بلالی محبوبیت
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے
قلم سے (شمارہ 681)
اللہ تعالیٰ اول تا آخر…
ہماری نصرت، مغفرت اور رہنمائی فرمائیں
ھُوَ الْاَوَّلُ وَ الْآخِرُ
وَ الظَّاھِرُ وَ الْبَاطِنُ وَ ھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ
(۱)
منزل جب قریب آتی ہے تو
آزمائشیں بھی سخت ہو جاتی ہیں… اور شیطان بڑے زوردار حملے کرتا ہے… اس لئے ہم اول
تا آخر… اللہ تعالیٰ کی رحمت، فضل اور نصرت کے محتاج ہیں
(۲)جب راستہ بھٹکنے لگے… قدم
ڈگمگانے لگیں…سامنے اندھیرا نظر آنے لگے تو… کامیابی کے ستاروں سے رہنمائی ، ہمت اور
روشنی لینی چاہیے… حضور اقدس ﷺ کے صحابہ کرام ستاروں کی طرح ہیں…
یہ ہیں … آج ہماری مجلس
کے دو موضوع … اور تھوڑی سی بات ’’حج بیت اللہ ‘‘ پر
اچھا نہیں کیا
اللہ تعالیٰ جب اپنے وفادار
بندوں کو… حکومت، قوت ، عہدہ یا مال عطاء فرماتے ہیں…تو وہ بندے اللہ تعالیٰ کے دین
کی خدمت پر… کمر بستہ ہو جاتے ہیں… وہ مساجد بناتے ہیں… وہ نماز کو قائم رکھنے کی وسیع
ترتیب بناتے ہیں… وہ زکوٰۃ کا نظام مضبوط کرتے ہیں… وہ حج بیت اللہ کے لئے راحتیں اور
آسانیاں فراہم کرتے ہیں… وہ فریضہ جہاد کی مکمل ترتیب قائم کرتے ہیں… وہ امر بالمعروف
اور نہی عن المنکر کی محنت اُٹھاتے ہیں … اور وہ اللہ تعالیٰ کے قوانین ، حدود اور
احکامات کو نافذ کرتے ہیں… اسی لئے وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاتے ہیں
المؤمن القوی احب الی اللّٰہ من المؤمن الضعیف
طاقتور مؤمن… اللہ تعالیٰ
کو کمزور مؤمن سے زیادہ محبوب ہے… کیونکہ اس کی ہر طاقت دین کے لئے استعمال ہوتی ہے…
اس کی ہر قوت سے… دین کو قوت ملتی ہے… وہ حاکم جو اللہ تعالیٰ کے دین کا وفادار ہو…
اس کا مقام اور اس کا رتبہ بہت ہی بلند ہے… وہ زمین پر اللہ تعالیٰ کا سایہ ہوتا ہے…
اور اس کی اطاعت… اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت ہے … اسلامی تاریخ میں… حضرات
صحابہ کرام اور خیر القرون کے بعد بھی… ایسے بادشاہ ، حاکم اور سلطان گذرے ہیں کہ…
زمانے بھر کے اولیاء ان کے قدموں کی خاک کے برابر نہیں… آج بھی صوفیاء کرام کے بعض
طبقے … ان مومن سلاطین کے لئے… ایصال ثواب اور دعاء کو … اپنے اصلاحی نصاب کا حصہ سمجھتے
ہیں…
حضرات خلفاء راشدین ہوں…
یا ان کے بعد کے… اہل ایمان سلاطین… ان سب نے فریضہ حج کی خدمت کو… ہمیشہ اپنی سعادت
سمجھا … انہوں نے اپنی استطاعت کے مطابق حجاج کرام کی… اور حرمین شریفین کی خدمت کی
… اور اپنے حکومتی اختیارات اور اموال کو…اس فریضہ کی خدمت پر بے دریغ لٹایا…وجہ یہ
تھی کہ … وہ حج بیت اللہ کے مقام کو سمجھتے تھے… وہ اس فریضے کو… امت مسلمہ کی اجتماعیت
کا اہم ترین ذریعہ سمجھتے تھے… وہ حرمین شریفین کے عالی قدر مقام کو جانتے تھے… ماضی
کے ان حکمرانوں نے حرمین شریفین ، حج بیت اللہ اور حجاج کرام کی جو خدمت کی ہے…وہ تاریخ
کا روشن حصہ… اور ان حکمرانوں کے نامہ اعمال کی روشنی ہے… ہماری موجودہ حکومت نے برسراقتدار
آتے ہی … حج بیت اللہ کو مہنگا کر کے اچھا نہیں کیا… غریب مسلمان مرد اور خواتین…سالہا
سال تک حج کے لئے سرمایہ جمع کرتے ہیں… اس کی بڑی عجیب داستانیں ہیں… اخبار میں تھا
کہ ایک خاتون حج کے تازہ اخراجات پڑھ کر…رونے لگی … وہ معلوم نہیں کب سے… محنت کر کے
حج کے لئے پیسے جمع کر رہی تھی…اس سال اسے اپنی منزل قریب نظر آ رہی تھی کہ… حکومت
نے ایک دم ڈیڑھ لاکھ روپے سے بھی زیادہ کا اضافہ کر دیا … اب وہ سوائے رونے اور کیا
کر سکتی ہے… مگر اس کے آنسو … کہیں اس حکومت کی کشتی ہی نہ ڈبو دیں… حکومت اگر تھوڑا
سا غور کرتی… تو کبھی بھی… یہ ظلم نہ ڈھاتی… مگر بد نصیبی نے عقلوں پر پردے ڈال دئیے…
اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائیں … اہل ایمان سے گزارش ہے کہ… مایوس نہ ہوں…
وَ لِلّٰہِ خَزَائِنُ السَّمٰوٰتِ
وَ الْاَرْضِ
اللہ تعالیٰ کے خزانے بے
شمار ہیں…دل میں حج کا شوق بھریں… مکمل یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں…
اور ہمت نہ ہاریں… اللہ تعالیٰ سب کچھ کر سکتے ہیں
ھُوَ الْاَوَّلُ وَ الْآخِرُ
وَ الظَّاھِرُ وَ الْبَاطِنُ وَ ھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ
جنہوں نے حج داخلے کا ارادہ
کر رکھا تھا… اور اب تازہ قیمتیں پڑھ کر ان کا ارادہ متزلزل ہو رہا ہے… وہ اپنے ارادے
کو مضبوط کریں… اپنے شوق کو بڑھائیں… دل کی آواز سے تلبیہ پڑھیں… اور روز دو رکعت
ادا کر کے… اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگیں… ان شاء اللہ انتظام ہو جائے گا… اور اگر نہ
بھی ہوا تو… انہیں اس طلب، اس تڑپ ، اس عشق اور اس شوق پر جو کچھ ملے گا… وہ بھی ان
شاء اللہ حج مبرور سے کم نہیں ہو گا…ایک صاحب ہر نماز تکبیر اولیٰ سے ادا کرتے تھے…
وہ تکبیر اولیٰ کی حقیقت کو جان چکے تھے… دنیا میں بہت کم لوگ تکبیر اولیٰ اور صف اول
کی حقیقت کو جانتے ہیں… ایک بار وہ کسی سخت عذر کی وجہ سے کچھ لیٹ ہوئے…مسجد پہنچے
تو تکبیر اولیٰ نکل چکی تھی… ان کے دل سے حقیقی درد والی آہ نکلی… ایسی آہ جو کسی
مالدار کے دل سے… اس کا سارا سرمایہ ڈوب جانے پر نکلتی ہے… ایک اللہ والے بزرگ نے خواب
میں ساری حقیقت دیکھ لی… انہوں نے اس صاحب سے کہا کہ… آپ میری ساری زندگی کی عبادت
لے لو… بس مجھے وہ دے دو… جو تمہیں اس ’’آہ ‘‘ پر ملا ہے…
مقصد یہ کہ… اہل دل کے لئے
کسی حال میں محرومی نہیں ہے… اہل ایمان کے لئے کسی حالت میں خسارہ نہیں ہے… اہل عشق
کے لئے… کسی حال میں نقصان نہیں ہے… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی… حقیقی اہل ایمان میںسے بنائیں…
قرب منزل کے جھٹکے
مؤمن کی جب کوئی منزل قریب
ہو تو… اس پر آزمائشیں بڑھ جاتی ہیں… اور شیطان بھی بڑے زور دار حملے کرتا ہے… قرآن
مجید کی سورۃ الکہف میں… حضرت سیدنا موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت خضر علیہ
الصلوٰۃ والسلام کا قصہ مذکور ہے…
اس قصے کے اسباق میں سے ایک سبق یہ بھی ہے… جو اوپر عرض کیا ہے…
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے شاگرد کے ساتھ… بڑے اطمینان سے سفر فرما رہے تھے… مگر
جب منزل بالکل قریب آ گئی تو… پریشانیاں، تھکاوٹیں اور مشقت شروع ہو گئی… حسب ہدایت
نشانی ظاہر ہوئی کہ … مچھلی سمندر میں کود گئی…یہ بالکل نہ بھولنے والا واقعہ تھا…مگر
شاگرد بھول گیا… منزل سے آگے نکل گئے تو تھکاوٹ نے گھیر لیا…غصہ اور تفرقہ بھی ہو
سکتا تھا… مگر اُنہوں نے صبر سے کام لیا … برداشت اور ہمت کا انتخاب فرمایا… اور پھر
اُنہیں منزل مل گئی…جس مقصد کے لئے سفر فرمایا تھا وہ اپنی تمام تر برکات کے ساتھ نصیب
ہو گیا… ایسے واقعات اور بھی بہت ہیں…اس لئے یہ قاعدہ اور قانون یاد رکھیں کہ… جب پریشانیاں
دونوں جبڑے کھول کر حملہ آور ہو جائیں… انسان کی سمجھ جواب دینے لگے… اور صبر کرچی
کرچی ہو کر ٹوٹنے لگے تو سمجھ جائیں کہ… کوئی بڑی منزل قریب ہے … کوئی عظیم نعمت حاصل
ہونے والی ہے… اور کوئی اچھا مقصد پورا ہونے والا ہے… اسی لئے شیطان پے درپے حملے کر
رہا ہے… تب نماز اور صبر سے قوت حاصل کرنی چاہیے
وَ اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ
وَ الصَّلوٰۃِ
جب نماز اور صبر کو اپنائیں
گے تو
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ
اللہ تعالیٰ کی معیت اور
نصرت حاصل ہو جائے گی…
یہ کام آسان نہیں ہے… مگر
ضروری بہت ہے… کیونکہ اگر ایسا نہ کیا اور شیطان کا شکار ہو گئے تو …سارا پچھلا سفر
بھی رائیگاں جا سکتا ہے…
اللہ تعالیٰ اول تا آخر…
ہمیں اپنی نصرت، ہدایت ، رحمت اور مغفرت عطاء فرمائیں
ھُوَ الْاَوَّلُ وَ الْآخِرُ
وَ الظَّاھِرُ وَ الْبَاطِنُ وَ ھُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ
روشن ستارے کے پیچھے
دین کی خاطر… ہر تکلیف برداشت
کرنا ممکن ہو جائے… یہ حضرات صحابہ کرام سے سیکھنا چاہیے… صرف ایک حضرت سیدنا بلال
رضی اللہ عنہ کو ہی دیکھ لیں… اللہ اکبر کبیرا… شاید ہم میں سے کوئی بھی … صرف ایک
دن ان تکلیفوں کو برداشت کر کے … ثابت قدم نہ رہ سکے جو… حضرت سیدنا بلال رضی للہ عنہ
نے… کئی کئی دن اور کئی کئی راتیں برداشت فرمائیں…
گذشتہ دو راتوں سے…ان کی
سیرت مبارکہ کا ازسرنو مطالعہ شروع کیا تو… دل روشنی سے بھر جاتا ہے کہ… سبحان اللہ…
اتنا نور اور اتنا بلند مقام … اور سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ… ہم نے دین کی خاطر کیا
کیا؟ اور کیا جھیلا؟ …
کہتے ہیں کہ… حضرت بلال
رضی اللہ عنہ کے دل پر… اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی عظمت ایسی چھا گئی کہ… اس کے
مقابلے میں… انہوں نے اپنی ذات، اپنے نفس اور اپنے بدن کو… کچھ بھی نہ سمجھا… چنانچہ
… جو قربانی مانگی گئی وہ پیش کرتے چلے گئے… کیونکہ عظیم چیزوں کے لئے… معمولی چیزوں
کو خرچ کرنا آسان ہو جاتا ہے… آج ہمارا معاملہ برعکس ہے… ہمارے ہاں نعوذ باللہ دین
بہت چھوٹا… اور اپنی ذات، اپنا نفس اور اپنی خواہشات بہت بڑی بن چکی ہیں… حضرت سیدنا
بلال رضی اللہ عنہ نے خود کوبھلا کر ، مٹا کر… دین کی عظمت کو اپنے دل پر سوار کیا
تو… اللہ تعالیٰ نے ان پر … عظمتوں اور رفعتوں کے دروازے کھول دئیے… پھر کون سی سعادت
ہے جو… حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو نہیں ملی… حتی کہ مقام یہاں تک پہنچا کہ…مسلمانوں
کے… عظیم ترین ایوان… یعنی مسجد نبوی کے پہلے سپیکر… یعنی مؤذن منتخب ہوئے… قرب ایسا
ملا کہ… دن رات حضرت آقا مدنی ﷺ کے دروازے پر حاضر رہتے… اعتبار ایسا ملا کہ… حضور
اقدسﷺ کے خازن مقرر ہوئے… اور محبوبیت ایسی ملی کہ… فرمایا گیا… جنت بھی بلال کی مشتاق
ہے…رضی اللہ عنہ وارضاہ …
یا اللہ ہم پر بھی… رحم
اور اپنا فضل فرما
آمین یا ارحم الراحمین
اللھم صل علی سیدنا محمد
والہ وصحبہ وبارک وسلیم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد
رسول اللّٰہ
٭…٭…٭