈ میں مجھے … سات ماہ تک رکھا گیا تھا… اس وارڈ کی سیکورٹی بہت سخت تھی… اور یہ باقی جیل سے کٹا ہوا تھا…وارڈ میں کئی نامی گرامی قیدی تھے… جن کی تعداد چار سے چھ تک رہتی تھی… چونکہ یہ قیدی باہر کھلی جیل میں بھی نہیں جا سکتے تھے تو ان کو اپنا سامان وغیرہ منگوانے کے لئے… ایک مشقتی قیدی دیا جاتا تھا… وہیں اشوک سے ملاقات ہوئی… چھوٹے سے قد، تیز رنگ کا یہ ڈھیلا ڈھالا سا … ادھیڑ عمر قیدی سات سال سے اس جیل میں تھا… وہ ہمارا مشقتی تھا… جو صابن، صرف وغیرہ ہم نے منگوانا ہوتا وہ باہر کھلی جیل سے خرید لاتا… ماضی میں رکشہ ڈرائیور رہا تھا اور منشیات کے مقدمے میں سزا یافتہ تھا… جیل میں بھی کسی طرح وہ اپنا نشہ منگوا لیتا… اور اسی نشے کی وجہ سے… آہستہ آہستہ چلتا اور رک رک کر بولتا تھا… میں اسے اکثر نصیحت کرتا کہ نشہ چھوڑ دو …دودھ پیا کرو، گھی کھایا کرو… تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں …نشے سے مر جاؤ گے … ساتھ ساتھ اسلام کی بھی تبلیغ چلتی رہتی … اسی وجہ سے جب بھی وہ مجھ سے پیسے مانگتا تو کہتا … خان صاحب… کچھ پیسے دو دیسی گھی خریدنا ہے…
ایک بار میں نے اسے کہا کہ… جب چھوٹ جاؤ گے تو پھر رکشہ چلاؤ گے؟ … کہنے لگا اب کون رکشہ چلائے گا… سات سال میں جیل نے بہت کچھ سکھا دیا ہے… میں نے پوچھا:پھر کیا کرو گے؟ … کہنے لگا… ریل پر چڑھوں گا… پھر مالدار لوگوں کی بوگی میں گھس جاؤں گا… وہاں چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے ہیں… ان میں دیکھوں گا… جو مالدار اکیلا نظر آیا…جیب سے چاقو نکال کر کہوں گا…
ہاں بھئی دو خروڑ نکالو…
وہ نشے والی آواز کی وجہ سے کروڑ کو خروڑ کہہ رہا تھا… اس وقت بھی وہ نشے میں تھا…ہاتھ میں چاقو پکڑ کر دھمکی دینے کا پوز بنا رہا تھا تو ساتھ ساتھ کمزوری کی وجہ سے … جھوم بھی رہا تھا… لگتا تھا کہ ابھی گر پڑے گا… اس کی بات اور اس کے انداز کو جب بھی یاد کرتا ہوں بے اختیار مسکرا دیتا ہوں… ہمارے پاکستان کے لبرل لفافے ہر وقت … اسی فکر میں رہتے ہیں کہ…اس ملک سے کب دین کا صفایا ہو جائے… کب داڑھی پگڑی والے ختم ہو جائیں… کب یہاں جہاد کا نام لینے والا کوئی نہ رہے…ان کی خواہش ہے کہ یہ ملک بس ملالہ اور جبران جیسے لوگوں کا ہو جائے … ان ظالموں کو اس بات سے شرم آتی ہے کہ … اس ملک میں مدرسے بھی ہیں…مجاہد بھی ہیں…داڑھی والے بھی ہیں…یہ عالمی برادری سے بہت شرماتے ہیں کہ ہمارے ملک میںابھی تک پتھر کے زمانے کے لوگ موجود ہیں… ان لبرلز کا بس چلتا تو یہ… پاکستان سے دین کا ہر نشان مٹا دیتے… مگر یہ خود اشوک کی طرح نشیٔ ہیں کمزور ہیں…اور اپنی رنگینیوں میں مست ہیں …لیکن جیسے ہی پاکستان پر کچھ دباؤ پڑتا ہے اور یہاں کے حکمران… دینداروں کے خلاف کوئی آپریشن شروع کرتے ہیں تو… یہ ’’اشوک فیملی ‘‘ ہاتھ میں موم بتیوں کے چاقو لے کر… جھومنے لگتی ہے اور کہتی ہے کہ… نکالو ان شدت پسندوں کو … مارو ان انتہا پسندوں کو … اشوک جب اپنا پلان مجھے سنا رہا تھا تو میں سوچ رہا تھا کہ… اگر اس مالدار آدمی نے دو کروڑ نکالنے کی جگہ… زور سے پھونک بھی مار دی تو اشوک جی زمین پر چت پڑے ہوں گے… یہی حال یہاں کے لبرلز کا ہے … انہوں نے ابھی شدت پسند دیکھے نہیں ہیں …ان کی منحوس کوششوں سے… پاکستان کا دینی طبقہ… اگر ہتھے سے اُکھڑ گیا تو … پھر ان لبرلز کا کیا بنے گا؟…ابھی تو یہ بڑے مزے سے ویلنٹائن بھی منالیتے ہیں… نیو ائیر نائٹ پر بھی ہر بے حیائی کر لیتے ہیں… پورے ملک میں… یہ آرام سے پھرتے ہیں… لیکن اگر اصل شدت پسندی آ گئی تو… ان کے ساتھ وہ ہو گا کہ… یہ اس کے تصور سے بھی لرزیں گے… یہ جنرل ضیاء الحق کے تھوڑے سے اسلامی قوانین کو برداشت نہیں کر سکے تھے اور… ٹولیاں بنا بنا کر …اور خود کو سفارت خانوں میں اقلیتی مذہب کا پیروکار لکھوا کر… باہر بھاگ گئے تھے…
پاکستان میں الحمد للہ … دین بھی مضبوط ہے اور دیندار مسلمانوں کی تعداد بھی… ان لبرلز کے وہم و گمان سے بہت زیادہ ہے… آج بھی دین کی ایک آواز پر لاکھوں مسلمان جمع ہو جاتے ہیں اور دین کی خاطر اپنی جانیں خوشی سے قربان کرنے والوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے… حکمرانوں کو چاہیے کہ… جس طرح وہ اپنے معاشرے میں اللہ تعالیٰ کے باغی لبرلز کو برداشت کر رہے ہیں اسی طرح… اللہ تعالیٰ کے وفادار بندوں کو بھی برداشت کریں…اور دباؤ ڈالنے والی… عالمی برادری کو بتائیں کہ… ہمارا ملک ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کا سٹوڈیو نہیں ہے کہ… تمہیں یہاں صرف لبرلز نظر آئیں…یہ مسلمانوں کا ملک ہے… یہاںہر طرح کے لوگ موجود ہیں … اور ہم ان سب کے حکمران ہیں… ہمارے حکمران… اگر آج … صرف لبرلز کی وکالت کریں گے تو کیا… پاکستان کے دینی غیرت سے سرشار مسلمان … اپنے لئے کوئی اور وزیر اعظم کوئی اور وزیرخارجہ تلاش کریں؟ … اللہ کے بندو!… اللہ تعالیٰ سے ڈرو… مساجد، مدارس اور مجاہدین پرشک کرنا بند کرو… تحریک کشمیر کے ساتھ بے وفائی کا سوچو بھی نہ… کیونکہ جب مسلمان کسی میدان میں مشرکین سے مقابلہ شروع کر دیں تو پھر…جو مسلمان اس میدان سے بھاگے گا… اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے… یہ قرآن کا حتمی فیصلہ ہے… عالمی برادری کے دباؤ کو محسوس کرنے والو… اللہ تعالیٰ کے حکم کا بھی کچھ دباؤ محسوس کرو… کشمیر کی تحریک سے بے وفائی کر کے… اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت نہ دو… عالمی برادری سے … تمہیں اللہ بچا لے گا… اور مگر اللہ تعالیٰ کے غضب سے کوئی بچانے والا نہیں ہے… سوائے اللہ تعالیٰ کے …
اللھم لا ملجأ ولامنجأ منک الا الیک ولا حول ولا قوۃ الا بک
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭