قنوتِ نازلہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے
قلم سے (شمارہ 638)
اللہ تعالیٰ آسان فرمائے،
قبول فرمائے… آج ’’قنوت نازلہ‘‘ پر بات کرنی ہے…
٭’’قنوت
نازلہ‘‘ علم کا ایک’’باب‘‘ ہے … آپ توجہ سے پڑھیں گے اور سمجھیں گے تو آپ علم دین
کے ایک ’’باب‘‘ کو حاصل کرنے کی فضیلت پا لیں گے…
٭
’’قنوت نازلہ‘‘ مسلمانوں کے لئے ایک غیبی ہتھیار ہے… اس کے ذریعہ سے وہ دشمنان اسلام
پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل کرواتے ہیں…
٭’’قنوت
نازلہ‘‘ مظلوم اور بے سہارا مسلمانوں کے لئے… اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد حاصل کرنے کا
اہم ذریعہ ہے…
٭
’’قنوت نازلہ‘‘ جہاد کی پشت پر کھڑا ہوا … ایک روحانی لشکر ہے… یہ اسیران اسلام کے
لئے خلاصی اور رہائی کی چابی ہے… یہ مظلوموں کے انتقام کا انتظام ہے… یہ زمین کو عرش
سے ملانے والا ایک عظیم عمل ہے…
پہلے الفاظ درست کر لیں
قُنوت کے معنیٰ ہیں ’’دعاء‘‘
…اور ’’نازلہ‘‘ کے معنیٰ ہیں مصیبت، آفت اور حادثہ… چنانچہ ’’قنوت نازلہ‘‘ کا مطلب
ہوا…وہ دعاء جو مصیبت اور حوادث کے وقت مانگی جاتی ہے…’’ قُنوت‘‘ کے قاف پر پیش پڑھی
جائے گی… کئی لوگ زبر کے ساتھ ’’قَنوت‘‘ پڑھتے ہیں جو کہ غلط ہے… زبر کے ساتھ ’’قَنوت‘‘
کا مطلب ہے … وہ عورت جو اپنے خاوند کی فرمانبردار ہو…
’’قُنوت‘‘
قاف کے پیش ( ضمہ) کے ساتھ کئی معانی میں استعمال ہوتا ہے…مثلاً (۱)
اطاعت و فرمانبرداری(۲)
دین پر ثابت قدمی (۳) خشوع و خضوع(۴) نماز میں لمبا قیام …(۵)
اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی
کا اظہار کرنا(۶)
دعاء…
’’قنوت
نازلہ‘‘ میں قنوت کا لفظ دعاء کے معنی میں آیا ہے… ’’قنوت نازلہ‘‘ وہ دعاء ہے جو دشمنان
اسلام کی بربادی… اہل ایمان کی نجات اورحفاظت، اسلام کی فتح… اور کفر کی شکست کے لئے…
فرض نمازوں میں مانگی جاتی ہے… یہ بہت نافع اور مجرب عمل ہے… حضرت شاہ ولی اللہ محدث
دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے خلفاء پر جب کوئی حادثہ پیش آتا تو رکوع
کے بعد یا رکوع سے پہلے مسلمانوں کے لئے دعاء اور کفار کے حق میں بددعاء کیا کرتے تھے
اور اس کو انہوں نے کبھی نہیں چھوڑا… یعنی جب کوئی سخت مصیبت پیش آئی تو قنوت نازلہ
ضرور پڑھی ( حجۃ اللہ البالغہ)
ایک لازمی عقیدہ
دشمنان اسلام کفار سے لڑنے
یعنی جہاد کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے… اور حضور اقدس ﷺ نے کفار کے خلاف لڑائی
فرمائی ہے …جہاد فرمایا ہے… پس جو اس بات کا انکار کرے گا…وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا
بھی منکر ہو گا … اور حضور اقدس کے طریقے کا بھی منکر … جبکہ دین نام ہے… اللہ تعالیٰ
کے حکم اور نبی کریمﷺ کے طریقے کا… چنانچہ ایسا شخص دین کا منکر ہوا… یہ ہو گئی پہلی
بات… اب دوسری بات سمجھیں…
دشمنان اسلام کفار کے لئے
بددعاء اور لعنت …یہ قرآن مجید میں بھی موجود ہے اور جناب رسول نبی کریم ﷺ نے بھی…کفار
کے لئے بددعاء اور لعنت فرمائی ہے…
احادیث مبارکہ میں ’’قنوت
نازلہ‘‘ کا یہی مقصد بیان ہوا ہے کہ
یدعوا للمومنین ویلعن الکفار
( مسلم)
مسلمانوں کے لئے دعا اور کفار پر لعنت…
پس جو اس کا منکر ہو گا…
یا اسے خلاف تہذیب سمجھے گا… یا اس کے برعکس کافروں کی تعریف اور مسلمانوں کی مذمت
کرے گا… وہ قرآن مجید کا بھی منکر ہو گا اور سنت رسول ﷺ کا بھی…
ضروری ہے کہ ہر مسلمان اس
عقیدے کو سمجھے اور اپنائے… اور دور حاضر کے شور اور ماحول سے متاثر ہو کر… اپنے ایمان
کو خطرے میں نہ ڈالے…
حضرات صحابہ کرام کا یہ
معمول… حدیث شریف کی کتابوں میں لکھا ہے کہ… وہ رمضان المبارک کے آخری ایام میں خاص
طور سے کفار پر لعنت اور بددعاء کا بہت اہتمام فرماتے تھے…
وکانوا یلعنون الکفرۃ فی
النصف اللھم قاتل الکفرۃ الذین یصدون عن سبیلک ویقاتلون اولیاء ک الخ …
صحابہ کرام رمضان المبارک
کے آخری نصف میں کافروں پر لعنت بھیجتے اور یہ دعاء کرتے کہ… یا اللہ!ان کافروں کو
تباہ فرما جو تیرے راستے سے روکتے ہیں اور تیرے اولیاء ( یعنی مسلمانوں) سے لڑتے ہیں(
صحیح ابن خزیمہ)
قنوت نازلہ کب شروع ہوئی
حضرت مفتی لاجپوریؒ تحریر
فرماتے ہیں…
’’اس
کی ابتداء بیر معونہ کے واقعہ کے بعد سے ہوئی… جس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے
کچھ لوگوں کے اصرار پر ستر۷۰ صحابہ
کرام کو نجد کی جانب تبلیغ اور تعلیم کے لئے بھیجا تھا… یہ منتخب حضرات تھے… قرآن
پاک کے حافظ تھے اسی لئے اُن کو قراء کہا جاتا تھا… اوقات شب میں تلاوت کیا کرتے تھے
اور دن کو لکڑیاں چن کر بسر اوقات کرتے… راستے میں کچھ قبائل نے بیر معونہ مقام پر
گھیر لیا اور سب کو شہید کر دیا… صرف ایک صحابی جو زخمی ہوکر لاشوں کے نیچے دب گئے
تھے پھر اُن کو ہوش آ گیا… وہ بچ گئے تھے… انہوں نے آ کر آنحضرت ﷺ کو اس حادثہ کی
خبر دی… آنحضرت ﷺ کو اتنا صدمہ ہوا کہ اور کسی حادثہ پر اتنا صدمہ نہیں ہوا تھا… وہ
قبائل جو وحشیانہ جرم کے مرتکب ہوئے تھے اُن کے لئے آپ ﷺ نے بد دعاء کی اور ایک مہینہ
تک نماز صبح میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھتے رہے… رعل، ذکوان،عصیہ، بنو لحیان وہ
قبائل ہیں جو اس جرم میں پیش پیش تھے ( بخاری شریف ص ۵۸۶ کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع ورعل وذکوان وبیر معونۃ الخ)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ دعاء قنوت پڑھنے کا یہ پہلا موقع تھا… اس سے پہلے کبھی نہیں پڑھی تھی… عن انس
… وذلک بدء القنوت وما کنا نقنت ایضاً ( فتاویٰ رحیمیہ)
قنوت نازلہ کے بارے
میں احادیث مبارکہ
قنوت نازلہ کا عمل حضور
اقدس ﷺ اور آپ کے خلفاء راشدین کی سنت ہے… آپ ﷺ نے کئی واقعات و حوادث کے موقع پر
قنوت نازلہ پڑھی… مثلاً (۱) بئر معونہ کے مظلوم شہداء کے قاتلوں پر بددعاء کے
لئے…(۲)
مکہ مکرمہ میں پھنسے ہوئے
کئی مظلوم مسلمانوں کے لئے ان کا نام لے کر… جیسا کہ مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضور
اقدسﷺ رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھتے اور فرماتے… یا اللہ! ولید بن ولید کو نجات عطاء
فرما… یا اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات عطاء فرما …یا اللہ! عیاش ابن ابی ربیعہ کو نجات
عطاء فرما …یا اللہ! ضعیف مومنوں کو نجات عطاء فرما… یا اللہ! اپنا عذاب قبیلہ مضر
پر سخت کر دے… یا اللہ! اُن پر یوسف علیہ السلام کے زمانے جیسا قحط ڈال دے … (۳)
آپ ﷺ نے جب کسی کے لئے
نصرت کی دعاء اور کسی کے لئے عذاب کی بد دعاء کرنی ہوتی تو آپﷺ قنوت نازلہ پڑھتے…
کان لا یقنت فیھا الا اذا
دعا لقوم او دعا علی قوم ( ابن خزیمہ)
ایک روایت میں آپ ﷺ نے
ارشاد فرمایا:
میں قنوت اس لئے کرتا ہوں
تاکہ تم اپنے رب کو پکارو اور اس سے اپنی ضروریات کے بارے میں سوال کرو ( مجمع الزوائد)
احادیث مبارکہ میں ’’قنوت
نازلہ‘‘ کی بہت تفصیل آئی ہے… بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ پانچوں نمازوں
میں قنوت نازلہ پڑھتے تھے… بعض روایات میں صرف جہری نمازوں کا تذکرہ ہے… اور بعض میں
صرف فجر کی نماز کا… یہ بات تو طے ہے کہ قنوت نازلہ صرف فرض نمازوں میں پڑھی جاتی ہے…
اور یہ بات بھی طے ہے کہ جمعہ نماز میں قنوت نازلہ نہیں پڑھی جاتی… اس میں خطبے کی
دعاء کافی ہوتی ہے … احادیث مبارکہ میں یہ بھی ثابت ہے کہ… آپ ﷺ ہمیشہ قنوت نازلہ
نہیں پڑھتے تھے… چنانچہ ایک بار آپ ﷺ نے کئی دن تک قنوت نازلہ پڑھنے کے بعد چھوڑ دی
تو… صحابہ کرام نے وجہ پوچھی… آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ… وہ سب لوگ آ
گئے ہیں…
یعنی جن کی رہائی کی دعاء
چل رہی تھی… وہ سب خیر سے مدینہ شریف پہنچ چکے ہیں… احادیث مبارکہ کی اس کثرت میں حضرات
فقہاء کرام نے اجتہاد فرمایا ہے… چنانچہ ہمارے احناف کے نزدیک جو تفصیل ثابت ہے اس
کا خلاصہ یہ ہے:
(۱)
اگر اہل اسلام پر کوئی حادثہ
، ظلم یا مصیبت آئے… مثلاً کافروں نے حملہ یا ظلم کیا ہو تو فجر کی نماز میں دوسری
رکعت کے رکوع کے بعد … امام سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر ’’قنوت نازلہ‘‘ پڑھے اور مقتدی
آہستہ آواز میں آمین کہتے رہیں… دعاء سے فارغ ہو کر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں
چلے جائیں…
(۲)
فجر کے علاوہ دیگر جہری
نمازوں مغرب اور عشاء کی آخری رکعت میں بھی قنوت نازلہ پڑھی جا سکتی ہے…
(۳)
قنوت نازلہ امام بلند آواز
سے پڑھے اور مقتدی آمین کہیں… اور یہ بھی درست ہے کہ امام آہستہ آواز سے پڑھے اور
پیچھے مقتدی بھی آہستہ آواز سے پڑھیں…
(۴)
قنوت نازلہ پڑھتے وقت ہاتھوں
کو باندھنا بھی درست ہے… اور ہاتھوں کو کھلا رکھنا بھی درست ہے… دعاء کی طرح ہاتھوں
کو اُٹھانا حنفیہ کے ہاں درست نہیں مگر اس میں جھگڑا نہ کیا جائے…
(۵)
جو شخص اکیلے نماز پڑھ رہا
ہو… وہ بھی جہری نمازوں میں اسی ترتیب سے قنوت نازلہ پڑھ سکتا ہے… اور خواتین بھی اسی
ترتیب سے پڑھ سکتی ہیں مگر وہ اپنی آواز پست رکھیں گی… حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی
ؒ اور حضرت مفتی عبد الرحیم لاجپوریؒ کے فتاویٰ میں اس کی اجازت مذکور ہے…
(۶)
قنوت نازلہ کے لئے کوئی
مخصوص دعاء ضروری نہیں ہے… حالات کے مطابق دعاء کی جا سکتی ہے… البتہ مسنون دعاؤں
کا اہتمام بہتر ہے … ہم آگے چل کر چند دعائیں پیش کریں گے
حضرات خلفاء راشدین کا عمل
فتح القدیر اور زاد المعاد
میں ہے کہ:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ
عنہ نے مسیلمہ کذاب اور اہل کتاب کے خلاف جہاد کے وقت قنوت نازلہ کا اہتمام فرمایا
…اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اہل کتاب کے خلاف جہاد کے وقت قنوت نازلہ کا
عمل فرمایا…
آج جس وقت یہ سطور لکھی
جا رہی ہیں… اہل فلسطین اور اہل کشمیر شدید مظالم کا شکار ہیں… دونوں طرف سے بہت روح
فرسا خبریں آ رہی ہیں… مسلمانوں کو چاہیے کہ مذمت اور احتجاج پر اکتفاء نہ کریں وہ
بھی اگرچہ ضروری ہیں… مگر اصل حل یہ ہے کہ جہاد اور قنوت نازلہ کو اپنائیں اور اسے
اپنی ذمہ داری سمجھ کر ادا کریں… اور اس کے اچھے نتائج کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے
امید رکھیں… ہم نے الحمد للہ کوٹ بھلوال جیل میں اسارت کے دوران اس کا اہتمام کیا…
اور پھر الحمد للہ اس کے فوائد و نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھے…
ایک اہم فتویٰ
فتاویٰ رحیمیہ میں مرقوم
ہے:
’’قنوت
نازلہ کا حکم عام ہے مرد ، عورت ، امام ،منفرد ہر ایک کو شامل ہے، جماعت کی قید اور
مردوں کی تخصیص اور منفرد یا عورتوں کے لئے ممانعت کی صریح اور صحیح دلیل منقول نہیں
ہے’’ قنت الامام‘‘ اس کے لئے کامل دلیل نہیں ہے ( حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ ؒ کا
بھی یہی نظریہ ہے) لہٰذا منفرد اور عورتیں اپنی نماز میں دعاء قنوت پڑھ سکتی ہیں، مگر
عورتیں زور سے نہ پڑھیں…
دعاء قنوت ایک مقرر نہیں
ہے، وقت اور موقعہ کے مطابق ادعیہ ماثورہ میں سے مناسب دعاء پڑھ سکتے ہیں…ذیل کی دعاء
زیادہ مناسب ہے:
’’
اَللّٰھُمَّ انْصُرْ الِاسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاَنْجِزْ وَعْدَکَ وَکَانَ
حَقًا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُوْمِنِیْنَ اَللّٰھُمَّ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ
وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِھِمْ وَانْصُرْھُمْ عَلٰی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ
اَللّٰھُمَّ اَھْلِکِ الْکَفَرَۃَ الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِکَ
وَیُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ وَیُقَاتِلُوْنَ اَوْلِیَائَکَ اَللّٰھُمَّ خَالِفْ
بَیْنَ کَلِمَتِھِمْ وَزَلْزِلْ اَقْدَامَھُمْ اَللّٰھُمَّ شَتِّتْ شَمْلَھُمْ
وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ وَخَرِّبْ بِلَا دَھُمْ اَللّٰھُمَّ اَلْقِ فِی قُلُوْبِھِمْ
الرُّعْبَ اَللّٰھُمَّ خُذْھُمْ اَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرْ اَللّٰھُمَّ اِنَّا
نَجْعَلُکَ فِی نُحُورِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ اَللّٰھُمَّ
اَنْزِلْ بِھِمْ بَأسَکَ الَّذِیْ لَا تَرُدُّہُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ
‘‘
اسیران اسلام کی خوش نصیبی
جیل اور قید بڑی مشکل جگہ
ہے… بہت سے لوگ گرفتاری کے ڈر سے جہاد نہیں کرتے… یا جہاد کا نام تک نہیں لیتے… مگر
اللہ تعالیٰ کے راستے میں قید ہونا، محبوس ہونا اتنا عظیم الشان عمل ہے کہ بڑے سے بڑے
اعمال بھی اس کے برابر نہیں ہو سکتے… اندازہ لگائیں کہ… جو مسلمان مکہ مکرمہ میں قید
اور پابند تھے ان کے لئے … حضرت آقا مدنی ﷺ نام لے کر دعاء کرتے تھے … جب ہم بخاری
شریف اور دیگر کتابوں میں … وہ روایات پڑھتے ہیں تو دل ان حضرات کی محبت اور احترام
سے بھر جاتا ہے جن کا نام لے کر …حضرت آقا مدنی ﷺ اپنی فرض نمازوں میں دعاء فرمایا
کرتے تھے… پھر اس سے یہ سبق بھی ملا کہ مسلمانوں
کو اسیران اسلام سے غافل نہیں ہونا چاہیے… بلکہ ان کی رہائی کی ہر کوشش اور بھرپور
دعاء کرتے رہنا چاہیے… آج محترمہ عافیہ بہن سے لے کر…بگرام اور گوانٹا ناموبے تک…
کشمیر اور شام تک… ہزاروں اسیران اسلام ہماری دعاؤں اور کوششوں کے منتظر ہیں… قنوت
نازلہ کے ذریعے ہم سب … اس خدمت اور اجر کو حاصل کریں… پھر اللہ تعالیٰ مزید توفیق
کے دروازے بھی کھول دیں گے ان شاء اللہ
اہل علم کی خدمت میں
قنوت نازلہ کا عمل مسلمانوں
میں معدوم ہوتا جا رہا ہے… اور کئی افراد اس عمل کو منسوخ یا مشکوک بنانے کی کوشش بھی
کرتے رہتے ہیں… جیسا کہ ایک طبقے کا خیال ہے کہ یہ عمل حضور اقدسﷺ کے زمانے تک خاص
تھا… کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ… ’’قنوت نازلہ‘‘ کے لئے ضروری ہے کہ اس کی امامت مسلمانوں
کا خلیفہ کرے… یعنی یہ صرف ریاست اور سرکار کا کام ہے وغیرہ… اللہ تعالیٰ مفتی اعظم
ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کو جزائے خیر عطاء فرمائیں کہ… انہوں
نے قنوت نازلہ پر ہونے والے ان تمام حملوں کا بہترین علمی جواب دیا ہے… اور کفایت المفتی
جلد سوم کے بیسویں باب میں ’’قنوت نازلہ‘‘ کا مسئلہ بہت تفصیل و تحقیق کے ساتھ بیان
فرمایا ہے… بندہ کا پہلے یہ ارادہ تھا کہ آج کے رنگ و نور میں ’’کفایت المفتی‘‘ کی
مکمل عبارت دے دی جائے… کیونکہ اس میں مکمل تفصیل و تحقیق درج ہے… مگر چونکہ اس عبارت
کی زبان علمی اور لہجہ قدرے دقیق ہے تو اس لئے وہ ارادہ ترک کرنا پڑا… اہل علم سے گزارش
ہے کہ قنوت نازلہ کے مسئلے کو مکمل سمجھنے اور اس کی اہمیت کو جاننے کے لئے ’’کفایت
المفتی‘‘ کا مطالعہ فرما لیں ان شاء اللہ علم و توفیق کا دروازہ کھل جائے گا… اور کیا
بعید ہے کہ یہ عمل پورے زور شور سے دنیا کی تمام مساجد میں جاری ہو جائے…
ایک جامع تحریر
ہمارے زمانہ کے معروف عالم
دین… حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ’’قنوت نازلہ‘‘ پر ایک جامع اور مختصر مضمون
تحریر فرمایا ہے … ہم ذیل میں اس کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں … اسے غور اور توجہ سے پڑھ
لیں…
’’
ایک صاحب ایمان کا کام یہ ہے کہ جب بھی وہ کسی مصیبت یا آزمائش سے دو چار ہو ، اللہ
کی طرف رجوع کرے اور اللہ کے خزانۂ غیب سے مدد کا طلب گار ہو،اسی لئے اسلام میں ایک
مستقل نماز نمازِ حاجت رکھی گئی کہ انسان کی کوئی بھی ضرورت ہو ، دو رکعت نماز خاص
اسی نیت سے پڑھ کر اللہ کے سامنے دست ِسوال پھیلائے ، بعض دفعہ ضرورتیں یا ابتلائیں
غیر معمولی ہو جاتی ہیں ، ان مواقع کے لئے شریعت نے مخصوص نمازیں رکھی ہیں ، جیسے کسی
کی وفات ہو جائے تو نمازِ جنازہ ، بارش نہ ہو تو نماز استسقاء …سفر کے موقع پر دوگانۂ
سفر…
اسی طرح اگر دشمنوں سے مقابلہ
ہو ، خواہ اعدائِ اسلام کے خلاف اقدامی جہاد ہو یا مدافعت کی جا رہی ہو یا ظلم و ابتلاء
سے دو چار ہوں ، تو ایسے مواقع کے لئے کوئی مستقل نماز تو نہیں رکھی گئی ، لیکن ایک
خصوصی دعاء رکھی گئی ہے جس کو ’’قنوتِ نازلہ ‘‘ کہتے ہیں ، نازلہ کے معنی مصیبت و آزمائش
کے ہیں اور قنوت کے متعدد معانی آتے ہیں ، جن میں سے ایک معنی دعاء ہے اور اس تعبیر
میں یہی معنیٰ مراد ہے ، پس قنوتِ نازلہ کے معنیٰ ہوئے مصیبت کے وقت کی دعاء ، مکہ
میں جو کمزور لوگ پھنسے ہوئے تھے اور اہل مکہ انہیں ہجرت کی اجازت نہیں دیتے تھے ،
رسول اللہ ﷺ نے اُن کے لئے قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ، اسی طرح ایک خاص واقعہ پیش آیا جس
میں حفاظ کی ایک بڑی تعداد شہید کر دی گئی ، یہ واقعہ سیرت کی کتابوں میں ’’بئر معونہ‘‘
سے مشہور ہے ، اس موقع پر بھی آپﷺ نے ایک ماہ تک قنوت نازلہ پڑھی ہے۔
اس وقت شام کی صورت حال
نہایت ہی ناگفتہ ہے، بچوں اور بوڑھوں کا جو قتل عام ہو رہا ہے، یہاں تک کہ امدادی قافلوں
کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ فرعونِ وقت بشارا لاسد ظالم ایرانیوں اور
روسیوں کے تعاون سے کر رہا ہے۔
اس صورت حال میں اگر ہم
کچھ اور نہیں کر سکتے تو کم سے کم ہمیں دعاؤں کے ذریعہ تو اپنے شامی بھائیوں کا تعاون
کرنا چاہئے اور خاص طور پر قنوت نازلہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔
قنوتِ نازلہ کے سلسلہ میں
کئی باتیں قابل ذکر ہیں ، قنوتِ نازلہ کا حکم رسول اللہﷺ کے لئے مخصوص تھا یا آج بھی امت کے لئے باقی ہے ؟ قنوتِ نازلہ کن
مواقع پر پڑھی جائے گی ؟ کس نماز میں پڑھی جائے گی؟ اور نماز میں قنوت پڑھنے کا کیا
محل ہے ؟ کون پڑھے گا ؟ باآوازِ بلند پڑھی جائے یا آہستہ ؟ جب امام قنوتِ نازلہ پڑھے
تو مقتدی کیا کرے ؟ قنوتِ نازلہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے کن الفاظ میں
منقول ہے ؟
بعض اہل علم کا خیال ہے
کہ قنوتِ نازلہ آپﷺ کے لئے مخصوص تھی ،لیکن تمام قابل ذکر فقہاء و ائمہ مجتہدین کے
نزدیک رسول اللہﷺ کے بعد بھی قنوت نازلہ کا حکم باقی ہے ، چنانچہ حضرت ابو بکررضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ مسیلمہ کذاب سے جنگ کے وقت آپ نے قنوتِ نازلہ پڑھی، حضرت عمررضی
اللہ عنہ نے بھی بعض مواقع پر قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ، آپ کی قنوت کے الفاظ بھی کتب
ِاحادیث میں تفصیل کے ساتھ منقول ہیں ( دیکھئے : منحۃ الخالق علی البحر :ج ۲ص۴۴)اس لئے صحیح یہی ہے کہ قنوتِ
نازلہ کا حکم رسول اللہﷺ کے لئے مخصوص نہیں تھا اور اب بھی یہ حکم باقی ہے ، ائمہ اربعہ
اس پر متفق ہیں۔( دیکھئے : حلبی :ص۴۲۰ ،
شرح مہذب : ج۳ص۵۰۶، المقنع ج ۴ ص ۱۳۵)
فقہاء کی تصریحات سے معلوم
ہوتا ہے کہ جنگ وجدال کے علاوہ دوسری مصیبتوں کے مواقع پر بھی قنوتِ نازلہ پڑھنی مسنون
ہے ، امام نووی شافعیؒ نے وباء اور قحط میں قنوت پڑھنے کا ذکر کیا ہے(روضۃ الطالبین
و عمدۃ المفتیین ج ۱
ص ۲۵۴)
حنابلہ کے یہاں ایک قول
کے مطابق وبائی امراض پھوٹ پڑنے پر بھی قنوتِ نازلہ پڑھی جاسکتی ہے ( دیکھئے : الانصاف
مع المقنع ج ۴ ص۱۳۹) حنفیہ نے بھی لکھا ہے کہ
طاعون کی بیماری پھیل جائے تو اس کا شمار بھی نوازل میں ہوگا( رد المحتارج۲ ص ۴۴۷)
ویسے رسول اللہ ﷺاور صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم سے وبائی امراض وغیرہ میں قنوتِ نازلہ پڑھنا ثابت نہیں ہے، چنانچہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں طاعون عمواس کا واقعہ پیش آیا تو اس موقع پر قنوت
نہیں پڑھی گئی (الانصاف ج ۴ ص
۱۳۹)
گویا اصل میں تو قنوتِ نازلہ
جنگ کے موقع پر پڑھی گئی ہے لیکن اس پر قیاس کرتے ہوئے فقہاء نے دوسری مصیبتوں میں
بھی قنوتِ نازلہ کی اجازت دی ہے ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ رسول اللہ ﷺ صبح میں قنوت اسی وقت پڑھتے تھے ، جب کسی گروہ کے حق میں دعاء کرنا
یا کسی گروہ کے خلاف بد دعاء کرنا مقصود ہوتا ۔ (اعلاء السنن : حدیث نمبر ۱۷۱۵)
گویا جب مسلمان اعداء ِاسلام
سے جنگ کی حالت میں ہوں تب تو خاص طور پر قنوتِ نازلہ مسنون ہے ، لیکن دوسری اجتماعی
مصیبتوں کے موقع پر بھی قنوتِ نازلہ پڑھنے کی گنجائش ہے۔
قنوتِ نازلہ کس نماز میں
پڑھنی چاہئے؟ اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
سے روایت ہے کہ آپﷺ نے مسلسل ایک ماہ ظہر، عصر ، مغرب ، عشاء اور فجر میں آخری رکعت
کے رکوع کے بعد قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ، جس میں آپﷺنے بنو سلیم ، رعل ، ذکوان ، عصیّہ
قبائل کے لئے بد دعاء فرمائی ہے(ابو داؤد: حدیث نمبر ۱۴۴۳) بخاری میں حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ مغرب اور فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھا کرتے تھے(بخاری: حدیث
نمبر۱۰۰۴)
رسول اللہ ﷺ کا فجر اور
مغرب میں قنوتِ نازلہ پڑھنا حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے (طحاوی
ج۱ ص ۱۴۲)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ کی ایک روایت میں نمازِ عشاء میں قنوتِ نازلہ پڑھنے اور مکہ کے مستضعفین کے لئے
دعاء کرنے کا ذکر ہے ، امام طحاوی نے اس کو متعدد سندوں سے نقل کیا ہے ، چنانچہ فقہاء
شوافع کے نزدیک تو پانچوں نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھنے کی گنجائش ہے(شرح مہذب:ج ۲ص۶۰۵،روضۃ الطالبین ج ۱ ص ۵۰۴)
حضرت امام احمدؒ کا بھی
ایک قول یہی ہے، ایک قول کے مطابق فجر اور مغرب میں قنوتِ نازلہ پڑھنی چاہئے ، ایک
قول یہ ہے کہ تمام جہری نمازوں میں پڑھ سکتا ہے اور ایک قول کے مطابق صرف نماز فجر
میں( دیکھئے : الشرح الکبیر : ج۴ ص
۱۳۷، الانصاف مع المقنع ج۴ص ۱۳۷)
غرض حنابلہؒ کے مختلف اقوال
اس سلسلہ میں منقول ہیں۔
فقہاء احناف کے یہاں دو
طرح کی تعبیرات ملتی ہیں، ایک یہ کہ تمام جہری نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھنا چاہئے
، فقہ حنفی کی اکثر متون یعنی بنیادی کتابوں میں یہی لکھا ہے : ’’فیقنت الامام فی الصلوٰۃ
الجہریۃ‘‘ ( ملتقی الابحر علی ہامش المجمع ج۱ص ۱۲۹) مشہور حنفی فقیہ علامہ حصکفیؒ نے بھی بعینہٖ یہی
الفاظ لکھے ہیں( در مختار مع الرد :ج ۲ص ۴۴۸)
مشہور محقق امام طحطاوی
نے بھی جہری نمازوں میں قنوت کی اجازت نقل کی ہے (طحطاوی علی المراقی: ۲۰۶)
یہی بات بعض دوسرے فقہاء
احناف سے بھی منقول ہے (دیکھئے : رد المحتار:ج ۲ ص۴۴۸)
ماضی قریب کے اہل علم میں
مولانا انورشاہ کشمیریؒ کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے ( فیض الباری: ج۲ ص ۳۰۲)
اور علامہ حموی نے اسی قول
کو زیادہ درست قرار دیا ہے (منحۃ الخالق علی البحر: ج ۲ ص۴۴)
دوسری رائے یہ ہے کہ صرف
نمازِ فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھنا درست ہے ، علامہ شامیؒکا رجحان اسی طرف ہے ، شامیؒ
کا گمان ہے کہ ممکن ہے کہ بعض نقل کرنے والوں نے ’’ صلاۃ الفجر ‘‘ کو غلطی سے ’’ صلاۃ
الجہر ‘‘ لکھ دیا ہو( دیکھئے : رد المحتار :ج ۲ ص ۴۴۸)
لیکن جب اتنی ساری نقول
موجود ہیں تو محض ظن و تخمین کی بناء پر اسے رد نہیں کیا جاسکتا ، اسی لئے خود علامہ
شامیؒ نے لکھا ہے کہ شاید اس سلسلہ میں احناف کے دو قول ہیں : ’’ولعل فی المسئلۃ قولین‘‘(منحۃ
الخالق علی ہامش البحر :ج ۲ ص
۴۴)
پس جو بات راجح معلوم ہوتی
ہے وہ یہ کہ قنوتِ نازلہ مغرب ، عشاء اور فجر تینوں میں پڑھنے کی گنجائش ہے کیونکہ
اس سلسلہ میں احادیث موجود ہیں ،البتہ چونکہ فجر کے بارے میں اتفاق ہے اور دوسری نمازوں
کی بابت اختلاف ، اس لئے فجر میں قنوتِ نازلہ کی زیادہ اہمیت ہے…رہ گئی حضرت عبد اللہ
بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت جس میں ظہر و عصر میں قنوتِ نازلہ پڑھنے کا ذکر ہے
، تو اکثر فقہاء کے نزدیک وہ منسوخ ہے اور احادیث میں بعض قرائن اس کے منسوخ ہونے پر
موجود ہیں۔
نماز میں قنوتِ نازلہ کب
پڑھی جائے گی ؟ تو اس سلسلہ میں احادیث میںقریب قریب اتفاق ہے کہ قنوتِ نازلہ رکوع
کے بعد پڑھی جائے، (دیکھئے : بخاری: حدیث نمبر۱۰۰۲، ابو داؤد : حدیث نمبر
۱۴۴۴)
فقہاء نے بھی اس کی صراحت
کی ہے۔ (منحۃ الخالق علی ہامش البحر : ج۲ ص۴۴)
دعاء ِقنوت زور سے پڑھی
جائے یا آہستہ ؟ اس سلسلہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت موجود ہے
کہ رسول اللہ ﷺنے قبیلۂ مضر کے خلاف بد دعاء کرتے ہوئے جہراً قنوت پڑھی ہے۔ ( بخاری
کتاب التفسیر ، باب قولہ : لیس لک من الامر شیء ) اس لئے راجح قول یہی ہے کہ قنوتِ
نازلہ امام کو جہراً پڑھنا چاہئے ، اسی کو اہل علم نے ترجیح دی ہے ۔ (دیکھئے :اعلاء
السنن : ج۶ ص۱۱۲) یوں دعاء آہستہ کرنا بھی درست ہے بلکہ عام حالات میں آہستہ
دعاء کرنا افضل ہے ، لہٰذا آہستہ پڑھنے کی بھی گنجائش ہے …جب امام قنوتِ نازلہ پڑھے
تو مقتدی کیا کرے ؟ اس سلسلہ میں علامہ شامیؒ نے لکھا ہے کہ اگر امام جہراً دعاء قنوت
پڑھے ، تو مقتدی آمین کہنے پر اکتفاء کرے اور اگر آہستہ پڑھے تو مقتدی بھی دعاء کو
دہرائے (رد المحتار :ج ۲ص ۴۴۹)
اس بات پر حنفیہ کا اتفاق
ہے کہ جیسے نماز سے باہر ہاتھ اُٹھا کر دعاء کی جاتی ہے ، اس طرح قنوتِ نازلہ میں ہاتھ
اُٹھا کر دعاء نہیں کی جائے گی، لیکن ہاتھ باندھ کر رکھا جائے ؟ یا چھوڑ دیا جائے ؟
اس سلسلہ میں کوئی صریح حدیث موجود نہ ہونے کی وجہ سے فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ،
امام ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒکے نزدیک ہاتھ باندھنا بہتر ہے اور امام محمد ؒ
کے نزدیک ہاتھ چھوڑے رکھنا بہتر ہے ۔ ( دیکھئے : اعلاء السنن :ج ۶ ص۱۲۲) چونکہ قنوتِ نازلہ ’’قومہ
‘‘کی حالت میں پڑھا جاتا ہے اور قومہ کی حالت میں ہاتھ چھوڑے رکھنا مسنون ہے،اس لئے
بہتر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھ چھوڑے رکھے ، البتہ بعض شوافع اور حنابلہ کے نزدیک
قنوتِ نازلہ میں بھی اسی طرح ہاتھ اٹھانے کی گنجائش ہے جس طرح عام دعاؤں میں، (دیکھئے:
المغنی :ج ۲ ص ۵۸۴ بہ تحقیق ترکی وغیرہ)
رہ گئے قنوتِ نازلہ کے الفاظ
، تو اس سلسلہ میں کچھ خاص الفاظ ہی کی پابندی ضروری نہیں : ’’واما دعاء ہ فلیس فیہ
دعاء موقت‘‘ ( البحر الرائق : ج۲ ص۴۱)
البتہ ظاہر ہے کہ جو الفاظ
رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ سے ثابت ہوں اُن کو پڑھنے کا اہتمام کرنا بہتر ہے ، اس سلسلہ
میں ایک تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اُن کو اِن الفاظ میں
دعاء سکھائی :
اَللّٰھُمَّ اھْدِنِی
فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِیْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِیْ فِیْمَنْ
تَوَلَّیْت ، وَ بَارِک لِی فِیْمَا اَعْطَیْت وَقِنِی شَرَّ مَاقَضَیْتَ ،
فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَایُقْضٰی عَلَیْکَ وَاِنَّہ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ ،
تَبَارَکَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ ( ابوداؤد: حدیث نمبر۱۴۲۵)
اے اللہ ! مجھے بھی ان لوگوں
کے ساتھ ہدایت عطاء فرمائیے ، جنہیں آپ نے ہدایت دی ہے اور مجھے بھی اُن لوگوں کے
ساتھ عافیت میں رکھئے ، جن کو آپ نے عافیت سے سرفراز فرمایا ہے اور میری بھی ان لوگوں
کے ساتھ نگہداشت فرمایئے ، جن کو آپ نے اپنی نگہداشت میں رکھا ہے ، جو کچھ آپ نے
عطاء فرمایا ہے، اس میں میرے لئے برکت عطاء فرمایئے ، قضاء و قدر کے شر سے میری حفاظت
فرمائیے، کیونکہ آپ فیصلہ کرتے ہیں ، آپ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ، جسے
آپ دوست بنالیں، وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس کے آپ دشمن ہوں، وہ باعزت نہیں ہو سکتا
، پروردگار ! آپ کی ذات ، مبارک اور بلند ہے۔
(جب
جماعت کی نماز میں یہ دعاء پڑھیں تو جمع متکلم کی صیغہ بنادیں…مثلا: اَللّٰھُمَّ اھْدِنَا …
وَ عَافِنَا وَ تَوَلَّنَا)
حضرت عمررضی اللہ عنہ سے
بھی ایک دعاء پڑھنا منقول ہے جس کو امام نوویؒ نے بیہقی کے حوالہ سے نقل کیا ہے ( الاذکار:
۹۷)
اور علامہ شامیؒ نے حضرت
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے ان الفاظ کا اضافہ نقل کیا ہے ، جو وتر والی دعاء
قنوت پڑھنے کے بعد وہ پڑھا کرتے تھے ، اس دعاء میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دعاء کا
عطر بھی آگیا ہے ، اس لئے اس دعاء کے الفاظ کا نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے :
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ
لِلْمُوْمِنِیْنَ وَالْمُوْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَاَلِّفْ
بَیْنِ قُلُوْبِھِمْ وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ وَ انْصُرْھُمْ عَلی عَدُوِّکَ
وَعَدُوِّھِمْ ، اَللّٰھُمَّ الْعَنْ کَفَرَۃَ اَھْلِ الْکِتَابِ الَّذِیْنَ
یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ وَیُقَاتِلُوْنَ اَوْلِیَائَ کَ ، اَللّٰھُمَّ خَالِفْ
بَیْنَ کَلِمَتِہِمْ وَزَلْزِلْ اَقْدَامَھُمْ وَاَنْزِلْ بِھِمْ بَاْسَکَ
الَّذِیْ لَا تَرُدُّہُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ ( رد المختار:۲،۴۳۲،۴۳۳)
الٰہی ! صاحب ایمان مردوں
اور عورتوں اور مسلمان مردوں اور عورتوں کی مغفرت فرما دیجئے ، ان کے دلوں کو جوڑ دیجئے
، ان کے باہمی اختلاف کو دور فرما دیجئے ، ان کی آپ کے دشمن اور ان کے دشمن کے مقابل
مدد فرمایئے ، اے اللہ! کفار اہل کتاب پر آپ کی لعنت ہو، جو آپ کے رسولوں کو جھٹلاتے
ہیں اور آپ کے اولیاء سے بر سر پیکار ہیں ، اے اللہ ! ان کے درمیان اختلاف پیدا کر
دیجئے ، ان کے قدم کو متزلزل فرما دیجئے اور ان کو آپ اپنے اس عذاب میں مبتلا فرمایئے
، جو مجرم لوگوں سے ہٹایا نہیں جاتا۔
علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے
کہ دْعائِ قنوت کے بعد رسول اللہﷺ پر درود شریف بھی بھیجنا چاہئے :
’’ ویصلی علی النبی وبہ یفتی‘‘( در المختار : ج۲ص ۴۴۲)
یہ وقت ہے کہ ہرمسلمان اپنی
جبین بندگی اللہ کے سامنے خم کر دے اور پورے الحاح اورفروتنی کے ساتھ اللہ کے سامنے
دست ِسوال پھیلائے کہ دنیا میں اسلام کا نام سربلند ہو اوراسلام اور مسلمانوں سے بغض
رکھنے والے بالآخر آخرت کی طرح دنیامیں بھی محرومی کا حصہ لے کر واپس ہوں :
’’ وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز،انہ علٰی کل شیء
قدیر‘‘ (انتہیٰ)
لا الہ الا اللّٰہ، لا
الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا
محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد
رسول اللّٰہ
٭…٭…٭