اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 645)
اللہ تعالیٰ ہمیں ’’مال‘‘ دیتے ہیں…پھر فرماتے ہیں… اے میرے بندے اپنے اس مال میں سے مجھے اچھا سا قرضہ تو دے دو… میں تمہارا یہ قرضہ کئی گنا بڑھا کر واپس لوٹا دوں گا… اور تمہارا یہ مال بڑھتا ہی چلا جائے گا… یہاں تک کہ جنت کی قیمت بن جائے گا… سبحان اللہ! کیا محبت کا انداز ہے… اللہ تعالیٰ کو اچھا قرضہ دو… اللہ تعالیٰ کو اچھا قرضہ دو…یہ آواز بار بار قرآن مجید کی آیات میں سے آتی ہے تو دل چاہتا ہے کہ… بدن پر پہنے کپڑوں کے سوا انسان اپنا سب کچھ پیش کر دے…
عظیم شہنشاہ قرضہ مانگ رہا ہے… مالک الملک قرضہ مانگ رہا ہے… وہ جس نے سب کچھ دیا وہی قرضہ مانگ رہا ہے… وہ جو ایک اشارے سے سب کچھ چھین سکتا ہے قرضہ مانگ رہا ہے…وہ جو منٹوں میں فقیر کو بادشاہ اور بادشاہ کو فقیر بنا دیتا ہے وہ قرضہ مانگ رہا ہے… اور ساتھ وعدہ فرما رہا ہے کہ… میں تمہارا یہ مال بہت زیادہ بڑھا دوں گا… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں دس لاکھ گنا… دوسری روایت میں بیس لاکھ گنا… فرمایا
من ذاالذی یقرض اللّٰہ قرضا حسنا
کون ہے وہ جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرضہ دے
فیضاعفہ لہ اضعافا کثیرا
پھر اللہ تعالیٰ اسے بہت گنا بڑھا دے
جس چیز کو اللہ تعالیٰ ’’کثیر ‘‘ فرمائے… یعنی زیادہ… وہ کتنی ہو گی؟ … اللہ تعالیٰ تو ساری دنیا کے مال کو’’ قلیل‘‘ فرماتے ہیں… یعنی تھوڑا… تو پھر اللہ تعالیٰ کا زیادہ کیا ہو گا؟ مبارک ہو جہاد میں مال لگانے والوں کو… ان کا سودا بڑا کامیاب ہے… اور ان کا نفع بے شمار ہے… سورہ بقرہ کی اس آیت رقم (۲۴۵) کی تفسیر میں حضرت شاہ عبد القادر رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کو قرض دے، یعنی جہاد میں خرچ کرے، اس طرح فرمایا مہربانی سے…اور تنگی کا اندیشہ نہ رکھے، اللہ کے ہاتھ کشائش ہے ( موضح قرآن)
کامیاب تجارت
دنیا میں انسان ایک دوسرے کے ساتھ تجارت اور کاروبار کرتے ہیں… اس تجارت میں نفع بھی ہو سکتا ہے… اور نقصان بھی… پھر جو تاجر ہمیشہ نفع کماتا ہو اس کو عقلمند اور کامیاب سمجھا جاتا ہے… حالانکہ وہ بھی کبھی کبھار نقصان ضرور اٹھاتا ہے… مگر جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ’’ تجارت‘‘ کرے اس کے لئے نقصان کا کوئی خطرہ نہیں… بس نفع ہی نفع ہے… ہر وقت نفع ہے… بہت قریب کا نفع ہے… اور بہت دور کا نفع ہے…مال بھی بڑھتا ہے… دل بھی صحت مند رہتا ہے… قبر کی راحت کا سامان بھی بنتا رہتا ہے… اور آخرت میں بھی یہ مال ذخیرہ ہوتا رہتا ہے… حضرات صحابہ کرام نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ تجارت کی… ان کے پاس جو تھوڑا سا مال تھا… وہ انہوں نے جہاد پر خوشی خوشی لگا دیا… یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں قرض رکھوا دیا… اب اس مال نے بڑھنا شروع کیا تو… روم و فارس کے خزانے حضرات صحابہ کرام کے قدموں میں آ گرے… اور آخرت کی اونچی اونچی منزلیں ان کا مقدر بن گئیں…
آج مسلمانوں کے پاس کتنا مال ہے؟… مگر وہ یہ مال جہاد میں نہیں لگاتے… اللہ تعالیٰ کے پاس قرض نہیں رکھواتے تو… غلامی ہی غلامی ہے… قدم قدم پر غلامی، بے چینی اور پریشانی… قرآن بار بار پکار رہا ہے…
واقرضوا اللّٰہ قرضا حسنا
اللہ تعالیٰ کو اچھا سا قرضہ دو… اللہ تعالیٰ کو اچھا سا قرضہ دو… اللہ تعالیٰ تمہیںبہت بڑھا کر دے گا… بے حساب دے گا… اجر کریم دے گا… مگر آج جہاد پر خرچ کرنے والے بہت کم رہ گئے… بہت کم رہ گئے…
ایک منظر دیکھیں
امیر تبلیغ حضرت مولانا یوسف کاندھلویؒ لکھتے ہیں:
’’غزوہ تبوک کے موقع پر حضور اقدس ﷺ نے مسلمانوں کو جہاد میں جانے کی خوب ترغیب دی اور انہیں اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کا حکم دیا … چنانچہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی بہت دل کھول کر خوب خرچ کیا اور سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مال لائے… اپنا سارا مال لائے تھے… جو کہ چار ہزار درہم تھا تو ان سے حضور ﷺ نے فرمایا کیا تم نے اپنے گھر والوں کے لئے کچھ چھوڑا ہے تو حضرت ابوبکر نے عرض کیا ہاں! اللہ اور اس کے رسول کو (چھوڑا ہے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنا آدھا مال لائے… حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بھی بہت سا مال حضور ﷺ کی خدمت میں لے کر آئے… اور حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ نوے وسق ( تقریباً پونے پانچ سو من) کھجور دی… اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے تہائی لشکر کا پورا سامان دیا… صحابہ میں سے سب سے زیادہ انہوں نے خرچ کیا، یہاں تک کہ تہائی لشکر کے لئے تمام ضروری سامان دیا… حتی کہ یہ کہا گیا کہ اب ان کو مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، یہاں تک کہ مشکیزوں کی سلائی کے لئے موٹی سوئی کا بھی انتظام کیا… ‘‘( حیات الصحابہ ج۱)
نظر نہیں آتا
ہر مالدار شخص کو… وہ چاہے یا نہ چاہے… مال خرچ کرنا ہی پڑتا ہے… شادی بیاہ کی رسومات ہوں یا… کسی کے مرنے کی رسومات… بخیل سے بخیل مشرک بھی ان مقامات پر خرچ کرتے تھے… اور خرچ کرتے ہیں… عام مسلمان مالدار بھی شادی بیاہ اور مرنے کی رسومات پر کافی مال خرچ کرتے ہیں… اسی طرح کئی مالداروں کو لوگوں کے شر سے بچنے کے لئے کافی مال خرچ کرنا پڑتا ہے… کچھ مالدار معاشرے اور خاندان میں اپنی بڑائی جتلانے کے لئے خرچ کرتے ہیں… اور کچھ لوگ… دوسرں کی محبت اور تعظیم حاصل کرنے کے لئے مال خرچ کرتے ہیں کہ… لوگ ان کے نیچے لگیں ان کو کھڑے ہو کر ملیں اور ان کی واہ واہ کریں… یہ تو ہوئے سارے برے خرچے… اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس طرح کے خرچوں سے محفوظ رکھے… مال بھی چلا جاتا ہے… اور کچھ بنتا بھی نہیں… اب آتے ہیں اچھے خرچوں کی طرف… ان کی تفصیل بھی بے شمار ہے… آپ غریبوں ، بیواؤں ، فقیروں کو صدقہ دیتے ہیں… آپ کوئی خدمت خلق کی چیز بنواتے ہیں… وغیرہ وغیرہ…یہ سب خرچے بہت اچھے ہیں… اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس طرح کے خرچوں کی توفیق عطاء فرمائے… لیکن جہاد کا خرچہ… بہت عجیب ہے… وہ تو آپ نے دین اسلام کے غلبے اور تحفظ کی خاطر جہاد میں دے دیا… وہ آپ نے کسی فرد کو نہیں دیا کہ… وہ آپ کا شکریہ ادا کرے… آپ سے تھوڑا دب کر رہے… وہ آپ نے خاندان میں عزت بنانے کے لئے نہیں دیا… بلکہ خاندان میں تو آپ کو اسے چھپانا پڑتا ہے کہ… کوئی مخبری نہ کر دے…اب اس پیسے سے کوئی عمارت بھی نہیں کھڑی ہوئی کہ… جسے دیکھ کر آپ کا دل خوش ہو… معلوم ہوا کہ… آپ نے دیا مگر اس سے دنیا میں کچھ بھی فائدہ یا خوشی ملنے کا ظاہری امکان نہیں ہے… بس یہ ہے… اللہ تعالیٰ کا قرضہ… نہ نظر آنے والا خرچ…دینے والے آپ اور لینے والا اللہ… دنیا کی کوئی منت نہیں…یہ خرچ نظر نہیں آرہا…نہ عمارت، نہ بلڈنگ، نہ ویڈیو… نہ مووی نہ کہیں بورڈ… مگر نظر نہ آنے والی چیزیں بہت عظیم ہوتی ہیں بہت بڑی… ہمارے تصور سے بھی بڑی… آسمان کی طرح، ستاروں کی طرح… بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر…ہاں بے شک…اللہ تعالیٰ نے جہاد میں خرچ ہونے والے مال کو… بڑا مقام عطاء فرمایا ہے…اللہ تعالیٰ کو مانگنے کی کیا حاجت؟ …مگر اللہ تعالیٰ نے اس مال کی قدر بڑھانے کے لئے… اسے بطور قرضہ مانگا… اور پھر اس پر بڑے معزز اجر کا وعدہ فرمایا…
ولہ اجرکریم
ایک منظر دیکھیں
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے… غزوۂ تبوک کے جہاد میں بہت زیادہ مال خرچ فرمایا… انہوں نے دوسوا وقیہ چاندی یعنی آٹھ ہزار درہم، اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیئے…حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! میرے خیال میں عبدالرحمن بن عوف (اتنا زیادہ خرچ کرکے) گناہگار ہوگئے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے گھر والوں کے لئے کچھ نہیں چھوڑا ہے … چنانچہ حضور اکرمﷺ نے اُن سے پوچھا کہ تم نے اپنے گھر والوں کے لئے کچھ چھوڑا ہے؟ انہوں نے کہا :جی ہاں! جتنا میں لایا ہوں اس سے زیادہ اور اس سے عمدہ چھوڑ کر آیا ہوں آپﷺ نے فرمایا: کتنا؟ انہوں نے عرض کیا:اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے جس رزق اور خیر کا وعدہ کیا ہے وہ چھوڑ کر آیا ہوں (حیات الصحابہ جلد ۱)
ایک بات سوچیں
غزوہ تبوک کا تذکرہ قرآن مجید میں بڑی تفصیل سے آیا ہے… اس غزوہ میں جانے والوں کے فضائل… اور اس میں نہ جانے والوں کے لئے وعیدیں اور شرمندگی…اس غزوہ میں خرچ کرنے والے حضرات صحابہ کرام نے بڑی اونچی بشارتیں پائیں… حتیٰ کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو تو… پکی رضا کی بشارت دے دی گئی… اس غزوہ میں خرچ کرنے والے حضرات کو… اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی اتنا دیا کہ… لوگ آج کل اُن کی میراث شمار کرتے رہ جاتے ہیں… یہ سب کچھ ٹھیک…مگر آپ ایک بات بتائیں کہ اس مبارک غزوہ میں ہوا کیا تھا؟… آپ سیرت وسیر کی ساری کتابیں پڑھ لیں… اس غزوہ میں نہ جنگ ہوئی… اور نہ کوئی بڑی فتح…نہ کچھ بنا… نہ کچھ تعمیر ہوا… بس جانا اور آنا ہوا… مگر اس کے باوجود… اس میں خرچ کرنے کے ایسے فضائل… اس میں نکلنے کے عظیم فضائل… اور اس میں نہ نکلنے پر اتنی وعیدیں… بات دراصل یہ ہے کہ… اللہ تعالیٰ کو جہاد بہت محبوب ہے… جہاد ایک مستقل فرض اور عبادت ہے… جہاد خود ایک عظیم عمل ہے… خواہ اس کا کوئی نتیجہ نظر آئے یا نہ آئے…
غزوہ تبوک کا ظاہری نتیجہ کچھ بھی نہیں تھا… اگرچہ اس کے دور رس اثرات بہت تھے… پس مسلمانوں کو سمجھایا گیا کہ… جہاد بہت عظیم عبادت ہے… یہ سب سے اونچا عمل ہے… اس میں نکلنا اور اس میں کچھ لگانا بڑی سعادت ہے… اگرچہ تمہارا لگایا ہوا مال نظر ہی نہ آئے… ’’وہ آنے جانے‘‘ کی دھول میں گم ہوجائے…مگر وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گم نہیں ہوگا… کیونکہ…دنیا میں جب تم کسی امانتدار سچے شخص کو… قرض دیتے ہو تو تمہیں واپسی کا پکا یقین ہوتا ہے… تو پھر اللہ تعالیٰ سے بڑا سچا کون ہے؟… اللہ تعالیٰ سے بڑا وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟… جہاد میں لگایا ہوا مال چونکہ تمہیں نظر نہیں آتا تو ہوسکتا ہے کہ… تمہیں افسوس ہو کہ… میرا مال تو دھول میں اُڑ گیا… بارود میں بکھر گیا… کاش ’’ٹوں ٹوں‘‘ کرتی کوئی ایمبولینس لے لیتا… نظر تو آتی… ویڈیو بھی بنتی…
تو اللہ تعالیٰ نے اس خیال کی اصلاح کے لئے… ’’قرض‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا… کہ تم نے جو دیا اُسے زمین میں نہ ڈھونڈو… وہ تو تم نے مجھے قرض دیا ہے… دنیا میں جب تم کسی کو قرض دیتے ہوتو پھر اس ٹوہ میں نہیں پڑے رہتے کہ… اس نے اس مال کا کیا کیا… تمہیں بس یہ خیال ہوتا ہے کہ… کچھ عرصہ بعد مجھے میرا مال واپس مل جائے… پس جہاد میں صدق دل سے لگایا ہوا تمہارا مال… اللہ تعالیٰ کے پاس ہے… اور اس کا وعدہ ہے کہ… وہ اسے بہت زیادہ بڑھا کر… تمہیں عطاء فرمائے گا… اور عطاء فرماتا رہے گا… بے شک اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭