مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہیں آفاق
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 637)
اللہ تعالیٰ کا سچا وفادار بندہ… ملا محمد عمر مجاہد… حضرت آقا مدنی ﷺ کا جانثار غلام… ملا محمد عمر مجاہد…ہمارے زمانے میں مسلمانوں کا امام برحق… ملا محمد عمر مجاہد… دیکھئے حضرت اقبالؒ کیا فرماتے ہیں
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بے زار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنۂ ملت بیضاء ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطین کا پرستار کرے
علامہ اقبال مرحوم جس ’’امام برحق‘‘ کی تلاش میں تھے… اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ ہمیں دکھلا دیا… علامہ مرحوم جس ’’مرد فقیر‘‘ اور جس ’’فقرغیور‘‘ کو بے چینی سے ڈھونڈتے رہے… اللہ تعالیٰ نے وہ اس امت کو ’’ملا محمد عمر مجاہد‘‘ کی صورت میں عطاء فرمایا… اقبال فرماتے ہیں
اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی
خون دل شیراں ہو جس فقر کی دستاویز
مبالغہ نہیں ہے
آپ ایک نظر بیسویں صدی پر ڈالئے… جی ہاں عیسوی حساب سے بیسویں صدی…وہ صدی جس میں عالمگیر جنگیں ہوئیں… وہ صدی جس میں کئی نئے ممالک وجود میں آئے… وہ صدی جس میں انسان اپنی کھال سے… اور انسانیت اپنے وقار سے باہر نکل گئی… جب سے زمین کے سیارے پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا ہے… اس وقت سے لے کر آج تک… ساری مخلوق نے مل کر بھی زمین کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا… جتنا کہ… ترقی کے نام پر ’’بیسویں صدی‘‘ کے بے وقوف انسانوں نے پہنچایا ہے… سمندر آلودہ کر دئیے گئے… ہوا کو زہر سے بھر دیا گیا… فضاؤں میں تابکاری پھیلا دی گئی… زمین کو کھود کھود کر کھوکھلا کر دیا گیا… یعنی ترقی کے نام پر فطرت کے خلاف ایک جنگ چھیڑ دی گئی… انسانوں کا حرص اتنا بڑھا کہ… مال کی خاطر انسانیت کو ہی بیچ دیا گیا… ہر طرف خوفناک اسلحہ… خونی درندے اور ناپاک ظالمانہ نظام… اور جب اسی صدی میں ’’سوویت یونین‘‘ بھی بکھر گیا تو… دنیا پر امریکہ اور یورپ کی حکومت… صہیونیوں کی خفیہ سربراہی میں قائم ہو گئی…تب اعلان کر دیا گیا کہ… اب کوئی سر اُٹھا کر نہ جئے… اب کوئی گردن اُٹھا کر نہ چلے…ہم جو چاہیں گے وہی ہو گا… اور ہم جو پسند کریں گے وہی چلے گا… سب سے زیادہ کوشش… اسلام کو بدلنے اور مسلمان کو جھکانے کی تھی… اور بظاہر اس میں کامیابی مل چکی تھی… ایک نیا اسلام تشکیل پا رہا تھا… غلاموں کا اسلام… مصلحت پسندوں کا اسلام… جھکا جھکا سا اسلام… دبا دبا سا اسلام…احساس کمتری میں ڈوبا ہوا اسلام… چند عبادات اور رسومات تک محدود اسلام…ہر طرح کے بلند جذبات سے عاری اسلام… ہمیشہ غلامی میں رہنے کے لئے تیار اسلام … جہاد او رخلافت سے خالی اسلام… نظام اور سلطنت سے محروم اسلام… کافروں کے سامنے جھکنے والا… اور ان کے پیچھے دوڑ دوڑ کر ہانپنے والا اسلام… اعلان کر دیا گیا کہ…جس نے مسلمان رہنا ہے وہ… بس اسی اسلام کے دائرے میں رہے… کبھی غلبے کا نہ سوچے…کبھی خلافت کا تصور نہ کرے… کبھی اپنے نظام کی خواہش میں نہ پڑے… بلکہ… مسلمان اس احساس کمتری میں جیتے رہیں کہ ہم بہت پیچھے رہ گئے… ہم بہت پسماندہ رہ گئے…
یہ سب کچھ ہو چکا تھا کہ… اچانک ’’ملا محمد عمر مجاہد‘‘ آ گئے… اللہ اکبر کبیرا… اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے… سب کچھ بدل گیا… اسلام اپنی اصلی صورت میں ایسا چمکا کہ… دشمنوں کی آنکھیں باہر اُبلنے لگیں…
وہ وقت جب سب ہی… جھکے ہوئے تھے… ایک شخص نے گردن اُٹھائی… سینہ تانا اور پھر روئے زمین پر… ہلچل مچ گئی… ایک اُٹھی ہوئی گردن نے… لاکھوں انسانوں کو کھڑا کر دیا… روئے زمین کو مکمل غلام بنانے کا خواب چکنا چور ہو گیا… آج جو ’’چین ‘‘ اپنے قدموں پر کھڑا ہے… اور اس خطے میں سی پیک بنا رہا ہے… آج جو ’’روس‘‘ دوبارہ… آنکھیں اُٹھانے کی حالت میں نظر آ رہا ہے… آج جو کئی ممالک امریکہ کو آنکھیں دکھا رہے ہیں… آج جو یورپ اپنے اتحاد کو بچانے کے لئے پسینے میں ڈوبا ہوا ہے… ان سب واقعات کے پیچھے … ملا محمد عمر مجاہد کی عزیمت کھڑی ہے… وہ اگر امریکہ اور نیٹو کو انکار نہ کرتے… وہ اگر امریکہ اور نیٹو کے رعب کو خاک میں نہ ملاتے… وہ اگر جھکنے اور دبنے کی ناپاک رسم کو نہ توڑتے تو آج… ساری دنیا غلامی کی سیاہ رات میں مکمل ڈوب چکی ہوتی … آپ 1995؁ء والی دنیا دیکھ لیں… اور پھر آج کی دنیا کو دیکھیں… بہت سے لوگ ان باتوں کو مبالغہ سمجھیں گے… مگر یہ باتیں حقیقت ہیں… اور عنقریب ساری دنیا ان باتوں کا اعتراف کرے گی…
ملا محمد عمر مجاہد کی قربانی… اور عزیمت نہ روس کے لئے تھی نہ چین کے لئے… وہ تو سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے کر رہے تھے… مگر جب انہوں نے عالمگیر استعمار کے رعب کو توڑا… وہ رعب جو ساری دنیا کے حواس کو مفلوج کر چکا تھا تو… غلامی کے رسّے خود بخود ٹوٹتے چلے گئے… اور اب ٹوٹتے ہی جا رہے ہیں… ایک ایسا شخص جو… مکمل اسلامی اخلاق اور مزاج کا مالک تھا… وہ جب زمین پر اُترا تو… زمین نے راحت کا سانس لیا… اور زمانہ مثبت تبدیلیوں سے بھر گیا… ساری دنیا آفاق میں کھوئی ہوئی تھی… مگر جب وہ مرد مؤمن آیا کہ جس میں ’’آفاق‘‘ گم تھے تو… حالات تیزی سے بدلنے لگے… زہر کا اثر ٹوٹنے لگا… جادو کے تانے بانے بکھرنے لگے… اور اسلام مسکرانے لگا… علامہ اقبال فرماتے ہیں
کل ساحل دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے
تو ڈھونڈ رہا ہے سُم افرنگ کا تریاق
اک نکتہ مرے پاس ہے شمشیر کی مانند
برندہ وصیقل زدہ و روشن و براق
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہیں آفاق
فقرکی تلوار
مسلمان طویل عرصے سے پریشان حال ہیں… وجہ کیا ہے؟…وجہ یہ ہے کہ وہ طاقت اور اجتماعیت سے محروم ہیں…اور جہاد اور فقر کی تلوار سے محروم ہیں …اول تو کوئی انہیں طاقت بنانے ہی نہیں دیتا … پھر بھی اگر کوئی مسلمان کچھ طاقت بنالے تو اُسے اتنا دبایا جاتا ہے کہ…وہ اپنی طاقت کی حفاظت ہی میں لگ جاتا ہے…اور اپنی طاقت کو اسلام اور مسلمانوں کے لئے استعمال نہیں کرسکتا…آج ہم دین بچانے کے نام پر دین ذبح کرتے ہیں…بے غیرتی اور غلامی کا ہر کام اس نعرے کے ساتھ کرتے ہیںکہ جی ہم مسلمانوں کا تحفظ کررہے ہیں…مسجد ومدرسہ کاتحفظ کررہے ہیں…ہمارے دلوں سے یہ احساس ہی نکل چکا ہے کہ…ہم خود کو بچانے کے لئے پیدا نہیں ہوئے…ہم روئے زمین پراللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں اور اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لئے آیا ہے…افسوس یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے جس شخص کو بھی…تھوڑی بہت قوت یاسلطنت مل جاتی ہے تو وہ اسلام کے غلبے کی محنت کرنے کی بجائے…اپنی خواہشات کی تکمیل میں لگ جاتاہے… تب اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام پر اپنا فضل فرمایا اور انہیں ’’ملا محمد عمر مجاہد‘‘کی صورت میں…ایک عظیم نعمت عطاء فرمائی…
ایک انسان جس کو طاقت ملی تو…اس نے اپنی خواہشات کو ایک طرف پھینک دیا…اور خودکو…اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لئے وقف کردیا…ایک انسان جس نے حکومت چلانے کے لئے سہارے ڈھونڈنے کی بجائے…ایک اللہ تعالیٰ کے سہارے کو مضبوط پکڑا…ایک انسان جس نے اپنی ذات کے لئے کچھ بھی نہ سوچا، کچھ بھی نہ بنایا…اور نہ ہی کچھ بنانے کی فکر کی…آج جبکہ اسلام کا دعویٰ کرنے والے افراد…اسلام کی خاطر چند رسومات تک کی قربانی نہیں دے سکتے…اُس شخص نے ہر چیز کی قربانی دی…اورخالص دین کو نافذ کرنے کا بیڑہ اُٹھایا…وہ نہ اپنی خواہشات کا محتاج بنا… اور نہ دنیا بھر کی کفریہ طاقتوںکا…وہ نہ اسباب کا محتاج بنا…اور نہ دنیا میں مروّج نظاموں کا…تب اللہ تعالیٰ نے اپنے اس سچے مجاہد اور فقیر بندے کو سعادتوں، کرامتوں اور کامیابیوںکے لازوال تاج پہنادئیے…
وہ افغانستان جس کی ہر گلی کا الگ حکمران تھا… جس کے ہر قصبے میں کئی کئی ظالم وار لارڈ تھے…جہاںپانی مہنگا اور خون سستا تھا، جہاںہر چند قدم پر ظلم اور لوٹ  کے پھاٹک تھے… جہاں ہر شخص مسلح اور ہر فرد بے سمت تھا… ملا محمد عمر مجاہد کے ایک حکم پر یہی افغانستان… امن وامان…اور اسلام وایمان کی سرزمین بن گیا…
اگر ملا محمد عمر مجاہد کی صرف اسی ایک ’’کرامت‘‘ کا تجزیہ کیا جائے تو پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے… آج دنیا کے سرکاری مسلح ادارے اتنی طاقت اور اختیارات کے باوجود وہ امن قائم نہیں کرسکے… جو اس مرد مجاہد، مرد فقیر نے اپنے ایک حکم سے قائم کردیا… ہاں بے شک ملامحمد عمر مجاہد کی حکومت تھوڑے عرصے ہی رہی مگر وہ یہ بات سمجھاگئی کہ… جن کاموں کو ناممکن سمجھا جارہا ہے وہ ناممکن نہیں ہیں… وہ غلامی جسے قسمت سمجھاجارہا ہے وہ قسمت نہیں بدقسمتی ہے… وہ مصلحت پسندی جوذلت کے دائرے میں داخل ہوچکی ہے… مسلمانوں کو اس کی ہرگز ضرورت نہیں…وہ طاقتیں جو خود کو ناقابل تسخیر کہہ رہی ہیں وہ بالکل ناقابل تسخیر نہیں…وہ نظام جو اس وقت خطہ زمین کو زہر، آلودگی، ظلم، کفر، بے حیائی…اور عذاب سے بھررہا ہے… یہ نظام ناقابل شکست نہیں ہے… بلکہ اسے توڑا جاسکتا ہے اور  انسانیت کو بچایا جاسکتا ہے…آہ!جہاد وفقر کی وہ تلوار…آج سے پانچ سال پہلے اس دنیا پر انمٹ نقوش چھوڑکر… اونچی منزلوںمیں گم ہوگئی…
اسی تلوار کا خواب…حضرت اقبال نے یوں دیکھا تھا
سوچا بھی ہے اے مردمسلماں کبھی تو نے
کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگردار
اس بیت کا مصرع اول ہے کہ جس میں
پوشیدہ چلے آتے ہیں توحید کے اسرار
ہے فکر مجھے مصرع ثانی کی زیادہ
اللہ کرے تجھ کو عطاء فقر کی تلوار
قبضے میں یہ تلوار بھی آجائے تو مؤمن
یا خالدؓ جانباز ہے یا حیدرؓ کرار
آج باتیں بہت لکھنی تھیں…وہ اکثر رہ گئیں…ہم سب کو چاہیے کہ حضرت امیر المؤمنین کی زندگی سے سبق لیں…عزم، عزیمت …اور جہاد وفقر کو اپنائیں… کیا بعید ہے کہ … اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے…ہمیں بھی کسی کام کا بنا دے…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭