ایک ’’عالم ربّانی‘‘ کی یاد میں
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 641)
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ…
اور ایک بہت ضروری دعاء
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْھُدیٰ وَالتُّقیٰ وَالْعَفَافَ وَالْغِنیٰ
اور ایک بڑی اہم دعاء:
اَللّٰھُمَّ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلیٰ دِیْنِکَ
اور ہماری اہم ضرورت:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ
خوف اور بے پردگی سے حفاظت:
اَللّٰھُمَّ اسْتُرْعَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَوْعَاتِنَا
کراچی میں کچھ ہی عرصہ پہلے ایک بزرگ گذرے ہیں …حضرت مفتی رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ… وہ راسخ فی العلم… محقق اور باعمل عالم تھے… ماشاء اللہ ’’عالم ربّانی‘‘… اللہ تعالیٰ اُن کو اپنی مغفرت اور اکرام کا اعلیٰ مقام عطاء فرمائے … اُن کے علم کو زندہ رکھے… اور اُن کے فیوض کو جاری فرمائے… ’’دعاء‘‘ میں اُن کا حال بڑا عجیب تھا… بہت ڈوب کر ’دعاء‘‘ مانگتے تھے… یوں لگتا تھا کہ جیسے گم ہو چکے ہیں… اُن کے آس پاس والے انتظار میں رہتے تھے کہ… حضرت کب دعاء کے لئے ہاتھ اُٹھاتے ہیں… تاکہ وہ بھی اُن کے ساتھ اس مبارک عمل میں شریک ہو جائیں… یوں حضرت والا کی وہ انفرادی دعاء بھی اجتماعی رنگ پکڑ لیتی تھی
آج کیسے یاد آئی
اپنے اکابر و مشائخ تو الحمد للہ کبھی نہیں بھولتے … مگر کبھی کبھار کسی کی یاد بہت شدت سے آ جاتی ہے… آج صبح سے حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کی یاد نے گھیراہوا ہے… اُن سے ملاقات اور تعارف اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک احسان ہے… وہ میرے باقاعدہ استاذ نہیں تھے مگر الحمد للہ اُن کی صحبت سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا… اُن کے ساتھ افغانستان کا ایک یادگار سفر بھی ہوا… اور کئی پرفیض اور پررونق ملاقاتیں نصیب ہوئیں… حضرت والا نے کئی بار انعامات سے بھی نوازا… اور جہادی تحریر و تقریر کے معاملے میں میری حیثیت سے بڑھ کر حوصلہ افزائی فرمائی… وہ ایک الگ طبیعت اور مزاج کے بزرگ تھے… اللہ تعالیٰ نے انہیں رعب سے بھی نوازا تھا اور محبت سے بھی… ترک منکرات یعنی گناہ چھوڑنے کی دعوت… اُن کا خاص موضوع تھا… خود چونکہ ’’تقویٰ‘‘ کے مقام پر فائز تھے اس لئے دعوت میں تاثیر بھی بہت تھی… بدعات، منکرات اور خرافات کے سخت مخالف تھے…داڑھی منڈوانے اور ایک مشت سے کم کرانے کو بڑا سنگین جرم قرار دیتے تھے… اس موضوع پر اُن کی غیرت اور شدت سنت نبوی کے دفاع میں مکمل عروج پر جا پہنچتی تھی… اسی کی خاطر اپنے بہت سے اقارب کو کھو دیا مگر آخری دم تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے … ہاں بے شک جس موقف کو کسی انسان نے اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے اختیار کیا ہو … اس پر اسے مرتے دم تک قائم رہنا چاہیے … زمانے کے ساتھ رنگ بدلنے سے… وقتی ترقی تو ملتی ہے… مگر وہ انسان کے کسی کام کی نہیں ہوتی …اسی طرح خواتین کے شرعی پردے کے معاملے پر حضرت والا کا موقف بالکل دوٹوک اور عام دستور سے ہٹ کر کافی شدید تھا…ویسے جس طرح شرعی پردہ مسلمانوں میں معدوم ہوتا جا رہا تھا … اس میں ایسے ہی سخت موقف سے کچھ اصلاح ممکن تھی… اور فتنے کا سیلاب کچھ ٹھنڈا پڑ گیا تھا …تیسری چیز جس پر حضرت والا کسی بھی طرح کی نرمی یا مفاہمت کے قائل نہیں تھے…وہ تھی تصویر بازی ، فوٹو بازی ، ویڈیو بازی اور ٹی وی وغیرہ … حضرت والا کی تقریباً ہر تقریر ، ہربیان اور ہر مجلس میں’’ تصویر بازی‘‘ پر سخت نکیر کی جاتی تھی
حضرت والا نے اس پر کئی مستقل بیانات بھی فرمائے… ایک رسالہ بھی رقم کرایا اور اسے بڑی تعداد میں تقسیم فرمایا… اور زندگی کے آخری لمحے تک آپ اپنے اس موقف پر مضبوطی سے ڈٹے رہے… اب معلوم نہیں وہ رسالہ کہیں ملتا ہو گا یا نہیں؟… اسے شائع کیا جاتا ہو گا یا نہیں؟ … دراصل ایک ملاقات میں حضرت والا نے بندہ کو تلقین فرمائی تھی کہ… اپنے مضامین میں حضرت والا کے رسائل ، مواعظ اور کتابچوں کی دعوت دیا کروں… اپنی نظر بندی کے دوران بندہ نے اس سلسلے میں مضامین شروع کر دئیے تھے… حضرت والا کے چند رسائل کا تعارف ان مضامین میں تفصیل سے آ گیا تھا… مگر پھر یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور ناگزیر وجوہات کی وجہ سے وہ کالم ہی بند کرنا پڑا… آج مجھے پھر حضرت والا کا وہ حکم یاد آیا… تب خیال آیا کہ… اکابر کی باتوں میں کس قدر حکمت ہوتی ہے… حضرت مفتی رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کے انتقال کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا… اتنے بڑے عالم اور علامہ جن کے ہزاروں شاگرد ہیں … مگر آج اُن کے نظریات کو سمجھنے کے لئے…اُن کی اپنی تحریروں اور تقریروں کے علاوہ اور کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے … یقیناً بہت سے افراد… اب بھی حضرت والا کے نظریات اور فرمودات پر عمل کرتے ہوں گے …اور یہ بھی درست ہے کہ حضرت والا صرف دو چار مشہور مسائل کا نام نہیں تھے … مگر پھر بھی کچھ اکابر کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ… اُن کے انتقال کے بعد… اُن کا نام، اُن کے مشہور نظریات اور اُن کا تذکرہ کچھ عرصہ کے لئے گم ہو جاتا ہے… لیکن ایک عرصہ گذرنے کے بعد پھر اچانک دھند چھٹتی ہے اور اُن کا نام اور کام چمکنے لگتا ہے… میں اسلامی تاریخ سے ایسی کئی مثالیں پیش کر سکتا ہوں … امت میں کئی ایسے حضرات بھی گذرے ہیں کہ اُن کے انتقال کے بعد اُن کا نام لینے…اور اُن کی کتابیں گھر رکھنے تک کو جرم قرار دیا گیا… مگر کچھ عرصہ گذرنے کے بعد دھند چھٹ گئی… اور اُن کا نام اور کام دوبارہ زندہ ہو گئے … وجہ یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ کیا ہوا کوئی عمل ضائع نہیں ہوتا… اور کوئی بھی نمائشی کام زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہتا… اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ… ’’اما الزبد فیذھب جفاء‘‘ … جھاگ بالآخر مٹ جاتی ہے… جب سیلاب آتا ہے تو جھاگ ہر طرف چھا جاتی ہے اور پانی اس کے نیچے گم ہو جاتا ہے … بظاہر یہی لگتا ہے کہ اب ہمیشہ اسی طرح رہے گا… مگر پھر اچانک جھاگ ختم ہونے لگتی ہے اور پانی باقی رہتا ہے
واماماینفع الناس فیمکث فی الارض
یعنی جس چیز سے انسانوں کو فائدہ ہوتا ہے وہ زمین پر برقرار رہتی ہے… اور اصل فائدہ… آخرت کا فائدہ ہے، دین کا فائدہ ہے
حضرت بری ہیں
آج صبح ایک بیان سنا… یہ بیان حضرت والا کی طرف منسوب ادارے میں کیا گیا اور اس میں جہاد فی سبیل اللہ کی مخالفت کی گئی … اور مقدس افغان جہاد کو امریکی جنگ کہا گیا… تب مجھے وہ منظر یاد آ گیا جب… افغان جہاد کی نمایاں شخصیت حضرت مولانا جلال الدین حقانی… جو کہ ’’شامل ثانی‘‘ اور ’’فاتح خوست‘‘کے لقب سے معروف ایک … مثالی مجاہد اور عالم ربّانی تھے… اور یہ امارت اسلامی سے پہلے کے دور کا جہاد تھا … حضرت حقانی کراچی تشریف لائے تھے … اور حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب نے آپ کا والہانہ استقبال فرمایا تھا…حضرت والا کے علمی ادارے میں حضرت حقانی کا مفصل بیان ہوا… اور پھرحضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ نے افغانستان کا جہادی سفر کیا… اور اس دورے میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ… اگر میں جہاد میں شرکت کے لئے یہ سفر نہ کرتا تو میری زندگی ادھوری رہ جاتی
بہرحال حضرت والا افغان جہاد کو شرعی جہاد سمجھتے تھے اور جو کچھ آج ہم سن رہے ہیں وہ بیان کرنے والوں کے اپنے نظریات ہیں… جبکہ حضرت والا ان افکار و نظریات سے بری ہیں
ایک گزارش
میرے اس کالم کا مقصد کسی پر تنقید کرنا نہیں ہے… مجھے تنقید کرنے سے ڈر لگتا ہے… کیونکہ جب تک اپنا خاتمہ ایمان پر نہ ہو جائے… اس وقت تک ہر انسان خود خطرے میں رہتا ہے…جو لوگ دین کا کام کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اُن سب کی نصرت اور رہنمائی فرمائے… آپ اگر میرے آج کے مضمون کو غور سے پڑھیں گے تو… آپ کو اس میں کہیں بھی کسی پر تنقید نظر نہیں آئے گی… اکابر و مشائخ سب کے مشترک ہوتے ہیں… حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ بھی … ہم سب کے بزرگ تھے… اُن کی یاد میں درست اور اچھی باتیں لکھنا اور بولنا یہ سب کا حق ہے… اگر کل اُن کے اپنے ادارے کے اجتماع میں… انہیں یاد نہیں کیا گیا… تو یہ بھی کوئی عیب کی بات نہیں… اہل اختیار کو اپنے معاملات کا خود اختیار ہوتا ہے… اور اگر آج ہم نے اپنی مجلس کو اُن کے تذکرے سے مہکایا ہے تو اس پر بھی کسی کے لئے اعتراض کی گنجائش نہیں ہے… اللہ تعالیٰ حضرت والا کی اُن باتوں کو… جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں امت میں جاری اور زندہ فرمائے… اور ہم میں سے جس کی بھی جو بات اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے اور امت کے لئے نافع نہیں ہے… اللہ تعالیٰ اسے مٹا دے… معاف فرما دے… بندہ آپ سب سے حضرت والا کے مواعظ اور رسائل پڑھنے کی گذارش کرتا ہے
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭…٭…٭