اذانِ عمر
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 636)
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سات طرح کے افراد کو…اپنا ’’سایہ‘‘ نصیب فرمائیں گے… اور اس دن اللہ تعالیٰ کے ’’سائے‘‘ کے علاوہ کوئی ’’سایہ‘‘ نہ ہو گا… ان سات طرح کے افراد میں سب سے پہلے اور سب سے آگے… وہ مسلمان حکمران ہوں گے جنہوں نے ’’عدل و انصاف‘‘ کے ساتھ حکومت کی ہو گی… ایسے حکمران زمین پر اللہ تعالیٰ کا ’’سایہ‘‘ ہوتے ہیں اور قیامت کے دن یہ حضرات اللہ تعالیٰ کے بہت قرب میں… اللہ تعالیٰ کے سائے میں ہوں گے… خوش، بے فکر ،باامن ، باسکون ، کامیاب اور بے غم… اللہ تعالیٰ کا ’’سایہ‘‘ کیسا ہو گا؟… نہ ہم جانتے ہیں اور نہ قیامت سے پہلے جان سکتے ہیں… مگر اتنا تو معلوم ہے کہ وہ بہت عظیم الشان نعمت اور حالت ہوگی…
’’امام عادل‘‘ عادل حکمران وہ ہوتا ہے جو … اللہ تعالیٰ کی شریعت نافذ کرتا ہے… جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے فیصلے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرتا ہے… جو اللہ تعالیٰ کا وفادار ہوتا ہے … اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو ’’خیر‘‘ پہنچاتا ہے… ہم اپنی خوش نصیبی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے محض اپنے فضل سے… ہمیں ایک ’’امام عادل‘‘ کی زیارت نصیب فرمائی… حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد… نور اللہ مرقدہ … اگر ہمیں یہ نعمت نہ ملتی تو زندگی کس قدر ادھوری اور اداس رہ جاتی … شکر ہے یا اللہ!شکر … بے انتہا شکر… بے حد شکر… الحمد للہ رب العالمین
ایک عربی کہاوت
ایک عربی کہاوت ہے… ’’ ہائے کاش میں اذان کی خاطر ہی ذبح ہو جاتا‘‘ … قصہ اس کہاوت کا یہ ہے کہ ایک ظالم شخص کے ہاتھ ایک شاندار مرغا آ گیا… بلند آواز ، پر سوز اذان، اونچی کلغی اور چمکتا رنگ… اس ظالم کو مرغے کی یہ شان نہ دیکھی گئی… اس نے مرغے سے کہا کہ یہ روز اذان دینا بند کرو اور مرغیوں کی طرح ’’کُٹ کُٹ‘‘ کرنا سیکھو… اگر آئندہ تم نے اذان دی تو تمہیں ذبح کر دوں گا… مرغا ڈر گیا اس نے جان بچانے کے لئے اذان چھوڑ دی… اور مرغیوں کی آواز سیکھ کر وہی بولنے لگا… چند دن بعد ظالم شخص نے کہا کہ… یہ تمہارے سر پر اتنی اونچی کلغی کیوں ہے؟… اگر یہ مجھے کل نظر آئی تو تمہیں ذبح کر دوں گا… مرغا ڈر گیا اور رات کو اس نے اپنا سرزمین پر رگڑ رگڑ کر اپنی کلغی توڑ ڈالی… چند دن بعد ظالم  شخص نے مرغے کو طلب کیا اور کہا کہ اتنے دن ہو گئے تم نے ایک انڈہ بھی نہیں دیا… جبکہ مرغیاں روز انڈے دیتی ہیں… اگر کل سے تم نے انڈہ دینا شروع نہ کیا تو میں تمہیں ذبح کر دوں گا… رات کو وہ مرغا اپنے پنجرے میں رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا …’’ کاش میں اذان کی خاطر ذبح ہو جاتا‘‘… کسی اچھے اور باعزت کام پر تو جان جاتی …مرنا آج بھی ہے مگر کتنی ذلتیں اُٹھا کر… اور کیسے ذلت ناک مطالبے پر… آج یہ واقعہ کیوں یاد آیا؟ … بس اسے یاد رکھئے تھوڑا آگے چل کر کام آئے گا…
دیوانی محبت
آج کل نہ موسم ایسا ہے کہ… ملا محمد عمر مجاہد کا تذکرہ کیا جائے… ہر طرف عجیب و غریب ’’ بیانیے‘‘ منہ پھاڑے کھڑے ہیں… اور نہ ماحول میں ایسی گنجائش ہے کہ… اس زمانے کے سب سے بڑے مجاہد کا تذکرہ چھیڑا جائے… مگر محبت دیوانی ہوتی ہے… مجھے حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد سے سچی ، پکی اور قلبی ’’محبت‘‘ ہے…وہ روز مجھے یاد آتے ہیں… وہ میری دعاؤں میں بستے ہیں… وہ میرے لئے ایک روشن دلیل ہیں …وہ میرے محسن ہیں… میں ان سے غیر مشروط محبت رکھتا ہوں… وہ محبت جس میں ’’ لیکن‘‘ یا ’’ مگر‘‘ کا لفظ نہیں آتا…
میں باوجود شدید خواہش کے… اُن کی کوئی خدمت نہ کر سکا… مگر الحمد للہ اُن کی’’ محبت‘‘ میں پتھر کھانے والا ’’مجنوں ‘‘ضرور بنا رہا… ویسے جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ کے دین سے سچی محبت ہو گی وہ ضرور … حضرت امیر المومنین سے محبت رکھے گا… اور اُن کو اپنا محسن جانے گا… آج کل اخبارات اور میڈیا پر ایک معذور سائنسدان ’’سٹیفن ہاکنگ‘‘ کا تذکرہ چل رہا ہے… میں نے غیر جانبداری کے ساتھ اس کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کی… آخر دنیا اتنی پاگل جوہو رہی تو کوئی وجہ ضرور ہو گی… مگر مجھے مایوسی ہوئی…
بے شک’’سٹیفن ہاکنگ‘‘ ایک باہمت انسان تھا … اللہ تعالیٰ ’’رحمٰن‘‘ بھی ہیں اور’’ جوّاد‘‘ بھی … یعنی عام رحمت والے اور سخی… وہ دنیوی خوبیاں اور صفات اپنی ساری مخلوق کو عطاء فرماتے ہیں… کوئی مسلمان ہو یا غیر مسلم … کوئی اللہ تعالیٰ کا وفادار ہو یا اس کا منکر… ’’سٹیفن ہاکنگ‘‘ میں بھی یہ خوبی تھی کہ وہ باہمت تھا اس نے بیماری کا مقابلہ کیا… اور وہ ذہین تھا …کائنات کے بارے میں طرح طرح کی مبہم پیشین گوئیاں کرتا رہتا تھا… اور بس… اہل یورپ دنیا پر اپنی برتری دکھانے کے لئے اپنے ’’افراد‘‘ کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں … ان کو پرکشش اور پراسرار دکھاتے ہیں… اور احساس کمتری کے مارے ہوئے ہمارے دانشور فوراً ڈھول لے کر ان کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں… کائنات بہت وسیع ہے اور سائنسدان ہر دس سال بعد چونک اٹھتے ہیں کہ کیا سامنے آ گیا؟ … سٹیفن ہاکنگ نے یہ کچھ ایجاد کیا نہ مخلوق کو کوئی فائدہ پہنچایا… وہ کائنات کے بارے میں ممکنہ مفروضے پیش کرتا رہا… اور اپنی معذوری کے باعث ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا… بہرحال اس سے محبت رکھنے والوں کا حق ہے کہ وہ اس کا تذکرہ کریں… اس کو خراج تحسین پیش کریں… لیکن وہ مسلمانوں کو بھی اس بات کا حق دیں کہ… وہ جن سے محبت رکھتے ہیں… وہ بھی ان کا تذکرہ کر سکیں انہیں خراج تحسین پیش کر سکیں … سٹیفن ہاکنگ کائنات کے راز ڈھونڈتا رہا … جبکہ ملا محمد عمر مجاہد نے خالق کائنات کے راز اس اُمت اور انسانیت کو سکھائے… جن میں سب سے بڑا راز یہ سمجھایا کہ… مخلوق میں کوئی سپر پاور اور کوئی ناقابل شکست نہیں ہے… ’’سٹیفن ہاکنگ‘‘ کائنات کے بلیک ہولوں میں کھویا رہا جبکہ ملا محمد عمر مجاہد ساری زندگی ’’خالق کائنات‘‘ کی محبت و اطاعت میں کھوئے رہے…خالق کائنات ، اس کائنات سے بہت بڑا اور بہت عظیم ہے… پس جو اس کی ذات و صفات میں کھو جاتا ہے وہ بھی بہت بڑا انسان بن جاتا ہے… ’’سٹیفن ہاکنگ‘‘ نے دنیا میں کچھ بھی نہ بدلا… نہ کوئی نظریہ نہ کوئی نظام نہ کوئی ایک گلی یا گھر… جبکہ ملا محمد عمر مجاہد نے دنیا کو مثبت تبدیلیوں سے بھر دیا… انہوں نے ظالم استعماری نظام کے رعب کو توڑا… انہوں نے فساد زدہ معاشرے میں امن قائم کیا… انہوں نے بغیر کسی سہارے کے ایک حکومت چلا کر دکھائی… اور انہوں نے اپنے زمانے میں ہمت اور عزیمت کو مستقل ایک آرٹ بنا دیا… ’’سٹیفن ہاکنگ‘‘ نے خود کو لبرل کہا مگر وہ … پوری زندگی فاشسٹ نظام کا حصہ بنا رہا… اسی نظام کے آقاؤں سے تمغے لیتا رہا… اور اپنی ذاتی زندگی میں عمل اور ایثار کی کوئی مثال نہ بن سکا … جبکہ ملا محمد عمر مجاہد نے ایک بادشاہ ہو کر فقیر کی زندگی گذاری… ایک فاتح ہو کر عاجزی اور تواضع کو اپنا شعار بنایا… ایک جنگی کمانڈر ہو کر امن اور محبت کی فضا بنائی اور ایک بااختیار ترین شخص ہو کر… ایک عام انسان جیسی زندگی بسر کی … اور دنیا کے کسی ایوارڈ، اعزاز یا تمغے کی کوئی خواہش نہیں پالی…
آپ خود اندازہ لگائیں کہ… ایک طرف ایک شخص ہے جس کا کل اثاثہ ایک کتاب…پانچ چھ مفروضے اور پیشین گوئیاں… دو طلاق یافتہ بیویاں اور کچھ فلمیں اور تمغے ہیں… جبکہ دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جس کے کارنامے، احسانات، نظریات اور اثرات کا دائرہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے… جس نے زمانے کو بدلا… جس نے ظاہری ناممکنات کو ممکن بنایا… جس نے عالمگیر غلامی کی زنجیروں کو کچے دھاگوں کی طرح توڑ ڈالا …کاش اس زمانے کے مسلمان… اس زمانے کے ’’زمانہ ساز‘‘ انسان کو سمجھیں… اُن سے روشنی اور فیض پائیں… اُن کے تذکرے مہکائیں اور اُن سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں…
ہاں جو مسلمان ایسا کرے گا… وہ اپنا ہی بھلا کرے گا… وہ انسانیت کا بھلا کرے گا… امیر المومنین تو جا چکے… اُن کو نہ پہلے ضرورت تھی نہ اب حاجت ہے… اُن کی جھولی ایمان اور توکل سے بھری ہوئی تھی… آج بھی بھری ہوئی ہے… ہاں ہم اپنے گناہوں کی شامت سے… ایک سائے سے محروم ہو گئے… سلطان عادل کا سایہ… جسے اللہ تعالیٰ نے اپنا سایہ قرار دیا ہے … آہ! کتنی دھوپ ہے اور کتنی گھٹن… ہم اس سائے کے کتنے محتاج تھے اور کس قدر محتاج ہیں … کیا آج ایک بھی مسلمان حکمران ایسا ہے جو ’’امام عادل‘‘ کہلانے کے قابل ہو؟… جو روئے زمین پر انسانیت کے لئے اللہ تعالیٰ کا سایہ بن سکے؟ … چلیں سایہ اُٹھ گیا مگر اس سائے کا سایہ تو ہم سنبھال رکھیں… حضرت امیر المومنین کی محبت … اُن کی قدر… اُن کے کارناموںکا اعتراف … اُن سے اکتساب فیض کی کوشش… اُن کے لئے دعائیں… اور اُن کی روشنی سے روشنی پانے کی سعی…
اذانِ عمر
کئی لوگ کہتے ہیں کہ… کتنی مشکل سے اسلامی حکومت قائم ہوئی تھی… مگر امیر المومنین کے ایک فیصلے نے وہ سب کچھ ختم کر دیا… وہ اگر اپنے مہمان کو پکڑ کر کفار کے حوالے کر دیتے تو اسلامی حکومت بچ جاتی… عجیب لوگ ہیں… حضرت امیر المومنین سے ایسے فیصلے کی توقع کرتے ہیں جس کی اسلام میں گنجائش نہیں تھی… عجیب لوگ ہیں غیرت کے ’’کوہ ایورسٹ‘‘ سے بے غیرتی والے کام کی توقع کرتے ہیں… اگر خدانخواستہ ملا محمد عمر مجاہد ایسا فیصلہ کر بھی دیتے تو حکومت نے نہیں بچنا تھا… اذان چھوڑنے کے بعد اگلا مطالبہ کلغی توڑنے کا آجاتا… اور اس کے بعد اگلا مطالبہ اس سے بھی زیادہ ذلت ناک… سلام ہو اس ’’مرد ایمان‘‘ اس ’’مرد غیرت‘‘ اور اس مرد عزیمت پر جس نے اذان کی خاطر اپنی حکومت کی قربانی دی…اور مسند اقتدار کو چھوڑ کر… میدان جہاد میں آ کھڑا ہوا… تب اللہ تعالیٰ نے اس پر ایسا فضل فرمایا کہ… اسے روئے زمین کے بڑے فاتحین کی صف میں شامل فرما لیا… ایسا فاتح جس نے … دنیا کے چالیس ملکوں اور ان کی ہوشرباٹیکنالوجی کو… اکیلے شکست دے دی … رنگ و نور میں دسویں جلد کا نام … اسی نسبت سے ’’اذان عمر‘‘ رکھا ہے… یا اللہ! قبول فرما…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭