تم ہی غالب ہو اگر تم ایمان والے ہو
کلمۂ حق… ۔۔۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 674)
حریت پسندوں اور آزاد منش انسانوں کی سرزمین ہمیشہ ہی ناقابل فراموش داستانیں جنم دیتی رہتی ہے۔ جو قومیں زندہ رہنے کی خواہش مند ہوتی ہیں وہ ہلاکت کو کبھی اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیتیں… اور اس میں کیا شک ہے کہ غلامی سب سے بڑی، بھیانک اور خوفناک موت ہے۔ غلام جیتے جی مردہ ہوتے ہیں اور آزاد مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔
ملا محمد عمر مجاہد ؒ  اور ان کی زیر قیادت افغانستان کے کوہساروں میں سربکف ہو کر جنگ آزادی لڑنے والے ایک ایسی ہی زندہ دل اور روشن ضمیر قوم سے تعلق رکھتے ہیں…!
کیا آپ کو یاد ہے وہ دن، جب فراعنہ وقت اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ طالبان کی نہتی حکومت کے خاتمے کیلئے چڑھ دوڑے تھے؟ صلیب کے سائے تلے امنڈ آنے والا لشکر ہر طرح کے جدید اسلحہ سے لیس ہو کر افغان سرزمین پر اترا تھا۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ مزار شریف، کابل، قندوز اور جلال آباد سب کچھ طالبان کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ کہنے والوں نے کہا کہ دیکھو اتنی ہی ہمت تھی تو سپر پاور سے ٹکر کیوں لی تھی؟ پھر ایک لمحہ آیا… بڑا ہی کربناک، کٹھن، صبر آزما اور مشکل مرحلہ، جب طالبان نے قندھار بھی چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ اس دن امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد ؒنے تحریک کے سرکردہ راہنماؤں کو جمع کیا، بیت المال کی امانتیں ان کے حوالے کیں اور پھر اپنے دوساتھیوں کے ہمراہ نامعلوم مقام کی جانب چل دیئے۔
یوں ۱۹۹۴ء میں منظر عام پر آنے والی تحریک طالبان ۲۰۰۱ء میں بظاہر اختتام پذیر ہوگئی۔ فاتح امریکہ نے اعلان کیا کہ طالبان کا خاتمہ ہوگیا۔ دشمنوں نے خوشیاں منائیں کہ اسلام کے احکام کو زمین پر عملی شکل میں نافذ کرنے والوں کو نیست ونابود کردیا گیا اور دلوں میں نفاق لیے پھرنے والوں نے مسرت کے شادیانے بجائے کہ ان کی رسم غلامی پر قدغن لگانے والوں کے اپنے سر کچلے گئے۔
مگر صرف چند سال میں… یہ سب کچھ ایک خواب ثابت ہوا۔ حیرت انگیز اورتعجب خیز خواب، ناقابل یقین خواب… اور اس خواب کے ختم ہوتے ہی دنیا نے جو نظارہ دیکھا وہ اسلام کی روشن، سنہری اور تابندہ تاریخ کا تسلسل تھا۔ ممولہ شہباز سے لڑ پڑا تھا، بندوق ٹینک کا مقابلہ کر رہی تھی، پتھر بموں کے بدلے چکا رہے تھے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ ایمان کفر کے سینے پر چڑھ بیٹھا تھا، سچائی مکر وفریب کا گلا کاٹ رہی تھی، ستم کی گردن کمزور کی چھری تلے نظر آرہی تھی اور طاقت وقوت اپنے ہاتھوں انجام کو پہنچنے والے مظلوم کی حیات نو پر انگشت بدنداں دکھائی دے رہی تھی…!
’’کابل توبالکل بغداد کی طرح ہے اور افغانستان عراق کی طرح۔ کیا ان لوگوں نے ہم سے یہ نہیں کہا تھا کہ افغانستان میں جنگ ختم ہوگئی اور عن قریب پورے ملک میں امن وسلامتی خیمہ زن ہوجائے گی؟‘‘
یہ وہ الفاظ ہیں جو اٹلی کے ایک ممتاز صحافی ’’انر کوبیوسنا‘‘ نے افغانستان کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہے  تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ طالبان کے قندھار سے چلے جانے کے بعد استعمار نے یہی اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں جنگجوؤں کا خاتمہ ہوگیا ہے، اب امریکہ اور مغربی ممالک کی زیر قیادت اس ملک میں مثالی امن وامان قائم ہوگااور اسلامی و مقامی روایات و ثقافت کو دفن کر کے اس قبرستان پر جلد ہی یورپ کی مادر پدر آزاد ننگی تہذیب کے شہر بسائے جائیں گے۔
واہ رے عقلمندی!… جب امن وسکون کا یہ عالم تھا کہ قندھار تا کابل سفر کرنے والی ایک تن تنہا خاتون کی طرف کسی کو نگاہ بد اٹھانے کی جرأت نہ تھی، اس وقت افغانستان کو بد امنی کا گہوارہ قرار دیا جاتاتھا اور جب امن غارت ہوگیا، سکون برباد ہوگیا، ستم عام ہوا اور تشدد پھیل گیا، تب کہا گیا کہ افغانستان میں امن وسکون خیمہ زن ہورہے ہیں… یہی مغرب کی وہ دوغلی پالیسی ہے جسے وہ عالم اسلام کے حق میں ہمیشہ جاری رکھنا چاہتا ہے۔اگر آپ امارت اسلامیہ کی تحریک کے بارے میں پھیلائے ہوئے وساوس اور شبہات کو جمع کریں تو پوری ایک لائبریری تیار ہو سکتی ہے ،لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے برادر عزیز مولانا محمد مقصود احمد شہید ؒ کی دو کتابیں ’’خاک وخون‘‘ اور ’’میں نے کابل بستے دیکھا‘‘ان سب پر بھاری ہیں ۔
سچ چھپائے نہیں چھپتا اور جھوٹ خواہ پھول پھول کر کتنا ہی کپا کیوں نہ ہوجائے، بالآخر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتا ہے۔ مسلم ممالک کے حکمران اور دانشور  ابھی محو حیرت ہیں کہ ان بدلتے رنگوں پر کیا کہیں اور کیونکر لب کھولیں مگر دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی تو نہیں جو وہی کہتے ہیں جو دیکھتے ہیں اور وہی بولتے ہیں جو صحیح سمجھتے ہیں۔ بے شمار بین الاقوامی ماہرین حرب اور عسکری مبصرین یہ گواہی دینے پر مجبور نظر آرہے ہیں کہ افغانستان میں جہاد آزادی ایک فیصلہ کن کامیابی کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔
ہر سال کی طرح گزشتہ سال کا موسم گرما افغانستان میں اجنبی افواج کیلئے بڑی قیامتیں لے کر آیا اور موسم سرما شروع ہونے تک پیمپرپہن کر لڑنے والی دلیر افواج مذاکرات کے لیے بے چین ہو چکی تھیں ۔ اپنے ایمان کی تازگی کے لیے آئیں ! ایک نظر ان  نامرادیوں کی اس داستان پرڈالتے ہیں، جو حسب روایت افغانستان پر قبضہ کرنے والوں کی تاریخ میں شرمندگی کے ایک نئے باب کا اضافہ کر رہی ہے۔
امریکی حملے کے نتیجے میں قندھار سے انخلاء کرتے ہوئے طالبان نے اعلان کیا تھا کہ ’’اصل جنگ اب شروع ہوئی ہے۔‘‘ یہ اعلان واقعی حیران کن تھا۔ کیونکہ دنیا یہ یقین کر چکی تھی کہ طالبان اب ماضی کا قصہ پارینہ بن جائیں گے، جنہیں افسانوں کا عنوان تو بنایا جائے گا، لیکن زمینی حقائق سے اس تحریک کا کوئی تعلق نہ رہے گا… مگر آنے والے وقت میں طالبان نے یہ ثابت کر دکھایا کہ واقعی … ’’اصل جنگ اب شروع ہوئی ہے۔‘‘
اس جنگ کا سب سے اہم اور بنیادی نکتہ یہ تھا کہ طالبان اپنے دشمن کو اپنے مرضی کے میدان میں لا کر اسے ناکوں چنے چبوا تے رہے ہیں اور دنیا بھر کے عسکری ماہرین اس امر پر اتفاق رکھتے ہیں کہ یہ صورت حال کامیاب جنگی حکمت عملی کی پہلی سیڑھی ہے۔
گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکہ میں پیش آنے والے واقعات کے بعد امریکی حکمرانوں نے دعو یٰ کیا تھا کہ وہ اپنے دشمنوں کو نیست ونابود کردیں گے۔  نام نہادعزت مآب، خود ساختہ شہنشاہ معظم اس خارزار میں یکتائی کے تمام تر غرور اور فتح وبرتری کے تمام دعوؤں کے ساتھ اترے تھے، انہوں نے کہا تھا کہ کوئی ہمارا ساتھ دے یا نہ دے، ہم یہ جنگ ضرور لڑیں گے اور نہ صرف لڑیں گے، بلکہ اپنے سینہ زور دشمن کو کچل کر رکھ دیں گے، اس کی طاقت خاک میں ملا دیں گے، اس کے ٹھکانوں کو تباہ وبرباد کر ڈالیں گے، اس کے منصوبوں کے تانے بانے ادھیڑ ڈالیں گے۔ اسے بحر وبر میں ماریں گے، فضا میں شکست دیں گے، اسے لڑنے کے قابل چھوڑیں گے نہ کھڑا ہونے کے قابل، اسے ٹھہرنے دیں گے اور نہ ہی بھاگ نے کا موقع۔ یہ سب کچھ اور انہوں نے بہت کچھ کہا۔ اس سے بھی بہت زیادہ جو فرعون نے موسیٰ اورہارون علیہما السلام سے کہا تھا اور یہ سب کچھ بظاہر ناممکن نہیں تھا۔
 وجہ صاف ظاہر تھی کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے پاس وہ سب کچھ تھا جس سے ہنستی بستی بستیاں اجاڑی جاسکتی ہیں، ملک کے ملک ویران کیے جاسکتے ہیں، جیتے جاگتے انسانوں کو خاک وخون میں ملایا جاسکتا ہے، ہر سر اٹھانے والے کی گردن توڑی جاسکتی ہے، ہر کھڑا ہونے والے کی کمر کے مہرے چکنا چور کیے جاسکتے ہیں۔ شہروں کے شہر نگل جانے والی آگ برسانے والے طیارے، خوفناک ٹینک جو چلتے تو زمین تھرا جاتی، دیوہیکل توپیں، جن کی مار دشمن کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارتی، تباہ کن میزائل جو اپنے نشانے کا تعاقب کرتے کرتے تنگ وتاریک غاروں میں گھس جاتے اور پھر جو نہی وہ اس کی پہنچ میں آتا، صفحہ ہستی سے مٹ جاتا۔ اتنا سارا سامان حرب لے کر جب انہوں نے اس جنگ کا آغاز کیا، تو ان کے نمائندے نے ایک باوردی جرنیل سے صرف اتنا کہنے کی زحمت کی تھی کہ اب آپ کو ایک فیصلہ کرنا ہوگا ’’ہم یا ہمارے دشمن؟‘‘
یہ غرور کی انتہا اور تکبر کی حد تھی… مگر خدائی کا زعم رکھنے والے اس حد کو بھی پھلانگ گئے۔ تب ’’خدائی فوجداروں‘‘ نے اپنا کام شروع کیا اور طالبان نے جہاد آزادی کا پرچم بلند کرکے ’’الٹی گنتی‘‘ کا آغاز کردیا۔
امریکہ کے خلاف طالبان کی کامیاب جنگ کا پہلا مرحلہ امریکی سفاکیت اور جبر وستم کا حوصلے اور استقلال کے ساتھ سامنا ہے۔ ۷ اور ۸؍اکتوبر ۲۰۰۱ء کی درمیانی شب شروع ہونے والے خوفناک صلیبی حملے واقعی اس قدر شدید تھے
 کہ طالبان جیسی نہتی حکومت اور افغانستان کے بے بس عوام ان کے سامنے بند نہیں باندھ سکتے تھے۔ ایسے میں طالبان نے کمال ہوشیاری کا ثبوت دیتے ہوئے مرحلہ بہ مرحلہ افغانستان کے مختلف شہروں سے منظم انخلاء کا طریق کار اپنایا۔ یہ اپنی جنگی طاقت کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریق کار تھا۔ طالبان نے اپنی افرادی قوت کو سمیٹ لیا، حتی کہ قندھار سے ان کے نکل جانے کے بعد وہ ڈھونڈ نے سے بھی نظر نہ آتے تھے۔ امریکہ ہزار دعوے کرتا رہا، لیکن یہ بات کسی سے مخفی نہ رہی کہ طالبان بہت تھوڑی تعداد میں امریکی حملے کی زد میں آئے اور باقی سب محفوظ رہ گئے۔ ان طالبان نے کب کہاں اور کیسے پناہ حاصل کی یہ بات نہ اس وقت کسی کو پتہ چل سکی اور نہ آج تک امریکی کھوجی اس بابت کچھ جان سکے۔
اس طریق کار پر عمل پیراہوتے ہوئے طالبان نے کامیابی کے ساتھ اپنی عسکری طاقت کا تحفظ کیا۔ وہ جانتے تھے کہ اس وقت امریکہ بدمست ہاتھی کی طرح افغانستان پر چڑھ دوڑا ہے اور بغیر کچھ سوچے سمجھے ہر سامنے آنے والے کو تباہ وبرباد کرنے کے درپے ہے۔ طاقت کے تمام وسائل وذرائع بروئے کار لائے جارہے ہیں اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ملبے تلے دبی لاشوں کا قصاص، افغانستان کے بے گناہ عوام سے لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جنگی جنون کی اس وحشت کے سامنے آنے کی بجائے کچھ دیر کو ایک طرف کھڑے ہو جانا زیادہ بہتر ہے کہ اس طرح ہاتھی اپنا سرخود ہی کوہساروں سے ٹکرائے گا اور پھر ہوش میں آئے گا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے کچھ سود مند بھی ہے یا بے فائدہ ہی وہ اپنی طاقت گنواتا چلا جارہاہے؟
 واقعی پھر ایسا ہوا۔ امریکہ طالبان کو نشانہ بناتے بناتے خود نشانہ بن گیا۔ دنیا کے ہر انصاف پسند شخص نے اس کی اس اندھی پالیسی پر کڑی تنقید اور نکتہ چینی کی جس
 کے تحت وہ طالبان کی بجائے افغان عوام کو نشانہ بنا رہا تھا۔ بات صرف لوگوں کی باتوں کی نہ تھی بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ یہ سوچنے پر مجبور ہوچکا تھا نہ نظر آنے والے طالبان کو وہ کیسے نشانہ بنائے، کیسے ان پر بمباری کرے اور کیونکر ان کاخاتمہ ممکن بنائے؟
اب اس کے پاس یہی راستہ تھا کہ اندھا دھند بمباری اور بے تحاشا حملے روک دئیے جائیں اور خفیہ آپریشنوں اور مشنوں کے ذریعے اپنا ہدف حاصل کیا جائے۔ چنانچہ جنگ کے خاتمہ کا اعلان کردیا گیا، یہ کہہ کر کہ افغانستان میں امن وامان قائم ہوگیا ہے اور بچے کھچے طالبان کو بہت جلد ہی پکڑ پکڑ کر انجام بدسے دوچار کردیاجائے گا۔یہ مجبوری تھی، جسے حکمت عملی کا نام دیا جارہاتھا… اور قدرت اس مجبوری پر مسکرا رہی تھی…!
پھر اس ’’مجبوری‘‘پر مختلف مرحلے آئے۔کبھی دنیا کے غریب ترین ممالک کو ڈرا دھمکا کر اور پڑوس کی ایٹمی طاقت کو لالچ دے کر فوج بھیجنے کے لیے آمادہ کیا جاتا رہا ۔کبھی امارت اسلامیہ کی اکائی کو توڑنے کے لیے نت نئے گروپ کھڑے کیے گئے۔کبھی علما ئو مشائخ کانفرنس کے نام پرجدوجہد آزادی میں مصروف جانثاروں کے حوصلے توڑنے کی کوششیں کی گئیں ،کبھی اپنے فوجیوں کے مورال کو بلند کرنے کے لیے جھوٹے دعوے پھیلائے گئے۔
ان سب کوششوں میں کون کون عالمی طاقت کے ہمراہ تھا اور کس کس نے اپناکندھا انکل سام کو اپنی بندوق رکھنے کے لیے فراہم کیا،اس فہرست میں صرف صلیب پرستوں کے ہی نام نہیں آتے بلکہ اسلام کے بڑے بڑے ٹھیکیدار بھی امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑے تھے ،لیکن آج کا کھلا سچ ،کھرا سچ اور سو فیصد سچ یہ ہے کہ :
وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین
(اور تم ہی غالب ہو اگر تم ایمان والے ہو)
پر یقین رکھنے والوں کے مقابلے میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل سپر پاور کی بدترین شکست نوشتہ ٔدیوار بن چکی ہے۔ان شاء اللّٰہ تعالیٰ
ہم فرزندان توحید کی مکمل کامیابی اور گوانٹاموبے جیسے اذ یت خانے آباد کرنے والے صلیبی درندوں کی کامل ذلت و رسوائی کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا گوہیں۔ 
٭…٭…٭