معرفت کا خزینہ مدینہ مدینہ

اللہ تعالیٰ میری اور آپ سب کی نماز…جاندار بنائیں ، شاندار بنائیں…ایسی نماز نصیب فرمائیں جو قبول ہو اور ایسی نہ ہو کہ… گندے کپڑے کی طرح واپس ہمارے منہ پر مار دی جائے…

تھوڑا سا سوچیں

نماز کے بغیر ایمان کا سلامت رہنا بہت مشکل ہے… اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمیں ’’نماز‘‘ کی توفیق بخشی ہے… بے نمازی کا کچھ پتا نہیں کہ… مسلمان رہتا ہے یا نہیں… ہمیں ”نماز“ نصیب ہوئی اس پر ہمیشہ شکر ادا کیا کریں…ہر نماز کے بعد باقاعدہ احسان مان کر شکر… مگر ہمیں یہ فکر ہونی چاہیے … اور ہمیشہ ہونی چاہیے کہ… ہماری ’’نماز‘‘ حقیقی نماز بن جائے… نماز کیا ہے ؟ شہنشاہ اعظم ، مالک الملک کے دربار میں حاضری … رب العالمین سے باتیں اور مناجات… اور ایک روحانی سفر… کیا ہماری نماز میں حاضری اور حضوری ہے…؟کیا اس میں بات چیت کا تبادلہ ہوتا ہے؟…یعنی ہم بولیں اور وہ جواب ارشاد فرمائیں… ہم مانگیں اور وہ قبولیت کا حکم صادر فرمائیں…کیا ہم کبھی اپنی نماز میں زمین سے اوپر اٹھے ہیں؟…نہیں اٹھتے تو پھر نماز ’’معراج‘‘کیسے ہو گئی…معراج میں تو ’’عروج‘‘ ہوتا ہے…یعنی بلندی کا سفر…اونچی پرواز… نماز سب سے بڑی عبادت ہے…اور عبادت وہ ہوتی ہے جو روح سے ہو ، دل سے ہو، جسم سے ہو ، جان سے ہو…یعنی پوری غلامی پکی غلامی … اگر ہمیں نماز میں یہ ہی معلوم نہ ہو کہ ہم نے کیا پڑھا ؟ کیا کہا …کیا سنا؟ اور کیا مانگا؟ تو پھر ہماری نماز… نماز کیسے بنے گی؟… تھوڑا سا سوچیں کہ… ہم اگر بے توجہی والی نماز پڑھیں گے تب بھی وہی وقت لگے گا… اور اگر توجہ سے پڑھیں گے تب بھی اتنا ہی وقت لگے گا… نماز ہمیں اس لئے دی گئی کہ… یہ ہماری سب سے اَہم ضرورت ہے…جی ہاں نماز اللہ تعالیٰ کی ضرورت نہیں ہے… یہ ہماری ضرورت ہے… اللہ تعالیٰ ’’اَلْغَنِیْ‘‘ ہیں، اَلْمُغْنِی ہیں اور ’’اَلصَّمَدْ‘‘ ہیں… بے نیاز …غنی بادشاہ… کسی کی عبادت کے بالکل محتاج اور ضرورتمند نہیں… جبکہ ہم انسان …” ظَلُومْ “ہیں …بڑے ظالم … ’’جَہُولْ‘‘ ہیں… بڑے جاہل… ضَعِیفْ ہیں بہت کمزور، ’’عَجُولْ‘‘ ہیں بہت جلد باز …’’قَتُورْ‘‘ ہیں تنگ دل… ’’ھَلُوعْ“‘ ہیں بے حوصلہ…ہم ایک پانی کے قطرے اور مٹی سے بنے ہیں…ہم جسم کے اَندھیروں میں قید… اور خواہشات کے کنویں میں بند ہیں…ہمیں ضرورت ہے علم کی، روشنی کی… طاقت کی ، حوصلے کی، مضبوطی کی ، نور کی… اور آزادی کی… یہ سب کچھ نماز سے ملتا ہے… صرف یہی کچھ نہیں… بہت کچھ ملتا ہے…نماز ہمارے تمام مسائل کا حل ہے وہ دنیا کے مسائل ہوں…یا آخرت کے… نماز کے بغیر ہم انسان نہیں بن سکتے… نماز کے بغیر ہم حقیقی مسلمان نہیں بن سکتے…نماز کے بغیر ہم بااخلاق نہیں بن سکتے…نماز کے بغیر ہم متقی نہیں بن سکتے…نماز کے بغیر ہم اندھیروں سے نہیں نکل سکتے…نماز کے بغیر ہم قبر اور آخرت میں کامیاب نہیںہو سکتے…نماز کے بغیر ہم سکون نہیں پا سکتے… اطمینان نہیں پا سکتے، پاکیزہ رزق نہیں پا سکتے…نماز کے بغیر ہم اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق حاصل نہیں کر سکتے… نماز کے بغیر ہم اس دنیا سے خوش و خرم آخرت کی طرف نہیں جا سکتے…

نماز ہماری ضرورت ہے… ایمان کے بعد سب سے بڑی ضرورت…یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ انہوں نے ہماری یہ ضرورت پوری فرمائی… ہمیں پانچ وقت کی فرض نماز… جمعہ اور عیدین کا پُرنور اجتماع…اور وتر کی عزت والی نماز عطا فرمائی… اور چوبیس گھنٹے ہمارے لئے نماز اور سجدے کا دروازہ کھلا رکھا… سوائے چند منٹ کے… یہ چند منٹ چھوڑ کر باقی ہم جب چاہیں … نماز کے بُراق پر سوار ہو کر… بارگاہِ اِلٰہی میں حاضر ہو سکتے ہیں… ان سے جی بھر کر باتیں کر سکتے ہیں…ان کا محبت بھرا جواب پا سکتے ہیں… ان سے اپنے مسائل حل کروا سکتے ہیں اور ان کے بہت ہی قرب کا مقام سجدے میں حاصل کر سکتے ہیں… اس لئے ہر مسلمان اپنی نماز کو حقیقی نماز بنانے کی فکر کرے، دعاء کرے ، محنت کرے…

ایک بہت عجیب اور پُرکیف منظر

اللہ کرے یہ منظر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہم سب کے دلوں میں اُتر جائے… یہ منظر اس قدر سچا اور حقیقی ہے کہ اسے خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے… یا اللہ! آپ کا بے حد شکر… آپ نے یہ منظر اِرشاد فرمایا… اپنے بندوں پر اتنا عظیم احسان فرمایا… اللہ تعالیٰ کا ارشاد فرمودہ منظر ایک حدیث کے ذریعے ہمارے محبوب آقا مدنی ﷺ نے امت تک پہنچایا… اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلیٰ آلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ … اللہ تعالیٰ حضرت آقا محمد مدنی ﷺ کو اپنی اور ان کی شان کے مطابق جزائے خیر عطا ءفرمائے… جَزَی اللہُ عَنَّا مُحَمَّداً صَلّٰی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ بِمَا ھُوَ اَہْلُہْ…

حضور اقدس ﷺ کی یہ حدیث امت کو… حضرت سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے سنائی ہے… اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کی والدہ معظمہ محترمہ کو جزائے خیر اور مغفرت کاملہ عطاء فرمائیں…حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ … اپنی حیات مبارکہ میں ان سب مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعاء مانگا کرتے تھے جو مسلمان… ان کے لئے اور ان کی والدہ محترمہ کے لئے اِستغفار کریں… اسی لئے ہم کہتے ہیں… اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِاَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَ لِاُمِّہْ…رَضِیَ اللہُ عَنْھَا…

پھر یہ حدیث مبارک ہم تک… کئی سچے اور ثقہ راویوں کے ذریعے حضرت امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے پہنچائی…اللہ تعالیٰ ان تمام راوی حضرات اور امام مسلم کو جزائے خیر اور مغفرت عطاء فرمائیں… ہم نے مسلم شریف کی یہ حدیث اپنے صاحب علم و عمل و تقویٰ استاذ حضرت اقدس مولانا محمد ادریس صاحب میرٹھی رحمہ اللہ تعالیٰ سے پڑھی…وہ شاگرد تھے امام العصر حضرت مولانا سید اَنور شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کے … اللہ تعالیٰ حضرت استاذِ محترم … اور ان کے استاذ محترم امام العصر حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ… اور آگے امام مسلم تک ان کے تمام اساتذہ کی مغفرت فرمائیں اور انہیںجزائے خیر عطاء فرمائیں… لیجئے منظر دیکھئے اور اسے بار بار پڑھ کر اور دوسروں کوبار بار سنا کر اپنے دل پر نقش کر لیں… مجھے یقین ہے کہ… اس کی برکت سے ہماری نماز میں ایک عجیب نور اور ایک عجیب لذت آ جائے گی…

’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : میں نے نماز ( یعنی سورہ فاتحہ) اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کر دی ہے… اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے پس جب بندہ کہتا ہے” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ “اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’حَمِدَنِی عَبْدِی‘‘ ( میرے بندے نے میری حمد کی ہے) اور جب بندہ کہتا ہے’’اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ اَثْنٰی عَلَیَّ عَبْدِیْ‘‘ ( میرے بندے نے میری ثناء بیان کی ہے)اور جب بندہ کہتا ہے ’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’مَجَّدَنِیْ عَبْدِیْ‘‘ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے…جب بندہ کہتا ہے ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ہٰذَا بَیْنِی وَ بَیْنَ عَبْدِیْ وَ لِعَبْدِیْ مَاسَأَلَ ‘‘ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کو وہ ملے گا جو اس نے مانگا، پھر جب بندہ کہتا ہے ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّالِّیْنَ ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ ھٰذَا لِعَبْدِیْ وَ لِعَبْدِیْ مَاسَأَلَ‘‘ یہ میرے بندے کے لئے ہے، اورمیرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا … (صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ ص ۱۵۴)

سبحان اللہ! سبحان اللہ! کیسا عجیب حیرت انگیز اور خوش نما منظر ہے، ہم نے فاتحہ شریف شروع کی… اور رابطہ شروع ہوگیا… ہم پڑھ رہے ہیں اور وہاں سے تصدیق آرہی ہے کہ… ہاں میرے بندے تو نے سچ کہا… ہم مانگ رہے ہیں… اور وہاں سے منظوری کا فیصلہ نقد سنایا جا رہا ہے… بندے کے پڑھنے پر اللہ تعالیٰ کا جواب ضرورآتا ہے… مگر بندہ کچھ سمجھے بھی کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے؟ کیا بول رہا ہے؟اور کیا اسے اپنے بولے کا یقین بھی ہے یا نہیں؟ بس جو بندہ سمجھ کر پڑھتا ہے …اور اس پر یقین بھی رکھتا ہے تو اسے ضرور جواب ملتا ہے… بعض اللہ والے یہ جواب سنتے ہیں… بعض کو یہ محسوس ہوتا ہے … اور بعض کو اسکی کیفیت سے سرشاری نصیب ہوتی ہے… آپ سورئہ فاتحہ اس طرح سے ہر نماز میں پڑھیں… آپ کی نماز حلاوت، مٹھاس اورتوجہ سے بھر جائے گی… اور آپ کا دل چاہے گا کہ… بار بار فاتحہ پڑھتے رہیں… تاکہ بار بار جواب آتا رہے… بات چیت ہوتی رہے… اونچا سفر ملتا رہے… جن لوگوں کو اس کی توجہ نصیب نہیں ہے وہ نفل نمازمیں یہ توجہ حاصل کریں… سورئہ فاتحہ کی ہر آیت سمجھ کر پڑھیں… اور جواب ملنے کا یقین رکھیں … اگر شیطان توجہ بھٹکادے… اور کوئی آیت بغیر توجہ گزر جائے تو اسے دوبارہ پڑھیں…اور آپ اس وقت تک لگے رہیں… جب تک مکمل توجہ سے پوری سورئہ فاتحہ نہ پڑھ لیں…مگر اس طرح صرف نفل نمازوں میں کریں… فرض ،وتر اور سنتوں میں …سورہ فاتحہ ہر کعت میں ایک بار ہی پڑھیں …اور اس میں محنت اور ہمت کریں… کہ اسے ٹھیک ٹھیک توجہ سے پڑھ لیں… اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کو سورہ فاتحہ کا ترجمہ، مطلب اور مفہوم آتا ہو…

ایک گزارش

سورئہ فاتحہ کی فضیلت اور اِلٰہی تقسیم کے بارے میں مسلم شریف کی جو روایت اوپر بیان کی گئی ہے… اُسے اچھی طرح بار بار پڑھیںبلکہ اچھا ہوگا کہ اسے یاد کرلیں… اس طرح یہ مبارک جملے دل میں گونجتے رہیں گے… حمدنی عبدی… اثنی علی عبدی… وغیرہ اور ہم جب بھی نماز یا نماز سے باہر سورئہ فاتحہ پڑھیں تو اس مبارک حدیث قدسی کو یادرکھیں… ان شاء اللہ ہم پر’’فاتحہ‘‘ کھلتی چلی جائے گی… اور سورہ فاتحہ ہر چیز کی ’’فاتحہ‘‘ ہے… یعنی ہر خیر کا دروازہ کھولنے والی…

حضرت سید شہیدؒ

اگلی بات پڑھنے سے پہلے …کچھ مختصر تذکرہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کا …بچپن سے’’ولایت‘‘ کے عظیم مقام پر فائز ہونے والے… اور جوانی ہی میں ”مجدد“ اور قطب کا مقام پانے والے … حضرت سید احمد شہیدؒ… سبحان اللہ! کیا شان تھی اور کیا مقام! مختصر سی زندگی مگر ایسی بھرپور کہ… صدیوں عمر پانے والے بھی اس کے لئے ترسیں…

حضرت سید صاحب شہیدؒ کی سیرت و سوانح پر… اب تک ہزاروں صفحات لکھے جا چکے ہیں…اُمت کے کئی مقبول اہلِ علم… اہلِ قلم نے اپنی زندگیا ں حضرت سید صاحب کے حالات سمجھنے اور لکھنے کے لئے وقف کردیں… اور یہ مبارک سلسلہ تا حال جاری ہے… حضرت سید صاحب شہیدؒ ۱۲۰۱؁ھ بمطابق ۱۷۸۶؁ء رائے بریلی میں پیدا ہوئے… اور ۱۲۴۶؁ھ بمطابق۱۸۳۱؁ء بالاکوٹ میں شہید ہوئے…یعنی صرف پینتالیس سال کی عمر… مگر کارنامے دیکھیں تو ایک ایک دن عشروں پر بھاری ہے… اللہ تعالیٰ نے آپ کو برصغیر میں ”احیا ء جہاد فی سبیل“ کے لئے منتخب فرمایا… آپ کو بے شمار عبقری صفات عطاء فرمائیں… اور آپ سے جہاد کا ایسا کام لیا جو ان شاء اللہ تا قیامت جاری رہے گا… جہاد کی اصل محنت کے ساتھ ساتھ… آپ نے’’احیاء حج‘‘ کا بھی بیڑہ اُٹھایا… اس وقت جبکہ ہندوستان میں سفر حج کی منسوخی کے فتوے چل رہے تھے آپ اپنے چار سو رفقاء کرام اور اہل خانہ کے ساتھ بالکل خالی ہاتھ حج کے لئے نکل کھڑے ہوئے… رائے بریلی سے مکہ مکرمہ تک کا یہ سفر آپ نے دس مہینے میں طے فرمایا… کلکتہ پہنچنے تک آپ کے رفقاءِ حج کی تعداد ساڑھے سات سو ہو گئی… راستے میں ہزاروں افراد آپ کے روحانی اور علمی فیض سے مستفید ہوئے اور ہزاروں مسلمانوں نے آپ سے بیعت کا شرف حاصل کیا…حج کے تمام انتظامات اللہ تعالیٰ کے فضل سے برابر ہوتے چلے گئے اور آپ نے۱۲۳۷؁ھ بمطابق۱۸۲۲؁ء والے سال ”حج بیت اللہ“ کا شرف پایا…گھر سے نکلنے سے لے کر واپس گھر آنے تک کا یہ سفر دو سال دس مہینے میں طے ہوا… اور اس دوران ہر راستے اور ہرمنزل پر آپ کا ’’فیض عام‘‘ جاری و ساری رہا… حج سے واپسی کے بعد آپ ہمہ تن جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری میں مشغول ہوگئے… بڑے بڑے اہل علم اور صاحب تاثیر اللہ والے بزرگ… اس عظیم تجدیدی محنت میں آپ کے ہم قدم تھے… بہت ہی عجیب داستان ہے۔… بس ایمان تھا اور ایمان کی بہاریں … جہاد تھا اور جہاد کے انوارات…۱۲۴۱؁ھ بمطابق1828؁ء آپ نے ہجرت و جہاد کا یہ طویل اور ایمان افروز سفر شروع فرمایا جو بالآخر ۲۴ ذوالقعدہ ۱۲۴۶؁ھ بمطابق۶ مئی۱۸۳۱؁ء… بالاکوٹ میں مکمل ہوا… حج بیت اللہ کے موقع پر ایک مرتبہ طواف میں خیال آیا کہ اہل وعیال ساتھ ہیں اب ہندوستان کیوں واپس جائوں، جو دارالحرب ہے؟ بہتر ہے حرم پاک ہی میں بیٹھا رہوں لیکن غیب سے اشارہ ہوا کہ تم یہاں بیٹھے رہو گے تو ہم اپنا کام کسی دوسرے سے لیں گے… اس پر واپسی کا ارادہ پختہ ہوگیا…اپنا ”کام“یعنی جہاد فی سبیل اللہ… حضرت سید صاحبؒ تو بچپن سے اسی کام کی فکر اور تڑپ دل میں لئے ہوئے تھے… اور پھر جو ں جوں آپ کا روحانی مقام بلند ہوتا چلا گیا ، اسی قدر جہاد کے ساتھ آپ کی محبت بڑھتی چلی گئی…بس حرم شریف کے انوارات کی لذت میں تھوڑی دیر کے لئے… سفر جہاد مؤخر کرنے کا ارادہ دل میں آیا تو فوراً تنبیہ ہوگئی … اور آپ حج کے بعد واپس روانہ ہوگئے…

صفتِ تاثیر

حضرت سیدصاحب شہیدؒ کو اللہ تعالیٰ نے جن بیشمار نعمتوں اور صفات سے نوازا… ان میں سے ایک اہم صفت… آپ کی ”قوتِ تاثیر“تھی… اللہ تعالیٰ نے آپ کے کلام اور آپ کی بات میں تاثیر رکھی تھی کہ… وہ فوراًسننے والے کے دل میں اُتر جاتی تھی…اللہ تعالیٰ کے ہر مقبول ولی کی طرح حضرت سید صاحب شہید بھی… نماز اور نماز کی تعلیم کا خاص اہتمام فرماتے تھے… توجہ اور خشوع والی نماز سکھانے پر بھی زمانے کے کئی بڑے اہل علم آپ کے معتقد اور مرید ہوئے… اس بارے حضرت مولانا عبدالحی صاحب اور حضرت شاہ اسمٰعیل شہیدؒ کا قصہ بہت معروف ہے ان حضرات نے شرط رکھی تھی کہ اگر حضرت سید صاحب ہمیں دورکعت نماز ایسی ادا کروا دیں جس طرح کہ حضرات صحابہ کرام کی نماز تھی تو ہم آپ کے مقامات اور آپ کی ولایت کے قائل ہوجائیں گے…

حضرت سید صاحب شہیدؒ نے ایک رات ان کو دورکعت نماز ادا کروائی تو وہ زندگی کے آخری دم تک آپ کے ہمدم، رفیق، خادم اور مرید رہے… حضرت سید صاحب ؒ نماز کا طریقہ خود بیان فرمایا کرتے تھے آپ کے بعض اہل علم مریدین نے حضرت سید صاحب شہیدؒ کا یہ بیان نقل کرلیا اور پھر یہ رسالے کی صورت میں”حقیقۃ الصلوٰۃ“ کے نام سے… حضرت سید صاحب شہیدؒ کی زندگی میں ہی شائع ہونا شروع ہو گیا… اسی طرح حضرت سید صاحب شہیدؒ سورئہ فاتحہ کی بہت عجیب تفسیر بیان فرمایا کرتے تھے…اس زمانے کے کئی نامور اہل علم حضرت سید صاحب کی تفسیر سورئہ فاتحہ سن کر آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے… آپ کی یہ تفسیر حضرت اقدس مولانا عبدالحی صاحب نور اللہ مرقدہ نے تحریر فرمائی… اور یہ بھی حضرت سید صاحبؒ کی زندگی میں شائع ہونا شروع ہوگئی…

ادنیٰ خدمت

الحمدللہ حضرت سید صاحب شہیدؒ کے یہ دونوں رسالے مطالعہ کرنے کا شرف حاصل ہوا اور حقیقت یہ ہے کہ بہت فائدہ ہوا… حالانکہ تفسیر کے طالبعلم کے طور پر ان رسالوں میں بظاہر کوئی نئی بات نظر نہیں آئی… تقریباً وہی کچھ تھا جو عرصے سے پڑھتے پڑھاتے چلے آ رہے ہیں…مگر حضرت سید صاحب شہیدؒ کی ”قوت تاثیر“ نے یہاں بھی اپنا رنگ دکھایا… اور یوں محسوس ہوا کہ… پہلی بار ایسی تفسیر اور نماز کا ایسا طریقہ پڑھ رہے ہیں …چنانچہ دل میں داعیہ پیدا ہوا … کہ ان مؤثر اور ایمان افروز تحفوں کو… آسان الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مسلمانوں تک پہنچایا جائے… حضرت سید صاحب شہید ؒ کے ساتھ جو قلبی تعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نصیب فرمایا ہے… اس کا بھی تقاضا تھا کہ… آپ کے کام کی کچھ خدمت کی جائے… چنانچہ اسی سلسلے میں یہ ادنیٰ سی خدمت ’’معرفت نامہ ‘‘ کے نام سے… حاضر خدمت ہے…

اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں … اور دارین میں نافع بنائیں…

تھوڑا سا انتظار

اوپر جو تحریرآپ نے پڑھی یہ نئی کتاب کا کچھ تعارف ہے… کتاب کا نام ہے ’’معرفت نامہ‘‘… یہ مختصر سی کتاب بہت سے انمول،گرانقدر اور قیمتی نوادرات پر مشتمل ہے…حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ تعالیٰ… کے پُر اثر ملفوظات …سورہ فاتحہ کی عجیب تفسیر… شاندار نماز کا طریقہ … اور کئی اہم عبارات…

بس تھوڑا سا انتظار کریں… پندرہ بیس دن تک یہ کتاب ان شاء اللہ شائع ہو جائے گی… فی الحال طباعت کے مراحل میں ہے… معرفت کا یہ جام جو ’’معرفت نامہ‘‘ کے نام سے آ رہا ہے… مدینہ مدینہ کا فیض ہے…اللہ تعالیٰ ہم سب کو ’’مدینہ منورہ‘‘ کے ساتھ سچی نسبت نصیب فرمائیں… آمین یا ارحم الراحمین

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللہم صل علی سیدنا محمد وعلیٰ الہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

٭…٭…٭