زہریلے تیروں سے بچیں!
کلمۂ حق… ۔۔۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 630)
اسلام دین ِ فطرت ہے اور اس کی ایک ایک تعلیم ہر دور اور ہر علاقے کیلئے ہے ۔ آج اکیسویں صدی چل رہی ہے ، اگر اکتالیسویں صدی بھی آگئی تو تب بھی اسلام کی تعلیمات ہی اُس وقت کیلئے کافی ہوں گی ۔ اس دنیا پر ایک ہزار سال سے زائد ایسا وقت گزرا ہے ، جب مسلمانوں نے اپنی تعلیمات ، اپنی تہذیب ، اپنی زبان اور اپنی شناخت کے ساتھ کامیاب حکمرانی کی اور ان کی ترقی سے وہ قومیں بھی استفادہ کرتی رہیں ‘ جو اُس وقت انتہائی پسماندہ اور اب انتہائی ترقی یافتہ شمار ہوتی ہیں ۔
یہ اس دور کا شاید سب سے بڑا شیطانی وسوسہ ہے ، جس میں عالم و جاہل ، تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ ، امیر و غریب تقریباً سب ہی گرفتار ہو جاتے ہیں کہ آج تو اکیسویں صدی چل رہی ہے ، پھر دل کی اصلاح ، نگاہوں کی حفاظت ، پردہ اور ایسی دیگر پرانی باتوں کی گنجائش کہاں ۔ جب شیطان کا یہ وار ایک مرتبہ چل جائے تو پھر انسان ہر گناہ کو اپنے لیے جائز کرتا جاتا ہے ۔ اگر لوگوں کی ملامت کے ڈر سے سب کے سامنے گناہ نہ کر سکتا ہو ، تب بھی خلوت میں پوشیدہ طور پر ضرور د ل و نگاہ کے گناہوں میں ملوث ہو جاتا ہے ۔
یاد رکھیں ! انسان کی فطرت کبھی نہیں بدلتی ۔ آج سے چودہ سو سال پہلے جیسے نگاہ کے فتنے اور حشر سامانیاںتھیں‘ مردو عورت کے بے جا اختلاط کے نقصانات تھے اور بد کاریوں کی تباہ کاریاں تھیں ، آج بھی اُتنی ہی بلکہ اُس سے کہیں بڑھ کر یہ خطرات ہیں ۔ پھر کوئی عقل مند شخص بھلا یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ اُس وقت تو نگاہوں کی حفاظت ضروری تھی اور نگاہوں کو جھکانے میں فائدہ تھا اور آج مجھے یا اور لوگوں کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
قرآن مجید کے نظام کی یہ خوبی اور کمال ہے کہ وہ صرف گناہ اور غلطی سے نہیں روکتا بلکہ ساتھ ہی ایسے تمام غلط راستوں پر بھی سخت پہرے بٹھا دیتا ہے جو بالآخر انسان کو تباہی کی دلدل میں پھنسا دیتے ہیں اور پھر وہ انسان جتنے ہاتھ پائوں مارتا ہے ، اتنا ہی اس دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے ۔ اسی لیے جب قرآن مجید نے بد کاری سے لوگوں کو روکنا چاہا تو صرف یہ نہیں فرمایا : ’’ لا تزنوا‘‘ ( تم بد کاری نہ کرو)
بلکہ انتہائی حفاظت و بلاغت کے ساتھ فرمایا :
ولا تقربواالزنا( اور تم بد کاری کے قریب بھی نہ جائو)
اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ ہر وہ کام جو بالآخر بد کاری کا ذریعہ بن سکتا ہو ‘ اُس کو بھی چھوڑدو ۔ خواہ وہ دلوں میں پنپنے والے گندے خیالات ہوں ‘ دماغ میں بسنے والے ناپاک جذبات ہوں ، زبان سے نکلے ہوئے بیہودہ الفاظ ہوں ، کانوں سے سنی ہوئی فحش باتیں ہوں یا آنکھوں سے کی ہوئی خیانتیں ہوں ۔
اس کے برخلاف مغربی طرزِ فکر یہ ہے کہ گناہوں اور بد کاریوں کیلئے تمام سہولیات اور مواقع فراہم کر دو ، جرائمکے لیے زمین اچھی طرح ہموار کر دو اور پھر صرف لوگوں کو وعظ و تلقین کے ذریعے جرائم کرنے سے روک دو ۔ اگر آپ بلی کے سامنے چھیچھڑے رکھ دیں اور پھر اسے آپ لاکھوں مرتبہ وعظ و نصیحت کریں کہ وہ انہیں نہ کھائے تو ایسا ممکن نہیں کیونکہ یہ بات بلی کی فطرت کے خلاف ہے کہ وہ چھیچھڑوں کو چھوڑ دے ۔
ہمارے اہلِ اقتدار اور دانشوروں کا بھی کچھ ایسا حال ہے کہ جب انہیں کہو کہ مخلوط تعلیم کے ادارے بند کرو، ٹی وی اسکرین پر آنے والے اخلاق باختہ مناظر کی روک تھام کرو اور ایسا ماحول بنائو جس میں نیکی کرنا آسان اور گناہ کرنا مشکل ہو تو انہیں ایسی باتوں سے انتہاء پسندی اور دقیانوسیت کی بو آنا شروع ہو جاتی ہے لیکن جب انہی کے پیدا کردہ حالات کی بناء پر کوئی افسوسناک واقعہ پیش آجاتا ہے تو سب سے بلند و بانگ دعوے اور باتیں یہی لوگ شروع کر دیتے ہیں ۔ معلوم نہیں یہ لوگ پہلی سیڑھی پر قدم رکھے بغیر آخری سیڑھی تک کیسے پہنچنا چاہتے ہیں ۔
پہلے ہم ’’ اصلاحِ دل ‘‘ کے بارے میں چند باتیں عرض کر چکے ہیں ۔ آج کی مجلس میں نگاہ کے زہریلے تیروں کے بارے میں چند باتیں عرض کرنی ہیں:
قرآنِ مجید میں اس بارے میں تین آیات خاص طور پر یہاں قابل ذکر ہیں :
(۱)…سب سے پہلے مرد حضرات کو اپنی نگاہوں کی حفاظت کا یوں حکم دیا گیا ہے:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ   یَغُضُّوْا  مِنْ  اَبْصَارِھِمْ   وَیَحْفَظُوْا  فُرُوْجَھُمْ  ذٰلِکَ  اَزْکٰی لَہُمْ  اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْر’‘  بِمَا یَصْنَعُوْن(النور۔۳۰)
اس آیت ِ مبارکہ کا مختصر مفہوم یہ ہے :
آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ( یعنی جس عضو کی طرف بالکل دیکھنا ناجائز ہے اس کو بالکل نہ دیکھیں اور جس کو فی نفسہٖ دیکھنا جائز ہے مگر شہوت سے جائز نہیں اس کو شہوت سے نہ دیکھیں) اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے (دل و دماغ اور نگاہ کی )پاکیزگی کی بات ہے ( اور اس کے خلاف میں گندگی ہے زنا یا مقدمہ زنا کی) بے شک اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں ( پس خلاف کرنے والے سزا یابی کے مستحق ہو ں گے)
حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی نو راللہ مرقدہ مذکورہ بالا آیت کے فوائد میں تحریر فرماتے ہیں کہ :
’’بد نظری عموماً زنا کی پہلی سیڑھی ہے اسی سے بڑے بڑے فواحش کا دروازہ کھلتا ہے ۔ قرآن کریم نے بد کاری اور بے حیائی کا انسداد کرنے کے لیے اول اسی سوراخ کو بند کرنا چاہا ہے یعنی مسلمان مرد و عورت کو حکم دیا کہ بد نظری سے بچیں اور اپنی خواہشات کو قابومیں رکھیں ، اگر ایک مرتبہ بے ساختہ مرد کی کسی اجنبی عورت پر یا عورت کی کسی اجنبی مرد پر نظر پڑ جائے تو دوبارہ ارادہ سے اس طرف نظر نہ کرے کیونکہ یہ دوبارہ دیکھنا اس کے اختیار سے ہو گا جس میں وہ معذور نہیں سمجھا جا سکتا ۔ اگر آدمی نیچی نگاہ کی عادت ڈال لے اور اختیار وارادہ سے ناجائز امور کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا کرے تو بہت جلد اس کے نفس کا تزکیہ ہو سکتا ہے چونکہ پہلی مرتبہ دفعتاً جو بے ساختہ نظر پڑتی ہے وہ ازراہِ شہوت و نفسانیت نہیں ہوتی اس لیے حدیث میں اس کو معاف رکھا گیا ہے ، شاید یہاں بھی’’ من ابصارھم ‘‘ میں’’ من‘‘ کو تبعیضیہ لے کر اس طرف اشارہ کیا ہے آنکھ کی چوری اور دلوں کے بھید اور نیتوں کا حال اس کو سب معلوم ہے لہٰذا اس کا خیال کر کے بد نگاہی اور ہر قسم کی بد کاری سے بچو ورنہ وہ اپنے علم کے موافق تم کو سزا دے گا‘‘ ۔
(۲)… مردوں کے بعد خواتین کو بھی بڑی تاکید سے مستقل آیت میں یہی حکم دیا گیا ہے:
وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ  اَبْصَارِھِنَّ  وَیَحْفَظْنَ  فُرُوْجَھُن(النور۔۳۱)
اس آیت ِ مبارکہ کا مختصر مفہوم یہ ہے  :
’’ اور ( اسی طرح ) مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ( یعنی جس عضو کی طرف بالکل دیکھنا ناجائز ہے اس کو اصلاً نہ دیکھیں اور جس کو فی نفسہٖ دیکھنا جائز ہے مگر شہوت سے جائز نہیں اس کو شہوت سے نہ دیکھیں) اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں )‘‘
(۳)… ایمان والے مردوں اور عورتوں کے ضمیر کو جھنجھو ڑتے ہوئے ، انہیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا گیا :
یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ  الْاَعْیُنِ  وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ
ترجمہ : ’’اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت کو جانتے ہیں اور جس بات کو سینہ میں چھپاتے ہیں اس کو بھی جانتے ہیں ‘‘۔(المومن۔۲۴)
حضرت اقدس تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے اس آیت ِ شریفہ میں دو گناہوں کا ذکر فرمایا ہے ، آنکھوں کے گناہ کو اور دل کے گناہ کو ، یوں تو آنکھوں کے بہت سے گناہ ہیں لیکن یہاں ایک خاص گناہ کا ذکر ہے وہ ہے بد نگاہی ۔ اس طرح دل کے بہت سے گناہ ہیں لیکن یہاں پر خاص گناہ کا ذکر ہے یعنی ( گناہ کیلئے ) نیت بُری ہونا ۔ ( وعظ ، غض البصر )
ان آیات ِ مبارکہ کی تفصیل کو بیان کرنے والی بہت سی احادیث ِ طیبہ ہیں جو نگاہوں کے غلط استعمال سے انسان کو روکتی ہیں اور اس گناہ کے برے انجام سے ڈراتی ہیں ۔ ہم یہاں جگہ کی کمی کی بناء پر صرف ایک ہی ارشادِ نبوی نقل کرتے ہیں :
 النظرۃ سھم مسموم من سہام ابلیس من ترکھا امن مخافتی ابدلتہ ایماناً یجد حلاوتہ فی قلبہ( رواہ الطبرانی و الحاکم من حدیث حذیفۃ و قال صحیح الاسناد، الترغیب والترہیب)
ترجمہ:  ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص اس سے اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے بچ کر رہے ، حق تعالیٰ جلّ شانہ اس کو ایسا نورِ ایمانی نصیب فرماتے ہیں جس کی مٹھاس اور لذت دل میں محسوس کرتا ہے ۔‘‘
نظر بھی شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے ، یعنی انسان کو دھوکہ دینے اور اپنی راہ اختیار کرانے کے لیے شیطان جو حربے اختیار کرتا ہے ان میں سے ایک کامیاب حربہ نگاہ کا تیر ہے کہ آدمی پہلے دیکھتا ہے ۔ پھر دیکھنے کے بعد وساوس پیدا ہوتے ہیں پھر بُرے کام کے لیے راہ ہموار کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس میں مبتلا ہو جاتا ہے پس زنا سے بچنا بھی ضروری ہے اور نگاہ نیچی رکھنا بھی ضروری ہے ۔
یا د رکھیں! جو شخص بد نظری کے گناہ میں اعلانیہ یا پوشیدہ طور پر مبتلا ہو جائے تو آہستہ آہستہ اُس کے دل سے اس جرم کا احساس بھی کم یا ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور وہ باطنی طور پر بالکل دیمک زدہ لکڑی کی طرح کھوکھلا ہو جاتا ہے کہ خدانخواستہ بے دینی کا ایک جھٹکا ہی اُس کے ایمان کے خاتمے کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے تمام کفار بالخصوص یورپین اقوام اور مشرکین ہند کی بھرپور کوششیں ہیں کہ دنیا بھر میں کوئی مسلمان مرد یا عورت پاکیزہ نگاہوں اور پاکیزہ دل والا نہ رہے ۔ یہ فلمیں ‘ انٹرنیٹ اور دیگر ایسی چیزیں انہی کے بنائے ہوئے شیطانی جال ہیں اور جو ایک مرتبہ اس جال میں پھنس گیا ، وہ کفار کیلئے بالکل ترنوالہ ہے ‘ جسے کھانا اور ختم کرنا اُن کے لیے ذرا بھی مشکل نہیں ہے ۔
آخر میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ انسان اگر کسی عادتِ بد میں مبتلا ہو تو جلد از جلد اُس سے جان چھڑا لینی چاہیے ۔ اس کام میں جتنی تاخیر ہوتی جائے گی ، اپنی اصلاح مشکل اور نا ممکن نظر آنے لگے گی ۔ ایک پودا جب آپ کو ناگوار گزر رہا ہو تو عقل مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ زمین سے نکلتے ہی اُسے کاٹ ڈالیں یا روند کر ختم کر دیں لیکن اگر آپ اس کام کو ٹالتے رہے تو کمزور پودا رفتہ رفتہ مضبوط تنے والا درخت بن جائے گا اور آپ آہستہ آہستہ بوڑھے اور ضعیف و ناتواں ہوتے جائیں گے ۔ تب ایک وقت ایسا آئے گا کہ آپ اُس کو اکھیڑنا چاہیں گے لیکن نہیں اُکھیڑ سکیں گے ۔
اللہ کریم ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں اعلانیہ اور خفیہ تمام گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین ثم آمین)
( قرآن مجید کے انسدادِ فواحش پروگرام کے مزید نکات اگلی مجالس میں عرض کیے جائیں گے ) ان شاء اللہ تعالیٰ
٭…٭…٭