اسلام اور ریاضت بدنیہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 635)
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم، اما بعد! فاعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم،بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم…
لَآ اُقْسِمُ بِھٰذَا الْبَلَدِوَاَنْتَ حِلٌّم بِھٰذَا الْبَلَدِ وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَد لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ
وقال اللّٰہ عزوجل فی مقام آخر: وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ
وقال النبی ﷺ: اَلْمُومِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُومِنِ الضَّعِیْفِ …او کما قال ﷺ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ایمان والے بندوں کو حکم فرمایا ہے کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰہِ… کہ تم اللہ تعالیٰ کے دین کے مددگار بنو…کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰہِ…اللہ تعالیٰ کے دین کے مددگار بنو…اللہ تعالیٰ کے مددگار بنو… نصرت… دشمنوں کے مقابلے میں…دشمنانِ دین کے مقابلے میں… اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرو… اللہ تعالیٰ کے دین کے انصار بنو…اور اس نصرت کے لیے تم بھرپور تیاری کرو…وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ…جتنی تمہاری طاقت ہے …جتنی تمہاری استطاعت ہے…اس کے مطابق تم تیاری کرو…تیر اندازی سیکھو…گھڑ سواری سیکھو… اور ایسی زبردست قوت بناؤ کہ …تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ… کہ اس کے ذریعہ سے تم اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو ہیبت زدہ کر دو…دہشت زدہ کر دو…اس لیے حضورِ اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا:اَلْمُومِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُومِنِ الضَّعِیْفِ…وہ ایمان والا جو قوی ہو، طاقتور ہو…وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر ہے اور زیادہ محبوب ہے، اس ایمان والے سے جو ضعیف ہو، کمزور ہو… 
مکہ مکرمہ کا ماحول دیکھیں… مدینہ منورہ کا ماحول دیکھیں…سستی نام کی کوئی چیز وہاں نظر نہیں آتی…ہر شخص جو اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لئے تیار ہوا… اُس نے اپنے جسم کو فولاد بنایا… خود کو مضبوط کیا…اور اس مضبوطی کو ایک مقصد بنا کر اُس کے لیے انہوں نے محنت کی…حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جو خطوط اپنے گورنروں کے نام، اپنے سپہ سالاروں کے نام لکھے ہیں… ان کو پڑھ کر دیکھیں… ہر اُس چیز سے منع فرمایا… جو انسان کے جسم کو کمزور کرتی ہو، سست کرتی ہو…اور ہر اُس چیز کا حکم فرمایا جو انسان کو مضبوط بناتی ہو اور چست بناتی ہو …حضور اقدس ﷺ نماز کے بعد باقاعدہ دعاء فرمایا کرتے تھے…اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَ الْکَسَلِ… یا اللہ! سستی سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں…کم ہمتی سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں… ایک بار کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم …حضورِ اقدسﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے …کسی علاقے سے…کہا: یا رسول اللہ!تھکاوٹ ہو جاتی ہے…فرمایا:عَلَیْکُمْ بِالنَّسْلَانْ… تیز چلا کرو…تھکاوٹ کا علاج یہ بیان فرمایا … کہ تیز چلا کرو… وہ عرض کرتے ہیں، ہم نے تیز چلنا شروع کیا…اور چند دن میں ہماری ساری تھکاوٹ دور ہو گئی…جو سستی، پریشانی اور بیماری تھی اُس کا خاتمہ ہوگیا…
حضور اقدس ﷺکی مبارک زندگی ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہے… ہر چیز میں…لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ…ہر چیز میں…اس پر علماء نے لکھا ہے…حضور اقدسﷺکا خوبصورت ، طاقتور اور چست جسم مبارک …اس کو دیکھ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ترغیب ہوتی تھی… وہ بھی اس طرح بننے کی کوشش کرتے… مکہ مکرمہ سے طائف کا سفر پیدل طے کرنا…پہاڑی علاقہ…پتھر… کانٹے…کسی عام انسان کے بس کی بات تو نہیں ہے…حضور اقدس ﷺ نے کُشتی فرمائی… سنت ہو گئی ناں؟…کُشتی کرنے کے لیے انسان کو کتنی زیادہ جسمانی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے …اور کُشتی بھی مکہ کے اُس پہلوان سے جس کا کوئی مدِمقابل پورے مکہ میں موجود نہیں تھا… رُکانہ…اس کو تین بار شکست دی…حضور اقدسﷺتیر اندازی فرماتے تھے …اور بہترین تیر اندازی فرماتے تھے …یہ بھی سنت ہو گئی…اس اسوہ حسنہ کو بھی اپنانا ہے…اور تیر اندازی کے لئے کس قدر جسمانی طاقت کی ضرورت ہے… وہ آپ تیر اندازی کر کے دیکھ لیں…یا کسی تیر انداز سے پوچھ لیں…ہاتھوں کی انگلیاں مضبوط ہونا شرط… کلائیاں مضبوط ہونا شرط…بازوؤں کی مچھلیاں مضبوط ہونا شرط …کندھے مضبوط ہونا ضروری…سینے کا طاقتور ہونا ضروری…کمرکا سیدھا ہونا ضروری…اور ٹانگوں میں قوت اور طاقت…یہ سب چیزیں موجود ہوں… تو انسان اچھی طرح تیر اندازی کر سکتا ہے ورنہ نہیں کر سکتا… اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تیر اندازی میں اتنی محنت فرمائی…کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا…آقا مدنیﷺکی پیاری سنت تھی… ترغیب تھی… تیر اندازی سیکھو… اللہ تعالیٰ نے فرمایا:مِنْ قُوَّۃٍ…تیر اندازی سیکھو…گھنٹوں گھنٹوں وہ اس کی مشق فرماتے تھے…اور جنگوں میں کئی کئی گھنٹوں تک مسلسل تیر پھینکتے تھے…مگر اُن کے بازوؤں میں کسی قسم کی کمزوری یا تھکاوٹ نہیں آتی تھی…اتنی زیادہ طاقت…یہ سب کچھ بھی اسوہ حسنہ ہو گیا…حضورِ اقدس ﷺکی سنت مبارکہ بھی ہو گئی…اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ بھی ہو گیا…گھڑ سواری کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا…فضیلت بیان فرمائی…اور اُن گھوڑوں کی قسمیں کھائیں…جو صبح کے وقت چھاپہ ڈالتے ہیں…صبح کے وقت حملہ کرتے ہیں…معلوم ہوا کہ صبح کا سونا بھی نہیں ہے…صبح مومن کا گھوڑے کی پشت پہ سوار ہونا ہے…اور صبح کے وقت اس گھوڑے نے جا کر حملہ کرنا ہے…اور اُس زمین کو جو شبنم کے گرنے کی وجہ سے جم چکی ہو اس کو بھی اُکھاڑ کر اُس میں سے مٹی اُڑانی ہے… اور ایسا منظر پیدا کرنا ہے کہ عرش کے اوپر سے آواز آتی ہے کہ…وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًافَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًافَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًافَاَثَرْنَ بِہٖ نَقْعًایہ ایسا منظر ہے…کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے مبارک کلام کو زمین پر لے آیا…مبارک کلام نازل ہوا… اس کیفیت کو بیان کرنے کے لئے…
ایک چست مومن اللہ تعالیٰ کو کتنا محبوب ہے …مساجد میں لہو و لعب، دنیا کی باتیں کرنا علامات قیامت میں شمار ہوتا ہے…لیکن مسجد میں جب تیر اندازی ہو رہی تھی…مسجد میں جب نیزوں کی مشق ہو رہی تھی…اُس کی حضورِ اقدس ﷺنے اجازت دے دی… وجہ یہ ہے کہ مومن جب گھوڑے پہ بیٹھ کے جہاد کی نیت سے گھڑ سواری کرتا ہے…اور گھوڑوں کی دوڑ لگاتا ہے…یہ وہ عمل ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُسی طرح حاضر ہوتے ہیں جس طرح ذکر اللہ پر حاضر ہوتے ہیں…اسی طرح مومن جب اکٹھے ہو کے تیر اندازی کی مشق کرتے ہیں…تیر اندازی سیکھتے ہیں…اس عمل پر فرشتے اسی طرح حاضر ہوتے ہیں جس طرح ذکر اللہ پر حاضر ہوتے ہیں…
ایک مومن کے لیے بزدلی اور سستی عیب ہے …اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی… صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دعائیں کرواتے تھے… حضورِ اقدس ﷺسے…یا رسول اللہ!دعاء فرما دیجئے!میرے اندر سستی ہے، ختم ہو جائے… میرے اندر بزدلی ہے، ختم ہو جائے… دیکھیں! مومن کا کام اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت ہے… اور اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لیے ایک مضبوط جسم… ایک چست جسم… مشقتیں سہنے والا بدن…لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ
اللہ تعالیٰ مکہ مکرمہ کی قسم کھا کے فرماتے ہیں …والد اور ولد کی قسم کھا کر فرماتے ہیں…اے انسان!میں نے تجھے پیدا ہی مشقت میں کیا ہے …اب یہی مشقت تو اگر اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے برداشت کرے گا …دنیا و آخرت میں تجھے ترقی ملے گی…اور اگر تو نے مشقت کو چھوڑا اور راحت کو اختیار کیا…تو دنیا و آخرت کی بہت سی مشقتیں تیرے سر پر سوار ہو جائیں گی… اس سورۃ مبارکہ کی تفسیر کو بہت غور سے پڑھیں… تو آپ کو ورزش کرنے کی، اپنا جسم بنانے کی (اہمیت معلوم ہو جائے گی)…
آج افسوس یہ ہے کہ لوگ خوبصورتی کے لئے تو اپنا جسم بناتے ہیں…دنیاوی مقابلوں کے لیے، دنیاوی شہرت کے لئے تو اپنا جسم بناتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے انصار… اللہ تعالیٰ کے دین کے مددگار…اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کے لئے …اس چیزکو ایک مقصد یا مشن بنا کر اختیار نہیں کرتے…حضور اقدسﷺنے ارشاد فرمایا: ’’ذکر اللہ‘‘ کے علاوہ…کھیل کود سے متعلق تمہاری ہر چیز لہو و لعب میں شمار ہو گی… سوائے چار چیزوں کے…تیر اندازی کے دو ہدفوں کے درمیان چلنا…آپ تیر اندازی سیکھ رہے ہیں …ایک جگہ ہدف مقرر کیا دوسری جگہ سے بیٹھ کر تیر پھینکتے ہیں…پھر جا کر وہاں دیکھتے ہیں کہ صحیح لگا یا نہیں لگا…یہ چلنا اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے…یہ لہو و لعب میں نہیں آتا…اپنے گھوڑے کی تربیت کرنا ، اس کو سدھارنا، اس کو تیار کرنا…اللہ تعالیٰ کے دین کی نیت سے…اللہ تعالیٰ کے دین کا کام کرنے کے لئے…یہ لہو و لعب میں نہیں آتا… اس عمل پر بھی اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں…اللہ تعالیٰ کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں…تیراکی کرنا …دنیا کی بہترین ورزش… اسلام کا عجیب مزاج ہے…دنیا کے کئی مذاہب میں…لوگوں کو جسم بنانے کی ترغیب دی جاتی ہے…صرف اس لئے کہ صحت حاصل ہو جائے…چستی حاصل ہو جائے…کہیں یوگا سیکھا جاتا ہے…کہیں مارشل آرٹ سیکھی جاتی ہے…ہوا میں مکے مارے جاتے ہیں…ہوا میں کِکیں ماری جاتی ہیں…اور اس کے مقاصد جو بیان کیے جاتے ہیں…وہ سارے جانوروں والے ہیں… انسانوں والے نہیں ہیں…جبکہ اسلام ان تمام چیزوں کی ان تمام باطل مذاہب سے بڑھ کر ترغیب دیتا ہے…لیکن کام کے ساتھ ساتھ… تمہارا جسم بھی بن رہا ہے اور ساتھ تمہارا اجر بھی بن رہا ہے…تمہاری صحت بھی اچھی ہو رہی ہے… تمہاری آخرت بھی ساتھ ساتھ اچھی ہو رہی ہے …تمہارا جسم بھی مضبوط ہو رہا ہے…ساتھ ساتھ تمہاری روح کو بھی ترقی مل رہی ہے…تم چست بھی ہو رہے ہو…خوش بھی ہو رہے ہو…اور ساتھ ساتھ اپنی آخرت کا سرمایہ بھی تیار کر رہے ہو …اب تیراکی کی ترغیب دی گئی…کس انداز سے؟…وہ یہ کہ بحری جہاد کی بہترین اور بڑی بڑی فضیلتیں بیان کر دیں…آپ فضائلِ جہاد کھول لیں…اس میں بحری جہاد کے بارے میں …سمندر کے جہاد کے بارے میں…حضور اقدس ﷺکے مبارک فرامین اور فضیلتیں… سمندر میں شہید ہونے کے مقامات… درجات …سمندر میں کسی کو اُلٹی آ جائے…سر چکرا جائے جہاد کے دوران…اس کی فضیلت… اور پہلے سمندری دستے کے لیے خاص فضیلتیں… اب سمندری جہاد وہی شخص کر سکتا ہے جو تیراکی جانتا ہو…جو کَشتی رانی جانتا ہو… جو سمندر کی موجوں سے لڑنا جانتا ہو…اب ترغیب بھی ہو گئی… اور ساتھ ساتھ اس کا مصرف بھی بیان ہو گیا…ورزش بھی آ گئی اور اس ورزش کا مقصد بھی ساتھ ساتھ آ گیا… یہ نہیں ہے کہ صرف اپنا جسم بنانا ہے… 
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان چیزوں پہ غور کرو…جن کو حضور اقدس ﷺنے لہو ولعب قرار نہیں دیا…یہ گھڑ سواری ہو رہی ہے …یہ تیر اندازی ہو رہی ہے…یہ تیراکی ہو رہی ہے…فرمایا:اس کا دنیا میں جو سب سے پہلا فائدہ ہوتا ہے…انسان کے دماغ سے ٹینشن دور ہو جاتی ہے…دماغی بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں… دماغی بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ انسان کا سست ہونا…بے کار ہونا…فضول چیزوں میں پڑے رہنا… اس کی وجہ سے ساری ٹینشن ہوتی ہے…اور جب دماغ میں ٹینشن ہوتی ہے تو انسان پر’’ھَم‘‘ پریشانیوں کا حملہ ہوتا ہے… فکروں کا حملہ ہوتا ہے… اس کے بعد پھر نشے شروع ہو جاتے ہیں…ٹینشن زیادہ ہے تو اب سگریٹ پینی ہے…اب سگریٹ سے کام نہیں چلتا تو پھر چرس ہے…چرس کے بعد ہیروئن ہے …کوکین ہے…شراب ہے…لیکن اگر انسان ان چیزوں کو اختیار کرے جو حضور اقدس ﷺکی سیرت اور سنت میں آئی ہیں…چلتے ہوئے تیزچلے…گھڑ سواری کرے…تیراندازی کرے…تیراکی کرے…اور کُشتی لڑے… تو انسان کے ذہن میں ٹینشن قریب نہیں آئے گی …نہ اُس پر پریشانیوں کا حملہ ہو گا…نہ اُس کا جسم شہوتوں اور گناہوں کی طرف زیادہ مائل ہو گا …جسم بھی بنتا جائے گا …اور یہ شخص آخرت کے کاموں کے لیے تیار ہو گا…نہ اسے نماز میں سستی ہو گی…نہ اسے مسجد جانے میں تکلیف ہو گی… نہ اسے حج کے موقع پہ کوئی پریشانی ہو گی…اور فریضہ جہاد ادا کرنا بھی اُس کے لیے آسان ہو جائے گا…
اس لیے حضرات صحابہ کرامؓ کے دور سے لے کر آج تک جو اچھے مسلمان ہیں…سچے مسلمان ہیں…جن مسلمانوں کے دل میں یہ درد ہے کہ… انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کا مددگار بننا ہے…جن مسلمانوں کے دل میں یہ فکر ہے کہ انہوں نے جہاد سمیت ہر اسلامی عبادت کو ٹھیک طریقے سے ادا کرنا ہے…وہ کبھی اپنا جسم بنانے سے غافل نہیں ہوتے…وہ کبھی خودکو ڈاکٹروں، حکیموں، طبیبوں، عاملوں کے حوالے نہیں کر دیتے …وہ حتی الوسع محنت کرتے ہیں…یہاں تک کہ کسی معذوری کی وجہ سے اگر وہ چلنے پھر نے سے بھی رک جائیں…تو اُن کے جسم کے وہ اعضاء جو درست اور ٹھیک ہوتے ہیں…اُن کو مضبوط کرتے رہتے ہیں…تاکہ اللہ تعالیٰ کے دین کی کسی طرح سے تو مدد کر سکیں…
آپ قرون اولیٰ کے اسلامی لشکر کی قوت کا اندازہ لگائیں…صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراکیں زیادہ نہیں تھیں…صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طاقت ، قوت والی کوئی خاص چیزیں استعمال نہیں کرتے تھے…لیکن جب روم و فارس کے پہلوانوں کے مقابلے میں کھڑے ہوئے…تو اُن کو اُن کے گھوڑوں کے اوپر سے اُٹھا اُٹھا کے پٹخ کے پھینکتے تھے…مومن جب اللہ کے دین کے لئے جسمانی قوت بنانے پہ آتا ہے تو اس کی جسمانی اور روحانی دونوں قوتیں مل کر اُس کو دنیا میں طاقتور بنا دیتی ہیں…حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب تیراندازی کے فضائل سنے…اور حضور اکرم ﷺنے یہ وعید بتائی:’’جس نے تیر اندازی سیکھ کر اسے بھلا دیا…چھوڑ دیا…اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں رہے گا‘‘…تو بڑھاپے کی حالت میں…جب چلنا پھرنا مشکل تھا…اس وقت بھی مشقت اُٹھا اُٹھا کے وہ تیر اندازی کیا کرتے تھے…ڈاکٹر کہہ دیں کہ تم مرنے کے قریب ہو اگر تم نہیں چلو گے تو مر جاؤ گے… تب تو لوگ چلنا شروع ہو جاتے ہیں… لیکن یہی قدم اگر اللہ کے دین کی نصرت کے لئے اُٹھیں… اس نیت سے انسان چلے…تو ایک ایک قدم پر اللہ تعالیٰ اُس کے ایمان کو بھی قوت دیتے ہیں…اس کی روح کو بھی قوت دیتے ہیں…اس کے جسم کو بھی صحت عطاء فرماتے ہیں…اس کے دل کو بھی صحت عطاء فرماتے ہیں…اس لئے کہ اللہ تعالیٰ مومن قوی سے محبت فرماتے ہیں…جس کے ساتھ محبت فرماتے ہیں اس کو ہر طرح کی خیر عطاء فرماتے ہیں…
آج اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے…کہ ایک مشن، ایک مقصد اور ایک دعوت بنا کر ہر مسلمان کو اس بات کی ترغیب دی جائے کہ وہ اللہ کے دین کا انصار بننے کے لئے…اسلام کے تمام فرائض کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے لئے… اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کے لئے…ورزش کا اہتمام کرے…بعض لوگوں کا تو پیشہ ایسا ہے کہ اس میں اُن کی اچھی خاصی ورزش ہو جاتی ہے …لیکن جن لوگوں کو بیٹھ کے کام کرنا ہے…جن کو طرح طرح کی مجبوریوں نے گھیر رکھا ہے… وہ اپنی زندگی میں اس چیز کو لائیں…شامل کریں …علماء کو چاہئے کہ اس چیز کی دعوت دیں…اس چیز سے نہ گھبرائیں کہ لوگ کہیں گے کہ آپ خود تو کرتے نہیں…اور دوسروں کو دعوت دیتے ہیں …دعوت دینے کی برکت سے اپنے لئے بھی عمل آسان ہو جاتا ہے…قرآن مجید میں… درجنوں دلائل موجود ہیں…احادیثِ نبویہ میں سینکڑوں دلائل موجود ہیں…جن کو بیان کر کے امت کو اس چیز پر لایا جا سکتا ہے…کہ ہر مسلمان مرد، عورت…اپنے جسم کو صحت مند رکھنے کے لئے…اپنے بدن کو طاقتور بنانے کے لئے ورزش کااہتمام کرے…خالص اللہ کی رضا کے لئے…اللہ کے فرائض ادا کرنے کے لئے… اللہ کے ہاں محبوب بننے کے لئے…اللہ کے دین کا انصار بننے کے لئے…پنجے مضبوط کرے… بازو مضبوط کرے…سینہ مضبوط کرے… ٹانگیں مضبوط کرے…دماغ کو مضبوط کرے …دل کو مضبوط کرے…اونچی آوازیں سن کر ڈرنے اور گھبرانے والا نہ بنے…خوف اور دہشت کے ماحول سے …ڈرکر کسی کے قدموں پہ گرنے والا نہ بنے…ڈٹ جانے والا بنے… جو شخص اس چیز کو تنہائی میں کرے گا…خلوت میں کرے گا…یا لوگوں کے درمیان کرے گا… ان شاء اللہ وہ اللہ کے ہاں بڑا اجر اور بڑی توفیق پائے گا…
آپ آج اپنا ماحول دیکھیں… ہمارے ہاں دین دار اشخاص کو… نہ کوئی تیز چلتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے…نہ کچھ کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے …لیکن آپ مدینہ منورہ کا ماحول دیکھیں…اللہ کے نبی ﷺگزر رہے ہیں…بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دو ٹیمیں بنا کر…آپس میں تیر اندازی کا مقابلہ کر رہے ہیں…سبحان اللہ!… کیا ماحول ہو گا…نظر آتا ہے آج یہ ماحول؟؟ …اللہ کے نبی ﷺ پاس سے گزرے…صحابہ کرامؓ نے ہاتھ روک لئے…فرمایا:اِرْمُوْا، اِرْمُوْا…تیر اندازی کرو، تیر اندازی کرو… چلو میں بھی ایک ٹیم کے ساتھ ہوں…میں اُن کی طرف سے…اور تم دوسری طرف سے مقابلہ کرو …تو دوسری طرف والوں نے ہاتھ روک لیے …فرمایا:کیا ہوا؟…کیوں ہاتھ روک لیے؟ … فرمایا:یارسول اللہ!آپ کے مقابلے میں ہم تیر اندازی کریں؟…آپ اُن کی طرف سے ہو گئے …ہم تو تیر اندازی نہیں کر سکتے…فرمایا:تم تیر اندازی کرو…میں تم دونوں کے ساتھ ہوں… اور آپ ﷺ دونوں کی طرف سے اس عمل میں شرکت فرماتے رہے…کبھی اُن کی طرف سے تیر پھینکتے…کبھی اِن کی طرف سے تیر پھینکتے… صرف اس ایک حدیث کو آپ لے لیں…صحیح حدیث ہے بالکل…کیسا پیارا ماحول تھا؟ …تیر اندازی میں کتنی زیادہ ورزش ہے…کتنا زیادہ کھیل ہے…چھوٹا سا عمل ہے…کہ تیر کو کمان میں رکھ کر پھینکنا ہے…لیکن کمان کھینچتے ہوئے پتہ چلتا ہے…کہ کتنا سانس چاہئے…کتنے بازو چاہئیں…انگلیاں کتنی طاقتور چاہئیں…کمر کیسی چاہئے…ٹانگیں کیسی چاہئیں…صحابہ کرامؓ نے توتیر اندازی میں اتنی محنت کی…کہ بھاگتے ہوئے ہرن کی جس آنکھ کو چاہتے تھے…تیر مارتے تھے…ہرن اتنا تیز رفتار دوڑتا ہے… کہ آج کل کی بندوقیں بھی اُس کا صحیح طرح تعاقب نہیں کر سکتیں…تیر اندازی میں تو کافی زور لگتا ہے…کافی محنت لگتی ہے…
اس لیے…آج وقت کی ضرورت ہے… مسلمانوں میں بیماریاں پھیل گئیں…ہر عامل کے ہاں بس لائنیں لگی ہوئی ہیں…رش لگے ہوئے ہیں…وہمی بیماریاں…دماغی بیماریاں …پریشانیاں…ان میں سے بہت کچھ سستی کی وجہ سے ہے…الحمدللہ میرے پاس کافی زیادہ ڈاک آتی ہے…لوگ اپنی عجیب و غریب بیماریاں لکھتے ہیں…جب میں ان میں غور کرتا ہوں…تو بڑی وجہ …سستی اور غفلت…صبح کا سونا…بے وقت سونا…بے وقت کھانا…پھر وہ سمجھتے ہیں…کہ نہیں جی!ہم تو گر گئے ہیں… ہم تو ختم ہو گئے ہیں…ہم پر تو شیطان غالب ہے… خواہ مخواہ ہر چیز کی ذمہ داری شیطان کے سر ڈالتے ہیں… اس دن بھی ایک خط میں کسی نے لکھا…کہ مسنون دعائیں پڑھتے ہوئے دماغ بوجھل ہوتا ہے…وجہ کیا ہے؟…جسم میں کچھ کمزوری آئی ہو گی…گیس کی تکلیف… جب گیس دماغ کی طرف چڑھتی ہے…تو انسان کے اندر ایک بے چینی…بے کلی پیدا ہوتی ہے …نہ کچھ پڑھ سکتا ہے…اورنہ کچھ سوچ سکتا ہے …پھر اللہ تعالیٰ کی ناشکریاں شروع ہو جاتی ہیں …کہ میرے ساتھ یہ کیوں ہوا؟…تھوڑا بھاگیں،دوڑیں…سر پہ گیس نہ چڑھنے دیں …جسم دماغ کو ٹھیک کریں…تو پریشانی ختم ہو جائے گی… کسی کے خلاف وسوسے آنا شروع ہوئے کہ اُس نے یہ کیا…اُس نے یہ کیا… اس نے وہ کیا…اُس نے ایسا کیا…اس نے ویسا کیا…کچھ بھی نہیں ہوتا…گیس دماغ کی طرف چڑھ رہی ہوتی ہے…یا جسم کے اندر کمزوری آ چکی ہوتی ہے…اور کمزور انسان صرف غم ہی سوچ سکتا ہے…صرف دکھ ہی کھا سکتا ہے…اس نے بیٹھے رہنا ہے…اُس نے پڑے رہنا ہے…اس نے لیٹ جانا ہے…اب ان تین کاموں میں سوائے تکلیف، پریشانی اور دکھ کے اور کچھ نہیں ہو سکتا…خوابوں کے معاملات …ایسے خواب آ رہے ہیں…ویسے خواب آ رہے ہیں…فلاں نے جادو کر دیا…فلاں نے جن کر دیا…کوئی جن نہیں ہوتا…کوئی جادو نہیں ہوتا…نہ جنات کو اتنی فرصت ہے کہ ہر وقت انسانوںپرچڑھے رہیں…اُن کے اپنے بہت زیادہ کام ہیں…اُن کے اپنے خاندان ہوتے ہیں…اُن کے بچے ہوتے ہیں… 
جنات کی بڑی مصروفیات ہیں… بڑے کام ہیں…وہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہیں …مُکَلَّف ہیں…اُن کو بھی نمازیں پڑھنی ہیں …روزے رکھنے ہیں…حج کرنا ہے…جہاد میں شریک ہونا ہے…وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن…اللہ تعالیٰ نے جنات بھی عبادت کے لیے پیدا کیے…انسان بھی عبادت کے لیے پیدا کیے…اُن کو عبادت بھی کرنی ہے…تو جنات صرف اس لئے تو نہیں ہوتے کہ ہم لوگوں پہ چڑھے رہیں…یہ اپنے دماغ کی گیس ہوتی ہے…
ایک شخص کے دل میں درد ہوا…بہت زیادہ…ڈاکٹر کے پاس گیا…ڈاکٹر نیک آدمی تھے…آج کل ڈاکٹر کے پاس جو چلا جائے… ڈاکٹر اسے فوراً بُک کر لیتے ہیں…بڑی بڑی بیماریاں بتا کر…طرح طرح کے ٹیسٹ دکھا کر …تاکہ اُس کا سارا مال سمیٹ لیں…لیکن وہ اچھے ڈاکٹر تھے…اس مزاج کے نہیں تھے… انہوں نے اچھی طرح چیک اپ کیا اور کہا… جناب آپ کوگیس کی تکلیف ہے…گیس اوپر کی طرف چڑھتی ہے…آپ بیٹھے رہتے ہوں گے …کام کاج زیادہ نہیں کرتے ہوں گے…اپنے جسم کو زیادہ حرکت نہیں دیتے ہوں گے…حرکت میں برکت ہوتی ہے…انسانی جسم ایسا ہے … کہ استعمال ہوتا رہے…تو یہ صدیوں چل سکتا ہے…اور استعمال ہونا بند ہو جائے…تو ہفتوں میں ختم ہو جاتا ہے…اگر انسان صرف آٹھ یا نو دن دیکھنا بند کردے…تو اس کی آنکھیں دیکھنے کا طریقہ بھول جاتی ہیں…اگر انسان صرف دس یا پندرہ دن سننا چھوڑ دے…کان بند کرکے رکھے …تواس کے کانوں کو سننے کا طریقہ بھول جاتا ہے …تو آپ کو گیس کی تکلیف ہے…انہوں نے کہا کہ گیس اتنی زیادہ تکلیف دیتی ہے…کہ میرا دماغ اڑنے لگتا ہے؟ …انہوں نے کہا:جناب گیس توہوائی جہاز کو اُڑا دیتی ہے…آپ تو چھوٹے سے ہیں…
مقصد کہنے کا یہ ہے…کہ آج جن چیزوں کوہم نے روحانی بیماریاں سمجھا ہوا ہے… جنات ، سفلی سمجھا ہوا ہے…ان کے پیچھے بھی ہماری سستی …ہماری کم ہمتی…اور ہماری بے اعتدالی کا بہت زیادہ دخل ہے…قرآن مجید…ہمیں دعوت دے رہا ہے…کہ ہم محنت کریں…زیادہ سے زیادہ چستی اختیار کریں…زیادہ سے زیادہ مضبوط بنیں…جب ہمیں کہہ دیا تیر اندازی سیکھو…وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ…امر کے صیغے کے ساتھ…وجوب اور فرضیت کے ساتھ… جب ہمیں فرما دیا گیا… کہ تم تیر اندازی سیکھو…جتنی بھی ہو سکتی ہے… معلوم ہوا ہمارے اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے…کہ ہماری انگلیاں مضبوط ہوں…ہماری کلائیاں مضبوط ہوں…ہمارے بازوؤںکے پٹھے مضبوط ہوں…ہماری آنکھیں دور تک دیکھ سکیں… ہمارا سینہ مضبوط ہو…ہماری کمر مضبوط ہو… ہماری ٹانگیں مضبوط ہوں…یہ حکم اللہ نے دیا …کیونکہ اللہ نے تیر اندازی سیکھنے کا حکم دیا… زیادہ سے زیادہ بڑا تیر انداز بننے کا حکم دیا…اور بڑا تیر انداز وہی بن سکتا ہے…جس کی یہ سب چیزیں مضبوط ہوں… جو آدمی تیر ہاتھ میں لے کر کھڑا ہو…اور جب کھینچے تو تیر آگے کی طرف گرے…اور خود پیچھے کی طرف گرے…تو ایساآدمی کیا تیر اندازی کر سکے گا…
اور گھڑ سواری کے لئے تو بہت زیادہ جسمانی قوت کی ضرورت ہے…گھوڑے کو قابو کرنا… حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے… اپنے بچوں کو کہا کرو…کہ گھوڑے پر اچھل کر سوار ہوا کریں…وثب عربی زبان میں کہتے ہیں… ہاتھ کا سہارا لیے بغیر…یعنی گھوڑا کھڑا کرو… اور پھر چھلانگ لگا کر اُس گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ جاؤ…اپنا ہاتھ گھوڑے کے اوپر رکھے بغیر… فرمایا:اپنی اولاد کو تم یہ چیز سکھاؤ…جس آدمی نے گھڑ سواری نہ کی ہو…پہلے دن آپ اسے گھوڑے پر بٹھا دیں…ایک ہفتہ تک وہ اپنے بستر سے نہیں اُٹھ سکے گا…ٹانگوں کے درمیانی حصہ میں زخم ہو جائیں گے…ایک ایک جوڑ درد کرے گا اس کا…جب اللہ نے ہمیں حکم دیا کہ گھوڑے پالو…گھڑ سواری کرو…ایسے گھڑ سوار بنو…کہ تمہارے گھوڑوں کی میں قسمیں کھاؤں …تو مطلب یہ ہے کہ…اللہ نے ہمیں مضبوط ہونے کا حکم دیا ہے ناں…جب ہمارے اللہ ہمیں مضبوط ہونے کا حکم دے رہے ہیں… ہمارے نبی ﷺہمیں مضبوط ہونے کا حکم دے رہے ہیں…تو ہم اس حکم سے اس قدر غافل کیوں ہیں؟…بس اسی ایک سوال پر غور کریں …کوشش کریں کہ آج سے ہی…میں بھی نیت کروں…اس بارے میں مجھ سے جو سستی، غفلت ہوئی اللہ معاف فرمائے…اور آئندہ جو باقی زندگی ہے…اس میںاس چیز کی فکر اور اہتمام نصیب فرمائے کہ میرا جسم مرتے دم تک جہاد کے قابل رہے، حج کے قابل رہے، نماز کے قابل رہے، روزے کے قابل رہے…آپ بھی نیت کریں کہ آپ کا جسم تمام فرائض کے قابل رہے، ماضی کی غلطیوں پر اللہ سے توبہ، استغفار اور عمل شروع…اور پھراس کے بعد اس چیز کی دعوت بھی دوسروں تک پہنچائیں…
و آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭