رنگ و نور جلد دوازدہم
اللہ تعالیٰ کی تلوار
کامیاب و کامران رہنما، عظیم سپہ سالار ، اللہ تعالیٰ کی
تلوار، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی،نامور فاتح سیدنا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قابلِ رشک اور لائق صد فخر حیات پر ایک ایمان
افروز تحریر… جو ہر باصلاحیت مسلمان کے لئے بہترین رہنما ہے۔
مزید
فوائد:
* حضرت خالد بن
ولید رضی اللہ عنہ کی قابل رشک جہادی زندگی کا مختصر خاکہ…
* حضرت خالد بن
ولید رضی اللہ عنہ کی زندگی سے ملنے والے اہم اسباق…
*’’سیف اللہ‘‘ کا
مطلب اور مظہر…
*ایک وجد آفرین شعر…
تاریخ اشاعت:
جمادیٰ
الثانی ۱۴۳۹ / بمطابق مارچ 2018
اللہ تعالیٰ کی تلوار
اللہ تعالیٰ کی تلوار… حضرت سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ
عنہ کچھ تأخیر سے مسلمان ہوئے … مگراپنے اخلاص اور اپنے جہاد کی بدولت… بہت جلد
بلندیوں تک پہنچ گئے … ان کی مبارک اور کامیاب زندگی سے ہمیں پہلا سبق یہی ملتا ہے
کہ … انسان اپنی زندگی میں … اپنے ماضی کی بھر پور تلافی کر سکتا ہے … حضرت سیدنا
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت اور کمان میں … ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جہاد فرمایا جو سابقین اولین میں سے تھے …
حتٰی کہ یہ حضرات دوران جہاد اپنی نماز کی امامت کے لئے بھی… حضرت خالد بن ولید
رضی اللہ عنہ کو آگے رکھتے تھے… میدان
یرموک کو وہ مناظر یاد ہیں جب بڑے بڑے صحابہ کرام حضرت سیّدنا خالد بن ولید رضی
اللہ عنہ کی امامت میں نماز… اور ان کی
کمان میں جہاد کا فریضہ ادا فرما رہے تھے :
عَنْ قَیْسٍ قَالَ:’’ اَمَّنَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ
یَوْمَ الیَرْمُوْکِ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَ خَلْفُہٗ الصَّحَابَۃُ۔ ‘‘
[الاصابہ۔ج:۵،ص:۴۰۰، ناشر:دار الكتب العلمية - بيروت]
حضرت سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے… غزوہ حدیبیہ کے بعد اسلام قبول فرمایا… ہجر
ت کی سعادت حاصل کی اور پھر اسلام کی بلند ترین چوٹی … یعنی جہاد فی سبیل اللہ پر
ایسے قدم جمائے کہ… اس چوٹی کی سب سے بلند ترین جگہ تک جا پہنچے … اور’’ سیف
اللہ‘‘ کے حقیقی خطاب کے مستحق بن گئے… حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے… حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ’’سیف اللہ‘‘ قرار دیا تو… یہ صرف کوئی
تعریفی یا اعزازی لقب نہیں تھا … یہ حقیقت تھی ، بالکل پکی اور سچی حقیقت… یہ اللہ
تعالیٰ کا فیصلہ تھا اور اللہ تعالیٰ کا انتخاب … حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’خالد اللہ تعالیٰ کے کتنے اچھے
بندے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں۔‘‘
[سنن ترمذی۔حديث رقم:۳۸۵۰، ناشر: دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
اور ارشاد فرمایا:
’’خالد کو ایذاء نہ پہنچاؤ بے شک
وہ اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں جس تلوار کو اللہ تعالیٰ نے
مشرکین پر برسایا ہے۔‘‘
[مستدرک حاکم۔حديث رقم:۵۲۹۷، ناشر:دار الكتب العلمية - بيروت]
اور حکم فرمایا:
’’خالد پر زبان درازی نہ کرو وہ
اللہ تعالیٰ کی تلوار ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے کفار پر سونت لیا ہے۔‘‘
[المطالب العالیہ۔حديث رقم:۴۰۰۷ ، ناشر:دار العاصمة]
اللہ تعالیٰ کی تلوار ہونا نہ تو کوئی معمولی بات ہے… اور
نہ ہی یہ کوئی آسان منصب ہے… یہ ایک بہت اونچا… اور بہت مشکل مقام ہے… اللہ
تعالیٰ کی تلوار… یعنی مجسم جہاد… مسلسل جہاد… محاذوں والا جہاد… کامیاب جہاد…
چلتا اور چمکتا جہاد… خون میں ڈوبا اور زخموں سے سجا جہاد… معرکوں اور میدانوں میں
اترا ہوا جہاد… اللہ تعالیٰ کے ہر دشمن کی گردن کاٹنے والا جہاد… مہارت اور محنت
والا جہاد… آگے بڑھنے اور کہیں نہ رکنے والا جہاد… شکست اور پسپائی سے مبرّا
جہاد… حضرت کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے
ہیں:
’’حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب
نانوتوی رحمہ اللہ اوّل صدر مدرس
دارالعلوم دیوبند فرمایا کرتے تھے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنی ساری عمر شہادت کی تمنا میں جہاد و
قتال میں گزاری لیکن ان کی یہ تمنا پوری نہیں ہوئی اور شہادت ان کو نصیب نہ ہوئی۔
مولانا یعقوب صاحب میں کچھ شان جذب کی تھی، اسی شان جذب میں فرمایا کہ حضرت خالد
بن ولید رضی اللہ عنہ خواہ مخواہ ہی شہادت کی تمنا اور آرزو کرتے
تھے، ان کی اس تمنا اور آرزو کا پورا ہونا نا ممکن اور محال تھا۔ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تلوار بتایا ہو
اسے نہ کوئی توڑ سکتا ہے اور نہ موڑ سکتا ہے، اللہ کی تلوار کا توڑنا نا ممکن اور
محال ہے۔‘‘
[سیرت المصطفیٰ، جلد دوم، ص ۴۲۴۔ ط، حقانیہ]
مزید لکھتے ہیں:
’’مطلب یہ ہوا کہ خالد بن ولید رضی
اللہ عنہ تو اللہ کی تلوار ہیں اور اس تلوار کا چلانے والا اور کافروں پر استعمال کرنے
والا اللہ تعالیٰ ہے اور ظاہر ہے کہ جس تلوار کو حق تعالیٰ چلائے اس تلوار سے کون
بچ کر بھاگ سکتا ہے۔‘‘ [سیرت المصطفیٰ،
جلد دوم، ص ۴۲۴۔ ط، حقانیہ]
یہ ’’سیف اللہ‘‘ہونے کا ایک پہلو ہے… جبکہ اس کا دوسرا پہلو
یہ ہے کہ… تلوار وہی کام کرتی ہے جس کے لئے اسے بنایا جاتا ہے… پس ’’اللہ کی
تلوار‘‘ وہی شخص ہو سکتا ہے جو ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہی کو اپنا کام بنا لے… اور پھر اس میں بھرپور
محنت کرے… حد درجہ فکر… حد درجہ محنت… روایات میں آیا ہے کہ… حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
لَقَدْ مَنَعَنِی کَثِیْراً مِنَ القِرَاءَۃِ اَلْجِہَادُ
فِیْ سَبِیْلِ اللہِ۔
’’یعنی جہاد فی سبیل اللہ کی
مشغولیت نے مجھے زیادہ تلاوت سے روکے رکھا۔‘‘
[المطالب العالیہ۔حديث رقم:۴۰۰۹ ، ناشر:دار العاصمة]
مطلب یہ ہے کہ… قرآن مجید سے عشق تھا… اس کی تلاوت کا بہت
شوق بھی تھا… مگر جہادفی سبیل اللہ کی محنت اور مشغولیت نے یہ شوق پورا نہ ہونے
دیا… معلوم ہوا کہ… آپ رضی اللہ عنہ کا جہاد کوئی عام اور معمولی جہاد نہ تھا… بلکہ
آپ ہمہ تن اور ہمہ فکر جہاد کرتے تھے…کہاں حملہ کرنا ہے… کیسے حملہ کرنا ہے… لشکر
کو کیسے چلانا ہے… دشمن کو کیسے گھیرنا ہے… اور کس طرح مسلسل پیش قدمی کرنی ہے… ہر
وقت یہی فکر، اسی میں بھرپور محنت اور استغراق… چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ
عنہ نے… جو جہاد کیا… اس پر آج تک
کتابیں لکھی جا رہی ہیں… قدیم اور جدید عسکریت کے ماہرین ابھی تک اس جہاد کو
سمجھنے اور اس سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں… جدید نقشوں اور آلات کی
مدد سے حضرت سیف اللہ کی عسکری تدابیر کو سمجھنے کی محنت آج تک جاری ہے… اس جہاد
کی تفصیل سے عقلیں آج تک حیران ہیں… اور صدیوں کا زمانہ آج تک اس جہاد کی چمک
اور کشش کو ماند نہیں کر سکا … وہ رومی جو روئے زمین پر اپنی جنگی چالوں کا طویل
تجربہ رکھتے تھے… حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے سامنے بے بس ہوگئے… وہ عرب مشرکین اور
نصاریٰ جو تلواروں کی گود میں پلے تھے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی عسکری حکمت عملی کے سامنے ریت کی دیوار ثابت
ہوئے… بڑے بڑے صحراء جو لشکروں اور قافلوں کو نگل جاتے تھے… حضرت خالد بن ولید رضی
اللہ عنہ کی تدبیر سے آسان گلستاں بن گئے
… وہ پہاڑ جو ناقابل شکست مانے جاتے تھے… حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے سامنے میدانوں سے بھی زیادہ نرم پڑ گئے…
اللہ کی تلوار… ایسی حکمت، ایسی تدبیر اور ایسی تیزی سے چلی کہ… پہاڑ ، سمندر،
صحراء… اور عظیم لشکر اس کے آگے بچھتے چلے گئے… جہاد فی سبیل اللہ کی ایسی
مشغولیت، محنت، فکر اور تدبیر حضرت سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اختیار فرمائی کہ… اس کی وجہ سے آپ کو
تلاوت وغیرہ جیسی نفلی عبادات کا وقت نہ ملتا تھا… مگر بلند ایمان کی وجہ سے… دل
میں ان عبادات کا شوق بھی موجزن تھا… اسی لئے فرماتے تھے کہ :
لَقَدْ مَنَعَنِی کَثِیْراً مِنَ القِرَاءَ ۃِ اَلْجِہَادُ
فِیْ سَبِیْلِ اللہِ۔
یقینا ’’اللہ تعالیٰ کی تلوار‘‘ نے وہی ذمہ داری ادا کرنی
تھی… جس کے لئے اسے سونتا گیا تھا… آپ تاریخ کی کتابوں میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جنگوں کے حالات پڑھیں… ہر جنگ ایک مستقل
کرامت ہے… مستقل کارنامہ ہے… اور مستقل عسکری باب ہے… دشمن کی ایک ایک حرکت پر نظر
رکھنا… دشمن کی کمزوریوں کو سمجھنا… چھوٹے دستوں کو جنگی نقشے کے ذریعے ہیبت ناک
لشکر دکھلانا… لشکر میں تیز رفتار تبدیلیوں کے ذریعہ دشمنوںکے حواس پر چھا جانا…
اور کم تعداد کے ذریعہ… کئی کئی گنا بڑے لشکروں کو تھکا کر مار ڈالنا… یہ سب کچھ
ہمیں حضرت سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جنگوں میں نظر آتا ہے… اور یہ سب کچھ اس
لئے نہیں ہے کہ ہم اسے پڑھ کر صرف معلوماتی لذت حاصل کریں… بلکہ ان تمام واقعات
میں ہمارے لئے بے شمار عملی اسباق ہیں… حضرت سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا جہاد… ہمیں جہاد کے ساتھ والہانہ محبت کی
دعوت بھی دیتا ہے… اور ہمیں کامیاب جہاد کے گُر بھی سکھاتاہے… وہ ہمیں محنت اور
تدبیر کے ساتھ جہاد کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے… اور ہمیں ہمہ تن،ہمہ گیر اور ہمہ
فکر جہادکی اہمیت بھی سمجھاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو اس دنیا میں غالب
ہونے کے لئے بھیجا ہے… اور دین کے غلبے کے لئے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کواس امت پر
فرض فرمایا ہے… اللہ تعالیٰ نے حضرت سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو… اپنی تلوار قرار دیا ہے… اللہ تعالیٰ کی
تلواروں میں سے ایک تلوار… معلوم ہوا کہ… اسلام اور مسلمانوں میں … اللہ تعالیٰ کی
تلواریں اور بھی ہیں… کچھ ماضی میں… اور کچھ حال اور مستقبل میں… مگر سیّدنا خالد
بن ولید رضی اللہ عنہ کا ’’سیف اللہ‘‘ (اللہ تعالیٰ کی تلوار ہونا) …
یقینی طور پر ثابت ہے… غزوۂ موتہ کی جو روایت سند صحیح کے ساتھ… بخاری وغیرہ میں
موجود ہے اس میں بھی آپ کا ’’سیف اللہ‘‘ ہونا واضح مذکور ہے… اور پھر حضرت صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ نے آپ کو جب مرتدین… اور منکرین ختم نبوت کے
خلاف جہاد کے لئے… سپہ سالار مقرر کیا توفرمایا:
’’میںنے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ کیا ہی اچھا آدمی ہے اللہ
کا بندہ اور قبیلہ کا بھائی خالد بن ولید ، وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک
تلوارہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو کافروں پر چلانے کے لئے سونتا ہے (یعنی نیام سے
نکالا ہے)۔‘‘
[الاصابہ۔ج:۲،ص:۲۱۷، ناشر:دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
پس جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا… ’’سیف اللہ‘‘ ہونا یقینی طور پر ثابت ہے تو
یہ بات بھی یقینی ہے کہ… اس امت میں یہ ’’سیف اللّٰہی‘‘ نسبت قیامت تک چلتی رہے
گی… ایسے خوش نصیب افراد جو جہاد فی سبیل اللہ کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں…
جہاد فی سبیل اللہ کی محنت میں فنا ہو جائیں… جہاد فی سبیل اللہ کو مکمل محنت اور
فکر سے اپنائیں… جہاد فی سبیل اللہ کو ہر پہلو سے سیکھیں، سمجھیں اور اس میں بھر
پور مہارت حاصل کریں… جہادفی سبیل اللہ کی کامیابی کے لئے عسکری تدبیروں کو بروئے
کار لائیں … جہاد فی سبیل اللہ اور شہا دت سے یوں عشق رکھیں جس طرح کہ نشے کے عادی
افراد شراب سے محبت رکھتے ہیں… اور کسی حال میں بھی جہاد فی سبیل اللہ سے منہ نہ
موڑیں… یہ افراد اسی ’’ سیف اللّٰہی‘‘ جہادی نسبت کے امین ہوتے ہیں… ماضی بعید میں
ایسے افراد بہت تھے… ماضی قریب میں ایسے افراد بہت کم تھے… اور اب ہمارے زمانے میں
الحمد للہ پھر ایسے افراد پیدا ہو رہے ہیں… ان افراد کو چاہیے کہ وہ توجہ کے ساتھ
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سیر ت
مبارکہ کو پڑھیں، سمجھیں اور اس سے روشنی حاصل کریں۔
ہمارے زمانے میں الحمد للہ جہاد موجود ہے مگر اس میں تدبیر
اور حکمت عملی کی بہت کمی ہے… جہاد موجود ہے مگر عسکری پینتروں کا فقدان ہے… جہاد
موجود ہے مگراستقامت کی کمی ہے… جہاد موجود ہے مگر اس کے ساتھ غیر مشروط وفاداری
کم ہے… حضر ت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ہر حال میں جہاد جاری رکھا… وہ ایک عام
سپاہی کی حیثیت سے اسلامی لشکر میں شامل ہوئے… پھر وہ جزوی کمانڈر بنائے گئے…
اورپھر سارے اسلامی لشکر کے عمومی سپہ سالار… اور پھر دوبارہ جزوی کمانڈر… اور پھر
عام سپاہی… مگر ان تمام مراحل میں اُن کا جہاد مکمل وفاداری اور فکر مندی کے ساتھ
جاری رہا… ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی منصب کے آنے جانے کی وجہ سے اُن کی جہادی
سرگرمی میں کوئی فرق آیا ہو… وہ بڑی جنگوں کے موقع پر بہت مؤثر خطاب فرماتے تھے
اوراُن کا سارا زور اسی بات پر ہوتا تھا کہ… جنگ کادن اللہ تعالیٰ کے ایام یعنی
خصوصی دنوں میں سے ہوتاہے… اس میں فخر اور سرکشی جائز نہیں اور جہاد خالصتاً اللہ
تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کیا جائے۔
وہ غزوۂ حنین سے جہاد میں زخمی ہونا شروع ہوئے… اور پھر
جہادی زخموں نے اُن کے پورے جسم پر… جنت کی مہریں ثبت کر دیں… مگر یہ زخم کبھی اُن
کے راستے میں حائل نہ ہو سکے… اُن کے جوان بیٹے بھی جہاد میں شہید ہوئے… اوربھی
بہت سی آزمائشیں آئیں… مگر اُن کا ایک قدم بھی جہاد سے پیچھے نہ ہٹا… اور آخری
وقت میں بھی وہ رباط پر تھے… اور اسی افسوس کا اظہار فرما رہے تھے کہ… شہادت نہ
ملی… اور پھر اس کو بھی ’’دعوت جہاد‘‘ بنا کر سمجھا رہے تھے کہ… بزدلوں کی آنکھیں
یہ کیوں نہیں دیکھ رہیں کہ…جہاد میں موت نہیں ہے… اگر جہاد میں موت ہوتی تو میں اس
طرح بستر پر وفات نہ پاتا… وہ بہت بڑے آدمی تھے… اسلام کی بلند ترین چوٹی کے بلند
ترین مقام پر فائز ہونے والوں میں تھے… اس لئے چاہتے تھے کہ… اللہ تعالیٰ کے راستے
میں کٹ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں… ورنہ تو اُن کا مقام ’’شہداء کرام‘‘ کے مقام
سے بہت بلند تھا… اور ان کی وفات بھی… شہادت تھی… اُن کے خاص اور بلند ترین مقام
کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ… حضرت فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی
اللہ عنہ کی نظر… اپنے بعد جن افراد کو
خلیفہ مقرر کرنے پر تھی حضرت خالد رضی
اللہ عنہ ان میں سے ایک تھے… انتظامی
معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے درمیان بعض
باتیں ضرور ہوئیں… مگر حقیقت میں یہ دونوں حضرات ایک دوسرے سے بہت محبت فرماتے
تھے… اور ایک دوسرے کی بہت قدر کرتے تھے۔
وفات کے قریب جب حضرت سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے تشریف لائے تو… حضرت خالد بن
ولید رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہت
تعریف فرمائی… اور ارشاد فرمایا کہ… اگر عمر نہ رہے تو ایسے حالات پیدا ہوں گے جو
آپ کو ناپسند ہوں گے … اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ… میں نے اپنے گھر اور سواری
وغیرہ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے وقف کر دی ہے… اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا نگران بنایا ہے۔
حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی مبارک اور باسعادت زندگی کے کئی پہلوؤں پر
آج لکھنے کا ارادہ تھا… مگر بہت کچھ رہ گیا…
آخر میں حضرت خالد بن ولید رضی
اللہ عنہ کے ایک شعر پر اپنی اس مجلس کا
اختتام کرتے ہیں…یہ شعر بہت پرکشش، معنٰی خیز او ر دلچسپ ہے… حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد… حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ’’عُزّیٰ‘‘ نامی بت گرانے کے لئے بھیجا… مفصل
قصہ سیرت و تاریخ کی کتب میں ملاحظہ فرما لیں… یہ عرب کا ایک بڑا بت تھا… اور عرب
کے مشرکین اس کی عبادت کرتے تھے… اور اُسے بہت طاقتور مؤنث دیوی کا درجہ دیتے
تھے… اس بت کے ساتھ شیطان نے کچھ خبیث چمتکار اور شعبدے بھی جوڑ رکھے تھے… جن کی
وجہ سے لوگ اسے’’ ناقابل شکست‘‘ سمجھتے تھے… حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جب اس کے سامنے پہنچے تو آپ نے بلند آواز سے
یہ شعر پڑھا :
یَا عُزَّ کُفْرَانَکَ لَا سُبْحَانَکَ
اِنِّی رَأَیْتُ اللہَ قَدْ أَھَانَکَ
’’اے عُزیٰ! میں تیرا انکار کرتا
ہوں اور تجھے پاک نہیں سمجھتا ، بے شک میں نے دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے
رسوا فرمایا ہے۔‘‘
اس کے بعد آپ نے اس بت کو پاش پاش فرما دیا…اور بعض روایات
کے مطابق اس میں سے نکلنے والی شیطانی عورت کو بھی قتل کر دیا … اس شعر میں’’
کُفْرَانَکَ لَا سُبْحَانَکَ‘‘… کا جملہ وجد آفرین ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’سُبْحَانَک‘‘… یااللہ! آپ ہر نقص، عیب، کمزوری اور ظلم سے پاک ہیں… اب اسی کے
وزن پر طاغوتی، شیطانی طاقتوں کو کہا جارہاہے کہ… ’’کُفْرَانَک‘‘ہم تمہیں نہیں
مانتے… تمہاری طاقت اور تقدیس کو تسلیم نہیں کرتے…ہم تمہیں عیب اور کمزوری سے پاک
نہیں سمجھتے… حضرت خالد بن ولید رضی اللہ
عنہ نے ’’عُزیٰ‘‘ کو ’’کُفْرَانَک‘‘ فر
مایا… اور ہمیںسکھا دیا کہ ہم ہر باطل معبود اور ہر ظالم طاغوت سے کہہ دیں:
’’کُفْرَانَکَ لَا سُبْحَانَک‘‘… امریکہ ہو یا انڈیا… اسرائیل ہو یا یورپ اور
دجّال… سب سے کہہ دیں… ’’کُفْرَانَکَ، کُفْرَانَکَ‘‘۔
اللہ تعالیٰ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی… ’’سیف اللّٰہی‘‘ نسبت اس امت میں عام
فرمائیں… آمین یاارحم الراحمین
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علٰی سیدنا محمد و اٰلہ وصحبہ
وبارک و سلم تسلیمًا کثیراًکثیراً
لا الٰہ الا اللہ،لا الٰہ الا اللہ،لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 631
سیف اللّٰہی نسبت
* موجودہ
زمانے میں ’’سیف اللّٰہی‘‘ نسبت کا رنگ اور فیض…
* انڈیا
کشمیر آزاد کر دے ورنہ ’’سیف اللّٰہی‘‘ نسبت اس کے سارے غرور توڑ دے گی…
* کسی
صحابی کی شخصیت کو صحیح طور پر سمجھنے کیلئے ایک خاص انداز اور خاص طریقے سے
مطالعہ کرنا ہوتاہے … اس انداز اور طریق کی نشاندہی…
یہ
ہیں اس معطر تحریر کے اہم مضامین
تاریخ
اشاعت:
۲۹ جمادیٰ الاولیٰ ۱۴۳۹ ھ/
بمطابق 16 فروری 2018 ء
سیف اللّٰہی نسبت
اللہ تعالیٰ حضرت سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے درجات… مزید مزید بلند فرمائے… اور ہم سب
مسلمانوں کو ان کی جہادی نسبت کا فیض عطاء فرمائے…ماشاء اللہ یہ حضرت سیّدنا خالد
بن ولید رضی اللہ عنہ کی جہادی نسبت کا رنگ ہے کہ… صرف تین نوجوان
مجاہدین کرام نے… جموں کے سنجوان ملٹری کیمپ کو اُکھاڑ کر رکھ دیا… ہزاروں فوجی،
خصوصی دستے، ہیلی کاپٹر اور ٹینک ان کے سامنے تین دنوں تک بے بس بنے رہے … پورا
انڈیا سرتاپا لرز کر رہ گیا۔
تھوڑے سے افراد کے ساتھ… بڑی بڑی فوجوں کو شکست دینا… یہ
حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جہادی نسبت کا ایک رنگ ہے … بے شک وہ ’’سیف
اللہ‘‘ تھے… اللہ تعالیٰ کی تلوار جو اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور منافقین کے لئے
سونتی… یہ تلوار قیامت تک چمکتی رہی گی… اس تلوار کی نسبت قیامت تک تقسیم ہوتی رہے
گی… اس تلوار کا فیض قیامت تک جاری رہے گا، ان شاء اللہ۔
ناقابل شکست تلوار
ماہنامہ ’’المرابطون‘‘ کے لئے خصوصی شمارے کا عنوان منتخب
کرنا تھا … یہ مبارک رسالہ ہر ماہ نکلتا ہے… اصل میں طلبہ کرام کے لئے ہے… مگر سب
کے لئے مفید ہوتا ہے… یہ رسالہ ہر سال اپنا ایک ’’خصوصی شمارہ‘‘ بھی نکالتا ہے…
ماشاء اللہ کئی اہم موضوعات اور کئی نامور ہستیوں پر… ’’المرابطون‘‘ کے خصوصی
شمارے اپنی مثال آپ ہیں… اس سال خصوصی شمارے کا موضوع کیا ہو؟ … سفر کے دوران ایک
مسجد کے پاس سے گذر ہوا… مسجد دیکھتے ہی دل خوشی سے بھر جاتا ہے… رک نہ سکیں تو
باہر سے ہی جی بھر کر دیکھنے کی پوری کوشش ہوتی ہے… دروازے پر بورڈ آویزاں تھا…
جامع مسجد سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ
عنہ … بس دل خوشی اور عقیدت سے جھوم اُٹھا… اس دن کا سارا ایصال ثواب بھی اُن کے
لئے ہو گیا… اور رسالے کے لئے بہترین موضوع بھی مل گیا… اب چونکہ اس خصوصی شمارے
میں مضمون بھی لکھنا تھا تو فوراً … حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکات سے ربط جڑنے لگا… یہ ربط’’نئے
مطالعہ ‘‘ اور ’’دعاء‘‘ کی صورت میں تھا… حضرت سیف اللہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
کی سیرت ، سوانح، واقعات تو بچپن سے
پڑھتے، سنتے اور سناتے آئے ہیں… مگر اس بار ارادہ تھا کہ ایسا مطالعہ ہو کہ… حضرت
والا رضی اللہ عنہ کی ذات مبارک کی کچھ سمجھ نصیب ہو جائے۔
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو… پورا پورا
سمجھنا تو بہت مشکل ہے… کیونکہ وہ ستارے ہیں ستارے اور ہم زمین کی مخلوق… زمین پر
رہنے والے لوگ … ستاروں سے روشنی بھی پاتے ہیں… فیض بھی حاصل کر سکتے ہیں… ان کے
ذریعہ راستہ بھی معلوم کر سکتے ہیں… مگر ان کو پورا سمجھ نہیں سکتے … فاصلہ جو
اتنا زیادہ ہے… وہ اس قدر اونچے اور ہم اس قدر نیچے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح ارشاد فرمادیا کہ…اَصْحَابِی
کَالنُّجُوْمِ …میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں… بہرحال کوشش کی جا سکتی ہے کہ…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو زیادہ سے زیادہ سمجھا جائے… زیادہ سے
زیادہ ان کا قرب حاصل کیا جائے… زیادہ سے زیادہ ان کا فیض پایا جائے… ایسا کرنے کے
لئے ایک الگ طرز کے مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے… اس مطالعہ میں سب سے پہلے یہ پڑھا
جاتا ہے کہ ان صحابی کا حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تعارف کرایا ہے… اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کتنا کام لیا ہے… اور ان کا حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تعلق اور رشتہ ہے؟…پھر انہی باتوں کو
بنیاد بنا کر … اپنے مطالعہ کو آگے بڑھایا جاتا ہے… اور اپنے مطالعہ کو انہی
باتوں کے تابع رکھا جاتا ہے…پھر اس کے بعد ان مرویات کو دیکھا جاتا ہے جو… ان
صحابی نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں… اور یوں آگے بڑھتے بڑھتے… ان
صحابی رضی اللہ عنہ کی ذات، اُن کے مقام
،اُن کے مزاج…اور اُن کی خصوصیات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ … کے بارے میں ناول نگاروں … اور
افسانہ نویسوں نے بھی چونکہ کافی کچھ لکھ دیا ہے… اور آپ جانتے ہیں کہ ناول نگار
اور افسانہ نویس بہت کچھ جھوٹ لکھتے ہیں… انہوں نے بس اپنی تحریر کو پرکشش بنانا
ہوتا ہے… وہ بلند ہستیوں کا درست تعارف نہیں کرا سکتے… چنانچہ ان کی تحریر پڑھنے
کے بعد… انسان کے دل کو اس شخصیت کے ساتھ حقیقی ربط اور تعلق نصیب نہیں ہوتا… اس
لئے ضروری ہے کہ حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو اچھی طرح سے سمجھا
جائے… وہ ایک ناقابل شکست فاتح تھے… انہوں نے زندگی میں کبھی کسی جنگ میں شکست
نہیں کھائی… وہ باکرامت اور بابرکت سپہ سالار تھے… وہ مقام ولایت کے بلند ترین
ستاروں میں سے تھے … وہ کمال درجے کے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے… جہاد کے ساتھ محبت… ان
کی طبیعت ، مزاج اور حواس تک پر چھا چکی تھی … وہ دیر سے آئے مگر اپنے اخلاص اور
کمالات کی بدولت… بہت سے پہلوں سے بھی آگے نکل گئے … وہ قتال اور جنگ کے ایسے
ماہر اور امام تھے کہ … ان کی نظیر ڈھونڈنا بہت مشکل ہے… وہ حقیقی بہادر تھے…
شجاعت اور بہادری کی جتنی بھی منزلیں ہیں… وہ ان سب منزلوں کے اوپر والے حصے میں
تھے… ایک رات جب میں ان کے بارے میں بہت کچھ پڑھ کر… اور پھر ان کے لئے ایصال ثواب
اور دعاء کا ہدیہ پیش کر کے لیٹا تو… یہ جملہ میرے ذہن میں گونجنے لگاکہ…’’ حضرت
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اتنے
بہادر تھے، اتنے بہادر تھے کہ وہ اپنی معزولی تک کوبرداشت کر گئے‘‘… گویا کہ انہوں
نے ’’معزولی‘‘ کو بھی شکست دے دی… اور وہ اس طرح کہ… معزولی کے باوجود …اسی لشکر
میں شامل رہے… اسی امیر کی اطاعت میں رہے… اپنے جہاد پر ثابت قدم رہے بلکہ… پہلے
سے بڑھ کر بہادری سے لڑتے رہے… اور اپنی جگہ مقرر ہونے والے سپہ سالار کے… بازو،
دماغ اور آنکھیں بنے رہے… یوں وہ جیت گئے … اور ’’معزولی‘‘ شکست کھا گئی… وہ
معزولی جو بڑے بڑوںکے ایمان، دین ، جہاد… اور ماضی کو منٹوں میں…شکست دے دیتی ہے۔
سنجوان ملٹری کیمپ پر … جب کشمیری مجاہدین کرام
نے حملہ کیا تو… اس حملے کی تفصیلات سن سن کر… حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ یاد آتے رہے… اُن کا ہر معرکہ ایک
الگ کرامت ہوتا تھا… اور اُن کی نسبت آج تک جاری ہے… اندازہ لگائیں کہ … دشمن کی
اتنی طاقت کے باوجود… تین مجاہدین کا ایک فوجی کیمپ میں داخل ہوجانا … پھر پچاس
گھنٹے سے زائد جنگ کرنا… دشمن کے حواس پر مسلط ہو جانا …درجنوں آفیسروں اور
فوجیوں کوڈھیر کر دینا … اور دشمن کے مورچے کو اپنی شکار گاہ بنا لینا… کیا یہ سب
کچھ معمولی بات ہے؟ … بے شک اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُن مجاہدین کے ساتھ اُتر کر
لڑتے ہیں… اور اُن مجاہدین کے ہاتھوں بڑی بڑی کرامات ظاہر ہوتی ہیں… خود کشمیری
قیادت کہہ رہی تھی کہ… مجاہدین کی تعداد تین ہے… جبکہ حملے کے دوسرے دن انڈیا کا
دعویٰ تھا کہ… تین مجاہدین شہید ہو چکے ہیں… کیمپ میں سے دھماکوں اور فائرنگ کی
آواز آ رہی تھی… اور میڈیا کے توسط سے… ساری دنیا اُن ’’کرامات‘‘ کو دیکھ اور سن
رہی تھی…جب تینوں شہید ہو چکے تھے تو… آخر کون لڑ رہا تھا؟… کس کے خوف سے ٹینک
اندر لے جائے جا رہے تھے؟ … اور کن کی دہشت سے اپنی عمارتوں کو خود اُجاڑا جا رہا
تھا… انڈیا صرف اسی حملے کی حقیقت پر غور کرے تو… وہ اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ
شکست اس کا مقدر بن چکی ہے… عُزیٰ جیسے بت کو پاش پاش کرنے والے… ہمارے امام حضرت
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی نسبت…
اس زمانے کے فدائیوں میں اُتر چکی ہے… انڈیا جانتا ہے کہ جموں و کشمیر پر اس کا
قبضہ ناجائز اور غاصبانہ ہے… وہ ان علاقوں کو آزاد کر دے… ورنہ ’’ سیف اللّٰہی‘‘
نسبت اس کے سارے غرور توڑ دے گی، ان شاء اللہ۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 632
بزدلی سے نجات کا ایک نسخہ
* ’’سیف
اللہ‘‘ سیّدنا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب، کرامات اور صدقات جاریہ…
* جہاد
کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کی اصل بنیاد…
* جہاد
کے متعلق فتوے… حقیقت کیا ہے؟
*
اہل اسلام کو چاہیے کہ وہ سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی علمی اور روحانی صحبت حاصل کریں،ان کی تلوار
کا سایہ ڈھونڈیںاور اس تلوار سے نسبت جوڑکر بزدلی اور حب دنیا سے نجات پائیں۔
حضرت
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے معطر تذکرے پر مشتمل ایک بابرکت تحریر…
تاریخ
اشاعت:
۶ جمادیٰ الثانیہ ۱۴۳۹ھ /
بمطابق 23 فروری 2018 ء
بزدلی سے نجات کا ایک نسخہ
اللہ تعالیٰ نے ’’تلواروں‘‘ کے سائے تلے ’’ جنت‘‘ رکھی ہے…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِعْلَمُوا أَنَّ
الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوْفِ۔
’’خوب یقین کر لو کہ بلاشبہ جنت
تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔‘‘
[صحیح البخاری۔ رقم الحدیث: ۲۸۱۸،دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
اللہ تعالیٰ نے حضرت سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اپنی تلوار ’’سیف اللہ‘‘ منتخب فرمایا… حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
نِعْمَ عَبْدُ اللہِ خَالِدُ بْنُ الوَلِيدِ سَیْفٌ مِّنْ
سُیُوْفِ اللہِ۔
’’خالد اللہ تعالیٰ کے بہترین بندے
اور اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں۔‘‘
[سنن ترمذی۔ رقم الحدیث: ۳۸۵۰،دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
غور فرمائیں… جہادی تلواروں کے سائے میں ’’جنت‘‘ ہے… اور
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کی تلوار ہیں… آئیے ! اس تلوار کا
سایہ ڈھونڈیں… آئیے!اس تلوار سے نسبت جوڑیں… آئیے!اس تلوار سے رشتہ بنائیں تاکہ
جنت ملے، شجاعت ملے، اطمینان ملے، کامیابی ملے، سکون ملے۔
حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی تلوار ہیں… اللہ تعالیٰ
ہی اس تلوار کو چلانے والا ہے… جب تلوار اللہ تعالیٰ کی ہے توچلائے گا بھی اللہ
تعالیٰ… پھر یہ تلوار ایسی چلی کہ جنت کا سایہ دور دور تک پھیل گیا… وہ علاقے جہاں
جہنم ہی جہنم تھی… ایک بھی ’’جنتی ‘‘ نہیںتھا… ہر طرف جہنم والا عقیدہ… جہنم والے
اعمال اور جہنمی مخلوق… حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ان علاقوں کی طرف بڑھے تو ان علاقوں پر جنت کی
بہار آ گئی… یہ عراق، یہ دمشق، یہ فلسطین، یہ ملک شام… یہ سب جنت کی خوشبو کو ترس
رہے تھے… ہر طرف کفر تھا اور ظلم… جہالت تھی اور تاریکی… تہذیب کے نام پر بے حیائی
تھی اور نفس پرستی… اللہ تعالیٰ کی تلوار حضرت سیف اللہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
وہاں پہنچے… جہاد فرمایا… تلوار چلی تو یہ
علاقے جنت کی خوشبو سے جھومنے لگے… ان علاقوں میں صدیقین ، شہداء ، صالحین پیدا
ہونے لگے… ہر طرف اذان گونجنے لگی… اور کفر کی جگہ ایمان کی بہار آ گئی۔
کسی نے خوب تحقیق کی ہے کہ … دنیا میں بڑے بڑے
فاتحین گذرے ہیں… مگر ان میں سے کسی کی فتوحات بھی اتنی پائیدار نہیں جتنی کہ…
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ہیں…
منگولوں اور تاتاریوں نے آدھی دنیا پر قبضہ کیا… مگر پھر ان کی سلطنت ایک چھوٹے
سے ملک تک سمٹ گئی… یہی حال… انگریزوں ، فرنچوں اور دیگر فاتحین کا ہوا… مگر حضرت
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جو
علاقے فتح فرمائے وہ آج تک کسی نہ کسی صورت میں … مسلمانوں کے پاس ہی ہیں… یہ
تحقیق پڑھی تو ذہن میں یہ نکتہ آ گیا کہ… جنت تلواروں کے سائے تلے ہے… جب عام جہادی
تلواروں کا یہ رتبہ اور مقام ہے تو… اللہ تعالیٰ کی تلوار کا کیا مقام ہو گا… یہ
تلوار جہاں بھی چمکی ، جہاں بھی برسی، جہاں بھی چلی اس کے نیچے جنت آباد ہوتی چلی
گئی… اور آج تک الحمد للہ آباد ہے… کیونکہ ان علاقوں میں ایمان بھی موجود ہے اور
اعمال صالحہ بھی… بے شک جہاد کے برابر کوئی عمل نہیں، کوئی عمل نہیں… ایک عابد
آخر کتنی عبادت کر سکتا ہے؟ … ایک صدقہ دینے والا آخر کتنا صدقہ دے سکتا ہے؟ …
لیکن ایک مجاہد ، ایک فاتح اور ایک غازی تو صدیوں کے اعمال کو اپنے نامہ اعمال میں
جوڑ لیتا ہے… جن علاقوں کو وہ فتح کرتا ہے اور ان میں ایمان کے چراغ روشن کرتا ہے…
ان علاقوں کے تمام اہل ایمان کے… ایمان اور اعمال میں اس کا حصہ شامل ہوتا ہے…بے
شک دنیا کے سارے کلکولیٹر اور سارے حساب دان مل کر بھی… ایک مجاہد کے ایک دن کے
اعمال کا حساب نہیں لگا سکتے۔
حضرت سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ چونکہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی تلوار ہیں… اور
تلوار کے سائے تلے جنت ہوتی ہے تو… یقینی بات ہے کہ… ان کے تذکرے میں عجیب سکون
محسوس ہوتا ہے… ان کے بارے میں جتنا پڑھا جائے پیاس نہیں بجھتی… بلکہ ان کے حالات
، واقعات اور اقوال پڑھ کر مزید شوق بڑھتا چلا جاتا ہے… اور دل ایک عجیب سی
پاکیزگی اور قوت محسوس کرتا ہے… ویسے بھی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بڑے صاحب کرامت تھے… علامہ ابن حجر
رحمہ اللہ ’’الاصابہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
اَتٰی خَالَدَ بْنَ الْوَلِیْدِ رَجُلٌ مَعَہٗ زِقُّ خَمْرٍ
فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ عَسَلًا فَصَارَ عَسَلًا۔
یعنی ایک شخص آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اس کے پاس شراب
سے بھراہوا مشکیزہ تھا… حضرت خالد رضی
اللہ عنہ نے دعاء فرمائی… یا اللہ! اسے
شہد بنا دیجئے تو وہ شہد بن گیا۔
اسی طرح مستند حوالوں سے یہ بھی مذکور ہے کہ…
آپ نے ایک بار خطرناک زہر اپنی ہتھیلی میں ڈالا اور بسم اللہ پڑھ کر اسے پی گئے…
اس مہلک زہر نے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا… دراصل جب آپ عجم کی طرف جہاد کے
لئے بڑھے اور آپ کے رعب اور ہیبت نے ملکوں اور لشکروں کو لرزا کر رکھ دیا تو… ہر
طرف آپ کو قتل اور شہید کرنے کی سازشیں زور پکڑ گئیں… تب کسی نے مشورہ دیا کہ…
آپ کھانے میں بہت احتیاط فرمائیں کیونکہ دشمن آپ کو زہر دینا چاہتے ہیں…
فرمایا:کیسا زہر؟ وہ میرے پاس لاؤ… زہر لایا گیا تو سارا اپنی ہتھیلی پر اُنڈیل
دیا اور’’ بسم اللہ‘‘ پڑھ کر پی گئے… بے شک اللہ تعالیٰ کی سچی تلوار میں یہ تاثیر
تھی کہ ناپاک شراب پر دعاء ڈالے تو اسے… پاکیزہ شہد بنا دے… اور مہلک زہر پر توجہ
ڈالے تو اسے نفع مند دواء بنا دے۔
آج ہمارے قلوب میںبھی’’ حُبِّ دنیا‘‘ کا زہر
اور بزدلی کی ناپاکی بھری ہوئی ہے… بے شک ’’بزدلی‘‘ شراب سے زیادہ نجس اور ناپاک
چیز ہے… شراب کا اثر تھوڑی دیر رہتا ہے اور وہ انسان کو ذلت میں ڈالتی ہے… جبکہ
بزدلی کا اثر تو انسان کو نعوذ باللہ مستقل ذلت اور غلامی میں دھکیل دیتا ہے… آج
جہاد کے خلاف جتنے فتنے اور جتنی آوازیں ہیں ان سب کی اصل بنیاد… بزدلی اور حُبِّ
دنیا ہے… بس موت نہ آ جائے…ہمیں کوئی مار نہ ڈالے… ہم کمزور ہیں… ہم نہیں لڑ سکتے
… ہمیں زیادہ جینا ہے… وغیرہ وغیرہ… اصل بیماری یہی ہے… باقی دلائل تو پھر بزدلی
خود گھڑوا لیتی ہے… مثال کے طور پر دیکھ لیں … آج کل جہاد کے بارے میں جو فتوے
لائے جاتے ہیں… کچھ منفی اور کچھ مثبت… کیا ان فتووں میں… مسلمانوں کے لئے عملی
جہاد کا کوئی ایک راستہ بھی موجود ہے؟ … اگر صورتحال یہ ہوتی کہ یہ لوگ جہاد کی
مکمل تیاری کر کے… شہادت کے شوق میں مچل رہے ہوتے… تلواریں اُن کے ہاتھوں میں
ہوتیں… گھوڑے اُن کے نیچے ہانپ رہے ہوتے اور پھر یہ بتاتے کہ… ہم تو تیار ہیں مگر
فلاں فلاں شرعی شرط نہ پائے جانے کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں… اور پوری کوشش کر رہے
ہیں کہ وہ شرط جلد پوری ہو تاکہ ہم جنت کے میدانوں… یعنی جہاد کے محاذوں کی طرف
کوچ کر جائیں… تب اُن کی باتوں میں وزن ہوتا… مگر نہ جہاد کا ارادہ، نہ جہاد کی
نیت، نہ کبھی خواب و خیال میں جہاد کرنے کی آرزو… نہ جہاد کی تیاری… پھر کیسے
فتوے اور کون سی شرطیں؟ کاش! یہ کوئی ایک محاذ تو مسلمانوں کو بتا دیتے کہ… وہاں
جہاد ہو رہا ہے… ہم بھی جا رہے ہیں اور تم بھی پہنچو… کاش! یہ جہاد یعنی’’ قتال فی
سبیل اللہ‘‘ کی کوئی ایک عملی صورت بتا دیتے… کیا صدر سے اجازت لینی ہے؟صدرصاحب کس
دن جہاد کی اجازت دینے کے لئے تشریف فرما ہوتے ہیں؟کیا وزیر اعظم کے حکم سے جہاد
ہو گا؟…وہ اگر اپنے کافر دوستوں کی گود میں تشریف فرما ہوں تو جہاد کی اجازت کس سے
لی جائے گی؟… جہاد ریاست کی ذمہ داری ہے… ریاست سے کون سی ریاست مراد ہے؟… ریاست
میں سے کس کا قول معتبر ہو گا؟ … فیصلے کا اختیار کس کو ہو گا؟… کیا جہاد کے لئے
باقاعدہ ملازم ہونا بھی شرط ہو گا؟… ملازمت کے بغیر کوئی مسلمان یہ فریضہ پورا
کرنا چاہے تو کس طرح کرے گا؟ … کسی سوال کا جواب نہیں… بس مقصد ایک ہی ہے کہ جہاد
نہ کرو… کیا یہ اللہ تعالیٰ کے عمومی عذاب کو دعوت دینے کے مترادف نہیں ہے؟ … جہاد
بند ہوتا ہے تو… اللہ تعالیٰ کاعمومی عذاب آتا ہے… مسلمانوں پر ذلت مسلط ہوتی ہے
اور زمین گناہ اورفساد سے بھر جاتی ہے۔
اپنے دل سے بزدلی دور کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے
کہ… ہم حضرت سیف اللہ خالد رضی اللہ عنہ کی علمی اور روحانی صحبت حاصل کریں… اُن کے
حالات پڑھیں، اُن کے واقعات پڑھیں… وہ ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی تلوار بن کر خون
اور زخموں میں ڈوبے رہے… ممکن ہے اُن کی برکت سے ہمیں بھی یہ شوق اور کیفیت نصیب
ہو جائے… وہ چونکہ ’’سراپا جہاد‘‘ تھے ’’مجسم جہاد‘‘ تھے… ’’مکمل جہاد‘‘ تھے…’’
اصلی جہاد‘‘ تھے… اس لئے اُن کے اقوال میں بھی دعوت جہاد ہے… اور اُن کے اعمال میں
بھی دعوت جہاد ہے…حتٰی کہ جب وہ اس دنیا سے کوچ فرمانے لگے… تب بھی اُن کی ساری
فکر جہاد اور دعوت جہاد پر مرکوز تھی… چنانچہ اپنا سارا سامان اور اپنی ساری
جائیداد جہاد فی سبیل اللہ کے لئے وقف فرما دی… یہ وقف وہ پہلے ہی کر چکے تھے…
وفات کے قریب پھر دوبارہ اس کی یاد دہانی کرائی… اور پھر دنیا بھر کے مسلمانوں کو
یہ پیغام دیا کہ… جہاد کیوں نہیں کرتے ہو؟ … کیا موت سے ڈرتے ہو؟… دیکھو! جہاد میں
موت نہیں ہے… میرے جسم کو دیکھو… ایک بالشت جگہ بھی جہادی زخموں سے محفوظ نہیں ہے…
پورا جسم چھلنی چھلنی ہے… موت جہاں بھی مجھے نظر آئی میں اس پر جھپٹا… اور ایسے
معرکوں میں کودا جہاں سے بچنے کا تصور بھی محال تھا… مگر دیکھو! مجھے وہاں موت
نہیں آئی… میں اپنے بستر پر وفات پا رہا ہوں… شہادت کی اس حسرت کا اظہار فرما کر…
زندگی کے آخری لمحات کو بھی دعوت جہاد بنا دیا… حالانکہ اُن کی وفات کئی اعتبار
سے شہادت سے افضل تھی… اور وہ ’’شہداء‘‘ سے زیادہ بلند مقام پر تھے… اور وہ اللہ
تعالیٰ کی تلوارتھے… اس تلوار کو توڑنا یا موڑنا دنیا میں کسی کے بس میں نہیں تھا۔
اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کو جہاد میں دیکھنا
پسند فرماتے ہیں…اللہ تعالیٰ کی جہادکے ساتھ محبت ایسی ہے کہ… اس کے لئے اللہ
تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو… اپنی تلوار تک بنا لیتے ہیں… کتنے خوش نصیب ہیں وہ
بہادر جو… اللہ تعالیٰ کی تلوار بن جاتے ہیں… کہاں بزدلی کی ناپاک غلامانہ زندگی…
اور کہاں اللہ تعالیٰ کی چمکتی اور برستی تلواریں… یا اللہ! ہم پر بھی فضل فرما…
بزدلی سے مکمل نجات عطاء فرما… ’’حُبِّ دنیا‘‘ کی ناپاکی سے حفاظت فرما… اور ہمیں
اپنے فضل سے… ’’سیف اللّٰہی ‘‘ نسبت عطاء فرما… آمین یا ارحم الراحمین
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور: 602
اَفْضَلُ اَیَّامِ الدُّنْیَا
’’افضل ایام الدنیا‘‘ کتاب کا
تعارف… اس کی وجہ تسمیہ…اس کتاب کے مرتب کئے جانے کے اغراض ومقاصد… اور اس کتاب سے
حاصل ہونے والے فوائد وثمرات…
تاریخ اشاعت:
۲۶شو ال المکرم ۱۴۳۸ ھ/
بمطابق21 جولائی 2017ء
اَفْضَلُ اَیَّامِ الدُّنْیَا
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مرتے دم تک … دین اسلام کی مقبول
خدمت میں لگائے رکھے۔(آمین)
دو ہفتے سے ہندوستان اور وہاں کے مسلمانوں کی بات چل رہی ہے
… آج بھی اسی موضوع کو آگے بڑھانے کا ارادہ تھا…’’بت شکن‘‘کے عنوان سے ایک دلچسپ
داستان اور ’’بت شکنی‘‘کے فوائد پر بات کرنی تھی …مگر ’’کتاب ‘‘تیارہوگئی …آپ
پوچھیںگے کونسی کتاب؟…دراصل رمضان المبارک میں ارادہ باندھا تھا کہ… رمضان کے
بعد’’عشرۂ ذی الحجہ ‘‘ کی کتاب تیار کریں گے … اس موضو ع پرایک مختصر
کتابچہ’’تحفۂ ذی الحجہ‘‘کے نام سے کئی سال سے شائع ہورہا ہے … مگر ضرورت تھی کہ
اس پورے موضوع کوقدرے تفصیل اور قدرے تاکید سے بیان کیا جائے … چنانچہ کتاب تیار
کرنا شروع کی جوآج الحمدللہ مکمل ہوچکی ہے … اور ان شاء اللہ بہت جلد شائع ہو
جائے گی …اب اس کتاب کے آغاز میں تعارف بھی لکھنا تھا… اور آج رنگ و نور کا دن
بھی ہے… سوچا کہ دونوں کو یکجا کردیا جائے تو اُمید ہے کہ زیادہ فائدہ ہوگا، ان
شاء اللہ … لیجئے! نئی کتاب ’’اَفْضَلُ اَیَّامِ الدُّنْیَا‘‘ کاتعارف ملاحظہ
فرمائیے ۔
اَفْضَلُ اَیَّامِ الدُّنْیَا
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے …اس کتاب کا نام’’اَفْضَلُ
اَیَّامِ الدُّنْیَا‘‘ہے یعنی ’’دنیا کے افضل ترین ایام‘‘ …ایک بندۂ مؤمن کے لئے
اس کی دنیوی زندگی کے…افضل ترین اور بہترین ایام… کیونکہ ان ایام میں کیا جانے
والا ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک …باقی دنوں کے اعمال سے زیادہ محبوب ہے… پس
ایک مؤمن کے لئے یہ ’’دس دن‘‘… جنہیں’’عشرۂ ذی الحجہ ‘‘کہا جاتا ہے…بے حد خوشی
اور بے حد سعادت کے دن ہیں …کیونکہ وہ ان دنوں میں اپنے اعمال کے ذریعے اللہ
تعالیٰ کا زیادہ اور خصوصی’’ قرب ‘‘پاتا ہے … اور ان دنوں میں اس کے اعمال کی قدر
وقیمت اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ … نفل اعمال کی قیمت فرض اعمال سے زیادہ ہوجاتی
ہے … پھراندازہ لگالیں کہ فرض کی قیمت کس قدر بڑھ جاتی ہوگی۔
کتاب کا نام تبرکا ً ایک حدیث شریف سے لیا گیا ہے…اس
حدیثِمبارکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم نے ذوالحجہ کے پہلے دس دنوںکو’ ’اَفْضَلُ اَیَّامِ الدُّنْیَا‘‘ارشاد فرمایا
ہے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مبارکہ میں عجیب و غریب کشش ،تأثیر
اور حکمت ہوتی ہے …بندہ نے جب سے یہ مبارک الفاظ’’ اَفْضَلُ اَیَّامِ الدُّنْیَا‘‘
شعوراور توجہ کے ساتھ پڑھے ہیں… اسی دن سے دل میں ان مبارک ایام کی قدرو منزلت
راسخ ہوگئی ہے … اور اس کے بعد سے اب تک مسلمانوں کو ان مبارک ایام کی فضیلت اور
اہمیت کی طرف متوجہ کرتا رہتا ہوں … اب جبکہ اس موضوع پرایک مختصر کتاب تیارہوچکی
ہے تودل سے یہی آواز آئی کہ اس کتاب کا نام’’ اَفْضَلُ اَیَّامِ الدُّنْیَا‘‘
رکھا جائے…اُمید ہے کہ کتاب کایہ نام ہی مسلمانوں کو … پورا مسئلہ سمجھا دے گا…
اور غفلت کے پردے ہٹادے گا،ان شاء اللہ ۔
ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کی فضیلت قرآن مجید میں بھی مذکور ہے
…اوراس موضوع پرکئی مبارک احادیث صحیحہ بھی موجود ہیں … مگراس کے باوجود ہمارے ہاں
ان مبارک ایام کے بارے میں کوئی سرگرم اور پر جوش ماحول نہیں پایا جاتا…اس اجتماعی
محرومی کی کئی وجوہات ہیں… ہمارے ہاں ان ایام میں زیادہ سے زیادہ حج اور قربانی کو
کچھ بیان کیا جاتا ہے … اور کچھ پرانے لوگ عرفہ کاروزہ بھی رکھ لیتے ہیں…اور بس…حج
بھی بڑا فریضہ ہے اور قربانی بھی اہم واجب ہے … مگریہ دس دن ہمارے لئے تمام نیک
اعمال کا مہنگاترین موسم ہوتے ہیں… ان ایام کی تسبیح،تہلیل،تکبیر اور ذکر کا بڑا
مقام ہے …ان ایام کے صدقے کی بہت قیمت ہے … ان ایام کی عبادات بہت وزنی ہیں … ان
ایام کے دن بہت اہم اور راتیں بے حد قیمتی ہیں … یہ ہمارے لئے ا پنا آخرت
کاسرمایہ اورخزانہ بڑھانے کاخاص سیزن ہے… مگر چونکہ منبر و محراب سے ان ایام کی
فضیلت اور اہمیت پر…زیادہ تاکید ی صدا بلند نہیںہوتی تو… اکثر مسلمان ان ایام
کوعام طریقے سے گزار دیتے ہیں …بلکہ بعض تو شیطانی چال کا شکار ہوکر ان ایام کو
چھٹی ،غفلت اور گناہ میں ضائع کردیتے ہیں … الحمدللہ ہماری جماعت…’’ جہادفی سبیل
اللہ‘‘ کی بنیادی دعوت کے ساتھ ساتھ پورے دین کی دعوت کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے…
چنانچہ جماعت کی برکت سے ’’عشرۂ ذی الحجہ ‘‘کی طرف بھی توجہ ہوئی اور کئی سال سے
ان مبارک ایام کی فضیلت اور اہمیت کو مضامین اورمکتوبات کے ذریعے … لاکھوں
مسلمانوں تک پہنچایاجارہا ہے … جماعت کی دیگر مہمات کی طرح اللہ تعالیٰ نے اس دعوت
کو بھی الحمدللہ ثم الحمدللہ قبولیت عطاء فرمائی …اوراب الحمدللہ لاکھوں مسلمان ان
مبارک ایام کو پاتے اورکماتے ہیں … ہزاروں مسلمان یکم ذی الحجہ سے لے کر ۹ذی الحجہ تک روزے رکھتے ہیں …تسبیح،تہلیل اور تکبیر کا بھی
ماحول بنتا ہے … قربانی کا شوق بھی الحمدللہ پہلے سے بڑھا ہے … اب کئی مسلمان…خوب
دل کھول کر قربانی کرتے ہیں … اور فرض کے ساتھ نفل قربانی کا ذوق بھی الحمدللہ بڑھ
رہاہے … اور جب سے حج بیت اللہ کی طرف دعوت کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو اس کا بھی
الحمدللہ صالح اثر ہر طرف جوش مارتا نظر آرہا ہے… یہ باتیں عرض کرنے کا یہ مطلب
ہرگز نہیں کہ … جماعت کی دعوت سے پہلے تمام مسلمان عشرۂ ذی الحجہ، قربانی اورحج
سے غافل تھے… نہیں، الحمدللہ ایسا ہرگز نہیں … یہ زندہ امت ہے… عرض کرنے کا مطلب
صرف یہ ہے کہ … جماعت کی دعوت کے بعد ماحول میں الحمدللہ زیادہ بہتری …اوراعمال
میں زیادہ ترقی آئی ہے … اوراسی پر میں اللہ تعالیٰ کاشکرادا کررہا ہوں :
{ وَاَمَّابِنِعْمَۃِ رَبِّکَ
فَحَدِّثْ}[الضحیٰ:۱۱]
آج آپ کودنیا بھرمیں ایسے لاکھوں ، ہزاروں مسلمان ملیں گے
جن کو’’عشرۂ ذی الحجہ ‘‘کی اہمیت اور دولت … جماعتی دعوت کے ذریعہ نصیب ہوئی …
وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
ہمارے پاس ’’تحفۂ ذی الحجہ‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ پہلے سے
موجود تھا … پھر عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت اور اہمیت پرجورنگ ونور اور مکتوبات لکھے
گئے تھے ان کوبھی کتاب میں شامل کرلیا گیا…اسی طرح حج بیت اللہ اور قربانی کے
موضوع پر لکھے گئے مضامین اورمکتوبات بھی اس میں جمع کردئیے گئے …مزیدان تمام
موضوعات پر ’’احادیث مبارکہ‘‘ بھی جمع کرلی گئیں…اوراس طرح سے یہ کتاب ’’ اَفْضَلُ
اَیَّامِ الدُّنْیَا‘‘تیار ہوگئی…اُمیدہے کہ یکجاجمع ہونے والایہ دینی مواد… خطباء
کرام،ائمہ مساجدکے بھی کام آئے گاکہ …وہ آسانی سے اس کے ذریعہ اس موضوع پردعوت
چلا سکیں گے … کئی سال پہلے ایک بزرگ عالم دین سے ملاقات ہوئی … اور بہت سی باتوں
کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی آئی کہ … دعوت جہاد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص سنت ہے … وہ فرمانے لگے کہ اب مطالعہ کا
وقت نہیں ملتا مشغولیات زیادہ ہیں… اگر مجھے جہاد کا مواد یکجا مل جائے توضروراپنے
مریدین کواپنے خطبات و بیانات میں یہ دعوت دیاکروں گا… بندہ نے انہیں ’’فضائل جہاد
‘‘کے بارے میں بتایا کہ چھپ چکی ہے … وہ خوش ہوئے اور فرمائش کی … چنانچہ ملاقات
کے بعد ان کو فضائل جہاد اور دیگرکتب بھجوادی گئیں …اللہ تعالیٰ’’اَفْضَلُ
اَیَّامِ الدُّنْیَا‘‘کتاب کو بھی اپنے دربار میں قبولیت عطاء فرمائے۔
اس کتاب کااصل مقصدچونکہ مسلمانوں کو … عشرۂ ذی الحجہ
اوراس کے اعمال کی طرف متوجہ کرنا ہے …اس لئے بعض باتوں کو باربارعرض کیا گیا ہے
تاکہ وہ دل میں اُتر جائیں … اورزندگی کا ’’رنگ‘‘بن جائیں …یہ ایک ایسی دعوت عمل
ہے جس میں ہر مسلمان کے لئے فائدہ ہی فائدہ ہے…جبکہ نقصان کوئی نہیں …اس لئے آپ
سب سے گزارش ہے کہ اس کتاب کواول تاآخر … غور،فکراور محبت کے ساتھ پڑھیں … اس پر
عمل کریں … دوسرے مسلمانوں تک زیادہ سے زیادہ یہ کتاب پہنچائیں … حجاج کرام کے لئے
بھی اس کتاب میں بہت کچھ فائدہ مند ہے …ان تک بھی یہ کتاب پہنچائیں …یاکتاب کے
حجاج سے متعلق خاص صفحات کاپی کراکے ان میں تقسیم کریں… اوراگر آپ کواس کتاب سے
کوئی فائدہ پہنچے تو بندہ،اس کے والدین ،اہل وعیال اوراقارب و متعلقین کے لئے بھی
دعاء کا احسان فرمادیں … اس کتاب کی تیاری پر اوّل و آخر اللہ تعالیٰ کا شکر …
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ…
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ بِنِعْمَتِہٖ
تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ۔
اوران مخلص رفقاء گرامی قدر کا دل سے شکر یہ
جنہوں نے کتاب کی تیاری میں تعاون کیا، اللہ تعالیٰ ہی اجر دینے والے ہیں … اور
وہی اُن کے نام جانتے ہیں ۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور : 603
اَللہُ حَفِیْظٌ
* اللہ
تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کا ایک مضبوط ذریعہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، اور جہاد چھوڑنا
دنیا وآخرت میں ’’درد ناک عذاب‘‘ کا موجب ہے، یہ سب کچھ قرآن کریم واضح طور پر
بتاتا ہے…
* دو
مسنون دعائیں اور چند سوال…
* ’’عالم‘‘
کی دو قسمیں…
* ’’عالم
ربانی‘‘ کبھی جہاد کی مخالفت نہیں کرتا…
* جہاد
فی سبیل اللہ مسلمانوں کے لئے امن اور ترقی کا سائبان ہے…
* ایک
واقعہ…
* جہاد
کبھی ختم نہیں ہوسکتا کیونکہ جہاد کا محافظ خود اللہ تعالیٰ ہے۔
یہ
ہیں اس معطر تحریر کے اہم مضامین
تاریخ اشاعت:
۴
ذوالقعدہ ۱۴۳۸ ھ / بمطابق 28 جولائی2017ء
اَللہُ حَفِیْظٌ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے درد ناک عذاب سے بچائیں …مسلمان
جب’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ چھوڑتے ہیں تو وہ ’’دردناک عذاب‘‘ کاشکاربنتے ہیں…فرمایا:
{اِلَّاتَنْفِرُوْایُعَذِّبْکُمْ
عَذَابًااَلِیْمًا}[التوبہ: ۳۹]
’’اگرتم( جہادفی سبیل اللہ میں)
نہیں نکلو گے تواللہ تعالیٰ تمہیں دردناک عذاب دے گا۔‘‘
یااللہ !آپ کی پناہ…عذاب اوروہ بھی اللہ تعالیٰ
کا…اوردردناک بھی… یااللہ! آپ کی پناہ ،یااللہ! آپ کی پناہ … قرآن مجید کا وعدہ
بھی سچا اوروعید بھی سچی …شک کر نا کفر…دردناک عذاب کی ایک شکل یہ کہ …مسلمان ایک
دوسرے کے دشمن ہو جائیں ،ایک دوسرے کو ماریں ، کاٹیں اور ذبح کریں… ہاں! جب دشمنی
اپنے اصل مقام پر نہ نکلے تو غلط مقام پر نکلتی ہے … فرمایا:
’’جب تم جہاد چھوڑو گے تو اللہ
تعالیٰ تم پر ذلت کو مسلط فرمادے گا۔‘‘
[ سنن أبي داود۔حديث رقم:۳۴۶۲ ، ناشر:دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
اس بات کو آگے بڑھانے سے پہلے آج کا’’ تحفہ‘‘ قبول کرلیں
۔
قیمتی ہدیہ
حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی دوپرکیف اور وجد آفرین
دعائیں…ایسی دعائیں جو ہمارے اندر ہمت اُٹھاتی ہیں ،جذبہ بڑھاتی ہیں…قوت اور طاقت
سے ہمیں ہمکنار کرتی ہیں … اورہمارے مزاج تک کی اصلاح کرتی ہیں …لیجئے دو دعائیں …
ان کو پڑھیں ،سمجھیں ،یاد کریں ،برتیں اور آگے بڑھائیں ۔
١ اَللّٰھُمَّ بِکَ أَصُولُ وَبِکَ أَحُولُ وَبِکَ أَسِيرُ۔
’’یااللہ !آپ کی مدد اور توفیق سے
میں حملہ کرتا ہوںاورآپ کی مددو توفیق سے میں تدبیر کرتا ہوں اور آپ کی مددو
توفیق سے میں چلتا ہوں۔‘‘
[مسند أحمد ۔حديث رقم: ۶۹۱، ناشر:مؤسسة الرسالة]
٢
اَللّٰھُمَّ بِکَ
أُحَاوِلُ وَبِکَ أُصَاوِلُ وَبِکَ أُقَاتِلُ۔
’’یااللہ !آپ کی توفیق و مدد سے
میں اپنے معاملات کی تدبیرکرتاہوں اور آپ کی مدد سے میں حملہ کرتا ہوں اور آپ کی
توفیق سے میں قتال کرتا ہوں ۔ ‘‘
جب جہاد پرنکلناہو…جب سفر پر جانا ہو ، جب کسی دین کے دشمن
سے نمٹنا ہو… جب کسی معاملے کی فکر اور تدبیر کرنی ہو …جب کسی مشکل کام میں ہاتھ
ڈالنا ہوتوان مبارک ،منوراور مسنون دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مدد ساتھ لے لی
جائے … تب تدبیر بھی درست ہوگی…چلنا بھی آسان ہوگا،حملہ بھی زور دار ہوگا،قتال
بھی کامیاب ہوگا،ان شاء اللہ …چلیں یہ تحفہ ،یہ ہدیہ آپ سب کو مبارک … جن کی
زندگی میں پہلے سے یہ دعائیں چل رہی ہیں ان کو زیادہ مبارک …مگرتین سوالوں کا جواب
دیں کہ…
١
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم
کی مبارک دعاؤں میں …حملہ کرنے ،قتال
کرنے کا تذکرہ کیسے آگیا؟
٢ وہ لوگ جو جہاد فی سبیل اللہ کو
چھوڑ چکے وہ ان دعاؤں کا کیا کریں گے ؟
٣ وہ جو جہاد نہ کرنے پر فخر کرتے
ہیں …اسے اپنی عقلمندی اور دانشمندی قرار دیتے ہیں وہ حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج ،دین اور دعاؤں سے
کتنے دور ہیں ؟
بس ان تین سوالات پر غور کریں …بہت سی تاریکیاں چھٹ جائیں
گی … بہت سے اندھیرے چھوٹ جائیں گے۔
یااللہ! نورعطاء فرما… اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ
نُوْرًا
یااللہ!نورعطاء فرما… اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ
نُوْرًا
یااللہ !نورعطاء فرما…اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ
نُوْرًا
دل خوش اور حیران
ایک بات پکی یاد کر لیں…جوشخص بھی دین اسلام کا سچا عالم
ہوگا وہ کبھی جہاد کا مخالف نہیں ہو سکتا … عالم کی دو قسمیں ہیں:
١ عالم
دنیا …
٢ عالم
ربانی…
’’عالم دنیا‘‘وہ ہے جس نے دین
کاعلم دنیا کے لئے پڑھا…وہ مال،عہدہ ، منصب اورپروٹوکول میں کامیابی محسوس کرتاہے
…ایسے عالم کے لئے قرآن و سنت میں بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں … بہت ہی سخت ،بہت ہی
سخت… اللہ تعالیٰ ہم سب کی ان’’وعیدوں ‘‘سے حفاظت فرمائے …’’عالم ربانی‘‘وہ عالم
ہے جس نے دین کا علم اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے پڑھا …اورپھر مرتے دم تک وہ اپنی
اس نیت پر قائم رہا…’’عالم ربانی‘‘کبھی جہاد کا مخالف نہیں ہو سکتا …وہ جہاد کرے
یا نہ کرے مگرجہاد سے عشق و محبت ضرور رکھتا ہے اور کھل کر جہاد بیان کرتا ہے …وہ
نہ جہاد کے معنٰی بدلتا ہے اور نہ جہاد کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے … آپ
اپنے قریب زمانہ میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ سے لے کر حضرت مولاناشیرعلی شاہ صاحب
رحمہ اللہ تک دیکھ لیں …ربانی علماء کی
ایک طویل فہرست ہے …یہ حضرات جہادکا نام سن کرہی جھوم جاتے تھے … جب جہاد پر لکھتے
تو قلم توڑ ڈالتے اور جب جہاد پر بولتے تو ثریا ستارے کونیچادکھادیتے …وجہ یہ ہے
کہ ’’عالم ربانی ‘‘حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم کی نسبت سے مالامال ہوتا ہے …
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی السیف اور نبی الملاحم ہیں … تلواروالے نبی ،جنگوں
والے نبی … جہاد والے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم ، صلی اللہ علیہ وسلم ، صلی
اللہ علیہ وسلم … آج کل یہ شیطانی واہمہ
بعض لوگوں کو لگ گیا ہے کہ … جہاد کی مخالفت کرو تاکہ مدارس محفوظ رہیں، عمامہ
محفوظ رہے ،ڈاڑھی محفوظ رہے … استغفراللہ ،استغفراللہ ،استغفراللہ … کیا دین کے
ایک فریضے کے انکار سے… مدارس،عمامہ اورڈاڑھی کی حفاظت ہوسکتی ہے؟ہرگز نہیں ، ہرگز
نہیں… آج مدارس کی اگر حفاظت ہے ،عمامہ اورڈاڑھی کی اگر شان ہے تو وہ جہاد کی
برکت سے ہے …جہاد کا انکارکرنے والوں نے تواُمت کے کئی قابل فخر مدارس کو
’’انگریزیت‘‘سے ناپاک کردیاہے … اور المیہ یہ کہ وہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں… اچھا
چھوڑیں !بات دور جارہی ہے … عرض یہ کررہا تھاکہ دین اسلام کا کوئی سچا اور ربانی
عالم کبھی بھی جہاد کی مخالفت نہیں کرسکتا… جہاد کی مخالفت توقادیانیوں اور
غامدیوں کا طریقہ ہے … اصل بات جوسنانی ہے وہ یہ کہ کئی سال پہلے رمضان المبارک
میں ایک مسجدمیں جمعہ ادا کرنے کااتفاق ہوا…ہم چونکہ کافی پہلے مسجد میں داخل ہوئے
،اس وقت پہلی اذان بھی نہیں ہوئی تھی تو مسجد کے خدام کچھ گھبراسے گئے … پہلے
انہوں نے کسی بہانے آکر ہمارے سامان کی تلاشی لی … پھر میرے ساتھی سے تعارف اور
بات چیت کر کے اپناتجسس دور کرتے رہے … مسجد کے امام صاحب دور بیٹھے اس سارے عمل کی
نگرانی فرما رہے تھے… وہ مختصر قد کاٹھ کے نفیس اور کمزور سے آدمی نظر آرہے تھے
… ماحول کی اس خرابی سے میرادل مکدر ہوا … ارادہ کیا کہ کسی اور مسجد چلا جاؤں
مگراسی وقت اذان ہوگئی تویہ ارادہ ملتوی کر دیا…جب آدمی کسی مسجد میں ہواور وہاں
اذان ہوجائے توباجماعت نماز ادا کرنے سے پہلے وہاں سے نہیں جاناچاہیے …خیر میں
تلاوت میں لگا رہا… اسی دوران امام صاحب منبرپر تشریف لے آئے تو میںنے قرآن مجید
رکھ دیا اور بیان کی طرف متوجہ ہوگیا… اُمید یہی تھی کہ نازک مزاج نظر آنے والے
خطیب صاحب … کوئی آسان اورہلکا پھلکا موضوع چھیڑیں گے … مگر یہ کیا؟… خطیب صاحب
نے’’ سورۃ الصف‘‘ کا دوسرارکوع پڑھا اور’’اللہ تعالیٰ کے عذاب‘‘ کے موضوع پر گفتگو
کرنے لگے … فرمایا…آج وہ نسخے بتاؤں گا جن کی برکت سے مسلمان دنیا اور آخرت میں
اللہ تعالیٰ کے دردناک عذاب سے بچ سکتے ہیں …عذاب الٰہی سے بچانے والا پہلا نسخہ
’’جہادِ فی سبیل اللہ‘‘ہے…دیکھو!سورۃالصف میں اللہ تعالیٰ نے واضح ارشاد فرمادیا
ہے کہ … اگر تم جہاد فی سبیل اللہ کرو گے تو…
{تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ
اَلِیْمٍ}
’’یہ جہاد تمہیں اللہ تعالیٰ کے
عذاب الیم سے بچا لے گا۔‘‘ [الصف: ۱۰]
پھرخطیب صاحب نے ایک آہ بھر کر کہا … جہاد پر مزید کیا بات
کروں ؟آج تومسلمان جہاد سے اس طرح دور ہے جس طرح ہندوگوشت سے … پھر وہ باقی نسخے
بیان فرماتے رہے … مجھے بہت خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی …بے شک کوئی سچا عالم کبھی
جہاد کے خلاف بات تو کیا کوئی اشارہ بھی نہیں کرسکتا… اس بیان کو سن کر میری وہ
کوفت بھی دور ہوگئی جو تلاشی اور تجسس کی وجہ سے ہوئی تھی… اللہ تعالیٰ ان خطیب
صاحب کو اپنی خاص رحمت ، مغفرت اوردارین کی سعادتیں عطاء فرمائیں … 2003ء میں جب
مجھے اچانک اپنے گھراور ماحول سے نکل کر در بدری کی زندگی اختیار کرنی پڑی توایسے
کئی عجیب اور دلچسپ واقعات ہوئے … کبھی کبھار دل چاہتا ہے کہ ان تمام واقعات کو
قلمبندکردوں …دیکھیں جو نصیب…ایک مسجد میں توایسا بھی ہوا کہ خطیب صاحب جہاد پر
بیان کرتے ہوئے میری کئی باتوں کا نام لے کر حوالہ دیتے رہے اور میں سرجھکا کر ان
کا بیان سنتا رہااور دعوت جہاد پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہا۔
بات بالکل سچی ہے
آج کل مسلمانوں پر جو دھماکے ہیں ،جو قتل و غارت ہے،جو
مظلومیت ہے ،جو فساد ہے اس کی بڑی وجہ مسلمانوں کا جہاد سے دور ہونا ہے …جہاد فی
سبیل اللہ مسلمانوں کے لئے امن کا سائبان ہے … یہ جو مسلمانوں کے دشمن دن رات جہاد
کے خلاف سازشیں کررہے ہیں …کیا یہ ہمارے خیر خواہ ہیں ؟… یہ جانتے ہیں کہ مسلمان
اگر جہاد پر آگئے تویہ امن پالیں گے،یہ ترقی کرجائیں گے اور یہ غالب ہو جائیں
گے…اسی لئے وہ ہمارے حکمرانوں کوجہاد ختم کرنے پر مجبورکرتے ہیں … یہ سب دشمن جتنی
بھی کوشش کرلیں ،جتنا بھی خرچہ کرلیں ، جتنی بھی سازشیں کرلیں …یہ جہادکوختم نہیں
کر سکتے … جہاد قرآن میں ہے اور قرآن کا محافظ اللہ ہے … جہادکا محافظ اللہ ہے ۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور: 604
اللہ تعالیٰ ہی کے لئے
* اللہ
تعالیٰ کے لئے ’’جینے‘‘ والوں کی زندگی دور دور تک پھیلا دی جاتی ہے…
* اللہ
تعالیٰ کے لئے ’’مرنے‘‘ والوں کی موت زندگی سے زیادہ لذیذ اور میٹھی بنادی جاتی
ہے…
* اللہ
تعالیٰ کے لئے جینے مرنے والوں کی نظر ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر رہتی ہے، وہ نہ
حکمرانوں کو مشکل کشا سمجھتے ہیں اور نہ مالداروں کو، ان کی اصل طاقت دو رکعت نماز
ہوتی ہے…
* جو
اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے اسلام اس کی حفاظت کرتا ہے… کیسے؟
* جو’’
لبرل ازم‘‘ کو مقصد حیات بنالے تو مشکل وقت میں کوئی ’’ازم‘‘ اس کا ساتھ نہیں دیتا
… کیسے؟
* دعائیں
قبول ہوگئیں… اب کیا کرنا ہے؟
آگے
کا لائحہ عمل…
تاریخ
اشاعت:
۱۱ ذوالقعدہ ۱۴۳۸ھ/ بمطابق 4 اگست 2017ء
اللہ تعالیٰ ہی کے لئے
اللہ تعالیٰ کے لئے جینا… اللہ تعالیٰ کے لئے مرنا… یہی ایک
مؤمن کی شان ہے… یہی ایک مؤمن کی آن ہے… یا اللہ! مجھے نصیب فرما … ہر مؤمن
اور ہر مؤمنہ کو نصیب فرما، آمین
جو اللہ تعالیٰ کے لئے ’’جیتا ‘‘ہے اللہ تعالیٰ اس کی زندگی
کو دور دور تک پھیلا دیتے ہیں… اور جو اللہ تعالیٰ کے لئے’’ مرتا‘‘ ہے اللہ تعالیٰ
اس کی موت کو زندگی سے زیادہ لذیذ بنا دیتے ہیں اور اس موت کو ہمیشہ کی زندگی بنا
دیتے ہیں…’’ اے نبی !فرما دیجئے… میری نماز اور میری قربانی … اور میرا جینا اور
میرا مرنا اللہ ربّ العالمین کے لئے ہے۔‘‘
{قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ
وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ
رَبِّ الْعَالَمِیْنَ} [انعام: ۱۶۲]
وہی مالک الملک
ساری زندگی ’’اقتدار‘‘ کی ہوس میں جینے والے…
بالآخر’’اقتدار‘‘سے محروم ہو جاتے ہیں… ساری زندگی ’’مال‘‘ کی لالچ میں جینے والے
سارا مال دنیا میں چھوڑ کر مر جاتے ہیں… مگر جو اللہ تعالیٰ کے لئے جیتا ہے وہ
دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ پاتا ہے… اور مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ
کی مہمانی اور قرب میں چلا جاتا ہے… آج کل کے حکمران اور ارب پتی مال دار… جس
انجام سے دوچار ہوتے ہیں… اس میں ہمارے لئے بڑی عبرت ہے… پاکستان کے طاقتور وزیر
اعظم کو عدالت نے ’’نااہل‘‘ قرار دے دیا… یہی عدالت کسی کو موت کی سزا سنائے تو اسے
پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے… کسی کو عمر قید دے تو اسے بیس سال کے لئے سلاخوں کے
پیچھے پھینک دیا جاتا ہے… مگر جب اسی عدالت نے وزیر اعظم کو ’’نااہل‘‘ قرار دیا تو
اب عدالت کے فیصلے پر سوال اُٹھایا جا رہا ہے… یہاں دو باتیں بڑی عبرتناک ہیں ۔
١ وزیراعظم
نے اپنا عہدہ بچانے کے لئے … ہر وہ کام کیا جو وہ کر سکتے تھے… حالانکہ ایک مسلمان
ہونے کے ناطے انہیں وہ کام نہیں کرنے چاہیے تھے… مثلاً طرح طرح کے نجومیوں اور
جادوگروں سے ٹونے اور منتر کروائے گئے… رشوت کا جہنمی بازار ہر طرف بھڑکایا گیا…
جعلی کاغذات تیار کروائے گئے… جھوٹ کا سہارا لیا گیا… دنیا کے حکمرانوں سے مدد
مانگی گئی… اپنے دوستوں کے ذریعہ بارڈر پر حالات خراب کروائے گئے… تفتیشی افسران
کو ڈرایا دھمکایا گیا … الغرض ہر حرام کام کیا گیا تاکہ ’’وزارتِ عظمیٰ‘‘ بچ جائے
مگر وہ نہ بچی … رات کو سوئے تھے تو وزیر اعظم تھے ، اگلی رات جب بستر پر آئے تو
سابق وزیراعظم بن گئے… اگر فوج وزیر اعظم کا تختہ الٹتی تو مظلوم کہلاتے… اگر
عدالت پہلے فیصلے میں نااہل قرار دیتی تو جلد بازی کا شور مچاتے… مگر مظلوموں کی
آہیں رنگ لائیں… چھ ہفتے کی تفتیش نے اکثر جرائم کا پردہ فاش کر دیا… اور پورے
خاندان کو ’’ بے آبرو‘‘ بنا دیا… اگر دل میں ایمان اور قسمت میں ہدایت ہو تو اتنا
جھٹکا ہی کافی تھا کہ فوراً توبہ کرتے… اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے… مگر کہاں؟…
اب بھی کہہ رہے ہیں کہ میرا ضمیر صاف ہے… یہ ضمیر ہے یا جمعدار کا تھال؟ … اب نئے
جادوگر اور نجومی ڈھونڈے جا رہے ہیں… دوبارہ حکومت پانے کے حیلے تلاش کئے جا رہے
ہیں… بے شک اللہ تعالیٰ ہی مالک الملک ہے، وہ جسے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جس
سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے… جادو حرام ہے… نجومیوں سے قسمت پوچھنا ناجائز ہے…
رشوت جہنم کی آگ ہے… مشرکوں سے یاری ذلت والا کام ہے… وہ جو اللہ تعالیٰ کے لئے
جیتے ہیں ان کو حکومت ملے تو وہ اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بناتے ہیں… انہیں
اختیار ملے تو وہ خود بے اختیار ہو جاتے ہیں اور دین کو مختار بنا دیتے ہیں… ان کو
مال ملے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا خرید لیتے ہیں اور تو اور وہ اپنی جان بھی
…اللہ تعالیٰ کی رضا کے معاوضے میں بیچ کر سرفراز ہو جاتے ہیں…
{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ
نَفْسَہُ ابْتِغَآ ءَ مَرْضَاتِ اللہِ} [البقرہ: ۲۰۷]
٢
عبرت کی دوسری بات یہ ہے کہ… جب وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا گیا تو کوئی بھی
سڑکوں پر نہ نکلا… نہ کوئی آنکھ روئی،نہ کوئی دل پھٹا… نہ کوئی احتجاج اور نہ
کوئی بڑا مظاہرہ… فوٹو سیشن کے لئے چند ہلکے پھلکے احتجاج ہوئے اور بس… جبکہ
’’وزیراعظم ‘‘کا دعویٰ تھا کہ وہ ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں… مگر اب معلوم ہوا کہ
ان کی عوام میں مقبولیت… شہید ممتاز قادری رحمہ اللہ سے بھی کم ہے… انتخابات جیتنے کا ایک فن کچھ
لوگوں نے سیکھ لیا ہے… یہ لوگ الیکشن جیت جاتے ہیں مگر کسی کا دل نہیں جیت سکتے…
اُدھر ترکی میں دیکھیں… جب ’’رجب طیب اردگان ‘‘کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی تو لاکھوں
لوگ دیوانہ وار گھروں سے باہر نکل آئے… وہ کوئی معمولی بغاوت نہیں تھی… امریکہ سے
لے کر جرمنی تک کئی بڑے ممالک اس بغاوت کے پیچھے تھے… اور بغاوت کی تیاری پر اربوں
ڈالر خرچ ہوئے تھے… اس بغاوت کو جنگی طیاروں اور ٹینکوں کی مدد حاصل تھی… مگر ترکی
کے مسلمان اپنے صدر کی برطرفی پر… ایسے بھڑکے کہ پوری بغاوت کا بھرکس نکال دیا…
خواتین ٹینکوں کے سامنے کھڑی ہو گئیں… اور بچوں نے اپنے سینے گولیوں کے لئے پیش کر
دئیے… وجہ کیا تھی؟ … وجہ ایک ہی تھی اور وہ ہے ’’رجب طیب‘‘ کی اسلام پسندی … وہ
کسی حد تک اسلام کے ساتھ مخلص ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی محبت لوگوں کے قلوب میں بھر
دی… اور لوگ ا س کے لئے جان دینے پر تیار ہو گئے… جبکہ ہمارے حکمران دین اور اسلام
سے بیزار ہیں… اس لئے ان کی بڑی سے بڑی حکومت گرانے کے لئے… فوج کا ایک ٹرک کافی
ہو جاتا ہے… اور کوئی ان کے لئے گھر سے باہر نہیں نکلتا… اب دیکھیں کہ دو تہائی
اکثریت رکھنے والے وزیر اعظم کو پانچ جج صاحبان نے کان پکڑ کر … اسلام آباد سے
’’مری ‘‘ چھوڑ دیا… اور پورے ملک میں لوگ خوشی سے مٹھائیاں بانٹنے لگے… حلوائیوں
کی دکانوں پر مٹھائی کم پڑ گئی… جبکہ لوگ ابھی تک شکرانے کے نوافل ادا کر رہے ہیں…
معلوم ہوا کہ …اسلام الحمد للہ آج بھی ’’طاقتور ‘‘ہے… اور ’’لبرل ازم‘‘ آج بھی
بے حد کمزور ہے… ترکی کے صدر نے ’’اسلام‘‘ کو ڈھال بنایا تو اسلام نے اس کی حفاظت
کی… ہمارے حکمرانوں نے لبرل ازم کا نعرہ لگایا تو… کوئی لبرل ان کے تحفظ کے لئے نہ
نکلا… لبرل لوگ تو صرف موم بتیاں جلا سکتے ہیں … یا بے حیائی کے کاموں میں ہاتھ
بٹا سکتے ہیں … جبکہ اسلام کے نام لیوا … جو اللہ تعالیٰ کے لئے جیتے ہیں اور اللہ
تعالیٰ کے لئے مرتے ہیں … وہ اسلام کی خاطر کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے…
ہمارا وزیراعظم بھی اگر اسلام کا وفادار ہوتا تو آج… مری میں حسرت اور افسوس کی
گرم آہیں نہ بھر رہا ہوتا۔
اب کیا کرنا ہے؟
جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے جیتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ کے
لئے مرتے ہیں ان کی ایک بڑی صفت یہ ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مانگتے ہیں… نہ
جادو کرتے ہیں نہ ٹونے… نہ حکمرانوں کو اپنا مشکل کشا سمجھتے ہیں نہ مالداروں کو …
ان کی طاقت دو رکعت نماز… اور اللہ تعالیٰ سے دعاء ہوتی ہے… پھر جب ان کی دعاء
قبول ہو جائے تو فخر نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں ، صدقہ دیتے
ہیں… اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ سے حیا کرتے ہیں کہ… اس نے
ہمارے اتنے گناہوں کے باوجود ہماری دعاء قبول فرمائی تو ہم بھی اس کی نافرمانی
چھوڑ دیں… اور اگر ان کی دعاء قبول نہ ہو تو مایوس نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ سے شکوہ
نہیں کرتے… دل میں رنج نہیں لاتے… بلکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر دل اور سر جھکائے
رکھتے ہیں کہ …اس نے جو کیا وہی بہتر ہے… اور اپنی دعاء جاری رکھتے ہیں… الحمد للہ
، الحمد للہ ثم الحمد للہ… جمعہ کے دن’’ عمل آیۃ الکرسی‘‘ کے بعد والی دعاء اللہ
تعالیٰ نے قبول فرمائی… اور انڈیا اور اس کے یاروں کو سربازار رُسوا فرمایا…اب بھی
یہ عمل جاری رکھیں… اور یہ دعاء مانگیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے حکمران نصیب
فرمائے … جو اللہ تعالیٰ ، رسول صلی اللہ
علیہ وسلم اور اسلام کے وفادار ہوں… اللہ
تعالیٰ کے لئے جیتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لئے مرتے ہوں۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور: 605
بوذری وظیفہ
* آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابو ذر رضی
اللہ عنہ کو تلقین فرمودہ ایک اہم وظیفہ
اور وصیت…
* حیاء
اور ایمان آپس میں لازم ملزوم ہیں…ان میں سے کوئی ایک چیز چلی جائے تو دوسری خود
بخود ختم ہوجاتی ہے۔
* عورت
کی ترقی اور کمال ’’حیاء‘‘ میں ہے…
* اہل
اسلام سے ایک اہم گزارش…
*
سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو ایک اہم نصیحت…
* ’’غیرت‘‘
کے نام پر ’’بیٹیوں‘‘ کو میڈیا کے سامنے رسوا کرنے والوں سے چند کھری کھری باتیں…
تاریخ
اشاعت:
۱۸ ذوالقعدہ ۱۴۳۸ ھ / بمطابق 11
اگست 2017ء
بوذری وظیفہ
اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہ کوئی گناہوں سے بچ سکتا ہے…
اور نہ کوئی نیکی کر سکتا ہے…
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ…
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔
یا اللہ !گناہوں سے بچنے کا ’’حول‘‘ عطاء فرما …
یا اللہ! نیکیاں کرنے کی ’’قوت‘‘ عطاء فرما…
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ… لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا
بِاللّٰہِ۔
مسلمان باپ اپنی بیٹی سے کس قدر پیار کرتا ہے؟ وہ دیکھو
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سفر سے واپس تشریف لاتے ہیں… مسجد کے بعد
’’بیٹی‘‘ کے گھر تشریف لے جاتے ہیں… سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا
کو دیکھ کر … حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کی ساری تھکاوٹ اُتر جاتی
ہو گی…کیونکہ بیٹی تو جنت کا پھول ہے… کوئی مسلمان باپ اپنی بیٹی پر غیر مرد کا
سایہ بھی نہیں پڑنے دیتا… مگر یہ کون لوگ آ گئے ؟ بیٹی کو میڈیا کے سامنے بٹھا کر
خود ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں… اور بیٹی اعلان کرتی ہے کہ مجھے فلاں نے چھیڑا … فلاں
نے اُکسایا… یا اللہ! رحم… بے حیائی کا طوفان سارے کنارے توڑ چکا… اگر یہ سارے
اعلان ’’غیرت ‘‘ اور ’’پاکدامنی‘‘ کے لئے کئے جا رہے ہیں تو… اتنے سالوں تک خاموشی
کیوں تھی؟… میڈیا کے سامنے اعلان کرنے سے کون سا انصاف مل جائے گا؟… باپ اور بھائی
میں غیرت ہوتی تو… چھیڑنے والے کو سبق سکھاتے …مگر کہاں؟ … بس بے حیائی کو پھیلایا
جا رہا ہے … یا اللہ! ’’حیاء‘‘ نصیب فرما… ارشاد فرمایا:
’’حیاء اور ایمان آپس میں جڑے
ہوئے ہیں … ان میں سے جب ایک اُٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اس کے ساتھ چلا جاتا
ہے۔‘‘
[مصنف ابن شیبہ۔ج:۶،ص:۹۲،ناشر: مكتبةامدادیہ۔ ملتان ]
ہمارے ملک کی سیاست بہت گندی ہو چکی …ہمارا میڈیا بہت ناپاک
ہو چکا…مختلف سیاسی پارٹیوں نے رشوت، بد دینی اور بے حیائی کو وطیرہ بنالیا ہے…
امانت و شرافت کا جنازہ نکال دیا ہے… یا اللہ !اس ماحول میں بے ایمانی سے بچنے کا
’’حول‘‘ عطاء فرما… ایمان پر ثابت قدمی کی’’قوت‘‘ عطاء فرما…
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ… لَاحَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔
حضرت سیّدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’میرے محبوب ( حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مجھے پانچ باتوں کی
وصیت فرمائی:
١ میں
غریبوں، مسکینوں پر مہربانی کروں اور ان کے ساتھ بیٹھا کروں۔
٢ ہمیشہ
اپنے سے کمترحال والوںکو دیکھوں اور اپنے سے بہترحال والوں کو نہ دیکھوں۔
٣ رشتہ داروں
کے ساتھ اچھا سلوک کروں۔
٤ سچ بولوں اگرچہ کڑوا کیوں نہ ہو۔
٥ اور
’’ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ پڑھا کروں۔‘‘
[مسند إمام أحمد۔حديث رقم:۲۱۵۱۷ ، ناشر: مؤسسة الرسالة]
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کا ترجمہ وہی ہے
جو اوپر عرض کر دیا کہ…’’گناہوں سے بچنے کی توفیق اور نیکیوں کی طاقت صرف اللہ
تعالیٰ ہی سے مل سکتی ہے‘‘…بڑا اونچا وظیفہ ہے اور بڑا شاندار…
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ…
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔
آج مسلمانوں نے غریبی اور مسکینی کو گالی اور نفرت کی چیز
سمجھ رکھا ہے، حالانکہ یہ بڑے شرف اور فخر والا مقام ہے… حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ جیسے اونچے مرتبے کے صحابی کو حکم دیا جا رہا ہے
کہ… غریبوں کے ساتھ بیٹھا کریں… سبحان اللہ ! غریبوں ، مسکینوں اور فقیروں کی کیا
شان ہے؟ یہ حضرات اگر صابر شاکر ہوں تو… یہ ولیوں کے ولی اور اللہ تعالیٰ کے مقرب
ہوتے ہیں… مالداروں کے ساتھ بیٹھنے سے مال کی محبت پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے اور
مال کی محبت کینسر سے زیادہ خطرناک بیماری ہے… سوائے اُن مالداروں کے جو مالداری
پر فخر نہیں کرتے اور دن رات اپنا مال… اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے خرچ کرتے
ہیں…یہ جو آج کئی لوگ اپنی ’’بیٹیوں‘‘ کو میڈیا کے سامنے رسوا کر رہے ہیں… اس کے
پیچھے مال کی ہوس کے علاوہ اور کون سا جذبہ ہے؟… مال کی محبت انسان کو ذلیل و رسوا
کر دیتی ہے … اور مال کی ہوس کبھی پوری نہیں ہوتی… بس بڑھتی ہی جاتی ہے، بڑھتی ہی
جاتی ہے… اسی مال کی خاطر کسی بے ضمیر نے اپنی بیٹی کو ’’ملالہ‘‘ تو کسی نے’’
گلالئی‘‘ اور کس نے ’’قندیل‘‘ بنا پھینکا … کاش! ایمان والے غیرت مند باپ … اپنی
بیٹیوں پر توجہ دیں… اور ان کو اسلامی عزت و غیرت کا نمونہ بنا دیں… ایک مسلمان
عورت کو اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب اور اللہ تعالیٰ کی خاص توجہ… اپنے گھر کی
چاردیواری میں ملتی ہے… یہ بات حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل صاف الفاظ میں سمجھائی ہے…جب کوئی
مسلمان عورت… اس راز کو پالیتی ہے اور سمجھ لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایمان کی
شعائیں دور دور تک پھیلا دیتے ہیں… وہ دیکھو! ساری اُمت تک حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ہزاروں احادیثِ مبارکہ پہنچانے والی خاتون…
ایک کچے حجرے میں تشریف فرما ہیں… اور ان کے لئے اس حجرے سے باہر قدم رکھنا پہاڑ
کی طرح بوجھ ہے… جسے وہ انتہائی سخت مجبوری کے علاوہ کبھی نہیں اُٹھاتیں… حیاء اور
عورت کا آپس میں اسی طرح رشتہ ہے… جس طرح ایمان اور حیاء کا آپس میں رشتہ ہے…
حیاء ہی میں عورت کی ترقی ہے اور حیاء ہی میں عورت کا کمال ہے… عرب کے متکبر لوگوں
میں ایک فیشن عام تھا… وہ اپنی لنگی یا چادر بڑی پہنتے تھے… یہاں تک کہ وہ زمین پر
گھسٹتی تھی… شیطان ہر زمانے میں طرح طرح کے فیشن ڈیزائن کر کے… انسانوں کو کارٹون
بناتا رہتا ہے کیونکہ وہ بنی آدم کا دشمن ہے … آج کے زمانے میں اس طرح کی چادر
یا لنگی پہننا فیشن نہیں ہے… آج کل تو پھٹی ہوئی جینز اور نیکر کو فیشن سمجھا
جاتا ہے… مگر اس زمانے میں لمبی چادر پہن کر اس کو زمین پر گھسیٹ کر چلنا تکبر اور
بڑائی کی علامت تھی… حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس شیطانی فیشن
سے سختی کے ساتھ روکا اور چادرکو ٹخنوں سے اونچا کرنے کا حکم فرمایا… اور چادر کو
ٹخنوں سے نیچے رکھنے پر جہنم کی وعید سنائی… جب یہ احادیث مسلمان خواتین تک پہنچیں
تو وہ پریشان ہوئیں… عرض کیا :یا رسول اللہ!اگر ہم اپنی چادر، شلوار کو چھوٹا کریں
تو ہمارے پاؤں نظر آئیں گے… تب ان کو سمجھایا گیاکہ ٹخنے کھولنے کا حکم صرف
مردوں کے لئے ہے اور عورتیں بھی اپنی چادریں زیادہ زمین پر نہ گھسیٹیں۔
اس واقعہ سے اس زمانے کی مسلمان عورتوں کے ’’حیاء‘‘ کا
اندازہ لگائیں کہ وہ کس طرح سے پورے جسم کا پردہ فرماتی تھیں…کاش! یہی ذہن … ہماری
آج کل کی مسلمان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا بھی بن جائے کہ… وہ ہر نئے فیشن کو
نہیں بلکہ ہمیشہ اپنی حیاء اور اپنے پردے کو مقدم رکھیں… اور اس کے لئے ہمیشہ فکر
مند رہ کر اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگا کریں… کیونکہ اسی کی توفیق سے ہی… ایمان اور
تقویٰ نصیب ہوتا ہے…
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ…
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔
آخر میں ایک گذارش ہے… فحاشی، بے حیائی اور بے شرمی والی
خبریں نہ پڑھا کریں… نہ معلومات کے لئے ، نہ عبرت کے لئے… ان خبروں کو پڑھنے سے دل
سیاہ ہوتا ہے، وساوس بڑھتے ہیں… اور گناہ پھیلتے ہیں… آج کل کا میڈیا ان خبروں کے
ذریعہ مسلمانوںمیں بے حیائی پھیلا رہا ہے… ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم
مسلمان ہیں، مومن ہیں اور ’’حیاء‘‘ ایمان کا حصہ ہے… ہمیں اس سے کیا غرض کہ… فلاں
جگہ فحاشی کا اڈہ چل رہا ہے… فلاں نے فلاں کے ساتھ کیا کیا؟… یہی وقت ہم تلاوت،
ذکر یا اچھی کتابوں کے مطالعہ پر لگا لیا کریں…زیادہ معلومات کا شوق انسان کو
برباد کرتا ہے … ہمیں ہمیشہ ’’علم نافع‘‘ کا شوق ہونا چاہیے… ایسا علم جو نفع دے…
اسی طرح فیس بک یا واٹس ایپ وغیرہ پر … مرد حضرات غیر عورتوں سے… اور عورتیں غیر
مردوں سے کسی طرح کا رابطہ نہ کریں … اگر آپ یہ پسند نہیں کرتے کہ آپ کی بیوی یا
بیٹی غیر مردوں سے رابطے یا باتیں کرے تو پھر آپ خود بھی غیر عورتوں سے کسی طرح
کا رابطہ نہ رکھیں…اور بد نظری سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ… پہلی نظر ہی نہ
پڑنے دیں… جب آپ خود کو پہلی نظر سے روکیں گے تو اس سے آپ کے اندر تقویٰ کی
مضبوط قوت پیدا ہو گی…ایمان اور تقویٰ کی اس قوت کو… اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا ایک
بہترین طریقہ… اور وظیفہ وہ ہے جو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقرب صحابی حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو سکھایا کہ…ہمیشہ پڑھا کرو…
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ… لَاحَوْلَ وَلَا
قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور : 606
اہل اور نااہل
* وزیرِ
اعظم کی نااہلی، اور نااہلی کے بعد
بدمعاشی
اور ہٹ دھرمی…
* ملک
میں رائج خوفناک دوہرا معیار، دین داروں کے لئےاورقانون اوربے دینوںکے لئے
اور،آخر کیوں؟
* عشرہ
ذوالحجہ کے فضائل ومقامات، اس عشرہ کو پانے اور کمانے کی ترغیب اور ترتیب…
* ایک
نابینا عالم دین کا تذکرہ…
یہ
ہیں اس مضمون کے اہم موضوعات، ملاحظہ کیجئے
تاریخ
اشاعت:
۲۵ ذوالقعدہ ۱۴۳۸ ھ / بمطابق18 اگست
2017ء
اہل اور نااہل
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ’’نا اہلی‘‘ سے بچائے… اور
ہمیں ’’اہل‘‘ بنائے…اہل ایمان، اہل اسلام ، اہل جنت ، اہل امانت… اور اہل صداقت
میں ہمیں شامل فرمائے…آج دو موضوع ساتھ ساتھ لے کر چلنے کا ارادہ ہے… ان شاء
اللہ…یا اللہ! آسان فرما… یا اللہ! قبول فرما۔
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ…
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔
نا اہل کا مطلب
پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنے ایک متفقہ فیصلے میں… وزیر
اعظم پاکستان کو ’’نا اہل‘‘ قرار دیا ہے…’’نا اہل‘‘ فارسی کا لفظ ہے اور اردو میں
بھی استعمال ہوتا ہے… لغت کی کتابوں میں اس لفظ کے کئی مطلب لکھے ہیں چند معانی
ملاحظہ فرمائیں:
نا اہل:
١
نالائق
٢
ناقابل
٢
ناخلف
٤
کمینہ
٥
بے تہذیب
٦
ناموزوں
٧
بے ادب
٨
ناشائستہ۔
یعنی سپریم کورٹ نے ’’وزیراعظم‘‘کو نالائق ، ناقابل، ناخلف
وغیرہ قرار دیا ہے… اور یہ آٹھ لقب اُن کے لئے مقرر کر دئیے ہیں… جو آپ نے ابھی
نا اہل کے معنٰی میں پڑھے ہیں… اور سپریم کورٹ نے وزیراعظم سے دو لقب چھین لئے
ہیںایک صادق اور دوسرا امین… کہ اب وہ ’’صادق ‘‘نہیں رہے کاذب بن گئے ہیں یعنی
جھوٹے اور’’ امین‘‘ نہیں رہے… بلکہ خائن بن چکے ہیں…آٹھ القاب مل گئے… اور دو لقب
چھن گئے… تو قانون کے مطابق وزیراعظم کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا… اور وہ ’’مری‘‘ جا
بیٹھے… مگر ’’ مر‘‘ کر بھی چین نہ آیا تو اپنی عزت کا جنازہ کندھوں پر اُٹھائے
’’جی ٹی روڈ‘‘ پر آ گئے اور بالآخر رینگتے رینگتے چار دن میں … اپنے گھر لاہور
پہنچ گئے…
جتھوں دی کھوتی … اُتھے اَن کھلوتی۔
لاہور میں ہمارے کئی اللہ والے،مظلوم ، بے قصور ساتھی… اس
وزیر اعظم نے قید کر رکھے تھے … مجھے رمضان المبارک میں وہ ساتھی یاد آتے تو
آنکھیں بھیگ جاتیں… وہ اہل قرآن … رمضان میں خوب قرآن سناتے تھے… اللہ تعالیٰ
کی شان دیکھیں کہ اُن اہل ایمان کی آہیں عرش تک پہنچیں اور اُنہیں اپنی ذاتی ضد
پر گرفتار کرانے والا شخص… نا اہل ہو کر اُسی لاہور میں آ گرا… واہ سبحان تیری
قدرت!
عشرہ مبارکہ آ گیا
ذو القعدہ کا آخری عشرہ…چل رہا ہے… اور چند دن بعد ’’ذو
الحجہ‘‘ کا مبارک عشرہ شروع ہونے والا ہے… اللہ کرے آپ سب نے ’’ اَفْضَلُ
اَیَّامِ الدُّنْیَا‘‘ کتاب پڑھ لی ہو… اس سال معلوم نہیں کیوں زیادہ شدت سے
’’عشرہ مبارکہ‘‘ کا انتظار ہے۔
{وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ} [الفجر:۱]
اللہ تعالیٰ ذوالحجہ کے پہلے عشرے کی راتوں کی قسم قرآن
مجید میں کھاتے ہیں… یہ دس ایام ’’اہل عشق‘‘ اور ’’اہل سعادت‘‘ کے لئے عظیم تحفہ
ہیں… اس سال ہم سب سچی نیت کر لیں کہ… ان شاء اللہ ان دس دنوں میں اپنی قسمت
سنوارنی ہے… یہ دس دن ایک انسان کو زمین سے آسمان پر پہنچا سکتے ہیں … ان دس دنوں
کا ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں جہاد سے بھی زیادہ مقبول ہے تو پھر ان دس دنوں
میں خود جہاد کا اجر کتنا ہو گا… معلوم ہوا کہ یہ دن کمانے کے ہیں ، بنانے کے ہیں
اور پانے کے ہیں… ان دنوں کی دعاؤں کا مقام بھی بہت اونچا ہے… یعنی دعائیں بہت
زیادہ قبول ہوتی ہیں… اور خوش نصیب انسانوں کی قسمت کو پر لگ جاتے ہیں… ابھی سے ہم
روزانہ دو رکعت نماز ادا کر کے اللہ تعالیٰ سے دعاء اور التجا کیا کریں کہ… اس سال
ہمیں یہ دس دن مکمل قبولیت اور تمام خیروں کے ساتھ نصیب ہوجائیں… وہ جو ہر وقت
اپنی قسمت کا رونا روتے ہیں… وہ ’’ذوالحجہ‘‘ کے چاند کا انتظار کریں اور جیسے ہی
چاند نکلے فوراً … اعمال و دعاء میں لگ کر خوش نصیبی کے راستے پر چل پڑیں… ان دس
دنوں اور راتوں کے اعمال انہیں ان شاء اللہ کہاں سے کہاں تک پہنچا دیں گے۔
دشمنی صرف دین سے ہے؟
سابق وزیر اعظم کو سپریم کورٹ نے’’ نا اہل‘‘ قرار دیا… ان
پر دس سے زیادہ سنگین الزامات تھے جن کے ثبوت عدالت نے تسلیم کئے… یہ غلط ہے کہ ان
کو صرف اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کیا گیا… دھوکہ ، فراڈ، لوٹ مار اور
جعل سازی کا ایک وسیع سلسلہ انہوں نے شروع کر رکھا تھا… جس کی ایک مثال بیٹے کی
کمپنی اور وہ باپ ہو کر اس میں ملازم اور تنخواہ دار… جب تنخواہ لیتے نہیں تھے تو
کاغذات میں تنخواہ لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟…یہ سارا بندوبست کسی فراڈ یا کالے دھن
کو چھپانے کے لئے کیا جاتا ہے… ورنہ اس کی کیا ضرورت ہے کہ کمپنی بیٹے کے نام ہو
اور باپ کو اس میں ملازم اور تنخواہ دار لکھا جائے… جبکہ باپ بیٹا تمام معاملات
میں اکٹھے ہیں… خلاصہ یہ کہ سابق وزیراعظم پر بڑے بڑے جرائم ثابت ہوئے… ان کے خلاف
چھ محکموں کے چھ اعلیٰ افسروں نے تحقیق کی… اور ان کو مجرم پایا… پھر سپریم کورٹ
کے پانچ ججوں نے انہیں مجرم پایا… اب آپ پاکستان کے حالات دیکھیں… کسی مدرسے،
مسجدیا مجاہد پر… اگر سپیشل برانچ یا پولیس کا کوئی ادنیٰ سا اہلکار کوئی الزام
ڈال دے تو … اس مدرسے پر نگرانی لگ جاتی ہے… اور اس مجاہد اور اس کے اہل خانہ کا
جینا حرام کر دیا جاتا ہے … اگر ایک حوالدار بھی کسی دیندار مسلمان کی کوئی مشکوک
جھوٹی رپورٹ لکھ دے تو… اس مسلمان کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال کر اس کی زندگی
ویران کر دی جاتی ہے… مگر جس شخص کو سپریم کورٹ اور ملک کے چھ محکموں نے… مجرم
قرار دیا… وہ شخص کھلے عام گھوم رہا ہے… ریلی نکال رہا ہے… وزیراعظم کا پروٹوکول
لے رہا ہے… سیکورٹی کے نام پر کروڑوں کا بجٹ اُڑا رہا ہے … پوری حکومت اس کے اشارے
پر ناچ رہی ہے … اور وہ فوج اور عدالتوں کو دھمکیاں دے رہا ہے … آخر اس ملک میں
اتنا بڑا تضاد کس لئے ہے؟ … نا اہل وزیراعظم نے ایک معمولی سی ریلی نکالی، پاکستان
میں کئی افراد جب چاہیں اس سے بڑی ریلی نکال سکتے ہیں… پھر اس نا اہل کے اتنے نخرے
اور اتنی دھمکیاں کیوں برداشت کی جا رہی ہیں… اسے حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال
کرنے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے؟ کیا صرف اس لئے کہ وہ ’’دیندار‘‘ نہیں ہے… اور
اس ملک میں ہر ظلم ، ہر پابندی اور ہر قانون صرف مدرسہ، مسجد اور جہاد سے وابستہ
دیندار مسلمانوں کے لئے ہے؟ … یہ وہ سوال ہے جو پاکستان کے کروڑوں مسلمان سوچتے
ہیں… اور جس دن اس سوال کی گرمی زمین پر اتر آئی تب درجہ حرارت شاید قابو سے باہر
ہو جائے… ملک کے خیر خواہ طبقے کو یہ صورتحال فوری طور پر درست کرنی چاہیے۔
عشرہ مبارکہ کیسے پانا ہے؟
ذوالحجہ کا عشرہ پانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ… دل میں اس
کی اہمیت اور ضرورت بٹھا کر اللہ تعالیٰ سے مدد اور توفیق مانگی جائے… اور دوسرا
یہ کہ اپنے حالات کے مطابق ابھی سے اس عشرے کے لئے نیکیوں میں اضافے کا ایک نصاب
مقرر کر لیں…جو گھریلو اور معاشی ذمہ داریوں میں مشغول ہیں… وہ ان نیکیوں کا ارادہ
کریں جو ان کے لئے آسان ہیں… اور جن کو معاشی مشغولیت نہیں ہے وہ اپنے لئے زیادہ
نیکیوں کا ایک پورا نصاب مقرر کر لیں… مثلاً ان دس دنوں میں نو روزے رکھنے ہیں…
ایک یا دو قرآن پاک ختم کرنے ہیں… رات کو روزانہ صلوٰۃ التسبیح پڑھنی ہے… ہر نماز
کے بعد ایک سو بار تکبیر کا ورد کرنا ہے… اور زیادہ سے زیادہ واجب اور نفل قربانی
کرنی ہے …دراصل اسلام بہت وسیع اور جامع دین ہے … اس میں صرف نیت اور جذبے کو درست
کر کے ہر چیز کو نیکی بنایا جا سکتا ہے… کئی دن سے مجھے’’شارجہ‘‘ کے ایک نابینا عالم
دین یاد آ رہے ہیں … معلوم نہیں وہ حیات ہیں یا نہیں… بہت پہلے ان سے ملاقات ہوئی
تھی… ان کا نام شیخ عمران تھا اور وہ مصر کے رہنے والے تھے…شارجہ میں جہاں ہمارا
قیام تھا … وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک مسجد کے وہ امام و خطیب تھے… پہلی ملاقات میں
ہی دوستی بن گئی…وہ جہاد کے شیدائی اور صاحب علم آدمی تھے… جہاد کشمیر کا سن کر
فوراً حضرت مولاناانور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ کا تذکرہ لے کر بیٹھ گئے … حضرت کی علمی تحقیقات
کے وہ معترف تھے … اُن کی ایک عادت نے مجھے بہت متاثر کیا… وہ تقریباً اکثر وقت
مسکراتے رہتے تھے… اور اچانک بیٹھے بیٹھے یوں گہری مسکراہٹ میں ڈوب جاتے جیسے
انہیں اندر سے کسی نے گدگدایا ہو… یہ شکرِ نعمت اور مراقبۂ منعم کی کیفیت ہوتی
ہے… یعنی اللہ تعالیٰ کے انعامات، احسانات اور صفات سوچ سوچ کر خوش ہونااور ان پر
شکر ادا کرنا… یہ بڑی اونچے درجے کی عبادت ہے… آنکھوں سے محروم ایک شخص کو یہ
عبادت ایسی نصیب تھی کہ… آنکھوں والے بھی اس پر رشک کرتے رہ جائیں۔
آپ صرف زندگی کا ایک دن اس طرح گزاریں کہ… مسلسل نعمتوں کے
مراقبے میں رہیں اور مسکرا مسکرا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں… تب معلوم
ہو گا کہ یہ کتنی عظیم عبادت ہے… اور یہ ہم جیسے ناشکرے لوگوں کے لئے کس قدر مشکل
ہے … اللہ تعالیٰ ہمیں شکر گذار بندہ بنائے…عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ … نیکیاں بے
شمار ہیں…بس نیکی کی نیت اور جذبہ پیدا ہو جائے… ایک بار حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ یعنی نیکی کے کام ارشاد فرماتے ہوئے یہ
بھی فرمایا کہ… اپنی بیوی سے ہمبستری بھی صدقہ ہے… اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین میں سے بعض نے حیرت سے سوال
کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ… اگر وہ یہ کام غلط جگہ کرتا
تو کتنا گناہگار ہوتا… یعنی گناہ سے بچنے کی ہر کوشش یہ بھی نیکی ہے… اب بازار میں
کام کرنے والے جب نظر کی حفاظت کریں گے… جھوٹی قسموں اور دھوکے سے بچیں گے تو وہ
بھی بے شمار نیکیوں کے مالک بن جائیں گے… اس لئے ہر شخص ان مبارک ایام میں اپنے
کام اور مشغولیت کے مطابق… نیکیوں کا ایک نصاب بنا لے اور ان دس دنوں میں… اپنی
پرانی ساری زندگی کی کمی کوتاہی کا ازالہ کر لے… اس سلسلہ میں ’’ اَفْضَلُ
اَیَّامِ الدُّنْیَا‘‘ کتاب آپ کے بہت کام آسکتی ہے، ان شاء اللہ۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور : 607
انمول تحفے
* اللہ
تعالیٰ سے’’ مغفرت‘‘ پانے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے
وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگی جائے…
* اس
بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا واقعہ…
* عرفہ
کا دن مغفرت کی بارش کا دن…
* سب
سے بہترین دعا ءعرفہ کے دن کی…
* ’’یوم
عرفہ‘‘ کا ایک خاص ’’وظیفہ‘‘ اور اس کی تفصیل وتشریح…
* اہل
اسلام کو عید مبارک…
یہ
ہیں اس پر نور تحریر کے معطر مضامین، ملاحظہ کیجئے
تاریخ
اشاعت:
۲ ذوالحجہ ۱۴۳۸ ھ / بمطابق 25 اگست 2017ء
انمول تحفے
اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ اُن کی’’قدرت‘‘ اور ’’طاقت‘‘
کتنی ہے… بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہیں…
{اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ
قَدِیْرٌ} [اٰل عمران:165]
یہ کالم جب آپ تک پہنچے گا تو آپ… اپنی زندگی کے افضل
ترین ایام گذار رہے ہوں گے…یہ مبارک دن اور راتیں ہر سال اہل ایمان کو نصیب ہوتی
ہیں… ذوالحجہ کے پہلے دس دن اور دس راتیں… جو خوش نصیب ہیں وہ بہت کچھ کما لیتے
ہیں… اور ان دنوں اور راتوں میں اپنی آخرت کے لئے بڑا سرمایہ بنا لیتے ہیں… برکت
والے دن ہیں… اس لئے آپ کی خدمت میں کچھ انمول تحفے پیش کرتا ہوں… اللہ کرے مجھے
اور آپ سب کو خوب نفع ہو۔
مغفرت پانے کا بہترین طریقہ
حضرت سیّدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اے میرے بندو! تم سارے گناہگار
ہو لیکن جسے میں محفوظ رکھوں، پس تم سب مجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کرو میں
تمہیں بخش دوں گا … جو مجھے ’’قدرت والا‘‘ جانتا ہے… یعنی یقین رکھتا ہے کہ اللہ
تعالیٰ گناہوں کو مٹا سکتا ہے اور مٹاتا ہے… اور جس نے میری قدرت کے وسیلہ سے اپنے
گناہوں کی معافی چاہی میں نے اس کے گناہ معاف کئے۔‘‘
[سنن ابن ماجہ۔حديث رقم:۴۲۵۷ ، ناشر: دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
اس حدیث قدسی سے معلوم ہوا کہ…
* کسی
انسان کو اپنے تقویٰ اور نیکی پر فخر نہیں کرنا چاہیے … نیکی جس قدر بڑھتی جائے
تواضع اور عاجزی بھی اسی قدر زیادہ ہونی چاہیے۔
* ہر
مسلمان کو کثرت سے استغفار کرنا چاہیے اور ہمیشہ کرنا چاہیے۔
* مغفرت
، معافی اور بخشش پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ… اللہ تعالیٰ کی قدرت کے وسیلے سے
معافی مانگی جائے… اپنی زبان میں ہو یا عربی میں…مثلاً
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ بِقُدْرَتِکَ…(یا)
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ
اِغْفِرْلِیْ بِقُدْرَتِکَ…(یا)
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَغْفِرُکَ بِقُدْرَتِکَ۔
یا جو بھی الفاظ ہوں … بس یقین یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز
پر قادر ہیں … وہ میرے گناہ ختم فرمانے ، مٹانے اور معاف فرمانے پر بھی قادر ہیں
…پس اللہ تعالیٰ کی اسی قدرت کو وسیلہ بنا کر پورے یقین کے ساتھ مغفرت اور معافی
مانگی جائے… حضرت امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
کی دعاؤں میں بھی… ایک دعاء ایسی ملتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کو وسیلہ
بنا کر… مغفرت مانگی گئی ہے… ملاحظہ فرمائیے یہ واقعہ۔
قدرت کے وسیلے سے مغفرت
ابو عبداللہ محمد بن خزیمہ اسکندرانی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’ جب احمد بن حنبل رحمہ اللہ فوت ہو گئے تو مجھے بے حد صدمہ و رنج ہوا ۔ میں
نے ان کو خواب میں دیکھا کہ مٹک مٹک کر چل رہے ہیں … میں نے کہا:
’’اے ابو عبد اللہ! یہ کیسا چلنا
ہے؟ ‘‘
فرمایا:
’’دارالسلام میں خدام کا چلنا۔‘‘
میں نے کہا:
’’اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا
معاملہ فرمایا؟‘‘
فرمایا:
’’ مجھے بخش دیا اور تاج پہنایا
اور سونے کی دو جوتیاں پہنائیں اور ارشاد فرمایا:
’’اے احمد! یہ سب (اکرام) تیرے
قرآن کو ازلی کلام ماننے کی وجہ سے ہے۔‘‘… پھر مجھ سے ارشاد فرمایا:اے احمد! جو
دعائیں تمہیں سفیان ثوری سے پہنچیں تھیں اور تم عالم دنیا میں وہ دعائیں مانگا
کرتے تھے یہاں بھی مجھ سے ذرا وہ دعائیں مانگو، تو میں نے کہا:
’’یَا رَبَّ کُلِّ شَیْئٍ
بِقُدْرَتِکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ اِغْفِرْلِیْ کُلَّ شَیْئٍ حَتّٰی لَا
تَسْئَلَنِیْ عَنْ شَیْئٍ۔‘‘
’’اے ہر چیز کے رب، ہر چیز پر اپنی
قدرت کے وسیلے سے مجھے ہر چیز معاف فرما دیجئے یہاں تک کہ مجھ سے کسی چیز کی باز
پرس نہ فرمائیے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اے احمد! یہ ہے جنت، اُٹھ اور اس
میں داخل ہو جا۔‘‘
[ فضائل حفاظ القرآن :ص ۱۱۹۹]
مبارک عشرے میں… اپنے گناہوں کو یاد کر کے، آنسو بہا بہا
کر یہ دعاء مانگتے رہنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مغفرت پر یقین رکھنا
چاہئے۔
مغفرت کی بارش کا دن
نو ذی الحجہ کا دن… یوم عرفہ کہلاتا ہے… یہ دن بہت افضل اور
بے حد قیمتی ہے… اسی دن حج کا سب سے اہم رکن’’وقوف عرفہ‘‘ ادا کیا جاتا ہے … حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’عرفہ‘‘ کے دن کی دعاء کو… سب سے بہترین
دعاء قرار دیا ہے، فرمایا:
خَیْرُالدُّعَاءِ دُعَاءُ یَوْمِ عَرْفَۃَ۔
’’بہترین دعاء عرفہ کے دن کی دعاء
ہے۔‘‘
[سنن ترمذی۔حديث رقم:۳۵۸۵، ناشر: دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ مغفرت فرماتے
ہیں… اور بے شمار افراد کو جہنم سے نجات کا پروانہ عطاء فرماتے ہیں… صحیح مسلم کی
روایت ہے۔
مَا مِنْ یَوْمٍ اَکْثَرُ مِنْ اَنْ یُعْتِقَ اللہُ فِیْہِ
عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ
یَّوْمِ عَرْفَۃَ۔
’’یعنی دنوں میں سے کوئی دن ایسا
نہیں جس میں اللہ تعالیٰ اتنے بندوں کو جہنم سے آزاد فرماتے ہوں جتنے عرفہ کے دن
فرماتے ہیں۔‘‘
[صحیح مسلم۔حديث رقم:۱۳۴۸، ناشر: دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
عرفہ کے دن کا روزہ بڑا قیمتی ہے… اس روزے پر دو سال کے
گناہ معاف فرمائے جاتے ہیں… ایک پچھلے سال کے اور ایک اگلے سال کے… بے شک اللہ
تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے… اس لئے ہم سب کوشش کریں کہ عرفہ کا دن … بہترین گذاریں
اور اس میں اپنے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کا انعام حاصل کریں… عرفہ کے دن کے بارے میں
حجاج کرام کے لئے ایک قیمتی وظیفہ حدیث شریف کی کتابوں میں آیا ہے… یہ وظیفہ اصل
میں تو ان حجاج کرام کے لئے ہے جو عرفہ کے دن… عرفات میں ہوتے ہیں… لیکن اگر ہم
اپنے گھر یا مسجد میں ہوتے ہوئے… عرفہ کے دن یہ وظیفہ کر لیں تو ان شاء اللہ امید
ہے کہ … ہمارا دامن بھی خالی نہیں رہے گا۔
یوم عرفہ کا وظیفہ
امام بیہقی رحمہ اللہ نے’’ شعب الایمان‘‘ میں حضرت جابر رضی
اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ جو بھی مسلمان عرفہ کے دن زوال
کے بعد عرفات میں قبلہ رخ ہو کر سو مرتبہ’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ
لَاشَرِیْکَ لَہٗ،لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ
قَدِیْرٌ‘‘پڑھے پھر سو مرتبہ {قُلْ ھُوَ
اللہُ اَحَدٌ } [ پوری سورۃ اخلاص] پڑھے… پھر سو مرتبہ یہ درود پڑھے’’اَللّٰھُمَّ
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی
اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ
اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ وَعَلَیْنَا مَعَھُمْ۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتے
ہیں :
’’اے میرے فرشتو! میرے اس بندہ کی
کیا جزا ہے؟ اس نے میری تسبیح اور تہلیل کی اور میری بڑائی اور عظمت بیان کی اور
میری مغفرت حاصل کی اور میری شان بیان کی اور میرے نبی پر درود بھیجا۔ اے میرے
فرشتو! تم گواہ رہو میں نے اس کو بخش دیا اور اس کے نفس کے بارے میں اس کی سفارش
قبول کی اور اگر میرا بندہ مجھ سے تمام عرفات والوں کے لئے سفارش کرے تو اس کی
سفارش ان سب کے حق میں قبول کروں۔‘‘
[شعب الایمان۔حديث رقم:۳۷۸۰ ، ناشر:مكتبة الرشد ۔رياض ]
بڑا مفید اور آسان وظیفہ ہے… یہ حجاج کرام تک بھی
پہنچائیں… خود بھی اسے یاد رکھیں تاکہ جب اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حج پرجائیں تو
میدان عرفات میں یہ وظیفہ کریں … اور ہم سب
بھی اپنے مقام پر رہتے ہوئے یہ وظیفہ کریں اور اس کے بعد دعاء کی جھولی
پھیلا دیں اس وظیفہ میں سورۂ اخلاص ہے… جو کہ بے شمار فضائل رکھنے والی سورۃ ہے
اور اس وظیفہ میں چوتھا کلمہ ہے… جس کے بارے میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’سب سے بہتر جو میں نے اور مجھ سے
پہلے انبیاء نے کہا وہ یہ ہے:
لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ،لَہُ
الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔‘ ‘
[سنن الترمذي۔حديث رقم:۳۵۸۵، ناشر: دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
اور اس وظیفہ میں درود ابراہیمی ہے… سب سے افضل، سب سے
اعلیٰ اور سب سے اونچا درود شریف… لوگوں کو اگر ’’درود ابراہیمی‘‘ کے فضائل معلوم
ہو جائیں تو دن رات اسی میں لگے رہیں…غیر مسنون درود شریف کے صیغے سینکڑوں بار
پڑھنا ایک بار ’’درود ابراہیمی‘‘ پڑھنے کے برابر نہیں… اور اس وظیفے والے درود
ابراہیمی کے آخر میں ’’وَعَلَیْنَا مَعَھُمْ‘‘ کا جملہ ہے …جس کا مطلب ہے… اور ہم
پر بھی رحمت ہو اُن کے ساتھ۔
بس یہ ہیں آج کے انمول تحفے…اللہ تعالیٰ قبول فرمائے…پوری
اُمت مسلمہ اور خصوصاً آپ سب کو پیشگی عید مبارک۔تَقَبَّلَ اللہُ
مِنَّاوَمِنْکُم۔
لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ
لَہٗ،لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور : 608
برما ، بے تاب
* برما
میں مسلمانوں پر بدترین ظلم اور دنیا کا اعلان کہ’’ ہر مسلمان دہشت گرد ہے‘‘…
* کیا
برما میں مسلمانوں پر زمین تنگ کرنے والے’’دہشت گرد‘‘ نہیں؟…
* جب
دنیا بے انصاف اور اندھی ہو جائے تو پھر مسلمانوں کو واقعتاً’’ دہشت گرد‘‘ بن
جانا چاہئے…
* بدھ
مذہب اور اس کے پیروکاروں کے دو ر خ…
* اشین
ورا تھ ’’بن لادن‘‘ نہیں ’’بن چوہا‘‘ ہے…
* اہل
برما کے لئے مسلمانوں کی ذمہ داری…
* اور
ایک اہم ہدایت…
بدھ مذہب کا مکروہ چہرہ عیاں کرتی ایک تحریر
تاریخ اشاعت:
۱۶
ذوالحجہ ۱۴۳۸ ھ / بمطابق 8
ستمبر2017ء
برما ، بے تاب
اللہ تعالیٰ برما کے مسلمانوں کو اپنی حفاظت، نصرت اور رحمت
عطاء فرمائے… اور ملک اراکان و برما جو کہ اُن کا اپنا ملک ہے وہاں اُن کو قوت ،
شوکت اور غلبہ عطاء فرمائے… آہ! دور دور تک پھیلے ہجرت کے قافلے…خالی خالی
آنکھوں سے خلاؤں میں گھورتے معصوم بچے… اور سر جھکا کر آنسو چھپاتی … خون جگر
پیتی مسلمان مائیں، بہنیں اور بیٹیاں … یا اللہ! رحم، یا اللہ! نصرت…لگتا ہے برما
کی ظالم بدھشٹ حکومت… اب سرخ طوفانوں کا سامنا کرے گی… یہ ملک اب امن کو ترسے
گااور ’’اشین وراتھ‘‘ جیسے درندے اپنے دانتوں سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے …
ان شاء
اللہ، ان شاء اللہ
ہر دہشت گرد مسلمان
’’ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہے مگر
یہ بھی سچ ہے کہ ہر دہشت گرد’’مسلمان‘‘ ہے۔‘‘
یہ وہ جملہ ہے جو آج کل ساری دنیا میں بہت مشہور
ہے…یہودیوں اور صہیونیوں نے ’’فلموں‘‘ کے ذریعہ اپنے نظریات لوگوں کے دلوں میں
بٹھانا اپنا مشن بنا رکھا ہے… اسی لئے وہ اربوں ڈالر کا سرمایہ فلموں پر لگاتے ہیں
اور دنیا کی سوچ پر اثر انداز ہوتے ہیں…انہوں نے یہ جملہ بھی عام کیا ہے کہ …
’’دنیا کا ہر دہشت گرد مسلمان ہے‘‘… گذشتہ سال جرمنی میں ہونے والی ایک کانفرنس
میں… فرانسیسی وزیر خارجہ نے بھی یہی جملہ دہرایا… حالانکہ یہ جملہ سراسر جھوٹ اور
شرارت ہے… دنیا بھر میں غیر مسلم دہشت گردوں کی تعداد مسلمان مجاہدین سے کہیں زیادہ
ہے… مگر فرق یہ ہے کہ … جو حملہ کوئی مسلمان کرے اسے دہشت گردی کہا جاتا ہے اور جو
حملہ کوئی غیر مسلم کرے اسے دہشت گردی نہیں کہا جاتا… کوئی مسلمان اپنی گاڑی راہ
چلتے لوگوں پر چڑھا دے تو یہ واقعہ دہشت گردی ہے… لیکن اگر کوئی عیسائی اپنی گاڑی
مسلمانوں پر چڑھا دے تو یہ دہشت گردی نہیں ہے… کوئی مسلمان کسی غیر مسلم پر چاقو
سے حملہ کر دے تو یہ دہشت گردی ہے… لیکن غیر مسلم اگر مسلمانوں پر بموں، میزائلوں
اور طیاروں سے حملہ کر دیں تو یہ دہشت گردی نہیں ہے…
اب برما کی صورتحال سامنے رکھیں… بدھ مذہب کے پیروکار جتھے
اور لشکر بنا کر مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں… وہ مسلمانوں کی پوری پوری بستیاں
جلا رہے ہیں… مگر نہ ان کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے… اورنہ بدھ مذہب پر کوئی بات کی
جا رہی ہے… اور نہ ہی ان بدھ دہشت گردوں کے… بدبودار لیڈر ’’اشین وراتھ‘‘ کو عالمی
دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے… اگر مسلمان اپنے ملک میں بسنے والی غیر مسلم اقلیت
کے ساتھ یہ سلوک کرتے تواب تک سلامتی کونسل کی قرارداد آچکی ہوتی… مسلمانوں کی
اقتصادی ناکہ بندی کر دی جاتی اور جلد ہی ان پر فضائی بمباری شروع ہو جاتی… مگر
’’بدھشٹ دہشت گرد‘‘ آزاد ہیں، بے فکر ہیں …اور وہ ہزاروں مسلمانوں کا خون بہا رہے
ہیں… جب دنیا ایسی بے انصاف ہو جائے تو پھر شاید مسلمانوں کو واقعی دہشت گرد بن
جانا چاہیے… تاکہ دشمنوں کا یہ جملہ سچا ہو جائے کہ… ہر دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے…
ورنہ آج تو یہ حالت ہے کہ ہر مظلوم مسلمان ہے… ہر بے گھر مسلمان ہے… اور ہر ستایا
ہوا مسلمان ہے…آہ! برمی مسلمان کا دکھ دیکھا نہیں جا رہا… یا اللہ! ہمیں توفیق
اور قوت دے کہ ہم ان کے لئے بہت کچھ کر سکیں۔
بن لادن نہیں بن چوہا
برما میں مسلمانوں پر حملوں کی قیادت ایک بدھ راہب کر رہا
ہے جس کا نام ’’اشین وراتھ‘‘ ہے… بدھ مذہب کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ… ان کا مذہب
امن کا درس دیتا ہے… بدھ مذہب کے پیروکار کسی جانور کا گوشت نہیں کھاتے… انڈہ نہیں
کھاتے… پرندوں کو قید نہیں کرتے… اور مال خرچ کر کے پکڑی گئی مچھلیوں اور پرندوں
کو آزاد کرواتے ہیں… ’’بہار‘‘ سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک قیدی ساتھی بتاتے تھے
کہ ’’گیا‘‘ نامی علاقے میں بدھ مذہب کے پیروکار زیارتوں کے لئے آتے تو ہم شاپر
میں پانی ڈال کر اس میں چھوٹی مچھلیاں لے کر اُن کے سامنے کھڑے ہو جاتے… وہ
مچھلیوں کو قید دیکھ کر بے چین ہو جاتے اور اچھی خاصی رقم دے کر ہم سے شاپر خرید
کر ان مچھلیوں کو دریا میں چھوڑ دیتے… ایک طرف یہ باتیں ہیں تو دوسری طرف ’’برما‘‘
ہے جہاں کے بدھ پیروکار … قصائیوں کی طرح مسلمانوں کو کاٹ رہے ہیں … اسی طرح ’’سری
لنکا‘‘ کے بدھ راہب اور ان کے چیلے آئے دن مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں… کیا ان کے
نزدیک… مسلمانوں کی قیمت شاپر کی مچھلیوں کے برابر بھی نہیں؟
اصل بات یہ ہے کہ… بدھ مذہب کے دو چہرے ہیں… ایک چہرہ لوگوں
کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے ہے… امن ، عدم تشدد ، ماحول پروری اور رحمدلی… جبکہ
دوسرا ان کا اصلی چہرہ ہے جو وہ مسلمانوں پر ظاہر کرتے ہیں… قتل و غارت ، تشدد ،
ظلم، بربریت اور حیوانیت… دراصل بدھ مذہب ساری دنیا پر قبضے کے خواب دیکھتا ہے…
اور اسے اپنے اس خواب کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان نظر آتے ہیں… چنانچہ
مسلمانوں کے معاملے میں ’’بدھشٹ‘‘ اپنی اصلیت پر اُتر آتے ہیں… بدھ مذہب نہ تو
کوئی روحانی پیغام ہے… اور نہ اس میں انسانیت کی فلاح اور کامیابی کا کوئی راستہ
ہے… چین کے لوگوں نے بدھ مذہب سے جان چھڑائی تو دنیوی ترقی حاصل کر لی… جبکہ بدھ
مذہب کے پیروکار اب بھی تبت وغیرہ میں دہشت گردی کرتے رہتے ہیں… اور ان کا دہشت
گرد پیشوا’’ دلائی لامہ ‘‘بھارت میں پناہ گزین ہے… یہ سب لوگ انسانیت کے دشمن… اور
زرد رنگ کا زہر ہیں … ایک طرف وہ روحانیت کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف آخرت کا
انکار کرتے ہیں… اور یوں انسان کو بس اپنے بدن اور اپنے مفادات کی فکر کا غلام بنا
دیتے ہیں…آج کی دنیا بدھ مذہب کے بارے میں … بہت غلط فہمی میں مبتلا ہے… اللہ
تعالیٰ برمی مسلمانوں کی عزیمت اور قربانی قبول فرمائے کہ انہوں نے… بدھوں کے اصلی
چہرے کو ساری دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے… اب جس کی مرضی دیکھے اور جس کی
مرضی وہ اندھا رہے… ہزاروں بدھوں کے مسلح جتھے قتل وغارت میں مصروف ہیں اور دنیا
میں یہ جملہ گونج رہا ہے کہ…
’’ہر دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے۔ ‘‘
بات ’’اشین وراتھ‘‘ کی چل رہی تھی… یہ بدھوں کا راہب اور
مذہبی پیشوا ہے… وہ مسلمانوں کے خلاف تقریریں کرتا ہے… اور قاتل دستوں کو
اُبھارتاہے… گذشتہ دنوں اس نے خود کو مسلمانوں کے خلاف برما کا ’’بن لادن‘‘ قرار
دیا… حالانکہ بن لادن… اور اشین وراتھ میں کوئی ایک بات اور صفت بھی مشترک نہیں ہے
… ’’بن لادن‘‘ ایک شیر تھا جو مظلوم افراد کی مدد کے لئے اپنے گھر سے نکلا… جبکہ
’’اشین وراتھ‘‘ وہ کتا ہے جو اپنے گھر کے دروازے میں بیٹھا بھونک رہا ہے… اگر
’’وراتھ‘‘ واقعی’’ بن لادن‘‘ ہے تو ذرا برما سے باہر کسی اسلامی ملک میں نکل کر
دیکھے… مسلمان اس کا کچومر نکال دیں گے… ’’بن لادن‘‘ وہ بااخلاق بہادر جس نے اپنے
ملک کی اقلیت پر کوئی ظلم نہیں کیا… بلکہ ہمیشہ غریبوں کی مدد کی اور دوسرے ملکوں
میں جا کر وہاں کے مظلوموں کا ساتھ دیا… جبکہ ’’وراتھ‘‘ اپنے ملک کی ایک ’’اقلیت‘‘
پر حملے کر رہا ہے…اور ظالمانہ طریقے سے ان کا خون بہا رہا ہے…’’بن لادن‘‘ وہ عالی
ہمت انسان جس نے عالمی سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں جبکہ ’’وراتھ‘‘ وہ گرا
ہوا آدمی جو نہتے اور بے بس انسانوں پر حملے کر رہا ہے… اس لئے ’’وراتھ‘‘ کو
چاہیے کہ خود کو ’’ بن لادن‘‘ کہنے کی بجائے’’ بن چوہا‘‘ کہا کرے۔
مسلمانوں کی ذمہ داری
برما کے مسلمان ’’اُمت مسلمہ‘‘ کا معزز حصہ ہیں… اس لئے ہر
مسلمان ان کے درد کو محسوس کر رہا ہے … مختلف ممالک ، افراد اور تنظیموں کی طرف سے
مدد اور تعاون کے اعلانات بھی ہو رہے ہیں… اور برما کے غیور مسلمانوں کی قربانی کی
برکت سے اُمت مسلمہ میں بیداری بھی بڑھ رہی ہے… یہاں بس ایک بات یاد رکھیں اور اسے
اپنے مزاج کا حصہ بنائیں… مسلمانوں پر جب بھی کوئی سانحہ، حادثہ یا مظلومانہ واقعہ
پیش آتا ہے تو کچھ ’’لاڈلے مسلمان‘‘ فوراً دوسروں سے یہ سوال شروع کر دیتے ہیں کہ
فلاں نے یا آپ نے اس مسئلے پر کیا کیا؟… یہ لاڈلے خود کو ہر عمل اور ہر ذمہ داری
سے مستثنیٰ سمجھتے ہیں … اور دوسروں پر تنقید کرنا وہ اپنا حق واجب بنا لیتے ہیں…
ایسے افراد بہت بے عمل، موذی اور فسادی ہوتے ہیں … وہ خود کچھ بھی نہیں کرتے مگر
دوسروں کو طعنے دے دے کر فتنہ پھیلاتے رہتے ہیں… ایسے لوگوں سے ہمیشہ بچیں… اور ہر
معاملہ میں یہ عادت بنا لیں کہ… میں نے اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔
اب برما کا معاملہ ہے… ہم میں سے ہر شخص خودکو مسلمان سمجھ
کر یہ سوچے کہ وہ اس معاملے میں کیا کر سکتا ہے… پھر دو رکعت نمازادا کر کے دعاء
کرے کہ یا اللہ! ’’اس اہم معاملہ میں مجھے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی توفیق عطاء
فرما‘‘ … اور پھر استخارہ اور مشورہ سے اس کام میں آگے بڑھتا چلا جائے… اللہ
تعالیٰ ایسے افراد سے بڑے بڑے کام لے لیتے ہیں… میں سوچوں کہ میں نے برما کے لئے
کیا کرنا ہے… آپ سوچیں کہ آپ نے برما کے لئے کیا کرنا ہے… نہ مشہوری، نہ پبلسٹی
اور نہ ریاکاری…بس اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے… اسلامی اخوت کے جذبے سے سرشار… اور
عزم و قربانی کے عزم سے لیس… کچھ کرنا ہے، ضرور کرنا ہے، جلد کرنا ہے ان شاء اللہ،
ان شاء اللہ برما کی سرزمین …فاتحین کے قدموں کی دھمک کے لئے بے تاب ہے۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
رنگ و نور : 609
اسلام،اسلام اور صرف اسلام
* ایک
مسلمان کی سب سے اہم فکر یہ ہونی چاہئے کہ اسے کامل ہدایت اور مضبوط تقویٰ نصیب
ہوجائے…
* حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری
کے بعد ہدایت صرف اور صرف اسلام میں بند ہے…
* اسلام
کی بنیاد کلمہ طیبہ اور پانچ بنیادی فرائض پر ہے وہ فرائض ہیں… نماز، زکوٰۃ، روزہ،
حج بیت اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ…
* ان
بنیادوں کی حفاظت اور ان پر عمل ضروری ہے…
* ہجرت
اور آزمائش مسلمانوں کو مضبوط کرتی ہے، البتہ صرف ایک پریشانی کا اندیشہ ہوتا ہے…
* اس
پریشانی کی تعیین اور علاج کی نشاندہی…
* برما
میں اجتماعی جہاد کا دور شروع ہونے کو ہے، ان شاء اللہ
یہ
ہیں اس مبارک تحریر کے اہم موضوعات
تاریخ
اشاعت:
۲۳ ذواالحجہ ۱۴۳۸ ھ / بمطابق15 ستمبر
2017ء
اسلام،اسلام اور صرف اسلام
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ہدایت، تقویٰ اور مغفرت
عطاء فرمائے… حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عرفہ کے دن میدان عرفات
میں عصر کے بعد یہ دعاء بار بار مانگتے تھے:
اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ بِالْھُدیٰ وَنَقِّنِیْ بِالتَّقْویٰ
وَاغْفِرْلِیْ فِی الْآخِرَۃِ وَالْاُوْلٰی۔
’’یا اللہ!مجھے مضبوط ہدایت عطاء
فرمائیے اور مجھے تقویٰ کے ذریعہ پاک فرمائیے اور آخرت اور دنیا میں میری مغفرت
فرمائیے۔‘‘
ایک مسلمان کی اہم فکر یہی رہنی چاہیے کہ … اسے
کامل ہدایت، مضبوط تقویٰ اور مغفرت مل جائے… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی یہ تینوں نعمتیں
نصیب فرمائے… ہماری اولاد کو بھی… اور ہمارے برما کے مسلمان بھائیوں کو بھی۔
حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد… ہدایت
صرف ایک ہے اور وہ ہے دین اسلام… برمی مسلمانوں کی سب سے بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ
وہ مسلمان ہیں… جبکہ ان کے دشمن اس نعمت سے محروم ہیں … ’’بدھا‘‘ سب کچھ چھوڑ کر
نکلا ایک ’’ اللہ‘‘ کی تلاش میں… مگر ’’بدھا‘‘ کے پیروکاروں نے ’’بدھا‘‘ کو ہی
نعوذ باللہ ’’خدا‘‘ قرار دے دیا… آج دنیا میں جتنا مال اور پیسہ صرف ’’بدھا‘‘ کے
مجسموں اور یادگاروں پر خرچ کیا جاتا ہے…وہ اگر کسی اچھے کام پر خرچ ہو تو… کروڑوں
انسانوں کے کئی مسائل حل ہو جائیں… برمی مسلمانوں کے پاس ایمان اور اسلام کی دولت
موجود ہے… وہ مظلوم ہو کر بھی ظالموں سے زیادہ عزتمند اور خوش نصیب ہیں… ویسے بھی
الحمد للہ برمی مسلمانوں کی اکثریت دینی رجحان رکھتی ہے… کراچی میں برمی علماء
کرام کے کئی بڑے بڑے مدارس ہیں… اور مدینہ منورہ میںبرمی مسلمان احد پہاڑ کے پڑوس
میں آباد ہیں… آزمائش اور ہجرت مسلمانوں میں دینداری کو مضبوط کرتی ہے… بس ایک
پریشانی یہ آتی ہے کہ آپس میں باہمی اختلافات زیادہ پیدا ہو جاتے ہیں…رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے مدنی دور میں اس پریشانی کا
حل موجود ہے… برمی علماء کرام اپنی برادری میں وہ حل نافذ فرما سکتے ہیں… برما کے
مسلمان ماشاء اللہ بہادر اور مضبوط بھی ہیں… اس وقت ان کو ایک بڑی آزمائش اور
ہجرت کا سامنا ہے…اس میں غیر ملکی این جی اوز کی یلغار کا خطرہ رہتا ہے… یہ موذی
چوہے کفر، فسق اور بے حیائی کا طاعون پھیلاتے ہیں… اور مسلمانوں کو اسلام کی
’’ہدایت‘‘ سے کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ ان کے شر سے برمی مسلمانوں کی
حفاظت فرمائے… بات یہ چل رہی تھی کہ اصل ہدایت صرف ایک ہے… اور وہ ہے ’’اسلام‘‘…
اسلام کے علاوہ باقی سب کفر ہے اور گمراہی… اور اسلام میں کلمہ طیبہ کے بعد پانچ
فرائض ہیں …ہر وہ مسلمان جس کو کلمہ طیبہ اور یہ پانچ فرائض نصیب ہو جائیں… وہی
پکا، سچا، محفوظ اور معتبر مسلمان ہے… یعنی کل چھ چیزیں ہو گئیں… سب سے پہلے کلمہ
طیبہ یعنی ایمان … پھر نماز،زکوٰۃ،رمضان کے روزے،حج بیت اللہ اور جہاد فی سبیل
اللہ…ہم اپنی ذات پر ان چھ چیزوں کی محنت کریں… اور اپنے تمام فرائض کو مضبوط اور
پورا کریں… پھر اپنے اہل و عیال خصوصاً اولاد پر محنت کریں… اور گن گن کر ان کو یہ
فرائض سمجھائیں… یاد کرائیں… اور ان کی اہمیت ان کے دلوں میں ان کی جان کی اہمیت
سے بھی زیادہ بٹھائیں… اور پھر ہم اسلامی معاشرے میں ان چھ چیزوں کی محنت کریں اور
ان کی زیادہ سے زیادہ سے دعوت دیں… دراصل یہ چھ چیزیں ہی انسان کی اصل زندگی اور
اس کی زندگی کا مقصد ہیں…یہی چھ چیزیں ہی انسان کی اصل کامیابی اور اس کی ترقی
ہیں… ہم اپنا جائزہ لیں… کلمہ ٹھیک ہے؟ پانچوں فرائض پورے ہیں؟پھر اپنے گھر والوں
اور اولاد کا جائزہ لیں کہ… کلمہ ٹھیک ہے؟… پانچوں فرائض پورے ہیں؟ پھر اگر کہیں
کمی کوتاہی نظر آئے تو ہم اس طرح سے بے چین ہو جائیں جس طرح ہم دنیا کے کسی بڑے
نقصان پر بے چین ہوتے ہیں… مثلاً گھر کی چھت میں شگاف ہو جائے تو ہم کیا کیا کرتے
ہیں؟… اسی طرح اگر ہمیں اپنی ’’ہدایت‘‘ اور اپنے دین میں یہ شگاف نظر آئے تو اس
وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک یہ شگاف بھر نہ دیں…پھر اس میں کچھ تفصیل ہے…ان چھ
چیزوں کو ماننا، جاننا اور ان کے لئے تیار رہنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے… اسی
طرح کلمہ طیبہ اور نماز ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے…جبکہ باقی چار چیزوں کا تعلق
حالات اور موسم سے ہے… رمضان تشریف لائے گا تو روزے فرض… حج کی شرعی استطاعت ہو گی
تو حج فرض… مال کا نصاب پورا ہو گا تو زکوٰۃ فرض… اور معذوری نہیں ہو گی تو جہاد
فرض… ایک مسلمان کو ہروقت خود کو… ان تمام فرائض کے لئے تیار اور آمادہ رکھنا ہے…
اور اگر ایک فریضہ بھی… اجتماعی طورپرکسی جگہ کے مسلمانوں سے نکل گیا تو وہ بہت
بڑی خیر سے محروم ہو جائیں گے… اور کسی نہ کسی پکڑ میں آ جائیں گے۔
الحمد للہ برما کے مسلمانوں کو اب اجتماعی طور پر …فریضۂ
جہاد بھی نصیب ہونے کو ہے… آواز لگ چکی ہے… ماحول بن چکا ہے…ہر اول دستے قدم بڑھا
چکے ہیں…ابتداء میں تو برمی حکومت … کچھ اکڑی رہے گی… سب کو مار دو، سب کو مٹا دو
کے نعرے لگائے گی مگر جیسے ہی جہاد آگے بڑھا… حالات خود بدل جائیں گے… تب حکومت
ان مسلمانوں کو برداشت کرنے لگے گی جو جہاد میںنہیں نکلیں گے … اور اُن مسلمانوں
کو وزارتیں اور اعزازات بھی دے گی جو مجاہدین کے خلاف بولیں گے… اور یوں آہستہ
آہستہ ماحول بدلتا چلا جائے گا… نائن الیون کے بعد زمین کا نظام اور دنیا کے
حالات تبدیل ہو چکے ہیں… اب ہر طرف جہاد کے نئے محاذ کھل چکے ہیں… اور دنیا تیزی
سے جنگوں کی طرف جا رہی ہے… زمین پر ایسا ہوتا رہتا ہے… مگر مسلمان ہر حال میں
اپنے ’’رنگ‘‘ پر ہی رہتا ہے… {صِبْغَۃَ اللہِ}… اللہ کا عطاء فرمودہ رنگ…اور
مسلمان اپنے ’’نور‘‘پر ہی رہتاہے…نور ہدایت… {یُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی
النُّوْرِ} اور ہدایت صرف ایک ہی ہے… اور وہ ہے اسلام… اسلام،اسلام اور صرف اسلام
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور: 610
اندرونی صفات
* حالات
بدلتے پتا نہیں چلتا، کبھی انسان کو اچانک خیر نصیب ہوجاتی ہے اور کبھی اچانک شر
آجاتا ہے…
* اچانک
آنےو الا شربہت خطرناک ہوتاہے،اسے برداشت کرنا ہر کسی کے بس کا کام نہیں ہوتا…
* اچانک
آنے والی خیر اور اچانک آنے والے شر کے بارے میں ایک مسلمان کا طرز عمل کیا ہونا
چاہئے؟ ایک قرآنی سبق…
* اسلام
میں ’’ہجرت‘‘ بہت اعزاز والی چیز ہے…
* اللہ
تعالیٰ نے ’’مہاجرین‘‘ کو ہر چیز میں ’’اوّل‘‘ رکھا، چند مثالیں…
* ہر
انسان کو اپنے اندراچھی صفات اور صلاحیتیں پیدا کرنا ضروری ہے… کیونکہ مصیبت اور
برے وقت میں یہ صفات سہارا بنتی ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی اہل صفات اور باصلاحیت
لوگوں پر خاص مہربانی فرماتے ہیں…
* اس
کی ایک مثال…
تاریخ
اشاعت:
یکم
محرم الحرام ۱۴۳۹ ھ / بمطابق 22 ستمبر 2017ء
اندرونی صفات
اللہ تعالیٰ ہمیں اچانک آنے والی ’’خیر‘‘ عطاء فرمائے اور
اچانک آنے والے ’’شر‘‘ سے بچائے…
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنْ فُجَاءَۃِ الْخَیْرِ وَ
نَعُوْذُ بِکَ مِنْ فُجَاءَ ۃِ الشَّرِّ۔
اچانک ، اچانک
انسان سو رہا ہوتا ہے کہ اچانک کوئی ’’خیر‘‘ آ جاتی ہے… وہ
اسے جگاتی ہے اور اس کی زندگی خوشی اور روشنی سے بھر جاتی ہے… مگر ایسا بھی ہوتا
ہے کہ انسان سو رہا ہوتا ہے…اچانک کوئی شر آتا ہے اسے جگاتا ہے اور ا س کی زندگی
کو غم، دکھ اور کانٹوں سے بھر دیتا ہے… میں نے اپنی زندگی میں اچانک آنے والی بڑی
بڑی خیریں دیکھیں … اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ… اور اچانک آنے والے
بڑے بڑے شر بھی دیکھے… اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ عَلٰی کُلِّ حَالٍ
یہی حال آپ سب کا ہو گا… آپ نے بھی اپنی زندگی
میں کئی اچانک خیریں اور کئی اچانک شر دیکھے ہوں گے… حدیث شریف میں دعاء سکھا دی
گئی کہ… اللہ تعالیٰ سے اچانک آنے والی خیر مانگ لیا کرو… اور اچانک آنے والے شر
سے پناہ مانگا کرو… اچانک آنے والا شر انسان کے ہوش و حواس اُڑا دیتا ہے… اکثر
لوگوں کی قوت فیصلہ فوراً کام نہیں کرتی… اس لئے جب اچانک ’’شر‘‘ آتا ہے تو انسان
کئی غلط فیصلے کر بیٹھتا ہے … کئی غلط قدم اُٹھا لیتا ہے… اچانک آنے والے شر کا
مقابلہ ہر کوئی نہیں کر سکتا… کئی لوگ تو ایسے گھبرا جاتے ہیں کہ… نعوذ باللہ کفر
و شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں … اسی لئے دعاء مانگا کریں۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ فُجَاءَۃِالْخَیْرِ
وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ فُجَاءَ ۃِ الشَّرِّ۔
[کتاب الاذکار للنووی۔ج:۱،ص:۸۳ ، ناشر:دار الفكر ۔ بيروت ]
کیا کرنا چاہیے؟
قرآن مجید نے اس موضوع پر بار بار رہنمائی فرمائی ہے… اللہ
تعالیٰ ہمیں قرآن مجید سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے… قرآن مجید نے ایک لحظے میں
مسئلہ حل فرما دیا… خیر آئے تو نیکی میں لگ جاؤ، شر آئے تو صبر اختیار کرو… بس
یہی کامیابی کا راستہ ہے… حالات بدلتے رہتے ہیں… ابھی دیکھیں کہ ہمارے برما کے
مسلمان بھائی اپنے گھروں میں تھے… اپنا گھر اپنا ہوتا ہے… کچا ہویا پکا… انسان کو
اس میں راحت اور عزت کا احساس ہوتا ہے… مگر اچانک حالات بدلے اور وہ پناہ گزینوں
کی زندگی گذارنے پر مجبور ہو گئے …اسلام میں تو ہجرت بہت اعزاز والی چیز ہے … مگر
اللہ تعالیٰ معاف فرمائے ہم نے ’’قرآن مجید‘‘ کو چھوڑا تو ہماری ذہنیت ہی بدل
گئی… اب مسلمانوں میں بھی ’’مہاجر‘‘ کو نعوذ باللہ حقیر سمجھا جاتا ہے… اللہ
تعالیٰ نے اسلام میں پہلا نمبر ’’مہاجرین‘‘ کو عطاء فرمایا… اللہ تعالیٰ نے
’’ایمان‘‘ میں پہلا نمبر ’’ مہاجرین‘‘ کو عطاء فرمایا … اللہ تعالیٰ نے مال فئے جو
کہ پاکیزہ ترین مال ہے اس میں پہلا نمبر’’ مہاجرین‘‘ کو عطاء فرمایا… اللہ تعالیٰ
نے درجات میں سب سے اونچا درجہ ’’ مہاجرین‘ ‘ کو عطاء فرمایا… اللہ تعالیٰ نے ’’
مہاجرین‘‘ کے لئے خصوصی فضائل اور خصوصی احکامات کی آیات نازل فرمائیں… اور
مسلمانوں کو شوق دلایا کہ وہ اُن مہاجرین کے مددگار اور ’’انصار‘‘ بنیں…تب اُن کو
بھی اونچے اونچے مقامات ملیں گے… مگر ہمارے ہاں نعوذ باللہ، نعوذ باللہ ہجرت ایک
عیب… اور ’’مہاجر‘‘ ایک گالی بن گئے… لوگ انہیں دیتے ہیں مگر حقارت کے ساتھ… کئی
لوگ اُن کی خدمت کرتے ہیں مگر بوجھ سمجھ کر… ہجرت کا دروازہ بند ہوتا ہے تو مسلمان
عمومی جہاد سے محروم ہو جاتے ہیں… اور جب مسلمان جہاد سے محروم ہوتے ہیں تو وہ
عمومی عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں…برما کے مسلمانوں کی حالت اچانک بدلی، وہ ایک دم مقیم
سے مسافر بن گئے… اور اُن کو ہجرت کی پناہ گزین زندگی اختیار کرنی پڑی… کل تک اپنا
گھر تھا… آج کچھ بھی اپنا نہیں…
{یُقَلِّبُ اللہُ اللَّیْلَ
وَالنَّھَارَ} [النور: ۴۴]
ایسا ہم میں سے کسی کے ساتھ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے… بعض
اوقات خیر اچانک آ جاتی ہے… اور بعض اوقات شر اچانک آ جاتا ہے… خیر آ جائے تو
مسلمان کو غافل نہیں ہونا چاہیے بلکہ زیادہ سے زیادہ نیکی کرنی چاہیے…اور شر آ
جائے تو مسلمان کو مایوسی میں نہیں گرنا چاہیے بلکہ صبر اختیار کرنا چاہیے… اللہ
تعالیٰ پر توکل کر کے حالات پر غور کرنا چاہیے اور اس شر کو خیر میں بدلنے کی
تدبیر کرنی چاہیے… تب ایک مؤمن کے لئے کامیابی ہی کامیابی ہے… خیر میں بھی
کامیابی اور شر میں بھی کامیابی…
{وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً} [الانبیاء: ۳۵]
اندر کی صفات
ایک بہت عجیب نکتہ سمجھیں… اگر انسان اللہ تعالیٰ سے توفیق
مانگ کر اپنے اندر اچھی صفات پیدا کرے تو … یہ صفات خیر کے وقت بھی اس کے کام آتی
ہیں اور شر کے وقت بھی… ایک شخص کا قصہ ہے کہ… وہ اچانک شر کی لپیٹ میں آ گیا …
اپنے گھر سے دور بہت دور جا پہنچا… نہ مال نہ کوئی زاد راہ… بس ایسے تھا کہ کسی
شخص کو اچانک گھر سے اُٹھا کر قبر میں دفن کر دیا گیا ہو… نہ روٹی، نہ کپڑا، نہ
ٹھکانہ… مگر اس نے اپنے اندر ایک صفت روشن کر رکھی تھی… وہ قرآن مجید کا حافظ
تھا، اچھا قاری اور قرآن پاک کو سمجھنے والا… ایک نئی بستی میں پہنچا تو مسجد میں
جا بیٹھا… پہلے پہل لوگوں نے مسافر سمجھ کر تھوڑا سا کھانا لا دیا… پھر جب اس کے
قرآنی انوارات روشن ہونے لگے تو وہ پوری بستی اس کی اپنی ہو گئی… بستی والے اس سے
قرآن مجید پڑھنے لگے، کسی نے اپنا گھر اسے دے دیا… ایک مالدار مسلمان نے اسے اپنا
داماد بنا لیا… وہ رو رو کر شکر ادا کرتا تھا کہ یا اللہ! قرآن پاک تو قبر کی
تنگی، تنہائی ، آخرت کی کامیابی اور آپ کی رضاء کے لئے پڑھا تھا مگر اس نے تو
میری دنیا کو بھی قبر بننے سے بچا لیا… یہ سارا منظر دیکھ کر اس کے ایمان اور
اخلاص میں مزید ترقی ہو گئی… ہندوستان کے مغل شہزادے جب اچانک شر کا شکار ہوئے…
ایک ہی دن میں بادشاہ سے بھکاری بنا دئیے گئے تو جن جن کے اندر داخلی صفات تھیں وہ
ضائع نہیں ہوئے… نہ کفر میں مبتلا ہوئے اور نہ محتاجی میں… مگر جو داخلی صفات سے
محروم تھے… اور صرف خاندان کی نسبت سے شہزادے بنے ہوئے تھے وہ بڑی مصیبت اور بڑے
فتنوں کا شکار ہو گئے… اگر ان کے اندر دین کا اور ایمان کا علم ہوتا تو اللہ
تعالیٰ سے بدگمان نہ ہوتے… انسان جب اللہ تعالیٰ سے بدگمان ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ
میرے رب نے مجھے چھوڑ دیا ہے تو پھر وہ کہیں کا بھی نہیں رہتا… کبھی کفر میں گرتا
ہے کبھی شرک میں… اور کبھی غلامی اور محتاجی کی ذلت سے دوچار ہوتا ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ… اپنے باطن کی تعمیر کریں… اپنے اندر
صفات پیدا کریں… ایمان کی صفت، علم کی صفت …اور حلال روزی کمانے کے لئے مختلف فنون
سیکھنے کی صفت… تب اچانک شر آ جانے کی صورت میں… وہ خود کو بے بس محسوس نہیں کریں
گے اور تب اُن کی اندر کی صفات باہر نکل کر … اُن کے ایمان، اُن کی عزت اور اُن کے
مسائل کو سنبھال لیں گی… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو حقیقی داخلی صفات عطاء
فرمائیں۔
ایک مثال دیکھیں
افغانستان پر سوویت یونین نے حملہ کیا تو … لاکھوں افغان
مسلمانوں کو ہجرت کرنی پڑی… افغانستان کے مسلمان جفاکشی اور سادہ زندگی گذارنے کے
عادی ہیں… انہوں نے ہجرت کی تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا تو… اللہ تعالیٰ
نے ان کو کامیاب ترین جہاد کی نعمت عطاء فرمائی… انہوں نے سوویت یونین کو ختم کیا…
اور پھر امریکہ اور نیٹو ممالک کو بھی شکست سے دو چار کیا… افغان مہاجرین حضرات
میں جو اندرونی صفات سے مالا مال تھے… انہوں نے ہجرت کے چند دن ہی تکلیف میں گذارے
… اور پھر اُن کی اندرونی صفات نے…انہیں معزز بھی بنا دیا اور مالدار بھی …اللہ
تعالیٰ ’’ اہل صلاحیت‘‘ پر بہت مہربانی فرماتے ہیں… کیونکہ یہ ’’اہل صلاحیت‘‘ اللہ
تعالیٰ کے پسندیدہ بندے ہوتے ہیں… یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے وقت کو ضائع
نہیں کرتے بلکہ اس وقت کو قیمتی بنا کر … اس میں خود کو باصفات اور باصلاحیت بناتے
ہیں… افغان مہاجرین میں سے جو اہل علم تھے … انہیں ہر کسی نے ہر جگہ آنکھوں پر
بٹھایا… جو اہل ہنر تھے انہوں نے ہر جگہ عزت پائی… اور جو اہل امانت تھے وہ بھی
مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا بنے… اور سب سے زیادہ کامیاب وہ مہاجرین رہے جنہوں
نے… ہجرت کے بعد جہاد کے راستے کو اختیار کیا… بس دارالہجرت میں اپنے بچوں کے سر
چھپانے کا انتظام کیا اور فوراً جہاد کی طرف لپکے… اُن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ہر
طرح کی نعمتوں سے مالا مال فرما دیا… اور اُن کے اہل و عیال کو بھی اللہ تعالیٰ نے
خوب وسعت اور فراوانی عطاء فرمائی… لیکن جو مہاجرین اندرونی صفات سے خالی تھے تو
وہ طرح طرح کے گناہوں ، جرائم اور خرابیوں میں مبتلا ہوئے… کئی نعوذ باللہ ایمان
سے محروم ہوئے اور کئی اپنی تہذیب اور قوم تک سے کٹ گئے۔
حالات کسی پر بھی آ سکتے ہیں
حالات بدلنے کا کچھ پتا نہیں چلتا… مجھے یاد ہے کہ کوٹ
بھلوال جیل میں جمعہ کے دن میں نیند سے اٹھا تو قید کی حالت میں تھا… مگر اچانک
رہائی کا عمل اتنی تیزی سے شروع ہوا کہ زندگی ایک دم سے بدل گئی… اس سے چھ سال
پہلے میں آزاد فضاؤں میں گھوم رہا تھا، ایک دن کمانڈر حافظ سجاد شہید رحمہ اللہ کے ساتھ پرانی یادوں پر باتیں ہو رہی تھیں کہ
اچانک انڈین آرمی نے گھیر لیا تو ہماری زندگی… ایک تاریک کوٹھڑی تک محدود ہو
گئی…ہر انسان کے ساتھ حالات بدلنے کا یہ عمل کسی وقت بھی ہو سکتا ہے… اس لئے خود
کو ہر طرح کے حالات کے لئے تیار رکھنا چاہیے… اپنے وقت کو قیمتی بنا کر اور اللہ
تعالیٰ سے توفیق مانگ کر اپنے اندر داخلی صفات پیدا کرنی چاہئیں… قرآن پاک کے
ساتھ خوب دوستی بنانی چاہیے… کیونکہ یہ تو کسی بھی وقت ہو سکتا ہے کہ ہماری جان
نکل جائے تو ہمیں قبر میں دفن کر دیا جائے… اپنے قرضے ادا کر دینے چاہئیں… اپنے
پاس موجود مال کے بارے میں بھی تفصیل لکھ رکھنی چاہیے کہ… کون سا اپنا ہے کون سا
کسی اور کا اور کون سا اجتماعی… اور آخرت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سوچنا چاہیے
تاکہ… دنیا کے حالات ہی ہمیں سب کچھ محسوس نہ ہوں…اللہ تعالیٰ ہمیں …اچانک آنے
والی خیریں کثرت سے عطاء فرمائے… اور اچانک آنے والے شرور سے ہماری حفاظت فرمائے…
اَللّٰھُمَّ اِنَّا
نَسْئَلُکَ مِنْ فُجَاءَۃِ الْخَیْرِ وَ نَعُوْذُ بِکَ مِنْ فُجَاءَ ۃِ الشَّرِّ۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور…شمارہ 611
مسلمان جیت رہا ہے
*
نئے ہجری، قمری، اسلامی سال کا آغازاور خیر و برکت کی دعائیں
* اسلامی
سال کا مختصر مگر جامع تعارف…
* نئے
سال کی مبارک دینے کا عمل اور درست مسئلہ کی نشاندہی
* ہجرت
ڈھیروں خیروں کا سر چشمہ…
*
ہجرت ختم تو بہت کچھ ختم…
*
جیت اور ہار کا ایک معیار…
مایوسی
اور نا امیدی کے پردے چاک کرتی ایک حوصلہ افزاء تحریر
تاریخ
اشاعت:
۸محرم
الحرام۱۴۳۹ ھ/بمطابق29ستمبر2017ء
مسلمان جیت رہا ہے
اللہ تعالیٰ نئے ہجری سال کو ہم سب کے لئے ’’مبارک‘‘ بنائے…
خیر والا، برکت والا، نور والا، نصرت والا، فتوحات والا اور ہدایت والا… اور ہمیں
اس سال کے تمام شرور سے اپنی پناہ اور حفاظت عطاء فرمائے۔
سال کا نام
ابھی چند دن پہلے جو نیا ہجری ، قمری ، اسلامی سال شروع ہوا
ہے… اس کا نام ہے سن ۱۴۳۹ ہجری…یعنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جو ہجرت فرمائی تھی
… اس ہجرت کو چودہ سو اڑتیس سال پورے ہوئے … اور چودہ سو اُنتالیسواں سال شروع ہو
گیا …یا اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ چودہ صدیاں پوری ہوئیں…اور پندرہویںصدی کا بھی
اُنتالیسواں سال شروع ہوگیا…سبحان اللہ! ہجرت، ہجرت، ہجرت… جی ہاں! ہجرت ایک
مسلمان کے لئے شکست نہیں بلکہ فتح کا دروازہ ہے… ہجرت سے ایمان اُبھرتا ہے، ہجرت
سے جہاد کھڑا ہوتا ہے …ہجرت سے زمین کھلتی ہے… ہجرت سے فتوحات آتی ہیں … آج بھی
مسلمانوں میں ہجرت زندہ ہے… جہاد زندہ ہے…پندھوریں صدی آدھی گذرنے کو ہے… مگر
قرآن بالکل وہی کا وہی ہے… اسلام بالکل اپنی اصلی حالت پر محفوظ ہے… اسی لئے کہتا
ہوں کہ… مسلمان جیت رہا ہے … مسلمان جیت رہا ہے۔
سال کی مختصر تفصیل
مسلمانوں کا سال ’’قمری‘‘ ہوتا ہے… یعنی اس کا تعلق
’’چاند‘‘ کے ساتھ ہے…سورج کے ساتھ نہیں…قمری سال تقریباً تین سو پچپن دنوں کا ہوتا
ہے… یعنی شمسی سال سے تقریباً دس دن چھوٹا… اسلامی قمری سال کے پہلے مہینے کا نام
’’محرم الحرام‘‘ اور آخری مہینے کا نام ’’ذوالحجہ‘‘ ہے… اسلامی سال کے بارہ
مہینوں میں سے چار مہینے زیادہ احترام اور حرمت والے ہیں…پہلا مہینہ محرم اور
آخری مہینہ ذوالحجہ بھی … حرمت والے چار مہینوں میں شامل ہیں… اسلامی تاریخ مغرب
کے وقت سے شروع ہوتی ہے… یعنی اذان سے اس کا آغاز ہوتا ہے… اسلامی سال کبھی گرمیوں
میں شروع ہوتا ہے کبھی سردیوں میں … کبھی خزاں میں کبھی بہار میں … جبکہ شمسی سال
ہمیشہ سردیوں میں شروع ہوتا ہے… حضرات خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین بڑے باذوق اور ’’مُلْہَم من اللہ‘‘ تھے … جب
اسلامی سال کی ترتیب شروع کرنے کا مشورہ ہوا تو… حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مشورے کو ترجیح دی…اور اسلامی
تاریخ کا آغاز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے فرما دیا… اس میں یہ بات سمجھائی گئی
کہ…ہجرت جو کہ بظاہر ایک شکست نظر آتی ہے حقیقت میں بڑی فتح ہے… ظاہری طور پر
ہجرت میں یہ نظر آتا ہے کہ… آپ دشمنوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنا وطن چھوڑ آئے
… اپنا گھر ،اپنا مال سب دشمنوں کے ہاتھوں میں دے آئے… آپ بے وطن اور بے سہارا
ہو گئے …آپ بے گھر اور بے آسرا ہو گئے… مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا… ہجرت ایک
مسلمان کو بہت بلند کر دیتی ہے… اسے آسودہ حال اور بامقام بنا دیتی ہے… اس کے لئے
فتوحات کے دروازے کھول دیتی ہے … اور اس کے سابقہ سارے گناہ معاف کرا دیتی ہے…
ہجرت رہے گی تو مسلمانوں میں جہاد رہے گا… ہجرت ختم تو بہت کچھ ختم… اللہ تعالیٰ
آپ کو اگر موقع دے تو ان آیات مبارکہ اور ان احادیث کو پڑھ لیجئے جو ہجرت کی
فضیلت میں وارد ہوئی ہیں… یقیناً آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی… ہجرت دراصل غیرت کا
دوسرا نام ہے… مسلمان ایسی جگہ رہنا گوارہ نہیں کرتا جہاں اسلام مغلوب ہو، جہاں
اسلامی شعائر پر پابندی ہو… ایسی جگہ مسلمان یا تو مزاحمت کرتا ہے… اور اگر مزاحمت
کی طاقت نہیں پاتا تو وہاں سے ہجرت کر جاتا ہے… کیونکہ اسلام کو مغلوب دیکھنا اور
اسلامی شعائر کے خلاف سمجھوتہ کرنا یہ مسلمان کے بس میں نہیں ہے… چنانچہ وہ اپنا
سب کچھ چھوڑ کر دوسری زمین کی طرف چلا جاتا ہے … تاکہ وہاں قوت اور ٹھکانہ پا کر…
جہاد کے لئے خود کو تیار کرے اور پھر اپنی سرزمین پر اسلام کے غلبے کے لئے جنگ
کرے۔
ابھی جب نیا سال سن ۱۴۳۹ ہجری
شروع ہوا تو بندہ نے ایک مختصر مکتوب جاری کیا جس میں یہ بھی لکھا کہ… مسلمان جیت
رہا ہے… تب کئی افراد نے حیرت کا اظہار کیا… اور برما کی مثال پیش کر کے پوچھا کہ…
کیا برما میں بھی مسلمان جیت رہا ہے؟… جی ہاں! برما میں بھی مسلمان جیت رہا ہے…
اگر برما کا مسلمان اپنا گھر بچانے کے لئے … نعوذ باللہ اسلام کو چھوڑ دیتا… اپنی
جان بچانے کے لئے ’’بدھ مت‘‘ کا مذہب اختیار کر لیتا… حکومتی عہدے اور امن حاصل
کرنے کے لئے دین اسلام سے ہٹ جاتا تو پھر ہم کہہ سکتے تھے کہ… مسلمان ہار رہا ہے…
مگر برمی ماں ، بہن ،بیٹی نے… اسلام کو سینے سے لگائے رکھا … برما کے بزرگوں اور
نوجوانوں نے اپنے دین پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا… انہوں نے مسلمان ہونے کی سزا کو
خندہ پیشانی سے برداشت کیا … تو پھر ہم کیوں نہ کہیں کہ برما کا مسلمان بھی جیت
رہا ہے … آج اگر یہ جملہ کہنے والا میں اکیلا ہوں تو دیکھ لینا آگے چل کر ان شاء
اللہ… ساری دنیا کہے گی کہ برما کا مسلمان جیت رہا ہے … مسلمان کا اسلام پر رہنا
اس کی جیت ہے … مسلمان کا ہجرت پر آنا اس کی جیت ہے… مسلمان کا جہاد پر کھڑا ہونا
اس کی جیت ہے… مسلمان کا جہاد میں شہید ہونا اس کی جیت ہے … مسلمان کی جیت اور ہار
کا بس ایک ہی معیار ہے…مسلمان اگر ایمان پر رہے اور ایمان کا تقاضا پورا کرے تو وہ
جیت گیا… اسے فتح مل گئی… خواہ اس کی لاش کو پرندے نوچ رہے ہوں… اور مسلمان اگر
خدانخواستہ ایمان سے ہٹ جائے یا ایمان کے تقاضے پورے نہ کرے تو پھر اس کے لئے شکست
ہے… خواہ وہ… امریکہ کا صدر یا برطانیہ کا وزیراعظم بن جائے۔ دیکھو! قرآن مجید
صاف فرما رہا ہے:
{وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ
کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ} [آل عمران: ۱۳۹]
’’تم ہی فاتح ہو اگر تم ایمان پر
ہو۔‘‘
مبارکباد دینے کا عمل
سنا ہے کہ سوشل میڈیا پر بحث چل نکلی ہے کہ…نئے اسلامی سال
کی مبارکباد دینا جائز ہے یا نہیں؟… بندہ نے اپنے مکتوب میں ’’مبارک باد‘‘ نہیں دی
تھی… برکت کی دعاء دی تھی… نیا مہینہ نیا سال مسلمانوں کو مبارک ہو … برکت کی دعاء
دینا بلاشبہ جائز بلکہ مستحسن ہے… جبکہ نئے سال کی باقاعدہ ایک دوسرے کو مبارکباد
دینا… سنت سے ثابت نہیں… لیکن چونکہ نیا سال نصیب ہونا ایک نعمت ہے تو ایسے موقع
پر… ایک دوسرے کو دعاء کی نیت سے کلمات تبریک کہنے میں کوئی حرج نہیں… مگر اس کو
باقاعدہ رسم نہ بنا لیا جائے…دارالعلوم دیوبند سے لے کر… جامعہ بنوری ٹاؤن تک کا
یہی فتویٰ ہے… سوشل میڈیا برادری اپنی مکھی مار عادت کی وجہ سے… بس اسی طرح کی
بحثوں میں الجھی رہتی ہے۔
عالَم کفر نے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی ہر کوشش کر لی
… اسلام کو بدلنے اور قرآن مجید میں تبدیلی لانے کے لئے…ہزاروں ہوش ربا سازشیں
بروئے کار لائی گئیں… مگر پندرھویں صدی میں بھی… حالت یہ ہے کہ… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے… اپنے محفوظ
قلعوں میں مارے جاتے ہیں… اور جو بچ جاتے ہیں وہ پوری زندگی خوف اور ذلت میں
گذارتے ہیں…اور سوشل میڈیا جیسے کافرانہ محاذ تک میں حالت یہ ہے کہ …ایک انڈین
گویّا اذان کے خلاف چند ٹوئیٹس کرنے پر ایسا گھبرایا کہ… اسے اپنا سر منڈوانا پڑا۔
جی ہاں! اسی لئے کہتا ہوں… اور بطور شکر کے عرض کرتا ہوں
کہ…پندرھویں صدی آدھی گذرنے کو ہے… اسلام اور مسلمانوں پر لاکھوں طوفان آئے اور
گذر گئے… مگر آج بھی کعبہ شریف شان سے کھڑا ہے… اسلام مسکرا رہا ہے اور مسلمان
جیت رہا ہے۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور… 612
بوجھ
پاکستان کے ’’لبرل‘‘ طبقے نے نعرہ لگایا کہ… ’’مجاہدین
پاکستان پر بوجھ ہیں‘‘… ان ظالموں کو آئینہ دکھاتی چند کھری کھری باتیں… اور ایک
سبق آموز تمثیل کے ساتھ یہ دو ٹوک اعلان کہ… ’’جہاد اور مجاہدین اتنے ہی زیادہ
ابھریں گے جتنا دباؤ گے۔‘‘
مزید
فوائد:
١ جہاد کی جڑیں بہت
مضبوط ہیں…
٢ قتل
دجال سے قبل جہاد کا خاتمہ بالکل نا ممکن ہے…
٣ ’’جہاد‘‘
اور ’’جنگ‘‘ میں بڑا فرق ہے…
تاریخ
اشاعت:
۱۵محرم
الحرام۱۴۳۹ ھ/بمطابق 6اکتوبر2017ء
بوجھ
اللہ تعالیٰ ہم سب سے گناہوںکا ’’بوجھ‘‘ ہٹائے… ہمارا سینہ
کھول دے اور ہمیں اپنا بنا لے۔
بوجھ
آج کل پاکستان میں ’’بوجھ‘‘ کا تذکرہ عام ہے… ایک ’’لیڈر‘‘
بولا مجاہدین ہم پر ’’بوجھ‘‘ ہیں… ہمیں وقت دیا جائے، مزید ڈالر دئیے جائیں تاکہ
ہم اس ’’بوجھ‘‘ کو اُتار پھینکیں… ایک بھورے رنگ کے دیسی صحافی نے بھی یہی لکھا
کہ… مجاہدین پاکستان پر بوجھ ہیں… مجاہدین کی وجہ سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو رہا…
مجاہدین کو جہاد سے توبہ کر لینی چاہیے… سیاست میں آ جانا چاہیے… انڈیا میں
خوشیاں منائی جا رہی ہیں کہ پاکستان کے ’’خارجی وزیر‘‘ نے کشمیری مجاہدین کو
’’بوجھ‘‘ قرار دے دیا ہے۔
سبحان اللہ ! وہ لوگ جو خود اللہ تعالیٰ کی زمین پر ایک
ناپاک بوجھ ہیں… وہ لوگ جو دن رات گناہوں کا بوجھ اپنے سروں پر لاد رہے ہیں… وہ
لوگ جن کی عیاشیوں اور بدعنوانیوں نے پوری قوم کو ’’بوجھل‘‘ کر رکھا ہے… وہ اُن
’’اللہ والوں‘‘ کو بوجھ قرار دے رہے ہیں… جو دن رات اس اُمت کو غلامی کے بوجھ سے
نکالنے کی محنت کر رہے ہیں…ہاں!ایک دن آئے گا… اور وہ دن ضرور آئے گا جب یہ
’’زمین‘‘ خود بولے گی… اور گواہی دے گی… تب وہ بتا دے گی کہ… زمین پر بوجھ کون
تھا؟…اور زمین کی راحت کون لوگ تھے؟
{یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ
اَخْبَارَھَا}[الزلزال: ۴]
گدھے کا بوجھ
گدھا بوجھ اُٹھاتا ہے… اسی لئے اس کی قدر کی جاتی ہے… اگر
وہ بوجھ نہ اُٹھائے تو کون اسے پا لے گا اور کون اسے گھاس ڈالے گا… کہتے ہیں کہ
ایک گدھے پر اس کے مالک نے نمک کی بوریاں لاد دیں…راستے میں پانی کا ایک نالہ آتا
تھا… گدھا اس میں اترا تو نمک پگھلنے لگا… اس نے فوراً بریک لگا لی اور پانی میں
کھڑا رہا… زیادہ نمک پانی میں گھل گیا… گدھا پانی سے باہر نکلا تو اس پر سے کافی
’’بوجھ‘‘ ہلکا ہو چکا تھا…وہ اپنی عقلمندی اور دانشوری پر خوش ہوا… اس نے اپنے
دوست گدھوں کو بھی یہ راز بتانا شروع کر دیا … بوجھ ہلکا کرنا ہے تو پانی میں اُتر
جاؤ … اور اس میں کچھ دیر کھڑے رہو…جب نکلو گے تو ’’بوجھ‘‘ اُتر چکا ہو گا… ایک
گدھے پر اس کے مالک نے ’’روئی‘‘ یعنی کپاس لاد دی… سردی کا موسم تھا… کپاس ویسے ہی
ہلکی پھلکی تھی اور ساتھ گدھے کی پیٹھ کو بھی گرم کر رہی تھی… مگر گدھا عقلمندی
اور دانشوری پر اُتر آیا… اس ہلکے سے بوجھ کو بھی اُتارنے کے لئے… پانی میں جا
کھڑا ہوا… ’’روئی‘‘ میں پانی بھرتا گیا اور گدھے کا بوجھ بڑھتا گیا… وہ جب پانی سے
نکلا تو بوجھ کی وجہ سے کمر ٹوٹ رہی تھی… ٹانگیں کانپ رہی تھیں … اور گرم روئی اب
بھاری اور ٹھنڈی برف بن چکی تھی… تب گدھا چیخ رہا تھا کہ… مجھ پر بوجھ ہے… مجھ پر
بڑا بوجھ ہے… کسی عقلمند نے کہا… اے گدھے! تم پر تو نرم کپاس لدی تھی خود تمہاری
غلطی نے اس کپاس کو تم پر بوجھ بنا دیا… اب بوجھ کو نہیں اپنی عقل کو ملامت کرو…
حقانی مجاہدین نے بیس سال تک شمالی وزیرستان کی حفاظت کی… وہ نہ ہوتے تو بنوں یا
ڈیرہ اسماعیل خان تک افغان بارڈر پہنچ جاتا…کشمیر میں جہاد کرنے والوں نے انڈیا کو
جموں کے میدانوں اور پہاڑوں میں اٹکادیا… وہ نہ ہوتے تو انڈیا پاکستان کے مزید
ٹکڑے کر چکا ہوتا… اہل پاکستان کے لئے روئی اور کپاس کی طرح نرم مجاہدین… کبھی
پاکستان پر بوجھ نہ تھے مگر جب کوئی گدھا غیر ملکی صحافیوں کے نالے میں جا کھڑا
ہو… خود سر سے پاؤں تک احساس کمتری میں ڈوبا ہوا ہو… اسے نہ ماضی کا ادراک ہو نہ
مستقبل کی فکر… تب گورے صحافی… اسی نرم روئی پر پانی ڈالنے لگتے ہیں اور گدھا
چیخنے لگتا ہے کہ… یہ روئی ہم پر بوجھ ہے… بس ہمیں وقت دو، ڈالر دو ہم اس بوجھ کو
اُتار پھینکیں گے… گدھے بیچارے پر ترس آتا ہے کہ… اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہو
سکے گی… کبھی بھی۔
نمک اور روئی میں فرق ہے بابا
سری لنکا والوں نے بتایا کہ ہم نے ’’ تمل باغیوں‘‘ کو ختم
کر دیا… برطانیہ والوں نے بتایا کہ ہم نے آئرلینڈ کے باغیوں کو ٹھنڈا کر دیا… اور
اس طرح کی بعض اور خبریں… ہمارے لبرل لفافے جب یہ خبریں پڑھتے ہیں تو اُن کے حوصلے
کچھ ابھرنے لگتے ہیں… کاش! مسلمان مجاہدین بھی ختم ہو جائیں … اُن کا بھی مکمل
صفایا ہو جائے… یہی بس اُن کی زندگی کا بڑا مقصد ہے… مگر ہائے بیچارے گدھے… یہ نمک
اور روئی کا فرق نہیں سمجھتے…وہ جہاد … اور جنگ میں فرق نہیں سمجھتے… یہ مجاہد اور
جنگجو کا فرق نہیں سمجھتے… تھوڑا سا سوچو کہ … اگر جہاد اور مجاہدین نے ختم ہونا
ہوتا تو وہ ’’بش‘‘ کے زمانے میں ختم ہو جاتے… ’’بش‘‘ نے چالیس ممالک ساتھ لے کر
اُن پر حملہ کیا تھا… مگر جہاد بڑھ گیا ، مجاہدین پھیل گئے… اگر جہاد اور مجاہدین
نے ختم ہونا ہوتا تو وہ… ابامہ کے آٹھ سالہ دور میں ختم ہو جاتے جب اس نے… خوست
سے صنعاء تک ڈرون حملوں کا ایک طوفان برپا کر دیا تھا… مگر جہاد پھیل گیا… مجاہدین
بڑھ گئے…اگر جہاد اور مجاہدین نے ختم ہونا ہوتا تو… مشرف اور زرداری کے زمانے میں
ختم ہو جاتے… یہ دونوں دین کے بھی دشمن ہیں اور جہاد کے بھی… اور تمام اختیارات
اُن کے ہاتھوں میں تھے… مگر جہاد طاقتور ہو گیا اور مجاہدین مضبوط ہو گئے… جب اتنے
ذہین ، بااختیار اور چالاک لوگ… اتنی طاقت استعمال کر کے بھی… جہاد اور مجاہدین کا
خاتمہ نہیں کر سکے تو اب… نیم پاگل ٹرمپ، بے عقل، بے وقوف مودی… اور گردن تک
بدعنوانی میں دھنسی ہوئی نون لیگ… کس طرح سے جہاد اور مجاہدین کا خاتمہ کر سکتے
ہیں؟… وہ جہاد جس کی بنیاد قرآن مجید میں ہے… وہ جہاد جس کی جڑیں ’’کلام اللہ‘‘
میں ہیں… وہ جہاد جو امانت اور شجاعت پر قائم ہے… وہ جہاد جو اہل اسلام کے لئے
روئی اور ریشم کی طرح نرم… اور اہل کفر کے لئے آگ سے زیادہ گرم ہے… وہ جہاد ختم
نہیں ہو سکتا… ہاں اللہ کی قسم! ختم نہیں
ہو سکتا… وہ تب ختم ہو گا… جب اللہ تعالیٰ اس دنیا کو ختم فرما کر قیامت لانے والی
گھڑی بالکل قریب فرما دیں گے …تب زمین پر صرف ’’لبرل‘‘ لوگ رہ جائیں گے پورے کے
پورے لبرل… پاکستان کے اکثر ’’وزراء ‘‘ کی خلوتوں کی طرح ’’لبرل ‘‘غیر ملکی این جی
اوز میں پلنے والی گندی مچھلیوں کی طرح’’ لبرل‘‘ …تب صور پھونک دیا جائے گا…زمین
کو اُلٹ دیا جائے گا اور قیامت برپا ہو جائے گی… مگر ابھی وہ وقت نہیں آیا… اس
لئے جہاد کو بوجھ سمجھنے والوں کو… یہ بوجھ اُٹھانا ہی پڑے گا… اور اگر جہاد واقعی
اُن کے لئے بوجھ ہے تو… اُن کے لئے بڑی بری خبر ہے کہ یہ بوجھ اور بڑھے گا… اور
بڑھے گا… قرآن یہی بتا رہا ہے احادیث مبارکہ میں یہی سمجھایا جا رہا ہے… حضرت
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تلوار لئے زمین
پر اُترنے کو تیار بیٹھے ہیں…اور کسی غیور مسلمان ماں کی گود… امام مہدی رضی اللہ عنہ سے ہری ہونے والی ہے۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور ﴿… 613
اکتوبر سے
ٹرمپ
نے افغان جنگ کے لیے نئی پالیسی کا اعلان کیا تو دنیا خوف سے کانپ گئی تب ایک صاحب
عزیمت نے اہل ایمان کے سامنے تاریخ کے اوراق رکھ کر انہیں ہمت و حوصلے کا سبق دیا
اور مجاہدین کرام کو خراج تحسین پیش کیا…
مزید
فوائد:
* افغان
جہاد میں غزوۂ بدر کی نسبت پوشیدہ ہے…
* جہاد
میں مسلمانوں کے لئے عزت اور کافروں کے لئے ذلت ہے…
* حضرت
امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ پندرہویں صدی کے ’’صلاح الدین ایوبی‘‘
ہیں…
* حضرت
امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کو بھرپور خراج تحسین…
* بش
اور ابامہ کی پالیسیوں کا برا حشر اور ’’ٹرمپ پالیسی‘‘ کے خدو خال…
* دو
دلچسپ خلاصے…
تاریخ اشاعت:
۲۲محرم
الحرام۱۴۳۹ ھ/بمطابق13اکتوبر2017ء
اکتوبر سے
اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں’’ عزت‘‘ عطاء فرماتے ہیں… اور جسے چاہتے ہیں ’’ذلیل‘‘ بنا
دیتے ہیں…اکتوبر کی یہ تاریخیں آتی ہیں تو… 2001ء کا اکتوبر یاد آ جاتا ہے…
اکتوبر کی سات تاریخ تھی اور رمضان المبارک کا مہینہ چل رہا تھا کہ…امریکہ نے
افغانستان پر حملہ کر دیا… حملہ بہت شدید تھا… کہا جا رہا تھا کہ دو ہفتوں میں یہ
جنگ نمٹ جائے گی…کچھ لوگ ایک مہینہ کہہ رہے تھے… جبکہ محتاط ترین لوگ چھ ماہ کا
وقت بتا رہے تھے… ایک غامدی زدہ صحافی نے لکھا کہ…چھ ماہ بعد یہ کہا جائے گا کہ
…طالبان نامی ایک مخلوق دنیا میں تھی جو کہ ختم ہو گئی ہے… اب اُس کا کوئی نشان
باقی نہیں اور ایک دو سال میں اُس کا نام بھی مٹ جائے گا… مگر آج اُس حملے کو
سولہ سال تین دن ہو چکے… جنگ جاری ہے …اگر مزید سولہ سال بھی جاری رہی تو… امریکہ
اور اس کے اتحادی یہ جنگ نہیں جیت سکیں گے…ہم نے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے بھروسے
پر یہی عرض کیا تھا کہ… امریکہ یہ جنگ نہیں جیت سکتا… تب کئی اپنے لوگ بھی شک کرتے
تھے… مگر رمضان المبارک میں شروع ہونے والے اس معرکے میں… غزوہ ٔبدر کی نسبت
پوشیدہ تھی… سولہ سال پہلے افغانستان کے جتنے حصے پر ’’امارت اسلامیہ‘‘ کی حکومت
تھی … آج بھی اتنے یا اُس سے کچھ زیادہ حصہ پر ’’امارت اسلامی‘‘ حاکم ہے… اگر
کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو … یہی منظر دیکھ کر ’’کلمہ طیبہ‘‘ پڑھ سکتا ہے…بے شک اصل
طاقت اللہ تعالیٰ کی ہے …بے شک اسلام ہی سچا دین ہے… اور بے شک جہاد میں مسلمانوں
کے لئے عزت… اور کفار کے لئے ذلت کا راز پوشیدہ ہے۔
بش، ابامہ، ٹرمپ
افغانستان پر حملہ امریکی صدر’’ جارج ڈبلیو بش‘‘ نے کیا
تھا… وہ جنگجو ذہنیت کا مالک تھا… اس نے افغانستان پر بے تحاشا طاقت استعمال کی …
اربوں کھربوں ڈالر کا بارود اور اسلحہ افغانستان میں استعمال ہوا… چالیس سے زائد
ممالک نے اس جنگ میں مسلمانوں کے خلاف صف بندی کی… تیل کے کاروبار سے منسلک صدر بش
اپنا نام تاریخ میں بطور ایک ’’صلیبی فاتح‘‘ لکھوانا چاہتا تھا… وہ کٹر مذہبی
عیسائی تھا… اور اس نے خود کو ’’رچرڈ شیر دل‘‘ کا جانشین سمجھ رکھا تھا… مگر
پندرہویں صدی کا صلاح الدین ایوبی ’’ملا محمد عمر‘‘ اس کے سامنے تھا… بش نے
افغانستان کی جنگ کو ’’صلیبی لڑائی‘‘ قرار دے کر یورپ کی رگوں میں گرم خون دوڑایا…
ٹونی بلیئر نے اس کا بھرپور ساتھ دیا… بش ، ٹونی کی یہ جوڑی… ابامہ اور ٹرمپ سے
زیادہ مضبوط اور زیادہ خطرناک تھی… پانچ ایٹمی ممالک اس جوڑی کے ساتھ تھے… اور اس
وقت امریکہ تازہ دم تھا… ٹرمپ کے بیانات سن کر کانپنے والے لوگ… بش کے خونخوار
وزیروں اور مشیروں کو نہ بھولیں… وہ بھاری بھرکم رچرڈ آرمٹیچ… وہ سازشی ڈک چینی …
اور ڈونلڈ رمز فیلڈ جسے امریکی بھی پچھتر گز کا پیچ کس کہتے تھے… رچرڈ آرمٹیچ
باقاعدہ غنڈوں کی طرح بولتا اور غراتا تھا… اُسی کے ایک فون اور ایک دھمکی
نے…پرویز مشرف کو گھٹنوں پر بٹھا دیا تھا… مگر وہ سب ناکام ہو گئے… مجھے ان لوگوں
پر حیرانی ہوتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ… ٹرمپ جیت جائے گا… حالانکہ’’ ٹرمپ‘‘ کے
پاس نہ ’’بش‘‘ جیسی طاقت ہے اور نہ تجربہ… بش کے زمانے افغانستان میں امریکی اور
نیٹو افواج کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار تھی… جبکہ آج وہ صرف چند ہزار
ہیں…’’بش‘‘ چونکہ بڑے غرور اور بڑے دھوکے کے ساتھ افغانستان میں اُترا تھا اس لئے…
وہ اپنے ماتھے پر شکست کی مہر نہیں لگوانا چاہتا تھا… افغانستان میں جب وہ بری طرح
پھنس گیا تو اس نے فوراً عراق پر حملہ کر دیا …تاکہ… اپنی کچھ عزت بچا سکے… اور
تاریخ میں یہ لکھوا سکے کہ… اس نے دنیا کو’’ صدام حسین‘‘ سے نجات دلوائی تھی… ہاں!
وہ’’ صدام حسین ‘‘کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا … مگر عراق میں وہ اسلام اور
جہاد سے ’’دوبارہ‘‘ شکست کھا گیا…اور آج عراق میں بھی لوگ …بش کو نہیں ’’صدام
حسین‘‘ کو یاد کرتے ہیں …’’بش‘‘ ذلیل ہو کر چلا گیا… ٹونی بلیئر کو بھی ذلت کے
ساتھ جانا پڑا… وہ رچرڈ شیر دل کے کردار کو… عیسائی دنیا میں دوبارہ زندہ نہ کر
سکے … ہاں مسلمانوں میں… نور الدین زنگی رحمہ اللہ … صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ …
اور محمود غزنوی رحمہ اللہ کے کردار ضرور
زندہ ہوئے… حضرت امیر المؤ منین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کو جب بھی تاریخ میں یاد کیا جائے گا… تو ایک
’’فاتح عالم‘‘ کے طور پر دیکھا جائے گا…ایک شاندار، عظیم ، ناقابل تسخیر مسلمان
فاتح… ایسا امیر جس نے تیرہ سال کی شدید جنگ میں… اپنی جماعت کو سنبھالے رکھا… ایک
ایسا کمانڈر جس نے… تیرہ سال تک دنیا کے چالیس ممالک کی فوجوں کو میدان میں شکست
پر شکست دی… ایک ایسا مدبر جس نے شطرنج سے زیادہ الجھی ہوئی جنگ میں… ہر چال کو بے
حال کیا… ایک ایسا پراسرار کردار جو منظر پر نہ ہونے کے باوجود … اپنی وفات کے بعد
بھی دشمنوں کو میدان میں نظر آتا رہا… ایک ایسا مؤمن جس نے ایک ناقابل یقین
معرکے میں… اسلام اور امت مسلمہ کا سر فخر سے بلند کیا۔
آج اگرچہ ہر طرف دھول ،دھواں اور دھند ہے… مگر یہ غبار جب
بیٹھ جائے گا تو… ان شاء اللہ ہر طرف میرے امیر محترم کے چرچے ہوں گے…اہل تحقیق ان
کے کارناموں کی تفصیل لکھیں گے… اور دنیا کا ہر بہادر شخص ان کی زندگی اور ان کے
جہاد سے… شجاعت اور بہادری کے گُر سیکھے گا… بات یہ عرض کر رہا تھا کہ… بش ذلیل ہو
کر چلا گیا ة… حضرت امیر المؤمنین رحمہ اللہ کا تذکرہ آیا تو… نہ قلم قابو میں رہا اور نہ
آنکھیں اس لئے بے ساختہ یہ چند سطریں لکھ ڈالیں… دراصل میرے پاس عصر حاضر کے تعلق
سے… جو ایمانی سرمایہ ہے وہ اپنے امیر اور اپنے شیخ کی محبت کا ہے… اللہ تعالیٰ
مجھے کبھی اس سے محروم نہ فرمائے… مجھے اگر امیر المؤ منین ملا محمد عمر مجاہد
نور اللہ مرقدہ کے دروازے کا کتا بھی مل گیا تو اس کا بھی زندگی بھر اکرام و
احترام کروں گا…میرے امیر کا اس امت پر بڑا حق ہے… جب ہر طرف غلامی، غلامی کا
اندھیرا تھا تو… امیر محترم ہی آزادی کا پیغام بن کر آئے… جب ہر طرف مایوسی تھی
تب… امیر محترم کو ہی اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے لئے ایک روشن امید بنایا… جب ہر
طرف غلامی ، احساس کمتری اور ذلت کا سبق پڑھانے والے لوگ… مسلمانوں میں دندنا رہے
تھے… تب جس مرد مؤمن نے… مسلمانوں کو… {وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ} کی تفسیر سمجھائی وہ حضرت امیر محترم تھے…
کہاں غامدیوں کی کیچڑ بھری حقیر زندگی… اور کہاں اللہ کے شیر ملا محمد عمر کی… عزت
و سربلندی سے معمور زندگی… حضرت امیر محترم … آپ کی روح کو ہمارا سلام پہنچے…
اللہ تعالیٰ آپ کو امت مسلمہ کی طرف سے بہترین جزائے خیر عطاء فرمائے۔
بش ذلیل ہو کر چلا گیا تو ابامہ آ گیا… بش سے قدرے ذہین…
بش سے زیادہ سازشی… اور دو منہ والا کالا سانپ… جس نے افغانستان کی جنگ میں…
امریکی عزت بچانے کی ایک نئی کوشش کی…اور وہ یہ کہ… امریکی فوجی یہ جنگ نہ لڑیں …
تاکہ زیادہ لاشیں، زیادہ زخمی… اور زیادہ بری خبریں امریکہ نہ پہنچیں… اس نے
افغانستان کے لئے ایک نیا پلان تشکیل دیا… سازش، فضائی حملے اور اپنا دامن بچا کر
لڑنے کا پلان… اس نے زیادہ فوجیں افغانستان سے نکال لیں… ڈرون حملوں کا ایک جال
بچھا دیا…افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی… افغانوں میں سے
اپنے لئے جنگجو خریدے… افغانستان کے کئی سازشی عناصر کو امریکہ میں شہریت دی اور
ان کو امریکی فوج میں بھرتی کیا… پاکستان پر اس نے اپنا دباؤ بڑھا کر قبائلی
علاقوں میں… ایک نئی آگ لگا دی… اور ساتھ ہی ساتھ ایران کا بھرپور تعاون کر کے…
اسے امت مسلمہ کے کئی ممالک پر چڑھا دیا… ابامہ کی جنگی حکمت عملی… بش کی جارحانہ
پالیسی سے زیادہ خطرناک تھی… ابتداء میں یوں لگا کہ… شاید ابامہ اس جنگ کا نقشہ
پلٹ دے گا… اس نے کئی نامور مجاہدین کو شہید کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی…اس نے
امارت اسلامی کے کئی افراد کو بھی توڑ کر محاذ جنگ کا پانسہ پلٹنے کی کوشش کی… مگر
ساری دنیا نے دیکھا کہ… ابامہ بھی ناکام و ذلیل ہو کر گیا… اور خود اس کی فوج اس
کے خلاف ہو گئی… اور اس کی ذلت اور ناکامی کا اثر اس کی پارٹی پر پڑا… اور
ڈیموکریٹک پارٹی امریکہ کے تمام الیکشن میںہار گئی… ابامہ ذلیل ہو کر چلا گیا… اسی
دوران حضرت امیر المؤمنین رحمہ اللہ بھی دنیا سے… باعزت تشریف لے گئے اور اپنے پیچھے
ایک فاتح لشکر چھوڑ گئے… افغانستان کا کانٹا امریکہ کے گلےمیں بدستور اٹکا رہا…
اور یہ کانٹا جب تک اٹکا رہے گا، امریکہ کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جائے گا… تب
امریکی اپنا ایک نیا پتا میدان میں لے آئے… اور وہ ہے ’’ٹرمپ‘‘… اب ٹرمپ نے اپنی
افغان پالیسی کا اعلان کر دیا ہے اور یہ پالیسی… بش اور ابامہ کی پالیسیوں کی ایک
مشترکہ کھچڑی ہے… یعنی لہجہ اور جارحیت بش جیسی… اور سازش ابامہ جیسی… اس پالیسی
میں انڈیا کو بڑا کردار دینے اور پاکستان کو جھٹکا دینے کا تذکرہ ہے… حیرانی کی
بات یہ ہے کہ… انڈیا اور پاکستان دونوں اس پالیسی سے سخت ڈرے ہوئے ہیں… انڈیا
جانتا ہے کہ… افغانستان میں اس کی کھلم کھلا دخل اندازی خود اس کے لئے موت کا
پیغام ہے… جبکہ پاکستانی حکومت ہمیشہ سے امریکہ سے ڈرنے کی عادی ہے… یہاں ایسے
عناصر ہمیشہ اوپر کی سطح تک موجود رہتے ہیں… جن کی ڈیوٹی ہی یہی ہے کہ وہ پاکستان
کو ہمیشہ امریکہ سے ڈراتے رہیں۔
خلاصہ
*
امریکہ اور نیٹو اتحاد نے افغانستان پر جو حملہ کیا تھا اسے سولہ سال ہو چکے ہیں۔
* سولہ
سال کی اس جنگ میں کفریہ صلیبی طاقتوں کو مسلسل ذلت اور شکست کا سامنا ہے۔
* امریکہ
کے دو صدر اپنی اپنی الگ پالیسیاں افغانستان میں آزما چکے ہیں… مگر افغانستان کا
کانٹا اب بھی امریکہ کے گلے میں ہڈی بن کر اٹکا ہوا ہے۔
* اب
تیسرے امریکی صدر نے افغانستان کے لئے اپنی نئی پالیسی کا اعلان کر دیا ہے… اس
پالیسی کے خوف سے انڈیا بھی کانپ رہا ہے… اور پاکستانی حکومت بھی ڈر رہی ہے…
حالانکہ پاکستانی حکومت کو اس موقع پر ہمت اور سمجھداری سے کام لینا چاہیے… پرویز
مشرف نے ڈر اور خوف میں جو اقدامات کئے تھے ان اقدامات کی سزا اب تک پاکستانی قوم
جھیل رہی ہے… اب بھی اگر ڈر اور خوف سے کچھ الٹے کام کئے گئے تو یہ ملک کے مفاد
میں اچھا نہیں ہو گا۔
دلچسپ خلاصہ
افغانستان پر صلیبی افواج کے حملے کے سولہ سال بعد…
*
تیسرا امریکی صدر شکست کا ٹوکرا سرپر لادے چیخ رہا ہے، چلا ر ہا ہے ،کمزور غنڈوں
کی طرح دھمکیاں دے رہا ہے۔
* امریکہ
بھارت کو افغانستان میں بلا رہا ہے مگر بھارت کی ٹانگیں دھوتی کے اندر کانپ رہی
ہیں۔
* امریکہ
اپنی شکست کا وبال پاکستان کے سر ڈال کر پاکستان کو مزید غار کی طرف دھکیلنے کی
کوشش کر رہا ہے… اور پاکستان میں موجود امریکی ایجنٹ پاکستان کو ڈرنے کے مشورے دے
رہے ہیں…یہ سب کچھ جن کے خلاف ہو رہا ہے… یعنی امارت اسلامی کے طالبان… وہ خوش
ہیں، مطمئن ہیں، بے فکر ہیں، واہ سبحان! تیری قدرت۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …614
مقبول شہادت
* ’’شہادت‘‘
بے شمار نعمتوں کا مجموعہ…
* ’’شہادت‘‘مل
گئی تو سب کچھ مل گیا…
* ’’مسئلہ
جہاد‘‘ سمجھنے کے لئے ایک لاجواب نسخہ…
* شہداء
کرام کی عجیب، اعلیٰ اور
یقینی
حیات مبارکہ کے شواہد
* دو
صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کا ایمان افروز
واقعہ…
* اور
بہت کچھ…
پڑھیے
ایمان کو حرارت دینے والی یہ مبارک تحریر
تاریخ اشاعت:
۲۹محرم
الحرام۱۴۳۹ ھ/بمطابق 20 ا
کتوبر2017ء
مقبول شہادت
اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں سے ’’ شہادت ‘‘ وہ نعمت ہے
جوکہ …بے شمار نعمتوںکامجموعہ ہے…اگرکسی مسلمان کویہ اختیار دیا جائے کہ وہ …صرف ایک ’’دعاء‘‘مانگ لے …ایک سے زیادہ نہیں
…اوراس کی وہ ایک دعاء قبول ہوگی تو …اس مسلمان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے
’’مقبول شہادت‘‘مانگ لے …کیونکہ مقبول شہادت مل گئی تو سب کچھ مل گیا …ایمان
بھی،اچھا خاتمہ بھی… مغفرت بھی ،معافی بھی …سکرات الموت سے حفاظت اور عذاب قبر سے
نجات بھی…اور جنت فردوس اعلیٰ بھی …اور بھی بہت سی چیزیں …مثلاًموت کے فوراً بعد
ایک لذیذاور طاقتور زندگی …اللہ تعالیٰ کا رزق ،خوشیاں اور راحت ہی راحت … اور سب
سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رضااور اس کا قرب… اسی لئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم
نے باربار شہیدہونے کی تمنا فرمائی…حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام عالی
شان …شہداء کے مقام سے بہت اونچاہے…شہادت کے اسی مقام کی وجہ سے کئی اولیاء کرام
رحمہم اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ … وہ
اکٹھے ہوکر اللہ تعالیٰ سے شہادت کی دعاء مانگتے تھے …خاص اسی دعاء کے لئے جمع
ہوتے اور صرف یہی ایک دعاء مانگتے ۔
شہید زندہ ہوتاہے …اسے شہادت کے بعد مردہ کہنا بھی حرام اور
مردہ سمجھنابھی حرام … شہید کی حیات قرآن مجید کی نص قطعی سے بالکل واضح طور پر
ثابت ہے … مگر یہ ’’حیات‘‘ایسی بلند اور اونچی ہے کہ …ہم لوگ اسے اس دنیا میں سمجھ
نہیں سکتے …مگر جنت میں جانے کے بعدجب
ہمارا شعور طاقتورہوجائے گا تو وہاں جاکر… شہداء کرام کی زندگی اور حیات ہمیں سمجھ
آ جائے گی … ہم سب مسلمانوں کو چاہیے کہ
… شہادت کے قرآنی فضائل پڑھیں … احادیث مبارکہ میں شہادت کے فضائل کو
سمجھیں … بزدلی اور نفاق سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں …اور خاص اوقات ،خاص
لمحات اور قبولیت کی امید کے ہر موقع پر … اللہ تعالیٰ سے مقبول شہادت کی نعمت
مانگا کریں … او ر اس بات سے نہ ڈرا کریں کہ … شہیدہوکر ہم مرجائیں گے … نہیں،
ہرگز نہیں،شہیدہوکر تومسلمان زندہ ہو جاتا ہے …اس پر موت ضرور آتی ہے مگروہ موت
آکر چلی جاتی ہے …اور فوراًزندگی شروع ہوجاتی ہے … مسلمان اگر شہادت سے محبت کریں
گے تو انہیں’’مسئلہ جہاد ‘‘آسانی سے سمجھ آجائے گا…اور جہاد کے بارے میں کوئی
اشکال ان کے دل میں پیدا نہیں ہوگا…جہاد کے خلاف اکثر اعتراضات اور اشکالات کے
پیچھے موت کا ڈر چھپاہوتا ہے … اگر مسلمان قرآن مجید کو مانیں تو جان لیں گے کہ …
شہادت موت نہیں ہے زندگی ہے … قرآن پاک پکار پکار کر فرما رہا ہے {بَلْ اَحْیَاءٌ } {بَلْ اَحْیَاءٌ } …وہ زندہ ہیں … وہ زندہ ہیں
… ان کی زندگی اس دنیا کے جسم اور قبر سے لے کر برزخ تک اور جنت کے دروازے تک
پھیلی ہوتی ہے … مسلمان جب جہاد پر
آجائیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں عزت ،عظمت ،رعب ، خود داری اور مغفرت بھی عطاء
فرمائیں گے… اور انہیں کفر اورکفار کی غلامی سے بھی نجات ملے گی ۔
شہداء کرام کی زندگی یقینی ہے …مگر یہ بھی ساتھ فرمادیا گیا
کہ {وَلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ}
کہ تم اس زندگی کوسمجھ نہیں سکتے،محسوس
نہیں کرسکتے … وہ بڑی اعلیٰ اور ارفع زندگی ہے …وہ زندہ ہیں مگر اب یہ زندگی ان سے
کوئی چھین نہیں سکتا … وہ اب قتل نہیں ہوسکتے …قید نہیں ہوسکتے … بیمار نہیں
ہوتے…پریشان اور غمزدہ نہیں ہوتے … پرانی زندگی میں جو کمزوریاں تھیں وہ شہادت کی
زندگی میں ختم ہوگئیں … شہید کی اس عجیب اور اعلیٰ یقینی زندگی کو ہم سمجھ نہیں
سکتے مگر اللہ تعالیٰ کچھ علامات اور اشارات ایسے عطاء فرماتے رہتے ہیں جوایمان
والوں کے ایمان کومزید مضبوط کرتے ہیں …ایسے واقعات کو ہم شہداء کرام کی کرامت اور
ان کی نئی زندگی کے شواہد کہتے ہیں … ملاحظہ فرمائیے استاذ محترم، محقق العصر حضرت
علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ العالی کی کتاب’’مقام حیات‘‘سے حضرات شہداء کرام کی
حیات مبارکہ کے چند شواہد۔
حیات شہداء کے شواہد
١ حضرت
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اُحد کے دن
میرے والد نے مجھے کہا:
’’شایدآج میں سب سے پہلے
شہیدہوجائوں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
بعدکوئی مجھے تم سے پیا را نہیں۔میرا قرض ادا کر دینا اوراپنی بہنوں کے ساتھ
اچھاسلوک کرنا۔‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: واقعی سب سے پہلے میرے والدمارے
گئے۔اس دن دو دوشہیدایک جگہ دفن کئے گئے تھے۔میں نے نہ چاہا کہ میرے والدکے ساتھ
کوئی اوردفن ہو۔میں نے چھ ماہ بعداپنے والدکی قبر کوکھولاتاکہ آپ کوعلیحدہ دفن
کروں۔
فَکَانَ اَوَّلَ قَتِیْلٍ وَ دَفَنْتُ مَعَہٗ اٰخَرَفِی
قَبْرِہٖ ثُمَّ لَمْ تَطِبْ نَفْسِی اَنْ اَتْرُکَہٗ مَعَ اٰخَرَ
فَاسْتَخْرَجْتُہٗ بَعْدَ سِتَّۃِ اَشْھُرٍفَاِذَا ھُوَکَیَوْمٍ وَضَعْتُہٗ
ھُنَیَّۃً غَیْرَ اُذُنِہٖ۔
ترجمہ:’’آپ جنگ احد کے پہلے شہید تھے میں نے آپ کے ساتھ
ایک اورشخص کو بھی آپ کی قبر میں دفن کردیاپھرمجھے یہ بات اچھی نہ لگی کہ میں
اپنے والدکوکسی اورشخص کے ساتھ رکھوں۔میں نے پھر چھ ماہ کے بعدآپ کووہاں سے
نکالاآپ اسی حال میں تھے جیساکہ میں نے آپ کودفن کیا تھا صرف ایک کان میں
تھوڑاساتغیرتھا۔‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والدعبداللہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کے بہنوئی حضرت عمروبن الجموح رضی اللہ عنہ دفنائے گئے تھے۔
٢ تقریباًپچاس
سال بعدحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں مدینہ منورہ کے قریب نہر کظامہ
کھودی گئی۔اس کھدائی میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا جسد ملا۔وہ اسی طرح تھا جس طرح دفن
کیاگیاتھااس میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی تھی۔بیلچہ انگلی پرلگ گیا توخون بہنے
لگا۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۸۵۲ہجری ) لکھتے ہیں:
ترجمہ: ’’اوراس امت کے پہلے دور میں جو شہداء اُحد وغیرہ
اسی صورت میں پائے گئے، لمبے زمانے گزرنے کے بعد بھی ان میں کوئی تغیر واقع نہیں
ہوا۔ان میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی
ہیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب اپنے دور میںایک نہر کھودی تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کواسی طرح پایا گیاآپ میں کوئی تغیر واقع نہ
ہوا تھا۔کام کرنے والے کابیلچہ آپ کی انگلی پرلگ گیاتواس سے خون جاری ہوگیا۔‘‘
٣
حضرت عمرو بن الجموح رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ ایک دفعہ پھر بوجہ سیلاب دوسری جگہ منتقل کئے
گئے۔
فَوُجِدَا لَمْ یَتَغَیَّرَا کَأَنَّھُمَا مَاتَا
بِالْاَمْسِ وَکَانَ اَحَدُھُمَا قَدْ جُرِحَ فَوَضَعَ یَدَہٗ عَلٰی جُرْحِہٖ
فَدُفِنَ وَ ھُوَکَذٰلِکَ فَأَرْسَلْتُ یَدَہٗ عَنْ جُرْحِہٖ ثُمَّ اَرْسَلْتُ
فَرَجَعَتْ کَمَاکَانَتْ۔
ترجمہ: ’’وہ دونوں اس طرح پائے گئے گویاکل فوت ہوئے ہیں ان
میں سے ایک احد کے دن زخمی ہوا تھااور اس نے اپنا ہاتھ زخم پر رکھا ہوا تھااور اسی
حالت میں وہ دفن کردیا گیامیں نے اس کاہاتھ زخم سے ہٹایااورپھرچھوڑدیاوہ وہیںجا
لگا جہاں کہ پہلے تھا۔‘‘
٤ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نجران کے ایک آدمی نے ایک جگہ
جہاں قبریں تھیں،زمین کھودی توحضرت عبداللہ بن تامر رضی اللہ عنہ کاجسدملا،ہاتھ
سرپررکھاہواتھا۔راوی کہتا ہے:
فَأِذَا أَخَّرْتُ یَدَہٗ عَنْھَا تَنْبَعِثُ دَمًاوَ
اِذَا اَرْسَلْتُ یَدَہٗ رَدَّھَا عَلَیْھَا فَأَمْسَکَتْ دَمَھَا۔
ترجمہ: ’’جب میں آپ کا ہاتھ زخم سے ہٹاتا تو اس زخم سے خون
پھوٹ پڑتااور جب میں آپ کے ہاتھ کو چھوڑ دیتاتووہ وہیں جالگتااوراس کے خون کو روک
دیتا۔‘‘
٥ ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں اُمّ المؤمنین حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کی دیوار
گرگئی جب اسے بنانے لگے توایک قبر سے قدم ظاہرہوا۔لوگ گھبراگئے کہ یہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کاقدم نہ ہو حضرت عروہ رضی اللہ عنہ نے وہ قدم پہچان لیا اوربتایایہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاقدم ہے۔
٦ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں جب نہر کظامہ کھودی گئی
اوردرمیان میں شہداء کی قبریں کھلیں تودیکھا کہ ان کے جسد تروتازہ ہیں اوربال بڑھے
ہوئے ہیں۔ اتفاقاً ایک شہید کے پاؤں پر کدال لگی تو خون جاری ہوگیا جب وہ جگہ
کھودی گئی توسب طرف مشک کی خوشبو پھیل گئی۔
٧ حضرت حذیفہ اور حضرت جابر بن عبد
اللہ رضی اللہ عنہما کے مزارات دریائے
دجلہ کے کنارے تھے۔۱۹۳۰ء کے قریب کی بات ہے۔ دریازمین کاٹتاان کے مزارات کے قریب
آپہنچا ،حکومت عراق نے حکم دیا کہ ان مزارات کو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے احاطہ میں منتقل کردو اورپھرایساہی
کیاگیا۔پھرجنازے ہوئے اورآٹھ دس ہزار آدمیوں نے ان میں شرکت کی۔ایک صاحب الطاف
حسین جوان جنازوں میں شریک ہوئے تھے، ان کا بیان ہے:
’’قبرسے نکلے ہوئے جنازوں کی
موجودگی اور خلق کی آہ وبکاء نے قیامت کا نمونہ برپا کر رکھا تھا، اکثرآدمی روتے
روتے بے ہوش ہوگئے۔نعشیں تیرہ سوسال گزرنے کے بعد بھی بالکل سالم تھیں ۔ کفن ہاتھ
لگانے سے بوسیدہ تھا۔ایک صاحب کی داڑھی سفید تھی اورایک کی سیاہ۔‘‘
یہ واقعہ ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی کی اگست 1964ء کی
اشاعت میں اس طرح منقول ہے اور اس کا عنوان ہے:
’’ناقابل انکارصداقت‘‘
’’قصبہ سلمان پاک جوبغداد سے 40میل
کے فاصلے پر ہے،زمانہ قدیم میںجس کانام ’’مدائن‘‘ تھا۔جہاں اکثرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گورنری کے عہدے پرفائزرہے۔یہاں ایک شاندار مقبرے
میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ مشہور صحابی مدفون ہیں اور آپ کے گنبدمزار سے
متصل نبی آخرالزمان کے دوصحابہ حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ اور حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے مزارات ہیں۔ان دونوں اصحاب رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کے مزارات پہلے سلمان پاک سے دو
فرلانگ کے فاصلے پرایک غیر آباد جگہ پرتھے۔
ہوا یہ کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے خواب میںملک فیصل اول شاہ عراق
سے فرمایا کہ ہم دونوں کوموجودہ مزاروں سے منتقل کرکے دریائے دجلہ سے تھوڑے سے
فاصلے پردفن کر دیا جائے۔اس لیے کہ میرے مزارمیں پانی اور جابر رضی اللہ عنہ کے مزار میں نمی شروع ہوگئی ہے۔
شاہ یہ خواب مسلسل دوراتوں میں دیکھتارہا اور شایدبے پرواہی
یاانہماک امور سلطنت کے باعث بھول گیا،تیسری شب حضرت موصوف نے عراق کے مفتی ٔاعظم
کوخواب میںیہی ہدایت فرما کرکہا:ہم دوراتوں سے بادشاہ کو کہہ رہے ہیں لیکن اس نے
اب تک انتظام نہیں کیا۔اب یہ تمہاراکام ہے کہ اس کو متوجہ کرکے اس کا فوری بندوبست
کراؤ۔
چنانچہ اگلے روزصبح ہی صبح مفتیٔ اعظم نوری السعید
پاشاوزیراعظم کوساتھ لے کر بادشاہ سے ملے اور اس سے اپنا خواب بیان کیا۔شاہ فیصل
نے کہا: میں بھی دوراتوں سے خواب میں یہی دیکھ رہاہوں۔
آخرکافی غورومشورے کے بعد شاہ نے مفتی اعظم سے کہا کہ آپ
مزارات کھولنے کافتویٰ دیدیں تو میں اس کی تعمیل کے لئے تیار ہوں۔جب مفتیٔ اعظم نے
مزارات کے کھولنے اورلاشوں کومنتقل کرنے کا فتویٰ دیدیا تویہ فتویٰ اورشاہی فرمان
دونوں اس اعلان کے ساتھ اخبارات میں شائع کردیئے گئے کہ بروزعیدقربان بعدنماز
ظہران دونوں اصحاب رسول رضی اللہ عنہما کے
مزارات کھولے جائیں گے۔
اخبارات میں یہ حال شائع ہوناتھا کہ تمام دنیائے اسلام میں
یہ خبر بجلی کی طرح پھیل گئی۔ رائٹراور دوسری خبررساں ایجنسیوں نے اس خبر کوتمام
دنیامیں پہنچادیا۔حسن اتفاق دیکھئے کہ ان دنوں موسم حج ہونے کے باعث تمام دنیاسے
مسلمان حج کے لئے حرمین شریفین(مکے مدینے ) میں جمع ہورہے تھے ۔ جب انہیں یہ حال
معلوم ہوا توانہوں نے شاہ عراق سے یہ خواہش ظاہر کی کہ مزارات حج کے
چندروزبعدکھولےجائیںتاکہ وہ بھی شرکت کرسکیں۔اسی طرح حجاز،مصر،شام، لبنان، فلسطین،
ترکی، ایران،بلغاریہ ، افریقہ ، روس،ہندوستان وغیرہ وغیرہ ملکوں سے شاہ عراق کے
نام بے شمار تار پہنچے کہ ہم بھی جنازوں میں شریک ہوناچاہتے ہیں مہربانی فرماکر
مقررہ تاریخ چندروزبڑھا دی جائے،چنانچہ دنیا کے مسلمانوں کی خواہش پر یہ دوسرا
فرمان جاری کر دیا گیا کہ اب یہ رسم حج کے دس دن بعد اداکی جائے گی اور اس کے ساتھ
ہی خواب میں اہل مزارات کی عجلت کی تاکید کے پیش نظر احتیاطی تدابیر بھی کی گئیں
کہ پانی مزارات تک پہنچنے نہ پائے۔
آخر کار وہ دن بھی آگیاجس کی آرزو میں لوگ جوق درجوق
سلمان پاک میں جمع ہوگئے تھےاورشنبہ کے دن
بارہ بجے کے بعد لاکھوں انسانوں کی موجودگی میں مزارات کھولے گئے تومعلوم ہوا کہ
حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ کے مزارمیں کچھ پانی آچکا تھااورحضرت جابر رضی
اللہ عنہ کے مزار میں نمی پیدا ہوچکی تھی حالانکہ دریائے دجلہ وہاں سے کم از کم
دوفرلانگ دورتھا۔
تمام ممالک کے سفیر،عراقی حکومت کے تمام ارکان اور شاہ فیصل
کی موجودگی میں پہلے حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ کی نعش مبارک کو کرین کے ذریعے زمین سے اس طرح
اوپر اٹھایا گیا کہ ان کی نعش کرین پر نصب کئے ہوئے سٹریچر پر خودبخود آگئی۔اب
کرین سے سٹریچر کوعلیحدہ کرکے شاہ فیصل ‘ مفتیٔ اعظم عراق‘ وزیر مختار جمہوریہ
ترکی اور پرنس فاروق ولی عہد مصر نے کندھادیا اور بڑے احترام سے ایک شیشہ کے تابوت
میں رکھ دیا۔پھر اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی نعش مبارک کومزار سے باہرنکالاگیا۔
نعش ہائے مبارک کا کفن،حتیٰ کہ ریش ہائے مبارک کے بال تک
بالکل صحیح حالت میں تھے ۔ نعشوں کو دیکھ کر یہ اندازہ ہر گز نہیں ہوتا تھا کہ یہ
تیرہ سو سال قبل کی نعشیں ہیں،بلکہ گمان یہ ہوتا تھا کہ شاید انہیں رحلت فرمائے دو
تین گھنٹے سے زائد وقت نہیں گزرا ۔سب سے عجیب بات یہ تھی کہ ان دونوں کی آنکھیں
کھلی ہوئی تھیں اور ان میں اتنی پر اسرارچمک تھی کہ بہتوں نے چاہا کہ ان کی
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں لیکن ان کی نظریں اس چمک کے سامنے ٹھہرتی ہی نہ
تھیں اور ٹھہر بھی کیسے سکتی تھیں؟
بڑے بڑے ڈاکٹر یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے ۔ ایک جرمن ماہر چشم
جو بین الاقوامی شہرت کا مالک تھا،اس تمام کاروائی میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا ۔ اس
نے یہ منظر دیکھا توبس دیکھتا ہی رہ گیا،وہ اس سے کچھ اتنا بے اختیار ہواکہ ابھی
نعش ہائے مبارک تابوتوں میں ہی رکھی گئیں تھیں کہ آگے بڑھ کر مفتیٔ اعظم عراق کا
ہاتھ پکڑ لیا اور کہا :آپ کے مذہب اسلام کی حقانیت اور ان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بزرگی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا
ہے ؟ لائیے مفتی ٔاعظم!ہاتھ بڑھائیے،میں مسلمان ہوتا ہوں…
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اس واقعہ کے فوراً بعد بغداد میں کھلبلی مچ گئی اور بے شمار
یہودی اور نصرانی خاندان بلاکسی جبر کے اپنے جہل اور گمراہی پرافسردہ،اپنے گناہوں
پر نادم ، ترساں و لرزاں جوق در جوق مسجدوں میں قبول اسلام کے لئے آتے تھے اور
مطمئن شاداں وفرحاں واپس جاتے تھے …اس موقع پر مشرف بہ اسلام ہونے والوں کی
تعداداتنی تھی کہ اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ۔‘‘
یہ ’’چشم دیدواقعہ‘‘کسی کتاب میں لکھا ہوا اگلے زمانے کا
تاریخی واقعہ نہیں ہے،یہ ہمارے ہی زمانے کا آنکھوں دیکھا حال ہے،اس کو زیادہ عرصہ
بھی نہیں گزرا… ۱۹۳۲ء میں اس کرامت کا ظہور ہوا ہے۔ ‘‘ [مقام حیات]
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور… 615
مردِ میدانِ وفا
ہندوستان
کے متعصب ہندؤوں نے اسلام کے عظیم فاتح حضرت سلطان ٹیپو شہید رحمہ اللہ اور حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمہ اللہ کے خلاف ناجائز اور نازیبا باتیں کہیں تو
کچھ اپنے ان کی غلط صفائیاں دینے لگے… تب ’’رنگ و نور‘‘ میدان میں اترا
اور اسلام کے ان مایہ ناز سپوتوں کے بلند اور پاکیزہ کردار کی خوشبو ہر طرف
مہکا دی…آپ بھی ملاحظہ کیجیے۔
مزید
فوائد:
* حضرت
سلطان ٹیپو شہید رحمہ اللہ کا مختصر
تعارف…
* حضرت
ٹیپو شہید رحمہ اللہ کے چند اوصاف…
* حضرت
ٹیپو شہید رحمہ اللہ کے کارنامے…
تاریخ
اشاعت:
۶ صفر المظفر ۱۴۳۹ھ بمطابق 27 اکتوبر 2017 ء
مردِ میدانِ وفا
اللہ تعالیٰ نے ’’شہداء کرام‘‘ کو ’’زندگی‘‘ عطاء فرمائی
ہے… شہداء کرام کی ’’حیات‘‘ یعنی ’’زندگی‘‘ میں شبہ کرنا ’’کفرہے‘‘… قرآن مجید
فرماتا ہے {بَلْ اَحْیَاْءٌ }بلکہ وہ زندہ ہیں… وہ دیکھو! آج کل پورے ہندوستان
میں حضرت سلطان فتح علی ٹیپو شہید رحمہ
اللہ کی زندگی صاف نظر آ رہی ہے … بدبو دار متعصب ہندو حضرت سلطان ٹیپو شہید رحمہ
اللہ کے خلاف منہ کھول کر… دانت نکال کر
بھونک رہے ہیں… وہ حسد کی آگ میں یوں جل رہے ہیں جیسے کہ ’’ٹیپوشہید‘‘ اُن کے
سامنے کھڑے مسکرا رہے ہوں … جبکہ اہل ایمان حضرت ٹیپو سلطان شہید رحمہ اللہ کے کارنامے… مساجد میں ، مدارس میں اور اخبارات
و رسائل میں بیان کر رہے ہیں… اپنی شہادت کے تقریباً سوادو سو سال بعد بھی … شہید
کا تذکرہ مردہ دلوں کو زندہ کر رہا ہے… کوئی ٹیپو سلطان کے حالات زندگی پڑھ رہا
ہے… کوئی اُن سے {بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ } کی برکت حاصل کر رہا ہے…
کوئی اُن سے جہاد کا سبق پڑھ رہا ہے… کوئی اُن سے شہادت کی لذت معلوم کر رہا ہے…
کوئی اُن سے آداب جہانبانی سیکھ رہا ہے … اور کوئی اُن سے ’’شیر‘‘ بننے کے راز
معلوم کر رہا ہے… بھارتی وزیر ’’ہیگڑے‘‘ اور اُس کے ہمنوا چند دن تک مر جائیں گے…
جل جائیں گے …کوئی کالا کتا اُن کے شمشان گھاٹ پر پیشاب کر آئے گا… جبکہ ٹیپو
سلطان شہید رحمہ اللہ کی زندگی… اہل ایمان
کے دلوں کو گرماتی رہے گی… کیونکہ وہ شہید ہوئے… انگریزوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے…
جب بال ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے کے باپ دادا مراٹھے… انگریزوں کے ساتھ مل کر لڑ رہے
تھے… آج آزادی کے بعد ہندوستان کے مالک ہونے کا دعویٰ کرنے والے … اُس وقت
انگریز کے ساتھ تھے… جبکہ مسلمانوں کا رہنما سلطان ٹیپو شہید…مسلسل کئی معرکوں میں
انگریزوں کو عبرتناک شکست دے چکا تھا… مگر پھر اپنوں نے غداری کی… میر صادق اور
دیوان پورنیا جیسے وزراء انگریز کے ساتھ مل گئے… ۱۲۱۳ھ بمطابق مئی 1799ء سرنگاپٹنم میں آخری معرکہ ہوا…سلطان ٹیپو رحمہ اللہ بہادری کے ساتھ لڑتے رہے… اور بالآخر قرآن
مجید کی آیت مبارکہ تلاوت کرتے ہوئے سینے پر کئی زخم کھا کر شہید ہو گئے…کسی نے
تاریخ وفات کا عجیب قطعہ نکالا ہے۔
ٹیپو بوجہ دینِ محمد شہید شد۱۲۱۳ھ
’’ٹیپو دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جام شہادت نوش فرما گئے۔‘‘
ہمارے علامہ اقبال رحمہ اللہ نے ٹیپو شہید رحمہ اللہ کی قبر پر حاضری دی… کافی دیر وہاں کھڑے ہوئے،
باہر نکلے تو شدت جذبات سے رو رہے تھے، فرمایا:
آں شہیدانِ محبت را امام
آبروئے ہند و چین و روم و شام
نامش از خورشید و مہ تابندہ تر
خاک قبرش از من و تو زندہ تر
ترجمہ: ’’ٹیپو سلطان ’’شہداء محبت‘‘ کے امام ہیں … اور روئے
زمین کی آبرو ہیں اُن کا نام سورج اور چاند سے زیادہ روشن ہے اور اُن کی قبر کی
مٹی مجھ سے اور تجھ سے زیادہ زندہ ہے۔‘‘
تمہارے پاس بھی کوئی ہے؟
ہندوستان کے موجودہ ہندو حکمرانوں سے پوچھتا ہوں… تم آج
اورنگ زیب عالمگیر رحمہ اللہ جیسے عظیم،
بہادر، منصف، درویش اور فاتح ’’بادشاہ‘‘ کو گالیاں دیتے ہو… کیا تمہارے پاس…
تمہاری تاریخ میں ’’عالمگیر‘‘ جیسا ایک شخص بھی ہے؟ …تمہارا ’’شیواجی‘‘ ’’مراٹھا‘‘
…جس کی بہادری پر تمہیں ناز ہے… عالمگیر کے سامنے ایک تر ’’پراٹھا‘‘ ثابت ہوا…
ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کسی ایک ہندو راجہ یا مہاراجہ کا نام بتاؤ
جو ’’عالمگیر‘‘ کے ہم پلہ ہو… عالمگیر رحمہ اللہ نے پچاس سال تک ’’ہند‘‘ پر حکومت فرمائی…اور
ہندوستان کی سرحدوں کو کیرالہ سے لے کر افغانستان کے آخر تک پہنچادیا… تم آج
ہندوستان سے’’اورنگ زیب عالمگیر‘‘ کا نام مٹانا چاہتے ہو… مگر کیسے مٹا سکو گے؟…
کیا تاریخ میں اس سے پہلے یا اس کے بعد کوئی ایسا حکمران ہندوستان میں گزرا ہے… جس
نے اتنی بڑی سلطنت پر حکومت کی ہو… تمہاری تاریخ تو بس ’’مہا بھارت‘‘ کی افسانوی
جنگ پر ختم ہو جاتی ہے … یہ وہ جنگ تھی جس میں تمہاری ایک عورت کے پانچ پانچ خاوند
تھے… رام کی بہادری کے قصے بس اسی پر موقوف ہیں کہ وہ چودہ سال تک اپنی بیوی کو
رہا کراتا پھرتا رہا…کرشن کی داستانیں مکھن چرانے اور لڑکیوں کو چھیڑنے پر ختم ہو
جاتی ہیں… ایسی شرمناک اور بزدلانہ تاریخ رکھنے کے باوجود تم کس منہ سے… آج حضرت
ٹیپو سلطان شہید رحمہ اللہ کو گالیاں بک
رہے ہو…تمہارے بڑے تو ’’ٹیپو‘‘ کے قدموں پر گرے رہے اور آج جبکہ انگریزوں کی
چاپلوسی کے عوض تمہیں ہندوستان کی حکومت ملی ہے تو تم… اپنے باپ دادا کی بھی نمک
حرامی کر رہے ہو…ہمت ہے تو… اپنی تاریخ میں سے ایک شخص ’’حضرت ٹیپو سلطان شہید
رحمہ اللہ ‘‘جیسا لے آؤ… تم کس منہ سے
حضرت ٹیپو سلطان رحمہ اللہ کے کردار پر
انگلی اُٹھاتے ہو؟…آج ساری دنیا میں بے حیائی کا کاروبار تمہاری وجہ سے چل رہا
ہے… تمہارے مذہبی رہنما سرتاپا بے حیائی، عیاشی اور فحاشی میں ڈوبے ہوئے ہیں… ابھی
اپنے گرو… رام گورمیت سنگھ کے کارنامے دیکھ لو… تمہیں اپنے بابا سائی ستیہ مہاراج
پر بڑا فخر ہے… وہ مر گیا تو اس کے کمرے کی الماری سے منوں کے حساب سے چھپایا ہوا
سونا ملا … کہاں ٹیپو سلطان اور کہاں تم… ظالمو! چاند پر تھوک رہے ہو… اسی لئے
تمہارا منہ تمہاری تھوک سے بدبودار ہو رہا ہے… تمہاری پوری تاریخ بانجھ ہے… شرمناک
ہے… اور تمہارے دامن میں سوائے گالیاں دینے کے اورر کھا ہی کیا ہے؟
مہربانی فرما کر صفائی نہ دیں
حضرت ٹیپو سلطان شہید رحمہ اللہ … کو {بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ } کی برکت حاصل
تھی… یہ مبارک کلام {بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} خیر و برکت کی چابی ہے… سلطان نے اپنے پاکیزہ
بچپن میں ہی اس مبارک کلام {بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} کے راز کو سمجھ لیا تھا… اسی لئے محض اڑتالیس
سال کی زندگی میں… صدیوں کا کام کر گئے… وہ اپنے ہر حکمنامہ اور ہر بات سے
پہلے {بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ } پڑھنے اور لکھنے کے عادی تھے…{بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ} نے اُن کے کام اور اوقات کو
برکت سے بھر دیا تھا… وہ ۲۰ ذو الحجہ بروز جمعہ 2 نومبر 1750ء کو پیدا ہوئے… پانچ سال
کی عمر سے قرآن مجید ، عربی اور فارسی کی تعلیم شروع ہو گئی… 1782ء میں اپنے
والد محترم جناب حیدر علی کی وفات کے بعد…وہ اس سلطنت کے فرمانروا بنے…جس سلطنت
کانام ’’ مملکت خداداد‘‘ تھا … انہوں نے ’’بادشاہت‘‘ کو عہدہ نہیں … اللہ تعالیٰ
کی امانت سمجھا… اس لئے عیاشی تو دور کی بات انہوں نے اپنے سترہ سالہ دور حکومت
میں … کبھی جی بھر کر آرام تک نہیں کیا… وہ صاحب علم بھی تھے اور صاحب عمل بھی…
وہ صاحب دل بھی تھے اور صاحب فراست بھی… وہ صاحب تلوار بھی تھے اور صاحب قلم بھی…
انہوں نے اپنی تلوار سے جہادی معرکے لڑے تو اپنے قلم سے … مجاہدین کے لئے ایک
آئین مرتب کیا… اور اس پر ’’فتح المجاہدین‘‘ کے نام سے پوری ایک کتاب لکھی… اللہ
کرے وہ کتاب کہیں سے مل جائے اور ہم اسے دوبارہ شائع کر سکیں… سلطان ٹیپو شہید
رحمہ اللہ کے کارناموں کی تفصیل اس قدر
زیادہ ہے کہ… اب تک درجنوں کتابیں ان کے بارے میں لکھی جا چکی ہیں مگر ابھی تک… ان
کی سوانح کا حق ادا نہیں ہوا… حق ادا بھی کیسے ہو… ایسا عقلمند ، ذہین، بہادر
بادشاہ جو اپنے سامنے اپنے پانچ معاونین کو بٹھا کر … ہر ایک کو الگ الگ احکامات
اور فرامین لکھواتا تھا… اور اس دوران اُن پانچوں کا قلم نہیں رکتا تھا…ایسا بہادر
جو اپنی آخری جنگ میں بھی… ایسی شان سے لڑا کہ اُس کی لاش کو دیکھ کر… دشمن رعب
زدہ ہو گئے… شہادت کے بعد بھی سلطان کا ہاتھ اپنی تلوار کے قبضے پر مضبوطی سے جما
ہوا تھا… اور تمام زخم سینے پر لگے تھے… اُمت مسلمہ کا ایسا خادم کہ جس نے اپنی
سلطنت میں مساجد اور تعلیم گاہوں کا وسیع نظام قائم کر دیا… ایسا زیرک کہ جس نے
روئے زمین پر سب سے پہلے میزائل اور راکٹ ایجاد کیا… ایسا سمجھدار کہ اس نے اپنے
خطے میں آب پاشی کے نظام کو ایک مثالی شکل دے دی… کل میں ایک رپورٹ میں پڑھ رہا
تھا کہ …مودی کی مقبولیت تیزی سے کم ہو رہی ہے… اور اس کی پالیسیوں نے انڈیا کی
معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے … جبکہ حضرت ٹیپو سلطان شہید رحمہ اللہ کی مقبولیت کا سترہ سالہ حکومت کے بعد بھی یہ
عالم تھا کہ… جب اُن کا جنازہ اُٹھایا گیا تو لاکھوں انسان بلک بلک کر رو رہے تھے…
پھر آسمان بھی اُن کے ساتھ رونے میں شریک ہو گیا … ایسے بادل گرجے ، ایسی بجلی
کڑکی اور ایسی موسلا دھار بارش برسی کہ… پہلے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے… ہمیں فخر
ہے کہ حضرت ٹیپو سلطان مومن تھے، مسلمان تھے… مجاہد تھے… اور بالآخر شہید ہوئے۔
آج ہندوستان میں کئی مسلمان… حضرت اورنگ زیب عالمگیر رحمہ
اللہ اور حضرت ٹیپو سلطان شہید رحمہ اللہ کی صفائی دینے کے لئے کھڑے ہو جاتے
ہیں… اور نعوذ باللہ ان عظیم المرتبت مجاہدین کو ’’گاندھی‘‘ بنا کر دم لیتے ہیں…
ٹھیک ہے آج ’’ہند‘‘ کے مسلمان بہت مجبور اور بے بس ہیں…مگر اُن کو یہ تو زیب نہیں
دیتا کہ… اپنے اسلاف کے جہاد کا ہی انکار کر دیں… اور اُن کو بھی ’’فاختہ‘‘ بنا کر
پیش کریں… یا ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے عصر حاضر کے مسلمان مجاہدین کو ’’دہشت
گرد‘‘ کہنے لگیں … عمران پرتاب گڑھی جیسے کچھ شعراء اور کئی مسلمان سیاستدان… بی
جے پی کے خلاف بول کر مسلمانوں کی توجہ حاصل کرتے ہیں… لیکن جب وہ اپنے اسلاف کی
’’صفائی‘‘ دینے پر آتے ہیں… اور جس انداز میں وہ اُن کے کارناموں کومسخ کرتے ہیں…
اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے… ہندوستان کے مسلمانوں کی ’’ بے بسی‘‘ عارضی ہے… یہ
ان شاء اللہ بہت جلد ختم ہو جائے گی… جبکہ ہماری تاریخ اور ہمارے اسلاف کے کارنامے
اٹل ہیں…اُن کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہے… اسلام ہمیشہ سے اقلیتوں پر ظلم کا مخالف
ہے… صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ سے لے کر
ٹیپو سلطان رحمہ اللہ تک… مسلمان حکمرانوں
نے… نہتے غیر مسلموں پر کبھی ہاتھ نہیں اُٹھایا…مگر جو اُن کے مقابلے میں اُترا
اسے انہوں نے بخشا بھی نہیں … اورنگ زیب عالمگیر کی شیواجی سے لڑائی جہاد
تھا…سیاسی جنگ نہیں… ٹیپو سلطان نے بھی ہندو رعایا کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کیا… مگر
وہ مجاہد تھا اور اسلام کا خادم…اگر ہندوستان کے موجودہ شعراء اور سیاستدانوں میں…
اپنے اسلاف کے کارناموں کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہے تو… کوئی بات نہیں…مگر
اتنی گزارش ضرور ہے کہ… آپ اُن حضرات کی ایسی صفائیاں نہ دیں کہ جن سے… آپ کو
’’روز محشر‘‘ اللہ تعالیٰ کے حضور … اور اُن حضرات کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے… آپ
قرآن مجید کی روشنی میں… اپنے ’’ہند‘‘ کے اسلاف کی تاریخ پڑھیں… پھر اسے بیان کر
سکیں تو آپ کو بڑا اجر ملے گا… لیکن اگر بیان نہیں کر سکتے تو اتنا رحم ضرور
کھائیں کہ اُن کی غلط صفائیاں نہ دیں… وہ الحمد للہ صاف ہیں … باکردار ہیں … نہ وہ
مودی جیسے تھے… اور نہ ایڈوانی جیسے … یہ تو بس چند دن کا غبار ہے جو ان شاء اللہ
بہت جلد چھٹ جائے گا۔
مسلم ہندی کا حجازی رنگ
ہندوستان کے ایک وزیر نے… حضرت ٹیپو سلطان شہید رحمہ اللہ کی شان میں گستاخی بکی تو آج… قلم حضرت ٹیپو
شہید رحمہ اللہ کے بوسے لینے لگا… ارادہ
تھا کہ بہت تفصیل سے اُن کے بارے میں لکھوں گا … مگر اچانک خون گرم ہو گیا ہے… خون
گرم ہو تو ہاتھ کپکپانے لگتے ہیں… اللہ تعالیٰ ’’ہند‘‘ میں جہاد کو زندہ فرمائے…
بس مزید کیا لکھوں … ایک شاعر نے حضرت ٹیپو سلطان رحمہ اللہ کی شان میں چند اشعار کہے ہیں… بہت گہرے اور
معنٰی خیز اشعار ہیں… اُنہی پر… اپنی آج کی مجلس کا اختتام کرتے ہیں… غور سے
پڑھیں اور معانی سمجھنے کی کوشش کریں؎
اے شہیدِ مرد میدانِ وفا تجھ پر سلام
تجھ پہ لاکھوں رحمتیں لا انتہا تجھ پر سلام
ہند کی قسمت ہی میں رسوائی کا سامان تھا
ورنہ تو ہی عہد آزادی کا اک عنوان تھا
اپنے ہاتھوں خود تجھے اہل وطن نے کھو دیا
آہ کیسا باغباں شام چمن نے کھو دیا
بت پرستوں پہ کیا ثابت یہ تو نے جنگ میں
مسلم ہندی قیامت ہے حجازی رنگ میں
عین بیداری ہے یہ خواب گراں تیرے لئے
ہے شہادت اک حیات جاوداں تیرے لئے
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور… 616
ملک کے اصل دشمن
* اگست
1947ء میں انگریز سے ’’آزادی‘‘ پانے والا پاکستان ابھی تک ’’سیاسی‘‘ طور پر
انگریز ہی کا غلام ہے… آخر کیوں؟
* انگریز
کی غلامی کو ’’باعث فخر‘‘ سمجھنے والے حکمران طبقے نے ملک کی حقیقی آزادی کو
یرغمال بنایا ہوا ہے…
* انگریز
کے ان بے دام غلاموں نے ملک عزیز کو لوٹ لوٹ کر کھوکھلا کر دیا ہے…
’’لٹیرے
انگریز‘‘ کے ’’بدمعاش غلاموں‘‘ کا مکروہ چہرہ عیاں کرتی ایک تحریر
تاریخ
اشاعت:
۱۳ صفر المظفر ۱۴۳۹ ھ/ بمطابق 3 نومبر 2017ء
ملک کے اصل دشمن
اللہ تعالیٰ’’ غلاموں‘‘کی غلامی سے ہماری حفاظت فرمائے…اُمت
مسلمہ کو مکمل دینی، اسلامی ، ذہنی اور جسمانی آزادی عطاء فرمائے۔
اگست 1947ء
کہا جاتا ہے کہ…وہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا…شمسی حساب سے
اگست 1947ء کی چودہ تاریخ تھی…پاکستان’’ آزاد‘‘ ہو گیا… کس سے آزاد ہوا؟ انگریز
سے آزاد ہوا… انگریز برطانیہ، لندن سے چل کر آئے تھےاور اُنہوں نے ہندوستان پر
قبضہ کر لیا تھا… ہندوستان کے مسلمانوں نے جدوجہد کی… تاکہ انگریز سے آزادی ملے…
انگریزی اقتدار میں مسلمان غلام تھے… محکوم تھے… انگریز نے اُن سے حکومت چھینی
تھی… انگریزی اقتدار مسلمانوں کے لئے نفرت کا نشان تھا… بالآخر آزادی مل گئی…
انگریز چلا گیا … اپنے ہم رنگ، ہم شکل اور ہم مذہب لوگوں کی حکومت آ گئی… مگر
ہمارا یہ حکمران طبقہ واپس برطانیہ اور لندن کی طرف دوڑا… یہ لوگ انگریز کی غلامی
کو سعادت سمجھتے ہیں… اس کی زبان میں اپنی شان محسوس کرتے ہیں…اس کی تہذیب میں
اپنی ترقی دیکھتے ہیں… اور آج تک اسی کو اپنا آقا سمجھتے ہیں…علامہ اقبال رحمہ
اللہ کی مشہور نظم ہے… کہ ایک دیوانہ حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار اقدس پر حاضر ہو کر رو رو کر کہہ رہا
تھا؎
یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں
یعنی ہمارے یہ رہبر اور لیڈر جنہوں نے… مغرب کو اپنا قبلہ
بنا رکھا ہے… یہ ہزار ہماری رہبری کا دعویٰ کریں…مگرہماراان سے کیا واسطہ ؟…اُنہوں
نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو چھوڑ رکھا ہے۔
اکتوبر 2017ء
آج اکتوبر 2017ء کا زمانہ چل رہا ہے … جس ملک نے لاکھوں
افراد کی قربانی دے کر برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی… آج اس ملک کے تمام فیصلے
’’برطانیہ‘‘ میں ہو رہے ہیں…کل برطانیہ کے شہر ’’لندن‘‘ میں پاکستان کی حکمران
پارٹی کا اجلاس تھا… ملک کا وزیراعظم بھی وہاں تھا اور سابقہ وزیر اعظم بھی… ملک
کے دو صوبوں کے وزراء اعلیٰ بھی لندن میں تھے… اور بھی کئی لیڈر… اُن میں سے جو
پاکستان کا سب سے زیادہ درد رکھنے والا لیڈر ہے… اس کی لندن میں اربوں روپے کی
جائیداد ہے… پاکستان کی عوام کے پیسے سے یہ جاگیر خریدی گئی ہے… اور بھی کئی
لیڈروں کی ’’لندن‘‘ میں قیمتی جائیداد ہے… یہ لوگ پاکستان کے ’’حکمران ‘‘ ہیں… مگر
جائیداد برطانیہ میں بناتے ہیں… یہ اپنا حکم پاکستان میں چلاتے ہیں… مگر نوکری
چاکری انگریز کی کرتے ہیں…یہ کماتے پاکستان سے ہیں اور خرچ برطانیہ میں کرتے ہیں
…یہ لوٹتے پاکستان کو ہیں جبکہ آباد برطانیہ کو کرتے ہیں… ان کو اگر علاج کرانا
ہو تو برطانیہ میں کراتے ہیں… ان کو اگر پیسہ چھپانا ہو تو وہ بھی برطانیہ میں
چھپاتے ہیں… ان کو اگر اجلاس کرنا ہو تو وہ بھی برطانیہ میںکرتے ہیں… یہ پاکستان
میں ہوتے ہیں تو شیر اور بھیڑیئے بن کر ظلم برساتے ہیں… مگر جب برطانیہ کے ائیر
پورٹ پر اُترتے ہیں تو ’’بھیڑ‘‘ بن جاتے ہیں… یہ برطانیہ کے دماغ سے سوچتے ہیں…
برطانیہ کا لباس پہنتے ہیں… برطانیہ کی زبان بولتے ہیں… اور برطانیہ کو ہی اپنا
ماں باپ سمجھتے ہیں…افسوس کہ… برطانیہ کے یہ موذی غلام… ہمارے حکمران ہیں… یا اللہ
!ہم پر رحم فرما اور غلاموں کی غلامی سے ہماری حفاظت فرما۔
لٹیرے کے بدمعاش
انگریز جب برصغیر میں ایک تاجر کے روپ میں آیا تو یہاں
مسلمانوں کی حکومت تھی… شاطر انگریز نے… ایسٹ انڈیا کمپنی کی آڑ میں… سازشوں کا
جال بچھایا اور ’’ہندوؤں ‘‘ کو اپنے ساتھ ملا کر… مسلمانوں کے اقتدار کو سمیٹنا
شروع کر دیا… بہت طویل اور دردناک داستان ہے … بالآخر انگریز نے برصغیر پر قبضہ
کر لیا…انگریز کے خلاف کئی تحریکیں اُٹھیں… ہزاروں مسلمان شہید ہوئے … انگریزوں نے
ظلم و بربریت کی ایک تاریک داستان رقم کی… وہ سب اپنی جگہ… مگرایک اہم بات یہ ہے
کہ انگریز فطری طور پر ایک’’ لٹیرا‘‘ ایک ’’ڈاکو‘‘ اورایک ’’حریص چور‘‘ ہے… آپ
فرنگی کی مکمل تاریخ پڑھ لیں… خلاصہ یہی نکلے گا کہ… فرنگی دراصل ایک
’’لٹیرا‘‘ ایک’’ ڈاکو‘‘ اور ایک’’ چور‘‘
ہے…چنانچہ جہاں بھی انگریزوں نے حکومت کی… وہاں لوٹ مار مچائی اور وہ لوٹ کا مال
برطانیہ بھیجتے رہے… برطانیہ میں نہ زیادہ تیل نکلتا ہے اور نہ گیس… نہ وہاں کوئی
بہت بڑی زراعت ہے… اور نہ زیر زمین بڑی بڑی کانیں … وہ بس سردی اور بارش سے جما
ہوا ایک بے رونق خطہ ہے… نہ موسم اچھا نہ زمین اچھی… مگر لوٹ مار کے مال سے
انگریزوں نے اسے دنیا کا آباد ترین اور مالدار ترین ملک بنا دیا ہے… انگریز جب
برصغیر سے جا رہا تھا تو اس نے یہاں کا اقتدار… اپنے اُن نوکروں اور بدمعاشوں کے
سپرد کرنے کا انتظام کر دیا… جو انگریز کے زمانے میں… انگریز کی مکمل چاکری کرتے
تھے… چنانچہ آج یہ حالت ہے کہ… ہمارے ملک کا اکثر پیسہ خود بخود انگریز کی جیب
میں پہنچ جاتا ہے… بلکہ شاید انگریز نے اپنے دور حکومت میں اس ملک کو اتنا نہ لوٹا
ہو… جتنا کہ آج انگریز کے ’’کن ٹٹے ‘‘ بدمعاش اس ملک کو لوٹ کر… یہاں کا مال
انگریز کو پہنچا رہے ہیں … دو دہائیوں تک… کراچی کے تقریباً ہر تاجر سے بھتہ وصول
کیا جاتا تھا… اور یہ ساری رقم … ایم کیو ایم کے گرو کو ’’برطانیہ‘‘ میں بھیج دی
جاتی تھی … اور یوں غریب پاکستانیوں کا مال… برطانیہ کی معیشت کا خون بن جاتا تھا…
پھر پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو ان کا رخ بھی برطانیہ کی طرف رہا…پاکستان کی
عوام کا مال…دھڑادھڑ برطانیہ پہنچتا رہا… جس سے وہاں محلات خریدے گئے…اور پھر نون
لیگ نے تو … برطانیہ ہی کو اپنا ’’قبلہ‘‘ بنا لیا … کتنے شرم کی بات ہے کہ ایک شخص
پاکستان کا وزیراعظم بنا ہوا تھا… اور وہ خود کو اس ملک کا مالک سمجھتا تھا… مگر
اس کے دونوں بیٹے برطانیہ میں کاروبار کر رہے تھے… اور برطانیہ میں دھڑا دھڑ
جائیدادیں اور جاگیریں خرید رہے تھے… اور جب اس شخص کو ’’نا اہل‘‘ قرار دے کر نکال
دیا گیا تو وہ سیدھا برطانیہ جا پہنچا… اور آج برطانیہ میں پاکستان کی سیاست اور
حکومت کے فیصلے ہو رہے ہیں… سر سے پاؤں تک انگریز کی غلامی میں جکڑے ہوئے… ان بے
ضمیر لوگوں سے خیر کی کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ … اقبال رحمہ اللہ کہتے ہیں؎
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا
آخر کب تک
ہمارے ملک میں روز نئے قوانین بن رہے ہیں… کبھی مدارس کے
خلاف اور کبھی مساجد کے خلاف… کبھی ختم نبوت کے خلاف تو… کبھی ملک میں بڑھتی ہوئی
دینداری کے خلاف…پوری پارلیمنٹ بیٹھ کر … کئی دنوں میں یہ قانون بناتی ہے کہ… ایک
’’نا اہل‘‘ شخص کو سیاسی پارٹی کا صدر بنایا جا سکتا ہے… لیکن آج تک ہماری
پارلیمنٹ یہ قانون نہیں بنا سکی کہ… پاکستان کا حکمران صرف وہی شخص بن سکتا ہے جو
مکمل پاکستانی ہو… جو پورا مسلمان ہو… آج آپ پاکستان کے اُن سابقہ حکمرانوں کو
تلاش کریں جو زندہ ہیں… یہ سب آپ کو یورپ ، امریکہ اور برطانیہ میں ملیں گے… آخر
اس ملک کے ساتھ ایسا بدنما مذاق کیوں کیا جا رہا ہے؟کیا ملک میں یہ قانون نہیں بن
سکتا کہ… پاکستان کا حکمران صرف وہ شخص ہو گا… جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان
میں رہتا ہو اوریہ آئندہ پوری زندگی پاکستان میں رہے گا… اور وہ بیرون ملک کوئی
جائیداد نہیں خریدے گا… اور وہ اپنا اور اپنے اہل خانہ کا علاج پاکستان ہی
میںکرائے گا؟
آخر ایسے لوگوں کو ہم پر حکمرانی کا کیا حق ہے جو… اس ملک
میں رہنا بھی گوارہ نہیں کرتے… یہاں اپنا علاج بھی نہیں کراتے… اور یہاں کا مال
لوٹ کر استعماری ممالک میں خرچ کرتے ہیں…یہی لوگ پاکستان کی ’’بد امنی‘‘ کے اصل
ذمہ دار ہیں… یہی لوگ پاکستان کی غربت کا اصل سبب ہیں… اور یہی لوگ اس ملک کے لئے…
ہر دہشت گرد سے بڑے دہشت گرد ہیں… یہ جب دشمن ملکوں میں اپنے بچے اور اپنی
جائیدادیں رکھتے ہیں تو پھر… یہ ان ملکوں کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں… یہ وہاں کی
پالیسیاں ہم پر نافذ کرتے ہیں… اور اُن کے دباؤ میں ہم پر مظالم ڈھاتے ہیں… اللہ
تعالیٰ ان ظالموں اور غلاموں کی… غلامی سے ہماری حفاظت فرمائے۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور… 617
بَلْ اَحْیَاء
* یقین
بڑی نعمت…
* جمعہ
کی پہلی اذان کے بعدہر وہ کام ناجائز ہو جاتا ہے جو جمعہ نماز میں جانے کے
لئے رکاوٹ بنے…
* شہداء
کے لئے خصوصی انعامات…
* چمکتی،
مسکراتی اور نور یقین سے دمکتی پیشانی والے پھول…
* شوق
شہادت سے سرشار اور دیدار الٰہی کے لئے بے قرار ایک دیوانے کی یادیں…
* ہمیشہ
ہمیشہ کی زندگی پانے کا راز…
حضرت
مولانا طلحہ رشید شہید رحمہ اللہ کی
یادوں کو مہکاتی اور فلسفۂ شہادت سمجھاتی ایک پرنور تحریر
تاریخ
اشاعت:
۲۰ صفر المظفر ۱۴۳۹ھ / بمطابق 10 نومبر 2017 ء
بَلْ اَحْیَاء
اللہ تعالیٰ ہمیں ’’یقین‘‘ کی دولت عطاء فرمائیں… اللہ
تعالیٰ کی ذات کا یقین… اللہ تعالیٰ کی باتوں کا یقین…اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا
یقین… ہاں بے شک!یقین بڑی نعمت ہے… اور بے یقینی بڑا وبال…
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ اِیْمَانًا دَائِمًا
وَّیَقِیْنًا صَادِقًا۔
دیوانہ چھا گیا
جمعۃ المبارک کے دن … جمعہ نماز کی پہلی اذان ہوتے ہی
’’خرید و فروخت‘‘ ناجائز ہو جاتی ہے… صرف خرید و فروخت ہی نہیں بلکہ… ہر وہ کام جو
جمعہ نماز کے لئے جانے میں رکاوٹ بنے… گپ شپ ہو یا کھیل کود… نیند ہو یا مطالعہ
…یاکچھ بھی… جمعہ کی اذان کے بعد سب ناجائز … اب ایک ہی کام کرنا ہے… اور وہ ہے
جمعہ نماز کے لئے لپکنا… یعنی اہتمام و شوق سے جانا… یہ بڑا اہم مسئلہ ہے… آج اسی
پر لکھنے کا ارادہ تھا… کئی فتاویٰ اور حوالے بھی جمع کر رکھے تھے… مگر ایک
’’دیوانہ‘‘ دل و دماغ پر چھا گیا… اور اس نے خیالات سے لے کر آنسوؤں تک ہر جگہ
اپنی حکومت قائم کر لی… پھر کوئی اور موضوع کس طرح یاد رہتا؎
سب کچھ لٹا کے راہِ محبت میں اہلِ دل
خوش ہیں کہ جیسے دولتِ کونین پا گئے
صحنِ چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آگئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے
جگر مرحوم نے بالکل درست فرمایا؎
میں ہوں دیوانۂ بے کس کہ جب گلشن میں جا نکلا
تو اک شورِ قیامت ہو گیا برپا عنادل میں
اللہ تعالیٰ ہمیں یقین نصیب فرمائے… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’شہید کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں
چھ خصوصی انعامات ہیں:
١ خون
کے پہلے قطرے کے ساتھ اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے اور جنت میں اس کا مقام اس کو
دکھلا دیا جاتا ہے۔
٢
اسے عذاب قبر سے
بچا لیا جاتا ہے۔
٣
قیامت کے دن کی
بڑی گھبراہٹ سے وہ محفوظ رہتا ہے۔
٤ اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے جس کا
ایک یاقوت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔
٥
بہتّر(۷۲ )حورعین سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے۔
٦ اور
اس کے اقارب میں ستر کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔‘‘
[سنن ترمذی۔حديث رقم: ۱۶۶۱، ناشر:دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
سبحان اللہ !کیسے بلند فضائل ہیں… اور کیسے اونچے مقامات…
جن کو یقین ہے وہ پالیتے ہیں… اور اُن کا راستہ ہی اُن کی منزل بن جاتا ہے… اسی
لئے ’’دیوانے‘‘ کامیاب رہتے ہیں؎
یوں تو ہونے کو گلستاں بھی ہے ویرانہ بھی ہے
دیکھنا یہ ہے کہ ہم میں کوئی دیوانہ بھی ہے
حاصلِ ہر جستجو آخر یہی نکلا جگر
عشق خود منزل بھی ہے ، منزل سے بے گانہ بھی ہے
جان بے قرار
ابھی صرف اکیس دن پہلے ایک مجلس سجی… اس میں کلمہ طیبہ،
نماز اور جہاد کی دعوت کے ساتھ ’’شہادت‘‘ بھی بیان ہوئی… شہید کی زندگی، شہداء
کرام کی حیات… اور قرآن مجید کا اعلان {بَلْ اَحْیَاءٌ} اس مجلس میں وہ
’’دیوانہ‘‘ بھی تھا اور بھی بہت سے ’’دیوانے تھے‘‘… چمکتی ، مسکراتی … نور یقین سے
دمکتی…سچے آنسوؤں سے بھیگتی آنکھیں… اور انتظار کی گرم گرم آہیں… پھر ایک رات
وہ ملنے آ گیا اور سینے سے لپٹ گیا… میں جا رہا ہوں؎
پھر دل ہے قصد کوچۂ جاناں کیے ہوئے
رگ رگ میں نیشِ عشق کو پنہاں کیے ہوئے
پھر عزلتِ خیال سے گھبرا رہا ہے دل
ہر وسعتِ خیال کو زنداں کیے ہوئے
پھر چشم شوخ دیر سے لبریز شکوہ ہے
قطروں کو موج، موج کو طوفاں کیے ہوئے
پھر جان بے قرار ہے آمادۂ فغاں
سو حشر اک سکوت میں پنہاں کیے ہوئے
پھر کیف بے خودی میں بڑھا جا رہا ہوں میں
سب کچھ نثار شوقِ فراواں کیے ہوئے
’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں
گے تم میرے ان دوستوں کو لے آؤ جنہوں نے میری رضا کے لئے اپنا خون بہایا تھا،
پھر شہداء آئیں گے اور قریب ہو جائیں گے۔‘‘
[ کتاب الجہاد لابن مبارک۔ص:۸۲،رقم الحدیث:۴۲،ناشر:دار المطبوعات الحدیثیہ ۔جدہ]
سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کے قریب… اللہ تعالیٰ کے دوست…
اللہ تعالیٰ کے پیارے… دیوانوں کو ان کی دیوانگی مبارک ہو؎
واہ رے شوق شہادت! کوئے قاتل کی طرف
گنگناتا،رقص کرتا، جھومتا جاتا ہوں میں
میری ہستی شوق پیہم، میری فطرت اضطراب
کوئی منزل ہو مگر گذرا چلا جاتا ہوں میں
زندگی کی تلاش
زندگی یعنی ’’ حیات‘‘ بڑی نعمت ہے… دنیا اور آخرت کی ہر
نعمت اسی ایک نعمت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے… اگر زندگی نہ ہو تو… پھر کچھ بھی نہیں
ہوتا… اللہ تعالیٰ نے ’’انسان‘‘ کو زندگی بخشی… جب انسان نے زندگی دیکھی تو اس کا
عاشق ہو گیا … جان ہے تو جہان ہے۔
انسان جانتا ہے کہ… وہ موت سے نہیںبچ سکتا… مگر پھر بھی وہ
یہی کوشش کرتا رہتا ہے کہ اس کی زندگی قائم رہے … باقی رہے… ماضی کے لوگوں نے طرح
طرح کی دوائیاں بنائیں… طرح طرح کے وظیفے کئے… اور اب سائنسدان اسی کوشش میں لگے
ہوئے ہیں کہ … انسان کس طرح زیادہ سے زیادہ لمبی زندگی پا لے… مگر ابھی تک کوئی
کوشش کامیاب نہیں ہو سکی… انسان نے ہر حال میں مرنا ہی ہوتا ہے… مصر کے فرعونوں نے
اپنی لاشیں محفوظ رکھنے کی دوائیاں ایجاد کی… اُن کا خیال تھا کہ… جسم اور روح میں
گہرا رشتہ ہے …دونوں سالہا سال اکٹھے رہے ہیں… اب ’’روح‘‘ اس ’’جسم‘‘ سے روٹھ کر
چلی گئی ہے… لیکن اگر جسم سلامت رہا تو کسی دن ’’روح‘‘ واپس آ جائے گی… لوگ دنیا
میں شادیاں کرتے ہیں… تاکہ اولاد ہو… اور اولاد اپنی زندگی کا حصہ ہوتی ہے… اولاد
اور نسل چلتی رہے گی تو گویا کہ انسان کی زندگی چلتی رہے گی … کئی لوگ یادگار عمارتیں
بناتے ہیں کہ… ان عمارتوں کے ذریعہ ان کا نام زندہ رہے گا… خلاصہ یہ کہ… انسان
زندگی کے پیچھے دوڑ رہا ہے … مگر اپنی محدود عقل کی وجہ سے ابھی تک… موت کو شکست
دینے کا رازوہ معلوم نہیں کر سکا… انسان بے چارہ ہے بھی کتنا سا؟…پانچ چھ فٹ کا
ایک کمزور سا ڈھانچہ… جبکہ کائنات بہت بڑی ہے… اتنا بڑا آسمان، اتنی بڑی زمین…
بڑے بڑے سمندر اور پہاڑ… سورج اور چاند… انسان ابھی تک اپنی زمین کو پورا نہیں
دیکھ سکا… جبکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں… زمین سے بڑے بڑے سیارچے، ستارے اربوں
کھربوں کی تعداد میں موجود ہیں… سائنسدان ابھی تک ان ستاروں کی گنتی نہیں کر سکے
جو نظر آ رہے ہیں… مگر وہ کتنے ہوں گے جو نظر نہیں آ رہے؟…
اتنی بڑی کائنات… اتنا وسیع نظام… نہ انسان اس کے بارے میں
سوچ سکتا ہے اور نہ اندازہ لگا سکتا ہے… پھر اللہ تعالیٰ جو اس کائنات کا خالق ہے…
وہ کتنا عظیم ہوگا؟… اللہ اکبر کبیرا …اسی اللہ تعالیٰ نے موت بھی بنائی اور زندگی
بھی …اور یہ فیصلہ سنا دیا کہ ہر زندہ نے ضرور مرنا ہے … پھر موت سے کون بچ سکتا
ہے؟ … موت کو کون شکست دے سکتا ہے؟… فرعونوں کی لاشیں دوبارہ زندہ نہ ہو سکیں…
البتہ لوگوں کے ہاتھ کا کھلونا بن گئیں… فاتحین کی یادگاریں اور عمارتیں… طوفانوں
اور زلزلوں نے گرا دیں … اب وہی ’’رب کائنات‘‘ اپنی سچی کتاب میں… زندگی کا راز
بیان فرماتا ہے کہ … میرے راستے میں جان دے دو… اور مجھ سے ’’زندگی‘‘ لے لو … بس
موت کو شکست دینے کا یہی ایک طریقہ ہے… شہادت فی سبیل اللہ … اسی لئے قرآن مجید
میں دو جگہ بڑی تاکید کے ساتھ فرما دیا… {بَلْ اَحْیَاءٌ} کہ شہید زندہ ہے … یہ
کوئی اعزازی اعلان نہیں… بلکہ انعامی اور حقیقی اعلان ہے… پھر مزید تاکید کے لئے
فرمایا کہ… وہ اللہ تعالیٰ کا رزق بھی کھا پی رہے ہیں … برزخ کی روحانی زندگی
کھانے پینے کی محتاج نہیں… مگر یہ شہید کی الگ اور خاص زندگی ہے جس میں وہ کھاتا
پیتا بھی ہے… شہداء کی غمزدہ ماؤں کو… کیسی عظیم خوشخبری ہے… تم یہی چاہتی تھیں
کہ تمہارا بیٹا اچھا کھائے، اچھا پیے… وہ دیکھو! {عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ}
… وہ اپنے رب کا رزق کھا پی رہا ہے… ایسا رزق تم تو انہیں نہیں دے سکتی تھیں… پھر
ساتھ مزید تاکید کے لئے … یہ بھی فرما دیا کہ وہ بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے
ہیں… {بَلْ اَحْیَاءٌ} … {بَلْ اَحْیَاءٌ} … وہ زندہ ہیں… وہ زندہ ہیں… معلوم ہوا
کہ… موت اُن پر آئی مگر شکست کھا گئی اور ان کے لئے زندگی بن گئی… شہید کے مرنے
کا انکار نہیں … وہ ضرور مرا ہے… مگر اس کے مردہ ہونے کا انکار ہے کہ … وہ موت
آنے کے بعد مردہ نہیں ہوا… انہیں مردہ کہو گے تو قرآن کے نافرمان… انہیں مردہ
سمجھو گے تو قرآن کے نافرمان… تو پھر ہم انہیں کیا سمجھیں…فرمایا:{بَلْ
اَحْیَاءٌ} … وہ زندہ ہیں…انہیں زندہ مانو… انہیں زندہ سمجھو…ہاں! ان کی یہ زندگی…
تمہاری محدود عقل سے سمجھی نہیں جا سکتی… مگر تم نے نہ عرش دیکھا… نہ کرسی… مگر
یقین رکھنا ضروری ہے کہ… عرش بھی ہے اور کرسی بھی… پس اسی طرح یہ یقین رکھنا لازمی
ہے کہ… شہید زندہ ہے… دیوانے کو سلام… دیوانے کو پیار… اس کے ہم سفر اور ہم منزل
کو سلام۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
رنگ و نور … 618
اِلٰی ذِکْرِ اللہِ
* اللہ
تعالیٰ کی ایک پیاری صدا: فَاسْعَوْا
اِلٰی ذِکْرِ اللہِ۔
* جمعۃ
المبارک کی پہلی اذان ہوتے ہی خرید وفروخت اور ہر وہ کام شرعاً ممنوع ہوجاتا ہے
جو’’ سعی الیٰ الجمعہ‘‘ میں خلل ڈال سکتا ہو… اور جمعہ کی نماز کے لئے جانا واجب
ہوجاتا ہے۔
* اللہ
تعالیٰ کے اس حکم کے بارے میں پھیلی ہوئی خوفناک غفلت اور اس کے اسباب…
* ’’خیر‘‘
پانے کا ایک بڑا دروازہ جمعہ کیلئے جلد جانا…
* اُمت
کے پہلے لوگوں کا’’جمعہ نماز‘‘ کے بارے میں شاندار مزاج اور اس کی چند
مثالیں…
* اُمت
میں ایجاد ہونے والی پہلی بدعت جمعہ میں سستی اور غفلت ہے…
اقامت جمعہ پر ابھارتی اور غفلت کے پردے چاک
کرتی ایک پر تاثیر تحریر
تاریخ
اشاعت:
۲۷ صفر المظفر ۱۴۳۹ھ/ بمطابق 17نومبر 2017 ء
الٰی ذِکْرِ اللہِ
اللہ تعالیٰ کیا فرما رہے ہیں؟ اے اللہ کے پیارو! … اللہ
تعالیٰ کی رضاء کے طلبگارو!… اللہ تعالیٰ کے وفادارو!سنو، سنو! اللہ تعالیٰ تمہیں
آواز دے کر پکار رہے ہیں:
{یٰااَیُّھَا الَّذِیْنَ
آمَنُوْا}
’’اے ایمان والو!‘‘
اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہے:
’’ اے اللہ تعالیٰ سے شدید محبت
رکھنے والو!‘‘
{وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَشَدُّ
حُبًّا لِلّٰہِ} [البقرۃ :۱۶۵]
یہ اٹھائیسواں پارہ ہے… سورۃکا نام ’’سورۃ
الجمعہ‘‘ ہے… ارشاد فرمایا:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی
ذِکْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ط
ذٰلِکُمْ خَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ}
ترجمہ:’’ اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دی
جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے حق میں بہتر
ہے اگر تم کو سمجھ ہے۔‘‘ [الجمعہ ۔آیت: ۹]
اس آیت مبارکہ سے پہلے یہودیوں کا تذکرہ ہے… اُن کے پاس
علم بہت تھا، بہت سی باتیں سمجھتے بوجھتے تھے… مگر عمل میں بہت پیچھے تھے… اس گدھے
کی طرح جس پر کتابیں لدی ہوں… مگر اسے اُن کتابوں کا کیا فائدہ؟ … وجہ یہ تھی کہ…
یہودی دنیا پرست تھے… مال کے لالچی اور حریص … زبان سے دینداری اور اللہ تعالیٰ کی
محبت کے دعوے بہت کرتے تھے… مگر دنیا کی حرص اور لالچ کی وجہ سے دین کی خاطر کوئی
قربانی نہیں دیتے تھے …یہاںتک کہ دنیا کے دھندوں میں مشغول ہو کر اللہ تعالیٰ کی
سچی یاد سے بھی غافل ہو جاتے تھے… اس آیت میں مسلمانوں کو سمجھایا گیا کہ…
یہودیوں کی طرح مت بننا… اور جمعہ کے دن کی عبادت کی بہت قدر کرنا… جب جمعہ کی
اذان ہو جائے تو فوراً مسجد میں پہنچ جانا، خاموشی سے خطبہ سننا اور نماز ادا
کرنا… حدیث میں ہے کہ… جو کوئی خطبہ کے وقت بات کرے وہ اس گدھے کی طرح ہے جس پر
کتابیں لدی ہوں… یعنی اس کی مثال یہود کی سی ہوئی ۔العیاذ باللہ [ مفہوم تفسیر عثمانی]
صرف خرید وفروخت ہی نہیں
تفسیر بغوی میں ہے:
وقال الضحاک: اذا زالت الشمس حرم البیع والشراء۔
حضرت امام ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ جب جمعہ کے دن سورج کا زوال ہو
جائے(یعنی نماز جمعہ کا وقت داخل ہو جائے) تو خرید و فروخت حرام ہو جاتی
ہے۔‘‘
[ تفسیر بغوی]
حضرت عطاء بن رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ جب جمعہ کی پہلی اذان ہو جائے
تب خرید و فروخت، صنعت و حرفت ، کتابت (یعنی کچھ لکھنا) بیوی کے پاس جانا، کھیل
تفریح سب منع ہے۔‘‘ [کمالین]
حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ باتفاق فقہائے امت یہاں ’’
بیع‘‘ سے مراد(صرف) فروخت کرنا نہیں… بلکہ ہر وہ کام جو جمعہ کی طرف جانے کے
اہتمام میں مخل ہو وہ سب ’’ بیع‘‘ کے مفہوم میں داخل ہے… اس لئے اذان جمعہ کے بعد
کھانا پینا، سونا، کسی سے بات کرنا ، یہاں تک کہ کتاب کا مطالعہ کرنا وغیرہ سب
ممنوع ہیں ۔ ‘‘ [معارف القرآن]
ایک فتویٰ
ایک صاحب نے دارالعلوم دیوبند کے دار الافتاء سے یہ مسئلہ
معلوم کیا:
’’ میں مسجد کے گیٹ پر جمعہ کے دن
ٹوپی، عطر ، کتابیں بیچتا ہوں، مجھے کسی شخص نے کہا کہ پہلی اذان کے بعد کاروبار
کرنا حرام ہے تو میں اس کے بعد اذان ہوتے ہی سامان پر کپڑا ڈال دیتا مگر جب اذان
کے بعدمیں جانے لگتا تو لوگ ٹوپی مانگتے، میں اُن کو کہتا کہ بعد میں لینا اب بند
ہو گیا ہے تو لوگ ناراض ہوتے کہ… ٹوپی نماز کے لئے چاہیے بعد میں کیا کرنی ہے… اب
اس حالت میں میرے لئے شریعت کا کیا حکم ہے؟‘‘
دارالافتاء نے جواب دیا:
’’جمعہ کی پہلی اذان کے بعد جمعہ
کے لئے سعی کرنا ضروری ہے اور کاروبار خریدو فروخت ناجائز ہے اور مکروہ تحریمی ہے…
مسجد اور مسجد کے گیٹ پر بیچنا خریدنا زیادہ گناہ ہے لہٰذا آپ اذان اول کے بعد
سامان فروخت کرنا بند کر دیں، لوگوں سے کہیں کہ وہ پہلے ہی ٹوپیاں خرید لیا کریں،
کیونکہ جس طرح فروخت کرنا ممنوع ہے، خریدنا بھی ممنوع ہے ، دوسروں کی وجہ سے خود
کو گناہ میں ڈالنا مناسب نہیں ۔‘‘ [
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند]
حضرت ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر مدظلہ العالی تحریر فرماتے
ہیں:
’’اس بارے میں ایک دوسرا قول یہ ہے
کہ محلے کی اذان کے ساتھ سعی واجب ہو گی اور خریدو فروخت ممنوع ہو گی اور یہی
دوسرا قول زیادہ وزنی معلوم ہوتا ہے… جوتاجر اپنے ملازمین کے لئے باریاں مقرر کرتے
ہیں یا خود ایسا کرتے ہیں تاکہ عبادت بھی ہو جائے اور تجارت کا بھی حرج نہ ہو وہ
ناجائز حیلہ کرتے ہیں۔‘‘
[آپ کے مسائل اور ان کا حل]
شیطانی بدعت
جمعہ کے دن کے فضائل ’’ بے شمار‘‘ ہیں… یہ دن زمین، آسمان
سے لے کر جنت اور جہنم تک اپنے اثرات رکھتا ہے… یہ سب سے بہترین، سب سے زیادہ خیر
والا اور افضل دن ہے… اور یہ دن صرف امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہوا ہے… اور اس دن نے اس امت کو بہت
عظیم ترقی دی ہے… یہ دن دوسرے دنوں کے مقابلے میں اس طرح ہے جس طرح رمضان المبارک
باقی مہینوں کے مقابلے میں… اس دن کی سب سے اہم عبادت جمعہ کی نماز ہے… اور جمعہ
کی نماز میں جلدی آنے کے بڑے عظیم الشان فضائل ہیں…حتٰی کہ احادیث مبارکہ میں
یہاںتک آیا ہے کہ… جمعہ نماز کے لئے جلدی جانے والوں کو ایک ایک قدم پر… ایک ایک
سال کے قیام و صیام کا اجر ملتا ہے… اور یہ اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ مشکل نہیں…
حضرت امام غزالی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ…
پہلے زمانے میں… مسلمان صبح فجر سے پہلے اور فجر کے وقت ہی جامع مسجد کی طرف روانہ
ہو جاتے تھے…اور جمعہ ادا کرنے تک وہاں رہتے تھے… حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک بار اسی طرح جلد جامع مسجد پہنچے تو… تین
افراد ان سے پہلے پہنچ چکے تھے… اس پر انہوں نے اپنے نفس کو ملامت فرمائی… مگر اب
کیا حالات ہیں؟… آپ اگر جلدی جمعہ نماز کے لئے چلے جائیں تو… مساجد بند ملتی ہیں…
عام لوگوں کو تو چھوڑیں… دین کا علم رکھنے والے بھی اس عمل سے اکثر غافل نظر آتے
ہیں… صبح صبح جانا تو درکنار… آپ زوال کے وقت بھی چلے جائیں تو بعض لوگ گھبرا
جاتے ہیں اور مسجد بھی اکثر بند ملتی ہے… آخر یہ زوال کس طرح سے آ گیا…جمعہ کے
فضائل آج بھی لوگوں کو معلوم ہیں… جمعہ نماز کے لئے جلدی آنے کے فضائل کا بھی…
علماء اور عوام کو علم ہے… مگر پھر عمل کیوں نہیں؟…حضرت امام غزالی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ … شیطان نے مسلمانوں کو ’’عظیم
خیر‘‘ سے محروم کرنے کے لئے سب سے پہلے جو ’’بدعت‘‘ ایجاد کی… وہ یہی ہے کہ…
مسلمانوں نے جمعہ نماز کے لیے جلدی آنا چھوڑ دیا… امام صاحب لکھتے ہیں:
’’قرن اول میں سحر کے وقت اور صبح
صادق کے بعد راستے آدمیوں سے بھر جاتے تھے کہ روشنی لے کر…عید کے دنوں کی طرح
جامع مسجد کی طرف مجمعے بڑھتے تھے، یہاں تک کہ یہ بات پرانی ہو گئی اور جاتی رہی
اور کہتے ہیں کہ اسلام میں اول بدعت یہی ہوئی کہ جمعہ کے روز سویرے جانا چھوڑ دیا…
اور مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ سے بھی شرم نہیں آتی کہ وہ اپنے عبادت خانوں میں
ہفتے اور اتوار کو سویرے جاتے ہیں اور دنیا کے طالب، خرید و فروخت اور نفع کے
بازاروں میں کیسے صبح سویرے جاتے ہیں۔‘‘
[احیاء علوم الدین۔ ج:۱،ص:۲۲۱،ناشر:دار المعرفة - بيروت]
امام صاحب نے سچ فرمایا… دراصل جمعہ کے دن جلدی جمعہ نماز
کے لئے جانے سے جو ’’خیر‘‘ ملتی ہے… وہ
بڑی قیمتی ہے… اور شیطان نہیں چاہتا کہ مسلمان اس خیر کو پالیں… چنانچہ اب تو رواج
ہی ختم ہو گیا… اور ہر طرف محرومی نے اپنے جال بچھا دئیے… اللہ تعالیٰ کی توفیق سے
’’بندہ‘‘ تیس سال سے مسلمانوں کو اس کی دعوت دے رہا ہے… زندگی کا جو پہلا پمفلٹ
لکھا وہ اسی موضوع پر تھا… دہلی کالونی کراچی کے ایک دوست نے …اس مختصر پمفلٹ کے
دس ہزار اسٹیکرز چھپوائے… پھر بیانات بھی اس موضوع پر ہوتے رہے… اور الحمد للہ
ماحول میں اچھی تبدیلی آئی… اور بیان شروع ہونے سے پہلے کافی لوگ مسجد پہنچنے
لگے… مگر عمومی طور پر اس ’’دعوت‘‘ کو کامیابی نہیں ملی… ہر محلے اور مسجد میں بس
دوچار افراد اس پر عمل کرتے ہیں… وجہ یہ ہے کہ جن کے ذمہ یہ مسئلہ سمجھانا تھا… وہ
خود ابھی تک جمعہ کی اس ’’خیر عظیم‘‘ کی طرف اجتماعی طور پر متوجہ نہیں ہیں… آج
اُمت مسلمہ کو بہت زیادہ ’’خیر‘‘ کی ضرورت ہے… حضرات علماء اور خطباء کو چاہیے کہ…
پہلے اس مسئلے کو ایک بار مکمل توجہ اور شعور سے پڑھیں…{ذٰلِکُمْ خَیْرٌلَّکُمْ}
کی صدا کو اپنے دل میں بٹھائیں… اس پر مستقل عمل کریں… اور پھر مسلمانوں کو اس کی
دعوت دیں … آج تو نعوذ باللہ… خیر کی جگہ عذاب کو دعوت دی جا رہی ہے… کھلم کھلا
کاروبار بھی چلتا ہے… بازار بھی بھرے رہتے ہیں… اور اُمت کی اکثریت جمعہ کی خیر،
جمعہ کی برکت اور جمعہ کی قوت سے محروم رہتی ہے۔
تفصیل چھوڑیں، عمل اپنائیں
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو صدا لگا دی کہ… اذان کے بعد
’’ذکر اللہ‘‘ کی طرف لپکنا ہے… {فَاسْعَوْا} کے معنٰی دوڑنے کے نہیں … بلکہ شوق
اور اہتمام کے ساتھ جلدی جانے کے ہیں… ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرما دیا کہ…
اس لپکنے پر تمہیں ’’خیر‘‘ ملے گی… سبحان اللہ… اللہ تعالیٰ کی طرف سے’’ خیر‘‘کا
وعدہ… آج کل لوگ ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ… کوئی صاحب کشف ملے جو ہمیں بہتری اور
کامیابی کا کوئی راز بتا دے … کوئی نجومیوں کے پاس جا کر پوچھتا ہے کہ خیر ملنے کی
کیا صورت ہے؟…قسمت کب اچھی ہو گی؟…یہاں اللہ تعالیٰ نے جو علیم و خبیر اور خالق
کائنات ہیں… خود فرما دیا کہ جمعہ کے دن جمعہ کی اذان کے بعد… خیر ملتی ہے… مگر ان
کو جو اس وقت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر… مسجد میں اللہ تعالیٰ کا ذکر یعنی خطبہ اور
نماز کے لئے جلدی پہنچ جاتے ہیں۔
ایک سچے مسلمان کے لئے… اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اور وعدہ
کافی ہے… اب اس میں مزید کسی تفصیل کی ضرورت نہیں… بلکہ ضرورت اس کی ہے کہ ہر کوئی
دوسرے سے بڑھ کر عمل کرے… اور اپنی دنیا اور آخرت کو خیر، بہتری اور کامیابی سے
بھر لے… باقی رہی اس مسئلے کی تفصیل تو وہ حضرات علماء کرام کے سمجھنے، سمجھانے کی
چیز ہے… اور عذر کے وقت رخصت دیکھنے کے لئے ہے… مثلاً خرید و فروخت کا ناجائزہونا
کب سے شروع ہو گا؟… زوال کے بعد یا اذان کے بعد؟… اذان سے پہلی اذان مراد ہے یا
دوسری اذان؟… اگر اذان کے بعد خرید و فروخت کر لی تو اس کا کیا حکم ہے؟… جمعہ کی
اذان کے بعد خریدی ہوئی چیز کا استعمال کرنا جائز ہے یا ناجائز؟… اور بیچی ہوئی
چیز کی قیمت حلال ہے یا حرام؟…آج کل ہرشہر میں… کئی جگہوں پر مختلف اوقات میں
جمعہ ہوتا ہے تو… سعی یعنی جمعہ کی طرف جانے کا وجوب… اور ’’بیع‘‘ یعنی خرید و
فروخت کی حرمت کس مسجد کی اذان سے شروع ہو گی؟…یہ اور ایسے چند دیگر سوالات… اگر
آپ تفصیل معلوم کرنا چاہتے ہیں تو مستند علماء کرام یا مستند کتابوں میں دیکھ
سکتے ہیں…مگر عمل کے لئے سب سے بہتر اور احتیاط والی صورت بس یہی ہے کہ… جمعہ کے
دن زوال سے پہلے جمعہ کے لئے تیار ہو جائیں… اور جیسے ہی جمعہ کا وقت داخل ہو
…جمعہ کی پہلی اذان ہو فوراً جمعہ نماز کے لئے مسجد پہنچ جائیں… اور اگر اس سے بھی
پہلے پہنچ سکتے ہوں تو بہت اچھا ہے۔
اللہ کرے دل کا یہ درد… بے شمار دلوں تک پہنچ جائے… اور بہت
سے مسلمان اس عمل کو… اپنی زندگی کا لازمہ بنا لیں… تاکہ وہ بھی خیر پائیں… اور
اُمت مسلمہ کو بھی… بڑی خیر نصیب ہو۔آمین یا ارحم الراحمین
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
رنگ و نور ﴿… 619
محبت اور عشق
اللہ تعالیٰ کے ایک عاشق صادق، سراپا علم و جہاد اور موفَّق
من اللہ بندے حضرت علامہ محی الدین ابو زکریا احمد بن ابراہیم بن محمد ابن النحاس
الدمشقی الدمیاطی شہید رحمہ اللہ کی مثالی
زندگی…ان کے عشق و محبت کی لازوال داستان ، ان کی کامیاب زندگی کے حسین نقشے…اور
ان کی زندہ و تابندہ کتاب’’مشارع الاشواق الیٰ مصارع العشاق‘‘ کا معطر تذکرہ…
ایک
ایسی تحریر جس کا لفظ لفظ محبت جہاد اور شوق شہادت سے لبریز ہے۔
تاریخ
اشاعت:
۵ ربیع الاول ۱۴۳۹ھ/ 24نومبر7 201ء
محبت اور عشق
اللہ تعالیٰ کا وہ عاشق بندہ… ’’دمشق‘‘ میں پیدا ہوا… پھر
وہاں سے مصر کے شہر ’’دمیاط‘‘ جا بسا… ’’دمیاط‘‘ کے مضافات میں ’’الطینہ‘‘ نامی
مقام پر… ایک معرکہ میں ’’شہید‘‘ ہوا… واپس ’’دمیاط ‘‘ لایا گیا… جہاں وہ مدفون
ہوا… آج اُس کی یاد بہت شدت سے آ رہی ہے… اُس کی زندہ کتاب میرے سامنے رکھی ہے…
اور اُس کی کامیاب زندگی کے حسین نقشے میرے سامنے مسکرا رہے ہیں … سلام اے شہید
اسلام!
کون تھا وہ؟
تاریخ پیدائش کہیں نہیں ملی… پہلے بھی تلاش کی تھی، آج پھر
ڈھونڈی… ہر جگہ بس تاریخ وفات … یعنی تاریخ شہادت درج ہے… جمادی الآخر کا مہینہ
او ر ۸۱۴ ھ… ویسے اس اللہ والے فقیر کی حقیقی زندگی ، حقیقی حیات اسی تاریخ سے شروع
ہوئی… یعنی آج سے تقریباً چھ سو سال پہلے… وہ ’’دمشق‘‘ میں پیدا ہوئے… ’’دمشق‘‘
بھی عجیب جگہ ہے… عشق ہی عشق ہے… برکت والی سرزمین… حضرات انبیاء علیہم السلام کی سرزمین… زمین پر جنت کی جھلک… اللہ تعالیٰ
ملک شام اور دمشق کو آزادی عطاء فرمائے … وہاں پھر جہاد اُٹھا ہے اور اب عالمی
جہادبنتا جا رہا ہے… مجوسیوں، ایرانیوں، نصیریوں، حوثیوں ، حزبیوں، روسیوں،
امریکیوں… اور اسرائیلیوں کے لشکر وہاں تحریک جہاد کو کچلنے کی اپنی اپنی کوشش کر
رہے ہیں… مگر یہ جہاد ان شاء اللہ ایک بار ماند پڑنے کے بعدبڑی شدت سے اُبھرے گا…
ہاں تو وہ اسی ’’دمشق‘‘ میں پیدا ہوئے… دین کا علم پڑھا اور پھر اس کا حق ادا کر
دیا… تفسیر و حدیث کے ساتھ ساتھ علم فرائض یعنی میراث کے ماہر تھے… حساب اور ہندسہ
کے متبحر تھے… فقہ میں امام مانے جاتے تھے …ساتھ ساتھ داعی بھی تھے…دین اور اصلاح
کی دعوت دینے والے … اُن کے زمانے میں ایک طرف فرنگیوں کی عالم اسلام پر یلغار تھی
تو دوسری طرف تاتاری سرگرم تھے… مسلمانوں میں تیمور لنگ کا شور تھا… تب آپ دمشق
سے مصر کی طرف روانہ ہوئے… دراصل ’’محاذ جنگ‘‘ کا قرب چاہتے تھے… اسلامی سرحد کی
’’رباط‘‘ یعنی پہرے داری کے مزے لوٹنا چاہتے تھے… اور وہ مٹی بھی اُنہیں اپنی طرف بلا
رہی تھی جہاں اُنہوں نے اپنے خون سے عشق کی بازی جیتنی تھی… اور جہاں گر کر اور
پچھڑ کر انہوں نے اپنی محبت کو پانا تھا، دبوچنا تھا … دمشق کے اس سراپا عشق کا
نام ’’احمد‘‘ تھا… والد کا اسم گرامی ’’ابراہیم‘‘ دادا کا نام نامی ’’محمد‘‘… یوں
پورا نام بنا’’ احمد بن ابراہیم بن محمد‘‘… بیٹے کا نام زکریا تھا تو کنیت’’ابو
زکریا‘‘ پائی… دین کی شاندار،جاندار اور ایماندار خدمات کے اعتراف میں اہل علم نے
ان کو ’’محی الدین‘‘ کا لقب دیا تھا وہ بھی نام کا حصہ بنا… دمشق اور دمیاط بھی ان
کے نام میں شامل ہوئے… اور اُن کا مشہور عرف ’’ابن النحاس‘‘ پورے نام پر غالب رہا…
پھر شہادت پائی تو’’ شہید‘‘ بھی کہلائے اور یوں پورا نام بنا… الشیخ ، الشہید محی
الدین ابوزکریا احمد بن ابراہیم بن محمد ابن النحاس الدمشقی الدمیاطی… حضرت علامہ
ابن العماد رحمہ اللہ نے ان کے تذکرے میں لکھا ہے کہ وہ ’’الشیخ،
الامام ، العلامہ ، القدوہ‘‘ تھے… اور ’’داعیۃ الصلاحی ‘‘ بھی تھے… یعنی اصلاح کے
داعی… علامہ ابن حجر رحمہ اللہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
کان ملازما للجہاد بثغردمیاط وفیہ فضیلۃ تامۃ وجمع
کتاباحافلا فی احوال الجہاد فقتل فی المعرکۃ مقبلا غیرمدبر۔
’’وہ دمیاط کے محاذ پر جہاد کو
لازم پکڑے ہوئے تھے اور یہی اُن کی فضیلت کے لئے کافی ہے اور انہوں نے جہاد پر ایک
بڑی کتاب لکھی اور وہ ایک جنگ میں اس حالت میں شہید ہوئے کہ وہ پیش قدمی کر رہے
تھے اور انہوں نے پیٹھ نہیں دکھائی۔‘‘
کتاب کا عجیب نام
دمشق کے اس صادق عشق نے جہاد پر ایک کتاب لکھی ہے… ویسے وہ
کئی کتابوں کے مصنف ہیں… اُن کی ایک اصلاحی کتاب کا نام ’’ تنبیہ الغافلین‘‘ ہے…
ایک کتاب کا نام ’’ المغنم‘‘ بھی ہے… شاید یہ دعاؤں کی کتاب ہے… چونکہ خود پورے
کے پورے ’’عشق‘‘ تھے اس لئے ’’عشق‘‘ کے سارے ’’اجزاء‘‘ اُن میں بھرپور تھے … مثلاً
علم ، جہاد ، شوقِ شہادت، ذوقِ دعاء، شانِ عبادت وغیرہ …بے شک ’’علم‘‘ اگر سچا ہو
تو ’’ جہاد‘‘ کی طرف ضرور لے جاتا ہے… اور ’’جہاد‘‘ اگر سچا ہو تو ’’علم‘‘ سے پیار
ضرور سکھاتا ہے… اُن کی اور کتابیں معلوم نہیں دستیاب ہوں گی یا نہیں … مگر
’’جہاد‘‘ پر انہوں نے جو کتاب لکھی وہ اب تک زندہ ہے، تابندہ ہے… روز اول کی طرح
عشق سے بھرپور اور تاثیر سے معمور ہے… مصنف رحمہ اللہ نے کتاب کا نام بھی عجیب رکھا ہے… مَشَارِعُ
الْاَشْوَاقِ اِلٰی مَصَارِعِ الْعُشَّاقْ… ’’مشارع‘‘ کہتے ہیں راستوں کو ، راہوں
کو… ’’الاشواق‘‘ یہ شوق کی جمع ہے… یعنی شوق کی راہیں، محبت کے راستے… مگر کس
طرف؟… ’’ الی مصارع العشاق‘‘ … عاشقوں کے قتل ہو کر گرنے کے مقامات کی طرف …
’’مصارع‘‘ جمع ہے ’’مصرع‘‘ کی… پچھڑنے کی جگہ ، قتل ہو کر گرنے کی جگہ… مقتل…
شہادت گاہ… اور ’’العشاق‘‘ جمع ہے عاشق کی… یعنی شوق اور محبت کے وہ راستے جو سچے
عاشقوں کو اُن کی منزل کی طرف لے جاتے ہیں… اور عاشقوں کی منزل… اُن کی قتل گاہ،
شہادت گاہ… یا مقام شہادت ہے… وہ قتل ہو کر اپنی منزل پر گرتے ہیں اور اسے پا لیتے
ہیں… عشق کی یہ منزل… قتل ہوئے بغیر نہیں مل سکتی… شہید ہوئے بغیر نہیں پائی جا
سکتی … اور اسی کتاب کا دوسرا نام یا نام کا دوسرا حصہ بھی بہت عجیب ہے…
مُثِیْرُالْغَرَامِ اِلٰی دَارِ السَّلَامِ…’’ عاشقوں کو جنت کی طرف اُبھارنے
والی‘‘… سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ
سچی دعوت کی عجیب تاثیر
سچی دعوت… سب سے پہلے خود دعوت دینے والے پر اثر کرتی ہے…
بالکل اُس مشہور زمانہ حریص کی طرح… جس سے پوچھا گیا کہ تمہارے حرص کا کیا حال
ہے؟… کہنے لگا:میرا حرص اتنا بڑھا ہوا ہے کہ… جب کبھی شہر کے بچے مجھے تنگ کرتے
ہیں تو میں انہیں بھگانے کے لئے ویسے ہی کہہ دیتا ہوں کہ… فلاں جگہ مٹھائی بٹ رہی
ہے… وہ بچے ادھر بھاگتے ہیں تو میرا حریص نفس اچھلنے لگتا ہے کہ کہیں واقعی مٹھائی
بٹ نہ رہی ہو… چنانچہ میں ان سے آگے دوڑ کر اس جگہ پہنچ جاتا ہوں۔
سچے داعی کی یہی حالت ہوتی ہے… وہ دوسروں کو دعوت دیتا ہے
مگر اس دعوت کا زیادہ اثر خود پر محسوس کرتا ہے… اور یوں وہ سب سے آگے نکل جاتا
ہے… اپنے عمل کا اجر الگ، دعوت کا اجر الگ… دعوت کے بعد عمل میں مزید پختگی کا اجر
الگ… اور دعوت کے نتیجے میں عمل کرنے والوں کا اجر الگ… درجے ہی درجے، مقامات ہی
مقامات… حضرت علامہ ابن النحاس رحمہ اللہ نے اُمت کے درد میں تڑپ کر… اور عشق الہٰی میں
ڈوب کر… جو کتاب لکھی اور اس کا نام’’شوق کے راستے‘‘ منتخب کیا تو… پھر خود بھی
شوق کی انہی راہوں میں گہرے اُترتے چلے گئے… وہ اپنے زمانے کے علمی امام تھے…
چاہتے تو علم کی دنیا کے تاجدار بنے رہتے… وہ بزرگ اور صاحب نسبت تھے… چاہتے تو
اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ کی مسند کو رونق بخشتے… مگر عشق کی راہیں… محبت کے
راستے اُن کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتے تھے… چنانچہ وہ مسلسل دس سال تک جہاد میں
لگے رہے … اور رباط میں جمے رہے… اُن کے ہاں ’’جہاد‘‘ کوئی وقتی چیز یا عارضی جذبہ
نہیں تھا… وہ تو جہاد میں … اپنا وہ ’’مَصرع‘‘ تلاش کر رہے تھے … جہاں انہوں نے
لہولہان ہو کر اپنی ’’محبت‘‘ کو دبوچنا تھا… اور اپنی منزل کو پانا تھا۔
دعوت سچی تھی… داعی بھی سچا تھا… اس کا درد بھی سچا تھا…
اور اس کی آہیں بھی سچی تھیں … چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور پھر… علم
سیدھا عمل سے جا ملا… دعوت سیدھی کردار کے گلے جالگی… قول نے صداقت کے ہونٹوں کو
چوما … اورجہاد کا داعی اور شہادت کا داعی… شہادت کے حیات افزا جام پینے میں
کامیاب ہو گیا… آج کل ہم حضرت شہید ابن النحاس رحمہ اللہ کی کتاب کا… اٹھائیسواں اور انتیسواں باب مطالعہ
کر رہے ہیں … اسی مناسبت سے آج حضرت علامہ شہید بھی بہت یاد آئے… اور پیارا طلحہ
شہید بھی خیالوں میں… خوب مسکرایا… توفیق ملی تو اس کتاب اور اس کے ترجمے کے بارے
میں… مزید کچھ باتیں اگلے ہفتے ، ان شاء اللہ۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 620
کتاب کہانی
* بھارت
کے تاریک زندانوںمیں فریضۂ جہاد پر لکھی جانے والی بصیرت افروز کتاب’’فضائل
جہاد‘‘کی ایمان افروز کہانی، خود مصنف کی زبانی…
* بھائی
محمد افضل گورو شہید رحمہ اللہ کا روح پرور تذکرہ…
* شہدائے
بالاکوٹ کا معطر تذکرہ…
* حیات
شہداء کا ایک مظہر کہ ان کا کام بغیر ظاہری اسباب کے بھی جاری رہتا ہے…
* اللہ
تعالیٰ شہداء کرام کے اعمال ضائع نہیں فرماتے، اس کی چند مثالیں…
* دو
نہایت اہم نکتے…
تاریخ
اشاعت:
۱۲ ربیع الاول ۱۴۳۹ھ/ بمطابق یکم دسمبر 2017ء
کتاب کہانی
اللہ تعالیٰ حضرت امام ابن النّحاس شہید رحمہ اللہ کو… شہادت، مغفرت اور اکرام کا اونچا مقام عطاء
فرمائے… انہوں نے ’’مشارع الاشواق‘‘ کتاب لکھ کر امت پر احسان فرمایا ہے …ہم مقبوضہ جموںوکشمیر کے علاقے’’ کوٹ بھلوال ‘‘ کی
جیل میں تھے… جہاں یہ کتاب ہم تک پہنچی… اور یہ ہمارے زخموں کا مرہم… اور راتوں کا
سکون بن گئی… کتاب کے مصنف جیسا کہ آپ نے گذشتہ کالم میں پڑھ لیا… جہاد میں شہید
ہو گئے …اللہ تعالیٰ نے شہداء کے بارے میں قطعی فیصلہ فرمایا ہے کہ وہ زندہ
ہیں…{بَلْ اَحْیَاءٌ }… اور یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ … اللہ تعالیٰ اُن کے اعمال کو
ضائع نہیں ہونے دیتا… چنانچہ حضرت مصنف شہید رحمہ اللہ کی یہ عجیب جہادی کتاب بھی… ضائع ہونے
سے بچ گئی… حالانکہ اُس زمانے نہ پریس تھے نہ کمپیوٹر… جبکہ آج کل ہر سہولت
موجودہونے کے باوجود … کوئی کتاب دس سال میں ختم ہو جاتی ہے اور کوئی بیس سال میں…
اور بعض کتابیں تو بس اپنے پہلے ایڈیشن کے بعد ہی… منظر سے غائب ہو جاتی ہیں… مگر
جس کام کو اللہ تعالیٰ نے چلانا ہو، جاری فرمانا ہو تو وہ… بغیر ظاہری اسباب کے
بھی خوب چلتا رہتا ہے… پھر شہداء کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہی بالکل الگ
ہے… حیرانی ہوتی ہے کہ… شہداء بالاکوٹ کا پیغام اور دعوت کس طرح سے قریہ قریہ گلی
گلی پھیل گئی…حالانکہ وہ ایسی جگہ شہید ہوئے تھے… جہاں اُن کو دفنانے کفنانے والا
بھی… کوئی قریب نہیں آ سکتاتھا… یعنی ظاہری طور پر بے کسی اور اجنبیت کا عالم
تھا… اپنے وطن سے بہت دور… غربت،مسافری اور مظلومیت… مگر بعد میں یہ ہوا کہ اُن کے
قاتلوں کے نام کسی کو یاد نہیں…جبکہ اُن کے نام بھی زندہ رہے اور کام بھی زندہ
رہا… اور اُن کی دعوت بھی ہر جگہ پھیلی اور آج تک پھیل رہی ہے… اللہ تعالیٰ نے
باحشمت حکمرانوں، صاحب قلم مصنفوں اور علم کے شہسوار داعیوں کو… شہداء بالاکوٹ کی
خدمت پر لگا دیا… اور یوں دو صدیاں گزرنے کے باوجود ان کی زندگی آج بھی چمکتی ہے
اور روشنی بکھیرتی ہے… آپ بھائی محمد افضل گورو شہید رحمہ اللہ کو دیکھ لیں… ایک طرف مجبوری ، بے کسی اور
مظلومیت کا یہ عالم ہے کہ… پھانسی سے پہلے اہل خانہ تک سے ملاقات نہیں کرائی گئی…
حالانکہ آج کی دنیا کا یہ ایک لازمی قانون ہے… کوئی شخص اگر ملک کے صدر اور وزیر
اعظم کا قاتل ہو… یا کسی نے ہزاروں خون کئے ہوں … ایسے قاتل کو بھی سزائے موت سے
پہلے اس کے گھر والوں سے آخری بار ضرور ملوایا جاتا ہے… مگر ہمارے بھائی محمد
افضل گورو شہید رحمہ اللہ کو یہ سہولت بھی
نہیں دی گئی… بس رات کو اچانک انہیں بتایا گیا کہ… علی الصبح آپ کو پھانسی دی
جانی ہے… بے بسی، مجبوری اور گھٹن کا اندازہ لگائیں کہ… ایک کال کوٹھڑی … چاروں
طرف دشمن ہی دشمن… اور درمیان میں ایک نہتا قیدی… ہر طرف سے طنزیہ جملے، چبھتی
نگاہیں، اذیت ناک نگرانی… اور دور دور تک کوئی بھی اپنا نہیں… نہ یاروں کو خبر، نہ
گھر والوں کو علم… نہ اپنے ایڈووکیٹ سے رابطہ اور نہ جیل کے کسی قیدی دوست تک
رسائی… سبحان اللہ! مظلومیت بھی عجیب چیز ہے… اس کا خیال اور تذکرہ بھی دلوں کو
پھاڑنے لگتا ہے…لیکن اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیں کہ ’’مظلوم‘‘ کا جو مقام ہے…وہ
اگر’’ ظالم‘‘ دیکھ لے تو ساری دنیا کی دولت دے کر… اسے خریدنے کی کوشش کرے… اور
مظلوم اگر شہید بھی ہو تو پھر… اس کے مقام کے کیا کہنے…بس اتنا سمجھ لیں کہ… راحت
ہی راحت ہے، ترقی ہی ترقی ہے… اور کامیابی ہی کامیابی ہے… بھائی محمد افضل شہید
رحمہ اللہ نے… وہ آخری رات قرآن مجیدکے
ساتھ گذاری… صبح ہم نے اُن کی شہادت کی خبر سنی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اُن
کی خدمت پر لگا دیا… آناً فاناً اُن کی کتاب تیار کی گئی… یہ کوئی آسان کام نہیں
تھا … مگر شہید کی زندگی… بہت عجیب ہے… بہت عجیب … بالکل نہ سمجھ آنے والی… مگر
بہت کچھ سمجھانے والی… لوگ طنز کرتے ہیں کہ… جماعتیں زندہ ساتھیوں کی قدر نہیں
کرتیں… شہید ہو جائیں تو سر پر بٹھا لیتی ہیں … ممکن ہے ایسا ہوتا ہو… مگر ہمارے
ہاں الحمد للہ زندوں کی بھی پوری قدر ہے… مگر شہداء کی قدر بہت زیادہ کی جاتی ہے…
وجہ یہ کہ شہداء کی زندگی بلند ہے تو اُن کی قدر بھی زیادہ ہے… اور شہداء کی
روحانی زندگی خود بھی… اپنی قدر دلوں میں اُتارتی ہے … اور اپنی قدر دوستوں اور
دشمنوں سے منواتی ہے… ہم اگر بھائی افضل شہید رحمہ اللہ کی قدر نہ کرتے تو دنیا میں کوئی پوچھنے والا
نہیں تھا…ایصال ثواب ہوتا اور بات ختم… مگر وہ بڑے شہید تھے… شہداء کے بھی الگ الگ
طرح کے مقامات ہیں … افضل شہید رحمہ اللہ کا
مقام … ان شاء اللہ بہت اونچا ہے تو انہوں نے اپنی زندگی منوائی … صرف ایک اللہ
تعالیٰ کی رضاء کے لئے ہم نے اُن کے درد اور پیغام کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا…
آہستہ آہستہ تمام رفقاء بھی ہمنوا بنتے گئے…اور پھر افضل گورو شہید ة رحمہ اللہ کی
کتاب بھی اُٹھی… اجتماع بھی گرجا… اور اُن کے انتقام کی ایک لہر نے… کشمیر کی
تحریک کو دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا… یہ سب کچھ شہید اور شہادت کی کرامت
ہے… بے شک شہید کی زندگی خود کو منواتی ہے… آج انڈیا میں خود وہاں کے کئی
سیاستدان کہہ رہے ہیں کہ… افضل گورو کو پھانسی دینا ایک بڑی غلطی تھی… جسے آج
پورا ملک بھگت رہا ہے۔
یہاں ایک اہم نکتہ سمجھ لیں… قرآن مجید نے
اعلان فرمایا ہے کہ … بعض انبیاء کرام دوسرے بعض انبیاء کرام سے افضل ہیں… قرآن
مجید کے تیسرے پارے کا آغاز ہی اسی علان سے ہو رہا ہے… اب اس اعلان کا یہ مطلب
نہیں ہے کہ نعوذ باللہ… بعض انبیاء کرام علیہم السلام کم درجے والے ہیں… بلکہ مطلب
یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام تمام کے تمام بڑے رتبے والے ہیں… کوئی بھی
صحابی، ولی، شہید، صدیق… کسی نبی کے برابر نہیں ہو سکتے… ہاں اُن انبیاء علیہم
السلام میں سے بعض کا رتبہ دوسرے بعض سے
زیادہ بلند اور اونچا ہے … یہی حال شہداء کرام کا ہے… شہادت بہت اونچی چیز ہے …
بہت بلند مقام اور بہت قیمتی نعمت… کوئی شہید بھی کم اور ادنیٰ درجے والا نہیں ہے…
اور انبیاء کرام علیہم السلام اور صدیقین کے علاوہ کوئی بھی مومن، ولی ، بزرگ کسی
شہید کے برابر نہیں ہو سکتا…ہاں! شہداء کرام میں سے بعض کا رتبہ دوسرے بعض سے
زیادہ بلند اوراونچا ہے… دوسرا نکتہ یہ ذہن میں رکھیں کہ… شہداء میں سے کون کس
مقام کا ہے؟ یہ بات صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے… اور اس کا فیصلہ اس پر موقوف
نہیں کہ اس شہید کا اس کے بعد کتنا چرچہ ہوا؟ … اس کا نام اور کام کتنا پھیلا… اس
پر کتنی کتابیں لکھی گئیں…ان چیزوں کا افضلیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں…بعض شہداء
بالکل گمنام رہتے ہیں مگر ان کے مقامات بہت اونچے ہیں… بعض شہداء کو تو کوئی شہید
ہی تسلیم نہیں کرتا مگر وہ بڑے درجے والے شہداء ہوتے ہیں… شہداء کا نظام اللہ
تعالیٰ ہی جانتا ہے… یہ اللہ تعالیٰ کی پیاری مخلوق ہے … یہ اللہ تعالیٰ کے لاڈلے
بندے ہیں… ان کی حیات یقینی ہے… مگر ہم اس کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے… اُن کا کام
ضرور جاری رہتا ہے خواہ نظر آئے یا نہ آئے… اُن کا عمل جاری رہتا ہے … کسی کو
محسوس ہو یا نہ ہو… باقی ہم جو کسی شہید کے بارے میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ بڑے
درجے والا شہید ہے تو… یہ اپنے حسن ظن اور بعض شرعی قرائن کو دیکھ کر… ایک ظنی
رائے ہوتی ہے… اور اگر اللہ تعالیٰ شہید کی کوئی کرامت بعد والوں کو دکھا دے تو اس
سے بھی… بعد والے اس کے افضل شہید ہونے کا اندازہ لگا لیتے ہیں… جیسے ہمارے بھائی
افضل گورو شہید رحمہ اللہ … وہ غزوہ ٔہند میں شہید ہوئے، مظلوم شہید ہوئے… آخری
وقت تک ثابت قدم رہے جیسا کہ اُن کی آخری تحریر سے اندازہ ہوتا ہے… اور پھر اُن
کی محبت اور اُن کا درد تیزی سے اہل ایمان کے قلوب میں اُترا … اُن کی کتاب کی
تیاری میں خصوصی نصرت ہوئی اور یہ کتاب خوب مقبول ہوئی… اُن کا اجتماع مثالی رہا…
اور اُن کی قربانی نے دشمن پر ایسے تابڑ توڑ حملے کئے کہ…دشمن پچھتانے پر مجبور
ہوا… اب حال ہی میں شہید ہونے والے ہمارے پیارے طلحہ رشید کی شہادت میں بھی…
محبوبیت ، جذبات اور قبولیت کا عجیب رنگ نظر آ رہا ہے… اُمید ہے کہ ان شاء اللہ
بہت جلد… اُن کی کارروائیوں کا طوفانی آغاز ہو گا اور طلحہ شہید کی کتاب… جو ان
کی سوانح اور دعوت پر مشتمل ہو گی … ان شاء اللہ جلد منظر عام پر آ جائے گی شہادت کے بعد جس محبت اور کثرت کے ساتھ اُن کے ایصال ثواب
کی مجالس ہوئیں… جس والہانہ انداز میں اُن پر لکھا گیا… یہ سب کچھ اس دیوانے شہید
پر اللہ تعالیٰ کے فضل کی علامات محسوس ہوتی ہیں… اللہ تعالیٰ اسے قبولیت کا اعلیٰ
مقام عطاء فرمائے۔
بات کافی دور نکل گئی… عرض یہ کر رہا تھا کہ حضرت علامہ ابن
النّحاس شہید رحمہ اللہ کی کتاب ’’مشارع
الاشواق‘‘ ماشاء اللہ آج تک چل رہی ہے… اصل کتاب عربی زبان میں ہے… مگر آج
افغانستان سے لے کر کشمیر تک کے گرم محاذوں پر … اس کی اُردو اور پشتو میں تعلیم
ہوتی ہے… پاکستان سے لے کر یورپ کے کئی ممالک تک… مسلمانوں کے گھروں میں اس کی
تعلیم ہوتی ہے … مصنف رحمہ اللہ نے اس
کتاب کو اپنے دل کے درد سے ایسا بھرا ہے کہ… زبان بدلنے یا اتنا زمانہ گزرنے کے
باوجود اس کی تاثیر ماند نہیں پڑتی … مصنف شہید رحمہ اللہ جہاد کے باقاعدہ
’’فقیہ‘‘ ہیں… جہاد کی اتنی گہری سمجھ کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے… مصنف رحمہ اللہ فضائل جہاد کے دوران ایسے زبردست علمی نکتے
بیان فرماتے ہیں کہ… دل عش عش کر اٹھتا ہے… اور می رقصم ، می رقصم کا نعرہ لگاتا
ہے… مقروض آدمی کے شہید ہونے اور قرضے کے معاف ہونے نہ ہونے پر مصنف رحمہ اللہ نےجو تحقیق لکھی ہے… آپ صرف اسی کو دیکھ لیں
تو مصنف کے پاؤں چومنے کو بے تاب ہو جائیں… ہم کوٹ بھلوال جیل کی پر مشقت زندگی
میں تھے کہ… یہ کتاب وہاں پہنچ گئی… بس پھر کیا تھا یوں لگا کہ… ہمارے مردہ ہوتے
ہوئے عزائم کو اُبھارنے کے لئے… اللہ تعالیٰ کا سچا عاشق، جہاد کا بے تاب دیوانہ
اور شہادت کا دولہا… علامہ ابن النحاس جیل کی دیوار پھاند کر اندر تشریف لے آیا
ہے… بندہ نے مطالعہ شروع کیا تو دل خوشی سے کھلتا چلا گیا… تب مصنف سے یاری اور اس
کتاب سے دوستی ہو گئی… سب سے پہلے تو جیل میں اس کتاب کا درس شروع ہوا… محترم
کمانڈر حافظ سجاد خان شہید رحمہ اللہ اس
درس میں پیش پیش رہتے تھے اور اس پر بہت خوشی کا اظہار کرتے تھے… دوسرا کام یہ ہوا
کہ بندہ نے… اس کتاب کے بعض دلائل کو بنیاد بنا کر مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا…
وہ سلسلہ ماشاء اللہ بہت مقبول ہوا … اور بعد میں’’ دروس جہاد‘‘ کے نام سے شائع
ہوا … اور الحمد للہ آج تک شائع ہو رہا ہے… مگر ان مضامین میں حضرت مصنف رحمہ
اللہ کی باتیں کم… اور میری فضولیات زیادہ
ہوتی تھیں… کیونکہ حالات حاضرہ کے تحت اُن کو ڈھالنا مقصود تھا… یہ دونوں کام چل
رہے تھے مگر دل نہیں بھر رہا تھا… بار بار اس کتاب کے اُردو ترجمے کا داعیہ دل میں
اُٹھتا … مگر اپنی کم علمی ، اپنے حالات اور کم ہمتی سینہ تان کر سامنے کھڑی ہو
جاتی… ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا اور وہ بھی اس طرح کہ مضمون کی طاقت
کمزور نہ ہو… یہ کافی مشکل کام ہے… میرے پاس نہ لغت کی کتابیں تھیں اور نہ علم کا
ماحول… مگر شہید کی کرامت پھر ظاہر ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس مشکل کام پر بٹھا
دیا… پھر تو رات دن کافرق بھی مٹ گیا اور زمانہ بھی سمٹنے لگا تھوڑی سی رکاوٹ کے
بعد کام ایسا چلا کہ… آج بھی سوچتا ہوں تو شکر کے ساتھ حیرانی کا غلبہ ہونے لگتا
ہے کہ… سب کچھ کیسے ہو گیا؟… کاغذ بھی مل گئے ، قلم بھی وافر آ گئے… خدمت والے
رفقاء بھی میسر رہے، وقت میں بھی برکت ہوئی… اور ساتھ ساتھ یہ سارا کام ایک عرب
ملک کے راستے بذریعہ ڈاک پاکستان بھیجنے کی حیرت انگیز سہولت بھی ہاتھ لگ گئی… اور
یوں الحمد للہ چالیس دن سے کم عرصے میں… ’’فضائل جہاد‘‘ تیار ہو گئی… یہ نہ
’’مشارع الاشواق‘‘ کا باقاعدہ ترجمہ ہے اور نہ باقاعدہ خلاصہ … بلکہ کہیں ترجمہ
ہے، تو کہیں تشریح، کہیں تلخیص ہے تو کہیں تنقیح اور کہیں حذف ہے تو کہیں اضافہ …
حضرت مصنف شہید رحمہ اللہ کی کرامت کہ
’’فضائل جہاد‘‘ بھی الحمد للہ مقبول ہوئی… اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کے کئی
زبانوں میں تراجم بھی ہوئے اور شائع بھی ہو رہے ہیں…’’ فضائل جہاد اُردو‘‘ کی
داستان بہت مفصل اور دلچسپ ہے… یہ کتاب کس کس ملک میں پہنچی… اس کتاب کے کتنے
ترجمے ہوئے… یہ کتاب کتنی بار شائع ہوئی… یہ سب ایک دلچسپ کہانی ہے… جو نہ آج
سنانی ہے اور نہ آئندہ سنانے کا ارادہ ہے… بندہ نے ’’فضائل جہاد‘‘ کا کام گرفتاری
سے کچھ عرصہ پہلے … پاکستان میں شروع کر دیا تھا… دس جلدوں میں کتاب لکھنے کا
ارادہ تھا… پہلی جلد صحیح بخاری کی چالیس احادیث پر مشتمل تیار ہو چکی تھی… اور
اردو اور انگلش میں بار بار شائع ہو چکی تھی… دوسری جلد سے پہلے ہی بندہ گرفتار ہو
گیا… جب جیل میں ’’مشارع الاشواق‘‘ ملی تو… اپنی فضائل جہاد کو مکمل کرنے کا ارادہ
ترک کر دیا… اور اسی کتاب کی خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھ لیا… اور فضائل جہاد کی
جو ایک جلد پہلے سے شائع ہو رہی تھی اسے بھی اس کتاب کے آخر میں جوڑ دیا … اور اس
مجموعے کا نام ’’فضائل جہاد کامل‘‘ رکھ دیا…اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے قبول
فرمائے … گذشتہ دو ہفتوں سے فضائل جہاد کے باب 28اور 29 کے مطالعے کی ترغیب چل رہی
ہے … الحمد للہ جنہوں نے مطالعہ کیا بہت فائدہ اور تازگی پائی… جنہوں نے اب تک
مطالعہ نہیں کیا وہ اب کر لیں… بس اسی مناسبت سے اس کتاب کے اصل مصنف حضرت علامہ
ابن النحاس شہید رحمہ اللہ یاد آ گئے تو…
یہ چند باتیں عرض کر دیں۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 621
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
* حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
رکھناایمان کا ’’لازمی جزو‘‘ ہے۔
* آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دروازہ تا قیامت کھلا ہے ،
جی
ہاں! تاقیامت آباد’’مست مے خانہ‘‘۔
* آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی اور شدید محبت رکھنے والے لوگ۔
* محبت
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے…
* ایک
خطرناک اور گمراہ کن طرز عمل… اورایک تنبیہ
* حسن
والوں کی قربت انسان کو حسین بنادیتی ہے…
عشق
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع جلاتی ور آداب محبت سکھاتی ایک سرمست
وسر شار تحریر
تاریخ اشاعت:
۱۹ ربیع
الاول ۱۴۳۹ھ/ بمطابق8 دسمبر
2017ء
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ
کَمَا صَلَّیْتَ
عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔
اللہ تعالیٰ سے مدد اور نصرت کا سوال ہے… رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’محبت‘‘ کے موضوع پر لکھنے بیٹھ گیا ہوں…
اتنا چھوٹا انسان اور اتنا عظیم موضوع… دل حیران ہے، قلم عاجز ہے ، علم لاچار ہے…
یا اللہ! مدد… ابھی جب لکھنے کے لئے استخارہ کر رہا تھا تو دل میں آیا کہ… بسم
اللہ کرو… اور کچھ نہ لکھ سکے تو درود شریف ہی لکھتے رہنا… چکور چاند تک نہیں پہنچ
سکتا مگر ہمت کر کے اس کی طرف اُڑتا ہے… اور پھر جب پر ٹوٹ جاتے ہیں تو گر جاتا
ہے… پہنچ نہیں سکتا مگر چاند سے محبت کرنے والوں میں اپنا نام تو لکھوا لیتا ہے…
پروانہ شمع کی روشنی سمیٹ نہیں سکتا مگر کوشش تو کرتا ہے اور اسی کوشش میں جان دے
دیتا ہے… حضرت آقا محمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’محبت‘‘ ایمان ہے… یہ محبت ایمان کی بنیاد
ہے… یہ محبت ایمان کا اہم ترین تقاضا ہے… اس ’’محبت‘‘ کا مقام بہت اونچا ہے … اس
محبت کی قیمت بہت بھاری ہے… اس محبت کا معیار بہت وزنی ہے… یہ اللہ تعالیٰ کا فضل
ہے… اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کی اُمت پر شفقت کہ… آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’محبت‘‘ کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے… یہ مست
مے خانہ قیامت تک آباد ہے… اس لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر… اس موضوع پر لکھ
رہا ہوں… اللہ تعالیٰ آسان فرمائے، قبول فرمائے… اور سرمایہ آخرت بنائے… سبحان
اللہ! محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم …حبُّ النبی صلی اللہ علیہ وسلم … عشق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم … عباسی دور کے
مشہور شاعر ابو فراس الحمدانی نے کہا تھا؎
مِنْ مَّذْھَبِیْ حُبُّ الدِّیَارِ لِاَھْلِہَا
وَلِلنَّاسِ فِیْمَا یَعْشِقُوْنَ مَذَاہِبٗ
’’میرا طریقہ یہ ہے کہ گھروں سے ان
گھروں کے رہنے والوں کی وجہ سے محبت رکھتا ہوں… اور ’’محبت‘‘ میں لوگوں کے اپنے
اپنے طریقے ہوتے ہیں۔‘‘
بندہ اس شعر میں ترمیم کر کے اس طرح پڑھتا ہے ؎
مِنْ مَّذْھَبِیْ حُبُّ
النَّبِیِّ وَجِہَادِہٖ
وَ لِلنَّاسِ فِیْمَا یَعْشِقُوْنَ مَذَاہِبٗ
’’میرا طریقہ… نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جہاد سے محبت ہے… اور محبت میں لوگوں
کے اپنے اپنے طریقے ہوتے ہیں۔‘‘
اللہ کرے ایسا ہو… مجھے اور آپ سب کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے… سچی پکی محبت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نصیب ہو
جائے… ہم نے ’’محبت‘‘ کا دعویٰ کر دیا … ہر دعوے کے بعد دلیل ہوتی ہے… مگر ہمارے
اس دعوے کے بعد… دلیل کوئی نہیں …بلکہ دعوے کے بعد ’’دعاء‘‘ ہے کہ یااللہ! اس دعوے
میں سچا بنا دے… ہمارے دل کو اپنی اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت کے قابل بنا دے… اور یہ دعاء ہم اس
لئے مانگتے ہیں کہ… محبت کا یہ دروازہ قیامت تک کھلا ہے… ٹھیک ہے کہ… ’’صحابیت‘‘
کا دروازہ بند ہو گیا… اب کوئی شخص صحابی نہیں بن سکتا… مگر محبت رسول اور عشق
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دروازہ تو کھلا ہے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مِنْ اَشَدِّ اُمَّتِیْ لِیْ حُبًّا نَاسٌ یَکُوْنُوْنَ
مِنْ بَعْدِیْ یَوَدُّ اَحَدُہُمْ لَوْ رَآنِیْ بَاَھْلِہٖ وَمَالِہٖ۔
’’مجھ سے بہت زیادہ محبت رکھنے
والے میرے وہ امتی ہیں جو میرے بعد آئیںگے اور وہ چاہیں گے کہ اپنا سارا مال اور
اپنے سارے اہل و عیال کو قربان کر کے میری زیارت کر سکیں ۔‘‘
[صحیح مسلم۔حدیث رقم: ۲۸۳۲،ناشر: دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
یعنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک اور ایک زیارت کی قیمت کے طور پر وہ
اپنی ہر محبوب چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے… سبحان اللہ ! جن لوگوں کی
محبت کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’شدید محبت‘‘ پکی محبت اور سچی محبت قرار
دیا ہے… اور بشارت دی ہے کہ یہ لوگ میرے بعد
آئیں گے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرما دیا ہے کہ ایسے لوگ میرے بعد آئیں
گے تو پھر ایسے لوگوں نے ضرور آنا تھا… وہ ماضی میں بھی آئے … حال میں بھی موجود
ہیں اور مستقبل میں بھی آتے رہیں گے… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اور پکے عاشق … آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہر قربانی خوشی سے پیش کرنے والے… اور
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرتاپا ڈوبے ہوئے… حدیث شریف کا یہ
مضمون کئی روایات میں کثرت سے آیا ہے… اور یہی ہمیں اس بات کی ہمت دلاتا ہے کہ ہم
بھی… اللہ تعالیٰ سے سچی محبت مانگیں… کیونکہ اس محبت کا دروازہ آج بھی کھلا ہے…
اس لمحے بھی کھلا ہے … یہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اُمت پر شفقت ہے کہ … وہ لوگ جو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو نہ پا سکے …
جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رُخِ انور کی زیارت نہ کر سکے… جو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی مبارک و معطر مجالس کو
نہ سمیٹ سکے … مگر وہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے پکے وفادار،پکے جانثار ہیں … اُن
کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی بڑی خوشخبریاں اور بشارتیں ارشاد فرمائی
ہیں… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
طُوْبٰی لِمَنْ رَآنِیْ وَ آمَنَ بِیْ مَرَّۃً وَ طُوْبٰی
لِمَنْ لَمْ یَرَنِیْ وَآمَنَ بِیْ سَبْعَ مَرَّاتٍ۔
’’جس نے میری زیارت کی اور مجھ پر
ایمان لایا اس کے لئے ایک بار خوشخبری ہے۔اور جس نے میری زیارت نہیں کی اور مجھ پر
ایمان لایا اس کے لئے سات بار خوشخبری ہے۔‘‘
[المعجم الکبیر للطبرانی۔ حدیث
رقم: ۸۰۰۹،مكتبة ابن تيمية -قاهرة]
اس کا یہ مطلب نہیں کہ… زیارت کرنے والے پیچھے رہ گئے…
زیارت والوں نے تو وہ کچھ پا لیا جس کے برابر اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا… مگر زیارت
نہ کرنے والے بھی محروم نہیں…اُن کے لئے زیادہ خوشخبری اس لئے ہے کہ … وہ دور رہ
کر بھی قریب ہو گئے…اور بن دیکھے سچے عاشق بن گئے… اور پھر درود وسلام کا تحفہ…
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا عطاء فرما دیا کہ جو… قیامت تک کے سچے
عاشقوں کی پیاس اور اُمید دونوں کو سیراب کرتا ہے … ارشاد فرمایا:
اَوْلَی النَّاسِ بِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَکْثَرُھُمْ
عَلَیَّ صَلٰوۃً۔
’’قیامت کے دن میرے زیادہ قریب وہ
ہو گا جو مجھ پر زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا۔‘‘
[سنن الترمذی۔حدیث رقم: ۴۸۴،ناشر: دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
ہم جمعہ کے دن… جو درود و سلام کی کثرت کا مقابلہ رکھتے
ہیں… اسے ’’مقابلہ حسن‘‘ کہتے ہیں … کیونکہ یہ درود شریف … ہمیں حسن والے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کے قریب کرتا ہے… اور
حقیقی حسن سے محبت انسان کو حسین بنا دیتی ہے؎
سراپا حسن بن جاتے ہیں جس کے حسن کے عاشق
بتا اے دل حسیں ایسا بھی ہے کوئی حسینوں میں
دل بھی عجیب چیز ہے… اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ ملے تو یہ
خشک اور سخت ہونے لگتا ہے… یہ خود غرضی اور مادہ پرستی سے بھر جاتا ہے… تب اس میں
’’سچی محبت‘‘ نہیں اُتر سکتی… درود شریف میں رحمت ہی رحمت ہے… ایک بار پڑھو تو دس
رحمتیں …اور پچاس نعمتیں… اس لئے درود شریف کو بہت ادب اور احترام سے پڑھنا چاہیے
… بہت اہمیت اور توجہ سے پڑھنا چاہیے… اور کبھی ناغہ نہیں کرنا چاہیے… افسوس کہ…
ہم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بہت کم سوچتے ہیں… بہت کم پڑھتے
ہیں،بہت کم جانتے ہیں اور بہت کم بولتے ہیں… حالانکہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بہت سوچنا چاہیے… بہت پڑھنا
چاہیے…بہت جاننا چاہیے اور بہت بولنا چاہیے … آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک بھی رحمت… آپ کا کلام مبارک بھی
رحمت … آپ کی ہر سنت رحمت … آپ کا تذکرہ بھی رحمت … اور آپ کی سیرت بھی رحمت …
اللہ تعالیٰ کا اتنا عظیم احسان کہ ہمیں کلمہ طیبہ میں… ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے
بعد ’’محمد رسول اللہ‘‘ عطاء فرمایا… اور یوں ہم مخلوق میں سب سے افضل ، سب سے
اعلیٰ، سب سے اکمل، سب سے حسین اور سب سے زیادہ باکمال اور باجمال ذات سے جڑ گئے…
ہمیں وہ ہستی مل گئی کہ… جس کو پائے بغیر اب نہ ہدایت مل سکتی ہے نہ ترقی ، نہ
کامیابی مل سکتی ہے… اور نہ حقیقی عزت… ہمیں وہ شخصیت مل گئی کہ… جس سے تعلق اور
محبت میں ہم جس قدر ترقی کرتے جائیں گے اُسی قدر اونچے ہوتے چلے جائیں گے … اُسی
قدر اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتے چلے جائیں گے…اب اس نعمت کے شکر کا تقاضا یہ ہے کہ …
ہم ذات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھیں… ہم صفات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھیں… اور ہم سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سیکھیں اور اپنائیں… اگر ہم ایسا کریں گے تو
ہماری زندگی نور اور خوشبو سے بھر جائے گی… ایک مسلمان کا کوئی دن ایسا نہ گذرے کہ
جس میں اس نے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت نہ سیکھی ہو… کوئی حدیث شریف نہ سنی
ہو… یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ سیرت نہ پڑھی ہو… اور سب سے بڑھ کر یہ کہ
…ہم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی …’’معیار‘‘ بنائیں … عقل کا معیار، تہذیب
کا معیار، ترقی کا معیار، حسن کا معیار، عزت کا معیار، کامیابی کا معیار… یعنی آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کیا اور جو فرمایا بس وہی عقلمندی ہے… وہی
تہذیب ہے، وہی ترقی ہے، وہی عزت ہے… وہی کامیابی ہے اور وہی حسن ہے… ہمارے لئے نہ
سائنس بڑی دلیل ہو… اور نہ دنیا کے معروف دانشوروں کے اقوال دلیل ہوں… ہمارے لئے
بڑی دلیل … بس حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہو… پھر سائنس اس کی تائید کرے یا نہ
کرے… دنیا کی نام نہاد تہذیب اس کی تائید کرے یا نہ کرے … دانشوروں کے اقوال اس کے
مطابق ہوں یا مخالف… ہمیں اس سے کوئی فرق نہ پڑے۔ہم سائنسی تحقیقات کو حرف آخرنہ
سمجھیں… یہ تحقیقات ہر دس سال بعد تبدیل ہو رہی ہیں… سائنسدانوں کی مثال اس چیونٹی
جیسی ہے جو سمندر اور زمین کو ناپ اور دیکھ رہی ہے… یہ چیونٹی چند سال کی محنت سے
جتنا سمندر اور جتنی زمین دیکھ سکتی ہے… وہ اسے بیان کر دیتی ہے… مگر جب آگےبڑھتی
ہے تو اسے اپنی سابقہ تحقیق پر شرم آنے لگتی ہے… اور وہ اس سے دستبردار ہو جاتی
ہے…کائنات بہت بڑی ہے…اور سائنسدانوں کے آلات بہت چھوٹے… جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو مسخر فرما
دیا تھا … آپ نے زمین بھی دیکھی اور آسمان بھی … اور آسمانوں کے بعد والے جہان
بھی ملاحظہ فرمائے … اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو فرماتے ہیں وہی سچ ہوتا ہے… آج کل یہ وباء
چل پڑی ہے … اور یہ بڑی خطرناک ہے کہ… لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو سائنس پر تولتے ہیں… وہ سائنس کے
مطابق نظر آئیں تو خوشیاں مناتے ہیں… اور اگر سائنس کے خلاف نظر آئیں تو احساس
کمتری میں مبتلا ہو کر طرح طرح کی تاویلیں کرتے ہیں… کاش !یہ لوگ سورۂ حجرات کو
پڑھ لیتے… جس میں اللہ تعالیٰ نے واضح تنبیہ فرما دی کہ… اپنی بات اور آواز کو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اور آواز سے اونچا نہ کرو… اور اُن کی
باتوں کے ساتھ عام انسانوں کی باتوں والا رویہ نہ رکھو… اگر تم نے یہ جرم کیا تو
تمہارے سارے اعمال حبط اور ضائع ہو جائیں گے اور تمہیں علم تک نہ ہو گا۔
جو لوگ سائنسدانوں اور حکمرانوں کی آواز کو … نعوذ باللہ
نعوذ باللہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے اونچا کر رہے ہیں… اُن کی تحقیقات
کو معیار بنا کر… اُن پر حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو جانچ رہے
ہیں… وہ کتنا بڑا ظلم کر رہے ہیں… ہاں! بہت بڑا ظلم… ارے !یہ وہ محبت نہیں جو سستی
ہو یہ بہت قیمتی ’’محبت‘‘ ہے… اور مکمل ادب… اس محبت کی پہلی شرط ہے۔
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ
مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ
عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی آلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ
حَمِیْدٌ مَجَیْدٌ۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 622
مسجد اقصیٰ کے نام
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’القدس‘‘ کو اسرائیل کا دار
الحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو تبصروں اور تجزیوں کی بھرمار ہو گئی…
ایسے میں ایک مرد قلندر نے بڑا بصیرت افروز اور چشم کشا تجزیہ کیا…
پڑھیں اور
حقیقت کا سراغ پا لیں۔
تاریخ
اشاعت:
۲۶ربیع الاول ۱۴۳۹ھ / بمطابق15دسمبر 2017ء
مسجد اقصیٰ کے نام
اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو ’’ بے کار‘‘ پیدا نہیں فرمایا…
نہ مکھی کو، نہ مچھر کو، نہ خنزیر کو… اور نہ ’’ڈونلڈ ٹرمپ ‘‘ کو۔
اللہ تعالیٰ ’’ الحکیم‘‘ ہیں… ان کا کوئی کام حکمت اور مقصد
سے خالی نہیں… اسرائیلی حکایات میں ہے کہ ایک نبی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ آپ نے مکھی کو کس
لئے پیدا فرمایا ہے… اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا:یہ مکھی روز آپ کے بارے میں
پوچھتی ہے کہ… میں نے آپ کو کس لئے پیدا فرمایا ہے؟… سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کا
’’جہان‘‘بہت وسیع… اللہ تعالیٰ کا ’’نظام‘‘ بہت وسیع… اللہ تعالیٰ کا علم بہت
وسیع… اس دنیا میں ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ…بس صرف وہی کام کا ہے… مکھی کا گمان
ہے کہ دنیا اس کے بغیر نہیں چل سکتی… ٹرمپ کا گمان ہے کہ وہ عقلمند اور ذہین ہے…
اب تک جن لوگوں کو ’’ٹرمپ‘‘ کے پیدا ہونے کی ’’حکمت‘‘ سمجھ نہیں آئی تھی… وہ اب
اللہ تعالیٰ کی حکمت اور قدرت پر عش عش کررہے ہیں …ٹرمپ کے ایک بیان نے اُمت مسلمہ
میں غیرت اور قربانی کی عمومی ہوا چلا دی ہے… مسجد اقصیٰ اور القدس کا معاملہ جو
دشمنوں کی محنت سے ’’سرد خانے‘‘ میں منتقل ہو رہا تھا… اب پھر بھڑک اُٹھاہے…تحریک
آزادیٔ فلسطین نے ایک نئی کروٹ لی ہے… لاکھوں نوجوانوں نے تازہ ولولے اور اخلاص
کے ساتھ… اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے شہادت اور مسجد اقصیٰ کے لئے آزادی مانگی ہے
…عرب حکمرانوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی… فلسطین کا بار بار تذکرہ کرنا پڑ رہا ہے… بس
یوں سمجھیں کہ… اب یہ معاملہ پھر چل نکلا ہے… اور اس بار یہ بہت دور تک جائے گا،
ان شاء اللہ… ابو جہل کی جہالت اور دشمنی… مجاہدین بدر کا لشکر تیار کرتی ہے…
دجّال کا ظلم اور جبر… اسلام کے اس لشکر کو کھڑا کرے گا …جس کا مقابلہ روئے زمین
پر کوئی نہیں کر سکے گا… ہم مسلمانوں کو ہمیشہ ’’دشمن‘‘ راس آتے ہیں… بشرطیکہ وہ
کھلے دشمن ہوں… تب ہم اُٹھتے ہیں، سنبھلتے ہیں… اور ایسا وار کرتے ہیں جسے صدیاں
یاد رکھتی ہیں… دوست نما دشمن ہم مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ہے… ہم مروّت اور
مسکراہٹ سے زخمی اور کمزور ہو جاتے ہیں … ٹرمپ آیا ہے تو اب مدینہ پاک بھی اپنے
لشکر میدان میں اُتارے گا… ہم الحمد للہ مسلمان ہیں … حضرت آقامحمد مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی اور غلام… ہمارے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی دعاء بھی ہے اور تربیت بھی کہ …
کوئی دشمن ہمیں نہیںمٹا سکے گا… دنیا میں کون ہے جو ہم مسلمانوں سے نہیں ہارا؟ اور
زمین پر کون ہے جو ہم مسلمانوں سے نہیں ہارے گا؟ دشمن جب دشمن بن کر آتا ہے تو ہم
کبھی اسے میدان میں اکیلا نہیں رہنے دیتے… ہم فوراً پہنچ کر اُس کی تنہائی بھی ختم
کرتے ہیں… اور اُس کا تکبر بھی… بش جب افغانستان میں ہم مسلمانوں سے ہار رہا تھا
تو اس نے… اپنی عزت اور ناک بچانے کے لئے عراق پر حملہ کر دیا… وہ عراق جو بظاہر
ایک ترنوالہ اور ایک آسان فتح تھی… دور دور تک وہاں نہ جہاد کا نشان تھا… نہ
مجاہدین کے لئے کوئی راستہ… بہت سوچ سمجھ کر بش اور ٹونی بلیئر نے عراق پر حملہ
کیا… وہ تاریخ میں خود کو ’’فاتح‘‘ لکھوانا چاہتے تھے… مگر نتیجہ کیا نکلا؟ … بش
اور بلیئر کو ایک اور شکست اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا… اور وہ دونوں تاریخ میں
’’مردود‘‘ لکھے گئے… ٹرمپ کی خواہش ہے کہ وہ… افغانستان کی جنگ دوبارہ جیت لے … اس
کے لئے اس نے ’’بھارت‘‘ کو اپنے ساتھ لے لیا ہے… اور پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا فیصلہ
کیا ہے… مگر ان دونوں اقدامات نے امارت اسلامی افغانستان کو مضبوط اور وسیع کر دیا
ہے… تب ٹرمپ نے اچانک ’’القدس‘‘ ( جسے ’’یروشلم‘‘ کہتے ہیں) …کو اسرائیل کا
دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے… مجھے ’’ٹرمپ‘‘ اور اس کے ہم خیال طبقے
پر ہنسی آ رہی ہے کہ… یہ بے چارے جہاد اور مجاہدین کے سامنے کیسے بے بس ہو چکے
ہیں … انہیں کچھ نہیں سوجھ رہا کہ وہ آخر کریں تو کیا کریں؟… یہ لوگ فتح اور
کامیابی کو ترس گئے ہیں… سترہ سال سے وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اُترے ہوئےہیں…
وہ اس جنگ میں اپنے کھربوں ڈالر اور ہزاروں فوجی گنوا چکے ہیں…مگر جنگ ہے کہ نہ
ختم ہو رہی ہے اور نہ کسی نتیجے پر پہنچ رہی ہے… اس جنگ کی طوالت اور ذلت نے…
امریکہ اور یورپ کو ڈپریشن اور دماغی خلل کا مریض بنا دیا ہے…وہ روز نئے نئے تجربے
کر کے تھک گئے ہیں… شیخ اُسامہ شہید رحمہ اللہ کی شہادت پر امریکی مصنفین نے کئی کتابیں لکھی
ہیں… ان میںسے اکثر میں یہ لکھا ہوا ہے کہ… سی آئی اے کا چیف اپنے سارے عملے کو
بٹھا کر ان کے درمیان بے چینی سے گھوم رہا تھا اور بار بار چیختا تھا کہ… تم لوگ
آخر کیا کر رہے ہو؟… ہمیں ہر دن شکست کا سامنا ہے… ہم نے کتنا پیسہ خرچ کیا… کس کس
پر پیسہ لگایا مگر نتیجہ صفر بٹا صفر ہے… وہ لوگ ( یعنی مجاہدین) ہر جگہ جیت رہے
ہیں… پھیل رہے ہیں، بڑھ رہے ہیں… جبکہ ہم ہر روز ان سے ہار رہے ہیں… اب مجھے نتیجہ
چاہیے… اسی ڈپریشن کا شکار ہو کر… امریکہ والے ’’ اوبامہ‘‘ کو لائے … دنیا کو یہ
دکھانے کے لئے کہ ہم نسل پرست نہیں ہیں… ہم تنگ ذہن والے نہیں ہیں… یہ تجربہ ناکام
ہوا تو وہ پاگل خانے سے ٹرمپ کو نکال کر لائے… اور اسے صدر بنا دیا… دنیا کی کوئی
بھی قوم جس کے ہوش و حواس سلامت ہوں… ٹرمپ جیسے شخص کو اپنا صدر نہیں بنا سکتی…مگر
جہاد اور مجاہدین نے امریکیوں کو بری طرح سے بدحواس کر دیا ہے… آپ خود سوچیں کہ
ہمارا کوئی مسئلہ اگر صرف سترہ دن تک پھنس جائے تو ہمارے ذہن کی کیا حالت ہوتی
ہے؟… امریکہ جیسا ملک جو گذشتہ پچاس سال سے دنیا کی واحد سپر پاور تھا… اور ہر
مسئلہ منٹوں میں حل کرنے کا عادی تھا… وہ امریکہ جو صرف آنکھیں دکھانے سے بڑے بڑے
ملکوں کے نظریات بدل ڈالتا تھا… وہ امریکہ جو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی طاقت بن
چکا تھا … مگر وہ ایک چھوٹے سے ملک میں جا کر پھنس گیا … وہ افغانستان جو ابھی تک
شیشے کا ایک گلاس نہیںبنا سکتا… اور وہ طالبان جن کومہذب دنیا کے لوگ پتھر کے زمانے
کا انسان کہتے ہیں…اب جب مہذب دنیا کی سب سے بڑی طاقت… پتھر کے زمانے والے انسانوں
سے بری طرح مار کھا رہی ہو… اور سترہ سال سے ہر دن شکست اُٹھا رہی ہو تو… اس کی
دماغی حالت کیا ہو گی؟… آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں… اسی لئے اخبارات میں صدر
ٹرمپ کی بیوقوفیاں اور مضحکہ خیزیاں پڑھ کر… ہمیں یہ حیرت نہیں ہوتی کہ… امریکہ نے
ایسے شخص کو کس طرح سے اپنا صدر بنا لیا ہے؟… اب امریکہ افغانستان میں ’’انڈیا‘‘
کو کھینچ کر لا رہا ہے … مگر ’’انڈیا‘‘ اڑیل گدھے کی طرح پچھلی ٹانگوں پر جم کر
کھڑا ہے… وہ افغانستان کو اپنے ایک اڈے کے طور پر تو استعمال کرنا چاہتا ہے… تاکہ
پاکستان کو غیر مستحکم کر سکے… اور سی پیک کے منصوبے کو سبوتاژ کر سکے… مگر وہ
افغانستان کی جنگ میں نہیںاُترنا چاہتا … وہ قریب سے دیکھ رہا ہے کہ دنیا کے چالیس
ممالک کا متحدہ لشکر… اور ان ممالک کی عسکری سائنسی ٹیکنالوجی… افغانستان میں کس
طرح سے مار کھا رہی ہے… تو ایسے حالات میں انڈیا افغانستان میں کیا کر لے گا… وہ
تو ابھی تک کشمیر میں مٹھی بھر مجاہدین کا مقابلہ نہیں کر سکا… ٹرمپ نے ’’القدس‘‘
کو اسرائیلی دار الحکومت تسلیم کرنے کا جو اعلان کیا ہے… اس پر آج کل بحث جاری
ہے… لوگ اپنے اپنے ذہن اور اپنی اپنی معلومات کے مطابق تجزیئے پیش کر رہے ہیں…
ہمارے خیال سے اس اعلان کا… جو کہ سراسر اسلام دشمنی میں کیا گیا ہے… زیادہ فائدہ
مسلمانوں کو پہنچے گا… کیونکہ دشمن جب دشمنی پر اُترتے ہیں تو مسلمانوں کا جذبہ
بیدار ہوتا ہے… ان میں فکر مندی، درد مندی اور شجاعت اُبھرتی ہے … وہ بے ساختہ
جہاد کی طرف لپکتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ نے جہاد میں ان کے لئے کامیابی رکھی ہے…
اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لئے جہاد کا شوق ویسے ہی ہر مسلمان کے خون میں دوڑتا
ہے۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 623
مبارک مناجات
جب دنیا اپنے مقاصد و حاجات کے لئے در بدر بھٹک رہی
تھی…عجیب و غریب اوراد و وظائف میں پناہ تلاش کر رہی تھی… تب ایک اللہ والے
نے دکھی دلوں کا مرہم اور پریشان حال مسلمانوں کے درد کا درماں… ایک
قرآنی تحفہ پیش کیا… اس بیش بہاتحفے کا نام ہے …
’’مبارک
مناجات‘‘
اسی قیمتی تحفے کے تعارف پر مشتمل ایک پرنور تحریر
تاریخ
اشاعت:
۳ ربیع الثانی۱۴۳۹ھ/ بمطابق 22 دسمبر 2017ء
مبارک مناجات
اللہ تعالیٰ کے عظیم انعامات میں سے… ایک انعام ’’تسبیح‘‘
ہے… ’’تسبیح‘‘ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی شان اور پاکی بیان کرنے کو…
سُبْحَانَ اللہِ
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی
سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ…
وغیرہ۔
’’تسبیح‘‘ اللہ تعالیٰ کا وہ ذکر
ہے… جس کی سلطنت سات آسمانوں کے اوپر تک پھیلی ہوئی ہے… اور قرآن عظیم الشان کی
سات مبارک سورتوں کا آغاز تسبیح سے ہوتا ہے…
{سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی
السَّمَاوَاتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ } …وغیرہ
حضرت سیّدنا نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو ’’تسبیح‘‘ کی
تاکید فرمائی کہ… بیٹا! ’’سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ‘‘کو ہمیشہ لازم پکڑنا… یہ
وہ کلمہ ہے جس کی برکت سے تمام مخلوق کو روزی ملتی ہے … حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس ایک بڑے بالوں والا پرندہ لایا گیا…
ارشاد فرمایا کہ اس نے تسبیح چھوڑ دی، اس لئے پکڑا گیا۔
سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ
تسبیح میں گناہوں کی پاکی بھی ہے… صرف ایک سو
بار ’’ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحْمَدِہٖ‘‘ پڑھا جائے تو سمندر کی جھاگ کے برابر گناہ
معاف ہو جاتے ہیں… تسبیح میں جنت کی آبادی بھی ہے کہ ایک بار ’’سُبْحَانَ اللہِ‘‘
پڑھنے سے جنت میں اپنی ملکیت کا ایک درخت لگ جاتا ہے، درخت بھی معمولی نہیں بلکہ
صدیوں کی مسافت تک پھیلا ہوا … تسبیح میں حشر کے دن کا سامان بھی ہے… ارشاد فرمایا
کہ… ’’سُبْحَانَ اللہِ‘‘ آدھے میزان کو بھر دیتا ہے… اور باقی کو ’’اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ‘‘ بھر دیتا ہے… ایک بزرگ کے پاس ایک شخص نے روزی کی تنگی کی شکایت کی…
انہوں نے فرمایا: ہر نماز کے بعد ’’سُبْحَانَ اللہِ‘‘ ایک سو بار پڑھو… وہ صاحب
زندہ دل انسان تھے… زندہ دل وہ ہوتا ہے جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو… اور
جو دل کی توجہ سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہو… انہوں نے دل کی توجہ سے یہ عمل شروع
کیا مگر ایک ہفتہ بعد اُن بزرگوں کے پاس آ کر کہنے لگے کہ… یہ وظیفہ بند کرنے کی
اجازت چاہتا ہوں کیونکہ اب تو زمین کے خفیہ خزانے بھی نظر آنے لگے ہیں… جو لوگ
عقل مند ہوتے ہیں وہ خزانوں کا مالک بننے سے ڈرتے ہیں… کون سنبھالے، کون اتنی فکر
اُٹھائے، کون اِتنا حساب دے، کون اتنے حقوق ادا کرے… انسان کی ضرورت تو کچھ مال سے
پوری ہو جاتی ہے… اس سے زائد مال اس لئے ملتا ہے تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں اس
کے ذریعہ سے بڑے بڑے درجات حاصل کرے … اگر یہ نیت نہ ہو تو ضرورت سے زائد مال
انسان کو مسلسل ڈستا رہتا ہے…ذلیل اور کمزور کرتا رہتا ہے… پاگل اور نااہل بنا
دیتا ہے … بیماریوں اور مصیبتوں میں ڈال دیتا ہے … عرض یہ کر رہا تھا کہ تسبیح بڑی
نعمت ہے… اللہ تعالیٰ جس بندے کو اس کی توفیق عطاء فرما دیں… یہ اللہ تعالیٰ کا اس
بندے پر بڑا اِحسان ہوتا ہے …قرآن مجید میں جگہ جگہ حکم دیا گیا ہے کہ… اللہ تعالیٰ
کی ’’تسبیح‘‘ کرو… اور بتایا گیا ہے کہ ’’تسبیح‘‘ اللہ تعالیٰ کے مقربین کا وظیفہ
ہے… ہر تسبیح بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے۔
سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ
قرآن مجید میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ کی ’’تسبیح‘ ‘ہے… کبھی
فرشتوں کی زبانی اور کبھی انبیائِ کرام علیہم السلام کی زبانی… اور کہیں کسی اور قرینے سے… بندہ کا
یہ دل چاہتا تھا کہ… ایک ہی مجلس میں تسبیح کے یہ تمام مبارک اَلفاظ پڑھے… کیونکہ
قرآن مجید کی ہرتسبیح میں الگ الگ روحانی خزانے مخفی ہیں…مثلاً سورۂ بقرہ میں
فرشتوں کی تسبیح…
{سُبْحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا
اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ }
[البقرۃ:۳۲]
اس تسبیح کو جو مسلمان بھی کثرت سے اپناتا ہے …
اس پر علوم کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں… نفع دینے والا علم… برکت والا علم… اور
بہت روشن علم…اور معلوم نہیں اس آیت میں مزید کتنے خزانے ہوں گے… اللہ تعالیٰ کے
کلام کے فوائد و ثمرات بے شمار ہوتے ہیں… ایک ہی مجلس میں قرآن مجید کی
تمام’’آیاتِ تسبیح‘‘ کا وِرد … یہ وہ شوق تھا جو آج ایک کتاب کی صورت میں میرے
سامنے ہے… اللہ تعالیٰ اس کتاب کو نافع بنائے اور اسے قبول فرما کر میرے لئے مغفرت
اور آخرت کا سرمایہ بنائے… اس کا نام ’’مبارک مناجات‘‘ ہے… بندہ نے پہلے خود اس وظیفے
کو اپنا وِرد بنایا… پھر مسلمانوں کے فائدے کے لئے اسے شائع کرنے کا ارادہ کیا…
ماشاء اللہ ایسا مضبوط اور پُر تاثیر وظیفہ ہے کہ… پڑھتے ہی دل کی حالت بدل جاتی
ہے اور دعاء کی قبولیت کا یقین ہونے لگتا ہے… اس میں کلمہ طیبہ بھی ہے، تسبیح بھی
ہے، حمد بھی ہے اور استغفار بھی… اس وِرد کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ باوضو پہلے چند
بار درود شریف ، پھر ایک بار سورۂ فاتحہ، تین بار سورۂ اخلاص پڑھی جائے… اور اس
کے بعد یہ وِرد کیا جائے اور آخر میں پھر درود شریف پڑھ کر اپنے مقاصد و حاجات کے
لئے دعا ء کی جائے … اگر کوئی بڑا یا مشکل مسئلہ ہو تو دو رکعت نماز کے بعد چند
بار درود شریف، سات بار سورہ ٔفاتحہ، تین بار سورہ اخلاص پڑھ کر یہ وِرد کیا جائے
اور دعاء کی جائے… جادو، جنات اور دیگر باطنی اَمراض میں مبتلا اَفراد کے لئے بھی
یہ قرآنی وظیفہ اِن شاء اللہ بہت مفید رہے گا… جادو ان اونچی اور طاقتور چیزوں کے
سامنے نہیں ٹھہر سکتا … دُکھی دِل اور پریشان حال مسلمانوں کے لئے بندہ کی طرف سے
یہ تحفہ حاضر ہے… امید ہے کہ خوب فائدہ اٹھائیں گے اور بندہ کو بھی اپنی دعاؤں سے
نوازیں گے… اس کتابچے کا تعارف ملاحظہ فرمائیے۔
تعارف
اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں… ایک قیمتی تحفہ حاضر ہے… سب سے
پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر…
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ بِنِعْمَتِہٖ تَتِمُّ
الصَّالِحَاتُ
یہ تحفہ کیسے تیار ہوا؟ آپ جانتے ہیں کہ تسبیح یعنی اللہ
تعالیٰ کی پاکی بیان کرنے کے فضائل بے شمار… اور مقامات بہت اونچے ہیں… سُبْحَانَ اللہِ… سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ … سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ … لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ ۔
کچھ عرصہ سے بندہ کی توجہ اُن قرآنی آیات کی طرف بہت قوت
کے ساتھ ہو رہی تھی جن میں… اللہ تعالیٰ کی تسبیح ہے… تلاوت کے دوران جب کوئی ایسی
آیت آجاتی تو اُسے بار بار پڑھنے پر جی کرتا…
{سُبْحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا
اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا}
{سُبْحَانَ الَّذِیٓ اَسْریٰ
بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الاَقْصٰی}
{سُبْحَانَ الَّذِی خَلَقَ
الاَزْوَاجَ کُلَّھَا}
{ فَسُبْحَانَ الَّذِی بِیَدِہٖ
مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْیٍٔ}
{ فَسُبْحَانَ اللہِ حِیْنَ
تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ }
{سُبْحَانَ اللہِ وَ تَعَالٰی
عَمَّا یُشْرِکُوْنَ }
{سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ
الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ}… وغیرہا
تب دل چاہا کہ ان تمام آیات کو ایک جگہ جمع کر لوں… اور
قرآن مجید کے مبارک الفاظ میں’’تسبیح‘‘ پڑھا کروں… اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ
استخارہ کے بعد اس کی توفیق مل گئی… ابتداء میں ارادہ تھا کہ بس اپنے معمول میں
رکھوں مگر پھر … دوسروں کو بھی شریک کرنے کا ارادہ کر لیا کہ اہل دل اور اہلِ ذوق
اس سے فائدہ اٹھائیں… جب تسبیح کی آیات جمع کر رہا تھا تو خیال ہوا کہ حمد والی
آیات بھی جمع کر لی جائیں… حمد و شکر کا بڑا مقام اور بڑی فضیلت ہے…تسبیح اور حمد
کی آیات جمع ہو گئیں تو… دل چاہا کہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا‘‘ والی آیات کو بھی اس مبارک مجموعے میں شامل کر
لیا جائے… ان آیات میں اہل دل اسمِ اعظم کی تاثیر دیکھتے ہیں … ’’لَا اِلٰہَ
اِلَّا‘‘ والی آیات پہلے سے شائع ہوتی آ رہی ہیں… اُن کا جائزہ لیا تو اس میں
بھی مزید کام کی ضرورت محسوس ہوئی… چنانچہ اُن آیات کو ازسرِ نو تلاش کر کے جمع
کر لیا گیا… یہ تین تحفے جمع ہوئے تو دل چاہا کہ… قرآن پاک کے استغفار کو بھی
شامل کر لیا جائے… وہ چونکہ’’ الیٰ مغفرۃ‘‘ کتاب میں موجود تھا تو… مزید محنت نہیں
کرنی پڑی۔
اب الحمدللہ چار موتیوں پر مشتمل یہ مبارک مجموعہ تیار ہو
چکا ہے… اس کی تلاوت میں عجیب کیف ہے اور عجیب سرور ہے… اگر معانی پر غور کیا جائے
تو مزید بہت کچھ ہاتھ آ جاتا ہے… مثلاً تسبیح کہاں کہاں پڑھی جاتی ہے… اور حمد
کہاں کہاں… ان مبارک آیات کی تلاوت کے بعد دعاء مانگی جائے تو اس میں قبولیت کی
عجیب شان نظر آتی ہے… الحمدللہ کئی بار توفیق ملی اور ہر بار خوشی ملی… شک کی کیا
گنجائش ہے؟ قرآن مجید سے بڑھ کر کس کلام میں تاثیر ہو سکتی ہے… اور پھر قرآن
مجید کے الفاظ میں کلمہ طیبہ، تسبیح، حمد اور استغفار کا کیا مقام ہوگا؟ قرآن
مجید کی تلاوت کے بعد دعاء کا قبول ہونا وارد ہے… اور بعض آیات پڑھ کر اُن کے بعد
دعاء کا مانگنا بھی ثابت ہے… اس مختصر مگر بھاری کتابچے کی اشاعت پر دل خوش ہے…
اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہے… عزیز مکرم مفتی عبید الرحمٰن صاحب… اس پورے کام
میں شریک اور معاون رہے…
جَزَاہُ اللہُ خَیْرًا اَحْسَنَ الْجَزَاءِ…
اللہ تعالیٰ اس مجموعے کو قبولیت عطا فرمائیں۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ
العَلِیْمُ وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ آمِین یَا
اَرْحَمَ الرَّاحِمِین َ
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور… 624
قرآن اور سائنس
* ایک
خبر اورایک ورد…
* دنیاکاسب
سے بڑا جرم ’’باعمل مسلمان ہونا‘‘…
* پاکستان
میں انڈین لابی کے کرتوت…
* قرآن
مجید سے دوری بڑی بدنصیبی،بڑی محرومی…
* علماء
اور مجاہدین سائنس کے مخالف نہیں،ایک غلط تأثر کی تردید…
* مفید
اور تابعِ شریعت سائنس مسلمانوں کی بڑی ضرورت…
* عزت
اور غلبے کا سب سے بڑا راز ’’قرآن کریم‘‘…
* مسلمان
اور’’قرآن کریم‘‘ کی حق تلفی…
* ’’قرآن
کریم‘‘ سے جڑنے کی دعوت…
مایوسی
میں گھرے اور احساس کمتری میں مبتلاء افراد کے لئے ایک لاجواب تحریر
تاریخ اشاعت:
۱۰ ربیع
الثانی ۱۴۳۹ھ / بمطابق 29 دسمبر 2017ء
قرآن اور سائنس
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ’’قرآن مجید‘‘ کا’’ علم‘‘
عطاء فرمائے… نور ہی نور، روشنی ہی روشنی، رحمت ہی رحمت۔
اللہ تعالیٰ معاف فرمائے ہم نے بہت ’’ناقدری‘‘ کی… ایسی
عظیم الشان کتاب سے ’’فائدہ‘‘ نہ اُٹھایا… معلوم نہیں کیا کیا پڑھتے رہے … کیا کیا
دیکھتے رہے… مگر نہ قرآن مجید کو پڑھا، نہ سمجھا… نہ غور کیا…جب حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے دن فرما
دیا کہ… یا اللہ! میری قوم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا تھا… تب ہمارا کیا بنے گا؟
کیا بنے گا؟
درد یاد آ گیا
بات تو آج قرآن مجید ہی کی کرنی ہے، ان شاء اللہ… مگر
ابھی خبریں دیکھتے ہوئے ایک درد یاد آ گیا … حکومت نے انڈین جاسوس کلبھوشن یادو
کی… اس کے رشتہ داروں سے ملاقات کرائی ہے… حکومت نے اچھا کیا یا بُرا… اللہ ہی
جانے… پاکستان میں انڈین لابی کافی سرگرم ہے… انڈیا کے جگری یار سیاست سے لے کر
صحافت تک ہر جگہ طاقت میں ہیں… یہ لوگ پاکستان کو… انڈیا کی کالونی بنانا چاہتے
ہیں… یہی لوگ حکومت میں بھی موجود ہیں… ان کے نزدیک انڈیا کو خوش کرنے سے ہی
پاکستان ترقی کر سکتا ہے… یہ لوگ نہ ستر سال کی تاریخ سے واقف ہیں… اور نہ ان کو
برہمنی سامراج کے عزائم کا کچھ ادراک ہے… انہی لوگوں کی کوشش سے… ’’کلبھوشن‘‘ کی
اس کے اہل خانہ سے ملاقات ہوئی ہے… حالانکہ ’’ کلبھوشن‘‘ ایک غیر ملکی ہے… جبکہ
بھائی محمد افضل گورو شہید رحمہ اللہ … مقبوضہ کشمیر کے رہنے والے تھے اور دہلی کی
تہاڑ جیل میں تھے… انڈیا اپنے قانون کے مطابق ان کو ’’انڈین شہری‘‘ قرار دیتا تھا…
مگر جب ان کو پھانسی کے ذریعے شہید کرنے کا ’’کالا فیصلہ‘‘ ہوا تو اُن کے اہل خانہ
سے اُن کی ملاقات نہیں کرائی گئی… وجہ یہ کہ افضل گورو… مسلمان تھے، باریش تھے…
اور اُن کے نام کے ساتھ ’’جہاد‘‘ کا تعلق جڑا ہوا تھا۔
ابھی چند دن پہلے اطلاع ملی کہ… تہاڑ جیل دہلی میں پاکستانی
قیدیوں کے ساتھ… بہت ظالمانہ سلوک کیا جا رہا ہے… کئی قیدیوں کے زخمی ہونے کی بھی
اطلاع ملی ہے… ان میں سے بعض قیدی بیس سال سے جیل میں ہیں… مگر انڈیا نے کبھی یہ
گوارا نہیں کیا کہ… اُن قیدیوں کی اُن کے اہل خانہ سے ملاقات کرائے… جبکہ ہماری
حکومت نے ایک قاتل جاسوس سے… اس کے اہل خانہ کی پر اہتمام ملاقات پر قوم کے کروڑوں
روپے خرچ کر دئیے…اب شاید دنیا میں ’’باعمل مسلمان‘‘ ہونا ہی سب سے بڑا جرم بن چکا
ہے… اسی لئے ہر ظلم اورزیادتی ’’ باعمل مسلمانوں‘‘ پر ہی کی جاتی ہے …پاکستان کے
انڈین نواز لیڈر اور صحافی… ایک طرف یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جہاد کشمیر سے تعلق
رکھنے والے… باعمل پاکستانیوں پر پابندی لگائی جائے…اُن پر مقدمات چلائے جائیں
…اُن کو انڈیا کے حوالے کیا جائے…جبکہ دوسری طرف یہی افراد… بھارتی جاسوس کے تمام
انسانی حقوق ادا کرنے کے لئے… اس کے سگے بھائیوں کی طرح سرگرم ہیں۔
قرآن مجید سے دوری
آج دنیا کی غیر مسلم قوموں کے پاس جو ’’فنون‘‘ یا علوم
ہیں… اُن کو انہوں نے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے… اور اُن ’’فنون‘‘ کی وجہ سے وہ
خود کو برتر ثابت کرتے ہیں… معلوم نہیں کہ وہ’’چاند‘‘ پر گئے ہیں یا نہیں؟… فلم ،
ویڈیو اور تھری ڈی کے دھوکے بہت وسیع ہیں… آج کئی لوگ اپنے گھر میں بیٹھ کر
کمپیوٹر کے ذریعہ … خود کو پوری دنیا کی سیر کرالیتے ہیں… اور دنیا کے تاریخی
مقامات پر اپنی موجودگی دکھادیتے ہیں… لیکن چونکہ ہم لوگ احساس کمتری میں ڈال
دئیےگئے…اس لئے جب امریکہ وغیرہ نے اعلان کیا کہ ہم چاند پر ہو آئے ہیں تو ہم
نے…بغیرکوئی ثبوت مانگے فوراً تسلیم کر لیا… اور اُن کے چاند پر جانے کو اپنے
طنزیہ محاوروں کا حصہ بنا لیا…مثلاً دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے جبکہ ہم ٹوپی مسواک
میں اٹکے ہوئے ہیں … دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے جبکہ ہمارے مولوی ہمیں پتھر کے
زمانے میں دھکیلناچاہتے ہیں… تب ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ پتھر کے زمانے کا انسان
بہت طاقتور اور خوشحال تھا… آج اگر اُن میں سے کسی ایک کو اللہ تعالیٰ زندہ کر کے
لے آئے… تو اسے دیکھ کر ہمارے زمانے کے لوگ… اس جیسی صحت، طاقت اور خوشی حاصل
کرنے کے لئے…اربوں روپے خرچ کر ڈالیں گے۔
غیر مسلموں نے اپنے فنون اور اپنی ترقی کا ایسا جادو چلایا
کہ… مسلمانوں نے نعوذ باللہ اُن کو برتر سمجھ لیا اور کبھی یہ نہ سوچا کہ…
مسلمانوں کے پاس’’ قرآن عظیم الشان‘‘ موجود ہے… عزت اور غلبے والی کتاب…ایسا علم
کہ جس کے مقابلے کا کوئی علم ہی نہیں… ایسا نور کہ اس کے مقابلے کی کوئی روشنی
نہیں… آج مسلمان جو دنیا کی قوموں سے پیچھے ہیں… اس کی یہ وجہ ہرگز نہیں کہ ان کے
پاس سائنس نہیں ہے… علم نہیں ہے … بلکہ اصلی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس اقتدار نہیں
ہے… عمومی جہاد نہیں ہے… جہاد اور اقتدار نہ ہونے کی وجہ سے …ہمارا سرمایہ لوٹ لیا
جاتا ہے… ہماری صلاحیتوں کو غصب کر لیا جاتا ہے… اور ہمیں دن رات احساس کمتری کے
گڑھے میں دھکیلا جاتا ہے…حالانکہ… ہمارے پاس عزت کا سب سے بڑا راز موجود ہے… اور
وہ ہے ’’قرآن مجید‘‘… عزت کا یہ راز… مسلمانوں کے علاوہ کسی کے پاس موجود نہیں
ہے… مگر افسوس کہ ہم مسلمانوں نے قرآن مجید کی قدر نہیں کی… ہم نے اسے صرف ختم ،
ایصال ثواب… اور دم درود کی چیز سمجھ لیا ہے… نعوذ باللہ ہم نے… قرآن مجید کو وہ
احترام نہیں دیا جس کا وہ مستحق ہے… دنیا کے اٹھانوے فی صد مسلمانوں کو… قرآن
مجید کے علم کا پتا تک نہیں …اور جو دو فیصد مسلمان قرآن مجید کا علم رکھتے ہیں…
اُن میں سے بھی… بہت کم اس میں غور اور تدبر کرتے ہیں…ہم میں ایسے افراد بھی پیدا
ہو گئے ہیں… جو غیر مسلموں کی عینک لگا کر قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں… اور
قران مجید کو کھینچ تان کر…سائنسی تحقیقات کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں… ہم
میں ایسے افراد بھی ہیں… جو حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کی انگلی مبارک پکڑے بغیر…
یعنی حدیث اور سنت کے بغیر قرآن مجید کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں… جو کہ ناممکن
ہے… بالکل ناممکن ہے…اور ہم میں سے ایسے لوگ بھی مسلمان کہلاتے ہیں… جو نعوذ باللہ
قرآن مجید کے علم اور تعلیم کو حقیر سمجھتے ہیں … وہ نہ خود قرآن مجید کو سمجھتے
ہیں اور نہ دوسروں کو قرآن مجید سے جڑنے دیتے ہیں… ہائے افسوس!… علم، نور اور عزت
کا یہ عظیم خزانہ ہم سب کے قریب موجود ہے… مگر ہم اپنی بد نصیبی کی وجہ سے… اس سے
کس قدر دور ہیں… کس قدر محروم ہیں۔
سائنس کی مخالفت نہیں ہے
آج ہر طرف سے یہ غلط تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ… امت کے
علماء اور مجاہدین ’’سائنس‘‘ کے مخالف ہیں… ثبوت یہ پیش کیا جاتا ہے کہ …علماء نے
لاؤڈ اسپیکر کی مخالفت کی تھی… پرنٹنگ پریس کی مخالفت کی تھی وغیرہ وغیرہ…
حالانکہ یہ سب جھوٹ ہے… علماء جدید آلات پر بحث ضرور کرتے رہے ہیں…کیونکہ ہماری
شریعت… ایک جامع شریعت ہے… ہم پر ہر معاملے میں شریعت کے احکامات لاگو ہوتے ہیں …
مثلاً کوئی عیسائی پوری بائبل پڑھ لے… اس کو نہ سجدے کی فکر ہے نہ پاکی کی… مگر ہم
قرآن مجید کی چودہ آیات پر سجدہ کرتے ہیں… اب جب قرآن مجید کی تلاوت ریکارڈ
ہونے لگی تو… سوال اُبھرا کہ… ریکارڈنگ میں آیت سجدہ سننے پر سجدہ ہو گا یا
نہیں؟… لاؤڈ اسپیکر پر بھی ابتدائی زمانے میں… اسی طرح کی بحث اور غوروفکر ہوا
کہ… اس سے آنے والی آواز اصل قرار دی جائے گی…یا اس کا حکم بازگشت کا ہو گا… اگر
مسلمان علماء اس پر بحث کرتے رہے ہیں کہ… مچھر کا خون کپڑوں پرلگنے کا کیا حکم
ہے؟… تو اس بحث کا مذاق کیوں اُڑایا جاتا ہے؟… اسے حقارت کا نشانہ کیوں بنایا جاتا
ہے؟… ناپاک قسم کے جاہل صحافی بس انہی دوچار مثالوں کو پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور
پوری علماء برادری کو سائنس اور ترقی کا مخالف قرار دے دیتے ہیں…دنیا میں مچھر بھی
موجود ہیں… اور ان کا خون بھی… تب ضرور اس کا کوئی شرعی حکم بھی ہو گا … جب بھی
کوئی نئی ایجاد آئے گی… اس کا بھی ہمارے بہت سے احکامات سے تعلق ہو گا … اور امت
کے علماء اپنی سعادت سمجھ کر…ان معاملات پر غور اور تحقیق کرتے رہیں گے… ایک یہودی
نے ایک جلیل القدر صحابی کا اسی طرح مذاق اُڑانے کی کوشش کی تھی… جس طرح آج کئی
صحافی اور دانشور ، علماء کرام کا مذاق اُڑاتے ہیں … اس یہودی نے صحابی سے کہا…
سنا ہے آپ کے نبی آپ کو’’ بیت الخلاء‘‘ کے احکامات بھی سکھاتے ہیں؟ … مقصد مذاق
اُڑانا تھا کہ… تمہارا دین اتنا حقیر ہے کہ… ایسی معمولی اور ذاتی باتوں میں پڑا
رہتا ہے… مگر سامنے حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے… وہ نہ
شرمندہ ہوئے اور نہ احساس کمتری میں گرے… بلکہ بڑے فخر سے فرمایا کہ ہاں کیوں
نہیں؟… ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے کہ ہم جب بیت الخلاء میں جائیں تو
… قبلہ کی طرف رخ کریں اور نہ پیٹھ۔
مفید اور تابع سائنس
ایسی ایجادات اور ایسی سائنس جو نفع مند ہو … اور شریعت کے
قطعی اصولوں کے تابع ہو… وہ اس زمانے میں مسلمانوں کی بڑی ضرورت ہے … اللہ تعالیٰ
نے مسلمانوں کو بڑی صلاحیتوں سے نوازا ہے… کلمہ طیبہ… لا الٰہ الا اللہ محمد رسول
اللہ میں عجیب تاثیر ہے… جو مسلمان دل کی گہرائی میں اس کلمے کو اُتارتا ہے وہ ہر
میدان میں باصلاحیت اور کامیاب ہوتا ہے… آج اگر مسلمانوں کو امت کا درد رکھنے
والے حکمران نصیب ہو جائیں… اور وہ سائنسی تعلیم کے ادارے بنائیں…اور باعمل مسلمان
نوجوان ان اداروں سے تعلیم پائیں اور اپنی خدمات کو… حرص و ہوس کے تابع نہ بنائیں
تو… مسلمان اس میدان میں غیر مسلموں سے بہت آگے نکل سکتے ہیں… مگر آج حالت یہ ہے
کہ… دل میں نہ اسلام کی محبت ہے اور نہ مسلمانوں کا درد… بس مال کا حرص… اور
کافروں کی عظمت دلوں میں بھری ہوئی ہے… اسی لئے نہ کوئی مسلمان باصلاحیت سائنسدان
سامنے آ رہا ہے اور نہ مسلمانوں کو اس میدان میں کچھ سبقت مل رہی ہے … علماء اور
مجاہدین نے نہ تو لوگوں کو سائنس سے روکا ہوا ہے… اور نہ انہوں نے کالجوں اور
یونیورسٹیوں کو تالے لگا رکھے ہیں… وہ تو صرف اتنی سی درخواست کر رہے ہیں کہ…
ہمارے چند مدارس ہیں اور ان میں قرآن و سنت کی خالص تعلیم کا انتظام ہے… آپ ان
مدارس کو برداشت کر لیں … آپ جتنے اسکول، جتنے کالج ،جتنی یونیورسٹیاں چاہیں
کھولیں… ہم نے کب منع کیا ہے؟…بس ہمیں فتنے اور فساد کے اس دور میں… قرآن مجید سے
جڑا رہنے دیں… اب اس بات میں سائنس کی کون سی مخالفت نظر آ رہی ہے؟
خلاصۂ کلام
قرآن مجید بہت عظیم نعمت ہے… دنیا بھر کے سارے علوم، ساری
سائنس اور سارے فنون مل کر بھی… قرآن مجید کی ایک آیت کے علم کے برابر نہیں ہو
سکتے…قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے …اور اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق ہے
… مسلمانو! قرآن مجید کی قدر کرو… قرآن مجید کو سمجھ لو… قرآن مجید کو حاصل
کرو… قرآن مجید کی تعظیم کرو… قرآن مجید کا علم پڑھو اور پڑھاؤ… اور قرآن مجید
کے ساتھ پوری طرح جڑ جاؤ … بس آج یہی دعوت ہے اور یہی درد ہے۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 625
بس چھری چلانے کی دیر ہے
* آج
’’حج بیت اللہ‘‘ کافی آسان ہے، نا معلوم کب مشکل ہو جائے، اس لئے صاحب استطاعت
مسلمان حج میںایک منٹ کی تاخیر بھی نہ کریں…
* ’’حج
بیت اللہ‘‘ کے فضائل و فوائد…
* ’’فرائض‘‘
کے بغیر زندگی بے کار اور ادھوری…
* نیکی
کا کام اور تاخیر… آخر کیوں؟…
* اونچے
مقام کو پانے کیلئے ’’چھری‘‘ چلانی پڑتی ہے… ایک سبق آموز واقعہ…
’’حج بیت اللہ‘‘کی قدر و منزلت دل
میں بٹھاتی اورغفلت میں پڑے مسلمانوں کو جھنجھوڑتی ایک فکر انگیز
تحریر
تاریخ اشاعت:
۱۷ ربیع
الثانی ۱۴۳۹ھ/ بمطابق5 جنوری 2018ء
بس چھری چلانے کی دیر ہے
اللہ تعالیٰ ہی نے ہمیں’’ آنکھیں‘‘ عطاء فرمائی ہیں … اللہ
تعالیٰ ہمیں ان آنکھوں سے اپنا گھر ’’بیت اللہ شریف‘‘ دکھائے… بار بار
دکھائے…قبولیت کے ساتھ دکھائے…اور آخرت میں ہمیں بار بار اپنی زیارت کرائے …
آمین یاارحم الراحمین
’’بہت سے چہرے اس دن تروتازہ ہوں
گے، اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے ۔‘‘
[ القیامہ:۲۲،۲۳]
تاخیر نہ کریں
ہماری خوش نصیبی کہ روئے زمین پر’’ بیت اللہ شریف ‘‘موجود
ہے… ہماری خوش نصیبی کہ ہمارے پاس آنکھیں موجود ہیں… پھر اگر ان آنکھوں نے ’’بیت
اللہ‘‘ کو نہ دیکھا تو پھر کیا دیکھا؟… آج ’’حج بیت اللہ‘‘ کافی آسان ہے… کیا
معلوم کہ کل بہت مشکل ہو جائے… بہت سے مسلمان جو وہاں مقیم تھے آج کل دھڑا دھڑ
واپس آ رہے ہیں… اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کئی ایسے زمانے آئے کہ دور
والوں کے لئے’’حج بیت اللہ‘‘ بہت مشکل ہو گیا … کبھی سمندر قزاقوں سے بھر گئے… وہ
بحری جہازوں کو لوٹ لیتے تھے اور عازمین حج کو قتل کر دیتے تھے… کبھی ایسا بھی ہوا
کہ راستے ڈاکوؤںنے بانٹ لیے… ایسا بھی ہوا کہ صلیبیوں نے راستوں پر قاتلانہ ناکے
لگا دئیے …آج کل اچانک کوئی جنگ چھڑتی ہے تو فضاؤں میں ’’نوفلائی زون ‘‘ بن جاتے
ہیں… کہیں ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ… اللہ نہ کرے پھر ’’حج بیت اللہ‘‘ مشکل ہو
جائے… آج کل الحمد للہ بہت آسانی ہے… آج کل جتنا پیسہ رسومات پر ذبح ہوتا ہے
’’حج بیت اللہ‘‘اس سے بہت سستا ہے… فضول پڑے ہوئے پلاٹ جن پر… ہمارے مرنے کے بعد
ورثانے جھگڑے ڈالنے ہیں… ان پلاٹوں سے ’’ حج بیت اللہ‘‘ بہت آسانی سے ہو جاتا ہے…
پلاٹ تو یہیں رہ جائے گا… جبکہ’’حج بیت اللہ‘‘ ہمارے ساتھ آگے جائے گا… اور اس دن
انسان ایک ایک نیکی کا محتاج ہو گا… ہر شخص بس یہی دیکھ رہا ہو گا کہ وہ… آخرت
میں اپنے ساتھ کیا لایا ہے… ویسے بھی سوچیں کہ… اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کا گھر نہیں
دیکھا… تو پھر ہم اس کے شوق میں تڑپتے کیوں نہیں؟ روتے کیوں نہیں؟… اپنے محبوب رب
سے اتنا بھی عشق نہیں کہ جتنا… ایک نفس پرست عاشق کو اپنے محبوب سے ہوتا ہے؟… آہ
بیت اللہ!واہ بیت اللہ! ھا بیت اللہ!
حالات بدلتے رہتے ہیں
حکومت نے اس سال کی حج پالیسی کا اعلان کر دیا ہے… اسی
مہینے حج کے داخلے بھرے جانے ہیں …حج اسلام کے محکم اور بنیادی فرائض میں سے ایک
فریضہ ہے… صاحب استطاعت مسلمانوں پر زندگی میں ایک حج کرنا فرض ہے… جو مسلمان
استطاعت کے باوجود حج ادا نہیں کرتے ان کا انجام اور خاتمہ بہت خطرے میں پڑ جاتا
ہے… حج ایک عاشقانہ عبادت اور لاکھوں سعادتوں کا ایک مجموعہ ہے… حج کرنے سے نہ تو
کسی مسلمان کا مال کم ہوتا ہے… اور نہ ہی اسے فقر و فاقے کا خطرہ رہتا ہے…حج کے
ذریعہ ہم براہ راست اسلام کے مقدس ترین مقامات کو دل اور آنکھوں میں بسا لیتے
ہیں… حج بیت اللہ تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے مکمل پاکی کا بہترین نسخہ ہے… حج
بیت اللہ ہمیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے جوڑتا ہے اور یہی وہ مقامات ہیں جہاں…
اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم الشان کو نازل فرمایا ہے… حج بیت اللہ اللہ تعالیٰ کا
تاکیدی حکم ہے… اور مسلمانوں کے لئے حج بیت اللہ کھولنے کے لئے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی محنتیں اور بڑا جہاد فرمایا ہے… حج ایسی
عبادت ہے جو سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک ایک مسلمان کو نور اور پاکی
سے بھر دیتی ہے… حج کے اجتماع میں شرکت حشر کے دن کے اجتماع میں ہمارے لئے آسانی
اور راحت کا ذریعہ ہے… حج بیت اللہ کا ہر لمحہ ایمان اور عشق سے معمور ہے… حج بیت
اللہ ایسی والہانہ عبادت ہے کہ … اس عبادت کا شوق بھی عبادت کی طرح لذیذ ہے… اس
لئے جو مسلمان مرد اور عورت حج بیت اللہ کے لئے جا سکتے ہوں وہ ایک منٹ کی تاخیر
نہ کریں … حالات بدلتے رہتے ہیں… معلوم نہیں کب آنکھیں اچانک دیکھنا بند کر دیں…
بہت سے لوگ نابینا ہو جاتے ہیں… معلوم نہیں کب اچانک کہیں گریں اور جسم کی ہڈیاں
ٹوٹ جائیں … معلوم نہیں کب کوئی پکڑ کر کسی جگہ قید کر دے … معلوم نہیں کب کوئی
بیماری اچانک آئے اور زندگی ایک بستر تک محدود ہو جائے… پھر کیوں اپنی آنکھوں کو
کعبہ کی زیارت سے محروم رکھیں؟… پھر کیوں اپنے قدموں کو بیت اللہ کے طواف سے محروم
رکھیں… آج اگر صحت بھی ہے… اور کسی جگہ کوئی مال بھی خوامخواہ پڑا ہوا ہے تو… اسے
قیمتی بنا لیں …معلوم نہیں کب یہ مال اچانک ضائع ہو جائے …جب تک کوئی عبادت آسان
ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کا ’’فضل‘‘ ہوتا ہے… جو خوش نصیب ہوتے ہیں وہ اس فضل الہٰی
کے خوب مزے لوٹ لیتے ہیں… لیکن جنہوں نے محروم رہنا ہو وہ آج کل پر ٹالتے رہتے
ہیں… بھائیو!اور بہنو! یہ دنیا تیزی سے قیامت کی طرف جا رہی ہے… یہ ہر دن نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے سے دور ہوتی جا رہی ہے… یہ ہر
لمحہ خیر القرون سے شر القرون کی طرف سفر کر رہی ہے… اس لئے اس زمانے میں کسی نیکی
کو کل پر ٹالنا بہت خطرناک ہے …اچھے کل کی اللہ تعالیٰ سے ضرور امید رکھنی چاہیے
مگر… اپنے آج کو بہت قیمتی بنانا چاہیے … ممکن ہے کل کا دن آج کے دن سے بہتر نہ
ہو … حج کی عبادت ، صحت اور جوانی کے زمانے میں زیادہ جچتی ہے… ویسے تو اللہ
تعالیٰ جس عمر میں بھی نصیب فرما دیں… یہ بہت بڑی نعمت ہے… مگر جوانی تو جوانی
ہوتی ہے… اور جوانی کی عبادت کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے … ویسے بھی ہر مسلمان کو
پہلی فکر یہ ہونی چاہیے کہ… اس کے ’’فرائض‘‘ جلد از جلد پورے جائیں… کیونکہ
’’فرائض‘‘ کے بغیر زندگی بے کار اور ادھوری ہے… فرائض کے بغیر زندگی صرف خسارہ ہی
خسارہ ہے… ہم کب تک ہر نیکی کو کل پر ٹالتے رہیں گے… کوئی کہتا ہے کہ بس کچھ دن
بعد تہجد شروع کروں گا؟… اللہ کے بندے! کچھ دن بعد کیوں؟آج سے کیوں نہیں؟… یہی
حال حج کا ہے… پہلے مکان بنانا ہے، پھر کاروبار سیٹ کرنا ہے… پھر بچوں کی شادیاں
کرنی ہیں… پھر حج کا سوچیں گے… آہ مسلمان !تجھے اپنے رب کے گھر کو دیکھے بغیر آخر
چین کس طرح آ جاتا ہے؟… ٹھیک ہے اگر حج پر جانے کے اسباب نہیں ہیں تو نہ جانے میں
کوئی گناہ نہیں… مگر حج کے شوق کے اسباب تو تیرے پاس بے شمار ہیں… پھر دل میں شوق
کیوں نہیں؟… کیا شوق کے لئے بھی ٹکٹ اور ویزے کی ضرورت پڑتی ہے؟… تو اللہ کا بندہ
ہے… اور بیت اللہ، اللہ کا گھر ہے… بس اسی پر غور کر لے توشوق کی موجیں تیرے دل سے
اُٹھ کر … آنکھوں کا سیلاب بن جائیں گی… تب تو شوق کی ان لہروں میں ڈوب کر دعاء
مانگے گا تو … تیری دعاء ضرور عرش تک جا پہنچے گی… تب تیری روح میں قوت پرواز آئے
گی… تب تیرے خواب بھی بار بار مبارک سفر کریں گے… اور تو ’’حرمین شریفین‘‘ سے
مستقل جڑ جائے گا، ان شاء اللہ۔
چھری چلانی پڑتی ہے
قرآن مجید نے حج کی ترغیب دی ہے… قرآن مجید نے حج کی
فرضیت بیان فرمائی ہے … قرآن مجید نے حج کے مناسک اور احکامات سکھائے ہیں… ایک
مسلمان کو چاہیے کہ قرآن مجید میں ان تمام باتوں کو پڑھے … تب اسے معلوم ہو گا
کہ… حج ایک مسلمان کے لئے کس قدر اہم، کس قدر ضروری اور کس قدر مفید ہے… مگر ایک
مسلمان حج پر جائے کیسے؟ اتنا لمبا سفر، اتنا زیادہ خرچہ اور اہل و اقارب سے
جدائی… تب قرآن مجید نے ایک واقعہ سنا کر مسئلہ آسان فرما دیا … قرآن مجید بتا
رہا ہے کہ… ایک بوڑھے باپ کو اپنے نوجوان بیٹے سے بہت پیار تھا… بڑھاپے کی اولاد
تھی… اور سالہا سال کی دعاؤں کے بعد ملی تھی… اور بیٹا بھی ایسا کہ اسے دیکھتے ہی
باپ کی آنکھیں اور دل محبت کی ٹھنڈک میں ڈوب جاتے تھے… حسین و جمیل ، نیک و صالح،
ذہین اور فرمانبردار… دلکش اور باصفات… اب باپ کو حکم ملا کہ… اللہ تعالیٰ کی رضاء
کے لئے اپنا یہ بیٹا اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دے… اس حکم میں کوئی ایک ’’امتحان ‘‘
نہیں تھا بلکہ کئی سخت امتحانات تھے… جن میں سب سے مشکل اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا
تھا… باپ اللہ تعالیٰ کا وفادار تھا… وفادار لوگ بہت عجیب ہوتے ہیں…وہ بہت زیادہ
اور بہت لمبا نہیں سوچتے… وہ بس یہ دیکھتے ہیں کہ جو حکم آیا ہے بس اسے پورا کرنا
ہے… اور وہ بس ایک ’’لمحے‘‘ کا فیصلہ ہوتا ہے کہ … اس ’’ایک لمحے‘‘ میں ہم نے
مضبوط ہونا ہے … پہلے کیا ہو گا، بعد میں کیا ہو گا وہ سب اللہ تعالیٰ کے سپرد… ہم
نے تو بس اس ایک لمحے میں ثابت قدم رہنا ہے۔
باپ نے بیٹے کو لٹا دیا… خود کو ’’ایک لمحہ‘‘ کے لئے تیار
کیا… اور چھری چلا دی… بس دو سیکنڈ کا امتحان… چھری چلانے سے پورا ہو گیا … اور
اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ… آج تک جاری ہے… اور
ہمیشہ جاری رہے گا… اگر وہ اُس لمحہ چھری نہ چلاتے تو سب کچھ چھن جاتا … مگر انہوں
نے چھری چلا کر… اپنے گمان میں اپنا بیٹا ذبح کر دیا… تب وہ بیٹا بھی واپس مل گیا…
اس بیٹے کی نسل میں بھی برکت ہو گئی… اور مزید بے شمار نعمتیں بھی جاری ہو گئیں …
یہی حال ہر مسلمان کا ہے… جو اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے قربانی کی چھری چلا دیتا
ہے… وہ کامیاب ہو جاتا ہے… اور جو آگے پیچھے دیکھتا رہتا ہے اس کے ہاتھ کچھ نہیں
آتا… حج کا ارادہ کیا اور زیورات پر چھری چلا دی، پلاٹ پر چھری چلا دی … ان شاء
اللہ حج بھی ہو جائے گا… اور مال بھی واپس مل جائے گا … مگر چھری چلاتے وقت مال
واپس ملنے کی نیت نہ ہو… بس عشق ہو… جنون ہو… تڑپ ہو، قربانی ہو… اور دل کا اخلاص
ہو۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 626
اندھے،بہرے نظریات سے بچیں
* قرآن
مجید کے دو خاص موضوع’’ظالموں کا انجام‘‘ اور ’’مظلوموں کا مقام‘‘…
* ’’ظالموں کا
انجام‘‘ ہمیشہ کی حسرت،ہمیشہ کی ناکامی و نامرادی
* ’’مظلوموں
کا مقام‘‘ بظاہر ناکامی مگر حقیقت میں اونچی پرواز اور ہمیشہ کی سرفرازی، اس کی
چند مثالیں …
* امریکی
صدر کی دھمکی اور پاکستانی تجزیہ نگاروں کی ’’حواس باختگیاں‘‘ …
* پاکستان
کے برے حالات کی ایک وجہ ’’حرام جنگ میں شرکت‘‘…
* اس
جنگ سے جان چھڑائےبغیر حالات کاسدھرنا ممکن نہیں
* اندھے
بہرے نظریات رکھنےو الے لوگ اور ان کا ایک مغالطہ
* خوف
اور مشکل حالات میں اہل ایمان کا طرز عمل…
شجاعت
، جرأت اور غیرت وہمت کا سبق دیتی
ایک
راہنما تحریر…
تاریخ اشاعت:
۲۴ ربیع
الثانی ۱۴۳۹ھ/ بمطابق 12 جنوری 2018ء
اندھے، بہرے نظریات سے بچیں
اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی… حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم پر جو کتاب نازل فرمائی ہے… اس کا
نام ہے ’’القرآن ‘‘ …’’قرآن مجید‘‘… جبکہ اس مبارک اور سچی کتاب کے نوے سے زائد
صفاتی نام اور بھی ہیں… مثلاً ’’الکتاب، الذکر‘‘ وغیرہ… قرآن مجید کا ایک خاص
موضوع ہے ’’ظالموں کا انجام‘‘… اور دوسرا خاص موضوع ہے ’’مظلوموں کا مقام‘‘۔
ظالموں کا انجام
دنیا میں بہت سے ’’ظالم‘‘ گذرے ہیں … اور قیامت تک ظالم لوگ
پیدا ہوتے رہیں گے… قرآن مجید نے ’’ظالموں‘‘کا’’ برا انجام‘‘ بیان فرمایا ہے…
ظالم ہمیشہ ناکام اور نامراد ہوتا ہے… ظالم ہمیشہ حسرت کی موت مرتا ہے… اور ظالم
کبھی کامیاب نہیں ہوتا… وہ چند دن ظلم کرتا ہے مگر اس ظلم کی سزا ہمیشہ ہمیشہ کے
لئے پاتا ہے… قابیل سے لے کر اصحاب الفیل تک… مختلف ظالموں کے نمونے قرآن مجید نے
بیان فرمائے ہیں… بس اسی طرح کے مختلف ظالم قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے… یہ ظلم کی
آگ جلائیں گے… بہت سے مظلوموں کو ماریں گے… مگر پھر خود اپنی جلائی ہوئی آگ کا
ایندھن بن جائیں گے… قرآن مجید نے یہ موضوع اتنی تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ… اسے
پڑھ کر ہر مومن، ہر مسلمان… بس یہی تمنا رکھتا ہے کہ… وہ کبھی بھی کسی پر ’’ظلم‘‘
نہ کرے … بے شک مظلوم بن کر مر جائے… مگر ایک منٹ کے لئے بھی ’’ظالم ‘‘ نہ بنے۔
مظلوموں کا مقام
دنیا میں بہت سے ’’مظلوم‘‘ گذرے ہیں … اور قیامت تک یہ عظیم
’’برادری‘‘ موجود رہے گی… اللہ تعالیٰ کی خاطر… سچے دین کی خاطر … بلند نظریات کی
خاطر… ظالم کے ظلم کا سامنا کرنے والے… اللہ تعالیٰ کے بندے… قرآن مجید اُن کے
معطر تذکرے مہکاتا ہے… بار بار سناتا ہے …اور اُن مظلوموں کا ’’بلند مقام‘‘ بتاتا
ہے… مظلوم بظاہر ناکام ہوتا ہے کیونکہ مارا جاتا ہے، مغلوب ہوتا ہے، قتل کیا جاتا
ہے، جلایا جاتا ہے ، سولی پر لٹکایا جاتا ہے… لیکن حقیقت میں وہ بڑا کامیاب ہوتا
ہے… ظلم کی آگ اس کے لئے جنت کا باغ بن جاتی ہے…ظلم کی موت اس کے لئے شہادت کی
زندگی بن جاتی ہے…ظلم کے تھپیڑے اس کے لئے اونچی پرواز بن جاتے ہیں… قرآن مجید نے
کئی مظلوم کردار… ذکر فرمائے ہیں… ہابیل علیہ السلام سے لے کر شہدائے اخدود تک… مؤمنِ بنی اسرائیل
سے لے کر شہدائے ہجرت تک… یہ وہ لوگ تھے جن کے پاس… ظالموں کا مقابلہ کرنے کے لئے
ایک ہی ہتھیار تھا… اور وہ تھا جانثاری، فداکاری اور قربانی… انہوں نے بڑی استقامت
سے یہ ہتھیار استعمال کیا… یعنی اپنی جان قربان کر دی …پس اُن کے اس ہتھیار نے ہر
ظالم کو ذلیل و ناکام کر دیا… اور خود یہ مظلوم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کامیاب ہو گئے
، سرفراز ہو گئے…فرعون ناکام ہو گیا کہ… ایک کمزور سی نہتّی عورت کو نہ دبا سکا …
اپنی ساری طاقت کے باوجود اس عورت سے اپنی بات نہ منوا سکا… اپنے تمام تر تشدد کے
باوجود اس عورت کو نہ جھکا سکا… جبکہ وہ عورت کامیاب ہو گئی کہ … اکیلی اور نہتّی
ہونے کے باوجود اتنے بڑے بادشاہ سے نہ دبی، نہ جھکی… بلکہ اپنی جان دے کر اسے شکست
دے گئی… اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی پا گئی… فرعون جو چاہتا
تھا وہ نہ پا سکا… اسی کو ’’ناکامی‘‘ کہتے ہیں… اور سیدہ آسیہ رضی اللہ عنہا جو
چاہتی تھیں … وہ انہوں نے پا لیا …اسی کو ’’کامیابی ‘‘ کہتے ہیں… قرآن مجید
’’مظلوموں ‘‘ کا بلند مقام اتنی تفصیل سے سناتا ہے کہ… ہر مسلمان دین کی خاطر ہر
ظلم سہنے کی طاقت پا لیتا ہے۔
اندھے، بہرے نظریات
امریکہ کے صدر نے پاکستان کو دھمکی دی … وہ ایک بے عقل،
ظالم شخص ہے… ہر دن ٹویٹر پر اپنی غلاظت چھوڑتا رہتا ہے… شمالی کوریا کو بڑی سنگین
دھمکیاں دیتا ہے مگر جواب میں… اسے گالیاں پڑتی ہیں… شمالی کوریا کے حکمران بلا
جھجکے اسے دو ٹوک جواب دیتے ہیں…مگر جس دن سے ’’ٹرمپ‘‘نے پاکستان کو دھمکی دی ہے
…پاکستان میں خوف کی فضا قائم ہو گئی ہے… قرآن مجید نے منافقین کی ایک صفت یہ
بیان فرمائی ہے کہ… وہ ہر آفت سے ڈرتے رہتے ہیں…ہر مصیبت کا رخ اپنی طرف سمجھتے
ہیں… اور ہر دھمکی پر خوف زدہ ہو جاتے ہیں… اللہ تعالیٰ معاف فرمائے… ہمارے
حکمرانوں ، قلم کاروں اور دانشوروں کا آج یہی حال بنا ہوا ہے… جس اخبار کو بھی
اُٹھا کر دیکھیں… خوفزدہ دانشور’’ خطرناک مستقبل‘‘ سے قوم کو ڈرا رہے ہیں… اور سب
کا ایک ہی بات پر زور ہے کہ… امریکہ اور انڈیا کے مطالبات فوراً مان لئے جائیں…
جہاد اور مجاہدین کا بوجھ سر سے فوراً اُتار دیا جائے… اور ٹرمپ کے سامنے گھٹنے
ٹیک دئیے جائیں… اتنی بڑی فوج ، اتنی مضبوط عوام اور ایٹم بم رکھنے والا ایک
اسلامی ملک… ایک پاگل کی ٹویٹر پر دی گئی دھمکی سے… اس قدر خوفزدہ ہو جائے گا… یہ
بات سوچنا بھی شرمناک ہے… مگر افسوس کہ یہ ذلت اور شرمندگی گذشتہ سولہ سال سے اس
ملک کا مقدر بنی ہوئی ہے… سولہ سال پہلے ایک ٹیلیفون کال پر… ہمارے اس وقت کے
حکمرانوں نے خوفزدہ ہو کر…امریکہ کو افغانستان پر حملے کے لئے ہر سہولت فراہم کر
دی… امریکی فوج کو زمینی اور فضائی اڈے دئیے گئے… اُن کے لئے لاجسٹک کی ہر سہولت
فراہم کی گئی… عرب اور افغان مجاہدین پکڑ پکڑکر اُن کے حوالے کئے گئے … اپنے کلمہ
گو افغان مسلمانوں کے قتل عام میں … ظالم امریکہ کا مکمل تعاون کیا گیا… اسی تعاون
کی پاداش میں اپنے ملک کو بدامنی کی آگ میں جھونکا گیا… دنیا بھر کے سفارتی
اصولوں کو ذبح کر کے افغان سفیر تک کو امریکہ کے سپرد کیا گیا …تمام اسلامی اور
اخلاقی حدود کو پامال کر کے … اپنے ملک کو ظالم اور بدکار درندوں کی چراگاہ بنا
دیا گیا… مگر جواب میں کیا ملا؟ … آج امریکہ کہہ رہا ہے کہ ہم سے پیسے لے کر ہم
سے دھوکہ کیا گیا ہے… سولہ سال کی اس ذلت کے باوجود آج پھر ’’ٹرمپ‘‘ کی دھمکی پر
گردن جھکانے کی تیاری کی جا رہی ہے…حالانکہ اب اگر پاکستان دوبارہ جھکا تو… شاید
حالات قابو میں نہ آ سکیں… کیونکہ اس بار امریکہ اکیلا نہیں ہے… اس کے ساتھ ’’
انڈیا ‘‘ بھی جڑ چکا ہے… اور ان دونوں کے مطالبات کی فہرست بہت طویل ہے… وہ
پاکستان کو نچوڑ کر رکھ دیں گے… مگر اُن کی خواہشات اور مطالبے پورے نہیں ہوں گے…
مگر اندھے اور بہرے نظریات رکھنے والے…سیاستدان، لسانیت پرست اور ماضی کے کمیونسٹ…
سب مل کر… خوف کی فضا بنا رہے ہیں… وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بس چند تنظیموں پر پابندی
اور چند افراد کی حوالگی سے… سب دشمن مطمئن ہو کر دوست بن جائیں گے … اور پاکستان
میں ترقی کا سیلاب آ جائے گا… حالانکہ یہ ان کی خام خیالی ہے… پاکستان اگر آج بچ
سکتا ہے تو اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ… وہ ماضی کی ہولناک غلطی سے اپنی گردن
آزاد کرا لے… افغانستان کے خلاف جس جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی بنا تھا… وہ
جنگ ایک ’’ظلم ‘‘ تھی… جب تک پاکستان اس ظلم سے خود کو علیحدہ نہیں کرتا… اس وقت
تک نہ پاکستان میں مکمل امن آ سکتا ہے… اور نہ دشمنوں کا دباؤ کم ہو سکتا ہے…
پاکستان کو اس حرام جنگ، حرام ظلم اور حرام اتحاد سے باہر نکالنا ہی… اس ملک کو
امن اور ترقی کی راہ پر ڈال سکتا ہے… اس وقت ظالم طاقتوں نے اپنے خزانوں کے منہ
اُن لوگوں کے لئے کھول دئیے ہیں… جو پاکستان میں ’’خوف‘‘ کا ماحول بنا رہے ہیں…
جبکہ بہت سے سیاستدانوں کے نظریات تو ویسے ہی اندھے ، بہرے اور ظالمانہ ہیں… وہ
پاکستان کی ہر طاقت اور قوت کو ختم کر کے… اسے ایک تجارتی بازار اور مارکیٹ بنانا
چاہتے ہیں… وہ سمجھتے ہیں کہ … جب ملک سے جہاد ، ایٹم بم ، فوج اور ہر طاقت کو
نکال دیا جائے گا…تو ہم سے کسی کو خطرہ نہیں رہے گا… تب امریکہ ہمیں اپنی گود میں
اور انڈیا ہمیں اپنی بانہوں میں لے لے گا… اور ہم سنگاپور اور دبئی کی طرح ساری
دنیا کے لئے ایک آزاد تجارتی منڈی بن جائیں گے… تب ہمارے پاس پیسہ ہی پیسہ ہو گا…
اور پیسہ ہی انسان کا اصل مقصود اور مطلوب ہے…حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ … جس دن
پاکستان اپنی طاقت سے دستبردار ہو گا… یہ دشمن ممالک اسے نوچ نوچ کر کھا جائیں گے…
اور اس کی تکہ بوٹی کر دیں گے۔ حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ
ایمان والوں کی صفت یہ ہے کہ… جب انہیں کفر اور ظلم سے
ڈرایا جاتا ہے تو وہ ہرگز نہیں ڈرتے بلکہ کہتے ہیں:
حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ
’’اللہ تعالیٰ ہماری مدد کے لئے
کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔ ‘‘
امریکہ اپنی تمام تر طاقت استعمال کر کے… افغانستان کے
نہتے’’طالبان‘‘ کو شکست نہیں دے سکا…پھر ہمیں اس سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟… باقی
رہا انڈیا تو اس پر اس وقت آر ایس ایس کی حکومت ہے… اور آر ایس ایس کا واضح
ایجنڈا ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا ہے… انہوں نے کبھی ’’برصغیر‘‘ کی تقسیم کو قبول اور
تسلیم نہیں کیا… ہمارے حکمران… نجم سیٹھی وغیرہ سے سبق پڑھنے کی بجائے انڈیا اور
افغانستان کے حالات کا… خود بغور جائزہ لیں… انڈیا ہماری طرف دوستی کا جو بھی
پیغام بھیجتا ہے… اس کے پیچھے اس کی دشمنی چھپی ہوتی ہے… انڈیا کے تمام تر مطالبات
کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ… پاکستان میں بد امنی پھیلے اور یہ ملک مزید کمزور ہو
جائے… ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ… دشمنوں کے بیچ میں بہادروں کی طرح زندہ رہنا
سیکھیں… اور یہ خواب دیکھنا چھوڑ دیں کہ… بے غیرتی اختیار کرنے سے ہمارے دشمن
ہمارے دوست بن جائیں گے… ایسا کبھی نہیں ہو سکتا… بے غیرت کا کوئی دوست نہیں ہوتا…
اور ہر دشمنی کا ختم ہونا یہ فطرت کے خلاف ہے۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
اصل پیغامِ محبت
اللہ تعالیٰ نے’’ قرآن مجید‘‘ میں’’ دوستی اور دشمنی‘‘ کا
مسئلہ تفصیل کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے… دراصل دوستی اور دشمنی انسان کی فطرت میں
شامل ہے… دوستی اور دشمنی کے صحیح استعمال سے انسان کامیابی اور ترقی پاتا ہے… اور
دوستی، دشمنی کے غلط استعمال کی وجہ سے… انسان بڑے نقصانات اور بربادی پاتا ہے۔
اپنی فطرت اور طبیعت میں سے … کوئی شخص دوستی اور دشمنی
نکال دے…یہ ممکن نہیں ہے… بہت سے لوگ دوستی اور دشمنی سے تنگ آ کر اسے بھلانے اور
مٹانے کی کوشش کرتے ہیں… تب وہ طرح طرح کے نشے کرتے ہیں… زیادہ وقت مدہوش اور بے
ہوش رہتے ہیں… مگر وہ اپنی اس کوشش میں نئے دوست اور نئے دشمن بنا لیتے ہیں… نشے
کی عادت بھی نشے کے ساتھ دوستی… اور عقل کے ساتھ دشمنی ہے۔
دوستی،دشمنی کی ترقی دیکھنی ہو تو… بہترین مثال حضرات صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں… انہوں
نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم سے دوستی کی… اور اللہ تعالیٰ
اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر دشمن سے دشمنی کی… پس یہی عمل اُن کی ہر
کامیابی اور ہر ترقی کا ذریعہ بن گیا… اور اگر دوستی اور دشمنی کی بربادی دیکھنی
ہو تو حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی مثال سامنے رکھ کر… یہ معاملہ پوری طرح
سمجھا جا سکتا ہے… قرآن مجید نے جس کو مثال بنایا ہو… وہ واقعی’’ مثال‘‘ ہوتا ہے…
انسان جس قدر غور کرتا جائے مسئلہ اسی قدر واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔
ایک قرآنی نکتہ
گذشتہ کالم کے آخری جملے میں لکھا تھا کہ …ہر دشمنی کا ختم
ہونا یہ فطرت کے خلاف ہے… اس میں ایک قرآنی نکتے کی طرف توجہ دلانا مقصود
تھا… وہ نکتہ ہے :
{بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ
عَدُوٌّ} [البقرۃ:۳۶]
یعنی انسان جب اس زمین پر اُتارا گیا تو اس کی فطرت میں
’’دشمنی‘‘ کا مادہ بھی رکھ دیا گیا… دراصل ’’دشمنی‘‘ انسان کی ایک اہم ترین ضرورت
ہے… جن افراد میں دشمنی کم ہوتی ہے یا کمزور ہوتی ہے… وہ انسان کبھی کامل نہیں ہو
سکتے… ایسے افراد دنیا میں کوئی بڑا کام بھی نہیں کر سکتے… مضبوط دوستی اور مضبوط
دشمنی یہ انسان کے کمالات میںسے ہے… اور یہ ایک انسان کی اہم ضرورت ہے… اگر
’’دشمنی‘‘ نہ ہو تو انسان کو ’’دوستی‘‘ سمجھ میں نہیں آ سکتی کیونکہ اگر
’’اندھیرا ‘‘ موجود نہ ہو تو ’’روشنی‘‘ کا فائدہ نہیں سمجھاجا سکتا … ’’کڑوا‘‘ موجود
نہ ہو تو ’’میٹھے‘‘ کا کیا پتا چلے گا … ’’دشمنی‘‘ ہی کی وجہ سے ’’دوستی‘‘ کی قدر
ہے اور ’’دوستی‘‘ کی لذت… دوسری بات یہ ہے کہ ’’دوستی‘‘ انسان کو اونچا اڑاتی ہے…
جبکہ ’’دشمنی‘‘ انسان کو مضبوط بناتی ہے… آپ دیکھ لیں گے کہ جس انسان کے دشمن کم
ہوتے ہیں وہ کمزور ہوتا ہے… اور جس کے دشمن جس قدر زیادہ ہوتے ہیں وہ اسی قدر
مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے… خلاصہ یہ کہ… ’’دشمنی‘‘ ایک ضروری ، ایک مفید اور مقوی
چیز ہے…یہ انسان کی قدر بھی بڑھاتی ہے اور قوت بھی … یہ انسان کی اصلاح بھی کرتی
ہے اور اسے ترقی بھی دلاتی ہے… شرط یہ ہے کہ… ’’دشمنی‘‘ ٹھیک جگہ استعمال ہو… لیکن
اگر اسے ’’غلط‘‘ استعمال کیا جائے تو یہ انسان کو… محرومی، ناکامی اور ذلت میں
گراتی چلی جاتی ہے… مکہ کے سردار ’’ابو جہل‘‘ جیسا بہادر، باصلاحیت ، مقبول شخص اس
زمین پر بہت کم پیدا ہوا ہے مگر اس نے ’’دشمنی‘‘ کی صفت کا غلط استعمال کیا تو…
ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ناکامی اور ذلت کی مثال بن گیا… اس لئے جو انسان کامیاب ہونا
چاہتا ہے… اسے اپنی ’’دشمنی‘‘ کو بھی… اپنی ’’دوستی‘‘ کی طرح… درست استعمال کرنا
ہو گا۔
یہ سب جھوٹے ہیں
اوپر جو باتیں عرض کی ہیں… بہت سے لوگوں کے لئے یہ باتیں
حیرانی کا باعث بنی ہوں گی… کیونکہ آج کل ہر طرف یہ نعرے گونج رہے ہیں:
* سب
کے لئے دوستی، سب کے لئے محبت
*
دوستی پھیلاؤ، دشمنی مٹاؤ
* امن،
شانتی ، دوستی اور عدم تشدد ہی میں کامیابی ہے
* محبت
اور دوستی کا پیغام عام کرو (وغیرہ،
وغیرہ)
واقعی یہ سب بہت میٹھے جملے ہیں… یہ جملے دل پر بہت اثر بھی
کرتے ہیں… عیسائی مشنریاں اور یہودی این جی اوز ان نعروں کو… ہر جگہ پہنچاتے اور
پھیلاتے ہیں… ویسے بھی جو انسان ان جملوں کو سنتا ہے وہ ضرور اثر لیتا ہے… کیونکہ
فطری طور پر ہر انسان کو دوستی اور محبت اچھی لگتی ہے… لیکن سوال یہ ہے کہ… ان
جملوں پر اس دنیا میں عمل کون کرتا ہے؟… ہم نے ’’محبت، محبت‘‘ کرنے والے کئی افراد
سے پوچھا کہ… کیا آپ مجاہدین اسلام سے بھی ’’محبت‘‘ رکھتے ہیں؟ … تب ان کے چہروں
سے نفرت کی ناگواری برسنے لگی… ارے بھائی! جب محبت سب کے لئے ہے تو پھر… مجاہدین
کے لئے کیوں نہیں؟… تب وہ غصے سے پھنکارتے ہیں کہ… مجاہدین چونکہ انسانیت کے دشمن
ہیں اس لئے ہم ان سے محبت نہیں رکھتے… معلوم ہوا کہ… محبت، محبت کا پیغام دینے
والوں کے دل بھی… دشمنی سے بھرے ہوئے ہیں… ویٹی کن کا پوپ ہر جگہ محبت، محبت کی
آواز لگاتا ہے… لیکن اگلے ہی لمحے وہ جہاد والے اسلام… جہاد والے نبی او رجہاد
والے قرآن کی نفرت سے پھٹنے لگتا ہے… اور اس کی عالمگیر محبت… صرف چند افراد تک
سمٹ کر رہ جاتی ہے… یہی حال انسانی حقوق کے اداروں …اور اسی طرح کی دیگر تنظیموں
کا ہے… یہ لوگ ’’محبت‘‘ کا لیبل لگا کر… دشمنی کا سودا بیچتے ہیں…دراصل یہ لوگ…
قرآن مجید کے ’’نظام محبت‘‘ اور ’’اصول عداوت‘‘ کو مٹانا چاہتے ہیں… یہ کہتے ہیں
کہ… جن سے دشمنی کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے… اُن سے محبت کرو… اور جن سے محبت
کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے… اُن سے نفرت کرو…ان لوگوں کے سامنے اگر آپ سورۂ
فاتحہ کی تفسیر بیان کریں تو ’’نعوذ باللہ‘‘ وہ اسے بھی نفرت کا سبق کہہ دیتے ہیں…
کیونکہ اس میں برے یہودیوں اور برے نصرانیوں کے راستے سے بچنے کی دعاء مانگی گئی
ہے۔
ان کی زندگیوں میں جھانک کر دیکھیں
عیسائی مشنریوں اور این جی اوز کے اہلکاروں کی نجی زندگیوں
میں جھانک کر دیکھیں … آپ کو یہ لوگ بغض ، عداوت اور دشمنی کی بھری ہوئی بوریاں
نظر آئیں گی… یہ اللہ تعالیٰ کے دین سے نفرت رکھتے ہیں… یہ قرآن مجید سے نفرت
رکھتے ہیں… یہ باعمل مسلمانوں کے جانی دشمن ہیں… یہ مجاہدین اسلام کا نام و نشان
تک گوارہ نہیں کرتے… یہ اپنے ماتحتوں اور ملازموں سے کتوں جیسا سلوک کرتے ہیں… یہ
حرص اور لالچ کی وجہ سے ہر کسی کو نقصان پہنچانے کی فکر میں رہتے ہیں… باقی رہا
’’محبت، محبت‘‘ کا پیغام تو وہ اُن کی نوکری اور اُن کی ڈیوٹی ہے… طوطے کی طرح وہ
صرف زبان سے کہتے ہیں اور بس… کیونکہ اگر اُن کے دل میں… واقعی انسانیت کے لئے
’’محبت، محبت‘‘ کی بات ہوتی تو… برما سے لے کر بوسنیا تک… مسلمانوں کا اس طرح سے
قتل عام نہ ہوتا… دنیا کی ہر جیل میں با عمل مسلمانوں کو… اتنی بے دردی کا سامنا
نہ ہوتا… اور دنیا کے ظالم حکمران اتنی آزادی سے … دنیا میں ظلم نہ ڈھا رہے
ہوتے…پوپ اگر واقعی ’’محبت‘‘ کا علمبردار ہے تو… اس نے ’’ٹرمپ‘‘جیسے نفرت کے گیس
سیلنڈر کو… ویٹی کن میں کیوں خوش آمدید کہا… اور یہی پوپ اپنے منہ پر سولہ لگامیں
لگا کر برما میں بھی… خطاب جھاڑ آیا … کیا یہی ہے ’’محبت، محبت‘‘ کی صداؤں کی
حقیقت؟… آج دنیا کے ہر ظالم کی پشت پر سرپرستی کا ہاتھ رکھ کر… پوپ کہتا ہے…
محبت، محبت… کیا آج زمین پر اس سے بڑی منافقت کوئی اور ہو سکتی ہے؟
اصل پیغام محبت
قرآن مجید ہی اصل ’’پیغام محبت‘‘ ہے… اسلام ہی اصل میں
’’دین محبت‘‘ ہے… مگر اسلام کا ’’پیغام محبت‘‘ … جھوٹ اور منافقت سے پاک ہے… اسلام
کے ’’پیغام محبت‘‘ میں ساری مخلوق کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے… اور جھوٹے میٹھے
دعووں کی جگہ … حقیقت کو اختیار کیا گیا ہے… نفرت سے پاک دل ، نفرت سے پاک سینے،
نفرت سے پاک نفس … یہ اسلام کا تحفہ ہیں… خیر خواہی ہی خیر خواہی یہ اسلام کا
پیغام ہے… اسلام سمجھاتا ہے کہ… ایک انسان ’’محبت‘‘ میں تبھی کامل ہو سکتا ہے… جب
وہ اپنی ’’دشمنی‘‘ کی صفت کا درست استعمال کرے… انسان جب زمین پر اُترا تو اس کے
دشمن بھی زمین پر اُتار دئیے گئے… اب ان دشمنوں سے دشمنی کرنا یہ انسان کی ایک
ضرورت ہے… اور دنیا کا کوئی انسان ’’دشمنی‘‘ سے خالی نہیں ہے… گاندھی سے لے کر پوپ
تک… جو لوگ خود کو ’’دشمنی‘‘ سے پاک قرار دیتے رہے… اُن کی زندگیاں… اور اُن کا
طرز عمل… اُن کے دعوے کی تصدیق نہیں کرتا… بلکہ اُن لوگوں کا طرز عمل ’’انسانیت ‘‘
کے لئے زیادہ خطرناک ہے … خود ’’گاندھی‘‘ کی ناک کے نیچے نہرو اور پٹیل نے برصغیر
کے لاکھوں مسلمانوں کا بے دردی سے خون کیا… تب گاندھی نے اسی خونخوار ملک کا ’’
راشٹرپتا‘‘ یعنی ’’بابائے قوم‘‘ ہونا قبول کر لیا… جبکہ سلطان صلاح الدین ایوبی
رحمہ اللہ کئی رات دن جاگ کر… فتح بیت المقدس کے معاہدے کو یقینی بناتے رہے… اور
انہوں نے تمام عیسائیوں کو امن اور حفاظت کے ساتھ وہاں سے نکالا… مگر تاریخ کا ستم
دیکھیں کہ گاندھی… امن پرست جبکہ… صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ … شدت پسند۔
دل کی اصلاح کریں
مقصد آج کی گفتگو کا یہ ہے کہ… ہم دنیا میں پھیلے ہوئے غلط
نعروں کا شکار ہو کر… اپنے ایمان اور اپنے عقیدے سے محروم نہ ہو جائیں… آج دنیا
میں لفظ ’’دشمنی ‘‘ یعنی ’’عداوت‘‘ کو ایک گالی بنا دیا گیا ہے… حالانکہ ہر دشمنی
اور ہر عداوت بری نہیں ہے… بلکہ بعض دشمنیاں اور عداوتیں ’’فرض ‘‘ ہیں…
بعض’’واجب‘‘ ہیں، بعض ’’مستحب‘‘…جبکہ کئی دشمنیاں ’’حرام ‘‘ ہیں… بعض ’’مکروہ‘‘
ہیں… اور بعض ’’ناپسندیدہ‘‘… یہی حال’’محبت‘‘ کا ہے… بعض محبتیں ’’ فرض‘‘ ہیں… لازم ہیں، اچھی ہیں … جبکہ بعض محبتیں
’’حرام‘‘ ہیں… ناجائز ہیں ، مکروہ ہیں…قرآن مجید ہمیں بعض دشمنیوں کا حکم دیتا
ہے… مثلاً:
{اِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ
عَدُوٌّفَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا} [فاطر: ۶]
اس آیت مبارکہ میں… شیطان سے عداوت اور دشمنی رکھنے کا اہل
ایمان کو باقاعدہ حکم فرمایا گیا ہے…اس لئے مسلمانوں پر ضروری ہے کہ… وہ دنیا میں
پھیلے ہوئے غلط نعروں کا شکار نہ ہوں… وہ نہ ہر دوستی کو اچھا سمجھیں اور نہ ہر
دشمنی کو برا… بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہو کہ… دوستی اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی…
محبت اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی… یہی حال دشمنی کا ہے… دشمنی اچھی بھی ہوتی ہے…
اور بری بھی… ہر ’’دشمنی‘‘ کو برا کہنا یہ جرم اور گناہ ہے… مسلمانوں کے لئے دوسرا
کام یہ ضروری ہے کہ وہ… قرآن و سنت میں دوستی اور دشمنی کے ’’اسلامی اصولوں‘‘ کو
پڑھیں، سمجھیں اور اپنائیں… وہ اپنی ’’دوستی‘‘ اور ’’دشمنی‘‘ کو اپنے نفس اور وقت
کی ضرورت کے حوالے نہ کریں… بلکہ اپنے نفس کا مجاہدہ کر کے، خوب محنت کر کے… اپنی
’’دوستی‘‘ اور اپنی ’’دشمنی‘‘ کے نظام کو درست اور مضبوط کریں… تب وہ بہت سے فائدے
پالیں گے… اور بہت سے نقصانات سے بچ جائیں گے۔
آخر میں ایک تحفہ
ہماری دوستی اور ہماری دشمنی کا نظام تب درست ہو گا جب
ہمیں… اس کے بارے میں درست علم حاصل ہو گا… اور ہمارا نفس پاک ہو گا … اصلاح نفس
کے لئے ایک مؤثر نسخہ حاضر خدمت ہے… حضرت شیخ یعقوب چرخی رحمہ اللہ نے اپنے مرشد حضرت خواجہ بہاء الدین
نقشبند رحمہ اللہ سے عرض کیا کہ… حضرت! اگر کسی کو شیخ کامل کی صحبت میسر نہ ہو تو
وہ اپنے نفس کے شرور سے کیسے بچے؟… حضرت نے فرمایا :
’’اس کو چاہیے کہ استغفار کی کثرت
کرے اور ہر نماز کے بعد بیس بار استغفار کی پابندی کرے۔ ‘‘
بندہ سعدی عرض کرتا ہے کہ… اس عمل کے لئے بہترین استغفار یہ
ہے:
اَسْتَغْفِرُ اللہَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا
ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 628
مفید دوستی اوردشمنی
* مفید
دوستی اور دشمنی… چند قرآنی نکتے
* قرآن
مجید کے نظام دوستی اور اصول عداوت کا مختصر مگر جامع خلاصہ…
* افغانستان
پر مسلط کردہ امریکی صلیبی جنگ کے بارے میں عوام اور حکمرانوںکوکیاکرنا چاہئے؟…چند
کھری کھری باتیں
* انڈیاکے زر خرید غلاموں کی مکروہ سوچیں…
* انڈیاکی
پاکستان دشمنی کی جڑیں بہت گہری اور بہت خوفناک ہیں… چند بولتے تاریخی حقائق
* دشمنان
اسلام سے ہماری دشمنی للہ ،فی اللہ ہے،اس کے لئے ہم آخری حد تک جانے کو تیار ہیں…
موتی
بکھیرتی ایک لاجواب تحریر
تاریخ اشاعت:
۸
جمادیٰ الاولیٰ ۱۴۳۹ھ / 26 جنوری 2018ء
مفید دوستی اوردشمنی
اللہ تعالیٰ کے دین کے دشمن اگر… دین کی وجہ سے آپ کے
’’دشمن‘‘ ہیں تو آپ … اللہ تعالیٰ کا شکرادا کریں کہ آپ حضرات انبیاء علیہم
السلام کی ’’سنت‘‘ پر ہیں…
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ
نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ}
’’اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے
مجرموں میں سے دشمن بنائے ہیں۔‘‘ [
الفرقان:۳۱]
اگر اللہ تعالیٰ کے دین کے د شمن آپ کو مارنا چاہتے
ہیں،پکڑنا چاہتے ہیں، قیدکرنا چاہتے ہیں یا آپ کو نکالنا چاہتے ہیں تو آپ اللہ
تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ … آپ حضرت اِمام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر کئی اَنبیائِ کرام علیہم السلام کی سنت پر ہیں…
{وَ اِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ
کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ
یَمْکُرُ اللہُ}
’’اور جب سازش کر رہے تھے کافر کہ
آپ کو قید کردیں یا قتل کردیں یا نکال دیں اور وہ بھی سازش کر رہے تھے اور اللہ
تعالیٰ بھی تدبیرفرما رہا تھا۔‘‘
[الانفال:۳۰]
اگر آپ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے لئے ’’سخت ‘‘ ہیں… اور
اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے ان کے دشمن ہیں تو آپ کو مبارک ہو کہ… آپ اللہ
تعالیٰ کے محبوب بندوں میں سے ہیں… اور آپ اللہ تعالیٰ کی محبوب جماعت میں سے
ہیں…
{وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّاءُ
عَلَی الْکُفَّارِ}
’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کے لوگ کفار پر بڑے سخت ہیں ۔‘‘ [ الفتح ۔آیت: ۲۹]
{اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ}
’’( اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے )
کافروں کے سخت دشمن ہیں۔‘‘
[ المائدہ۔ آیت: ۵۴]
کلام برکت
گزشتہ ہفتے کے کالم سے الحمد للہ… اہل ایمان کو بہت فائدہ
پہنچا… سوچنے اور سمجھنے کا راستہ کھلا اور بہت سے اَفراد کا نظریہ درست ہوا … تب
اِرادہ بنا کہ… قرآن مجید کے نظام محبت اور نظام عداوت کا ایک خلاصہ تیار کر کے
رنگ و نور میں شائع کردیا جائے … مگر جب اس موضوع میں جھانک کر دیکھا تو… معلوم
ہوا کہ بہت مختصر خلاصہ بھی تیار کیا جائے تو کم از کم تین کالم اسی میں لگ جائیں
گے… تب… دہلیز کو چوم کر اس بھاری پتھر کو اُٹھانے کا اِرادہ ترک کردیا… اللہ
تعالیٰ کسی اور کو توفیق عطاء فرما دیں گے… میرے پاس کئی کتابوں کا کام پہلے سے
رکھا ہوا ہے… وہ مکمل ہو جائے اس کی دعاء اور فکر ہے… محبت اور عداوت کا موضوع
کافی مفصل ہے… آپ میں سے جن جن کی توجہ اس موضوع کی طرف ہو چکی ہے… ان کے لئے
تلاوت اور مطالعہ کے دوران خودبخود راستے کھلتے جائیں گے… ان شاء اللہ… فی الحال
حضرت شاہ عبد القاد رحمہ اللہ نے… بڑی
جامعیت کے ساتھ… اور بے حد اِختصار کے ساتھ ہمیں یہ مسئلہ سمجھا دیا ہے … حضرت کی
عبارت پڑھیں… اور ان کی علمی کرامت اور اِختصار کی داد دیں … فرماتے ہیں:
’’جو تندی اور نرمی اپنی خُو ہو وہ
سب جگہ برابر چلے اور جو ایمان سے سنور کر آئے وہ تندی اپنی جگہ اور نرمی اپنی
جگہ ۔‘‘ [ موضح قرآن]
یعنی سختی اور نرمی … دشمنی اور دوستی یہ اگر اپنے مزاج کی
وجہ سے ہو تو… وہ اپنے مفادات کے تابع رہتی ہے… درست تقسیم نہیں ہو سکتی… جو سخت
مزاج ہو گا وہ سب کے لئے سخت ہی رہے گا… سختی کی جگہ ہو یا نہ ہو… اور جو نرم مزاج
ہو گا وہ سب کے ساتھ نرم رہے گا… نرمی کی جگہ ہو یا نہ ہو… لیکن جب اپنی سختی اور
نرمی ، اپنی دوستی اور دشمنی ایمان کے تابع بنا لی جائے… اور اپنی ان عادتوں کو
ایمان کے سانچے میں ڈھال لیا جائے تو پھر یہ دونوں بڑی کام کی چیزیں بن جاتی ہیں…
اور ان کو درست جگہ پر تقسیم اور استعمال کر کے انسان بڑی عظیم الشان نعمتیں پا
لیتا ہے… جیسا کہ حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی تمام شدت ، سختی اور دشمنی کا رُخ… اللہ
تعالیٰ کے دشمنوں کی طرف موڑ دیا…{اَشِدَّاءُعَلَی الْکُفَّارِ}اور اپنی تمام تر
نرمی ، محبت اور دوستی کا رُخ… اہل ایمان کی طرف موڑ دیا…
{رُحَمَآءُبَیْنَھُمْ}تب انہوں نے … اپنی دشمنی اور اپنی دوستی دونوں کو… اپنے
لئے ’’نفع مند‘‘ نعمت بنا لیا… ان کی دوستی بھی ’’عمل صالح‘‘ بن گئی… اور ان کی
دشمنی بھی ان کا بہترین عمل بن گئی… دوستی بھی اَجر والی… دشمنی بھی اَجر و ثواب
والی…بس یہی ہے خلاصہ … قرآن مجید کے نظام دوستی اور اصول عداوت کا۔
بات کہاں سے چلی تھی
دوستی اور دشمنی کی یہ ساری بات… پاکستانی حکومت کے بارے
میں شروع ہوئی تھی… عرض کیا تھا کہ… بعض سیاستدانوں کی یہ سوچ غیر فطری ہے کہ… ہر
حال میں ہر کسی کو دوست بناؤ… ہر کوئی دوست نہیں بن سکتا… اورہر دشمنی کا ختم
ہونا یہ فطرت کے خلاف ہے… اس لئے عقلمند ریاست وہ ہوتی ہے جو دوستوں اور دشمنوں
دونوں کے درمیان جی سکے… امریکہ کو دوست بنانے کی فکرمیں ہمارے حکمرانوں نے اپنے
پُرامن ملک کو بدامنی کی آگ میں جھونک دیا… ہزاروں جانوں اور اربوں روپے کے خسارے
کے باوجود ہم امریکہ کو دوست نہ بنا سکے… وہ کل بھی دشمن تھا اور آج بھی دشمن ہے…
اور ساتھ ساتھ پاکستان کے دشمنوں کو بھی مضبوط کر رہا ہے …امریکہ نے جب امارت
اسلامی افغانستان کے خلاف… پاکستان کی مدد مانگی تھی تو ہمارے حکمرانوں کو… صاف
اِنکار کر دینا چاہیے تھا… تب یقیناً اتنا نقصان نہ ہوتا جتنا اب ہو چکا ہے اور
مسلسل ہو رہا ہے… پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے… اس ملک کے حکمرانوں کو اپنے بڑے
فیصلے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں کرنے چاہئیں … اور اپنی دوستی اور دشمنی بھی
اسلام اور مسلمانوں کی خاطر بنانی چاہیے… سترہ سال کی ذلت ناک امریکی غلامی کے بعد
اب ہم پھر اس دوراہے پر کھڑے ہیں… جہاں ہم کوئی بھی اچھا یا برا فیصلہ کر سکتے
ہیں… قوم کو دعاء کرنی چاہیے کہ… اس بار ہمارے حکمران دوبارہ غلط اور حرام فیصلہ
کرنے سے بچ جائیں… اگر یہ ایک بار پھر اس صلیبی جنگ میں امریکہ کی امداد کا فیصلہ
کرتے ہیں تو… اہل پاکستان کو ایسے حکمرانوں کی بربادی کی بددعاء کرنی چاہیے … اور
ایسے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے نفرت ، بیزاری اور براء ت کا اِظہار کرنا چاہیے…
یہاں شریعت کی رو سے ریاست کے خلاف مسلح جہاد کی گنجائش نہیں ملتی … جذباتی باتوں
سے ہٹ کر دلائل کی روشنی میں غور کیا جائے تو معاملہ بالکل واضح ہے۔
انڈیا کی دشمنی کا معاملہ
انڈیا کے معاملے میں … ہمارے سیاستدانوں کا ایک طبقہ… بہت
بڑی گمراہی اور غلط فہمی کا شکار ہے… دراصل انڈیا نے پاکستان کے بعض بڑے
سیاستدانوں اور صحافیوں کو مکمل طور پر خرید رکھا ہے… اور پھر ان بکے ہوئے
سیاستدانوں اور صحافیوں نے اپنی سوچ کو ایک’’ نظریہ‘‘ بنا دیا ہے…حالانکہ یہ قطعاً
کوئی ’’نظریہ‘‘ نہیں…بلکہ پاکستان کے خلاف ایک مکروہ سازش ہے… انڈیا کی پاکستان کے
ساتھ دشمنی کی جڑیں بہت گہری اور بہت خوفناک ہیں… اگر کسی کو توفیق ملے تو وہ…
تقسیم برصغیر کے حالات پر دوبارہ غور کرے… یہاں اس سلسلے میں چند اہم اشارے پیش خدمت
ہیں۔
*
برصغیر کی تقسیم سے پہلے یہاں انگریزوں کی حکومت تھی…انگریزوں کے ہندوؤں کے ساتھ
بڑے گہرے دوستانہ مراسم تھے جبکہ انگریز کی ’’مسلم دشمنی‘‘ بالکل واضح تھی… آپ
تاریخ میں صرف انگریز گورنر… ’’لارڈ ماؤنٹ بیٹن‘‘ اور ہندو رہنما ’’جواہرلال
نہرو‘‘ کے باہمی تعلقات کی نوعیت پڑھ لیں تو… آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔
*
انگریز اپنے پیچھے پورا برصغیر ہندوؤں کو دے کر جانا چاہتا تھا… اس نے ہندوستان
کا اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا… وہ مسلمانوں کی طرف سے کئی بغاوتوں کا سامنا بھی
کر چکا تھا… اس لئے وہ برصغیر میں مسلمانوں کو ہمیشہ محکوم رکھنا چاہتا تھا۔
* اس
وقت کی برطانوی حکومت نے دو فائلیں بنائی تھیں… ایک فائل ان منصوبوں پر مشتمل تھی
کہ اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوا تو مسلمانوں کو کس طرح محکوم رکھنا ہے… اور دوسری ان
منصوبوں پر مشتمل تھی کہ اگر ہندوستان تقسیم ہو گیا تو مسلمانوں کو کس طرح دوبارہ
ان کے ملک سے محروم کر کے ہندوستان کا حصہ بنانا ہے۔
* اس
زمانے کی تمام دستاویزات یہی بتاتی ہیں کہ… انگریزاور ہندو ایک تھے… جبکہ مسلمان
ان دونوں کے لئے غیر تھے… جب یہ بات طے ہو گئی کہ … ہندوستان نے تقسیم ہونا ہے تو…
انگریز اور ہندوؤں نے مل کر تقسیم کا ایسا فارمولہ وضع کیا… جس کے مطابق نیا ملک
پاکستان ہر طرح سے کمزور ہو اور چار پانچ سال کے اندر ٹوٹ جائے… برصغیر کے اسی(۸۰) فیصد وسائل ہندوستان کو جبکہ بیس فی صد پاکستان کو دئیے
گئے… دو بڑی اکثریتی مسلمان آبادیوں …بنگال اور پنجاب کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا
… پاکستان کو کچھ حصہ مشرق میں اور کچھ مغرب میں دے کر پہلے دن سے ہی اسے توڑ ڈالا
گیا… کشمیر کو انڈیا کی گود میں ڈال کر پاکستان کو پیاسا مارنے کی تدبیر کی گئی…
اور یہ سارا کام لارڈ ماؤنٹ بیٹن … اور ریڈ کلف کی نگرانی میں ہوا… اور وزیر اعظم
چرچل اور ملکہ کی منظوری سے ہوا۔
* ہندوستان
نے پہلے دن سے ہی پاکستان کو ختم کر کے اپنے اندر دوبارہ ضم کرنے کی کوششیں شروع
کر دیں… اور یہ کوششیں آج تک جاری ہیں… آدھا ملک انہوں نے ہم سے کاٹ دیا اور
باقی ملک پر ان کے حملے جاری ہیں۔
*
اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ… اس نے انگریز اور ہندو کی مشترکہ سازش کو ناکام بنایا
اور عالمی حالات کچھ اس ڈگر پر چلا دئیے کہ… الحمد للہ پاکستان محفوظ بھی رہا اور
مضبوط بھی ہوتا چلا گیا۔
* لوگ
کہتے ہیں کہ ’’افغان جہاد‘‘ نے پاکستان کو طرح طرح کی مصیبتوں میں ڈالا … حالانکہ
حقیقت یہ ہے کہ افغان جہاد نے پاکستان کو بے انتہا مضبوط کیا، کوئی بھی غیر
جانبداری سے تجزیہ کرے گا تو اسی نتیجے پر پہنچے گا۔
*
آپ ہندوستان جا کر دیکھیں…وہاں ہر ہندو کے ذہن میں اکھنڈ بھارت کا نقشہ اور خواب
موجود ہے… جبکہ پاکستان کے بڑے سیاستدان تک انڈیا کی سازشوں سے ناواقف ہیں۔
*
ہمارے کئی صحافی اور تجزیہ نگار انڈیا کی چمک اور ترقی سے اپنا موازنہ کرنے بیٹھ
جاتے ہیں… یہ اس طرح ہے جیسے ایک پاکیزہ باحیاء بیوی… اپنے گھر کا موازنہ کسی
طوائف کے کوٹھے کی رونقوں سے کرنے لگے… یہ صحافی اتنا نہیں سوچتے کہ ہم مسلمان ہیں
اور ہماری کچھ حدود ہیں … جبکہ انڈیا ایک بے حیاء ریاست ہے… اس لئے اس کے بیرونی
تعلقات زیادہ ہیں… باقی جہاں تک ترقی کا معاملہ ہے تو یقین کریں کہ پاکستان میں
انڈیا سے زیادہ خوشحالی ہے… انڈیا میں ہر طرف فقر و فاقہ… جرائم ، نشہ اور نحوست
کا ڈیرہ ہے… دور دور تک محرومی اور غربت صاف چھلکتی ہے جبکہ پاکستان میں اسلام کی
برکت سے … انڈیا کی بہ نسبت کافی بہتر حالات ہیں۔
* انڈیا
نے ہمارے کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے …انڈیا نے ہمارے سیاچن پر قبضہ کر رکھا
ہے…انڈیا نے ہمارے دریاؤں پر قبضہ کر رکھا ہے … انڈیا نے ہمارے آدھے ملک کو ہم
سے توڑا ہے… انڈیا اب بھی اکھنڈ بھارت کے منصوبے پر کراچی اور بلوچستان میں کام کر
رہا ہے… ہم انڈیا کی دوستی کا اس وقت یقین کر سکتے ہیں جب وہ ان مذکورہ بالا
معاملات کو حل کرے… وہ ان معاملات کو تو حل کرنے کی بات نہیں کرتا… جبکہ دوستی کا
ہاتھ بڑھا کر ہمارے ملک کو مزید عدم استحکام کا شکار کرتا رہتا ہے… آپ انڈیا کے
ہر مطالبے میں دشمنی کا پیغام دیکھیں گے… وہ ان سیاستدانوں کو ہم پر مسلط کرانا
چاہتا ہے جو فوج کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں… اور ایٹم بم کو بھی… جو مجاہدین کو
بھی مٹانا چاہتے ہیں اور مسئلہ کشمیر کو بھی… تب پاکستان کے ہاتھ میں باقی کیا رہ
جاتا ہے؟
وقت گذر چکا ہے
انڈیا نے کافی خواب دیکھ لئے… کئی کامیابیاں بھی حاصل کیں…
مگر اب زمین کا رنگ بدل چکا ہے… انڈیا جہاد کشمیر شروع ہونے کے بعد… شکست پر شکست
کھا رہا ہے… اور اس کی جارحیت اب ’’دفاع‘‘ کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے… ہماری
انڈیا کے ساتھ نہ کوئی ذاتی دشمنی ہے اور نہ ذاتی نفرت…انڈیا کے ساتھ ہماری دشمنی
صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے ہے …اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے مفاد
میں…ہمیں اپنی اس دشمنی کی بہت قیمت ادا کرنی پڑی ہے… مگر ہم الحمد للہ خوشی سے
ادا کر رہے ہیں… اور مزید کے لئے تیار ہیں…اور ہم اس ’’دشمنی‘‘ پر اللہ تعالیٰ سے
اس کی ’’محبت‘‘،مغفرت… اور رحمت کے امیدوار ہیں … ہاں! بے شک غزوۂ بدر کے بیٹے …
ابو جہل کی اولاد سے دوستی نہیں رکھ سکتے… نہیں رکھ سکتے۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 629
دوکام
* ہر
طرف ترقی ہی ترقی اور اضافہ ہی اضافہ ہے… زمین اور زمانہ دونوں تیز ہو گئے ہیں…اب
جو بھی کچھ کرنا چاہے وہ بہت جلدی جلدی کر سکتا ہے…
* زمین
اور زمانے کی اس تیزی میں اہل ایمان کیا کریں؟
* شر
سے کیسے بچیں اور خیر سے جھولیاں کیسے بھریں؟…
*
دو کام کرنے ہوں گے…
* وہ
دو کام کون سے ہیں؟
یہ
سب کچھ جاننے کیلئے ورق الٹیےاور پڑھیے یہ تحریر
مزید
فوائد:
١ تصویربازی کے فتنے کی مذمت
٢
خسارے کے اسباب
٣
دو متعدی گناہ
تاریخ
اشاعت:
۱۵ جمادیٰ الاولیٰ ۱۴۳۹ھ/
بمطابق 2 فروری 2018ء
دو کام
اللہ تعالیٰ سے ہر ’’خیر ‘‘ کا سوال ہے… ہم اسے جانتے ہوں
یا نہ جانتے ہوں… اور اللہ تعالیٰ کی پناہ، حفاظت ہر ’’شر‘‘ سے… ہم اسے جانتے ہوں
یا نہ جانتے ہوں۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنَ الْخَیْرِکُلِّہٖ
عَاجِلِہٖ وَاٰجِلِہٖ مَا عَلِمْنَا مِنْہُ وَمَا لَمْ نَعْلَمُ وَنَعُوْذُ بِکَ
مِنَ الشَّرِّکُلِّہٖ عَاجِلِہٖ وَاٰجِلِہٖ مَا عَلِمْنَا مِنْہُ وَمَا لَمْ
نَعْلَمُ۔
زمین اور زمانہ تیز ہو رہا ہے
زمین بھی قیامت کی طرف بڑھ رہی ہے اور زمانہ بھی قیامت کے
قریب ہو رہا ہے… قیامت جیسے جیسے قریب آ رہی ہے زمین بھی تیز ہو رہی ہے … اور
زمانہ بھی تیز ہو رہا ہے… پہلے لوگ آرام آرام سے جیتے تھے… آرام آرام سے مرتے
تھے… آرام آرام سے خوش ہوتے تھے… آرام آرام سے پریشان ہوتے تھے…مگر اب سب کچھ
تیز ہو چکا ہے… ہم جلدی جلدی جیتے ہیں …جلدی جلدی مرتے ہیں… جلدی جلدی پریشان ہوتے
ہیں… زندگیوں میں سے سکون اور اطمینان ختم ہو رہا ہے… ہر شخص ایک ہی وقت میں دس
جگہ لٹکا ہوتا ہے… موبائل کے ذریعہ وہ دس جگہ موجود ہوتا ہے… گھر والے پیچھے کھینچ
رہے ہیں، دفتر والے آگے کھینچ رہے ہیں… ہسپتال والے تڑپا رہے ہیں… شادی والے خوشی
میں شریک کرنا چاہتے ہیں… اور کوئی فضول آدمی فضول چیزیں بھیج رہا ہے… زمین اور
زمانے کی تیزی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آپ جہاں بھی جائیں آپ کو ترقی اور
اضافہ نظر آئے گا… مثلاً علاج بھی زیادہ ہو گئے ساتھ بیماریاں ان سے بھی زیادہ ہو
گئیں… ہسپتال بہت بڑھ گئے… مگر بیماروں کی تعداد پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی…
عدالتیں، تھانے ، قانون نافذ کرنے والے ادارے بہت بڑھ گئے … مگر ساتھ ظالم، مجرم
اور قاتل بھی بڑھ گئے… ڈاکٹروں کے بقول جان بچانے والی دوائیاں زیادہ ایجاد ہو
گئیں… مگر لوگ بھی پہلے سے زیادہ مرنے لگے… گناہوں کے اڈے بے شمار ہو گئے … ساتھ
نیکی کے مراکز بھی کئی گنا بڑھ گئے… مالدار بہت زیادہ ہو گئے… مگر ساتھ غربت بھی
پہلے سے زیادہ پھیل گئی … امن قائم کرنے والے ادارے بہت بن گئے… ساتھ بد امنی بھی
ہر گلی میں گھس آئی…یعنی ہر طرف ترقی ہی ترقی ہے… اضافہ ہی اضافہ ہے… معلوم ہوا
کہ… زمین اور زمانہ تیز ہو گئے ہیں… اب جوبھی کچھ کرنا چاہتا ہے… وہ بہت جلدی جلدی
کر سکتا ہے… پس اہل ایمان کو اس صورتحال سے فائدہ اُٹھانا چاہیے… اور جلدی جلدی
نیکی کے کام کرنے اور پھیلانے چاہئیں … ایسا نہ ہو کہ ہم سستی کرتے رہیں… اور تیز
رفتار فتنے اور گناہ ہمارے گھروں اور ہماری گردنوں تک پہنچ جائیں۔
زمین اور زمانے کی اس تیزی میں… اگر ہم ’’خیر‘‘ حاصل کرنا
چاہتے ہیں… اور ’’شر‘‘ سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں’’ دو کام‘‘ کرنے ہوں گے… پہلا
کام اپنے وقت کی حفاظت… اور دوسرا کام اچھی منصوبہ بندی یعنی’’ پلاننگ‘‘… ہم اپنا
وقت ضائع نہ کریں… بلکہ اپنے وقت کو قابو کریں… اور اچھا اور مضبوط منصوبہ بنا کر
زندگی گذاریں۔
خسارے کے اسباب
جو مسلمان اپنا وقت ضائع کر رہا ہے وہ خسارے میں جا رہا ہے…
یہ قرآن مجید کا فیصلہ ہے… ہمارے پاس تھوڑا سا وقت ہے… اور اس وقت میں ہم نے اپنی
قبر اور آخرت کا سارا سامان برابر کرنا ہے… قبر کی زندگی کتنی ہو گی؟ …حشر کا دن
کتنا بڑا ہو گا؟… اور آخرت کا زمانہ کتنا بڑا اور دائمی ہے؟… اگر ہم غور کریں تو
صرف سوچتے ہوئے پسینہ آ جاتا ہے… مگر ہمارے اردگرد… ہمارا وقت ضائع کرنے کے لئے…
بڑے بڑے فتنے وجود میں آ چکے ہیں … آج کل خبریں دیکھنا کس قدر مشکل ہے… دیکھنے
سے مراد اخبارات میں دیکھنا ہے… ٹی وی پر نہیں… ٹی وی تو ویسے ہی ’’ٹی بی‘‘ کی
بیماری اور مصیبت ہے… اور افسوس کہ اب ’’ ٹی وی‘‘ سے نفرت کرنے والے بھی بہت تھوڑے
رہ گئے ہیں … اور جو تھوڑے سے رہ گئے ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ تصویر بازی، ویڈیو
بازی اور فوٹو بازی کی طرف کھسکتے جا رہے ہیں… آہ افسوس! تصویر بازی اور ویڈیو بازی
نے منبر ومحراب کی رونق اور برکت تک کو چاٹ لیا… جب خطیب کو معلوم ہوتا ہے کہ اس
کی تصویراور ویڈیو بن رہی ہے تو… اس کی توجہ بس اپنی بناوٹ کی طرف رہ جاتی ہے…
حالانکہ دین اسلام کا خطیب…جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر ہوتا ہے… اس کے دل کا اخلاص اور دل
کی کڑھن اس کی تقریر سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے… اُمت کے مقبول خطباء اپنی تقریر سے
پہلے باقاعدہ غسل یا وضو کرتے تھے… پھر صلوٰۃ استخارہ اور صلوٰۃ حاجت پڑھ کر اللہ
تعالیٰ سے مدد مانگتے تھے… پھر استغفار میں ڈوب جاتے کہ قیامت کے دن… مجھے میری
تقریر پر پکڑا نہ جائے کہ… دوسروں کو سمجھاتے تھے جبکہ خود بے عمل تھے… پھر دل میں
اُمت محمدیہ کا درد بھر کر درود شریف اور اذکار کے ساتھ… خطیب منبر کی طرف بڑھتا
تھا… دل میں اخلاص، طبیعت میں عاجزی اور تواضع… اور ایک فکر کہ … آج میری جھولی
بھی بھر جائے اور مکمل مجمع کی بھی مغفرت و اصلاح ہو جائے… مگر آج بس یہی شور کہ
کیمرہ کہاں لگانا ہے؟… خطیبوں کے چہروں پر کیا لگانا ہے؟… آہ! افسوس کہ… نور بھری
محفلیں کیسے اُجڑ گئیں۔
اللہ تعالیٰ معاف فرمائے کہ… اب تویہ فوٹو باز کسی کو چین
اور سکون سے مرنے بھی نہیں دیتے… آدمی مر رہا ہوتا ہے اور یہ اس کو کلمہ پڑھانے
کی بجائے… اس کی ویڈیو بنا رہے ہوتے ہیں… یا اس کی یہ حالت دور بیٹھے رشتے داروں
کو براہ راست دکھا رہے ہوتے ہیں… یا اس کا کسی جگہ باتصویر رابطہ کرانے کی کوشش
میں لگے ہوتے ہیں … مسلمانو! کچھ تو اللہ تعالیٰ سے ڈرو… کعبہ شریف، روضۂ اطہر،
مسجد نبوی شریف، منیٰ، عرفات ، مزدلفہ… مرنے والے مسلمان اور دینی روحانی مجالس کو
تو… اللہ کے لئے، اللہ کے لئے اپنی فوٹو بازی سے پاک رکھو… اللہ تعالیٰ نے دین کا
کام چلانا ہو تو… بغیر گناہ بھی… صدیوں تک چلا دیتے ہیں…اُمت کے ائمہ، فقہاء،
مفسرین کی تقریریں، تحریریں… سب کچھ ماشاء اللہ آج تک محفوظ ہے… بات یہ چل رہی
تھی کہ… ٹی وی تو ویسے ہی خباثت اور گناہ کا اڈہ ہے… مگر اخبارات میں خبریں دیکھنا
بھی… اب کتنا مشکل ہو چکا ہے… میں روزانہ عموماً … اور جس دن کالم لکھنا ہو خصوصاً
… پانچ چھ بڑے اخبارات دیکھتا ہوں… تب یوں محسوس ہوتا ہے کہ… آدمی کانٹوں بھری
زمین پر ننگے پاؤں چل رہا ہے… اکثر خبریں ناپاک ، اکثر کالم ناپاک… ایک ننھی منی
پیاری سی بچی زینب کا واقعہ ہوا… اخبارات اس پر یوں خبریں لگا رہے ہیں جیسے … کوئی
خوشی یا شادی کی خبر ہے…مجھ سے اس پورے واقعے کی ایک خبر بھی نہیں پڑھی گئی… بس
پہلے دن سرخی دیکھی اور دل رونے لگا… اور یہی دعاء جاری ہو گئی کہ… اللہ تعالیٰ ہر
مسلمان کی بہنوں ، بیٹیوں کی عزت کی حفاظت فرمائے… کیسی خوفناک اور دردناک خبر
ہے؟… سوچ کر جسم غم اور درد سے کانپنے لگتا ہے … تو پھر ایسی خبر کو چٹخارے دار
بنانا… اس کے ہر پہلو کو بار بار لکھنا اور اس پر طرح طرح کی سیاست اور صحافت
چمکانا… کم از کم کسی انسان کو تو زیب نہیں دیتا… پھر ہر اخبار شرمناک اور فحش خبروں
سے الگ بھرا ہوتا ہے… ان خبروں کو پڑھنا گناہ… اور ان کو نہ پڑھنا ایک بڑی نیکی
ہے… خلاصہ یہ کہ… ہمارے ہر طرف ایسے بے شمار فتنے بکھرے ہوئے ہیں جو ہمارا قیمتی
وقت ضائع کرنا چاہتے ہیں… اس لئے سنبھل کر اپنی یہ تیز رفتار زندگی گزاریں… بریک
پر اپنا پاؤں ہوشیار رکھیں… اور خسارے کے اسباب سے بچیں… خسارے کے اسباب وہ ہیں…
جو ہمارے وقت کو گناہ یا فضولیات میں ضائع کراتے ہیں۔
اس زمانے کے دو متعدی گناہ
بعض لوگ اپنے’’ موبائل‘‘ میں دنیا کی ہر الا بلا بھر کر
پھرتے رہتے ہیں… اور پھر جو بھی اُن کے ہاتھ آ جائے اسے فوراً یہ سب کچھ دکھانے
لگتے ہیں… اور اپنا یہ گند دوسروں کو بھی بھیجتے رہتے ہیں… یہ ایک خطرناک متعدی
گناہ ہے… کوشش کریں کہ آپ کے موبائل میں… سوائے خیر کے کوئی چیز نہ بھری ہوئی ہو…
کیونکہ کسی بھی وقت موت آ سکتی ہے… نہ کوئی فلم، نہ ڈراما، نہ کارٹون، نہ لطیفے،
نہ گانے… اور نہ کھیل کود ، لہو و لعب اور حیرت انگیز چیزیں…اور دوسروں کو دکھانے
، سنانے اور بھیجنے کا تو تصور ہی نہ کریں… صرف مفید بیانات وغیرہ اور دینی دعوت
کے سوا نہ کچھ بھیجیں اور نہ دکھائیں… دوسرا کام یہ کریں کہ… اس زمانے میں کبھی
بھی… کسی کو موبائل فون، لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر وغیرہ ہدیہ نہ کریں… اس کی تفصیل بڑی
درد ناک ہے… بس آپ اعتبار کر کے مان لیں… اور اسے اپنی زندگی کا پختہ اصول بنا
لیں۔
منصوبہ بندی
پہلا کام یہ کہ وقت ضائع نہیں کرنا… اس کی کچھ اشارۃً تفصیل
عرض کر دی… جبکہ دوسرا کام منصوبہ بندی ہے… ابھی ہم نے حال ہی میں ’’مکتوباتِ
خادم‘‘ کے ذریعہ ایک مشق کی… الحمد للہ حیرت انگیز نتائج اور فوائد سامنے آئے… ہر
ہفتے ایک کام… اللہ تعالیٰ کی رضاء… اور آخرت کے سرمائے کے لئے مقرر کر لیا… اور
پورا ہفتہ اس پر محنت کی… الحمد للہ اس معمولی سی منصوبہ بندی نے کئی لوگوں کی
زندگی ہی بدل دی …ہزاروں افراد نے ضروری دعائیں یاد کیں… شہادت کا مسئلہ سمجھا…
فرائض میں مضبوطی پائی… اور زندگی کے بہت سے اوقات پکڑ لئے… آپ پوچھیں گے کہ… وقت
پکڑنے کا کیا مطلب؟ … تو اسے ایک مثال سے سمجھیں… حضرت امام بخاری رحمہ اللہ …
اپنی زندگی کے جن اوقات میں ’’صحیح بخاری‘‘ لکھ رہے تھے… شاہ عبد القادر رحمہ اللہ
اپنی زندگی کے جن اوقات میں ’’موضح
قرآن‘‘ لکھ رہے تھے… اُن کا یہ وقت آج تک چل رہا ہے… ختم ہی نہیں ہو رہا… اپنی
زندگی کے یہ دن انہوں نے ایسے پکڑے اور ایسے محفوظ کئے کہ… یہ دن بڑھتے بڑھتے
صدیاں بن گئیں… بخاری آج بھی روز ہزاروں جگہ پڑھی جاتی ہے… اگر امام صاحب کا یہی
وقت کھانے پینے ، گپ شپ کرنے یا لذتوں کے حصول میں گذر جاتا تو… بس ختم ہو جاتا…
مگر انہوں نے اسے پکڑ لیا… اور اسے اپنا بنا لیا… اب وہ اُن کے کام آرہا ہے اور
اُن کی آخرت کا سرمایہ بنانے کا کارخانہ بن چکا ہے…بس اسے کہتے ہیں وقت پکڑنا… جو
لوگ اپنا’’ وقت‘‘ نہیں پکڑتے وہ ضائع ہو جاتے ہیں… خسارے میں چلے جاتے ہیں… اور جو
لوگ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت پکڑ کر… قید کر لیتے ہیں وہ بڑی بڑی کامیابیاں پا
لیتے ہیں… ہم اچھی ’’منصوبہ بندی ‘‘ کے ذریعے اپنے زیادہ سے زیادہ وقت کو… اپنے
لئے ’’قابو‘‘ کر لیں… مثلاً ہر ہفتے ایک کام مقرر کر لیں… اس میں پکا عزم کریں کہ…
اس ہفتے میں نے یہ کام کرنا ہے… کوئی سورۃ یاد کرنی ہے… قرآن مجید کا کوئی حصہ
سمجھنا ہے… علم کا کوئی باب پڑھنا ہے… کسی اچھی کتاب یا بیانات کو سننا ہے… کوئی
نیکی کا کام سیکھنا ہے… کوئی نیکی والا ہنر حاصل کرنا ہے… کوئی دعاء یاد کرنی ہے…
کوئی معمول پختہ بنانا ہے… کسی ذکر کا خصوصی حال پانا ہے… روز جہاد میں خرچ کرنے
کی ترتیب مضبوط کرنی ہے … روزانہ کے صدقے کا نظام بنانا ہے… اپنی فلاں کوتاہی دور
کرنی ہے وغیرہ وغیرہ… اور پھر پورا ہفتہ مضبوطی اور فکر سے اس کام کو کریں اور اس
نعمت کو حاصل کریں… یہاں پھر ایک پریشانی آ گئی… کئی لوگوں کو اعتراض ہو گا کہ ’’ہفتہ
واری‘‘ ترتیب اسلام میں ٹھیک نہیں… اسلام میں عشرے کی ترتیب ہوتی ہے… جبکہ کفار کے
ہاں ’’ہفتہ واری‘‘ ترتیب ہوتی ہے… تو پھر آپ ہفتہ واری منصوبہ بندی کی ترغیب کیسے
دے رہے ہیں؟ …جواب یہ ہے کہ… ہفتہ واری ترتیب کو اسلام کے خلاف قرار دینا غلط ہے…
یہ بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک بات گھڑ لی ہے … اسلام میں جمعہ مبارک کی ترتیب
’’ ہفتہ واری‘‘ ہے… بس یہی بات ہمارے لئے کافی ہے… باقی اس طرح کی فضول بحثوں میں
اُلجھنا بھی وقت کا زیاں ہے… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو … جھولی بھر کر’’ خیر
ہی خیر‘‘ عطاء فرمائے… اور ہم سب کی ہر ’’شر ‘‘ سے حفاظت فرمائے… آمین یا ارحم
الراحمین۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 630
اللہ تعالیٰ مہربان
* اللہ
تعالیٰ سے ’’حسن ظن‘‘ رکھنا بڑی عبادت …
* حضرت
سیّدناسعیدبن جبیر رحمہ اللہ کی ایک خوبصورت دعاء
* دنیا
میں’’افرا تفری‘‘ کا عالم، شاید یہ کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے…
* سخت
پریشانیوں کا مؤثر علاج…
* ’’وظائف‘‘
کے بارے میں اہم ہدایات…
* مالی
تنگی دور کرنے کے لاجواب نسخے، ایک سبق آموز واقعہ اور بہت سی قیمتی باتیں…
تاریخ
اشاعت:
۲۲جمادیٰ الاولیٰ ۱۴۳۹ھ/
بمطابق 9 فروری 2018ء
اللہ تعالیٰ مہربان
اللہ تعالیٰ نے ہمارے معاملہ میں جو کچھ کیا …وہی اچھا ہے،
وہی ٹھیک ہے… اللہ تعالیٰ ہمارے معاملہ میں جو کچھ کریں گے… وہی اچھا ہے، وہی ٹھیک
ہے… اللہ تعالیٰ ظلم نہیں فرماتے… اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہیں… اللہ
تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کیا خیر ہے اور کیا شر… وہ مسلمان کامیاب ہے جو اللہ
تعالیٰ سے ہمیشہ اچھا گمان رکھتا ہے۔
بڑی عبادت
اللہ تعالیٰ سے ’’حسنِ ظن‘‘ رکھنا… اللہ تعالیٰ سے خوش گمان
رہنا… اللہ تعالیٰ سے خوش اور راضی رہنا…اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر اور کشادگی کا
اُمیدوار رہنا… اللہ تعالیٰ کی طرف سے اچھے حالات کی اُمید رکھنا… اللہ تعالیٰ کی
طرف سے رحمت اور بخشش کی اُمید رکھنا… یہ بہت افضل اور بڑی عبادت ہے… جب دل پر
ناشکری کا حملہ ہو تو وہ الفاظ دل اور زبان سے کہیں جو آج کے کالم کی پہلی سطر
میں لکھے ہیں کہ… ’’یا اللہ! آپ نے جو کچھ کیا وہی اچھا ہے، وہی بہتر ہے اور جو
کچھ کریں گے وہی اچھا ہے اور وہی بہتر ہے‘‘… ان شاء اللہ دل سے ناشکری دور ہو جائے
گی… حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ یہ دعاء
فرمایا کرتے تھےـ:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ صِدْقَ التَّوَکُّلِ
عَلَیْکَ وَحُسْنَ الظَّنِّ بِکَ۔
’’یا اللہ! مجھے آپ پر سچا توکل
اور حسن ظن نصیب ہو جائے۔‘‘
[مصنف ابن شیبہ۔حديث رقم:۳۵۳۴۳ ، ناشر:مکتبۃ الرشد، ریاض]
افراتفری کا عالم ہے
دنیا میں شاید کوئی تبدیلی آنے والی ہے… وجہ یہ ہے کہ ہر
طرف افراتفری اور بے یقینی کا عالم ہے… آپ خبریں دیکھیں تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں
آتا… امریکہ کہاں جا رہا ہے اور کیا چاہتا ہے؟…روس کی پالیسی کیا ہے؟… چین کی
منزل کیا ہے؟ … انڈیا کس طرف جا رہا ہے؟… پاکستان میں کون حکمران ہے او رکون غلام؟
کون ظالم ہے اور کون مظلوم؟ … آج کوئی بھی دانشور یا باخبر انسان ان سوالوں کا
جواب نہیں دے سکتا… ہر ملک میں عجیب و غریب حالات ہیں… زمانے اور زمین کی تیزی نے
لوگوں کی عقلیں اُڑا دی ہیں … ہر ملک کے داخلی ادارے ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے
ہیں… ہر کوئی بے چین اور پریشان ہے…لوگ جن کو خوش اور کامیاب سمجھ رہے ہیں… وہی
لوگ چھپ چھپ کر خودکشیاں کر رہے ہیں… دوسروں کو ہنسانے والے خود تنہائی میں رو رو
کر مر رہے ہیں… ظاہری طور پر خوب چمک دمک والی زندگی گزارنے والے… اداسیوں اور
غموں کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں… انسان اس دنیا کی سب سے بے قیمت چیز بن چکا
ہے… حرص اس قدر بڑھ چکی ہے کہ انسان کو مار کرہی دم لیتی ہے … وہ اعمال جن کی وجہ
سے ماضی کی قومیں تباہ ہوئیں… دوبارہ منظم ہو رہے ہیں… کسی شخص کو اپنی زندگی کا
مقصد معلوم نہیں ہے… بظاہر بہت روشنی ہے مگر اندر اندھیرا ہی اندھیرا ہے… یہ وہ
حالات ہیں جو اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ زمین پر کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے…
اللہ کرے خیر والی تبدیلی ہو… بہرحال ایسے حالات میں حالات حاضرہ پر کچھ لکھنا
مشکل ہو جاتا ہے… اسی لئے وہ باتیں لکھی جاتی ہیں جن سے ہمیں فائدہ ہو… ذاتی فائدہ
، حقیقی فائدہ ، اجتماعی فائدہ۔
سخت پریشانیوں کا ایک علاج
اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم نہیں فرماتے… مگر بندے خود اپنی
جان پر بہت ظلم کرتے ہیں… پھر جب درد ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے ناراض ہوتے ہیں…
اور اللہ تعالیٰ سے شکوے کرتے ہیں… ایک شخص سخت غمگین ، سخت پریشان… ہر وقت لوگوں
کے شکوے اور حالات کا رونا… ان سے بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ… وظیفے بہت کرتے
ہیں… اور وظیفے بھی دشمنوں کی بربادی کے… مجھے ایک بزرگ اللہ والے نے فرمایا تھا
کہ… کبھی کسی کے لئے بددعاء نہ کرنا… ان شاء اللہ ہمیشہ خیر رہے گی… وجہ یہ ہے کہ…
ہم میں سے ہر شخص کا بڑا دشمن آج کل خود اس کا اپنا نفس ہے… پھر جب ہم دشمنوں کی
بربادی کے وظیفے کرتے ہیں تو ان وظیفوں کا شکار… ہم خود ہی ہو جاتے ہیں… کیونکہ
وظیفے دشمن کے خلاف تھے… اور ہمارا دشمن اور کوئی نہیں بلکہ ہم خود ہی ہیں… اور
یوں بربادی بھی اپنی ہوتی ہے… اگر ہم نے محنت کر کے… اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اپنے
نفس کو پاک کیا ہوتا… اس کا’’ تزکیہ‘‘ کیا ہوتا…اسے اپنا دشمن نہیں بلکہ دوست
بنایا ہوتا … اور کبھی اپنی ذات کے لئے کسی سے دشمنی نہ کی ہوتی…بلکہ صرف اللہ،
رسول اور دین کے دشمنوں کو اپنا دشمن بنایا ہوتا تو… دشمنوں کے خلاف وظیفے بھی
ٹھیک رہتے اور بددعائیں بھی … دشمنان دین کے خلاف بددعاء کرنا یہ سنت ہے…لیکن جب
دشمنی کا معاملہ شریعت کے خلاف ہے تو پھر… دشمنوں کے خلاف وظیفے اور بددعائیں کرنے
میں احتیاط کریں… آج کل کئی لوگ …اس طرح کے وظیفوں کی وجہ سے… بڑی سخت پریشانیوں
کا شکار ہیں… یاد رکھیں کہ …غیر مسنون وظیفے ’’دوائیوں‘‘ کی طرح ہیں … کوئی دواء
کسی کو فائدہ دیتی ہے او رکسی کو نقصان … اچھا تو یہ ہے کہ ’’غیر مسنون وظیفے ‘‘
کریں ہی نا…بس قرآن مجید کی تلاوت کریں … اور جو اذکار حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائے ہیں انہی کو اپنے لئے کافی
سمجھیں… پھر بھی اگر کوئی ’’غیر مسنون وظیفہ‘‘ کرنا چاہیں تو دو کام ضرور کر لیں…
١ استخارہ
٢ استشارہ…
یعنی استخارہ کریں کہ مجھے یہ وظیفہ کرنا چاہیے یا نہیں؟ …
اور پھر کسی صاحب علم ، صاحب دل شخص سے مشورہ کریں کہ مجھے یہ وظیفہ کرنا چاہیے یا
نہیں؟ … آپ نے دیکھا ہو گا کہ… زیادہ وظیفے کرنے والے اکثر پریشان حال ہوتے ہیں…
وجہ یہ ہے کہ… لوگ کلمات کی تاثیر نہیں سمجھتے… بعض کلمات اور دعائیں ستاروں کی
طرح ہوتی ہیں … بعض سورج کی طرح… بعض پانی اور بعض آگ کی طرح… اب پانی اور آگ
جمع کریں گے تو… بھاپ ضرور بنے گی… ستاروں پر سورج چمکائیں گے تو… ستارے گم ہو
جائیں گے… اس لئے اپنے اوپر رحم کریں… ہر کسی کا بتایا ہوا وظیفہ شروع نہ کر دیں…
بلکہ اپنے وقت کو دین سیکھنے، دین سمجھنے اور دین کی خدمت کے لئے وقف کریں… اللہ
تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کریں… اپنا دل بغض اور کینے سے پاک رکھیں… جہاد کا کام
زیادہ کریں… اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو نفع پہنچائیں…
الحمد للہ مسنون دعائیں… اور مسنون اذکار ہمارے لئے بہت
ہیں، کافی ہیں، وافی ہیں… اور ان کی تاثیر اور طاقت بھی… غیر مسنون وظیفوں سے بہت
زیادہ ہے… آپ صرف چند دن… ہر نماز کے بعد مسنون تسبیحات فاطمی کا اہتمام کر کے
دیکھ لیں… کسی بھی نماز کے بعد … یہ تسبیحات نہ چھوٹیں… سبحان اللہ، الحمد للہ،
اللہ اکبر… تینتیس تینتیس اور چونتیس بار… آپ تین دن بعد اپنے دل کا جائزہ لیں تو
عجیب قسم کی قوت اور نور محسوس کریں گے۔
ایک اور پریشانی کا علاج
مالی پریشانی کافی سخت ہوتی ہے… اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس
پریشانی سے بچائے… مالی پریشانی کے مختلف درجات ہیں … بعض لوگ روٹی کپڑے تک کے
معاملے میں پریشان ہوتے ہیں …جبکہ کئی لوگوں کو… مال بڑھانے اور مال بچانے کی فکر
دن رات کھاتی رہتی ہے…خیر یہ ایک الگ موضوع ہے… آج یہ عرض کرنا ہے کہ… مالی
پریشانی دور کرنے کا ایک بہترین علاج یہ ہے کہ… اپنی مالی پریشانی کسی کو بھی نہ
بتائی جائے… اور کسی کے سامنے مال کی کمی، مال کی تنگی یا مال کے نقصان کا تذکرہ
نہ کیا جائے…یہ بڑا عجیب ، مؤثر اور عجیب عمل ہے …جو بھی اسے اپناتا ہے وہ اللہ
تعالیٰ کے فضل و کرم سے غنی ہو جاتا ہے… مگر بظاہر آسان نظر آنے والا یہ عمل
کافی مشکل ہے… اور اکثر لوگ اس پر عمل نہیں کر پاتے… یہ عمل کیوں مشکل ہے اس کی
تفصیل میں پڑے بغیر… بس اتنا عرض ہے کہ… مخلوق ہماری کوئی حاجت پوری نہیں کر سکتی…
حاجت صرف اللہ تعالیٰ پوری فرما سکتا ہے… جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہماری حاجت
پوری نہیں کر سکتا تو پھر… کسی کے سامنے رونے، دھونے ، شکوے کرنے کا کیا فائدہ؟…
بیج زمین میں ڈالا جائے تو پودا نکلتا ہے… لیکن اگر بیج کو بستر یا گدے پر ڈال دیں
تو کیا فائدہ؟… دوسری بات یہ کہ شکر سے نعمت بڑھتی ہے جبکہ شکوہ کرنا… شکر کے خلاف
ہے…ظاہر ہے کہ اس سے نعمت گھٹے گی… تیسری بات یہ ہے کہ … اللہ تعالیٰ نے ہر انسان
کو ایک ’’وقار‘‘ اور ایک ’’عزت‘‘ عطاء فرمائی ہے… جو انسان اپنے اس ’’وقار‘‘ اور’’
عزت‘‘ کی حفاظت کرے… اللہ تعالیٰ اس کے وقار اور عزت کو قائم رکھتے ہیں اور بڑھاتے
ہیں … اور جو اپنے ’’وقار‘‘ کو ضائع کر دے تو… پھر وہ ساری زندگی اسے ترستا ہی
رہتا ہے… لوگوں سے سوال کرنا… یا کسی اشارے سے مانگنا… یہ سب ’’انسانی وقار‘‘ کے
خلاف ہے۔
دوسرا نسخہ
مال کی تنگی دور کرانے کا دوسرا مسنون نسخہ یہ ہے کہ … مال
ضائع نہ کریں… نہ ایک قطرہ پانی، نہ ایک لقمہ روٹی…نہ ایک دانہ چاول، نہ ایک یونٹ
بجلی… ویسے تو ایک مسلمان کو بارش کی طرح سخی ہونا چاہیے… مگر مال کو ضائع کرنے کے
معاملے میں اسے حد درجہ کنجوس ہونا چاہیے… وجہ یہ ہے کہ… اللہ تعالیٰ اپنے بندوں
کے لئے جن چیزوں کو مکروہ اور ناپسندیدہ فرماتے ہیں… ان میں سے ایک چیز… مال ضائع
کرنا ہے… یہ بات احادیث صحیحہ میں وارد ہوئی ہے… پس جو انسان اللہ تعالیٰ کی رضاء
کو مقصود بنا کر… مال کو ضائع ہونے سے بچاتے ہیں… اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں
’’برکات‘‘ ملتی ہیں۔
وہ مسلمان جو مال کی تنگی کا شکار ہیں… آج سے ہی اس عمل پر
مضبوطی اختیار کر لیں تو چند دن میں… ان شاء اللہ… ان کی تنگی دور ہو جائے گی …
گھر میں بجلی کا استعمال ہو یا پانی کا… موبائل کارڈ ہو یا… دستر خوان کا کھانا…
وہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال کی سونے چاندی کی طرح قدر کریں… اور ایک پیسہ بھی
فضول ضائع نہ ہونے دیں… کہتے ہیں کہ… ایک بزرگ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور کہنے
لگا کہ حضرت! رزق کی تنگی ہے… کوئی وظیفہ ارشاد فرما دیں…( اگر مقصد صرف دینی
رہنمائی اور عمل پوچھنا ہو تو اس طرح اپنی مالی تنگی بتانے میں کوئی حرج
نہیں)…بزرگوں نے فرمایا کہ… جب بھی گھر میں کھانا پکاؤ تو صرف چاول پکایا کرو…
اور کچھ نہیں … بس یہی علاج ہے… وہ شخص چلا گیا… کچھ دیر بعد ایک اور شخص آیا اور
کہنے لگا کہ حضرت ! رزق بہت زیادہ ہو گیا ہے… میں حساب کتاب اور سنبھالنے سے تنگ
آجاتا ہوں… کوئی عمل بتائیں کہ رزق کم ہو جائے… بزرگوں نے فرمایا … جب بھی گھر
میں کھانا پکاؤ تو صرف چاول پکایا کرو … اور کچھ نہیں … بس یہی علاج ہے… وہ شخص
بھی چلا گیا… حاضرین مجلس حیران تھے کہ مرض الگ الگ تھا… مگر حضرت نے ’’دواء‘‘ ایک
ہی تجویز فرمائی… خیر کچھ عرصہ کے بعد غریب شخص آیا اور شکریہ ادا کرنے لگا کہ…
اس کا کام بن گیا ہے… اور اللہ تعالیٰ نے اسے ’’غنی‘‘ فرما دیا ہے… پھر مالدار شخص
آیا اور اس نے بھی شکریہ ادا کیا کہ… میرا مال اب بہت کم ہو گیا ہے … حاضرین مجلس
نے حضرت سے اس علاج کی حکمت پوچھی … فرمایا:غریب آدمی کے پاس مال بہت کم تھا جب
اس نے چاول پکائے تو… ایک ایک دانے کی حفاظت کی… دھوتے وقت کوئی دانہ نہ گر جائے …
پھر کھاتے وقت کوئی دانہ ضائع نہ ہو… دستر خوان پر جو چاول گرتے وہ اُٹھا اُٹھا کر
کھاتا… ایک ایک چاول اُٹھا کر دوبارہ کھانے سے بار بار… گرے ہوئے لقمے اُٹھا کر
کھانے کی سنت زندہ ہوئی… بس اس قدر دانی نے… اللہ تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ فرمایا…
اور اسے غنی فرما دیا گیا…دوسری طرف مالدار نے دیگیں بھر کر چاول پکائے اور اس میں
دھونے سے لے کر … کھانے تک بے شمار دانے ضائع کئے… کیونکہ اسے کوئی کمی نہیں تھی…
اس لئے ناقدری کرتا رہا تو… اس کے رزق کی لگامیں کھینچ لی گئیں… یہ قصہ یہاں ختم
ہوا … معلوم نہیں یہ قصہ سچا ہے یا کسی نے بات سمجھانے کے لئے… بطور تمثیل اسے
بنایا ہے… مگر اس میں جو سبق ہے وہ بے شک سچا ہے… یہاں کئی لوگ یہ سوال کر سکتے
ہیں کہ… بہت سے مالدار ڈھیروں مال اور رزق ضائع کرتے ہیں… مگر ان کا مال کم نہیں
ہوتا… جواب یہ ہے کہ… مال کا کم یا زیادہ ہونا الگ چیز ہے… جبکہ رزق میں تنگی اور
وسعت ایک الگ چیز ہے… کئی لوگوں کے پاس مال بہت زیادہ ہوتا ہے مگر اُن کا رزق تنگ
ہوتا ہے… وہ طرح طرح کی بیماریوں کی وجہ سے اس مال سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے… وہ
ایک غریب آدمی سے بھی کم کھا سکتے ہیں… اور اُن کے دل میں… جو گھٹن اور مزید مال
کی خواہش ہوتی ہے وہ انہیں کبھی وسعت اور فراخی کا احساس تک نہیں ہونے دیتی …بلکہ
اُن کا مال اُن کے لئے طرح طرح کی پریشانیوں، بیماریوں اور خطرات کا ذریعہ بنا رہتا
ہے …میں نے ایک اربوں پتی شخص کا انٹرویو پڑھا… وہ کہہ رہا تھا کہ لوگ مجھے خوش
سمجھتے ہیں … حالانکہ میری زندگی بے انتہا مشکل ہے… کوئی شخص ایسی مشکلات ایک دن
بھی برداشت نہیں کر سکتا۔
بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ… بندہ اللہ تعالیٰ سے راضی اور خوش
رہے… اور اپنے برے حالات کی وجہ … خود اپنی ذات میں تلاش کرے … اور پھر اس کی
اصلاح کی کوشش کرے۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 633
اہل شام کو سلام
*
ظاہری و باطنی حسن سے مالا مال…علم، جہاد اور روحانیت سے بھری مقدس سرزمین ’’شام‘‘
کی گود ہمیشہ ہری رہی ہے اور ہری رہے گی…
* اہل
شام کو سلام اور خراج تحسین…
* شام
بہت جلد پھر مسکرائے گا، پھر گرجے گا اور پھر یکجا ہوجائے گا، ان شاءاللہ…
* ’’
غوطہ‘‘ پر کفر کی اندھی یلغار اور مسلم حکمرانوں کی بے حسی…
* ایران
کی بڑھتی مسلم دشمنی، ایک لمحہ فکریہ…
* جدت
پسندی کی تباہ کاریاں… ندوی خاندان کے ایک معروف فرد کا بابری مسجد کے بارے
میںظالمانہ مؤقف… نقصان کس کا ہوگا؟
یہ
ہیں اس فکر انگیز تحریر کے موضوعات، ملاحظہ کیجئے
تاریخ
اشاعت:
۱۳ جمادیٰ الثانیہ ۱۴۳۹ ھ /
بمطابق 2 مارچ 2018 ء
اہل شام کو سلام
اللہ تعالیٰ نے ملک ’’شام ‘‘ کو برکت سے بھر دیا ہے… یہ
حضرات انبیاء علیہم السلام کی سرزمین ہے… یہ ’’مسجد اقصیٰ‘‘ اور تمام انبیاء علیہم السلام کے اجتماع کا مقام ہے… یہ انجیر اور زیتون والی
سرزمین ہے… اسی سرزمین سے معراج کا سفر ہوا … اور اسی سرزمین سے آخری زمانے میں
اسلام کے عروج کا سفر ہو گا… یہ فاتحین کی سرزمین ہے حتٰی کہ سیف اللہ خالد بن
ولید رضی اللہ عنہ کا قیام بھی اسی میں
ہے… یہ بہادروں کی زمین اور شیروں کا مسکن ہے… یہ زمین ہے مگر یہاں ستارے اُترتے
ہیں… یہاں ظاہری اور باطنی حسن کی بہاریں پھوٹتی ہیں… یہاں علم ، جہاد اور روحانیت
کے سہ دھاری چشمے بہتے ہیں… شام اُس اسلامی سلطنت کا دارالخلافہ تھا جس کی سرحدیں
چین اور فرانس تک پھیلی ہوئی تھیں… اور پھر شام ہی سے اسلام کا وہ لشکر چلے گا… جس
کی قیادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام … اور
حضرت محمد بن عبد اللہ المہدی رضی اللہ
عنہ فرمائیں گے۔
ملک شام نے حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا… اور پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز
رحمہ اللہ کا ناقابل فراموش دور خلافت بھی
دیکھا … اسی ملک شام نے امین الامۃ حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ … اور سیف
اللہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا
جہاد دیکھا… شام کا دامن ہمیشہ آباد رہا… شام کی گود ہمیشہ ہری رہی … شام کا جنون
ہمیشہ سرگرم رہا… شام کبھی نہیں جھکتا… شام کبھی نہیں مٹتا… شام کے سر پر حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا پہرہ ہے… چار دن کی کالی رات بیت
جائے گی…شام پھر مسکرائے گا… شام پھر یکجا ہو جائے گا… شام پھر گرجے گا… سوریا،
اردن ، فلسطین اور لبنان کے ناموں میں بٹا ہوا شام… پھر ایک ہو جائے گا… شام میں
نہ روس رہے گا نہ ایران… وہاں صرف بسے گا ایمان… اسد خاندان کے خوفناک مظالم کے
بعد ہر کوئی یہی سمجھ رہا تھا کہ شام بجھ گیا … شام دب گیا… مگر پھر دنیا بھر نے
شام کے جہاد کی چمک دیکھی… شام کی ہر گلی نے مجاہد نکالے…یہ مفسرین کی سرزمین…جہاد
اور اسلام سے نہیں کٹ سکتی… یہ محدثین کی سرزمین … عساکر اور ابن عساکر اُٹھاتی
رہے گی… یہ’ ’ مشارع الاشواق‘‘ کی سرزمین… ’’مصارع العشاق‘‘ کی داستان دُہراتی رہے
گی… شہداء غوطہ کو سلام… شہداء شام کو سلام… ارض مبارک کو سلام۔
اندھی یلغار
شام پر اس وقت کئی غیر ملکی قوتیں حملہ آور ہیں… شام کا
اصل مسئلہ وہاں کا قابض اور ظالم حکمران’’بشار الاسد‘‘ ہے… یہ بھورا چوہا ایک
قاتل، دہشت گرد اور فرقہ پرست انسان ہے… اس کے باپ ’’حافظ الاسد‘‘ نے لاکھوں شامی
مسلمانوں کو شہید کیا… اور مرتے وقت حکومت اپنے بیٹے کو دے گیا… شام کا جہاد کئی
دہائیوں سے سلگ رہا تھا… مگر چند سال سے وہ قوت کے ساتھ بھڑک اُٹھا ہے… قریب تھا
کہ ’’بشار الاسد‘‘ کی حکومت ختم ہو جاتی مگر ایران پوری قوت کے ساتھ شام میں گھس
آیا… ایران کے قائد اعلیٰ نے شام میں اپنی جنگ کو ’’افضل جہاد‘‘ قرار دیا… اور
وہاں مرنے والے ایرانیوں کو ’’شہید ‘‘ قرار دیا… یعنی اس کے نزدیک سنی مسلمانوں کو
شہید کرنا افضل جہاد ہے… پاکستانی حکومت کا رجحان پہلے شامی مجاہدین کی طرف تھا
مگر…سابق صدر نے اپنی فرقہ پرست ذہنیت کی وجہ سے… اپنی پارٹی کو ایران کی پالیسیوں
کا تابع بنارکھا ہےاور اس وقت چونکہ وہی صدر تھے چنانچہ انہوں نے … پاکستان کو
ایران کی حمایت میں کھڑا کر دیا… حالانکہ ایران ہمیشہ سے پاکستان کا بدترین دشمن
رہا ہے… آپ کبھی ایرانی میڈیا سن لیں اس کی زبان پاکستان کے خلاف مودی اور
ایڈوانی سے زیادہ سخت چلتی ہے… اور ایران ہر معاملے میں پاکستان کے خلاف انڈیا کا
ساتھ دیتا ہے… شام میں ایران کے علاوہ لبنان کی حزب اللہ بھی ’’بشار الاسد‘‘ کی
حمایت میں اُتر آئی… اور یمن کے حوثیوں نے بھی پوری قوت کے ساتھ بشار الاسد کا
ساتھ دیا… مگر یہ سب مل کر بھی مجاہدین کا مقابلہ نہ کر سکے… شامی حکومت مسلسل
پسپا ہوتی گئی… ایران کے کئی جنرل اور ہزاروں جنگجو اس لڑائی میں مارے گئے… اور
حزب اللہ نے اپنے قابل فخر کمانڈر اس جنگ میں کھو دئیے … تب بشار الاسد نے روس سے
مدد مانگی اور روس شام میں داخل ہو گیا… ابھی دنیا کے حسین ترین شہر ’’غوطہ‘‘ پر
جو بمباری ہو رہی ہے… اس میں روسی ، ایرانی اور شامی تینوں افواج مل کر… مجاہدین
پر بمباری کر رہی ہیں… اس بمباری میں اب تک سینکڑوں افراد… جن میں شیر خوار معصوم
بچے بھی شامل ہیں … شہید ہو چکے ہیں… امریکہ جو خود شام کی لڑائی میں… بعض افراد
کا ساتھ دے رہا ہے… خاموشی سے مسلمانوں کا قتل عام دیکھ رہا ہے… اور ترکی جس سے
شام کے مسلمانوں نے اچھی امید باندھ رکھی تھی… ابھی تک دور دور بیٹھا ہے … سعودی
عرب اور دیگر عرب ممالک جو کہ … شامی مجاہدین کی کسی قدر حمایت کر رہے تھے اب اپنے
داخلی معاملات میں اُلجھ چکے ہیں… ایران کا شیطان ننگا ناچ رہا ہے اور اس کے منہ
سے مسلمانوں کا خون ٹپک رہا ہے… شام اور غوطہ پر اس اندھی یلغار نے امت مسلمہ کو
بے چین کر دیا ہے… ہر مسلمان چاہتا ہے کہ وہ شامی مسلمانوں کی مدد کرے… مگر راستے
بند اور بے بسی کا منظر ہے… مگر اللہ تعالیٰ قادر ہے… اور ہر امید اللہ تعالیٰ ہی
سے وابستہ ہے… وہی مظلوموں کو قوت دینے والا… اور وہی انصار کے لئے راستے کھولنے
والا ہے…ہمارے پاکستان میں عجیب ستم ظریفی یہ ہے کہ… یہاں اگر ایران کا نام لے کر
اس پر صرف تنقید بھی کی جائے تو فوراً ’’فرقہ پرستی‘‘ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے…
جبکہ ایران دن رات مسلمانوں کو شہید کرتا رہے تب بھی اُسے ’’فرقہ پرست‘‘ نہیں کہا
جاتا… دراصل ایران کی مسلکی، مذہبی ، صحافتی اور سفارتی یلغار ہمارے ملکوں پر بہت
بڑھ چکی ہے… اور اب تو کئی اچھے خاصے افراد بھی… اس یلغار کا شکار نظر آتے ہیں…
ابھی حال ہی میں اپنے چند فوجی دستے سعودی عرب بھیجنے پر… پاکستان کی ایرانی لابی
نے جو اودھم مچایا ہے… وہ پاکستان کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
مولانا ! یہ مندر نوازی؟
ہندوستان میں عجیب ستم برپا ہوا ہے… حضرت سیّد احمد شہید
رحمہ اللہ اور حضرت مولانا ابو الحسن ندوی
رحمہ اللہ کے خاندان کے ایک…معروف فرد…
مولانا سلمان ندوی نے نعوذ باللہ ’’بابری مسجد‘‘ سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے…
اگرچہ ’’مولانا ‘‘ کے اس اعلان سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا… مگر دل کو دکھ ضرور
پہنچا کہ کیسے خوفناک فتنوں کا دور آ گیا ہے… مولانا سلمان ندوی اپنی شہرت پسند
طبیعت اور مزاج کے چھچھورے پن کی وجہ سے … ہندوستان کے مسلمانوں میں زیادہ معتبر
حیثیت نہیں رکھتے… اور ان کی جھولی میں ان کی خاندانی نسبت کے علاوہ کوئی خاص خوبی
بھی موجود نہیں ہے… وہ اپنے اسلاف کی طرح نہ علم میں کوئی مقام بنا سکے اور نہ
تحریکی طور پر کوئی کارنامہ سر انجام دے سکے…مگر چونکہ آج کل تصویر، ویڈیو اور
سوشل میڈیا کا زور ہے تو اس میدان میں… مولانا کا نام اور فوٹو بھی کچھ چل نکلا
ہے… اُن کے بزرگوں میں سے حضرت علامہ سیّد ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے… مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسی مضبوط تنظیم کی
سالہا سال تک قیادت فرمائی… اور کئی مواقع پر ہندوستان کی فرقہ پرست پارٹیوں کو
اپنے قدموں پر جھکایا۔
چاہیے تو یہ تھا کہ … مولانا سلمان ندوی بھی اپنے اکابر و
اسلاف کی طرح عزیمت کے اس میدان میں اپنا مقام بناتے مگر… بُرا ہو جدت پسندی کا کہ
جس نے… اہل علم کے کئی خانوادوں کو اُجاڑ کر رکھ دیا ہے… اُمید تو یہی ہے کہ…
مولانا سلمان ندوی اپنے اس نئے ظالمانہ موقف سے جلد رجوع کر لیں گے… اور وہ اللہ
تعالیٰ سے مغفرت اور مسلمانوں سے معافی چاہیں گے… لیکن اگر وہ اپنی غلط بات پر ڈٹے
رہے تو… اس کا نقصان خود ان کی ذات کو ہی پہنچے گا… مسلمان جانتے ہیں کہ کوئی شخص
اپنے نام کے ساتھ ’’مولانا‘‘ اور’’ ندوی ‘‘ لکھنے سے… اتنا معتبر نہیں ہوجاتا کہ…
وہ اُس کے کہنے پر… اپنی مقدس مسجد سے دستبردار ہو جائیں… اور اس مسجد کے سینے پر
شرک کے مندر کو گوارہ کر لیں… الحمد للہ ہندوستان کے مؤقر ’’مسلم پرسنل لاء
بورڈ‘‘ نے مولانا سے برأت کا اعلان کر دیا ہے… اور دیگر اہل علم بھی ان کے اس
موقف سے بے زاری کا اظہار کر رہے ہیں… ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ… عمر کے ساتھ ساتھ
’’مولانا ‘‘ کے جذبے بھی… اس قدر بڑھاپے کا شکار ہو جائیں گے… اللہ تعالیٰ ہم سب
کو ایمان اور دین پر استقامت اور ثابت قدمی عطاء فرمائے۔آمین یا ارحم الراحمین
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 634
صوفی ازم؟؟؟
* ’’صوفی
ازم‘‘ کے نام سے مسلمانوں میں پھیلایا جانے والا ایک شیطانی فتنہ … اس کے
بھیانک اور خوفناک مقاصد
* حقیقی
اور اصلی تصوف کیا ہے؟
* اسلامی
تصوف کے اہداف و مقاصد…
* چند
ٹھوس حوالے اور چشم کشا عبارتیں…
* فتنوں
سے بچنے کے لئے مختصر نصاب
اور
مسنون دعاء …
* غلط
فہمیوں کا شکار نہ ہوں… سلفی حضرات کے لئے
خیر
خواہانہ مشورہ…
* گناہوں
سے حفاظت، دفع مصائب اور حاجات کی تکمیل کے لئے ایک اکسیر اور انمول تحفہ…
تاریخ
اشاعت:
۲۰ جمادیٰ الثانیہ ۱۴۳۹ ھ /
بمطابق 9 مارچ 2018 ء
صوفی ازم؟؟؟
اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے … حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ملک ’’یمن‘‘ تشکیل فرمائی… اہل
یمن نے اسلام قبول کر لیا تھا… حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’ یا رسول اللہ! میں کم عمر
نوجوان ہوں آپ مجھے ایسی قوم میں بھیج رہے ہیں جن میں باہمی مسائل ہوں گے۔‘‘ (
یعنی اُن کے جھگڑے ، معاملے اور فیصلے نمٹانے کی مجھ میں صلاحیت نہیں ہے)
اس پر حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت سنائی:
اِنَّ اللہَ
سَیَھْدِیْ قَلْبَکَ وَ یَثْبُتُ لِسَانَکَ۔
’’اللہ تعالیٰ آپ کے دل اور زبان
کو سیدھا اور مضبوط رکھے گا۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں:
’’ مجھے اس کے بعد کبھی کسی فیصلے
میں کوئی شک یا پریشانی نہیں ہوئی۔‘‘
[سنن ابوداؤد۔حدیث رقم: ۳۵۸۲،ناشر:دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
معلوم ہوا کہ … جس انسان کا دل سیدھا ہو جائے اور زبان ٹھیک
ہو جائے وہ انسان ہر جگہ کامیاب ہے۔
اُمت مسلمہ کے ایک مقبول طبقے نے… دل اور زبان کی اصلاح کو
اپنا موضوع بنایا … اس پر بھر پور محنت کی… اس کے لئے نصاب مقرر کئے …اس کی خاطر
بڑے بڑے مجاہدے کئے… قرآن و سنت میں غور کر کے اس کے لئے… طریقت کا ایک نظام
بنایا… اس نظام کوصحبت کے ساتھ جوڑا… اور یوں … سلوک ، احسان، تصوف اور روحانیت کے
نام سے ایک علم اور ایک سلسلہ وجود میں آ گیا… دل ہر برائی اور گندگی سے صاف ہو
جائے ، پاک ہو جائے… نفس ہر شرارت سے اور ہر خباثت سے پاک ہو جائے، صاف ہو
جائے…نیت اور ارادہ ہر دکھلاوے اور ہر خرابی سے پاک ہو جائے،صاف ہو جائے… بندے کا
دل اللہ تعالیٰ سے جڑ جائے… بندے کے دل میں نور اور روشنی پیدا ہو جائے… بندہ اپنی
ذاتی اغراض سے پاک ہو کر… ایک اللہ کا ہو جائے… بندے کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف
ایسی ہو جائے کہ… اللہ تعالیٰ کی رضا کے سوا اس کا کچھ مقصود نہ رہے، کوئی مطلوب
نہ رہے… اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس کا محبوب حقیقی نہ رہے… وہ خود کو اللہ تعالیٰ
کے سامنے پائے… اور ہر غرض سے پاک ہو کر اس کی بندگی کرے، اس کی غلامی کرے… اور اس
کے ارادے کو اپنا ارادہ بنائے… اور اس کی تقدیر پر ہمیشہ خوش رہے …اور وہ اپنے
ارادے کو اور اپنی نفسانی خواہشات کو… فناء کر دے…یہ ہے اسلامی تصوف… اور اس کے
مشہور سلسلے چار ہیں:
١
قادری …
٢ نقشبندی
…
٣ چشتی
…
٤ سہروردی
…
جبکہ ایک سلسلہ ’’اویسی‘‘ بھی… کسی کسی کو نصیب ہو جاتا ہے…
تصوف چونکہ اسلام ہی کا ایک سلسلہ اور ایک علم ہے… اس لئے اس کے تمام قوانین…
قرآن وسنت اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال و اعمال کی روشنی میں بنائے گئے ہیں…
صوفیاء کے امام حضرت جنید بغدادی رحمہ
اللہ فرماتے ہیں:
مَذْھَبُنَا ھٰذَا مُقَیَّدٌ بِالْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ
فَمَنْ لَمْ یَقْرَءِ الْقُرْآنَ وَلَمْ یَکْتُبِ الْحَدِیْثَ
لَایُقْتَدٰی بِہٖ فِیْ مَذْھَبِنَا وَطَرِیْقِنَا۔
’’ہمارے تصوف کا یہ راستہ قرآن و
سنت کے ساتھ بندھا ہوا ہے پس جو شخص قرآن مجید نہ پڑھے اور حدیث شریف نہ لکھے تو
ہمارے تصوف میں ایسے شخص کی پیروی نہیں کی جائے گی۔‘‘
[ البدایۃ والنہایۃ۔ ج: ۱۱۔ ص: ۴۰۷۔ ط: رشیدیہ، کوئٹہ]
آج کل پوری دنیا میں جس ’’صوفی ازم‘‘ کا شور ہے… ابھی سندھ
میں اس کے نام پر میلے، فیسٹول ، ناچ ، گانے ،موسیقی، بھنگڑے، نشہ بازی اور بے
حیائی کے جو مناظر ہیں اس کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟ … اس کا قرآن وسنت میں کہاں
ثبوت ہے؟ … چند جنگلی جانور جمع ہو کر… اپنی نفسانی ہوس پوری کرتے ہیں اور اسے
’’صوفی ازم ‘‘کا نام دے دیتے ہیں… دراصل یہ لوگ مسلمانوں کو… دین اسلام کی حقیقی
راہ سے ہٹانا چاہتے ہیں… اللہ تعالیٰ ان کے شرور سے اہل ایمان کی حفاظت فرمائے۔
ایک نظر ڈالیں
حضرات صوفیاء کرام رحمہم اللہ … اپنے سلسلوں کی سند حضرات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے
جوڑتے ہیں… اور حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ کو … تصوف کا امام اول قرار دیتے
ہیں… کیونکہ تصوف میں ترقی کی آخری منزل … مقام ’’صدیقیت‘‘ ہے… اس کے آگے’’
نبوت‘‘ کا مقام ہے… ’’نبوت‘‘ کسی کو اپنی محنت یا مجاہدے سے نہیں مل سکتی … ایک
انسان جو آخری ترقی کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ… صدیق کے مقام تک پہنچ جائے… اور
یہ مقام بہت اونچا ہے… مقام تو کیا کہنے … صدیق کی نسبت مل جانا بھی بڑی سعادت ہے
… اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ صدیقین اولیاء کے امام ہیں… اور آپ منبر پر
بیٹھ کر فرماتے تھے کہ:
’’ اے مسلمانو!جو قوم جہاد فی سبیل
اللہ چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالیٰ اس پر ذلت کو مسلط فرما دیتے ہیں۔‘‘
آج کل ’’صوفی ازم ‘‘ کا منحوس نعرہ اس لئے بلند
کیا جا رہا ہے تاکہ… مسلمانوں کو ’’جہاد ‘‘ سے روکا جا سکے جبکہ حقیقی تصوف میں ہم
یہ دیکھ رہے ہیں کہ… صوفیاء کے سب سے اونچے درجے کے امام … یعنی صدیقین کے امام
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے
لئے جہاد کو لازم سمجھتے ہیں… خود بھی ساری زندگی جہاد میں رہے اور پھر اپنے مختصر
دور خلافت میں انہوں نے اس وقت کی تقریباً پوری اُمت مسلمہ کو جہاد پر لگادیا یہاں
تک کہ… مدینہ منورہ خالی ہونے لگا۔
اہل تصوف کے دوسرے بڑے امام … جن تک صوفیاء کرام اپنی سند
جوڑتے ہیں … وہ ہیں اسد اللہ الغالب سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ … اللہ
تعالیٰ کے شیر… ناقابل شکست فاتح… اور بدر و خیبر کے فاتح… پھر آپ حضرات صوفیاء
کرام کے حالات پڑھتے جائیں … جن جن بزرگوں کے ساتھ اہل تصوف خود کوجوڑتے ہیں… وہ
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ ہوں یا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ … یہ سب حضرات
باقاعدہ جہاد فرماتے رہے… جنگ یرموک کے موقع پر … اسلامی لشکر میں سیّدنا ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ موجود تھے اور انہوں نے خطاب فرما کر … مسلمانوں
کو ثابت قدمی اور بہادری کی تلقین فرمائی … نیچے کے حضرات میں… حضر ت حسن بصری
رحمہ اللہ سے حضرت ابراہیم بن ادہم رحمہ
اللہ تک… آپ کو ایک طرف سلوک و احسان کی
عظیم بلندیاں نظر آتی ہیں تو ساتھ ہی جہاد کے عظیم کارنامے بھی… ساتویں صدی میں
تصوف کے مشہور امام اور بزرگ حضرت الشیخ عبد اللہ الیونینی رحمہ اللہ کے بارے میں ’’البدایہ والنہایہ ‘‘
میں لکھا ہے کہ… آپ ’’اسد الشام‘‘ یعنی ملک شام کے شیر کے لقب سے مشہور تھے اور
صاحب احوال و مکاشفات تھے… آپ امام طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے مجاہد تھے… حافظ
ابن رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَکَانَ لَا یَنْقَطِعُ عَنْ غَزْوَۃٍ مِّنَ الْغَزَوَاتِ
وَلَہٗ اَحْوَالٌ وَ کَرَامَاتٌ کَثِیْرَۃٌ جِدًّا۔
’’یعنی آپ کسی بھی جنگ سے پیچھے
نہیں رہتے تھے… اور آپ کے احوال اور کرامات بہت کثیر ہیں۔‘‘
فتنے سے پناہ
مسلمان چونکہ… بزرگان دین سے محبت رکھتے ہیں… ان سے بہت جلد
متاثر ہوتے ہیں… اور اپنی مشکلات وغیرہ میں بھی وہ… ان کی طرف رجوع کرتے ہیں… تو
دشمنان اسلام بھی … اکثر اسی لبادے میں… مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں… انگریزوں نے
باقاعدہ ایسے ادارے بنائےتھے جو نقلی بزرگ ، بابے، صاحب کشف اور صاحب کرامات ملنگ
تیار کر کے… مسلمانوں میں گھساتے تھے… دشمن کے یہ ایجنٹ ایک طرف تو مسلمانوں کے
عقائد بگاڑتےتھے اوردوسری طرف…ان کے خلاف جاسوسی بھی کرتے تھے… یہ ایک بڑی دردناک
اور طویل داستان ہے… اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے … کئی غیر مسلم کافر… آج بھی
مسلمان بن کر مسلمانوں میں… اندر تک گھسے ہوئے ہیں اور دن رات… لاکھوں مسلمانوں کو
گمراہ کر رہے ہیں…ہم اس داستان کو ایک طرف چھوڑتے ہیں … کیونکہ اس کا زیادہ تذکرہ…
صرف غم، خوف، پریشانی اور شبہات ہی پیدا کرتا ہے… اصل بات یہ ہے کہ… مسلمان اگر چند
چیزوں کا خیال رکھ لے تو وہ کبھی بھی… کسی ایسے فتنے کا شکار نہیں ہو سکتا… کلمہ
طیبہ کے ساتھ مضبوط تعلق اور اس کا بکثرت ورد… نماز کے ساتھ پکی یاری اور عشق…
جہاد فی سبیل اللہ سے والہانہ تعلق اور محبت … فرائض کی پابندی… قرآن مجید کی
تلاوت اور مسنون اوراد کا اہتمام… یہ ایک مختصر نصاب ہے اور اس میں سب کچھ آ جاتا
ہے… ساتھ ہی ہر نماز کے بعد فتنوں سے حفاظت کی دعاء کا بہت اہتمام رہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفِتَنِ
مَاظَھَرَ مِنْھَا وَمَابَطَنَ۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ
الدَّجَّالِ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ
بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ النِّسَاءِ۔
چونکہ زمانے کے اکثر بڑے فتنوں کی لگام’’ عورتوں‘‘ کے ہاتھ
میں ہے اس لئے عورتوں کے فتنے سے حفاظت کی دعاء ہر مسلمان مرد اور عورت کو کرنی
چاہیے اور ہماری مسلمان بہنوں کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ… یہ دعاء نعوذ باللہ ان
کے خلاف ہے… اسی طرح جمعۃ المبارک کے دن ’’سورۃ الکہف‘‘ کا اہتمام رکھیں اور اپنا
’’جمعہ‘‘ خوب مضبوط بنائیں… جمعہ اگر مضبوط ہو جائے تو فتنے دور دور بھاگ جاتے
ہیں… خلاصہ یہ کہ ’’صوفی ازم‘‘ کے نام سے ایک شیطانی فتنہ اس وقت مسلمانوں میں
پھیلایا جا رہا ہے… اہل ایمان اس سے خبردار رہیں۔
تنقید سے پہلے
سلفی بھائی آج کا کالم پڑھ کر… ضرور پریشان ہوں گے… اور
بعض اس بارے میں خطوط بھی لکھیں گے کہ… تصوف اور صوفیت کا اسلام سے کیا تعلق؟
چونکہ سلفی بھائی… اپنے موجودہ علماء کے بہت پکے مقلد ہیں اس لیے وہ اس طرح کی غلط
فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں … وہ اگر اُن اسلاف کی کتابیں مکمل پڑھیں… جن کی طرف
وہ اپنی نسبت کرتے ہیں… مثلاً شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ … تو وہ دیکھ لیں گے کہ یہ حضرات بھی
اسلامی سلوک و احسان اور تصوف کے بالکل اسی طرح قائل تھے جس طرح کہ ہم ہیں… آج ہی
مطالعہ کر کے دیکھ لیں… اور اندھی تقلید سے باہر نکلیں۔
آخر میں ایک تحفہ
جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ…
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَلَا مَلْجَأَ
وَلَا مَنْجَأَ مِنَ اللہِ اِلَّا اِلَیْہِ۔
’’نہیں کوئی طاقت اور قوت مگر اللہ
تعالیٰ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے صرف اللہ تعالیٰ ہی
بچا سکتا ہے…اللہ تعالیٰ کی پکڑ ، مصیبت اور عذاب سے بچنے کی پناہ گاہ خود اللہ
تعالیٰ ہے۔‘‘
[ مسند ابوداؤد الطیالسی۔ج: ۴۔ ص: ۲۰۳۔ ط: دار ھجر، مصر]
یہ مسنون دعاء گناہوں سے حفاظت، پریشانیوں کے
خاتمے ، حاجات کے پورا ہونے اور مصیبتوں سے حفاظت کے لئےاکسیر ہے۔
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَلَا مَلْجَأَ
وَلَا مَنْجَأَ مِنَ اللہِ اِلَّا اِلَیْہِ۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 635
اسلام اور ریاضت بدنیہ
* اللہ
تعالیٰ کو ’’مؤمن قوی‘‘ پسند ہے…
* ’’مؤمن
قوی‘‘ بننے کے لئے ورزش ضروری ہے…
* تیر
اندازی، گھڑ سواری، تیراکی اور ورزش کی پرزور ترغیب…
* ایک
مؤمن کے لئے بزدلی اور سستی عیب ہے…
* بہت سی دماغی اور جسمانی بیماریوں کا سبب سستی
اور کاہلی ہے…
* اپنے
جسم کو ورزش اور مشقت کا عادی نہ بنانے کے نقصانات…
* ایک
مجاہد کے لئے ورزش کتنی اہمیت رکھتی ہے؟…
* حضرات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا
اپنے جسموں کو ورزش اور مشقت
کے
ذریعے مضبوط کرنا اور چست رکھنا…چند واقعات
ریاضت
بدنیہ (جسمانی ورزش) کی اہمیت و فضیلت
پر
مشتمل ایک مفصل مضمون…
نوٹ:
یہ مضمون در حقیقت حضرت امیر المجاہدین حفظہ اللہ تعالیٰ کا ایک بیان ہے، جسے تحریری شکل میں ڈھال
کر مضمون بنا لیا گیا ہے۔ (مرتب)
تاریخ اشاعت:
۲۷جمادی
الثانیہ۱۴۳۹ھ/بمطابق16مارچ2018ء
اسلام اور ریاضت بدنیہ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ایمان والے بندوں کو حکم
فرمایا ہے:
{کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللہِ}
’’ تم اللہ تعالیٰ کے مددگار
بنو۔‘‘ [الصف:۱۴]
یعنی اللہ تعالیٰ کے دین کے مددگار بنو…دشمنانِ دین کے
مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرو… اللہ تعالیٰ کے دین کے انصار بنو…اور
اس نصرت کے لیے تم بھرپور تیاری کرو:
{وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا
اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ} [الانفال:۶۰]
جتنی تمہاری طاقت ہے …جتنی تمہاری استطاعت ہے…اس کے مطابق
تم تیاری کرو…تیر اندازی سیکھو…گھڑ سواری سیکھو… اور ایسی زبردست قوت بناؤ کہ …
{تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللہِ وَعَدُوَّکُمْ }
[الانفال:۶۰]
’’ اس کے ذریعہ سے تم اللہ تعالیٰ
کے دشمنوں کواوراپنے دشمنوں کو ہیبت زدہ کر دو، دہشت زدہ کر دو۔‘‘
اس لیے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَلْمُوْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَ اَحَبُّ اِلَی اللہِ
مِنَ الْمُؤمِنِ الضَّعِیْفِ۔
’’وہ ایمان والا جو قوی ہو وہ اللہ
تعالیٰ کے ہاں بہتر ہے اور زیادہ محبوب ہےاس ایمان والے سے جو کمزور ہو۔‘‘
[صحیح مسلم۔حديث رقم:۲۶۶۴ ، ناشر:دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
آپ مکہ مکرمہ کا ماحول دیکھیں… مدینہ منورہ کا ماحول
دیکھیں…سستی نام کی کوئی چیز وہاں نظر نہیں آتی…ہر شخص جو اللہ تعالیٰ کے دین کی
نصرت کے لئے تیار ہوا… اُس نے اپنے جسم کو فولاد بنایا… خود کو مضبوط کیا…اور اس
مضبوطی کو ایک مقصد بنا کر اُس کے لیےاس نے محنت کی…حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جو خطوط اپنے گورنروں، سپہ سالاروں کے نام
لکھے … ان کو پڑھ کر دیکھیں…ان میں ہر اُس چیز سے منع فرمایا گیا… جو انسان کے جسم
کو کمزور کرتی ہو اور سست کرتی ہو…اور ہر اُس چیز کا حکم دیاگیا جو انسان کو مضبوط
اور چست بناتی ہو… حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم نماز کے بعد باقاعدہ دعاء
فرمایا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَ
الْکَسَلِ۔
’’یا اللہ! سستی سے آپ کی پناہ
چاہتا ہوں،کم ہمتی سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
[صحیح مسلم۔حديث رقم:۲۷۰۶ ، ناشر:دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
ایک بار کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین …حضورِ اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے …اور عرض کیا:
’’ یا رسول اللہ!تھکاوٹ ہو جاتی
ہے‘‘
فرمایا:
عَلَیْکُمْ بِالنَّسْلَانْ۔
’’ تیز چلا کرو۔‘‘
[صحیح ابن خزیمہ۔باب استحباب النسل
فی المشی،حدیث رقم:۲۵۳۷،ناشر: المكتب الإسلامي بیروت]
تھکاوٹ کا علاج یہ بیان فرمایا کہ تیز چلا کرو … صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں: ہم
نے تیز چلنا شروع کیاتو چند دن میں ہی ہماری ساری تھکاوٹ دور ہو گئی…اورجو سستی،
پریشانی اور بیماری تھی اُس کا خاتمہ ہوگیا۔
حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم کی مبارک زندگی ہمارے لیےہر چیزمیں اسوۂ حسنہ ہے:
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ
اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} [الاحزاب:۲۱]
علماءکرام نے لکھا ہےکہ…حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم کا خوبصورت ، طاقتور اور چست جسم مبارک بھی اسوۂ حسنہ میں شامل ہے…وہ
جسم جس کو دیکھ دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ترغیب ہوتی تھی…اور
وہ بھی اس طرح بننے کی کوشش کرتےتھے…مکہ مکرمہ سے طائف کا سفر پیدل طے کرنا…پہاڑی
علاقہ…پتھر… کانٹے…یہ کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کُشتی فرمائی…تویہ بھی سنت ہو گئی …کُشتی
کرنے کے لیے انسان کو کتنی زیادہ جسمانی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے…اور کُشتی بھی مکہ
کے اُس پہلوان سےفرمائی جس کا کوئی مدِمقابل پورے مکہ میں موجود نہیں تھا…
’’رُکانہ‘‘…آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کو تین بار شکست دی…حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم تیر اندازی فرماتے تھے …اور بہترین تیر اندازی فرماتے تھے …یہ بھی سنت
ہو گئی…اس اسوۂ حسنہ کو بھی اپنانا ہے… تیر اندازی کے لئے کس قدر جسمانی طاقت کی
ضرورت ہوتی ہے… وہ آپ تیر اندازی کر کے دیکھ لیں…یا کسی تیر انداز سے پوچھ
لیں…ہاتھوں کی انگلیاں مضبوط ہونا شرط… کلائیاں مضبوط ہونا شرط…بازؤوں کی مچھلیاں
مضبوط ہونا شرط… کندھے مضبوط ہونا ضروری…سینے کا طاقتور ہونا ضروری…کمرکا سیدھا
ہونا ضروری…اور ٹانگوں میں قوت اور طاقت کاہونا ضروری… یہ سب چیزیں موجود ہوں… تو
انسان اچھی طرح تیر اندازی کر سکتا ہے ورنہ نہیں کر سکتا۔
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تیر اندازی میںبہت محنت فرمائی…کیونکہ یہ
اللہ تعالیٰ کا حکم تھا…اورآقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت اور ترغیب تھی… اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{مِنْ قُوَّۃٍ } [الانفال:۶۰]
اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’قوۃ‘‘ کی تشریح’’تیر
اندازی‘‘ سے فرمائی۔
أَلَا اِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ۔
[صحیح مسلم۔حدیث رقم:۱۹۱۷،دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
چنانچہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گھنٹوں گھنٹوںتیر
اندازی کی مشق فرماتے تھے…اور جنگوں میں کئی کئی گھنٹوں تک مسلسل تیر پھینکتے
تھے…مگر اُن کے بازؤوں میں کسی قسم کی کمزوری یا تھکاوٹ نہیں آتی تھی…یہ سب کچھ
بھی اسوۂ حسنہ ہو گیا…حضورِ اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی ہو گئی…اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریقہ بھی ہو گیا۔
گھڑ سواری کا حکم بھی اللہ تعالیٰ نے دیا…کیونکہ اللہ
تعالیٰ نےگھوڑوں کی فضیلت بیان فرمائی…اور اُن گھوڑوں کی قسمیںکھائیں…جو صبح کے
وقت چھاپہ ڈالتے ہیں…صبح کے وقت حملہ کرتے ہیں{فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا}(انہی
قسموں میں’’ گھوڑسوا ری ‘‘کا حکم مضمر ہے)…اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام میں
صبح کا سونا نہیں ہے…بلکہ صبح کو مومن کا گھوڑے کی پشت پرسوار ہونا ہے…اور صبح کے
وقت اس گھوڑے نے جا کر حملہ کرنا ہے…اور اُس زمین کو جو شبنم کے گرنے کی وجہ سے جم
چکی ہو اس کو بھی اُکھاڑ کر اُس میں سے مٹی اُڑانی ہے… اور ایسا منظر پیدا کرنا ہے
کہ عرش کے اوپر سے آواز آئے :
{وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا* فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًا* فَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًا* فَاَثَرْنَ بِہٖ نَقعًا}
[العادیات:۱تا۴]
ایک چست مؤمن اللہ تعالیٰ کو کتنا محبوب ہے …اس کا اندازہ
اس بات سےلگائیں کہ… مساجد میں لہو و لعب اور دنیا کی باتیں کرنا علامات قیامت میں
شمار ہوتا ہے…لیکن مسجد میں تیر اندازی اور نیزوں کی مشق کرنے کی حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی… وجہ یہ ہے
کہ مؤمن جب گھوڑے پر بیٹھ کر جہاد کی نیت سے گھڑ سواری کرتا ہے…اور دوڑ لگاتا
ہے…تویہ وہ عمل ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُسی طرح حاضر ہوتے ہیں جس طرح’’
ذکر اللہ ‘‘پر حاضر ہوتے ہیں…اسی طرح جب کچھ مؤمن اکٹھے ہو کر تیر اندازی کی مشق
کرتے ہیں…تیر اندازی سیکھتے ہیں…تواس عمل پربھی فرشتے اسی طرح حاضر ہوتے ہیں جس
طرح’’ ذکر اللہ ‘‘پر حاضر ہوتے ہیں۔
ایک مؤمن کابنیادی کام اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت ہے… اور
اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لیے مضبوط جسم… چست جسم… اورمشقتیں سہنے والا بدن
ضروری ہے …
{لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ
فِیْ کَبَدٍ} [البلد:۴]
اللہ تعالیٰ مکہ مکرمہ کی قسم کھا کر فرماتے ہیںکہ …والد
اور ولد کی قسم کھا کر فرماتے ہیں…اے انسان!میں نے تجھے پیدا ہی مشقت میں کیا ہے
…اب یہی مشقت تو اگر اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے برداشت کرے گا …تو تجھےدنیا و
آخرت میں ترقی ملے گی…اور اگر تو نے مشقت کو چھوڑا اور راحت کو اختیار کیا…تو
دنیا و آخرت کی بہت سی مشقتیں تیرے سر پر سوار ہو جائیں گی… اس سورۃ مبارکہ کی
تفسیر کو بہت غور سے پڑھیں… تو آپ کو ورزش کرنے کی اور اپنا جسم بنانےکی اہمیت
معلوم ہو جائے گی۔
افسوس!آج لوگ خوبصورتی کے لئے تو اپنا جسم
بناتے ہیں…دنیاوی مقابلوں کے لیے، دنیاوی شہرت کے لئے تو اپنا جسم بناتے ہیں، لیکن
اللہ تعالیٰ کے انصار… اللہ تعالیٰ کے دین کے مددگاربننے کے لئے… اور اللہ تعالیٰ
کے دین کی مدد کے لئے …اس چیزکو ایک مقصد یا مشن بنا کر اختیار نہیں کرتے…حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ذکر اللہ‘‘ کے علاوہ کھیل کود سے متعلق تمہاری
ہر چیز لہو و لعب میں شمار ہو گی سوائے چار چیزوں کے:
١ تیر
اندازی کے دو ہدفوں کے درمیان چلنا۔
آپ تیر اندازی سیکھ رہے ہیں… ایک جگہ آپ نےہدف مقرر کیا
دوسری جگہ سےاس پر تیر پھینکتے ہیں…پھر وہاں جا کر دیکھتے ہیں کہ صحیح لگا یا نہیں
؟…یہ چلنا اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے…یہ لہو و لعب میں نہیں آتا۔
٢ اپنے
گھوڑے کی تربیت کرنا ، اس کو سدھانا، اس کو تیار کرنا۔
اللہ تعالیٰ کے دین کی مددکی نیت سے…اللہ تعالیٰ کے دین کا
کام کرنے کے لئے…یہ کا م کرنا لہو و لعب میں نہیں آتا… اس عمل پر بھی اللہ تعالیٰ
خوش ہوتے ہیں…اوراللہ تعالیٰ کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔
٣ تیراکی
کرنا …یہ دنیا کی بہترین ورزش ہے۔
٤
بیوی کے ساتھ کھیلنا…یہ بھی لہو و لعب نہیں۔
اسلام کا مزاج عجیب ہے…دنیا کے کئی مذاہب میں…لوگوں کو جسم
بنانے کی ترغیب دی جاتی ہے…صرف اس لئے کہ صحت حاصل ہو جائے…چستی حاصل ہو جائے…کہیں
یوگا سیکھا جاتا ہے…کہیں مارشل آرٹ سیکھی جاتی ہے…ہوا میں مکے مارے جاتے ہیں…ہوا
میں کِکیں ماری جاتی ہیں…اور اس کےجو مقاصد بیان کیے جاتے ہیں…وہ سارے جانوروں
والے ہیں… انسانوں والے نہیں ہیں…جبکہ اسلام ان تمام چیزوں کی ان تمام باطل مذاہب
سے بڑھ کر ترغیب دیتا ہے…لیکن مقصدکے ساتھ…اوروہ مقصد ہے… اللہ تعالیٰ کے دین کی
مدد…اس مقصد کو لے کر ورزش کی جائے تو انسان کا جسم بھی بن رہا ہے اور ساتھ اجر
بھی بن رہا ہے… صحت بھی اچھی ہو رہی ہے… اور ساتھ ساتھ آخرت بھی اچھی ہو رہی ہے…
جسم بھی مضبوط ہو رہا ہے…اور ساتھ روح کو بھی ترقی مل رہی ہے…انسان چست بھی ہو
رہاہے …خوش بھی ہو رہاہے …اور ساتھ ساتھ اپنی آخرت کا سرمایہ بھی تیار کر رہاہے۔
تیراکی کی ترغیب دی گئی…مگرکس انداز سے؟… بحری جہاد کی بہترین اور بڑی بڑی
فضیلتیں بیان کر دیں…آپ فضائلِ جہاد کھول لیں…اس میں بحری جہاد کے بارے میں… حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک فرامین
اور فضیلتیں… سمندر میں شہید ہونے کے مقامات، درجات… سمندری جہاد میں کسی کو اُلٹی
آ جائے…سر چکرا جائے…اس کی فضیلت… اور پہلے سمندری دستے کے لیے خاص فضیلتیں پڑھ
لیں…حیران ہوجائیں گے کہ اس قدر فضیلتیں؟…ا ور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ سمندری جہاد وہی شخص کر سکتا
ہے جو تیراکی جانتا ہو…جو کَشتی رانی جانتا ہو… جو سمندر کی موجوں سے لڑنا جانتا
ہو…دیکھئےتیراکی کی ترغیب بھی ہو گئی… اور ساتھ ساتھ اس کا مصرف بھی بیان ہو
گیا…ورزش بھی آ گئی اور اس ورزش کا مقصد بھی آ گیا… یہ نہیں ہے کہ صرف اپنا جسم
بنانا ہے اور بس۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(انسان کو) ان چیزوں پر غور کرنا
چاہیے…جن کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم
نے لہو ولعب قرار نہیں دیا… گھڑ سواری ، تیر اندازی ، تیراکی وغیرہ… ان چیزوں کا
دنیا میں جو سب سے پہلا فائدہ ہوتا ہے… و ہ یہ ہوتاہے کہ… انسان کے دماغ سے ٹینشن
دور ہو جاتی ہے…دماغی بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں… دماغی بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ
انسان کا سست ہونا…بے کار ہونا…فضول چیزوں میں پڑے رہناہے… اسی کی وجہ سے ساری
ٹینشن ہوتی ہے…اور جب دماغ میں ٹینشن ہوتی ہے تو انسان پر’’ھَم‘‘ نامی بیماری کا
حملہ ہوتا ہے… فکروں کا حملہ ہوتا ہے… اس کے بعد پھر نشے شروع ہو جاتے ہیں…ٹینشن
زیادہ ہے تو اب سگریٹ پینی ہے… سگریٹ سے کام نہیں چلتا تو پھر چرس ہے…چرس کے بعد
ہیروئن ہے …کوکین ہے…شراب ہے…العیاذ باللّٰہ…لیکن اگر انسان ان چیزوں کو اختیار
کرے جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی
سیرت اور سنت میں آئی ہیں…چلتے ہوئے تیز چلے… گھڑ سواری کرے…تیراندازی کرے…تیراکی
کرے…اور کُشتی لڑے… تو ٹینشن انسان کے قریب نہیں آئے گی …نہ اُس پر پریشانیوں کا
حملہ ہو گا…اور نہ اُس کا جسم شہوتوں اور گناہوں کی طرف زیادہ مائل ہو گا …نہ اسے
نماز میں سستی ہو گی…نہ اسے مسجد جانے میں تکلیف ہو گی… نہ اسے حج کے موقع پر کوئی
پریشانی ہو گی…اور فریضہ ٔجہاد ادا کرنا بھی اُس کے لیے آسان ہو جائے گا۔
اس لیے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے لے کر آج تک
جتنے بھی اچھے مسلمان گذرے ہیں یا موجود ہیں…سچے مسلمان …جن مسلمانوں کے دل میں یہ
درد ہے کہ… انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کا مددگار بننا ہے…جن مسلمانوں کے دلوں
میں یہ فکر ہے کہ انہوں نے جہاد سمیت ہر اسلامی عبادت کو ٹھیک طریقے سے ادا کرنا
ہے…وہ کبھی اپنا جسم بنانے سے غافل نہیں ہوتے…وہ کبھی خودکو ڈاکٹروں، حکیموں،
طبیبوں، عاملوں کے حوالے نہیں کرتے… وہ حتی الوسع محنت کرتے ہیں…یہاں تک کہ کسی
معذوری کی وجہ سے اگر وہ چلنے پھر نے سے رک جائیں…توتب بھی اُن کے جسم کے وہ اعضاء
جو درست اور ٹھیک ہوتے ہیں…اُن کو مضبوط کرتے رہتے ہیں…تاکہ اللہ تعالیٰ کے دین کی
کسی طرح سے تو مدد کر سکیں۔
آپ قرون اولیٰ کے اسلامی لشکروں کی قوت کا جائزہ لیں…صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خوراکیں
زیادہ نہیں تھیں…صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین طاقت ، قوت والی کوئی خاص چیزیں استعمال نہیں کرتے تھے…لیکن جب روم و
فارس کے پہلوانوں کے مقابلے میں کھڑے ہوئے…تو اُن کو اُن کے گھوڑوں کے اوپر سے
اُٹھا اُٹھا کرنیچے پٹختے تھے…دراصل مؤمن جب اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے جسمانی
قوت بنانے پہ آتا ہے تو اس کی جسمانی اور روحانی دونوں قوتیں مل کر اُس کو طاقتور
ترین بنا دیتی ہیں…حضرات صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین نے جب تیراندازی کے فضائل سنے…اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
سےیہ وعید سنی کہ:’’جس نے تیر اندازی سیکھ
کر اسے بھلا دیا…چھوڑ دیا…اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں رہے گا‘‘…تو بڑھاپے کی حالت
میں…جب چلنا پھرنا مشکل تھا… تب بھی وہ مشقتیںجھیل کر تیر اندازی کیا کرتے
تھے…ڈاکٹر کہہ دیں کہ تم مرنے کے قریب ہو اگر تم نہیں چلو گے تو مر جاؤ گے… تب تو
لوگ چلنا شروع کردیتے ہیں… لیکن یہی قدم اگر اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لئے
اُٹھیں…اور انسان اس نیت سے چلے…تو ایک ایک قدم پر اللہ تعالیٰ اُس کے ایمان کو
بھی قوت دیتے ہیں…اس کی روح کو بھی قوت دیتے ہیں…اس کے جسم کو بھی صحت عطاء فرماتے
ہیں…اوراس کے دل کو بھی صحت عطاء فرماتے ہیں…اس لئے کہ اللہ تعالیٰ مؤمن قوی سے
محبت فرماتے ہیں…اور جس کے ساتھ وہ محبت فرماتے ہیں اس کو ہر طرح کی خیر عطاء
فرماتے ہیں۔
آج اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے…کہ ایک مشن، ایک مقصد اور
ایک دعوت بنا کر ہر مسلمان کو اس بات کی ترغیب دی جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین
کامدد گاربننے کے لئے…اسلام کے تمام فرائض کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے لئے… اللہ
تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کے لئے…ورزش کا اہتمام کرے…بعض لوگوں کا تو پیشہ
ایسا ہے کہ اس میں اُن کی اچھی خاصی ورزش ہو جاتی ہے…لیکن جن لوگوں کو بیٹھ کر کام
کرنا ہے…جن کو طرح طرح کی مجبوریوں نے گھیر رکھا ہے… وہ اپنی زندگی میں اس چیز کو
لائیں…شامل کریں …علماء کو چاہئے کہ اس چیز کی دعوت دیں…اس چیز سے نہ گھبرائیں کہ
لوگ کہیں گے کہ آپ خود تو کرتے نہیں…اور دوسروں کو دعوت دیتے ہیں…دعوت دینے کی
برکت سے اپنے لئے بھی عمل آسان ہو جائے گا…قرآن مجید میں… درجنوں دلائل موجود
ہیں…احادیثِ نبویہ میں سینکڑوں دلائل موجود ہیں…جن کو بیان کر کے امت کو اس چیز پر
لایا جا سکتا ہے…کہ ہر مسلمان مرد، عورت…اپنے جسم کو صحت مند رکھنے کے لئے…اپنے
بدن کو طاقتور بنانے کے لئے ورزش کااہتمام کرے…خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے
لئے…اللہ تعالیٰ کے فرائض ادا کرنے کے لئے… اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب بننے کے
لئے…اللہ تعالیٰ کے دین کا انصار بننے کے لئے…پنجے مضبوط کرے… بازو مضبوط کرے…سینہ
مضبوط کرے… ٹانگیں مضبوط کرے…دماغ کو مضبوط کرے …دل کو مضبوط کرے…اونچی آوازیں سن
کر ڈرنے اور گھبرانے والا نہ بنے…خوف اور دہشت کے ماحول سے ڈرکر کسی کے قدموں پہ
گرنے والا نہ بنے…ڈٹ جانے والا بنے… جو شخص اس چیزکواپنی زندگی میں شامل کرے گا…
ان شاء اللہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا اجر اور بڑی توفیق پائے گا۔
ہمارا ماحول اور معاشرہ بہت بدل گیاہے… ہمارے ہاں دین دار
اشخاص کو… نہ کوئی تیز چلتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے…نہ کچھ کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتا
ہے …لیکن آپ مدینہ منورہ کا ماحول دیکھیں…اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم گزر رہے ہیں…بہت سے صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دو ٹیمیں
بنا کر…آپس میں تیر اندازی کا مقابلہ کر رہے ہیں…سبحان اللہ!… کیا ماحول ہو گا…
آج یہ ماحول نظر آتا ہے… اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پا س سے گزرے …صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہاتھ روک لئے… فرمایا:
اِرْمُوْا، اِرْمُوْا…
تیر اندازی کرو، تیر اندازی کرو…
چلو میں بھی ایک ٹیم کے ساتھ ہوں…میں اُن کی طرف سے…اور تم
دوسری طرف سے… چلو مقابلہ کرو …تو دوسری طرف والوں نے ہاتھ روک لیے …فرمایا:کیا
ہوا؟… کیوں ہاتھ روک لیے؟ …عرض کیا:یارسول اللہ!آپ کے مقابلے میں ہم تیر اندازی
کیسے کریں؟…آپ اُن کی طرف سے ہو گئے …ہم تو تیر اندازی نہیں کر سکتے…فرمایا:تم
تیر اندازی کرو…میں تم دونوں کے ساتھ ہوں… اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کی طرف سے اس عمل میں شرکت فرماتے
رہے…کبھی اُن کی طرف سے تیر پھینکتے…کبھی اِن کی طرف سے تیر پھینکتے… صرف اس ایک
حدیث کو آپ لے لیں…بالکل صحیح حدیث ہے…سبحان اللہ !کیسا پیارا ماحول تھا؟ …تیر
اندازی میں کتنی زیادہ ورزش ہے…کتنا زیادہ کھیل ہے…بظاہر ایک چھوٹا سا عمل ہے…کہ
تیر کو کمان میں رکھ کر پھینکنا ہے…لیکن کمان کھینچتے ہوئے پتہ چلتا ہے…کہ کتنا
سانس چاہئے…کیسے بازو چاہئیں… کتنی طاقتورانگلیاں چاہئیں… کیسی کمرچاہئے… کیسی
ٹانگیں چاہئیں…صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے توتیر اندازی میں اتنی محنت کی…کہ بھاگتے
ہوئے ہرن کی جس آنکھ کو چاہتے تھے…تیر مارلیتے تھے…ہرن اتنا تیز رفتار دوڑتا ہے…
کہ آج کل کی بندوقیں بھی اُس کا صحیح طرح تعاقب نہیں کر سکتیں…جبکہ تیر اندازی
میں تو کافی زور لگتا ہے…کافی محنت لگتی ہے۔
اس لئےآج وقت کی ضرورت ہے کہ مسلمان ورزش کو اپنا لازمی
معمول بنائیں… مسلمانوں میں بیماریاںپھیل گئیں…ہر عامل کے ہاں لائنیں لگی ہوئی
ہیں…رش لگے ہوئے ہیں…وہمی بیماریاں…دماغی بیماریاں…پریشانیاں…ان میں سے بہت سی
بیماریاں سستی کی وجہ سے ہیں…الحمدللہ میرے پاس کافی زیادہ ڈاک آتی ہے…لوگ اپنی
عجیب و غریب بیماریاں لکھتے ہیں…جب میں ان میں غور کرتا ہوں…تو بڑی وجہ …سستی اور
غفلت…صبح کا سونا…بے وقت سونا…بے وقت کھاناہوتا ہے… لوگ سمجھتے ہیں…ہم تو گِر گئے
ہیں… ہم تو ختم ہو گئے ہیں…ہم پر تو شیطان غالب ہے… خواہ مخواہ ہر چیز کی ذمہ داری
شیطان کے سر ڈال دیتے ہیں… ایک دن ایک خط میں کسی نے لکھا…کہ مسنون دعائیں پڑھتے
ہوئے دماغ بوجھل ہوتا ہے…وجہ کیا ہے؟… وجہ ظاہر ہے کہ… جسم میں کچھ کمزوری آئی ہو
گی… یا گیس کی تکلیف ہو گی… جب گیس دماغ کی طرف چڑھتی ہے…تو انسان کے اندر ایک بے
چینی…بے کلی پیدا ہوجاتی ہے …نہ کچھ پڑھ سکتا ہےاورنہ کچھ سوچ سکتا ہے …پھر اللہ
تعالیٰ کی ناشکریاں شروع ہو جاتی ہیں …کہ میرے ساتھ یہ کیوں ہوا؟…تھوڑا
بھاگیں،دوڑیں…سر پہ گیس نہ چڑھنے دیں… جسم اور دماغ کو ٹھیک کریں…تو پریشانی ختم
ہو جائے گی… کبھی کسی کے خلاف وسوسے آنا شروع ہوجاتے ہیں کہ اُس نے یہ کیا…اُس نے
یہ کیا… اس نے وہ کیا…اُس نے ایسا کیا…اس نے ویسا کیا… حالانکہ حقیقت میں کچھ بھی
نہیں ہوتا…گیس دماغ کی طرف چڑھ رہی ہوتی ہے…یا جسم کے اندر کمزوری آ چکی ہوتی
ہے…اور کمزور انسان صرف غم ہی سوچ سکتا ہے…صرف دکھ ہی کھا سکتا ہے…اس نے بیٹھے
رہنا ہے…اُس نے پڑے رہنا ہے…اس نے لیٹ جانا ہے…اب ان تین کاموں میں سوائے تکلیف،
پریشانی اور دکھ کے اور کچھ نہیں ہو سکتا…اسی طرح خوابوں کے معاملات ہیں… ایسے
خواب آ رہے ہیں…ویسے خواب آ رہے ہیں…فلاں نے جادو کر دیا…جن آگیا…کوئی جن نہیں
ہوتا…کوئی جادو نہیں ہوتا… جنات کو اتنی فرصت نہیں ہے کہ ہر وقت انسانوںپرسوار
رہیں…اُن کے اپنے بہت زیادہ کام ہیں…اُن کے اپنے خاندان ہیں…اُن کے بھی بچے ہیں…
ان کی بڑی مصروفیات ہیں… بڑے کام ہیں…وہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہیں … اور
مُکَلَّف ہیں…اُن کو بھی نمازیں پڑھنی ہیں… روزے رکھنے ہیں…حج کرنے ہیں…جہاد میں
شریک ہونا ہے…
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ
الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ} [الذاریات:۵۶]
اللہ تعالیٰ نے جنات بھی عبادت کے لیے پیدا کیے…انسان بھی
عبادت کے لیے پیدا کیے…جنات نے بھی عبادت کرنی ہے… جنات صرف اس لئے تو نہیں ہوتے
کہ انسانوں پر سوار رہیں…یہ صرف اپنے دماغ کی گیس ہوتی ہے۔
ایک شخص کے دل میں درد ہوا… ڈاکٹر کے پاس گیا…ڈاکٹر نیک
آدمی تھے… انہوں نے اچھی طرح چیک اپ کیا اور کہا… جناب آپ کوگیس کی تکلیف ہے…گیس
اوپر کی طرف چڑھتی ہے…آپ بیٹھے رہتے ہوں گے …کام کاج زیادہ نہیں کرتے ہوں گے…اپنے
جسم کو زیادہ حرکت نہیں دیتے ہوں گےاس وجہ سے یہ تکلیف ہو رہی ہے…حرکت میں برکت
ہوتی ہے…انسانی جسم ایسا ہے … کہ استعمال ہوتا رہے…تو یہ صدیوں چل سکتا ہے…اور
استعمال ہونا بند ہو جائے…تو ہفتوں میں ختم ہو جاتا ہے…اگر انسان صرف آٹھ یا نو
دن دیکھنا بند کردے…تو اس کی آنکھیں دیکھنے کا طریقہ بھول جاتی ہیں…اگر انسان صرف
دس یا پندرہ دن سننا چھوڑ دے…کان بند کرکے رکھے …تواس کے کانوں کو سننے کا طریقہ
بھول جاتا ہے… کہنے کامقصد یہ ہے…کہ آج جن چیزوں کوہم نے روحانی بیماریاں سمجھا
ہوا ہے… جنات ، سفلی سمجھا ہوا ہے…ان کے پیچھے بھی زیادہ تر ہماری سستی … کم
ہمتی…اور بے اعتدالی کا دخل ہوتاہے۔
قرآن مجیدہمیں دعوت دے رہا ہے…کہ ہم محنت کریں…زیادہ سے
زیادہ چستی اختیار کریں…زیادہ سے زیادہ مضبوط بنیں…جب ہمیں کہہ دیا: تیر اندازی
سیکھو… {وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ}… امر کے صیغے کے
ساتھ…وجوب اور فرضیت کے ساتھ… جب ہمیں فرما دیا گیا… کہ تم تیر اندازی سیکھو…جتنی
بھی ہو سکتی ہے… تو معلوم ہوا ہمارے اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے…کہ ہماری انگلیاں
مضبوط ہوں…ہماری کلائیاں مضبوط ہوں…ہمارے بازؤوںکے پٹھے مضبوط ہوں…ہماری آنکھیں
دور تک دیکھ سکیں… ہمارا سینہ مضبوط ہو…ہماری کمر مضبوط ہو… ہماری ٹانگیں مضبوط
ہوں…یہ حکم اللہ تعالیٰ نے دیا… کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تیر اندازی سیکھنے کا حکم
دیا…بڑے سے بڑا تیر انداز بننے کا حکم دیا… اور بڑا تیر انداز وہی بن سکتا ہے…جس
کی یہ سب چیزیں مضبوط ہوں… جو آدمی تیر ہاتھ میں لے کر کھڑا ہو…اور جب کھینچے تو
تیر آگے کی طرف گرے…اور خود پیچھے کی طرف گرے…تو ایساآدمی کیا تیر اندازی کر سکے
گا؟… اورایسے ہی گھڑ سواری کے لئے بہت زیادہ جسمانی قوت کی ضرورت ہوتی ہے…گھوڑے کو
قابو کرنا بہت مشکل ہوتا ہے… حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے… اپنے بچوں کو کہا کروکہ گھوڑے
پر اچھل کر سوار ہوا کریں…’’وَثَبْ‘‘ عربی زبان میں کہتے ہیں… ہاتھ کا سہارا لیے
بغیر گھوڑے پر اچھل کر سوار ہونا…یعنی گھوڑا کھڑا کرو… اور پھر چھلانگ لگا کر اُس
گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ جاؤ…اپنا ہاتھ گھوڑے کے اوپر رکھے بغیر… فرمایا:’’اپنی
اولاد کو یہ چیز سکھاؤ‘‘…جس آدمی نے گھڑ سواری نہ کی ہو…پہلی مرتبہ آپ اسے
گھوڑے پر بٹھائیں تو…ایک ہفتہ تک وہ اپنے بستر سے نہیں اُٹھ سکے گا…ٹانگوں کے
درمیانی حصہ میں زخم ہو جائیں گے… اور اس کاایک ایک جوڑ درد کرے گا …جب اللہ
تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا کہ گھوڑے پالو…گھڑ سواری کرو…ایسے گھڑ سوار بنو…کہ تمہارے
گھوڑوں کی میں قسمیں کھاؤں …تو مطلب یہ ہے کہ…اللہ تعالیٰ نے ہمیں مضبوط ہونے کا
حکم دیا ہے …جب ہمارے اللہ ہمیں مضبوط ہونے کا حکم دے رہے ہیں… ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مضبوط ہونے کا حکم دے
رہے ہیں…تو ہم اس حکم سے اس قدر غافل کیوں ہیں؟…بس اسی ایک سوال پر غور کریں …اور
آج ہی سے ہر مسلمان مرد و عورت… یہ نیت کرے کہ اس بارے میں اب تک جو سستی، غفلت
ہوئی اس پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی ہے… اور اس کے تدارک کی پوری کوشش کرنی
ہے… اورہمیشہ اس چیز کی فکر کرنی ہے کہ میرا جسم مرتے دم تک جہاد کے قابل رہے، حج
کے قابل رہے، نماز کے قابل رہے، روزے کے قابل رہے… ماضی کی غلطیوں پر اللہ تعالیٰ
سے توبہ، استغفار کرکے عمل شروع کر دیں…اورپھریہ دعوت دوسروں تک بھی پہنچائیں۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 636
اذانِ عمر
* ’’امام
عادل ‘‘امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کا معطر تذکرہ
اور
ان سے اظہار محبت…
* ’’امام
عادل‘‘ یعنی عادل حکمران کاتعارف…
* ایک
سبق آموز عربی کہاوت اور اس سے اخذ ہوتا ایک’’اہم سبق‘‘…
* امیر
المؤمنین حضرت ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی خدمت
میں نذرانۂ
عقیدت…
* امیرالمؤمنین
حضرت ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی خدمات اور کارنامے…
حضرت
امیر المؤمنین ملامحمد عمرمجاہد رحمہ اللہ کی حیات مبارکہ کے مختلف روشن پہلوؤںپر مشتمل
ایک خوبصورت گلدستہ
تاریخ
اشاعت:
۵رجب المرجب۱۴۳۹ھ/بمطابق23مارچ2018ء
اذانِ عمر
حضرت امیر المؤمنین ۭملامحمد عمرمجاہد رحمہ اللہ کی حیات
مبارکہ
کے مختلف روشن پہلوؤںپر مشتمل ایک خوبصورت گلدستہ
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سات طرح کے افراد کو…اپنا ’’سایہ‘‘
نصیب فرمائیں گے… اور اس دن اللہ تعالیٰ کے ’’سائے‘‘ کے علاوہ کوئی ’’سایہ‘‘ نہ ہو
گا… ان سات طرح کے افراد میں سب سے پہلے اور سب سے آگے… وہ مسلمان حکمران ہوں گے
جنہوں نے ’’عدل و انصاف‘‘ کے ساتھ حکومت کی ہو گی… ایسے حکمران زمین پر اللہ
تعالیٰ کا ’’سایہ‘‘ ہوتے ہیں اور قیامت کے دن یہ حضرات اللہ تعالیٰ کے بہت قرب
میں… اللہ تعالیٰ کے سائے میں ہوں گے… خوش، بے فکر، باامن ، باسکون ، کامیاب اور
بے غم… اللہ تعالیٰ کا ’’سایہ‘‘ کیسا ہو گا؟… نہ ہم جانتے ہیں اور نہ قیامت سے
پہلے جان سکتے ہیں… مگر اتنا تو معلوم ہے کہ وہ بہت عظیم الشان نعمت اور حالت
ہوگی۔
’’امام عادل‘‘ …عادل حکمران وہ
ہوتا ہے جو … اللہ تعالیٰ کی شریعت نافذ کرتا ہے… جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے
فیصلے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرتا ہے… جو اللہ تعالیٰ کا وفادار ہوتا ہے…
اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو ’’خیر‘‘ پہنچاتا ہے… ہم اپنی خوش نصیبی پر اللہ
تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے محض اپنے فضل سے… ہمیں ایک ’’امام عادل‘‘ کی
زیارت نصیب فرمائی… حضرت امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد نور اللہ مرقدہ … اگر
ہمیں یہ نعمت نہ ملتی تو زندگی کس قدر ادھوری اور اداس رہ جاتی … شکر ہے یا
اللہ!شکر … بے انتہا شکر… بے حد شکر…
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
ایک عربی کہاوت
ایک عربی کہاوت ہے… ’’ ہائے کاش! میں اذان کی خاطر ہی ذبح
ہو جاتا‘‘ … قصہ اس کہاوت کا یہ ہے کہ ایک ظالم شخص کے ہاتھ ایک شاندار مرغا آ
گیا… بلند آواز ، پر سوز اذان، اونچی کلغی اور چمکتا رنگ… اس ظالم کو مرغے کی یہ
شان نہ دیکھی گئی… اس نے مرغے سے کہا کہ یہ روز،روز اذان دینا بند کرو اور مرغیوں
کی طرح ’’کُٹ کُٹ‘‘ کرنا سیکھو… اگر آئندہ تم نے اذان دی تو تمہیں ذبح کر دوں گا…
مرغا ڈر گیا ، اس نے جان بچانے کے لئے اذان چھوڑ دی… اور مرغیوں کی آواز سیکھ کر
وہی بولنے لگا… چند دن بعد ظالم شخص نے کہا کہ… یہ تمہارے سر پر اتنی اونچی کلغی
کیوں ہے؟… اگر یہ مجھے کل نظر آئی تو تمہیں ذبح کر دوں گا… مرغا ڈر گیا اور رات
کو اس نے اپنا سرزمین پر رگڑ رگڑ کر اپنی کلغی توڑ ڈالی… چند دن بعد ظالم شخص نے
مرغے کو طلب کیا اور کہا کہ اتنے دن ہو گئے تم نے ایک انڈہ بھی نہیں دیا… جبکہ
مرغیاں روز انڈے دیتی ہیں… اگر کل سے تم نے انڈہ دینا شروع نہ کیا تو میں تمہیں
ذبح کر دوں گا… رات کو وہ مرغا اپنے پنجرے میں رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا …’’
کاش! میں اذان کی خاطر ذبح ہو جاتا‘‘… کسی اچھے اور باعزت کام پر تو جان جاتی…
مرنا آج بھی ہے مگر کتنی ذلتیں اُٹھا کر… اور کیسے ذلت ناک مطالبے پر… آج یہ
واقعہ کیوں یاد آیا؟… بس اسے یاد رکھیے تھوڑا آگے چل کر کام آئے گا۔
دیوانی محبت
آج کل نہ موسم ایسا ہے کہ… ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کا تذکرہ کیا جائے… ہر طرف عجیب و غریب ’’
بیانیے‘‘منہ پھاڑے کھڑے ہیں… اور نہ ماحول میں ایسی گنجائش ہے کہ… اس زمانے کے سب
سے بڑے مجاہد کا تذکرہ چھیڑا جائے… مگر محبت دیوانی ہوتی ہے… مجھے حضرت امیر
المؤمنین ملا محمد عمرمجاہد رحمہ اللہ سے
سچی ،پکی اور قلبی ’’محبت‘‘ ہے…وہ روز مجھے یاد آتے ہیں… وہ میری دعاؤں میںبستے
ہیں… وہ میرے لئے ایک روشن دلیل ہیں …وہ میرے محسن ہیں… میں ان سے غیر مشروط محبت
رکھتا ہوں… وہ محبت جس میں ’’ لیکن‘‘ یا ’’ مگر‘‘ کا لفظ نہیں آتا…میں باوجود
شدید خواہش کے… اُن کی کوئی خدمت نہ کر سکا… مگر الحمد للہ اُن کی ’’محبت‘‘ میں
پتھر کھانے والا ’’مجنوں ‘‘ضرور بنا رہا… ویسے جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ کے دین
سے سچی محبت ہو گی وہ ضرور … حضرت امیر المؤمنین رحمہ اللہ سے محبت رکھے گا… اور اُن کو اپنا محسن جانے گا…
آج کل اخبارات اور میڈیا پر ایک معذور سائنسدان ’’سٹیفن ہاکنگ‘‘ کا تذکرہ چل رہا
ہے… میں نے غیر جانبداری کے ساتھ اس کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کی… آخر دنیا
اتنی پاگل جوہو رہی ہے تو کوئی وجہ ضرور ہو گی… مگر مجھے مایوسی ہوئی…بے شک’’سٹیفن
ہاکنگ‘‘ ایک باہمت انسان تھا … اللہ تعالیٰ ’’رحمٰن‘‘ بھی ہیں اور’’ جوّاد‘‘ بھی …
یعنی عام رحمت والے اور سخی… وہ دنیوی خوبیاں اور صفات اپنی ساری مخلوق کو عطاء
فرماتے ہیں… کوئی مسلمان ہو یا غیر مسلم … کوئی اللہ تعالیٰ کا وفادار ہو یا اس کا
منکر… ’’سٹیفن ہاکنگ‘‘ میں بھی یہ خوبی تھی کہ وہ باہمت تھا اس نے بیماری کا مقابلہ
کیا… اور وہ ذہین تھا …کائنات کے بارے میں طرح طرح کی مبہم پیشین گوئیاں کرتا رہتا
تھا… اور بس… اہل یورپ دنیا پر اپنی برتری دکھانے کے لئے اپنے ’’افراد‘‘ کو بہت
بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں… ان کو پرکشش اور پراسرار دکھاتے ہیں… اور احساس کمتری
کے مارے ہوئے ہمارے دانشور فوراً ڈھول لے کر ان کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتے
ہیں… کائنات بہت وسیع ہے اور سائنسدان ہر دس سال بعد چونک اٹھتے ہیں کہ کیا سامنے
آ گیا؟ … سٹیفن ہاکنگ نے نہ کچھ ایجاد کیا نہ مخلوق کو کوئی فائدہ پہنچایا… وہ
کائنات کے بارے میں ممکنہ مفروضے پیش کرتا رہا… اور اپنی معذوری کے باعث ہیرو بنا
کر پیش کیا جاتا رہا… بہرحال اس سے محبت رکھنے والوں کا حق ہے کہ وہ اس کا تذکرہ
کریں… اس کو خراج تحسین پیش کریں… لیکن وہ مسلمانوں کو بھی اس بات کا حق دیں کہ…
وہ جن سے محبت رکھتے ہیں… وہ بھی ان کا تذکرہ کر سکیں، انہیں خراج تحسین پیش کر
سکیں… ’’سٹیفن ہاکنگ‘‘ کائنات کے راز ڈھونڈتا رہا … جبکہ ملا محمد عمر مجاہد نے
خالق کائنات کے راز اس اُمت اور انسانیت کو سکھائے… جن میں سب سے بڑا راز یہ
سمجھایا کہ… مخلوق میں کوئی سپر پاور اور کوئی ناقابل شکست نہیں ہے… ’’سٹیفن
ہاکنگ‘‘ کائنات کے بلیک ہولوں میں کھویا رہا جبکہ ملا محمد عمر مجاہد ساری زندگی
’’خالق کائنات‘‘ کی محبت و اطاعت میں کھوئے رہے…خالق کائنات ، اس کائنات سے بہت
بڑا اور بہت عظیم ہے… پس جو اس کی ذات و صفات میں کھو جاتا ہے وہ بھی بہت بڑا
انسان بن جاتا ہے… ’’سٹیفن ہاکنگ‘‘ نے دنیا میں کچھ بھی نہ بدلا… نہ کوئی نظریہ،
نہ کوئی نظام ،نہ کوئی ایک گلی یا گھر… جبکہ ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ نے دنیا کو مثبت تبدیلیوں سے بھر دیا… انہوں نے
ظالم استعماری نظام کے رعب کو توڑا… انہوں نے فساد زدہ معاشرے میں امن قائم کیا…
انہوں نے بغیر کسی سہارے کے ایک حکومت چلا کر دکھائی… اور انہوں نے اپنے زمانے میں
ہمت اور عزیمت کو مستقل ایک آرٹ بنا دیا… ’’سٹیفن ہاکنگ‘‘ نے خود کو لبرل کہا مگر
وہ… پوری زندگی فاشسٹ نظام کا حصہ بنا رہا… اسی نظام کے آقاؤں سے تمغے لیتا رہا…
اور اپنی ذاتی زندگی میں عمل اور ایثار کی کوئی مثال نہ بن سکا … جبکہ ملا محمد
عمر مجاہد رحمہ اللہ نے ایک بادشاہ ہو کر
فقیر کی زندگی گذاری… ایک فاتح ہو کر عاجزی اور تواضع کو اپنا شعار بنایا… ایک
جنگی کمانڈر ہو کر امن اور محبت کی فضا بنائی اور ایک بااختیار ترین شخص ہو کر ایک
عام انسان جیسی زندگی بسر کی … اور دنیا کے کسی ایوارڈ، اعزاز یا تمغے کی کوئی
خواہش نہیں پالی۔
آپ خود اندازہ لگائیں کہ… ایک طرف ایک شخص ہے جس کا کل
اثاثہ ایک کتاب…پانچ چھ مفروضے اور پیشین گوئیاں… دو طلاق یافتہ بیویاں اور کچھ
فلمیں اور تمغے ہیں… جبکہ دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جس کے کارنامے، احسانات،
نظریات اور اثرات کا دائرہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے… جس نے زمانے کو بدلا… جس نے
ظاہری ناممکنات کو ممکن بنایا… جس نے عالمگیر غلامی کی زنجیروں کو کچے دھاگوں کی
طرح توڑ ڈالا …کاش! اس زمانے کے مسلمان… اس زمانے کے ’’زمانہ ساز‘‘ انسان کو
سمجھیں… اُن سے روشنی اور فیض پائیں… اُن کے تذکرے مہکائیں اور اُن سے اپنے تعلق
کو مضبوط کریں…ہاں !جو مسلمان ایسا کرے گا… وہ اپنا ہی بھلا کرے گا… وہ انسانیت کا
بھلا کرے گا… امیر المومنین رحمہ اللہ تو
جا چکے… اُن کو نہ پہلے ضرورت تھی نہ اب حاجت ہے… اُن کی جھولی ایمان اور توکل سے
بھری ہوئی تھی… آج بھی بھری ہوئی ہے… ہاں ہم اپنے گناہوں کی شامت سے… ایک سائے سے
محروم ہو گئے… سلطان عادل کا سایہ… جسے اللہ تعالیٰ نے اپنا سایہ قرار دیا ہے …
آہ! کتنی دھوپ ہے اور کتنی گھٹن… ہم اس سائے کے کتنے محتاج تھے اور کس قدر محتاج
ہیں … کیا آج ایک بھی مسلمان حکمران ایسا ہے جو ’’امام عادل‘‘ کہلانے کے قابل
ہو؟… جو روئے زمین پر انسانیت کے لئے اللہ تعالیٰ کا سایہ بن سکے؟… چلیں سایہ اُٹھ
گیا مگر اس سائے کا سایہ تو ہم سنبھال رکھیں… حضرت امیر المومنین رحمہ اللہ کی محبت … اُن کی قدر… اُن کے کارناموںکا اعتراف
… اُن سے اکتساب فیض کی کوشش… اُن کے لئے دعائیں… اور اُن کی روشنی سے روشنی پانے
کی سعی۔
اذانِ عمر
کئی لوگ کہتے ہیں کہ… کتنی مشکل سے اسلامی حکومت قائم ہوئی
تھی… مگر امیر المؤمنین کے ایک فیصلے نے وہ سب کچھ ختم کر دیا… وہ اگر اپنے مہمان
کو پکڑ کر کفار کے حوالے کر دیتے تو اسلامی حکومت بچ جاتی… عجیب لوگ ہیں… حضرت
امیر المؤمنین رحمہ اللہ سے ایسے فیصلے
کی توقع کرتے ہیں جس کی اسلام میں گنجائش نہیں تھی… عجیب لوگ ہیں غیرت کے ’’کوہ
ایورسٹ‘‘ سے بے غیرتی والے کام کی توقع کرتے ہیں… اگر خدانخواستہ ملا محمد عمر
مجاہد رحمہ اللہ ایسا فیصلہ کر بھی دیتے
تو حکومت نے نہیں بچنا تھا… اذان چھوڑنے کے بعد اگلا مطالبہ کلغی توڑنے کا آجاتا…
اور اس کے بعد اگلا مطالبہ اس سے بھی زیادہ ذلت ناک… سلام ہو اس مرد ایمان، اس مرد
غیرت اور اس مرد عزیمت پر جس نے اذان کی خاطر اپنی حکومت کی قربانی دی…اور مسند
اقتدار کو چھوڑ کر… میدان جہاد میں آ کھڑا ہوا… تب اللہ تعالیٰ نے اس پر ایسا فضل
فرمایا کہ… اسے روئے زمین کے بڑے فاتحین کی صف میں شامل فرما لیا… ایسا فاتح جس نے
… دنیا کے چالیس ملکوں اور ان کی ہوشرباٹیکنالوجی کو… اکیلے شکست دے دی … رنگ و
نورکی دسویں جلد کا نام … اسی نسبت سے ’’اذان عمر‘‘ رکھا ہے… یا اللہ! قبول فرما۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 637
مومن کی یہ پہچان کہ…
گم اُس میں ہیں آفاق
اللہ
تعالیٰ کے وفادار اور سچے بندے، حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار غلام، امیر
المؤمنین حضرت ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی زندگی کلام اقبال رحمہ اللہ کی روشنی میں… کہ جب تاریخ عالم اپنے
بدترین دور سے گزر رہی تھی تو کیسے ایک ’’امام برحق‘‘ نے اپنے عزم ، عزیمت اور
جہاد و فقر کے ذریعے بد امنی کے شکار ایک خطے کو امن کا گہوارہ بنایا۔
امریکہ
اور نیٹو کی جھوٹی طاقت کا دنیا کے سامنے پول کھولنے والے مرد قلندر کے تذکرے سے
بھرپور ایک کمالاتی تحریر
تاریخ
اشاعت:
۱۲رجب المرجب۱۴۳۹ھ/بمطابق30مارچ2018ء
مومن کی یہ پہچان کہ…
گم اُس میں ہیں آفاق
اللہ تعالیٰ کا سچا وفادار بندہ… ملا محمد عمر مجاہد رحمہ
اللہ … حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم
کا جانثار غلام… ملا محمد عمر مجاہد رحمہ
اللہ …ہمارے زمانے میں مسلمانوں کا امام برحق… ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ …
دیکھئے! حضرت اقبال رحمہ اللہ کیا فرماتے
ہیں ؎
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بے زار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنۂ ملت بیضاء ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطین کا پرستار کرے
علامہ اقبال مرحوم جس ’’امام برحق‘‘ کی تلاش میں
تھے… اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ ہمیں دکھلا دیا… علامہ مرحوم جس ’’مرد فقیر‘‘
اور جس ’’فقرغیور‘‘ کو بے چینی سے ڈھونڈتے رہے… اللہ تعالیٰ نے وہ اس اُمت کو
’’ملا محمد عمر مجاہد‘‘ کی صورت میں عطاء فرمایا… اقبال فرماتے ہیں؎
اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی
خون دل شیراں ہو جس فقر کی دستاویز
مبالغہ نہیں ہے
آپ ایک نظر بیسویں صدی پر ڈالئے… جی ہاں! عیسوی حساب سے
بیسویں صدی… وہ صدی جس میں عالمگیر جنگیں ہوئیں… وہ صدی جس میں کئی نئے ممالک وجود
میں آئے… وہ صدی جس میں انسان اپنی کھال سے… اور انسانیت اپنے وقار سے باہر نکل
گئی… جب سے زمین کے سیارے پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا ہے… اس وقت سے
لے کر آج تک… ساری مخلوق نے مل کر بھی زمین کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا… جتنا کہ…
ترقی کے نام پر ’’بیسویں صدی‘‘ کے بے وقوف انسانوں نے پہنچایا ہے… سمندر آلودہ کر
دئیے گئے… ہوا کو زہر سے بھر دیا گیا… فضاؤں میں تابکاری پھیلا دی گئی… زمین کو
کھود کھود کر کھوکھلا کر دیا گیا… یعنی ترقی کے نام پر فطرت کے خلاف ایک جنگ چھیڑ
دی گئی… انسانوں کا حرص اتنا بڑھا کہ… مال کی خاطر انسانیت کو ہی بیچ دیا گیا… ہر
طرف خوفناک اسلحہ… خونی درندے اور ناپاک ظالمانہ نظام… اور جب اسی صدی میں ’’سوویت
یونین‘‘ بھی بکھر گیا تو… دنیا پر امریکہ اور یورپ کی حکومت… صہیونیوں کی خفیہ
سربراہی میں قائم ہو گئی…تب اعلان کر دیا گیا کہ… اب کوئی سر اُٹھا کر نہ جیے… اب
کوئی گردن اُٹھا کر نہ چلے…ہم جو چاہیں گے وہی ہو گا… اور ہم جو پسند کریں گے وہی
چلے گا… سب سے زیادہ کوشش… اسلام کو بدلنے اور مسلمان کو جھکانے کی تھی… اور بظاہر
اس میں کامیابی مل چکی تھی… ایک نیا اسلام تشکیل پا رہا تھا… غلاموں کا اسلام…
مصلحت پسندوں کا اسلام… جھکا جھکا سا اسلام… دبا دبا سا اسلام…احساس کمتری میں
ڈوبا ہوا اسلام… چند عبادات اور رسومات تک محدود اسلام…ہر طرح کے بلند جذبات سے
عاری اسلام… ہمیشہ غلامی میں رہنے کے لئے تیار اسلام … جہاد او رخلافت سے خالی
اسلام… نظام اور سلطنت سے محروم اسلام… کافروں کے سامنے جھکنے والا… اور ان کے
پیچھے دوڑ دوڑ کر ہانپنے والا اسلام… اعلان کر دیا گیا کہ…جس نے مسلمان رہنا ہے
وہ… بس اسی اسلام کے دائرے میں رہے… کبھی غلبے کا نہ سوچے…کبھی خلافت کا تصور نہ
کرے… کبھی اپنے نظام کی خواہش میں نہ پڑے… بلکہ… مسلمان اس احساس کمتری میں جیتے
رہیں کہ ہم بہت پیچھے رہ گئے… ہم بہت پسماندہ رہ گئے۔
یہ سب کچھ ہو چکا تھا کہ… اچانک ’’ملا محمد عمر مجاہد‘‘ آ
گئے… اللہ اکبر کبیرا… اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے… سب کچھ بدل گیا… اسلام اپنی اصلی
صورت میں ایسا چمکا کہ… دشمنوں کی آنکھیں باہر اُبلنے لگیں…وہ وقت جب سب ہی… جھکے
ہوئے تھے… ایک شخص نے گردن اُٹھائی… سینہ تانا اور پھر روئے زمین پر… ہلچل مچ گئی…
ایک اُٹھی ہوئی گردن نے… لاکھوں انسانوں کو کھڑا کر دیا… روئے زمین کو مکمل غلام
بنانے کا خواب چکنا چور ہو گیا… آج جو ’’چین ‘‘ اپنے قدموں پر کھڑا ہے… اور اس
خطے میں سی پیک بنا رہا ہے… آج جو ’’روس‘‘ دوبارہ… آنکھیں اُٹھانے کی حالت میں
نظر آ رہا ہے… آج جو کئی ممالک امریکہ کو آنکھیں دکھا رہے ہیں… آج جو یورپ
اپنے اتحاد کو بچانے کے لئے پسینے میں ڈوبا ہوا ہے… ان سب واقعات کے پیچھے … ملا
محمد عمر مجاہد کی عزیمت کھڑی ہے… وہ اگر امریکہ اور نیٹو کو انکار نہ کرتے… وہ
اگر امریکہ اور نیٹو کے رعب کو خاک میں نہ ملاتے… وہ اگر جھکنے اور دبنے کی ناپاک
رسم کو نہ توڑتے تو آج… ساری دنیا غلامی کی سیاہ رات میں مکمل ڈوب چکی ہوتی … آپ
1995ء والی دنیا دیکھ لیں… اور پھر آج کی دنیا کو دیکھیں… بہت سے لوگ ان باتوں
کو مبالغہ سمجھیں گے… مگر یہ باتیں حقیقت ہیں… اور عنقریب ساری دنیا ان باتوں کا
اعتراف کرے گی۔
ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی قربانی… اور عزیمت نہ روس کے لئے تھی نہ چین
کے لئے… وہ تو سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے کر رہے تھے… مگر جب انہوں نے عالمگیر
استعمار کے رعب کو توڑا… وہ رعب جو ساری دنیا کے حواس کو مفلوج کر چکا تھا تو…
غلامی کے رسّے خود بخود ٹوٹتے چلے گئے… اور اب ٹوٹتے ہی جا رہے ہیں… ایک ایسا شخص
جو… مکمل اسلامی اخلاق اور مزاج کا مالک تھا… وہ جب زمین پر اُترا تو… زمین نے
راحت کا سانس لیا… اور زمانہ مثبت تبدیلیوں سے بھر گیا… ساری دنیا آفاق میں کھوئی
ہوئی تھی… مگر جب وہ مرد مؤمن آیا کہ جس میں ’’آفاق‘‘ گم تھے تو… حالات تیزی سے
بدلنے لگے… زہر کا اثر ٹوٹنے لگا… جادو کے تانے بانے بکھرنے لگے… اور اسلام
مسکرانے لگا… علامہ اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں؎
کل ساحل دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے
تو ڈھونڈ رہا ہے سُم افرنگ کا تریاق
اک نکتہ مرے پاس ہے شمشیر کی مانند
برندہ و صیقل زدہ و روشن و براق
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہیں آفاق
فقرکی تلوار
مسلمان طویل عرصے سے پریشان حال ہیں… وجہ کیا ہے؟…وجہ یہ ہے
کہ وہ طاقت اور اجتماعیت سے محروم ہیں…اور جہاد اور فقر کی تلوار سے محروم ہیں
…اول تو کوئی انہیں طاقت بنانے ہی نہیں دیتا … پھر بھی اگر کوئی مسلمان کچھ طاقت
بنالے تو اُسے اتنا دبایا جاتا ہے کہ…وہ اپنی طاقت کی حفاظت ہی میں لگ جاتا ہے…اور
اپنی طاقت کو اسلام اور مسلمانوں کے لئے استعمال نہیں کرسکتا…آج ہم دین بچانے کے
نام پر دین ذبح کرتے ہیں…بے غیرتی اور غلامی کا ہر کام اس نعرے کے ساتھ کرتے ہیںکہ
جی ہم مسلمانوں کا تحفظ کررہے ہیں…مسجد ومدرسہ کاتحفظ کررہے ہیں…ہمارے دلوں سے یہ
احساس ہی نکل چکا ہے کہ…ہم خود کو بچانے کے لئے پیدا نہیں ہوئے…ہم روئے زمین
پراللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں اور اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لئے آیا ہے…افسوس یہ
ہے کہ مسلمانوں میں سے جس شخص کو بھی…تھوڑی بہت قوت یاسلطنت مل جاتی ہے تو وہ
اسلام کے غلبے کی محنت کرنے کی بجائے…اپنی خواہشات کی تکمیل میں لگ جاتاہے… تب
اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام پر اپنا فضل فرمایا اور انہیں ’’ملا محمد عمر مجاہد‘‘کی
صورت میں…ایک عظیم نعمت عطاء فرمائی۔
ایک انسان جس کو طاقت ملی تو…اس نے اپنی خواہشات کو ایک طرف
پھینک دیا…اور خودکو…اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لئے وقف کردیا…ایک انسان جس نے
حکومت چلانے کے لئے سہارے ڈھونڈنے کی بجائے…ایک اللہ تعالیٰ کے سہارے کو مضبوط
پکڑا… ایک انسان جس نے اپنی ذات کے لئے کچھ بھی نہ سوچا، کچھ بھی نہ بنایا…اور نہ
ہی کچھ بنانے کی فکر کی…آج جبکہ اسلام کا دعویٰ کرنے والے افراد…اسلام کی خاطر
چند رسومات تک کی قربانی نہیں دے سکتے…اُس شخص نے ہر چیز کی قربانی دی…اورخالص دین
کو نافذ کرنے کا بیڑہ اُٹھایا…وہ نہ اپنی خواہشات کا محتاج بنا… اور نہ دنیا بھر
کی کفریہ طاقتوںکا…وہ نہ اسباب کا محتاج بنا…اور نہ دنیا میں مروّج نظاموں کا…تب
اللہ تعالیٰ نے اپنے اس سچے مجاہد اور فقیر بندے کو سعادتوں، کرامتوں اور
کامیابیوںکے لازوال تاج پہنادئیے۔
وہ افغانستان جس کی ہر گلی کا الگ حکمران تھا… جس کے ہر
قصبے میں کئی کئی ظالم وار لارڈ تھے…جہاںپانی مہنگا اور خون سستا تھا، جہاںہر چند
قدم پر ظلم اور لوٹ کے پھاٹک تھے… جہاں ہر شخص مسلح اور ہر فرد بے سمت تھا… ملا
محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے ایک حکم پر
یہی افغانستان… امن وامان…اور اسلام وایمان کی سرزمین بن گیا…اگر ملا محمد عمر
مجاہد رحمہ اللہ کی صرف اسی ایک ’’کرامت‘‘
کا تجزیہ کیا جائے تو پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے… آج دنیا کے سرکاری مسلح ادارے
اتنی طاقت اور اختیارات کے باوجود وہ امن قائم نہیں کرسکے… جو اس مرد مجاہد، مرد
فقیر نے اپنے ایک حکم سے قائم کردیا… ہاں بے شک! ملامحمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی حکومت تھوڑے عرصے ہی رہی مگر وہ یہ
بات سمجھاگئی کہ… جن کاموں کو ناممکن سمجھا جارہا ہے وہ ناممکن نہیں ہیں… وہ غلامی
جسے قسمت سمجھاجارہا ہے وہ قسمت نہیں بدقسمتی ہے… وہ مصلحت پسندی جوذلت کے دائرے
میں داخل ہوچکی ہے… مسلمانوں کو اس کی ہرگز ضرورت نہیں…وہ طاقتیں جو خود کو ناقابل
تسخیر کہہ رہی ہیں وہ بالکل ناقابل تسخیر نہیں…وہ نظام جو اس وقت خطہ زمین کو زہر،
آلودگی، ظلم، کفر، بے حیائی…اور عذاب سے بھررہا ہے… یہ نظام ناقابل شکست نہیں ہے…
بلکہ اسے توڑا جاسکتا ہے اور انسانیت کو بچایا جاسکتا ہے…آہ!جہاد وفقر کی وہ
تلوار…آج سے پانچ سال پہلے اس دنیا پر انمٹ نقوش چھوڑکر… اونچی منزلوںمیں گم
ہوگئی… اسی تلوار کا خواب…حضرت اقبال رحمہ اللہ نے یوں دیکھا تھا ؎
سوچا بھی ہے اے مردمسلماں کبھی تو نے
کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگردار
اس بیت کا مصرع اول ہے کہ جس میں
پوشیدہ چلے آتے ہیں توحید کے اسرار
ہے فکر مجھے مصرع ثانی کی زیادہ
اللہ کرے تجھ کو عطاء فقر کی تلوار
قبضے میں یہ تلوار بھی آجائے تو مؤمن
یا خالدؓ جانباز ہے یا حیدرؓ کرار
آج باتیں بہت لکھنی تھیں… اکثر رہ گئیں…ہم سب کو چاہیے کہ
حضرت امیر المؤمنین رحمہ اللہ کی زندگی
سے سبق لیں…عزم، عزیمت …اور جہاد وفقر کو اپنائیں… کیا بعید ہے کہ … اللہ تعالیٰ
اپنے فضل سے…ہمیں بھی کسی کام کا بنا دے۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 638
قنوتِ نازلہ
*
معنٰی…
* اہمیت
و ضرورت…
* مشروعیت…
* کب
پڑھی جائے؟…
* کس
مقصد کے لئے پڑھی جائے؟…
* کن
الفاظ کے ساتھ پڑھی جائے؟…
* سنت،
آثار اور اقوال فقہاء…
* کفار
و دشمنان اسلام کے لئے حدیثِ مبارکہ
کی
روشنی میں بد دعاء کا ثبوت۔
قنوت
نازلہ کے متعلق ایک اہم مفصل و مدلل مضمون
تاریخ
اشاعت:
۱۹رجب المرجب۱۴۳۹ھ/بمطابق 6اپریل 2018ء
قنوتِ نازلہ
اللہ تعالیٰ آسان فرمائے، قبول فرمائے… آج ’’قنوتِ
نازلہ‘‘ پر بات کرنی ہے۔
* ’’قنوتِ
نازلہ‘‘ علم کا ایک’’باب‘‘ ہے … آپ توجہ سے پڑھیں گے اور سمجھیں گے تو آپ علم
دین کے ایک ’’باب‘‘ کو حاصل کرنے کی فضیلت پا لیں گے۔
*
’’قنوتِ نازلہ‘‘ مسلمانوں کے لئے ایک غیبی ہتھیار ہے… اس کے ذریعہ سے وہ دشمنان
اسلام پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل کرواتے ہیں۔
* ’’قنوتِ
نازلہ‘‘ مظلوم اور بے سہارا مسلمانوں کے لئے… اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد حاصل کرنے
کا اہم ذریعہ ہے۔
* ’’قنوتِ
نازلہ‘‘ جہاد کی پشت پر کھڑا ہوا … ایک روحانی لشکر ہے… یہ اسیران اسلام کے لئے
خلاصی اور رہائی کی چابی ہے… یہ مظلوموں کے انتقام کا انتظام ہے… یہ زمین کو عرش
سے ملانے والا ایک عظیم عمل ہے۔
پہلے الفاظ درست کر لیں
قُنوت کےمعنٰی ہیں ’’دعاء‘‘ …اور ’’نازلہ‘‘ کے معنٰی ہیں
مصیبت، آفت اور حادثہ… چنانچہ ’’قنوتِ نازلہ‘‘ کا مطلب ہوا…وہ دعاء جو مصیبت اور
حوادث کے وقت مانگی جاتی ہے… ’’قنوتِ‘‘ کے قاف پر پیش پڑھی جائے گی… کئی لوگ زبر
کے ساتھ ’’قَنوت‘‘ پڑھتے ہیں جو کہ غلط ہے… زبر کے ساتھ ’’قَنوت‘‘ کا مطلب ہے … وہ
عورت جو اپنے خاوند کی فرمانبردار ہو۔
’’قنوتِ‘‘ قاف کے پیش ( ضمہ) کے
ساتھ کئی معانی میں استعمال ہوتا ہے…مثلاً
١ اطاعت
و فرمانبرداری۔
٢ دین
پر ثابت قدمی۔
٣ خشوع
و خضوع۔
٤
نماز میں لمبا قیام۔
٥ اللہ
تعالیٰ کے سامنے عاجزی کا اظہار کرنا۔
٦ دعاء۔
’’قنوتِ نازلہ‘‘ میں قنوت کا لفظ
دعاء کے معنٰی میں آیا ہے… ’’قنوت نازلہ‘‘ وہ دعاء ہے جو دشمنان اسلام کی بربادی…
اہل ایمان کی نجات اورحفاظت، اسلام کی فتح… اور کفر کی شکست کے لئے… فرض نمازوں
میں مانگی جاتی ہے… یہ بہت نافع اور مجرب عمل ہے… حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء پر جب کوئی حادثہ پیش آتا تو
رکوع کے بعد یا رکوع سے پہلے مسلمانوں کے لئے دعاء اور کفار کے حق میں بددعاء کیا
کرتے تھے اور اس کو انہوں نے کبھی نہیں چھوڑا… یعنی جب کوئی سخت مصیبت پیش آئی تو
قنوت نازلہ ضرور پڑھی۔
[حجۃ اللہ البالغہ۔ ج: ۲،ص:۲۰،ناشر: قدیمی کتب خانہ کراتشی]
ایک لازمی عقیدہ
دشمنان اسلام کفار سے لڑنے یعنی جہاد کرنے کا حکم اللہ
تعالیٰ نے دیا ہے… اور حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم نے کفار کے خلاف لڑائی فرمائی
ہے …جہاد فرمایا ہے… پس جو اس بات کا انکار کرے گا…وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا بھی
منکر ہو گا … اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کا بھی منکر… جبکہ دین نام ہے… اللہ
تعالیٰ کے حکم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کا… چنانچہ ایسا شخص دین کا منکر ہوا…
یہ ہو گئی پہلی بات… اب دوسری بات سمجھیں…دشمنان اسلام کفار کے لئے بددعاء اور
لعنت …یہ قرآن مجید میں بھی موجود ہے اور جناب رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی…کفار کے لئے بددعاء اور لعنت فرمائی ہے…
احادیث مبارکہ میں ’’قنوت نازلہ‘‘ کا یہی مقصد بیان ہوا ہے کہ:
یَدْعُوْا لِلْمُؤْ مِنِیْنَ وَیَلْعَنُ الْکُفَّارَ۔
’’مسلمانوں کے لئے دعا اور کفار پر
لعنت۔‘‘
[صحیح مسلم۔ حدیث رقم: ۶۷۶،ناشر: دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
پس جو اس کا منکر ہو گا… یا اسے خلاف تہذیب سمجھے گا… یا اس
کے برعکس کافروں کی تعریف اور مسلمانوں کی مذمت کرے گا… وہ قرآن مجید کا بھی منکر
ہو گا اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی… لہٰذا ضروری ہے کہ ہر مسلمان اس عقیدے
کو سمجھے اور اپنائے… اور دور حاضر کے شور اور ماحول سے متاثر ہو کر… اپنے ایمان
کو خطرے میں نہ ڈالے۔
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ معمول… حدیث شریف کی کتابوں میں لکھا ہے
کہ… وہ رمضان المبارک کے آخری ایام میں خاص طور سے کفار پر لعنت اور بددعاء کا
بہت اہتمام فرماتے تھے:
وَکَانُوا یَلْعَنُونَ الْکَفَرَۃَ فِی النِّصْفِ:
اَللّٰھُمَّ قَاتِلِ الْکَفَرَۃَ الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِکَ وَ
یُقَاتِلُوْنَ اَوْلِیَاءَ کَ الخ …
’’صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین رمضان المبارک کے آخری نصف میں
کافروں پر لعنت بھیجتے اور یہ دعاء کرتے کہ… یا اللہ!ان کافروں کو تباہ فرما جو
تیرے راستے سے روکتے ہیں اور تیرے اولیاء ( یعنی مسلمانوں) سے لڑتے ہیں۔‘‘
[صحیح ابن خزیمہ۔ ج: ۱، ص: ۵۴۶، ط: المکتب الاسلامی، بیروت]
قنوتِ نازلہ کب شروع ہوئی؟
حضرت مفتی لاجپوری رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
’’اس کی ابتداء بیر معونہ کے واقعہ
کے بعد سے ہوئی… جس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کے اصرار پر ستر۷۰ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نجد کی جانب تبلیغ اور تعلیم کے لئے بھیجا
تھا… یہ منتخب حضرات تھے… قرآن پاک کے حافظ تھے اسی لئے اُن کو قراء کہا جاتا
تھا… اوقات شب میں تلاوت کیا کرتے تھے اور دن کو لکڑیاں چن کر بسر اوقات کرتے…
راستے میں کچھ قبائل نے بیر معونہ مقام پر گھیر لیا اور سب کو شہید کر دیا… صرف
ایک صحابی جو زخمی ہوکر لاشوں کے نیچے دب گئے تھے پھر اُن کو ہوش آ گیا… وہ بچ
گئے تھے… انہوں نے آ کر آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم کو اس حادثہ کی خبر دی… آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا صدمہ ہوا کہ اور کسی حادثہ پر اتنا صدمہ
نہیں ہوا تھا… وہ قبائل جو وحشیانہ جرم کے مرتکب ہوئے تھے اُن کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعاء کی اور ایک مہینہ تک نماز صبح میں
رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھتے رہے… رعل، ذکوان،عصیہ، بنو لحیان وہ قبائل ہیں جو اس
جرم میں پیش پیش تھے ۔
[بخاری شریف ص ۵۸۶ کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع ورعل وذکوان وبیر معونۃ الخ]
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دعاء قنوت پڑھنے کا یہ پہلا موقع
تھا… اس سے پہلے کبھی نہیں پڑھی تھی…
عن انس … وذلک بدء القنوت وما کنا نقنت۔(ایضاً)
[ فتاویٰ رحیمیہ۔ متفرقات الصلوۃ۔
ج: ۶، ص:۲۲]
قنوت نازلہ کے بارے میں احادیث مبارکہ
قنوت نازلہ کا عمل حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم
اجمعین کی سنت ہے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی واقعات و حوادث کے موقع پر قنوت نازلہ
پڑھی… مثلاً
١
بئر معونہ کے مظلوم شہداء کے قاتلوں پر بددعاء کے لئے۔
٢
مکہ مکرمہ میں پھنسے ہوئے کئی مظلوم مسلمانوں کے لئے ان کا نام لے کر… جیسا کہ
مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھتے اور فرماتے… یا
اللہ! ولید بن ولید کو نجات عطاء فرما… یا اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات عطاء فرما
…یا اللہ! عیاش ابن ابی ربیعہ کو نجات عطاء فرما …یا اللہ! ضعیف مؤمنوں کو نجات
عطاء فرما… یا اللہ! اپنا عذاب قبیلہ مضر پر سخت کر دے… یا اللہ! اُن پر یوسف علیہ
السلام کے زمانے جیسا قحط ڈال دے ۔
[صحیح مسلم۔ حدیث رقم: ۶۷۵،ناشر: دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
٣
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کسی کے لئے نصرت کی دعاء اور کسی کے لئے
عذاب کی بد دعاء کرنی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قنوت نازلہ پڑھتے:
کَانَ لَا یَقْنُتُ فِیْھَا اِلَّا اِذَا دَعَا لِقَوْمٍ
اَوْ دَعَا عَلٰی قَوْمٍ۔
[ابن خزیمہ۔ ج: ۱،ص:۳۱۷۔ ط: المکتب الاسلامی، بیروت]
ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’میں قنوت اس لئے کرتا ہوں تاکہ
تم اپنے رب کو پکارو اور اس سے اپنی ضروریات کے بارے میں سوال کرو ۔‘‘
[مجمع الزوائد۔با ب القنوت۔حدیث
رقم: ۲۸۳۰،ناشر: دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
احادیثِ مبارکہ میں ’’قنوت نازلہ‘‘ کی بہت تفصیل آئی ہے…
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم پانچوں نمازوں میں قنوت
نازلہ پڑھتے تھے… بعض روایات میں صرف جہری نمازوں کا تذکرہ ہے… اور بعض میں صرف
فجر کی نماز کا… یہ بات تو طے ہے کہ قنوت نازلہ صرف فرض نمازوں میں پڑھی جاتی ہے…
اور یہ بات بھی طے ہے کہ جمعہ نماز میں قنوت نازلہ نہیں پڑھی جاتی… اس میں خطبے کی
دعاء کافی ہوتی ہے … احادیث مبارکہ میں یہ بھی ثابت ہے کہ… آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ قنوت نازلہ نہیں پڑھتے تھے… چنانچہ ایک
بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دن تک
قنوت نازلہ پڑھنے کے بعد چھوڑ دی تو… صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے وجہ پوچھی… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ… وہ سب لوگ آ
گئے ہیں…یعنی جن کی رہائی کی دعاء چل رہی تھی… وہ سب خیر سے مدینہ شریف پہنچ چکے
ہیں… احادیث مبارکہ کی اس کثرت میں حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ نے اجتہاد فرمایا ہے… چنانچہ ہمارے احناف کے
نزدیک جو تفصیل ثابت ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:
١
اگر اہل اسلام پر کوئی حادثہ ، ظلم یا مصیبت آئے… مثلاً کافروں نے حملہ یا ظلم
کیا ہو تو فجر کی نماز میں دوسری رکعت کے رکوع کے بعد … امام سَمِعَ اللہُ لِمَنْ
حَمِدَہٗ کہہ کر ’’قنوت نازلہ‘‘ پڑھے اور مقتدی آہستہ آواز میں آمین کہتے رہیں…
دعاء سے فارغ ہو کر ’’اللہ اکبر ‘‘کہتے ہوئے سجدہ میں چلے جائیں۔
٢ فجر کے علاوہ دیگر جہری نمازوں مغرب اور عشاء کی
آخری رکعت میں بھی قنوت نازلہ پڑھی جا سکتی ہے۔
٣ قنوت نازلہ امام بلند آواز سے پڑھے اور مقتدی آمین
کہیں… اور یہ بھی درست ہے کہ امام آہستہ آواز سے پڑھے اور پیچھے مقتدی بھی
آہستہ آواز سے پڑھیں۔
٤ قنوتِ نازلہ پڑھتے وقت ہاتھوں کو باندھنا بھی درست
ہے… اور ہاتھوں کو کھلا رکھنا بھی درست ہے… دعاء کی طرح ہاتھوں کو اُٹھانا حنفیہ
کے ہاں درست نہیں مگر اس میں جھگڑا نہ کیا جائے۔
٥ جو شخص اکیلے نماز پڑھ رہا ہو… وہ بھی جہری نمازوں
میں اسی ترتیب سے قنوت نازلہ پڑھ سکتا ہے… اور خواتین بھی اسی ترتیب سے پڑھ سکتی
ہیں مگر وہ اپنی آواز پست رکھیں گی… حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ اور حضرت مفتی عبد الرحیم لاجپوری رحمہ اللہ کے فتاویٰ میں اس کی اجازت مذکور ہے۔
٦
قنوت نازلہ کے لئے کوئی مخصوص دعاء ضروری نہیں ہے… حالات کے مطابق دعاء کی جا سکتی
ہے… البتہ مسنون دعاؤں کا اہتمام بہتر ہے … ہم آگے چل کر چند دعائیں پیش کریں
گے۔
حضرات خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل
فتح القدیر اور زاد المعاد میں ہے کہ:
’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ کذاب اور اہل کتاب کے
خلاف جہاد کے وقت قنوت نازلہ کا اہتمام فرمایا …اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اہل کتاب کے خلاف جہاد کے وقت قنوت نازلہ
کا عمل فرمایا۔‘‘
آج جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں… اہل فلسطین اور اہل
کشمیر شدید مظالم کا شکار ہیں… دونوں طرف سے بہت روح فرسا خبریں آ رہی ہیں…
مسلمانوں کو چاہیے کہ مذمت اور احتجاج پر اکتفاء نہ کریں وہ بھی اگرچہ ضروری ہیں…
مگر اصل حل یہ ہے کہ ’’جہاد‘‘ اور’’ قنوت نازلہ‘‘ کو اپنائیں اور اسے اپنی ذمہ
داری سمجھ کر ادا کریں… اور اس کے اچھے نتائج کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے امید
رکھیں… ہم نے الحمد للہ کوٹ بھلوال جیل میں اسارت کے دوران اس کا اہتمام کیا… اور
پھر الحمد للہ اس کے فوائد و نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھے۔
ایک اہم فتویٰ
فتاویٰ رحیمیہ میں مرقوم ہے:
’’قنوتِ نازلہ کا حکم عام ہے مرد ،
عورت ، امام ،منفرد ہر ایک کو شامل ہے، جماعت کی قید اور مردوں کی تخصیص اور منفرد
یا عورتوں کے لئے ممانعت کی صریح اور صحیح دلیل منقول نہیں ہے’’ قَنَتَ
الْاِمَامُ‘‘ اس کے لئے کامل دلیل نہیں ہے ۔( حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ کا بھی یہی نظریہ ہے) لہٰذا منفرد اور عورتیں
اپنی نماز میں دعاء قنوت پڑھ سکتی ہیں، مگر عورتیں زور سے نہ پڑھیں۔
دعاء قنوت ایک مقرر نہیں ہے، وقت اور موقعہ کے مطابق ادعیہ
ماثورہ میں سے مناسب دعاء پڑھ سکتے ہیں…ذیل کی دعاء زیادہ مناسب ہے:
اَللّٰھُمَّ انْصُرِ الِاسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ
وَاَنْجِزْ وَعْدَکَ وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُوْمِنِیْنَ۔
اَللّٰھُمَّ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِھِمْ
وَانْصُرْھُمْ عَلٰی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ۔ اَللّٰھُمَّ اَھْلِکِ الْکَفَرَۃَ
الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِکَ وَیُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ وَیُقَاتِلُوْنَ
اَوْلِیَائَکَ۔ اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیْنَ کَلِمَتِھِمْ وَزَلْزِلْ
اَقْدَامَھُمْ۔ اَللّٰھُمَّ شَتِّتْ شَمْلَھُمْ وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ وَخَرِّبْ
بِلَا دَھُمْ۔ اَللّٰھُمَّ اَلْقِ فِی قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ۔ اَللّٰھُمَّ
خُذْھُمْ اَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ۔اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِی
نُحُورِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔ اَللّٰھُمَّ اَنْزِلْ بِھِمْ
بَأسَکَ الَّذِیْ لَا تَرُدُّہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ ۔
اسیران اسلام کی خوش نصیبی
جیل اور قید بڑی مشکل جگہ ہے… بہت سے لوگ گرفتاری کے ڈر سے
جہاد نہیں کرتے… یا جہاد کا نام تک نہیں لیتے… مگر اللہ تعالیٰ کے راستے میں قید
ہونا، محبوس ہونا اتنا عظیم الشان عمل ہے کہ بڑے سے بڑے اعمال بھی اس کے برابر
نہیں ہو سکتے… اندازہ لگائیں کہ… جو مسلمان مکہ مکرمہ میں قید اور پابند تھے ان کے
لئے … حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نام لے کر دعاء کرتے تھے … جب ہم بخاری شریف اور
دیگر کتابوں میں … وہ روایات پڑھتے ہیں تو دل ان حضرات کی محبت اور احترام سے بھر
جاتا ہے جن کا نام لے کر …حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فرض نمازوں میں دعاء فرمایا کرتے تھے… پھر
اس سے یہ سبق بھی ملا کہ مسلمانوں کو اسیران اسلام سے غافل نہیں ہونا چاہیے… بلکہ
ان کی رہائی کی ہر کوشش اور بھرپور دعاء کرتے رہنا چاہیے… آج محترمہ عافیہ بہن سے
لے کر…بگرام اور گوانٹا ناموبے تک… کشمیر اور شام تک… ہزاروں اسیران اسلام ہماری
دعاؤں اور کوششوں کے منتظر ہیں… قنوت نازلہ کے ذریعے ہم سب … اس خدمت اور اجر کو
حاصل کریں… پھر اللہ تعالیٰ مزید توفیق کے دروازے بھی کھول دیں گے، ان شاء اللہ۔
اہل علم کی خدمت میں
قنوت نازلہ کا عمل مسلمانوں میں معدوم ہوتا جا رہا ہے… اور
کئی افراد اس عمل کو منسوخ یا مشکوک بنانے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں… جیسا کہ ایک
طبقے کا خیال ہے کہ یہ عمل حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک خاص تھا… کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں
کہ… ’’قنوت نازلہ‘‘ کے لئے ضروری ہے کہ اس کی امامت مسلمانوں کا خلیفہ کرے… یعنی
یہ صرف ریاست اور سرکار کا کام ہے وغیرہ… اللہ تعالیٰ مفتیٔ اعظم ہند حضرت مولانا
مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کو جزائے
خیر عطاء فرمائیں کہ… انہوں نے قنوت نازلہ پر ہونے والے ان تمام حملوں کا بہترین
علمی جواب دیا ہے… اور کفایت المفتی جلد سوم کے بیسویں باب میں ’’قنوت نازلہ‘‘ کا
مسئلہ بہت تفصیل و تحقیق کے ساتھ بیان فرمایا ہے… بندہ کا پہلے یہ ارادہ تھا کہ
آج کے رنگ و نور میں ’’کفایت المفتی‘‘ کی مکمل عبارت دے دی جائے… کیونکہ اس میں
مکمل تفصیل و تحقیق درج ہے… مگر چونکہ اس عبارت کی زبان علمی اور لہجہ قدرے دقیق
ہے تو اس لئے وہ ارادہ ترک کرنا پڑا… اہل علم سے گزارش ہے کہ قنوت نازلہ کے مسئلے
کو مکمل سمجھنے اور اس کی اہمیت کو جاننے کے لئے ’’کفایت المفتی‘‘ کا مطالعہ فرما
لیں ان شاء اللہ علم و توفیق کا دروازہ کھل جائے گا… اور کیا بعید ہے کہ یہ عمل
پورے زور شور سے دنیا کی تمام مساجد میں جاری ہو جائے۔
ایک جامع تحریر
ہمارے زمانہ کے معروف عالم دین… حضرت مولانا خالد سیف اللہ
رحمانی نے ’’قنوت نازلہ‘‘ پر ایک جامع اور مختصر مضمون تحریر فرمایا ہے … ہم ذیل
میں اس کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں… اسے غور اور توجہ سے پڑھ لیں۔
’’ ایک صاحب ایمان کا کام یہ ہے کہ
جب بھی وہ کسی مصیبت یا آزمائش سے دو چار ہو اللہ کی طرف رجوع کرے اور اللہ کے
خزانۂ غیب سے مدد کا طلب گار ہو،اسی لئے اسلام میں ایک مستقل نماز نمازِ حاجت
رکھی گئی کہ انسان کی کوئی بھی ضرورت ہو ، دو رکعت نماز خاص اسی نیت سے پڑھ کر
اللہ کے سامنے دست ِسوال پھیلائے ، بعض دفعہ ضرورتیں یا ابتلائیں غیر معمولی ہو
جاتی ہیں ، ان مواقع کے لئے شریعت نے مخصوص نمازیں رکھی ہیں ، جیسے کسی کی وفات ہو
جائے تو نمازِ جنازہ ، بارش نہ ہو تو نماز استسقاء…سفر کے موقع پر دوگانۂ سفر۔
اسی طرح اگر دشمنوں سے مقابلہ ہو ، خواہ اعدائِ اسلام کے
خلاف اقدامی جہاد ہو یا مدافعت کی جا رہی ہو یا ظلم و ابتلاء سے دو چار ہوں ، تو
ایسے مواقع کے لئے کوئی مستقل نماز تو نہیں رکھی گئی ، لیکن ایک خصوصی دعاء رکھی
گئی ہے جس کو ’’قنوتِ نازلہ ‘‘ کہتے ہیں ، نازلہ کے معنٰی مصیبت و آزمائش کے ہیں
اور قنوت کے متعدد معانی آتے ہیں ، جن میں سے ایک معنٰی دعاء ہے اور اس تعبیر میں
یہی معنٰی مراد ہے ، پس قنوتِ نازلہ کے معنٰی ہوئے مصیبت کے وقت کی دعاء ، مکہ میں
جو کمزور لوگ پھنسے ہوئے تھے اور اہل مکہ انہیں ہجرت کی اجازت نہیں دیتے تھے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے لئے قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ، اسی طرح
ایک خاص واقعہ پیش آیا جس میں حفاظ کی ایک بڑی تعداد شہید کر دی گئی ، یہ واقعہ
سیرت کی کتابوں میں ’’بئر معونہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ، اس موقع پر بھی آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک قنوت نازلہ
پڑھی ہے۔
اس وقت شام کی صورت حال نہایت ہی ناگفتہ ہے، بچوں اور
بوڑھوں کا جو قتل عام ہو رہا ہے، یہاں تک کہ امدادی قافلوں کو بھی نشانہ بنایا جا
رہا ہے اور یہ سب کچھ فرعونِ وقت بشارا لاسد ظالم ایرانیوں اور روسیوں کے تعاون سے
کر رہا ہے، اس صورت حال میں اگر ہم کچھ اور نہیں کر سکتے تو کم سے کم ہمیں دعاؤں
کے ذریعہ تو اپنے شامی بھائیوں کا تعاون کرنا چاہئے اور خاص طور پر قنوت نازلہ کا
اہتمام کرنا چاہئے۔
قنوتِ نازلہ کے سلسلہ میں کئی باتیں قابل ذکر ہیں ، قنوتِ
نازلہ کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص تھا یا آج بھی امت کے لئے باقی ہے
؟ قنوتِ نازلہ کن مواقع پر پڑھی جائے گی ؟ کس نماز میں پڑھی جائے گی؟ اور نماز میں
قنوت پڑھنے کا کیا محل ہے ؟ کون پڑھے گا ؟ باآوازِ بلند پڑھی جائے یا آہستہ ؟ جب
امام قنوتِ نازلہ پڑھے تو مقتدی کیا کرے ؟ قنوتِ نازلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کن الفاظ میں منقول ہے ؟
* بعض
اہل علم کا خیال ہے کہ قنوتِ نازلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص تھی ،لیکن تمام قابل ذکر فقہاء و
ائمہ مجتہدین کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی قنوت نازلہ کا حکم باقی ہے ، چنانچہ
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسیلمہ کذاب سے جنگ کے وقت آپ نے قنوتِ
نازلہ پڑھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی
بعض مواقع پر قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ، آپ کی قنوت کے الفاظ بھی کتب ِاحادیث میں
تفصیل کے ساتھ منقول ہیں۔ ( دیکھیے: منحۃ الخالق علی البحر :ج ۲ص۴۴)
اس لئے صحیح یہی ہے کہ قنوتِ نازلہ کا حکم رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص نہیں تھا اور
اب بھی یہ حکم باقی ہے ، ائمہ اربعہ اس پر متفق ہیں۔
( دیکھئے : حلبی :ص۴۲۰ ، شرح مہذب : ج۳ص۵۰۶، المقنع ج ۴ ص ۱۳۵)
* فقہاء
کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ وجدال کے علاوہ دوسری مصیبتوں کے مواقع پر بھی
قنوتِ نازلہ پڑھنی مسنون ہے ، امام نووی شافعی رحمہ اللہ نے وباء اور قحط میں قنوت پڑھنے کا ذکر کیا
ہے۔ [روضۃ الطالبین و عمدۃ المفتیین،:ج ۱ ، ص ۲۵۴]
حنابلہ
کے یہاں ایک قول کے مطابق وبائی امراض پھوٹ پڑنے پر بھی قنوتِ نازلہ پڑھی جاسکتی
ہے۔
( دیکھیے : الانصاف مع المقنع: ج ۴ ،ص۱۳۹)
حنفیہ
نے بھی لکھا ہے کہ طاعون کی بیماری پھیل جائے تو اس کا شمار بھی نوازل میں
ہوگا۔
[رد المحتار:ج۲ ، ص ۴۴۷]
ویسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین سے وبائی امراض وغیرہ میں
قنوتِ نازلہ پڑھنا ثابت نہیں ہے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں طاعون
عمواس کا واقعہ پیش آیا تو اس موقع پر قنوت نہیں پڑھی گئی۔ [الانصاف: ج ۴، ص ۱۳۹]
گویا اصل میں تو قنوتِ نازلہ جنگ کے موقع پر پڑھی گئی ہے
لیکن اس پر قیاس کرتے ہوئے فقہاء نے دوسری مصیبتوں میں بھی قنوتِ نازلہ کی اجازت
دی ہے ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم صبح میں قنوت اسی وقت پڑھتے تھے
، جب کسی گروہ کے حق میں دعاء کرنا یا کسی گروہ کے خلاف بد دعاء کرنا مقصود ہوتا ۔
[اعلاء السنن : حدیث نمبر ۱۷۱۵]
گویا جب مسلمان اعداء ِاسلام سے جنگ کی حالت میں ہوں تب تو
خاص طور پر قنوتِ نازلہ مسنون ہے ، لیکن دوسری اجتماعی مصیبتوں کے موقع پر بھی
قنوتِ نازلہ پڑھنے کی گنجائش ہے۔
* قنوتِ
نازلہ کس نماز میں پڑھنی چاہئے؟ اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں ، حضرت عبداللہ بن
عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل ایک ماہ ظہر،
عصر ، مغرب ، عشاء اور فجر میں آخری رکعت کے رکوع کے بعد قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ،
جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلیم ، رعل ، ذکوان ، عصیّہ قبائل کے لئے بد
دعاء فرمائی ہے۔
[ابو داؤد: حدیث نمبر ۱۴۴۳]
بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب اور فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھا کرتے
تھے۔ [بخاری: حدیث نمبر۱۰۰۴]
رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کا فجر اور مغرب میں قنوتِ
نازلہ پڑھنا حضرت براء بن عازب رضی اللہ
عنہ سے بھی مروی ہے۔ [طحاوی: ج۱ ، ص ۱۴۲]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں نمازِ عشاء میں قنوتِ نازلہ
پڑھنے اور مکہ کے مستضعفین کے لئے دعاء کرنے کا ذکر ہے ، امام طحاوی نے اس کو
متعدد سندوں سے نقل کیا ہے،چنانچہ فقہاء شوافع کے نزدیک تو پانچوں نمازوں میں
قنوتِ نازلہ پڑھنے کی گنجائش ہے۔ [شرح
مہذب:ج ۲، ص۶۰۵،روضۃ الطالبین: ج ۱ ، ص ۵۰۴]
حضرت امام احمد رحمہ اللہ کا بھی ایک قول یہی ہے، ایک قول کے مطابق فجر
اور مغرب میں قنوتِ نازلہ پڑھنی چاہئے ، ایک قول یہ ہے کہ تمام جہری نمازوں میں
پڑھ سکتا ہے اور ایک قول کے مطابق صرف نماز فجر میں۔
( دیکھیے : الشرح الکبیر : ج۴ ، ص ۱۳۷، الانصاف مع المقنع: ج۴، ص ۱۳۷)
غرض حنابلہ کے مختلف اقوال اس سلسلہ میں منقول ہیں۔
فقہاء احناف کے یہاں دو طرح کی تعبیرات ملتی ہیں، ایک یہ کہ
تمام جہری نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھنا چاہئے ، فقہ حنفی کے اکثر متون یعنی
بنیادی کتابوں میں یہی لکھا ہے :
’’فَیَقْنُتُ الْاِمَامُ فِی الصَّلٰوۃِ الْجَہْرِیَّۃِ۔‘‘
[ ملتقی الابحر علی ہامش المجمع: ج۱، ص ۱۲۹]
مشہور حنفی فقیہ علامہ حصکفی رحمہ اللہ نے بھی بعینہٖ یہی الفاظ لکھے ہیں۔
[ در مختار مع الرد :ج ۲، ص ۴۴۸]
مشہور محقق امام طحطاوی رحمہ اللہ نے بھی جہری نمازوں میں قنوت کی اجازت نقل کی
ہے۔
[طحطاوی علی المراقی: ۲۰۶]
یہی بات بعض دوسرے فقہاء احناف سے بھی منقول ہے۔
(دیکھیے: رد المحتار:ج ۲ ، ص۴۴۸)
ماضی قریب کے اہل علم میں مولانا انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے۔
[ فیض الباری: ج۲ ، ص ۳۰۲]
اور علامہ حموی رحمہ اللہ نے اسی قول کو زیادہ درست قرار دیا ہے۔
[منحۃ الخالق علی البحر: ج ۲، ص۴۴]
دوسری رائے یہ ہے کہ صرف نمازِ فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھنا
درست ہے ، علامہ شامی رحمہ اللہ کا رجحان
اسی طرف ہے ، شامی رحمہ اللہ کا گمان ہے
کہ ممکن ہے کہ بعض نقل کرنے والوں نے ’’ صلاۃ الفجر ‘‘ کو غلطی سے ’’صلاۃ الجہر ‘‘
لکھ دیا ہو۔
( دیکھیے رد المحتار :ج ۲ ، ص ۴۴۸)
لیکن جب اتنی ساری نقول موجود ہیں تو محض ظن و تخمین کی
بناء پر اسے رد نہیں کیا جاسکتا ، اسی لئے خود علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ شاید اس سلسلہ میں
احناف کے دو قول ہیں : ’’ولعل فی المسئلۃ قولین‘‘ [منحۃ الخالق علی ہامش البحر :ج ۲ ، ص ۴۴]
پس جو بات راجح معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ قنوتِ نازلہ مغرب ،
عشاء اور فجر تینوں میں پڑھنے کی گنجائش ہے کیونکہ اس سلسلہ میں احادیث موجود ہیں
،البتہ چونکہ فجر کے بارے میں اتفاق ہے اور دوسری نمازوں کی بابت اختلاف ، اس لئے
فجر میں قنوتِ نازلہ کی زیادہ اہمیت ہے…رہ گئی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ
عنہما کی روایت جس میں ظہر و عصر میں قنوتِ نازلہ پڑھنے کا ذکر ہے ، تو اکثر فقہاء
کے نزدیک وہ منسوخ ہے اور احادیث میں بعض قرائن اس کے منسوخ ہونے پر موجود ہیں۔
* نماز
میں قنوتِ نازلہ کب پڑھی جائے گی ؟ تو اس سلسلہ میں احادیث میںقریب قریب اتفاق ہے
کہ قنوتِ نازلہ رکوع کے بعد پڑھی جائے۔
(دیکھیے بخاری: حدیث نمبر۱۰۰۲، ابو داؤد : حدیث نمبر ۱۴۴۴)
فقہاء نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔
[منحۃ الخالق علی ہامش البحر : ج۲ ، ص۴۴]
* دعاء
ِقنوت زور سے پڑھی جائے یا آہستہ ؟ اس سلسلہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ مضر کے خلاف بد
دعاء کرتے ہوئے جہراً قنوت پڑھی ہے۔ [
بخاری کتاب التفسیر ، باب قولہ : لیس لک من الامر شیء ]
اس لئے راجح قول یہی ہے کہ قنوتِ نازلہ امام کو
جہراً پڑھنا چاہئے ، اسی کو اہل علم نے ترجیح دی ہے ۔
(دیکھیے :اعلاء السنن : ج۶ ، ص۱۱۲)
یوں دعاء آہستہ کرنا بھی درست ہے بلکہ عام حالات میں
آہستہ دعاء کرنا افضل ہے ، لہٰذا آہستہ پڑھنے کی بھی گنجائش ہے ۔
جب امام قنوتِ نازلہ پڑھے تو مقتدی کیا کرے ؟ اس سلسلہ میں
علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر
امام جہراً دعاء قنوت پڑھے تو مقتدی آمین کہنے پر اکتفاء کرے اور اگر آہستہ پڑھے
تو مقتدی بھی دعاء کو دہرائے۔
[رد المحتار :ج ۲، ص ۴۴۹]
* اس
بات پر حنفیہ کا اتفاق ہے کہ جیسے نماز سے باہر ہاتھ اُٹھا کر دعاء کی جاتی ہے ،
اس طرح قنوتِ نازلہ میں ہاتھ اُٹھا کر دعاء نہیں کی جائے گی، لیکن ہاتھ باندھ کر
رکھا جائے ؟ یا چھوڑ دیا جائے ؟ اس سلسلہ میں کوئی صریح حدیث موجود نہ ہونے کی وجہ
سے فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک ہاتھ باندھنا بہتر ہے اور
امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک ہاتھ چھوڑے
رکھنا بہتر ہے ۔
( دیکھیے : اعلاء السنن :ج ۶ ،ص۱۲۲)
چونکہ قنوتِ نازلہ ’’قومہ ‘‘کی حالت میں پڑھا جاتا ہے اور
قومہ کی حالت میں ہاتھ چھوڑے رکھنا مسنون ہے،اس لئے بہتر یہی معلوم ہوتا ہے کہ
ہاتھ چھوڑے رکھے ، البتہ بعض شوافع اور حنابلہ کے نزدیک قنوتِ نازلہ میں بھی اسی
طرح ہاتھ اٹھانے کی گنجائش ہے جس طرح عام دعاؤں میں۔
(دیکھیے المغنی :ج ۲ ص ۵۸۴ بہ تحقیق ترکی وغیرہ)
* رہ
گئے قنوتِ نازلہ کے الفاظ ، تو اس سلسلہ میں کچھ خاص الفاظ ہی کی پابندی ضروری
نہیں:
و أما دعاءہ فلیس فیہ دعاء موقت۔ [البحر الرائق : ج۲، ص۴۱]
البتہ ظاہر ہے کہ جو الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہوں اُن کو پڑھنے کا اہتمام کرنا بہتر
ہے ۔ اس سلسلہ میں ایک تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اِن الفاظ میں دعاء سکھائی :
اَللّٰھُمَّ اھْدِنِی فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِیْ
فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِیْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَ بَارِکْ لِی فِیْمَا
اَعْطَیْتَ وَ قِنِی شَرَّ مَاقَضَیْتَ
فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَ لَایُقْضٰی عَلَیْکَ وَاِنَّہٗ لَا یَذِلُّ مَنْ
وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا
وَتَعَالَیْتَ۔
’’اے اللہ ! مجھے بھی ان لوگوں کے
ساتھ ہدایت عطاء فرمائیے جنہیں آپ نے ہدایت دی ہے اور مجھے بھی اُن لوگوں کے ساتھ
عافیت میں رکھئے جن کو آپ نے عافیت سے سرفراز فرمایا ہے اور میری بھی ان لوگوں کے
ساتھ نگہداشت فرمایئے جن کو آپ نے اپنی نگہداشت میں رکھا ہے ، جو کچھ آپ نے عطاء
فرمایا ہے، اس میں میرے لئے برکت عطاء فرمایئے قضاء و قدر کے شر سے میری حفاظت
فرمائیے، کیونکہ آپ فیصلہ کرتے ہیں ، آپ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ،
جسے آپ دوست بنالیں وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس کے آپ دشمن ہوں وہ باعزت نہیں
ہو سکتا ، پروردگار ! آپ کی ذات مبارک اور بلند ہے۔‘‘ [ ابوداؤد: رقم الحدیث، ۱۴۲۵]
(جب جماعت کی نماز میں یہ دعاء
پڑھیں تو جمع متکلم کے صیغے بنادیں…مثلاً:
اَللّٰھُمَّ اھْدِنَا … وَ عَافِنَا وَ
تَوَلَّنَا
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ایک دعاء پڑھنا منقول ہے جس
کو امام نووی رحمہ اللہ نے بیہقی کے حوالہ
سے نقل کیا ہے ۔ [ الاذکار: ۹۷] … اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ان الفاظ کا اضافہ نقل کیا ہے ، جو وتر والی
دعاء قنوت پڑھنے کے بعد وہ پڑھا کرتے تھے ، اس دعاء میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دعاء کا عطر بھی آگیا ہے ، اس لئے اس دعاء
کے الفاظ کا نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے :
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِلْمُوْمِنِیْنَ وَ الْمُوْمِنَاتِ وَ
الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ وَ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَ اَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ وَ
انْصُرْھُمْ عَلٰی عَدُوِّکَ وَ عَدُوِّھِمْ ، اَللّٰھُمَّ الْعَنْ کَفَرَۃَ
اَھْلِ الْکِتَابِ الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ وَ یُقَاتِلُوْنَ
اَوْلِیَاءَ کَ ، اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیْنَ کَلِمَتِہِمْ وَ زَلْزِلْ
اَقْدَامَھُمْ وَ اَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذِیْ لَا تَرُدُّہٗ عَنِ
الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۔
ترجمہ: ’’الٰہی ! صاحب ایمان مردوں اور عورتوں
اور مسلمان مردوں اور عورتوں کی مغفرت فرما دیجئے ، ان کے دلوں کو جوڑ دیجئے ، ان
کے باہمی اختلاف کو دور فرما دیجئے ، ان کی آپ کے دشمن اور ان کے دشمن کے مقابل
مدد فرمایئے ، اے اللہ! کفار اہل کتاب پر آپ کی لعنت ہو، جو آپ کے رسولوں کو
جھٹلاتے ہیں اور آپ کے اولیاء سے بر سر پیکار ہیں ، اے اللہ ! ان کے درمیان
اختلاف پیدا کر دیجئے ، ان کے قدم کو متزلزل فرما دیجئے اور ان کو آپ اپنے اس
عذاب میں مبتلا فرمایئے ، جو مجرم لوگوں سے ہٹایا نہیں جاتا۔‘‘
[ رد المختار:۲،۴۳۲،۴۳۳]
علامہ حصکفی رحمہ
اللہ نے لکھا ہے کہ دعائِ قنوت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھی بھیجنا چاہئے :
و یصلی علی النبی وبہ یفتی۔ [ در المختار : ج۲ص ۴۴۲]
یہ وقت ہے کہ ہرمسلمان اپنی جبین بندگی اللہ کے سامنے خم کر
دے اور پورے الحاح اورفروتنی کے ساتھ اللہ کے سامنے دست ِسوال پھیلائے کہ دنیا میں
اسلام کا نام سربلند ہو اوراسلام اور مسلمانوں سے بغض رکھنے والے بالآخر آخرت کی
طرح دنیامیں بھی محرومی کا حصہ لے کر واپس ہوں ۔
وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللہِ بِعَزِیْز اِنَّہٗ
عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ۔ [انتہیٰ]‘‘
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 639
قنوتِ نازلہ کی ضرورت
* قنوت
نازلہ کی ضرورت اور فضیلت کو سامنے رکھتے ہوئے کرنے کے تین کام…
* قنوت
نازلہ کے متعلق خواتین اسلام سے اہم گذارش…
* اسیران
اسلام کا درد…
* قنوت
نازلہ کی ماثور دعائیں مع ترجمہ…
تاریخ
اشاعت:
۲۶رجب المرجب۱۴۳۹ھ/بمطابق 13اپریل 2018ء
قنوتِ نازلہ کی ضرورت
اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو فتح، غلبہ اور اپنی حفاظت عطاء
فرمائیں…قنوت نازلہ کا عمل بڑا مبارک، مسنون اور مجرب عمل ہے… کوشش کرنی چاہیے کہ
یہ عمل ہم سب کی ذاتی… اور اجتماعی زندگی میں مضبوطی کے ساتھ آ جائے۔
پہلا کام
’’دعاء‘‘ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب
ہے… ’’دعاء‘‘ تقدیر کو بدل دیتی ہے… ’’دعاء‘‘ ایک نہ خطا ہونے والا ہتھیار ہے…
’’دعاء‘‘ ہر سعادت کا ذریعہ ہے… جس کو ’’دعاء‘‘ مل گئی وہ ’’دعاء‘‘ کے ذریعہ سب
کچھ پا لیتا ہے… اور جو ’’دعاء‘‘ سے محروم رہتا ہے وہ بہت سی مزید محرومیوں میں
جاگرتا ہے…’’دعاء‘‘ بڑی جاندار عبادت اور بڑی شاندار نعمت ہے…یہ ہر عبادت اور ہر
ذکر کا مغز ہے… ’’دعاء‘‘ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے… ’’دعاء‘‘ تمام انبیاء علیہم
السلام کی سنت ہے… قنوت نازلہ کو اپنی
زندگی میں لانے کے لئے پہلا کام یہ کریں کہ … قنوت نازلہ کی فضیلت کو پڑھیں اور
سمجھیں… یہ کوئی عام اور معمولی دعاء نہیں ہے… یہ وہ ’’دعاء‘‘ ہے جسے ’’فرض نماز‘‘
میں جگہ عطاء فرمائی گئی ہے… اور آپ جانتے ہوں گے کہ… ’’فرض نماز‘‘ کتنی اونچی
عبادت ہے… ایمان کے بعد’’فرض نماز‘‘ کا درجہ ہے…اور ’’فرض نماز‘‘…ہمارے پورے دین کا
’’ستون‘‘ ہے… فرض نمازوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو اوقات مقرر فرمائے ہیں… یہ
قبولیت کے خاص اوقات ہیں… یہ محبت کے اوقات ہیں… یہ مناجات کے اوقات ہیں… یہ راز و
نیاز کے اوقات ہیں… قنوت نازلہ چونکہ اس امت کی ضرورت ہے اس لئے اسے ’’فرض نمازوں
‘‘ میں جگہ ملی ہے… اور فرض نمازوں کی دعائیں ان شاء اللہ ضرور بالضرور قبول ہوتی
ہیں۔
الحمد للہ گزشتہ کالم میں ’’قنوت نازلہ‘‘ کی اچھی خاصی اور
جامع ترتیب آ گئی تھی… اسے دو چار بار پڑھ لیں… دوسرے مسلمانوں تک بھی پہنچائیں…
اس کی برکت سے ان شاء اللہ خود ہماری زندگی میں ’’قنوت نازلہ‘‘ آ جائے گی… جب
ہماری زندگی میں دین کے دشمن بھی موجود ہیں… جب ہماری زندگی میں مظلوم مسلمان بھی
موجود ہیں… جب ہماری زندگی میں بے بس مسلمان قیدی بھی موجود ہیں… جب ہماری زندگی
میں ہمارے بے شمار ایسے دشمن موجود ہیں… جو ہم سے صرف دین کی وجہ سے دشمنی رکھتے
ہیں تو پھر ہماری زندگی میں ’’قنوت نازلہ‘‘ بھی موجود ہونی چاہیے… اور ہماری زندگی
میں جہاد بھی ضرور موجود ہونا چاہیے۔
دوسرا کام
قنوتِ نازلہ کی دعائیں یاد کر لیں… کم از کم وہ تین دعائیں
جو گذشتہ رنگ ونور میں تھیں… اور اسی طرح کی مزید جامع دعائیں… دعاء یاد کرنا بہت
آسان کام ہے… طریقہ یہ ہے کہ کسی ترجمہ جاننے والے کے پاس بیٹھ کر دعاء کے ہر ہر
لفظ کو الگ الگ کر کے… اس کا ترجمہ سمجھ لیں… آپ حیران ہوں گے کہ… عربی کے اکثر
الفاظ وہی ہیں جو ہم اردو میں بھی استعمال کرتے ہیں…جب ترجمہ اچھی طرح سمجھ میں آ
جائے تو اب ایک ایک جملہ یاد کرتے جائیں… جب کوئی جملہ یاد ہو جائے تو اسے پچھلے
جملے کے ساتھ دہرائیں… بس اس طرح بہت آسانی سے دعاء یاد ہو جائے گی… ایک دعاء یاد
کر کے سارا دن چلتے پھرتے اسے دہراتے رہیں… مانگتے رہیں …جو ملے اسے سناتے رہیں…
ان معاملات میں شرم کرنا محرومی کی بات ہے۔
تیسرا کام
دوسرے مسلمانوں کو ’’قنوت نازلہ‘‘ کا مسئلہ سمجھائیں…اپنی
اپنی مساجد میں بغیر جھگڑا ڈالے… اتفاق و مشاورت کے ساتھ ’’قنوت نازلہ‘‘ شروع
کرائیں… ’’قنوت نازلہ‘‘ کی دعائیں مسلمانوں کو یاد کرائیں اور اُن کا ترجمہ انہیں
سمجھائیں تاکہ… جب امام صاحب پڑھیں تو ہر کوئی اچھی طرح سمجھ کر آمین کہے اور
مانگنے کی کیفیت نصیب ہو… اور جب ہم اکیلے نماز پڑھیں تو خود جہری نمازوں میں
’’قنوت نازلہ‘‘ کا اہتمام کریں… اسی طرح اگر کبھی کسی مصیبت میں پھنس جائیں… یا
قید ہو جائیں تو قنوت نازلہ کا عمل ہمارے ساتھ ہو اور ہم اپنی نمازوں میں فوراً
اسے شروع کر دیں… آج مسلمانوں کو کافروں سے محبت کا سبق پڑھایا جا رہا ہے… آج
مسلمانوںکو کافروں کے نقش قدم پر چلنے کی دعوت دی جارہی ہے… آج مسلمانوں کو غلامی
کے آداب سکھائے جا رہے ہیں کہ…کس طرح ہم نے زمانے کے ساتھ ساتھ چلنا ہے… آج
مسلمانوں کے دلوں میں کافروں کی عظمت بٹھائی جا رہی ہے کہ… وہ ہم سے کس طرح آگے
ہیں… استغفر اللہ، استغفر اللہ…لا حول ولا قوۃ الا باللہ…کیسے ظالمانہ اسباق آج
اصلاح کے نام پر مسلمانوں میں پھیلائے جا رہے ہیں… وہ دشمنان اسلام جو لعنت کے
مستحق ہیں… جو امت مسلمہ کے قاتل ہیں… جو ہماری نسل تک مٹانے کے درپے ہیں جب تک ہم
ان کی دشمنی کو محسوس نہیں کریں گے… اس وقت تک ہم ان کے مقابلے میں کھڑے نہیں ہو
سکیں گے… ہمیں امت مسلمہ میں آزادی کی روح بیدار کرنی ہو گی … ہمیں امت مسلمہ کو
اس کی عظمت کا احساس دلانا ہو گا… ہمیں امت مسلمہ کو اس کے غلبے کی یاد دلانی ہو
گی…اس کے لئے ایک بہترین طریقہ … قنوت نازلہ کی سنت کا احیاء بھی ہے کیونکہ’’ قنوت
نازلہ‘‘ کا بنیادی مقصد… اہل ایمان کے لئے نصرت و غلبہ مانگنا… اور دشمنان اسلام
کے لئے لعنت اور غضب الہٰی کا سوال ہے۔
جب ہمیں اس بات کا احساس ہو گا کہ … کفر و شرک کوئی معمولی
گناہ نہیں ہیں … بلکہ یہ وہ جرائم ہیں … جن پر اللہ تعالیٰ کی اور تمام مخلوق کی
لعنت برستی ہے تو پھر ہم… کفر و شرک کی غلامی کبھی گوارہ نہیں کریں گے…اور نہ ان
کی ظاہری ترقی ہمیں کسی بھی طرح متاثر کرے گی۔
خواتین اسلام سے گزارش
مسلمان خواتین میں… کئی ’’اہل دعاء‘‘ ہوتی ہیں… ’’اہل
دعاء‘‘ ایک روحانی مقام ہے جو کہ کسی کسی مسلمان کو نصیب ہو تا ہے… اور مسلمان
عورتوں کو یہ مقام زیادہ ملتا ہے… امت میں بڑی بڑی ’’اہل دعاء‘‘ خواتین ہر زمانے
میں گزری ہیں… اور ان شاء اللہ اس زمانے میں بھی موجود ہوں گی… کیونکہ ماشاء اللہ
یہ جہاد اور قربانی کا زمانہ ہے… قنوت نازلہ چونکہ امت مسلمہ کی ضرورت ہے اس لئے
خواتین کو بھی… اپنی نمازوں میں اس کا اہتمام کرنا چاہیے… جب بھی کوئی حادثہ یا
واقعہ ہو… تو خواتین چند دن کے لئے قنوت نازلہ کا اہتمام کر لیا کریں… پھر کچھ دن
چھوڑ دیا کریں… پھر شروع کر دیا کریں … آج کل جیسے ہی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو… کچھ
لاڈلے بس یہی فرمائش شروع کر دیتے ہیں کہ … فوراً مذمتی بیان جاری ہو… مظلوموں کی
ویڈیوز شیئر کی جائیں… یعنی صرف سوشل میڈیا پر ہی سارا اودھم مچایا جائے… اور پھر
کبھی کبھی انہیں یہ وہم بھی لگ جاتا ہے کہ… سوشل میڈیا پر ان کے شور سے اقوام
متحدہ لرز اُٹھی ہے… اور کابل کی حکومت بھی گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی ہے… حالانکہ یہ
صرف وہم ہوتا ہے… اقوام متحدہ کو سب جانتے ہیں…وہ آپ کے سوشل پیغامات نہیں پڑھتی
… اور نہ ہی اس کی بنائی ہوئی کمیٹیاں مسلمانوں کے مسائل حل کرتی ہیں… بہرحال سوشل
میڈیا ایک فضول سی مجبوری بن چکی ہے اورکچھ بھی نہیں۔
ظالمانہ واقعات کی آپ ضرور مذمت کریں … آپ اُن پر ضرور
آواز اُٹھائیں…آپ سے جتنا ہو سکتاہو ظلم کو بے نقاب کریں… یہ اچھی بات ہے مگر
آپ دوسروں کو طعنے نہ دیں کہ فلاں کیوں خاموش ہے؟ فلاں کیوں نہیں بول رہا؟… کچھ
لوگ بولتے نہیں مگر وہی بہت کچھ کر لیتے ہیں … دوسرا آپ اپنے اس عمل کو اپنے لئے
کافی نہ سمجھیں… یہ شور شرابا بہت معمولی درجے کا کام ہے… اصل کام یہ ہے کہ آپ
جہاد کی نیت کریں …جہاد کی تیاری کریں اور جہاد میں شرکت کریں اور دوسرا بڑا کام
یہ ہے کہ… آپ ’’قنوت نازلہ‘‘ کا اہتمام کریں اور قنوت نازلہ کا ماحول بنائیں …
یعنی خود قاتلوں اور ظالموں سے فریاد کرنے کی بجائے کہ… وہ ہمارے لئے کمیٹیاں اور
کمیشن بنائیں…ہم اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں کہ… وہ ظالموں اور قاتلوں کو ملعون و
برباد فرمائے اور ہمیں قوت اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔
خواتین اسلام کی دعاؤں میں بڑا سوز ہوتا ہے… آج اُمت
مسلمہ کی بیٹیاں بہت مظلوم ہیں… مگر بہت با ہمت ہیں… اللہ تعالیٰ نے خواتین میں
’’منوانے‘‘ کی صلاحیت رکھی ہے… آپ ایسے مواقع پر … جیسا کہ ابھی قندوز میں ہوا…
فلسطین میں ہو رہا ہے… کل ہی شام میں کیمیاوی ہتھیار استعمال ہوئے… کشمیر بھی
لہولہان ہے … ’’قنوت نازلہ‘‘ کا اپنی نمازوں میں مکمل خشوع و خضوع کے ساتھ اہتمام
کریں۔
آہ ! اسیرانِ اسلام
حضرت آقا محمدمدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے… مکہ میں محبوس مسلمانوں
کے لئے ’’قنوتِ نازلہ‘‘ کا اہتمام فرمایا… آج دنیا میں جگہ جگہ اسیرانِ اسلام کی
’’دردناک داستانیں ‘‘ بکھری پڑی ہیں… کسی کو بیس سال ہو گئے تو کسی کو پچیس سال…
کوئی جیلوں میں ہی شہید ہو گیا تو اکثر معذوری اور بڑھاپے کا شکار ہو گئے… اب تو
مسلمانوں نے اُن کے لئے سوچنا تک چھوڑ دیا ہے… وہ یاد آتے ہیں تو دل بے ساختہ
رونے لگتا ہے… اور اپنی ذات سے شرم محسوس ہونے لگتی ہے… اتنی بڑی امت مسلمہ ایک
عافیہ بہن کو نہ چھڑا سکی… آہ! اسیران اسلام… آہ ! راہ عشق کے معتکفین … ہم قنوت
نازلہ میں ان سب کے لئے دعاء شروع کر دیں… کچھ آنسو، کچھ آہیں اور کچھ دعائیں …
اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ برف پگھلے گی… توفیق کے دروازے کھلیں گے… اور امت مسلمہ
کے یہ عظیم افراد…آزادی دیکھیں گے، ان شاء اللہ۔
قنوت نازلہ کی ماثور دعائیں
ذیل میں قنوت نازلہ کی ماثور دعائیں مع ترجمہ یکجا نقل
کی جارہی ہیں، انہیں یاد کریں اور اپنے عمل میں شامل کر کے… دوسروں کو بھی دعوت
دیں۔
١ اَللّٰھُمَّ
انْصُرِ الْاِ سْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاَنْجِزْ وَعْدَکَ وَکَانَ حَقًّا
عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُوْمِنِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ
وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِھِمْ وَانْصُرْھُمْ عَلٰی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ۔
اَللّٰھُمَّ اَھْلِکِ الْکَفَرَۃَ الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِکَ
اَوَیُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ وَ یُقَاتِلُوْنَ اَوْلِیَائَکَ۔ اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیْنَ کَلِمَتِھِمْ وَ
زَلْزِلْ اَقْدَامَھُمْ ۔ اَللّٰھُمَّ شَتِّتْ شَمْلَھُمْ وَ فَرِّقْ جَمْعَھُمْ
وَ خَرِّبْ بِلَا دَھُمْ۔ اَللّٰھُمَّ اَلْقِ فِی قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ۔
اَللّٰھُمَّ خُذْھُمْ اَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ
فِی نُحُورِھِمْ وَ نَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔ اَللّٰھُمَّ اَنْزِلْ بِھِمْ
بَأسَکَ الَّذِیْ لَا تَرُدُّہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۔
ترجمہ: ’’اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کی مددفرمادیجیے، اور
اپنا وہ وعدہ پورا فرمادیجیے(جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ)اور ہم پر لازم ہے اہل
ایمان کی مدد کرنا۔ اے اللہ! اہل ایمان کے دلوں میں باہمی الفت ڈال دیجیے، اور ان
کے باہمی تعلقات سُدھار دیجیے، اور آپ اپنے دشمنوں اوران کے دشمنوں کے مقابلے میں
انہیں مدد دے دیجئے ۔ اے اللہ! اُن کافروں کو تباہ کردیجیے جو آپ کے راستے سے
روکتے ہیں اور آپ کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں، اور آپ کے دوستوں سے لڑتے ہیں۔ اے
اللہ! اُن کافروں کی باتوں میں باہمی اختلاف ڈال دیجیے، اوران کے قدموں کو لڑکھڑا
دیجیے، اوران کے معاملات کو منتشر فرمادیجیے، اور اُن کی اجتماعیت کو ٹکڑے ٹکڑے
کردیجیے، اور ان کے شہروں اور ملکوں کو ویران کردیجیے۔ اے اللہ! ان کے دلوں میں
رُعب ڈال دیجیے۔ اے اللہ! انہیں غالب اور کامل قدرت والی ذات کے پکڑنے کی طرح پکڑ
لیجیے۔ اے اللہ! ہم آپ کو ان کی گردنوں پر مسلط ہوجانے کی التجاء کرتے ہیں اور ان
کے شرور سے آپ کی پناہ میں آتے ہیں۔ اے اللہ! ان پر ایسا عذاب نازل فرمادیجیے جس
عذاب کو آپ مجرم لوگوں سے ہٹاتے نہیں ہیں۔‘‘
٢
اَللّٰھُمَّ اھْدِنِی فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِیْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ
وَتَوَلَّنِیْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَ
بَارِکْ لِی فِیْمَا اَعْطَیْتَ وَ قِنِیْ شَرَّ مَاقَضَیْتَ فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَ لَایُقْضٰی
عَلَیْکَ اِنَّہ لَا یَذِلُّ مَنْ
وَّالَیْتَ وَ لَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ
تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ۔
ترجمہ: ’’اے اللہ ! مجھے بھی ان لوگوں کے ساتھ ہدایت عطاء
فرمائیے جنہیں آپ نے ہدایت دی ہے اور مجھے بھی اُن لوگوں کے ساتھ عافیت میں رکھیے
جن کو آپ نے عافیت سے سرفراز فرمایا ہے اور میری بھی ان لوگوں کے ساتھ نگہداشت
فرمایئے جن کو آپ نے اپنی نگہداشت میں رکھا ہے، جو کچھ آپ نے عطاء فرمایا ہے اس
میں میرے لئے برکت عطاء فرمایئے، قضاء و قدر کے شر سے میری حفاظت فرمائیے، کیونکہ
آپ فیصلہ کرتے ہیں آپ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ،جسے آپ دوست بنالیں
وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس کے آپ دشمن ہوں وہ باعزت نہیں ہو سکتا، پروردگار !
آپ کی ذات مبارک اور بلند ہے۔‘‘
(جب جماعت کی نماز میں یہ دعاء
پڑھیں تو جمع متکلم کے صیغے بنادیں… مثلا: اَللّٰھُمَّ اھْدِنَا… وَ عَافِنَا وَ
تَوَلَّنَا)
٣
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِلْمُوْمِنِیْنَ وَالْمُوْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ
وَالْمُسْلِمَاتِ وَاَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ وَ
انْصُرْھُمْ عَلٰی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ اَللّٰھُمَّ الْعَنْ کَفَرَۃَ اَھْلِ
الْکِتَابِ الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ وَیُقَاتِلُوْنَ اَوْلِیَائَکَ اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیْنَ کَلِمَتِہِمْ وَ
زَلْزِلْ اَقْدَامَھُمْ وَ اَنْزِلْ بِھِمْ بَأْ سَکَ الَّذِیْ لَا تَرُدُّہٗ
عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۔
ترجمہ: ’’الٰہی ! صاحب ایمان مردوں اور عورتوں اور مسلمان
مردوں اور عورتوں کی مغفرت فرما دیجئے ، ان کے دلوں کو جوڑ دیجئے ، ان کے باہمی
اختلاف کو دور فرما دیجئے ، ان کی آپ کے دشمن اور ان کے دشمن کے مقابل مدد
فرمایئے ، اے اللہ! کفار اہل کتاب پر آپ کی لعنت ہو، جو آپ کے رسولوں کو جھٹلاتے
ہیں اور آپ کے اولیاء سے بر سر پیکار ہیں ، اے اللہ ! ان کے درمیان اختلاف پیدا
کر دیجئے ، ان کے قدم کو متزلزل فرما دیجئے اور ان کو آپ اپنے اس عذاب میں مبتلا
فرمایئے ، جو مجرم لوگوں سے ہٹایا نہیں جاتا۔‘‘
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور… 640
اصل زمانہ
* لوگ
کہتے ہیں کہ زمانے کے ساتھ چلو… لیکن ہم نے جس زمانے کے ساتھ چلنا ہے… وہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ
ہے… بس وہی اصل زمانہ ہے… جو اس زمانے کے ساتھ چلے گا وہی کامیاب ہو گا، وہی ترقی
پائے گا…
*
ایسا کیا کریں کہ گناہوں سے نفرت اور اطاعت سے رغبت ہو جائے؟ ایک
انتہائی اہم سوال اور اس کا بہترین جواب، اور جواب کی دلکش تشریح…
*
نوٹ گن کر اور سنبھال کر رکھے جاتے ہیں… جبکہ وقت تو پیسوں سے بھی زیادہ
قیمتی ہے… اس لئے اس کا حساب رکھنا پیسوں کے حساب سے زیادہ ضروری ہے…
* ’’شعبان‘‘
اعمال کی پیشی کا ’’سالانہ امتحان‘‘ ہے… جس کا شعبان اچھا گذر جائے… اس کا رمضان
بہترین گذرتا ہے… اور جس کا رمضان بہترین گذرے اس کا پورا سال بہترین گذرتا ہے…
* شعبان
کے اہم کام اور ضروری نصاب…
تاریخ
اشاعت:
۳شعبان
المعظم۱۴۳۹ھ/بمطابق 20اپریل 2018ء
اصل زمانہ
اللہ تعالیٰ سے معافی ، مغفرت اور توفیق کا سوال ہے…
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ
اللہ تعالیٰ ہی گناہ سے بچا سکتے ہیں… اللہ تعالیٰ ہی
نیکیوں کی توفیق عطاء فرماتے ہیں… اللہ تعالیٰ ہی ہماری بگڑی بنا سکتے ہیں…
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ
ہمارے گناہ بے شمار… ہماری غفلتیں بے کنار… ہمارے اعمال بہت
تھوڑے… ہماری عمریں بہت چھوٹی… قبر سامنے ہے… ہاتھ خالی ہیں… حساب منتظر ہے…نیکیوں
کے پلڑے میں ڈالنے کو کچھ نہیں… رجب گزر گیا … شعبان آ گیا… رمضان آنے کو ہے…
مگر ہم جیسے تھے ویسے ہی رہے… دنیا کی فکریں… اپنی صحت کی فکریں… گناہوں کی سوچیں،
فضول منصوبے… ناجائز خواہشات … یا اللہ ہمارا کیا بنے گا؟ یا اللہ میرا کیا بنے
گا؟… یا اللہ رحم! یا اللہ معافی! یا اللہ رحم!
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ
آج کی تاریخ
رات کے سوا بارہ بج رہے ہیں… یہ رات بھی گذر جائے گی دوبارہ
نہیں آئے گی… زندگی کی ایک رات اور ختم… عرب و حجاز میں آج شعبان کی پہلی رات…
جبکہ ہمارے ہاں رجب کی آخری رات ہے… یعنی تاریخ بنی… ۳۰ رجب ۱۴۳۹ھ… شمسی تاریخ کا وقت بھی رات بارہ بجے اُلٹا گیا… وہ ہے
17 اپریل 2018 … دن منگل کا ہے اور موسم
گرم…ایک بار پھر سب مسلمانوں کی منت کرتا ہوں کہ… ہجری مہینے یادکرلیں …روز کی
تاریخ اور سن بھی یاد رکھا کریں…اب گھڑی بھی ہوتی ہے اور موبائل بھی…ایک جگہ شمسی
تاریخ لگا لیا کریں تو دوسری جگہ قمری ہجری…ہر ہجری مہینے کا آغاز اور اختتام بھی
یاد رکھاکریں…یہی تو ہماری زندگی ہے اور یہی ہمارا سرمایہ… پیسے ہم گن گن کر رکھتے
ہیں اور گن گن کر خرچ کرتے ہیں… وقت تو پیسے سے زیادہ قیمتی ہے… اسے بھی گن گن کر
، پھونک پھونک کر استعمال کرنا چاہیے… صبح صادق کب ہوئی؟ سورج کب نکلا؟ غروب کتنے
پر ہو گا؟ یہ سب ہمیں روزانہ معلوم ہونا چاہیے… ہم اپنے زمانے یعنی وقت کی قدر
کریں گے تو زمانہ اور وقت بھی ہماری قدر کرے گا… ہم وقت کو فضول اُڑائیں گے تو خود
ہم اُڑ جائیں گے ، بکھر جائیں گے۔
لوگ کہتے ہیں کہ زمانے کے ساتھ چلو… وہ بالکل غلط کہتے ہیں…
ہم نے جس زمانے کے ساتھ چلنا ہے… وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے … دس سال مکی اور تیرہ سال مدنی…بس
وہی اصل زمانہ ہے… جو اس زمانے کے ساتھ چلے گا وہی کامیاب ہو گا، وہی ترقی پائے
گا… اور جو اپنے زمانے کے ساتھ چلے گا وہ خسارے میں جائے گا… اپنے زمانے کو ہم نے
اپنے ساتھ چلانا ہے… اوراسے رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے جوڑنا ہے… اُن
لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں جو آپ کو زمانے کے ساتھ چلنے کا خسارے والا سبق پڑھا
رہے ہیں… زمانہ تو ختم ہوتا جا رہا ہے… یہ ہر روز رنگ بدلتا ہے…بہرحال اپنے دن رات
گن گن کر گذاریں … اپنے گھنٹے اور منٹ شمار کر کے ہوشیاری کے ساتھ گذاریں… یہ بہت
قیمتی نوٹ ہیں… ان کو ضائع نہ کریں۔
شعبان شروع ہوتے ہی معلوم کر لیا کریں کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شعبان کیسا تھا؟ پھر اپنے شعبان کو رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے شعبان جیسا بنانے کی حتی الوسع کوشش کیا کریں
… ویسا تو کبھی بھی نہیں بن سکتا… مگر پیروی تو انہیں کی کرنی ہے… جس قدر ہو سکے
اتباع بھی کرنی ہے اور اطاعت بھی…شعبان کے بارے میں کئی احادیث مبارکہ آئی ہیں…
صحیح بخاری میں بھی موجود ہیں… اور نسائی وغیرہ دیگر کتب احادیث میں بھی… جب اللہ
تعالیٰ ہمیں شعبان دے رہے ہیں… اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر معاملے میں اعلیٰ
رہنمائی فرمانے والے آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم بھی عطاء فرمائے ہیں… تو پھر
ہم… محروم کیوں رہیں؟… آئیے !توفیق مانگتے ہیں:
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ… لَا حَوْلَ
وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ…لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ
شہد جیسے میٹھے شاہ جی کی سنیں
اللہ تعالیٰ نے حضرت شاہ ولی محدث دہلوی رحمہ اللہ کو … چار فرزند عطاء فرمائے… چاروں ماشاء اللہ
ایک دوسرے سے بڑھ کر… چاروں ہی علم کے دریا… علم کے چشمے مگر ذائقہ الگ الگ… اُن
میں جو بڑے حضرت ہیں اُن کا علم انسان کو حیرت زدہ کر دیتا ہے… مزاج کے بہت میٹھے
اور فیض بہت عام… حضرت شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ تفسیروحدیث کے امام…اور زمانے کے نباض… ہمارے مجاہد سیّد
بادشاہ… سیّد احمد شہید رحمہ اللہ انہی
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کے مرید تھے… جبکہ تربیت اُن کے چھوٹے بھائی
حضرت شاہ عبد القادر رحمہ اللہ سے پائی… دل چاہ رہا ہے اور قلم بھی لپک رہا ہے کہ…
اس مبارک خاندان کے بارے میں مزید لکھتا چلا جاؤں… مگر موضوع آج کچھ اور ہے… ہم
سے نیک اعمال ہوتے نہیں… اور گناہ چھوٹتے نہیں… اس پر حضرت شاہ عبد العزیز رحمہ
اللہ کی ایک بات لکھنی ہے…’’ فتاویٰ
عزیزیہ‘‘ کے نام سے کچھ حضرات نے حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کے بعض فتاویٰ، تحقیقات اور ملفوظات جمع کر دئیے
ہیں… چھ سو اکتیس صفحات کی یہ کتاب اردو میں کراچی سے ایچ ایم سعید کمپنی نے شائع
کی ہے… اس کتاب کے صفحہ دو سو چار سے ایک سوال اور اس کا جواب نقل کر رہا ہوں۔
’’سوال: کس چیز کی برکت سے گناہوں
سے نفرت ہوتی ہے اور اطاعت کی رغبت ہوتی ہے؟
جواب: اس مقصد کے لئے یہ مفید ہے’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ
اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ یہ کثرت سے پڑھیں اور نفی اثبات کلمہ توحید (لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللہ)کی اور اس کا ضرب شدو مد کے ساتھ قلب پر لگاتے رہیں اور {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ } اور {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ } صبح و شام
پڑھا کریں یعنی ان امور ( وظائف) سے گناہ سے نفرت ہوتی ہے اور اطاعت کی رغبت ہوتی
ہے۔‘‘ [فتاویٰ عزیزی، ۲۰۴]
جواب کی تشریح
چونکہ رمضان المبارک آ رہا ہے… اور اللہ تعالیٰ نے
’’شعبان‘‘ کو رمضان المبارک کی تیاری کا مہینہ بنایا ہے… اور شعبان کے مہینہ میں
ہر مسلمان کے پورے سال کے اعمال… اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوتے ہیں… یعنی شعبان…
اعمال کی پیشی کا ’’سالانہ امتحان‘‘ ہے… شعبان اچھا گذر جائے تو رمضان المبارک
بہترین نصیب ہوتا ہے… اور رمضان المبارک بہترین مل جائے تو پورا سال اچھا گذرتا
ہے… اور یوں ہمارا زمانہ ،ہماری عمر اور ہمارے اوقات کام کے بن جاتے ہیں…مگر شیطان
یہ راز جانتا ہے… اس لئے وہ شعبان میں غفلت کے حملے کرتا ہے… تاکہ ہم رمضان
المبارک کو اچھی طرح نہ پا سکیں… خود حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ شعبان میں اتنے زیادہ روزے
رکھتے ہیں جتنے اور کسی مہینے میں نہیں رکھتے اس کی کیا حکمت ہے؟ جواب میں فرمایا
کہ… یہ وہ مہینہ ہے جو رجب و رمضان کے درمیان ہے اور لوگ اس سے غافل رہتے ہیں…
حالانکہ اسی مہینے میں اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں… اور میں چاہتا
ہوں کہ میرا عمل ایسی حالت میں پیش ہو کہ میں روزے سے ہوں… اب شیطانی غفلت کا
خاتمہ کس طرح ہو؟ … حضرت شاہ جی رحمہ اللہ
نے تین وظیفے ارشاد فرما دئیے:
١ لَا
حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِکی کثرت
٢
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی کثرت اور اہتمام
٣
معوّذتین کا صبح و شام اہتمام
یہاں ایک بات یاد رکھیں… شعبان کے اصل اعمال دو ہیں:
١ زیادہ
تلاوت
٢
زیادہ روزے
ہم جب شعبان کے بارے میں… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دیکھتے ہیں تو ہمیں زیادہ روزے نظر آتے
ہیں… اس اعتبار سے شعبان کے روزے بہت اہمیت والے بن گئے…حضرت اُمّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا
فرماتی ہیں:
وَمَارَأَیْتُہٗ اَکْثَرَصِیَامًا مِنْہُ فِی شَعْبَانَ ۔
’’ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے علاوہ سب سے زیادہ روزے شعبان میں
رکھتے تھے۔‘‘
[صحیح بخاری۔ باب صوم شعبان۔ حدیث
رقم: ۱۹۶۹۔ ط: دار الکتب العلمیہ، بیروت]
حضرت انس رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں:
وَکَانَ اَحَبُّ الصَّوْمِ اِلَیْہِ فِی شَعْبَانَ۔
’’ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب روزے شعبان کے
تھے۔‘‘
[مسند احمد ۔ج: ۲۱ ص: ۹۵۔ حدیث رقم:۱۳۴۰۳۔ ط: مؤسسۃ الرسالۃ]
حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی
ہیں:
اِنَّہٗ لَمْ یَکُنْ یَصُوْمُ مِنَ السَّنَۃِ شَھْرًا تَامًّااِلَّا شَعْبَانَ یَصِلُہٗ بِرَمَضَانَ۔
’’ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان کا روزہ رکھتے تھے اور شعبان کے
روزوں کو رمضان المبارک کے روزوں سے ملاتے تھے۔‘‘
[سنن ابوداؤد۔ باب فیمن یصل شعبان
برمضان۔ حدیث رقم: ۲۳۳۶۔ ط: دار الکتب العلمیہ، بیروت]
اس روایت کے متعلق حضرات محدثین کرام رحمہم اللہ کا فرمانا ہے کہ… مراد اس سے اکثر شعبان کے روزے
ہیں کہ شعبان کے زیادہ دن آپ صلی اللہ
علیہ وسلم روزے سے ہوتے تھے۔
شعبان کا دوسرا اصل عمل… قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت ہے…
چنانچہ سلف صالحین اس کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے… اور شعبان کو ’’شہر
القراء‘‘ یعنی قاریوں کا مہینہ کہتے تھے… کئی حضرات کے بارے میں تو یہاں تک آتا
ہے کہ وہ اپنے گھروں کے دروازے بند کر لیتے اور شعبان کا مہینہ قرآن مجید کی
تلاوت اور اس کے تدبر میں گذارتے۔
اب یہ دو عمل ہمارے لئے آسان ہو جائیں … اس کے لئے حضرت
شاہ صاحب رحمہ اللہ کا وظیفہ بہترین ہے… نفس کے سرکش گھوڑے کا رخ
موڑنے کے لئے… اور نفس کی سستی کو دور کرنے کے لئے ہم چند دن کثرت سے’’ لَا حَوْلَ
وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ‘‘کا ورد
کریں کم از کم ایک ہزار تا تین ہزار… اسی طرح ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کا
ورد…اور وساوس اور برے اثرات کے خاتمہ کے لئے صبح و شام کثرت سے ’’معوّذتین‘‘ کا
ورد… مجاہدین کرام محاذوں پر اس کا اہتمام کریں… اہل دعوت بھی اپنا کچھ وقت
نکالیں… اور دیگر مسلمان بھی ہوشیار و فکر مند ہو جائیں… اور جو مسلمان… اللہ
تعالیٰ کے فضل و کرم سے ’’بیدار‘‘ ہیں وہ شعبان میں اپنے روزوں اور قرآن مجید سے
تعلق بڑھانے کی ترتیب بنا لیں… ان شاء اللہ ان دو اعمال کی برکت سے اُن کے لئے
باقی نیکیاں بھی آسان ہو جائیں گی۔
مبارک ہو
الحمد للہ جماعت کے زیر اہتمام ’’دورات تفسیر‘‘ کی ترتیب
جاری ہے… آخری مرحلے کے ’’دورات تفسیر‘‘ شعبان میں ہوں گے… اس سال تقریباً چوّن
مقامات پر یہ مبارک دورے رکھے گئے ہیں … جن میں سے بائیس مقامات کے دورے ان شاء
اللہ ’’شعبان‘‘ میں ہوں گے… یوں الحمد للہ یہ دورے پڑھانے اور پڑھنے والوں کو…
روزانہ کئی گھنٹے ’’قرآن مجید‘‘ کا قرب نصیب ہو گا… اور قرآن مجید کا ’’قرب‘‘
اللہ تعالیٰ کے ’’قرب‘‘ کی علامت ہے… ان دورات میں تلاوت بھی ہوتی ہے اور ترجمہ
بھی… فہم بھی ہوتا ہے تفہیم بھی…تذکیر بھی ہوتی ہے اور تدبر بھی …اس لئے ان دوروں
کو اپنے لئے سعادت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قیمتی نعمت سمجھیں… اخلاص اور ذوق و
شوق سے پڑھیں اور پڑھائیں اور ان اوقات کو اپنے لئے سرمایہ آخرت بنائیں … ان
دوروں کو معمولی نہ سمجھیں… یہ اللہ تعالیٰ کے قرب اور تقرب کا بہترین ذریعہ ہیں…
یہ ’’احیاء فرائض‘‘ کی… تحریک کا حصہ ہیں… اور یہ علم کو عمل سے جوڑنے کا ذریعہ
ہیں… بندہ کی طرف سے تمام پڑھانے او رپڑھنے والوں کو مبارکباد۔
شعبان کے دیگر اعمال
١ فرائض
کا اہتمام
٢
رمضان المبارک کے لئے فقراء و مساکین کو شعبان کے آخر میں اموال اور سامان کی
فراہمی
٣ زکوٰۃ
کی خصوصی فکر
٤ اُمت
مسلمہ کے ساتھ مکمل ہمدردی اور یکجہتی
٥ مجاہدین
اور اسیرانِ اسلام کے لئے دعاء… خصوصاً قنوت نازلہ کا اہتمام… اپنے مسلمان رشتہ
داروں اور دیگر مسلمانوں کو معاف کرنا اور ان سے معافی لینا اور اپنے دلوں کو بغض
اور کینے سے پاک کرنا
٦
اہل جماعت کا جہادی محنت اور رمضان مہم میں بھرپور حصہ لینا
یا اللہ!اپنے فضل سے مجھے بھی توفیق عطاء فرما… اور تمام
پڑھنے والوں کو بھی… آمین یا ارحم الراحمین۔لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا
بِاللّٰہِ
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور …641
ایک ’’عالم ربّانی‘‘ کی یاد میں
* حضرت
مفتی رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ
کی
یاد میں ایک خوبصورت تحریر…
* حضرت
والا کی ’’تقویٰ‘‘ سے بھرپور زندگی
کے
چند روشن پہلوؤںپر ایک نظر…
* ’’ترک
منکرات‘‘ یعنی گناہ چھوڑنے کی دعوت
حضرت
والا کا خاص موضوع تھا… بدعات،
منکرات اور خرافات کے سخت مخالف تھے…
* حضرت
والا کی تقریباً ہر تقریر، ہر بیان اور
ہر
مجلس میں ’’تصویر بازی‘‘ پر سخت نکیر کی جاتی تھی…
* حضرت
والا کا نظریۂ جہاد…حضرت والا کا سفر جہاد…
یہ
ہیں اس تحریر کے اہم موضوعات
تاریخ
اشاعت:
۱۰شعبان المعظم۱۴۳۹ھ/بمطابق 27اپریل 2018ء
ایک ’’عالم ربّانی‘‘ کی یاد میں
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا
رَمَضَانَ۔
اور ایک بہت ضروری دعاء…
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْھُدٰی وَ التُّقٰی وَ
الْعَفَافَ وَ الْغِنٰی۔
اور ایک بڑی اہم دعاء…
اَللّٰھُمَّ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ
عَلٰی دِیْنِکَ۔
اور ہماری اہم ضرورت…
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِی
الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔
خوف اور بے پردگی سے حفاظت…
اَللّٰھُمَّ اسْتُرْعَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَوْعَاتِنَا۔
کراچی میں کچھ ہی عرصہ پہلے ایک بزرگ گذرے ہیں
…حضرت مفتی رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ… وہ راسخ فی العلم… محقق اور باعمل عالم
تھے… ماشاء اللہ ’’عالم ربّانی‘‘… اللہ تعالیٰ اُن کو اپنی مغفرت اور اکرام کا
اعلیٰ مقام عطاء فرمائے … اُن کے علم کو زندہ رکھے… اور اُن کے فیوض کو جاری
فرمائے… ’’دعاء‘‘ میں اُن کا حال بڑا عجیب تھا… بہت ڈوب کر ’’دعاء‘‘ مانگتے تھے…
یوں لگتا تھا کہ جیسے گم ہو چکے ہیں… اُن کے آس پاس والے انتظار میں رہتے تھے کہ…
حضرت کب دعاء کے لئے ہاتھ اُٹھاتے ہیں… تاکہ وہ بھی اُن کے ساتھ اس مبارک عمل میں
شریک ہو جائیں… یوں حضرت والا کی وہ انفرادی دعاء بھی اجتماعی رنگ پکڑ لیتی تھی۔
آج کیسے یاد آئی؟
اپنے اکابر و مشائخ تو الحمد للہ کبھی نہیں بھولتے … مگر
کبھی کبھار کسی کی یاد بہت شدت سے آ جاتی ہے… آج صبح سے حضرت اقدس مفتی رشید
احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کی یاد نے گھیراہوا ہے… اُن سے ملاقات اور تعارف اللہ
تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک احسان ہے… وہ میرے باقاعدہ استاذ نہیں تھے مگر الحمد
للہ اُن کی صحبت سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا… اُن کے ساتھ افغانستان
کا ایک یادگار سفر بھی ہوا… اور کئی پرفیض اور پررونق ملاقاتیں نصیب ہوئیں… حضرت
والا نے کئی بار انعامات سے بھی نوازا… اور جہادی تحریر و تقریر کے معاملے میں
میری حیثیت سے بڑھ کر حوصلہ افزائی فرمائی… وہ ایک الگ طبیعت اور مزاج کے بزرگ
تھے… اللہ تعالیٰ نے انہیں رعب سے بھی نوازا تھا اور محبت سے بھی… ترک منکرات یعنی
گناہ چھوڑنے کی دعوت… اُن کا خاص موضوع تھا… خود چونکہ ’’تقویٰ‘‘ کے مقام پر فائز
تھے اس لئے دعوت میںتاثیر بھی بہت تھی… بدعات، منکرات اور خرافات کے سخت مخالف
تھے…داڑھی منڈوانے اور ایک مشت سے کم کرانے کو بڑا سنگین جرم قرار دیتے تھے… اس
موضوع پر اُن کی غیرت اور شدت سنت نبوی کے دفاع میں مکمل عروج پر جا پہنچتی تھی…
اسی کی خاطر اپنے بہت سے اقارب کو کھو دیا مگر آخری دم تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے …
ہاں بے شک! جس موقف کو کسی انسان نے اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے اختیار کیا ہو …
اس پر اسے مرتے دم تک قائم رہنا چاہیے … زمانے کے ساتھ رنگ بدلنے سے وقتی ترقی تو
ملتی ہے… مگر وہ انسان کے کسی کام کی نہیں ہوتی …اسی طرح خواتین کے شرعی پردے کے
معاملے پر حضرت والا کا موقف بالکل دوٹوک اور عام دستور سے ہٹ کر کافی شدید
تھا…ویسے جس طرح شرعی پردہ مسلمانوں میں معدوم ہوتا جا رہا تھا … اس میں ایسے ہی
سخت موقف سے کچھ اصلاح ممکن تھی… اور فتنے کا سیلاب کچھ ٹھنڈا پڑ گیا تھا …تیسری چیز
جس پر حضرت والا کسی بھی طرح کی نرمی یا مفاہمت کے قائل نہیں تھے…وہ تھی تصویر
بازی ، فوٹو بازی ، ویڈیو بازی اور ٹی وی وغیرہ… حضرت والا کی تقریباً ہر تقریر ،
ہربیان اور ہر مجلس میں’’ تصویر بازی‘‘ پر سخت نکیر کی جاتی تھی…حضرت والا نے اس
پر کئی مستقل بیانات بھی فرمائے… ایک رسالہ بھی رقم کرایا اور اسے بڑی تعداد میں
تقسیم فرمایا… اور زندگی کے آخری لمحے تک آپ اپنے اس موقف پر مضبوطی سے ڈٹے رہے…
اب معلوم نہیں وہ رسالہ کہیں ملتا ہو گا یا نہیں؟… اسے شائع کیا جاتا ہو گا یا
نہیں؟۔
دراصل ایک ملاقات میں حضرت والا نے بندہ کو تلقین فرمائی تھی کہ… اپنے
مضامین میں حضرت والا کے رسائل ، مواعظ اور کتابچوں کی دعوت دیا کروں… اپنی نظر
بندی کے دوران بندہ نے اس سلسلے میں مضامین شروع کر دئیے تھے… حضرت والا کے چند
رسائل کا تعارف ان مضامین میں تفصیل سے آ گیا تھا… مگر پھر یہ سلسلہ جاری نہ رہ
سکا اور ناگزیر وجوہات کی وجہ سے وہ کالم ہی بند کرنا پڑا… آج مجھے پھر حضرت والا
کا وہ حکم یاد آیا… تب خیال آیا کہ… اکابر کی باتوں میں کس قدر حکمت ہوتی ہے…
حضرت مفتی رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کے انتقال کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا…
اتنے بڑے عالم اور علامہ جن کے ہزاروں شاگرد ہیں … مگر آج اُن کے نظریات کو
سمجھنے کے لئے…اُن کی اپنی تحریروں اور تقریروں کے علاوہ اور کوئی ذریعہ موجود
نہیں ہے … یقیناً بہت سے افراد… اب بھی حضرت والا کے نظریات اور فرمودات پر عمل کرتے
ہوں گے …اور یہ بھی درست ہے کہ حضرت والا صرف دو چار مشہور مسائل کا نام نہیں تھے
… مگر پھر بھی کچھ اکابر کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ… اُن کے انتقال کے بعد… اُن کا
نام، اُن کے مشہور نظریات اور اُن کا تذکرہ کچھ عرصہ کے لئے گم ہو جاتا ہے… لیکن
ایک عرصہ گذرنے کے بعد پھر اچانک دھند چھٹتی ہے اور اُن کا نام اور کام چمکنے لگتا
ہے… میں اسلامی تاریخ سے ایسی کئی مثالیں پیش کر سکتا ہوں… امت میں کئی ایسے حضرات
بھی گذرے ہیں کہ اُن کے انتقال کے بعد اُن کا نام لینے…اور اُن کی کتابیں گھر
رکھنے تک کو جرم قرار دیا گیا… مگر کچھ عرصہ گذرنے کے بعد دھند چھٹ گئی… اور اُن
کا نام اور کام دوبارہ زندہ ہو گئے … وجہ یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ کیا ہوا کوئی عمل
ضائع نہیں ہوتا… اور کوئی بھی نمائشی کام زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہتا… اللہ تعالیٰ
کا فیصلہ ہے کہ… {اَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَاءً} [الرعد: ۱۷] … جھاگ بالآخر مٹ جاتی ہے… جب سیلاب آتا ہے تو جھاگ ہر طرف چھا جاتی ہے اور
پانی اس کے نیچے گم ہو جاتا ہے … بظاہر یہی لگتا ہے کہ اب ہمیشہ اسی طرح رہے گا…
مگر پھر اچانک جھاگ ختم ہونے لگتی ہے اور پانی باقی رہتا ہے…{وَ اَمَّامَایَنْفَعُ
النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ} [الرعد:۱۷] … یعنی جس چیز سے انسانوں کو
فائدہ ہوتا ہے وہ زمین پر برقرار رہتی ہے… اور اصل فائدہ… آخرت کا فائدہ ہے، دین
کا فائدہ ہے۔
حضرت بری ہیں
آج صبح ایک بیان سنا… یہ بیان حضرت والا کی طرف منسوب
ادارے میں کیا گیا اور اس میں جہاد فی سبیل اللہ کی مخالفت کی گئی … اور مقدس
افغان جہاد کو امریکی جنگ کہا گیا… تب مجھے وہ منظر یاد آ گیا جب… افغان جہاد کی
نمایاں شخصیت حضرت مولانا جلال الدین حقانی رحمہ اللہ … جو کہ ’’شامل ثانی‘‘ اور
’’فاتح خوست‘‘کے لقب سے معروف ایک … مثالی مجاہد اور عالم ربّانی تھے… اور یہ
امارت اسلامی سے پہلے کے دور کا جہاد تھا … حضرت حقانی کراچی تشریف لائے تھے … اور
حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ نے آپ کا والہانہ استقبال فرمایا
تھا…حضرت والا کے علمی ادارے میں حضرت حقانی کا مفصل بیان ہوا… اور پھرحضرت اقدس
مفتی رشید احمد صاحب نور اللہ مرقدہ نے افغانستان کا جہادی سفر کیا… اور اس دورے
میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ… اگر میں جہاد میں شرکت کے لئے یہ سفر نہ کرتا تو میری
زندگی ادھوری رہ جاتی…بہرحال حضرت والا افغان جہاد کو شرعی جہاد سمجھتے تھے اور جو
کچھ آج ہم سن رہے ہیں وہ بیان کرنے والوں کے اپنے نظریات ہیں… جبکہ حضرت والا ان
افکار و نظریات سے بری ہیں۔
ایک گزارش
میرے اس کالم کا مقصد کسی پر تنقید کرنا نہیں ہے… مجھے
تنقید کرنے سے ڈر لگتا ہے… کیونکہ جب تک اپنا خاتمہ ایمان پر نہ ہو جائے… اس وقت
تک ہر انسان خود خطرے میں رہتا ہے…جو لوگ دین کا کام کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اُن
سب کی نصرت اور رہنمائی فرمائے… آپ اگر میرے آج کے مضمون کو غور سے پڑھیں گے تو…
آپ کو اس میں کہیں بھی کسی پر تنقید نظر نہیں آئے گی… اکابر و مشائخ سب کے مشترک
ہوتے ہیں… حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ بھی … ہم سب کے بزرگ تھے… اُن کی یاد میں درست
اور اچھی باتیں لکھنا اور بولنا یہ سب کا حق ہے… اگر کل اُن کے اپنے ادارے کے
اجتماع میں… انہیں یاد نہیں کیا گیا… تو یہ بھی کوئی عیب کی بات نہیں… اہل اختیار
کو اپنے معاملات کا خود اختیار ہوتا ہے… اور اگر آج ہم نے اپنی مجلس کو اُن کے
تذکرے سے مہکایا ہے تو اس پر بھی کسی کے لئے اعتراض کی گنجائش نہیں ہے… اللہ تعالیٰ
حضرت والا کی اُن باتوں کو… جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں امت میں جاری اور زندہ
فرمائے… اور ہم میں سے جس کی بھی جو بات اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے اور امت کے
لئے نافع نہیں ہے… اللہ تعالیٰ اسے مٹا دے… معاف فرما دے… بندہ آپ سب سے حضرت
والا کے مواعظ اور رسائل پڑھنے کی گذارش کرتا ہے۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 642
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَعْبَانَ
* رمضان
المبارک کی تیاری شعبان میں ہی کر لینی چاہئے
* خواتین
اسلام میں نماز کی سستی اور بے پردگی کی نحوست…
* اگر
ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے بدلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی پیشکش ہوتی ہے
تو حکومت کو اس پر فوراً عمل کرنا چاہئے…
* ’’رزق‘‘ کا معاملہ بہت حساس ہے۔ بہت سے اعمال اور
گناہ ایسے ہیں جن کی نحوست سے رزق کی برکت چلی جاتی ہے…
* وہ
اعمال کون کون سے ہیں؟…
* رزق
میں کشادگی اور برکت کے لئے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کےدو
مجرب اور مفید وظائف…
تاریخ
اشاعت:
۱۷شعبان المعظم۱۴۳۹ھ/بمطابق4مئی 2018ء
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَعْبَانَ
اللہ تعالیٰ برے خاتمے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے… حضرت سیّد
احمد شہید رحمہ اللہ جب سکھوں کے خلاف
جہاد کر رہے تھے تو عین لڑائی کے دوران ایک سکھ مسلمان ہو کر اسلامی لشکر میں شامل
ہو گیا اور شہید ہوا…جبکہ ایک مسلمان مرتد ہو کر سکھوں کے ساتھ جا ملا اور اسی
لڑائی میں مردار ہو گیا… ایک خاتون نے اپنا واقعہ لکھا ہے کہ… وہ ایک جگہ’’میت‘‘
کو غسل دینے کے لئے گئی… جس مردہ عورت کو غسل دینا تھا اس کا چہرہ غسل کے دوران
کوئلے کی طرح سیاہ ہو گیا… اور اس کے جسم کا گوشت ہاتھ لگانے سے پھٹنے لگا…یا
اللہ! رحم… کسی نے بتایا کہ… نماز نہیں پڑھتی تھی اس لئے چہرہ سیاہ ہو گیا… اور
جسم کی نمائش کرتی تھی…پردہ نہیں تھا … تو جسم اس طرح پھٹنے لگا…آج صبح کی نماز
میںکتنی مسلمان خواتین بروقت بیدار ہوتی ہیں؟… آج کتنی مسلمان عورتوں کو اپنا جسم
اچھی طرح چھپانے کی فکر ہے؟… مسلمان عورت کا باعزت لباس… سیدھا سادہ، ڈھیلا ڈھالا
اچھی طرح جسم کو چھپانے والا ہوتا ہے… نہ بے پردہ، نہ تنگ… بس چند دن بعد ہی ہم نے
ڈھیلا ڈھالا کفن پہن لینا ہے… یا اللہ!برے خاتمے سے ہم سب کی حفاظت فرما۔
مبہم خبر
خبروں کا تو پتا نہیں چلتا کہ کون سی سچی ہے اور کون سی
جھوٹی… ویسے اکثر جھوٹی ہوتی ہیں… اور صحافت ایک ’’مافیا‘‘ بن چکی ہے… ایک خبر یہ
چل رہی ہے کہ امریکی مخبر ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکہ کے دباؤ میں آ کر رہا
کیا جا رہا ہے… اگر یہ سچ ہے تو بہت خطرناک ہے… اس طرح کے مجرم کو… کسی کے دباؤ
میں ہرگز رہا نہیں کرنا چاہیے… اس سے ملکی سلامتی اور وقار کو ناقابل تلافی نقصان
پہنچتا ہے … اور آئندہ بہت سے لوگ دشمنوں کے ایجنٹ بن جاتے ہیں۔
دوسری خبر یہ چل رہی ہے کہ… ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے
بدلے امریکی حکومت نے بہن جی ڈاکٹر عافیہ صدیقی حفظہا اللہ کی رہائی کی پیشکش کی
ہے… اگر ایسا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پریہ پیشکش قبول کر لے… اس سے ملک
کے وقار میں اضافہ ہو گا… اور امت مسلمہ کو اجتماعی روحانی خوشی اور فتح نصیب ہو گی…امریکہ کے لئے
پاکستان میں مخبروں کی کمی نہیں ہے… یہاں بے شمار ڈاکٹر شکیل اور حسین حقانی موجود
ہیں… بلکہ یہاں تو ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو امریکہ کا خود امریکیوںسے زیادہ
وفادار ہے… اس لئے ڈاکٹر شکیل کے امریکہ جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا …
کیونکہ اس صورت میں اسے امریکہ کے دباؤ میں نہیں… بلکہ ایک محترم پاکستانی شہری
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بدلے رہا کیا جائے گا… اللہ کرے ایسی کوئی خیر کی صورت جلد
وجود میں آ جائے۔
حضرت شاہ صاحب کا تحفہ
رزق کے معاملے میں بہت سے مسلمان پریشان رہتے ہیں… اللہ
تعالیٰ ہر مسلمان کو رزق حلال باکفایت عطاء فرمائے…رزق اور مال کے بارے میں شیطان
ہمیشہ انسان کو بے چین اور غیر مطمئن رکھتا ہے… اور یہ بے چینی کسی انسان کے انجام
اور خاتمے کو خراب کر دیتی ہے… ہر وقت اللہ تعالیٰ سے شکوہ… ہر وقت اللہ تعالیٰ سے
ناراض اور روٹھے روٹھے… کہ فلاں کو اتنا دیا ہمیں کیوں نہیں دیا… استغفر اللہ ،
استغفر اللہ… فلاں کے پاس کئی کئی کوٹھیاں اور میرے پاس سرچھپانے کا گھر بھی نہیں؟
… فلاں کے پاس اتنے پیسے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں… وغیرہ وغیرہ… یہ صورتحال
خطرناک ہے… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو قناعت اور اطمینان عطاء فرمائے… قناعت
اور اطمینان ہو تو انسان کا خاتمہ اچھا ہوتا ہے… کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے خوش اور
مطمئن ہوتا ہے … بہرحال رزق کی تنگی اگر کسی کو لاحق ہو تو اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ
کرے بلکہ اپنے حالات پر غور کرے… ہمارے بہت سے اعمال اور بہت سے گناہ ایسے ہیں جن
کی نحوست… رزق کی برکت کو ختم کر دیتی ہے۔
ہم اگر حسد چھوڑ دیں تو رزق میں برکت آ جاتی ہے… ہم غیبت
چھوڑ دیں تو رزق میں برکت آ جاتی ہے… ہم
دوسروں کے مال سے اپنی نظر ہٹا لیں تو رزق میں برکت ہو جاتی ہے… ہم خیانت چھوڑ دیں
تو رزق میں اضافہ ہو جاتا ہے… ہم اپنے موجودہ رزق پر شکر ادا کریں تو ہمارا رزق
بڑھ جاتا ہے… ہم اپنی آمدن کا کم از کم پانچ فی صد جہاد اور مسلمانوں کی مدد پر
لگائیں تو ہمارے مال میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے… ہم اگر رزق ضائع کرنا چھوڑ دیں تو
رزق میں برکت آ جاتی ہے… ہم اگر نماز کا ہمیشہ وقت پر اہتمام کریں اور ایک نماز
بھی قضا نہ کریں تو رزق میں برکت آ جاتی ہے… ہم اگر ’’ سُبْحَانَ اللہِ وَ
بِحَمْدِہٖ‘‘ کو اپنا مستقل وظیفہ بنا لیں… مثلاً ہر نماز کے بعد ایک سو مرتبہ تو
ہمارے رزق کی تنگی دور ہو جاتی ہے…ہم اگر عزم کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کبھی
کسی سے نہیں مانگیں گے تو ہمارے رزق میں بہت برکت آ جاتی ہے…ہم اگر اپنے جسم ،
اپنے لباس، اپنے بستر اور اپنے گھر کو اچھی طرح پاک رکھیں تو ہمارے رزق میں برکت
آ جاتی ہے… ہم اگر فجر اور عصر کے بعد اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ڈوب جائیں تو ہمیں
رزق کے بارے میں بے فکری نصیب ہو جاتی ہے۔
بہرحال رزق کا معاملہ بہت اہم ہے… اس کا ہماری زندگی سے اور
پھر ہمارے ’’خاتمے‘‘ سے گہرا تعلق ہے… اللہ تعالیٰ ہم سب کے رزق کا معاملہ خالص
اپنی رضا کے مطابق بنا دے… حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے رزق میں برکت اور فراخی کے لئے دو مفید اور
مجرب وظائف لکھے ہیں… شعبان کا برکت والا مہینہ چل رہا ہے… اللہ تعالیٰ ہم سب کو
شعبان کی برکت عطاء فرمائے…
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا
رَمَضَانَ…
وہ مسلمان جو رزق کی پریشانی میں ہیں وہ… اللہ تعالیٰ پر
کامل یقین رکھتے ہوئے یہ دونوں وظائف… یا ان میں سے ایک کو اپنے عمل میں لے
آئیں…ان شاء اللہ بہت خیر ہو جائے گی… حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
١ ’’بوقت
چاشت چار رکعت نماز پڑھیں اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد سجدہ کریں اور سجدہ میں
ایک سو چار مرتبہ ’’یَا وَھَّابُ‘‘ پڑھیں… اور اگر فرصت نہ ہو تو صرف پچاس بار
پڑھیں۔‘‘
٢ ’’مغرب
کے بعد ایک بار سورۂ واقعہ پڑھیں… پھر عشاء کے بعد بھی ایک بار سورۂ واقعہ پڑھیں
اور اکیس بار سورہ ٔمزمل پڑھیں۔‘‘ [فتاویٰ
عزیزی]
بے شک یہ دونوں وظائف بہت نافع اور مجرب ہیں… اور چند بار
کرنے سے ہی کام بن جاتا ہے ،ان شاء اللہ۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 643
بہت قریب
* انسان
کاا پنا مال کونسا ہے؟…
* انسان
فطری طور پر مال سے محبت رکھتا ہے … اس کے لئے کسی ترغیب کی ضرورت نہیں مگر منبر
رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بیٹھنے والے علماء کرام کی ذمہ داری کیا ہے؟…
* سیّدنا
حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے
’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کے کچھ واقعات…
* سیّدنا
حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے مال میں برکت اور مال کے بارے میں ان کا طرز
عمل…
* امام
بخاری ة رحمہ اللہ کا ایک لاجواب ’’ترجمۃ
الباب‘‘ اور زمانہ حال کے کچھ ’’لوگوں‘‘ کی غلط روش… نصیب اپنا اپنا
’’مال‘‘
کو قیمتی بنانے اور ’’مال‘‘ کے ’’فتنے‘‘
سے
بچنے کی راہ دکھاتی ایک راہنما تحریر
تاریخ
اشاعت:
۲۴شعبان المعظم۱۴۳۹ھ/بمطابق11مئی 2018ء
بہت قریب
اللہ تعالیٰ ہمارے مال کو ’’ہمارا‘‘ بنائے… اسے ضائع ہونے
سے بچائے۔ ( آمین)
انسان کا اپنا مال وہ ہے… جو آخرت کی ہمیشہ والی زندگی میں
کام آئے… جو اسے اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب سے بچائےجو اسے قبر کی سختی اور
جہنم کی آگ سے بچائے… یا جو اس کی ضروری حاجات میں استعمال ہو جائے… اور اسے
لوگوں سے سوال کرنے سے بچائے۔
حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ
حضرت سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ … بڑے اونچے صحابی ہیں… عشرہ مبشرہ
میں سے ہیں… اصحاب بدر میں سے ہیں… غزوۂ بدر سے لے کر آخر عمر تک جہاد سے کبھی
پیچھے نہ ہٹے… حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم کی دعاء کی برکت سے اُن کے مال اور
ہاتھ میں عجیب برکت تھی… دن رات جہاد فی سبیل اللہ اور دین کے کاموں پر مال خرچ
فرماتے تھے… مگر مال کم ہونے کی بجائے بڑھتا چلا جاتا تھا… مال کی مشغولیت کی وجہ
سے نہ کبھی جہاد چھوڑا اور نہ کبھی عبادات میں کوئی کمی فرمائی… غزوہ ٔتبوک کے لئے
بہت بڑی رقم ’’چندہ‘‘ فرمائی… اُن کا مال مسلسل خرچ ہونے کے باوجود چونکہ بڑھتا جا
رہا تھا اس لئے وفات کے بعد میراث میں بھی… کافی خطیر رقم چھوڑی … لوگ اُن کی
میراث کا تذکرہ منہ میں پانی بھر کر کرتے ہیں کہ… اتنے ٹن سونا اپنے ورثاء کے لئے
چھوڑ گئے… حالانکہ ہمیں منہ میں پانی بھر کر یہ تذکرہ کرنا چاہیے کہ… انہوں نے
جہاد پر کتنا خرچ فرمایا… دین پر کتنا لگایا… اور اہل عزت پر کتنا خرچ فرمایا…
آئیے! اُن کے بعض واقعات پڑھتے ہیں… امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
١ ’’حضرت
عبد الرحمٰن بن عو ف رضی اللہ عنہ نے
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنا آدھا مال چار ہزار درہم اللہ
کے راستے میں صدقہ کئے… پھر چالیس ہزار صدقہ کئے، پھر چالیس ہزار دینار صدقہ کئے،
پھر پانچ سو گھوڑے اللہ کے راستے میں دئیے، پھر ڈیڑھ ہزار اونٹ اللہ کے راستے میں
دئیے، اُن کا اکثر مال تجارت کے ذریعہ کمایا ہوا تھا۔‘‘
٢ ’’حضرت
عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی
ایک زمین چالیس ہزار دینار میں بیچی اور یہ ساری رقم قبیلہ بنو زہرہ، غریب
مسلمانوں، مہاجرین اور حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں تقسیم کر
دی،اس میںسے کچھ رقم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
کی خدمت میں بھیجی، انہوں نے پوچھا:یہ مال کس نے بھیجا؟ عرض کیا: حضرت عبد
الرحمٰن بن عوف نے۔پھر مال لے جانے والے نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے زمین بیچنے اور اس کی ساری قیمت
تقسیم کر دینے کا قصہ بیان کیا، اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
نے فرمایا کہ حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے بعد تو
ازواج مطہرات کے ساتھ شفقت کا معاملہ صرف صابر ( ثابت قدم) لوگ ہی کریں گے…پھر
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دعاء دی کہ
اللہ تعالیٰ عبد الرحمٰن بن عوف کو جنت کے سلسبیل چشمے سے پلائے۔‘‘
٣ ’’ایک
بار حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی
زیادہ مالداری پر کچھ تحفظ کا اظہار فرمایا تو اسے سن کر حضرت عبد الرحمٰن بن عوف
رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا تجارتی قافلہ
جو کہ سات سو اونٹوں پر مشتمل تھا… سارے سامان تجارت اور اونٹوں سمیت اللہ تعالیٰ
کے راستے میں دے دیا…جبکہ غزوۂ تبوک میں آپ نے دو سو اوقیہ چاندی صدقہ فرمائی۔‘‘ [ ملخص حیاۃ الصحابہ]
مسلمانوں کو چاہیے کہ… حضرت سیّدنا عبد الرحمٰن بن عوف رضی
اللہ عنہ کے واقعات معلوم کریں اور توجہ سے پڑھیں تاکہ… مال خرچ کرنے کی صفت نصیب
ہو… اور ہمارا مال ’’ہمارا‘‘ بن جائے۔
حضرت سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ
حضرت سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ … بڑے اونچے درجے کے صحابی
ہیں… عشرہ مبشرہ میں سے ہیں… اصحاب بدر میں سے ہیں… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار ہیں… حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے داماد ہیں… اور اسلام کے لئے سب سے پہلے
تلوار اُٹھانے والے جانثار ہیں…انہوں نے اپنے ترکے میں کافی مال چھوڑا … حالانکہ
نہ تجارت کرتے تھے، نہ دنیا کے کاموں میں کبھی مشغول ہوئے… نہ کبھی کوئی عہدہ قبول
فرمایا … اور نہ کسی بڑی تنخواہ والے منصب پر رہے… ساری زندگی جہاد میں گذری… حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم … اور پھر حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت
عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور کی
تقریباً تمام جنگوں میں شریک رہے… اس جہاد کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مال میں بے
پناہ برکت عطاء فرما دی تھی…مال غنیمت میں سے کچھ اپنے خیر خواہ دوستوں کو دیتے وہ
تجارت میں لگا کر… نفع کما دیتے… غنیمت میں غلام ملتے تو وہ بھی کما کر لے آتے…
مگر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو نہ اپنے مال کا کچھ حساب معلوم تھا اور نہ وہ اپنے
ذہن کو جہاد سے ہٹا کر کسی کام میں مشغول فرماتے تھے… لوگ اُن کے پاس امانت
رکھوانے آتے تو فرماتے :امانت نہیں قرضہ کے طور پر دے دو… پھر وہ مال خرچ ہو
جاتا… کیونکہ جہاد اور دین کے کاموں پر مسلسل خرچ کرتے رہتے تھے… آپ کے ایک ہزار
غلام جب شام کو اپنی کمائی لا کر آپ کو دیتے تو اگلے دن سے پہلے آپ وہ سب تقسیم
فرما دیتے …یوں آپ کے ذمہ کافی قرضہ چڑھ گیا… شہادت سے کچھ پہلے اپنے صاحبزادے کو
وصیت فرمائی کہ… میرا قرضہ ادا کر دینا… اگر کہیں مشکل ہو تو میرے مولیٰ سے مدد
مانگ لینا… صاحبزادے نے پوچھا کہ آپ کا مولیٰ کون ہے؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ…عربی
میں مولیٰ چونکہ کئی معانی میں آتا ہے …اس لئے صاحبزادے نے وضاحت لے لی… قرضہ بہت
زیادہ تھا… جبکہ مال کچھ بھی موجود نہیں تھا… بس کچھ غیر منقولہ جائیداد تھی…
بظاہر یوں لگتا تھا کہ… ساری جائیداد بیچ کر بھی قرض ادا نہ ہو سکے گا… مگر جب
بیچنا شروع ہوئے تو برکت اُتر آئی… سارا قرض اُتر گیا… اور پھر بھی چھ کروڑ کے لگ
بھگ مال ورثاء کے لئے بچ گیا۔
قسمت کی بات ہے
ایک ہی واقعہ ہے کہ… حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا ترکہ چھ کروڑ کے لگ بھگ تھا… اس واقعے کو
امام بخاری رحمہ اللہ … دعوت جہاد بنا
دیتے ہیں … چنانچہ بخاری شریف میں آپ رحمہ اللہ نے یہ واقعہ بیان کرنے کے لئے… یہ عنوان باندھا
ہے:
بَابُ بَرَکَۃِ الْغَازِیْ فِیْ مالِہٖ
حَیًّاوَمَیِّتًا مَعَ النَّبِیِّ صلی
اللہ علیہ وسلم وَ وُلَاۃِ الْاَمْرِ۔
’’حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے امراء کے ساتھ مل کر جہاد کرنے والے
غازی کے مال کی برکت، زندگی میں اور وفات کے بعد۔‘‘
اس میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی نکتے سمجھا دئیے:
١مجاہد فی سبیل اللہ کو برکت نصیب
ہوتی ہے۔
٢ مال
کی کثرت اور چیز ہے اور مال کی برکت اور چیز ہے۔
٣ حضرت
زبیر رضی اللہ عنہ نے کوئی مالی پیشہ یا مصروفیت اختیار نہیں فرمائی بلکہ جہاد ہی
میں لگے رہے… مگر پھر بھی اُن کے مال میں برکت ہوتی رہی۔
٤ جہاد
فی سبیل اللہ برکتیں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
٥ حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد بھی جہاد کا حکم باقی رہا اور
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے
اپنے خلفاء کرام کے ساتھ مل کر جہاد کیا۔
یہ تو ہوئی امام بخاری رحمہ اللہ کی قسمت کہ… ایک صحابی کے ترکے اور میراث کو بھی
دینی اور جہادی دعوت بنا کر پیش کیا… جبکہ بعض لوگ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا ترکہ بیان کرکے… لوگوں کو ملٹی نیشنل کمپنیاں
اور این جی اوز بنانے کی دعوت دے رہے ہیں… وہ کہتے ہیں کہ… حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے ترکے میں چونکہ چھ کروڑ چھوڑے اس لئے
تمام مسلمان زیادہ سے زیادہ مال بنائیں…ملٹی نیشنل کمپنیاں کھولیں… این جی
اوزبنائیں… وغیرہ وغیرہ… مال کی دعوت کا یہ اسلوب نہ تو قرآن مجید کے اسلوب سے
ملتا ہے …نہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم
نے یہ طریقہ اختیار فرمایا… اور نہ حضرات
محدثین نے اس طرز کو اپنایا… معلوم نہیں… یہ لوگ کس کے طریقے پر چل رہے ہیں… اور
مسلمانوں کو کیا سکھانا چاہتے ہیں؟
اس ترغیب کی کیا ضرورت ہے؟
انسان فطری طور پر مال سے محبت رکھتا ہے … دنیا میں بہت کم
ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مال سے محبت نہ رکھتے ہوں… آپ کسی کو ترغیب دیں یا نہ دیں…
مال کی طرف ہر شخص خود ہی دوڑ رہا ہے… مگر منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بیٹھنے والے علماء کرام کی کیا ذمہ داری ہے؟
… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
اِنَّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ فِتْنَۃً وَفِتْنَۃُ اُمَّتِیْ
الْمَالُ ۔
’’بے شک ہر امت کے لئے ایک بڑا
فتنہ ہوتا ہےاور میری امت کا بڑا فتنہ مال ہے۔‘‘
[سنن ترمذی۔ حدیث رقم: ۲۳۳۶، ناشر: دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم کا ارشادمبارک ہے:
’’میں تم پر فقر وفاقہ کے آنے سے
نہیں ڈرتا لیکن مجھے تمہارے بارے میں یہ ڈر ضرور ہے کہ دنیا تم پر زیادہ وسیع کر
دی جائے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر وسیع کی گئی تھی پھر تم اس کو بہت زیادہ
چاہنے لگو جیسا کہ انہوں نے اس کو بہت زیادہ چاہا تھا اور پھر وہ (یعنی دنیا کی
وسعت) تم کو تباہ کر دے جس طرح اس نے تم سے پہلوں کو تباہ کر دیا ۔‘‘
[صحیح بخاری۔ حدیث رقم:۶۴۲۵،ناشر:دار الکتب العلمیہ۔ بیروت]
یہ ہے دنیا کے بارے میں…’’ نبوی دعوت‘‘ کا انداز… لوگ دنیا
کی طرف طبعی طور پر دوڑ رہے ہوتے ہیں… تب حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کے
متبعین میدان میںآ کر… لوگوں کو دنیا کی حقیقت بتاتے ہیں… وہ انہیں دنیا میں
زیادہ مشغول ہونے سے روکتے ہیں… وہ انہیں مال خرچ کرنے کی جگہیں بتاتے ہیں… وہ
انہیں فرائض پر مال لگانے کی دعوت دیتے ہیں … اور وہ اُن میں حُبّ دنیا کے جراثیم
کم کرتے ہیں۔
آہ افسوس!
آج عالم کفر نے معاشی طور پر… ساری دنیا کو جکڑ لیا ہے…
سود کی لعنت پر مبنی آج کا معاشی نظام غلامی کا سب سے بڑا پھندہ ہے… جب مسلمان اس
نظام کی گرفت میں آ جاتے ہیںتو پھر نہ انہیں دین یاد رہتا ہے اور نہ جہاد… بلکہ
وہ کفار کے ہاتھوں مجبور محض بن جاتے ہیں… اور تو اور وہ اپنے مظلوم مسلمان
بھائیوں کے لئے آواز تک نہیںاُٹھا سکتے… کیونکہ اس سے اُن کے کاروباری مفادات …
خطرے میں پڑتے ہیں … آج کوئی مسلمان ملٹی نیشنل کمپنی اس وقت تک نہیںبنا
سکتا جب تک وہ… دشمنان اسلام کے سودی نظام
کو پوری طرح اپنے اوپر مسلط نہ کر لے… اور اس سودی نظام کی شرائط کوقبول نہ کر
لے…ان حالات میں علماء کرام کے لئے جائز نہیں ہے کہ… وہ مسلمانوں کو جمع کر
کے…زیادہ کمانے، زیادہ بنانے اور کمپنیاں کھڑی کرنے کی دعوت دیں… اگر انہوں نے
ایسی دعوت دی اور کسی نے اُن کی دعوت قبول کرتے ہوئے اس آگ میں چھلانگ لگا لی تو…
سود خوری، سود بازی اور سود کی اشاعت کا سارا وبال اُن علماء پر ہو گا جنہوں نے یہ
دعوت دی تھی… ہاں !اگر اسلامی حکومت ہو… اور اس حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے ایسی
دعوت دی جائے تو اچھی بات ہے… فی الحال علماء کرام کا کام یہ ہے کہ …وہ لوگوں کو حلال
مال کمانے… اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے… مال کے بارے میں اسلامی احکامات کی
پیروی کرنے… اور جہاد پر زیادہ سے زیادہ مال خرچ کرنے کی دعوت دیں …جہاد ہو گا تو
کفر کا نظام ٹوٹے گا… آزادی ملے گی… اور تب اسلامی معیشت اپنے قدموں پر خود بخود
مضبوط کھڑی ہو جائے گی،ان شاء اللہ… ہماری
یہ باتیں… آج کے مسلمانوں کو… بہت دور کے خواب لگتے ہیں… مگر حقیقت میں ایسا نہیں
ہے… اسلام کے غلبے کا دور بہت قریب ہے… بہت قریب… بقدرۃ اللہ، ان شاء اللہ۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 644
اُحِبُّکَ یَا رَمَضَانُ!
*
’’القدس‘‘ کو اسرائیلی دار الحکومت تسلیم کرنے کا
امریکی
فیصلہ اور مسلمانوں کی بے چینی…
* اہل
غزہ کی ہمت، جرأت اور قربانی…
* انبیاءکرام
علیہم السلام رحمت کا پیکر ہوتے ہیں، مگر
مخلوق پر رحمت اس وقت تک مکمل نہیں ہو تی جب تک کہ مخلوق کے دشمنوں پر سختی
نہ کی جائے…
* جب
کوئی کافراپنے ظلم میں تجاوز کرجائے تو اس کے خلاف بددعاء کرنا قرآن کریم کا
حکم،انبیاء علیہم السلام کی سنت اور عظیم
عبادت ہے اور یہ عمل عظیم اخلاق کا حصہ ہے…
* کافروں
کیلئے ’’بددعاء‘‘ سے روکنے والے قرآن کریم،
سنت
نبوی اور مزاج اسلام سے ناواقف ہیں…
* ’’بد
دعاء‘‘ کا فطری نظام، اس فطری نظام کے فوائد اور
اس
کی مخالفت کا انجام…
* ’’شہر
رمضان‘‘ کتاب کی افادیت عامہ اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر…
یہ
ہیں اس مبارک تحریر کے اہم مضامین
تاریخ اشاعت:
۲رمضان
المبارک۱۴۳۹ھ/بمطابق18مئی 2018ء
اُحِبُّکَ یَا رَمَضَانُ!
اللہ تعالیٰ کی عظیم کتاب ’’قرآن مجید‘‘ کا گیارہواں پارہ
کھولیں… سورۃ یونس کی آیت رقم ٨٨ دیکھیں… اللہ تعالیٰ کے دو پیغمبر ایک ’’ظالم
کافر‘‘ کے لئے بد دعاء فرما رہے ہیں… حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے یہ ’’دعاء‘‘ فرمائی اور حضرت ہارون علیہ
السلام نے آمین فرمائی:
{رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰی
اَمْوَالِھِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوا حَتّٰی یَرَوُا
الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ}
’’اے ہمارے رب ! فرعون اور اس کے
ساتھیوں کے مال و دولت کو تباہ فرما دے، اُن کے دلوں پر گرہ لگا دے تاکہ وہ دردناک
عذاب دیکھنے سے پہلے ایمان نہ لائیں۔‘‘
[یونس: ۸۸]
موت سے پہلے پہلے ایمان بھی قبول اور توبہ بھی قبول… مگر جب
کسی کافر کی موت کا دردناک عذاب اس پر شروع ہو جائے… موت کی سکرات کا آغاز ہو
جائے تو پھر اس وقت نہ ایمان قبول نہ توبہ قبول…اللہ تعالیٰ نے یہ دعاء قبول
فرمائی… اگلی آیت میں اس قبولیت کا ذکر موجود ہے۔
آج جبکہ ’’غزہ‘‘ لہولہان ہے… ہر گھر میں جنازے ہیں… ہر گھر
میں زخمی مسلمان کراہ رہے ہیں… رمضان المبارک میں صرف ایک دن باقی ہے اور ہمارے
فلسطینی بھائی کل سے آج تک اپنے پچپن جنازے اُٹھا چکے ہیں…کتنی ماؤںکی گود اُجڑ
گئی…اُن کے معصوم پھول آگ اور بارود سے کچل دئیے گئے… کتنی بہنیں بیوہ ہو
گئیں…اور ساتھ ساتھ تین ہزار زخمی…ہر گھر میں آہیں ہر گھر میں سسکیاں… مگر اس کے
باوجود تکبیر کے فلک شگاف نعرے…اور آزادی کے نہ مٹنے والے ولولے… یہ نیا قتل عام…
زمانے کے فرعون… ناپاکی کے مجسمے… بے حیائی کے پیکر… ڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے ہوا… اس
نے ’’بیت المقدس‘‘ کے قریب اپنا ’’سفارت خانہ‘‘ منتقل کرنے کے لئے اپنی ’’یہودن‘‘
بیٹی کو بھیجا… اور یوں القدس( یروشلم) کو یہودیوں کا دارالحکومت تسلیم کر لیا… اس
پر فلسطینی مسلمان بے چین ہوئے اور چالیس ہزار افراد نے ایک بارُعب مظاہرہ کیا اور
اسرائیل کی ’’باڑ‘‘ کی طرف بڑھے … بزدل یہودیوں کی روحیں ان کے گلوں تک آ پہنچیں
اور انہوں نے… نہتے مظاہرین پر شدید فائرنگ کر دی… اس میں بچوں سمیت پچپن مسلمان
شہید جبکہ تین ہزار زخمی ہو گئے… ٹرمپ کا نجس چونے جیسا منہ مسلمانوں کے خون سے
سرخ ہو گیا… اور نیتن یاہو کے دانتوں سے مزید لہو ٹپکنے لگا…آئیے! ان مبارک
گھڑیوں میں… ٹرمپ، نیتن یاہو اور ان کے حواریوں کے لئے حضرت کلیم اللہ علیہ السلام
کی سنت زندہ کرتے ہوئے بددعاء کریں:
{رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰی
اَمْوَالِھِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوا حَتّٰی یَرَوُا
الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ}
یا اللہ! ٹرمپ، نیتن یاہو اور اُن کے حواریوں کے مال و دولت
کو برباد فرما دے… اُن کے دلوں پر غم ، صدمے، شقاوت اور مسلسل بے چینی کی گرہیں
لگا دے… اُن کے چہروں کو اُن کی زندگی میں ہی مسخ فرما دے… اُن سے اُن کی نیند اور
آرام کو چھین لے اور اُن کو موت کے وقت اور اس کے بعد دردناک عذاب سے دوچا ر
فرما دے…
آمین یَا رَبَّ
الْمُسْتَضْعَفِیْنَ، یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔
انبیاء علیہم
السلام رحمت کا پیکر ہوتے ہیں… مگر مخلوق پر رحمت اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتی … جب
تک کہ… مخلوق کے دشمنوں پر سختی نہ کی جائے… جب تک کہ زہریلے سانپ نہ مارے جائیں…
جب تک کہ موذی مچھر ختم نہ کئے جائیں… جب تک کہ قاتلوں اور ظالموں کو مکمل لگام نہ
دی جائے… اس لئے انبیاء علیہم السلام کی
’’بددعاء‘‘ بھی رحمت ہے… فرعون اور اس کے حواری غرق ہوئے تو کروڑوں انسانوں کو
راحت و آزادی اور لاکھوں انسانوں کو ہدایت نصیب ہوئی… وہ جو کہتے ہیں کہ… کسی کے
لئے بددعاء نہ کرو… وہ بہت غلط بات کہتے ہیں…وہ قرآن مجید کے خلاف بات کرتے ہیں…
وہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی سنت سے
ناواقف اور دور ہیں… وہ ایمان کے مزاج کو نہیں سمجھتے… وہ دین کے تقاضوں سے غافل
ہیں… جب کوئی کافر اپنے ظلم میں تجاوز کرے تو اس کے خلاف بددعاء کرنا … اور بار
بار کرنا یہ عظیم سنت ، عظیم عبادت اور عظیم اخلاق کا حصہ ہے…ا ور اس سے انتقام کی
تدبیر کرنا… اور اس کے خاتمے کی منصوبہ بندی کرنا… یہ دین اسلام کا حکم اور تقاضہ
ہے… اللہ تعالیٰ ہمیں…پورا اسلام عطاء فرمائے… اور ہمارے مزاج اور اخلاق بھی…اسلام
کے مطابق بنائے … آج جب ہم نے اُن کے لئے ’’بددعاء‘‘ چھوڑ دی ہے…جن کے لئے
’’بددعاء‘‘ کرنا’’قرآن مجید‘‘ سے ثابت ہے اور جن کے لئے بددعاء کرنا… حضرات
انبیاء علیہم السلام اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے تو پھر… ہماری ’’بددعاؤں‘‘ کا رخ
اپنوں کی طرف ہو گیا ہے… مائیں اپنے بچوں کو… بیویاں اپنے خاوندوں کو…خاوند اپنی
بیویوں کو… بھائی اپنی بہنوں کو… بہنیں اپنے بھائیوں کو… اور والد اپنی اولاد کو…
بددعائیں دے رہے ہیں…حالانکہ یہاں بددعاء دینے کا عمومی جواز نہیں ہے… اور ایسی
بددعائیں خود بددعاء دینے والے کو ہی تباہ کر دیتی ہیں… یہ دراصل ’’جہاد فی سبیل
اللہ ‘‘ سے دوری کا نتیجہ ہے… جہاد چونکہ دین کا لازمی حصہ ہے تو جو لوگ جہاد کو
نہیں مانتے ، نہیں سمجھتے… وہ پورے دین پر آ ہی نہیں سکتے… ہمارے اخلاق میں سے
کچھ چیزوں کی اصلاح نماز کرتی ہے… کچھ باتوں کی اصلاح حج اور زکوٰۃ سے ہوتی ہے …
کچھ اور کی درستگی روزے سے ہوتی ہے اور کچھ معاملات جہاد سے ٹھیک ہوتے ہیں… ہم جب
جہاد کو مانتے اور سمجھتے ہیں تو… اس کی برکت سے ہمارے اخلاق میں موجود زائد بزدلی
ختم ہو جاتی ہے… زائد نرمی ختم ہو جاتی ہے… ہمیں دشمنی ، دشمنی کی جگہ پراور
دوستی،دوستی کی جگہ پر استعمال کرنے کی صفت نصیب ہوتی ہے… لیکن جب جہاد کو اپنے
دین اور اپنے مزاج کا حصہ نہ بنایا تو پھر… ظالموں اور کافروں کے لئے نرمی اور
اپنوں کے لئے سختی آ جاتی ہے جو… ہمارے ایمان کے لئے خطرناک ہے… اہل غزہ… اہل
فلسطین کی قربانیوں اور عزیمت کو سلام… یا اللہ! ہمیں بھی… فلسطین کے مبارک جہاد
میں حصہ ڈالنے کے راستے اور توفیق عطاء فرما۔ آمین
الحمد للہ، الحمد للہ
ہر سال ان دنوں… رنگ ونور اور مکتوبات میں رمضان المبارک کے
متعلق لکھنے کا معمول ہے… اس سے اپنی بھی اصلاح ہو جاتی ہے اور پڑھنے والوں کے لئے
بھی یاد دہانی ہوتی ہے… مگر اس سال الحمد للہ ’’شہر رمضان‘‘ کتاب نے یہ ذمہ داری
سنبھالی ہوئی ہے… اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مسلمان اس کتاب کو ذوق و شوق سے پڑھ
رہے ہیں… اور مختلف ذرائع سے دوسرے مسلمانوں تک پہنچا رہے ہیں… کوئی دس نسخے خرید
کر نو تقسیم کر دیتا ہے اور ایک پر اپنا تازہ مطالعہ شروع کر دیتا ہے… کوئی
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس کتاب اور اس کے اسباق کو عام کر رہا ہے… جبکہ
کئی مساجد میں حضرات ائمہ کرام اس کی تعلیم کرا رہے ہیں… اللہ تعالیٰ ان سب حضرات
و خواتین کو جزائے خیر عطاء فرمائیں… جو کسی بھی طرح … اس کتاب اور اس کی اہم دعوت
کو پھیلا رہے ہیں… یا اللہ مجھے اور ان سب کو قبولیت والا رمضان… مقبول روزوں والا
رمضان… قرآن والا رمضان… جہاد فی سبیل اللہ والا رمضان… مغفرت والا رمضان… جہنم
سے نجات والا رمضان… نامۂ اعمال کو وزنی اور بھاری بنانے والا رمضان… فتوحات اور
قلبی خوشیوں والا رمضان… افطار، صدقات اور خیرات والا رمضان… نوافل اور دعاؤں
والا رمضان… صحت و عافیت والا رمضان… برکت اور نور والا رمضان…ہمیشہ کام آنے والا
رمضان… قبر کو روشن اور وسیع کرانے والا رمضان… ایمان کو عروج تک پہنچانے والا
رمضان… گناہوں اور معصیتوں سے پاک رمضان… تمام جائز حاجات کو پورا کروانے والا
رمضان… امراض روحانی اور جسمانی سے شفاء دلوانے والا رمضان… اور اللہ تعالیٰ سے
انعام دلوانے والا رمضان… نصیب فرمائے… آمین
مرحبا رمضان… خوش آمدید رمضان… احبک یا رمضان…
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 645
اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے
* اللہ
تعالیٰ بندوں سے ’’قرضہ‘‘ مانگتے ہیں…
اللہ تعالیٰ کے قرض مانگنے کا کیا مطلب اور کیا مقصد؟…
* ایک
کامیاب ترین تجارت…
* روم
و فارس کے خزانے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قدموں میں کیسے ڈھیر ہوئے، ایک لطیف نکتہ…
* نظرنہ
آنے والا’’ خرچہ‘‘ عند اللہ بڑا’’ با مقام‘‘ اور ’’محفوظ‘‘۔
* حضرات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے
انفاق فی سبیل اللہ کے واقعات…
* {مَنْ
ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا }الآیۃ کی ایک ’’نایاب تشریح‘‘ …
* جہاد
میں مال خرچ کرنے کا اجر عظیم…
اللہ
تعالیٰ کے وعدوںپر یقین بٹھاتی اور آیت کریمہ کے مخفی گوشوں سے پردہ اٹھاتی
ایک الہامی تحریر
تاریخ اشاعت:
۹رمضان
المبارک۱۴۳۹ھ/بمطابق25مئی 2018ء
اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں ’’مال‘‘ دیتے ہیں…پھر فرماتے ہیں… اے میرے
بندے اپنے اس مال میں سے مجھے اچھا سا قرضہ تو دے دو… میں تمہارا یہ قرضہ کئی گنا
بڑھا کر واپس لوٹا دوں گا… اور تمہارا یہ مال بڑھتا ہی چلا جائے گا… یہاں تک کہ
جنت کی قیمت بن جائے گا… سبحان اللہ! کیا محبت کا انداز ہے… اللہ تعالیٰ کو اچھا
قرضہ دو… اللہ تعالیٰ کو اچھا قرضہ دو…یہ آواز بار بار قرآن مجید کی آیات میں
سے آتی ہے تو دل چاہتا ہے کہ… بدن پر پہنے کپڑوں کے سوا انسان اپنا سب کچھ پیش کر
دے…عظیم شہنشاہ قرضہ مانگ رہا ہے… مالک الملک قرضہ مانگ رہا ہے… وہ جس نے سب کچھ
دیا وہی قرضہ مانگ رہا ہے… وہ جو ایک اشارے سے سب کچھ چھین سکتا ہے قرضہ مانگ رہا
ہے…وہ جو منٹوں میں فقیر کو بادشاہ اور بادشاہ کو فقیر بنا دیتا ہے وہ قرضہ مانگ
رہا ہے… اور ساتھ وعدہ فرما رہا ہے کہ… میں تمہارا یہ مال بہت زیادہ بڑھا دوں گا…
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں دس لاکھ گنا… دوسری روایت میں بیس
لاکھ گنا… فرمایا:
{مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللہَ
قَرْضًا حَسَنًا}
’’کون ہے وہ جو اللہ تعالیٰ کو
اچھا قرضہ دے۔‘‘
{فَیُضَاعِفَہٗ لَہٗ اَضْعَافًا
کَثِیْرَۃً}
’’پھر اللہ تعالیٰ اسے بہت گنا
بڑھا دے‘‘ [البقرۃ: آیت، ۲۴۵]
جس چیز کو اللہ تعالیٰ ’’کثیر ‘‘ فرمائے… یعنی زیادہ… وہ
کتنی ہو گی؟ … اللہ تعالیٰ تو ساری دنیا کے مال کو’’ قلیل‘‘ فرماتے ہیں… یعنی
تھوڑا… تو پھر اللہ تعالیٰ کا زیادہ کیا ہو گا؟ مبارک ہو جہاد میں مال لگانے والوں
کو… ان کا سودا بڑا کامیاب ہے… اور ان کا نفع بے شمار ہے… سور ۂ بقرۃ کی اس آیت رقم (۲۴۵) کی تفسیر میں حضرت شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کو قرض دے، یعنی
جہاد میں خرچ کرے، اس طرح فرمایا مہربانی سےاور تنگی کا اندیشہ نہ رکھے، اللہ کے
ہاتھ کشائش ہے۔‘‘ [موضح قرآن]
کامیاب تجارت
دنیا میں انسان ایک دوسرے کے ساتھ تجارت اور کاروبار کرتے
ہیں… اس تجارت میں نفع بھی ہو سکتا ہے… اور نقصان بھی… پھر جو تاجر ہمیشہ نفع
کماتا ہو اس کو عقلمند اور کامیاب سمجھا جاتا ہے… حالانکہ وہ بھی کبھی کبھار نقصان
ضرور اٹھاتا ہے… مگر جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ’’تجارت‘‘ کرے اس کے لئے نقصان
کا کوئی خطرہ نہیں… بس نفع ہی نفع ہے… ہر وقت نفع ہے… بہت قریب کا نفع ہے… اور بہت
دور کا نفع ہے…مال بھی بڑھتا ہے… دل بھی صحت مند رہتا ہے… قبر کی راحت کا سامان
بھی بنتا رہتا ہے… اور آخرت میں بھی یہ مال ذخیرہ ہوتا رہتا ہے… حضرات صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اللہ تعالیٰ
کے ساتھ یہ تجارت کی… ان کے پاس جو تھوڑا سا مال تھا… وہ انہوں نے جہاد پر خوشی
خوشی لگا دیا… یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں قرض رکھوا دیا… اب اس مال نے بڑھنا شروع
کیا تو… روم و فارس کے خزانے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قدموں میں آ گرے… اور آخرت کی اونچی اونچی
منزلیں ان کا مقدر بن گئیں…آج مسلمانوں کے پاس کتنا مال ہے؟… مگر وہ یہ مال جہاد
میں نہیں لگاتے… اللہ تعالیٰ کے پاس قرض نہیں رکھواتے تو… غلامی ہی غلامی ہے… قدم
قدم پر غلامی، بے چینی اور پریشانی… قرآن بار بار پکار رہا ہے:
{وَاَقْرِضُوا اللہَ قَرْضًا
حَسَنًا} [المزمل: ۲۰]
اللہ تعالیٰ کو اچھا سا قرضہ دو… اللہ تعالیٰ کو اچھا سا
قرضہ دو… اللہ تعالیٰ تمہیںبہت بڑھا کر دے گا… بے حساب دے گا… اجر کریم دے گا… مگر
آج جہاد پر خرچ کرنے والے بہت کم رہ گئے… بہت کم رہ گئے۔
ایک منظر دیکھیں
امیر تبلیغ حضرت مولانا یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جہاد میں جانے کی خوب ترغیب دی
اور انہیں اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کا حکم دیا … چنانچہ حضرات صحابہ رضوان
اللہ علیہم اجمعین نے بھی بہت دل کھول کر خوب خرچ کیا اور سب سے پہلے حضرت ابوبکر
رضی اللہ عنہ مال لائے… اپنا سارا مال
لائے تھے… جو کہ چار ہزار درہم تھا تو ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اپنے گھر والوں کے لئے کچھ
چھوڑا ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے
عرض کیا ہاں! اللہ اور اس کے رسول کو (چھوڑا ہے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنا آدھا
مال لائے… حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بھی بہت سا مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر آئے… اور حضرت عاصم بن عدی
رضی اللہ عنہ نے نوے وسق ( تقریباً پونے
پانچ سو من) کھجور دی… اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے تہائی لشکر کا پورا
سامان دیا… صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے سب سے زیادہ انہوں نے خرچ کیا، یہاں تک
کہ تہائی لشکر کے لئے تمام ضروری سامان دیا… حتٰی کہ یہ کہا گیا کہ اب ان کو مزید
کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، یہاں تک کہ مشکیزوں کی سلائی کے لئے موٹی سوئی کا بھی
انتظام کیا۔‘‘ [حیات الصحابہ، ج:۱]
نظر نہیں آتا
ہر مالدار شخص کو… وہ چاہے یا نہ چاہے… مال خرچ
کرنا ہی پڑتا ہے… شادی بیاہ کی رسومات ہوں یا… کسی کے مرنے کی رسومات… بخیل سے
بخیل مشرک بھی ان مقامات پر خرچ کرتے تھے… اور خرچ کرتے ہیں… عام مسلمان مالدار
بھی شادی بیاہ اور مرنے کی رسومات پر کافی مال خرچ کرتے ہیں… اسی طرح کئی مالداروں
کو لوگوں کے شر سے بچنے کے لئے کافی مال خرچ کرنا پڑتا ہے… کچھ مالدار معاشرے اور
خاندان میں اپنی بڑائی جتلانے کے لئے خرچ کرتے ہیں… اور کچھ لوگ… دوسرں کی محبت
اور تعظیم حاصل کرنے کے لئے مال خرچ کرتے ہیں کہ… لوگ ان کے نیچے لگیں، ان کو کھڑے
ہو کر ملیں اور ان کی واہ واہ کریں… یہ تو ہوئے سارے برے خرچے… اللہ تعالیٰ ہر
مسلمان کو اس طرح کے خرچوں سے محفوظ رکھے… مال بھی چلا جاتا ہے… اور کچھ بنتا بھی
نہیں… اب آتے ہیں اچھے خرچوں کی طرف… ان کی تفصیل بھی بے شمار ہے… آپ غریبوں ،
بیواؤں ، فقیروں کو صدقہ دیتے ہیں… آپ کوئی خدمت خلق کی چیز بنواتے ہیں… وغیرہ
وغیرہ…یہ سب خرچے بہت اچھے ہیں… اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس طرح کے خرچوں کی
توفیق عطاء فرمائے… لیکن جہاد کا خرچہ… بہت عجیب ہے… وہ تو آپ نے دین اسلام کے
غلبے اور تحفظ کی خاطر جہاد میں دے دیا… وہ آپ نے کسی فرد کو نہیں دیا کہ… وہ آپ
کا شکریہ ادا کرے… آپ سے تھوڑا دب کر رہے… وہ آپ نے خاندان میں عزت بنانے کے لئے
نہیں دیا… بلکہ خاندان میں تو آپ کو اسے چھپانا پڑتا ہے کہ… کوئی مخبری نہ کر
دے…اب اس پیسے سے کوئی عمارت بھی نہیں کھڑی ہوئی کہ… جسے دیکھ کر آپ کا دل خوش
ہو… معلوم ہوا کہ… آپ نے دیا مگر اس سے دنیا میں کچھ بھی فائدہ یا خوشی ملنے کا
ظاہری امکان نہیں ہے… بس یہ ہے… اللہ تعالیٰ کا قرضہ… نہ نظر آنے والا خرچ…دینے
والے آپ اور لینے والا اللہ… دنیا کی کوئی منت نہیں…یہ خرچ نظر نہیں آرہا…نہ
عمارت، نہ بلڈنگ، نہ ویڈیو… نہ مووی نہ کہیں بورڈ… مگر نظر نہ آنے والی چیزیں بہت
عظیم ہوتی ہیں بہت بڑی… ہمارے تصور سے بھی بڑی… آسمان کی طرح، ستاروں کی طرح…
بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر…ہاں بے شک!…اللہ تعالیٰ نے جہاد میں خرچ ہونے والے مال کو…
بڑا مقام عطاء فرمایا ہے…اللہ تعالیٰ کو مانگنے کی کیا حاجت؟ …مگر اللہ تعالیٰ نے
اس مال کی قدر بڑھانے کے لئے… اسے بطور قرضہ مانگا… اور پھر اس پر بڑے معزز اجر کا
وعدہ فرمایا…
{وَلَہٗ اَجْرٌکَرِیْمٌ} [الحدید: ۱۱]
ایک منظر دیکھیں
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے… غزوۂ تبوک کے
جہاد میں بہت زیادہ مال خرچ فرمایا… انہوں نے دوسوا وقیہ چاندی یعنی آٹھ ہزار
درہم، اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیئے… حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! میرے
خیال میں عبدالرحمٰن بن عوف (اتنا زیادہ خرچ کرکے) گناہگار ہوگئے ہیں کیونکہ انہوں
نے اپنے گھر والوں کے لئے کچھ نہیں چھوڑا ہے … چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے اُن سے پوچھا کہ تم نے اپنے گھر
والوں کے لئے کچھ چھوڑا ہے؟ انہوں نے کہا :جی ہاں! جتنا میں لایا ہوں اس سے زیادہ
اور اس سے عمدہ چھوڑ کر آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتنا؟ انہوں نے عرض کیا:اللہ تعالیٰ
اور اس کے رسول نے جس رزق اور خیر کا وعدہ کیا ہے وہ چھوڑ کر آیا ہوں۔ [حیات الصحابہ۔ جلد: ۱]
ا یک بات سوچیں
غزوۂ تبوک کا تذکرہ قرآن مجید میں بڑی تفصیل سے آیا ہے…
اس غزوہ میں جانے والوں کے فضائل… اور اس میں نہ جانے والوں کے لئے وعیدیں اور
شرمندگی…اس غزوہ میں خرچ کرنے والے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بڑی اونچی بشارتیں پائیں… حتٰی کہ حضرت عثمان
غنی رضی اللہ عنہ کو تو… پکی رضا کی بشارت دے دی گئی… اس غزوہ میں
خرچ کرنے والے حضرات کو… اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی اتنا دیا کہ… لوگ آج کل اُن
کی میراث شمار کرتے رہ جاتے ہیں… یہ سب کچھ ٹھیک…مگر آپ ایک بات بتائیں کہ اس
مبارک غزوہ میں ہوا کیا تھا؟… آپ سیرت وسِیَر کی ساری کتابیں پڑھ لیں… اس غزوہ
میں نہ جنگ ہوئی… اور نہ کوئی بڑی فتح…نہ کچھ بنا… نہ کچھ تعمیر ہوا… بس جانا اور
آنا ہوا… مگر اس کے باوجود… اس میں خرچ کرنے کے ایسے فضائل… اس میں نکلنے کے عظیم
فضائل… اور اس میں نہ نکلنے پر اتنی وعیدیں… بات دراصل یہ ہے کہ… اللہ تعالیٰ کو
جہاد بہت محبوب ہے… جہاد ایک مستقل فرض اور عبادت ہے… جہاد خود ایک عظیم عمل ہے…
خواہ اس کا کوئی نتیجہ نظر آئے یا نہ آئے…غزوۂ تبوک کا ظاہری نتیجہ کچھ بھی
نہیں تھا… اگرچہ اس کے دور رس اثرات بہت تھے… پس مسلمانوں کو سمجھایا گیا کہ… جہاد
بہت عظیم عبادت ہے… یہ سب سے اونچا عمل ہے… اس میں نکلنا اور اس میں کچھ لگانا بڑی
سعادت ہے… اگرچہ تمہارا لگایا ہوا مال نظر ہی نہ آئے… ’’وہ آنے جانے‘‘ کی دھول
میں گم ہوجائے…مگر وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گم نہیں ہوگا… کیونکہ…دنیا میں جب تم کسی
امانتدار سچے شخص کو… قرض دیتے ہو تو تمہیں واپسی کا پکا یقین ہوتا ہے… تو پھر
اللہ تعالیٰ سے بڑا سچا کون ہے؟… اللہ تعالیٰ سے بڑا وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟…
جہاد میں لگایا ہوا مال چونکہ تمہیں نظر نہیں آتا تو ہوسکتا ہے کہ… تمہیں افسوس
ہو کہ… میرا مال تو دھول میں اُڑ گیا… بارود میں بکھر گیا… کاش ’’ٹوں ٹوں‘‘ کرتی
کوئی ایمبولینس لے لیتا… نظر تو آتی… ویڈیو بھی بنتی…تو اللہ تعالیٰ نے اس خیال
کی اصلاح کے لئے… ’’قرض‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا… کہ تم نے جو دیا اُسے زمین میں
نہ ڈھونڈو… وہ تو تم نے مجھے قرض دیا ہے… دنیا میں جب تم کسی کو قرض دیتے ہوتو پھر
اس ٹوہ میں نہیں پڑے رہتے کہ… اس نے اس مال کا کیا کیا… تمہیں بس یہ خیال ہوتا ہے
کہ… کچھ عرصہ بعد مجھے میرا مال واپس مل جائے… پس جہاد میں صدق دل سے لگایا ہوا
تمہارا مال… اللہ تعالیٰ کے پاس ہے… اور اس کا وعدہ ہے کہ… وہ اسے بہت زیادہ بڑھا
کر… تمہیں عطاء فرمائے گا… اور عطاء فرماتا رہے گا… بے شک اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا
ہے۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 646
میٹھے جذبے
* کسی
بندے کا مال ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے لئے قبول
ہو
جانا اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے…
* اسلامی
فتوحات اور جہاد میں خواتین اسلام کی لا زوال خدمات…
* حضرت
ام عمارہ رضی اللہ عنہا کا جہاد…
* مجاہدین
کے مقام کو ہر کوئی نہیں سمجھتا،اور جو سمجھ جاتا
ہے
وہ ان کی خدمت کو سعادت سمجھتا ہے…
*
اُمّ المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا
مجاہدین
کے
لئے چرخے پر خود سوت کاتا کرتی تھیں…
* جس
انسان کو ’’جہاد‘‘ کی حقیقت سمجھ آجائے
وہ
اپنا سب کچھ جہاد میں لگانا سعادت سمجھتا ہے…
* ایسے
ہی کچھ خوش نصیبوں کا معطر تذکرہ…
* ’’خناس
کے وساوس میں سے ایک خطرناک وسوسہ…
* دو
باپ او ردو بیٹوں کا واقعہ…
میٹھے جذبات کی شیرینی بکھیرتا ہوا، ایمان افروز
واقعات
سے مزین ایک دلکش مضمون
تاریخ اشاعت:
۱۴رمضان
المبارک۱۴۳۹ھ/بمطابق یکم جون2018ء
میٹھے جذبے
اللہ تعالیٰ کا کسی بندے پر… یہ عظیم احسان ہوتا ہے کہ اللہ
تعالیٰ اس کے مال کو ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے لئے قبول فرما لے…اللہ تعالیٰ کو
کیا ضرورت ہے؟ جہاد کو کیا ضرورت ہے؟… مگر جس مسلمان کا مال جہاد میں قبول ہو جائے
اُس کے دنیا و آخرت میں مزے ہو جاتے ہیں… اُسے ایسی عظیم نعمتیں ملتی ہیں کہ… جن
کا تصور بھی پُرکیف ہے… آئیے! عاجزی کے ساتھ التجا کریں کہ… اللہ تعالیٰ ہم پر یہ
عظیم احسان فرمائے کہ ہمارا زیادہ سے زیادہ مال جہاد فی سبیل اللہ میں قبول فرما
لے۔
ایک منظر دیکھیں
جب حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر
مسلمانوں کو… جہاد پر مال لگانے کی ترغیب دی تو عورتیں بھی اپنی طاقت اور ہمت کے
مطابق جہاد میں نکلنے والوں کی مدد کرر ہی تھیں، حضرت اُمّ سنان اسلمیہ رضی اللہ
عنہا کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک کپڑا بچھا
ہوا ہے جس پر کنگن ، بازو بند ، پازیب ، بالیاں ، انگوٹھیاں اور بہت سے زیور رکھے
ہوئے ہیں… اور اس غزوہ کی تیاری کے لئے عورتوں نے جانے والوں کی مدد کے لئے جو
زیورات بھیجے تھے اُن سے وہ کپڑا بھرا ہوا تھا۔
[ حیات الصحابہ]
ہاں بے شک! اسلامی فتوحات اور اسلامی جہاد میں مسلمان
خواتین کا بہت بڑا حصہ ہے… تاریخ ان کے کارناموں سے بھری پڑی ہے… آسمان کو آج
بھی وہ منظر یاد ہے جب غزوۂ احد میں حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا … حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف بہادری کے ساتھ لڑ رہی تھیں اور
دشمنوں کو پیچھے دھکیل رہی تھیں… کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں… حضرت سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ہدیے کی کچھ چادریں آئیں ان میں سے ایک
چادر بہت عمدہ،بڑی اور قیمتی تھی… کسی نے مشورہ دیا کہ… یہ چادر آپ اپنی نئی بہو
کو عطاء فرما دیجئے… حضرت صفیہ بنت ابی عبید رضی اللہ عنہا کی آپ کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے… نئی نئی شادی ہوئی تھی… حضرت سیّدنا عمر رضی
اللہ عنہ نے فرمایا نہیں… میں یہ چادر
ایسی عورت کو بھیجوں گا جو ابن عمر کی بیوی سے زیادہ حقدار ہے اور وہ ہیں اُمّ
عمارہ رضی اللہ عنہا … میں نے حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ
جنگ احد کے دن میں دائیں بائیں جس طرف بھی منہ کرتا مجھے اُمّ عمارہ بچانے کے لئے
اس طرف لڑتی ہوئی نظر آتی۔
اُمت کی امی جی کا عمل
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
فرماتی ہیں کہ… حضرت زینب ( اُمّ المؤمنین ) رضی اللہ عنہا
سوت کاتا کرتی تھیں اور حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کے لشکروں کو دے دیا
کرتیں… وہ لوگ اس سوت سے (کپڑے وغیرہ) سیا کرتے اور اپنے سفر میں دوسرے کاموں میں
لاتے۔ [حیاۃ الصحابہ]
شکر ادا کرو مجاہدو! خوشیاں مناؤ مجاہدو! اللہ تعالیٰ نے
تمہاری یہ شان بنائی ہے کہ اُمّ المؤمنین سیّدہ زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا … جن کا خاص تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے…
اور جن کا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھایا… وہ مجاہدین کے لئے سوت کات رہی ہیں…
آج کل کے لوگ شاید نہ سمجھیں… سوت کاتنے کا مطلب اون یا کپاس سے دھاگہ اور رسی
بنانا ہوتا ہے… یہ بہت محنت طلب کام ہے جو پہلے ’’چرخے‘‘ پر کیا جاتا تھا… مجاہدین
کے مقام کو ہر کوئی نہیں سمجھتا… اور جو سمجھ جاتا ہے تو پھر وہ ان کی خدمت کو
سعادت سمجھتا ہے… اُمّ المؤمنین رضی اللہ
عنہا اپنے مجاہد بیٹوں کے لئے خود سوت کات
رہی ہیں… یہ منظر سوچ کر انسان کے جذبات کا عجیب عالَم بن جاتا ہے… اللہ تعالیٰ
ہمیں بھی جہاد کی نعمت نصیب فرمائے… ہمیں بھی مخلص مجاہد بنائے اور ہمیں بھی جہاد
اور مجاہدین پر دل کھول کر مال لگانے کی توفیق عطاء فرمائے… مسلمان عورتیں اپنی
حدود میں رہتے ہوئے… جہاد میں بھرپور حصہ لے سکتی ہیں… ان کے لئے کوئی ممانعت یا
محرومی نہیں ہے… صرف لڑائی کے لئے میدان میں جانے کی عام اجازت نہیں ہے… باقی جہاد
کے بہت سے کام وہ کر سکتی ہیںا ور انہیں کرنے بھی چاہئیں… حضرت شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے جنگ احد کے دن اپنے
بیٹے کو ایک تلوار دی جسے وہ اٹھا نہیں سکتا تھا تو اس عورت نے چمڑے کے تسمے سے وہ
تلوار اس کے بازو کے ساتھ مضبوط باندھ دی، پھر اسے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ!
میرا یہ بیٹا آپ کی طرف سے لڑائی کرے گا۔
لاڈلے، پیارے خوش نصیب
الحمد للہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے ایسے خوش نصیب اور پیارے
بندے بھی دیکھے ہیں کہ… جن کا سب کچھ جہاد میں لگ گیا… سارا مال بھی، جان بھی… اور
جسم بھی… مجھے ایسے افراد پر رشک آتا ہے… کس کس کو یاد کروں… وہ یاد آتے جاتے
ہیں اور آنکھیں بھیگتی چلی جاتی ہیں… ایک نوجوان کو تو میں نے باقاعدہ حکم اور
ترغیب دے کر اس کا مال واپس کیا کہ… یہ اپنی والدہ کو دے جاؤ …وہ جہاد پر جا رہا
تھا اور واپسی کا ذرہ بھر ارادہ نہیں تھا… اور اپنا سارا مال بھی جماعت کو دینا
چاہتا تھا… میں نے اس کے حالات پوچھے اور پھر اسے کہا کہ… تم جیسا شیر جوان کافی
ہے مال اپنی والدہ کو دے جاؤ… وہ حج کر لیں گی… تمہیں اور زیادہ دعاء دیں گی…
جماعت تو ویسے ہی تم جیسے جانبازوں کی مقروض اور احسان مند ہے… وہ مان گیا اور چلا
گیا… اللہ تعالیٰ اس کے درجات بے حد بلند فرمائے… اور کئی کو دیکھا کہ… آخری
معرکے میں جا رہے ہیں اور یہ فکر لگائے بیٹھے ہیں کہ… ہم نے جماعت سے کتنا کھانا
کھایا… اور کتنا خرچہ لیا… اب ہمارے بعد ہماری فلاں چیز بیچ کر اتنی رقم جماعت میں
دے دی جائے… حالانکہ وہ جانتے تھے کہ… انہوں نے جو کچھ کھایا پیا وہ ان کے لئے
حلال طیب تھا… ایسے اللہ والوں کو اگر ہم سونے کے لقمہ کھلائیں تو بھی ان کی خدمت
کا حق ادا نہیں ہو سکتا… مگر وہ تو دال روٹی کو بھی… احسان مانتے ہیں… اور اس
احسان کو چکانے کی فکر میں رہتے ہیں… دراصل وہ اپنا سب کچھ جہاد میں لگانا ہی اپنی
کامیابی اور سعادت سمجھتے ہیں…اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں سے پردے ہٹا دئیے ہیں…
جن کی آنکھوں سے پردے ہٹ جائیں وہ جہاد کے بلند مقام کی ایک جھلک اسی دنیا میں
دیکھ لیتے ہیں…اور پھر اس پر اپنا سب کچھ لگانے کی فکر کرتے ہیں… جبکہ دنیا میں
ایسے مسلمان بھی ہیں کہ… جن کا کبھی ایک پیسہ جہاد پر نہیں لگا… جان تو دور کی بات…
کبھی ان کے پسینے کا ایک قطرہ بھی… جہاد کی خاطر نہیں گرا…اللہ کا وہ فریضہ جس پر
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خون نچھاور فرمایا… ان مسلمانوں کی
زندگیوں میں…ذرہ برابر اہمیت نہیں رکھتا… بلکہ بعض بدنصیب تو ایسے کہ وہ مسلمانوں
کو… جہاد سے روکتے ہیں… اور جہاد پر خرچ کرنے سے منع کرتے ہیں… یا اللہ! بد نصیبی
سے حفاظت۔
دو باپ، دو بیٹے
قرآن مجید کی آخری سورت میں’’خناس‘‘ کا تذکرہ ہے…
’’خناس‘‘ کہتے ہیں حملہ کر کے چھپ جانے والے کو… یہ ایک تفصیلی موضوع ہے آج اسی
پر لکھنے کا ارادہ تھا مگر پاکیزہ جذبوں کی لہر نے دوسری طرف بہا دیا… عرض یہ کرنا
تھا کہ…’’خناس‘‘ دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں… یہ ’’خناس‘‘ جنات بھی ہوتے ہیں اور
انسان بھی… ان کا ایک وسوسہ اولاد کے روشن مستقبل کے بارے میں ہوتا ہے… اور اس کی
خاطر وہ مسلمانوں سے… بڑے بڑے گناہ، بڑی بڑی خیانتیں کرواتے ہیں… اولاد کے لئے یہ
چھوڑ جاؤ، وہ چھوڑ جاؤ… اولاد کے لئے یہ بنا جاؤ،وہ بنا جاؤ …وغیرہ وغیرہ … اس
پر بس ایک واقعہ لکھ کر آج کی مجلس ختم کرتے ہیں… رمضان المبارک میں مختصر باتیں
ہی اچھی ہوتی ہیں۔
مقاتل بن سلیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ
اللہ نے اپنے پیچھے گیارہ بیٹے چھوڑے اور ان کا کل ترکہ اٹھارہ دینار تھا… ان میں
سے پانچ دینار کفن پر لگ گئے، چار دینار کی قبر خریدی گئی… اور باقی نو دینار… ان
کے بیٹوں اور باقی اولاد میں تقسیم ہو گئے… جبکہ ہشام بن عبد الملک نے بھی گیارہ
بیٹے چھوڑے اور اس کے ترکہ میں سے ہر بیٹے کو دس لاکھ (سونے کے) دینار ملے…یہ تو
نقد رقم تھی جبکہ زمینیں، محلات، باغ اور غلام باندیاںان کے علاوہ تھیں… مگر پھر
کیا ہوا؟…اللہ کی قسم! میں نے ایک ہی دن میں دو منظر دیکھے… ایک یہ کہ عمر بن عبد
العزیز رحمہ اللہ کا ایک بیٹا ایک سو
گھوڑے تمام جہادی سامان کے ساتھ مجاہدین کو صدقہ کر رہا تھا…اور دوسرا منظر یہ کہ
ہشام بن عبد الملک کا ایک بیٹا بازار میں بھیک مانگ رہا تھا۔‘‘
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 647
منٹ اور گھنٹے صدیوں برابر
* نفس
پرستوں کی صدیاں کوڑے کے ڈھیر میں…
اور اللہ تعالیٰ کے وفادار بندوں کے
منٹ و گھنٹے
صدیوں
سے زیادہ قیمتی…
*
وہ منٹ، گھنٹے ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں
اور
قیامت تک یاد رکھے جائیں گے…
* قرآن
کریم کا ایک عجیب راز {وَالْعَصْرِ }
*
اس راز کی تشریح…
* اللہ
تعالیٰ کے ’’عجیب بندے‘‘
اور
ان کی صفات و حالات…
* ’’غرباء‘‘
کے لئے ایک قیمتی عمل…
سیّدنا
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے
ایمان
افروز تذکرے پر مشتمل ایک خوبصورت تحریر
تاریخ
اشاعت:
۲۳رمضان المبارک۱۴۳۹ھ/بمطابق8
جون2018ء
منٹ اور گھنٹے صدیوں برابر
اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے… حضرت سیّدنا عمر بن عبد العزیز…
صحابی نہیں ہیں… تابعی ہیں… مگر پھر بھی ان کے نام کے ساتھ …رضی اللہ عنہ… لکھا
جاتا ہے… اور بالکل برحق لکھا جاتا ہے… رضی اللہ عنہ … کا مطلب اللہ تعالیٰ ان سے
راضی ہوا… یا دعاء… اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو… ’’رضی اللہ عنہ‘‘ لکھنے کا کیا حکم
ہے؟ بہت سے لوگ بعد کے کئی علماء کے نام کے ساتھ بھی… ’’رضی اللہ عنہ‘‘ لکھتے ہیں…
یہ مسئلہ اور علمی بحث پھر کبھی…آج ہم کچھ وقت اللہ تعالیٰ کے ایک مقرب ولی کے
ساتھ گذارتے ہیں… ولی بھی وہ جو ’’صدیق ‘‘ کے مقام پر فائز تھے… حضرت سیّدنا عمر
بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ ۔
عجیب بندے
اللہ تعالیٰ نے {وَالْعَصْرِ }فرما کر… ایک عجیب راز سمجھا
دیا ہے… مگر اللہ تعالیٰ کے بہت کم بندے اس راز کو سمجھتے ہیں…چنانچہ وہ بندے بھی…
بہت عجیب بن جاتے ہیں عام لوگوں سے مختلف… عام روایات سے ہٹے ہوئے… {وَالْعَصْرِ} کا راز یہ ہے کہ… زمانہ ٹھہرتا
نہیں ہے گذر جاتا ہے… چنانچہ وقتی حالات کو بہتر بنانے کے لئے… اپنی اصل آخرت کی
زندگی کو برباد نہ کیا جائے… تھوڑا سا صبر کرو… وقت گزر جائے گا… آپ سوچیں گے کہ
یہ بات تو سب کو معلوم ہے… پھر یہ ’’راز‘‘ کیسے ہوئی؟… جی ہاں! سب کو معلوم ہے…
مگر اس بات سے فائدہ بہت کم لوگ اٹھاتے ہیں… اس لئے یہ واقعی ’’راز‘‘ ہے… اکثر لوگ
اپنی وقتی مجبوریوں کے سامنے بے بس ہوتے ہیں…بیمار ہوئے تو اب ضرور علاج کرانا ہے…
استطاعت ہو یا نہ ہو… اس کی خاطر چوری کرنی پڑے یا خیانت… بھیک مانگنی پڑے یا ذلت
اٹھانی پڑے… حتٰی کہ نعوذ باللہ کفر اور شرک تک کرنا پڑے تو کئی لوگ دریغ نہیں
کرتے… گرفتار ہوئے تو ضرور رہا ہونا ہے… خواہ دین چھوڑنا پڑے… غربت اور ضرورت آئی
تو… اب ضرور مالدار ہونا ہے… خواہ حرام گوشت بیچنا پڑے… اگر یہ لوگ سوچ لیں کہ…
وقت گذر جاتا ہے… {وَالْعَصْرِ} … یہ بات
اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمائی ہے… پھر تھوڑا سا صبر کر لیا جائے… تو کیا حرج
ہے… وہ ظالم حکمران جو… مخلوق کا مال لوٹ کر خزانے بھرتے رہے ان کا وقت بھی گذر
گیا… وہ دفنا دئیے گئے… یا جلا دئیے گئے… اور وہ حکمران جنہوں نے انصاف کیا… خود
تکلیفیں برداشت کیں… ان کا وقت بھی گذر گیا… اور وہ ہمیشہ کی راحتوں میں جا بسے…
واقعی یہ عجیب لوگ ہوتے ہیں… جب ان کے پاس سب کچھ ہوتا ہے تو اسی وقت وہ فقر
اختیار کر لیتے ہیں… جب ان کے پاس وسیع اختیارات ہوتے ہیں تو اسی وقت وہ بے اختیار
ہو جاتے ہیں۔
روئے زمین کی وسیع حکومت کے بادشاہ… خلیفہ عمر بن عبد
العزیز رضی اللہ عنہ کی چھوٹی بیٹی روتی ہوئی ان کے پاس آئی … بیٹی
کے آنسو باپ کے لئے بڑا امتحان ہوتے ہیں… خلیفۂ وقت نے اسے گود میں لیا اور وجہ
پوچھی… معصوم بچی کہنے لگی ابو! آج عید کا دن ہے… سب بچوں نے نئے کپڑے پہنے ہیں…
جبکہ میرے پاس اور میرے بہن بھائیوں کے پاس نئے کپڑے نہیں ہیں…سب کے بچے خوشیاں
منا رہے ہیں… جبکہ خلیفۂ وقت کی بیٹی پرانے کپڑوں میں رو رہی ہے… بیٹی کی بات نے
باپ کے دل پر اثر کیا… بیت المال تشریف لے گئے…اپنے خزانچی سے کہا: مجھے اگلے مہینے
کا وظیفہ پیشگی مل سکتا ہے؟… خزانچی نے وجہ پوچھی تو قصہ ارشاد فرمایا… خزانچی نے
کہا! امیر المؤمنین! ایک شرط پر اگلے مہینے کا وظیفہ مل سکتا ہے… پوچھا کیا شرط
ہے؟…خزانچی نے کہا…آپ اگلے مہینے تک زندہ رہنے کی ضمانت دے دیں۔…یہ جواب سن کر رو
پڑے اور واپس تشریف لائے… اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو جمع فرمایا اور کہا… میرے بچو!
دو باتوں میں سے ایک اختیار کر لو… یا تو تم اپنی خواہش پوری کرو اور تمہارا باپ
جہنم میں جائے… یا تم صبرو کرو اور ہم سب جنت میں جائیں… بچوں نے کہا…ابو ہم صبر
کرتے ہیں … اور پھر اس گھر میں عید کی خوشیاں لوٹ آئیں… انسان کی خوشی یا غم کا
تعلق کپڑوں اور سامان سے نہیں… اپنی سوچ سے ہے… دل خوش تو سب کچھ خوش… یہ اس زمانے
کی بات ہے… جب حضرت عمر بن عبد العزیز رضی
اللہ عنہ کے عدل و انصاف کی وجہ سے… بیت المال اور خزانے منہ تک بھرے پڑے تھے…
خوشحالی اس قدر پھیل چکی تھی کہ… لوگ صدقہ خیرات ہاتھوں میں لے کر فقیروں کو
ڈھونڈتے پھرتے تھے…مگر دور دور تک کوئی فقیر نہیں ملتا تھا…حتٰی کہ بعض گورنروں نے
امیر المؤمنین کو لکھ بھیجا کہ…حضرت! خوشحالی اور مالداری اتنی زیادہ ہوچکی ہے
کہ…عام لوگوں کے تکبر میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے… فرمایا: اُن سب کو’’شکر‘‘ کی
تلقین کرو…ہاں بے شک! شکر ’’تکبر‘‘ کا بہترین علاج ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے ’’خلافت‘‘ کو ’’ذمہ داری‘‘ سمجھا اور پھر اس
’’ذمہ داری‘‘ کو ادا کرنے میں…خود کو اور اپنی اہل واولاد کو تھکایا…چنانچہ اللہ
تعالیٰ کی رحمت پورے ملک پر پھیل گئی… اور مخلوق نے سکھ کا سانس لیا…حضرت جانتے
تھے کہ… یہ مشکل کام ہے مگر {وَالْعَصْرِ}
یہ وقت گزر جائے گا…اور آگے بہت کام آئے گا…چنانچہ…بہت جلد گزر گیا… صرف اڑھائی
یا پونے تین سال اور پھر… رحمت ہی رحمت، راحت ہی راحت۔
ایک بات یاد آگئی
اس سال رمضان المبارک میں ’’رنگ ونور‘‘ کا موضوع ’’انفاق فی
سبیل اللہ‘‘ رہا… ایسے میں ایک ضروری بات…فقراء مسلمانوں سے عرض کرنی ہے… وہ
مسلمان جو مال خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے… یہ واقعہ پڑھ لیں۔
’’غزوۂ تبوک کے موقع پر جب حضورِ
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ
کرام کو جہاد میں نکلنے کا حکم فرمایا تو امیر، غریب سب نکل پڑے…مالدار مسلمانوں
نے جن اونٹوں، گھوڑوں کا انتظام کیا تھا وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم غریب مجاہدین میں تقسیم فرمارہے تھے… مگر اس کے
باوجود کچھ مسلمان ایسے رہ گئے جن کو سواری نہ مل سکی… ان مسلمانوں کے حالات بڑے
عجیب وایمان افروز تھے… انہوں نے اس موقع پر اتنے سچے آنسو بہائے کہ… قرآن مجید
کی آیات میں اُن کے یہ قیمتی آنسو محفوظ ہوگئے… ان حضرات میں ایک حضرت سیدنا
ثعلبہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی تھے… جب
اُن کے جہاد پر جانے کا کوئی انتظام نہ ہوسکا تو وہ رات کو نکلے… اور کافی دیر تک
رات میں نماز پڑھتے رہے پھر رو پڑے اور عرض کیا… ’’یااللہ! آپ نے جہاد میں جانے
کا حکم دیا ہے اور اس کی ترغیب دی ہے پھر آپ نے نہ مجھے اتنا دیا کہ میں اس سے
جہاد میں جاسکوں اور نہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سواری دی جو مجھے جہاد میں جانے کے لئے دے
دیتے…(اب میں یہ عمل کرتا ہوں کہ) کسی بھی مسلمان نے مال یا جان یا عزت کے بارے
میں مجھ پر جو ظلم کیا ہو وہ معاف کردیتا ہوں اور اس معاف کرنے کا اجروثواب تمام
مسلمانوں کو صدقہ کرتا ہوں‘‘… پھر (یہ صحابی) صبح لوگوں میں جاملے، حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات کو
صدقہ کرنے والا کہاں ہے؟ تو کوئی نہ کھڑا ہوا… آپ نے دوبارہ فرمایا : صدقہ کرنے
والا کہاں ہے؟ کھڑا ہوجائے… چنانچہ حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اپنا
رات والا قصہ سنایا…حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمہیں خوشخبری ہو۔ اس ذات کی قسم
جس کے قبضہ میں میری جان ہے! تمہارا یہ صدقہ مقبول خیرات میں لکھا گیا ہے۔‘‘ [حیات الصحابہؓ]
عجیب بندے
ہر آدمی عہدے اور منصب کی خواہش رکھتا ہے… مگر یہ عجیب
بندے عہدے اور منصب سے ڈرتے ہیں، بچتے ہیں… حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ
عنہ کو جب اندازہ ہوا کہ مجھے ’’خلیفہ‘‘
بنایا جاسکتا ہے تو اسی وقت سے کوشش میں لگ گئے کہ… انہیں یہ منصب نہ ملے… جب ان
کے خلیفہ بننے کا اعلان ہوا تو مجمع میں سے دو افراد کے منہ سے بیک وقت اِنَّا
لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
نکلی… ایک ہشام کے منہ سے کہ… مجھے خلافت کیوں نہیں ملی…اور دوسری حضرت عمر
بن عبدالعزیز کے منہ سے کہ… مجھے خلافت کیوں ملی۔
ہر آدمی عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ…اپنی راحتوں میں اضافہ
کرتا ہے… مگر یہ عجیب بندے عمر گزرنے کے ساتھ صرف ایمان میں ترقی کرتے ہیں… حضرت
عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی ابتدائی زندگی…بہت شاہانہ تھی…ان کا لباس اور
ان کی خوشبو کے ہر سو چرچے تھے… ایک جوڑا دوسری بار نہیں پہنتے تھے…ان کا صرف ذاتی
سامان تیس اونٹوں پر چلتا تھا… مگر کردار پاک، مزاج میں شرافت اور دل میں اللہ
تعالیٰ کا خوف تھا…خلافت ملی تو… بس ایک جوڑا کپڑے تھے اور پھر ان پر ایک کے بعد
دوسرا پیوند… اہلیہ محترمہ کا سارا زیور بیت المال میں جمع کرا دیا… وہ اللہ کی
بندی بھی اس پر راضی خوش رہی… { اَلطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِیْنَ }
{وَالْعَصْرِ} … وہ وقت گزر گیا…
آج تک یاد کیا جاتا ہے…قیامت تک یاد کیا جائے گا… نفس پرستوں کی صدیاں کوڑے کے
ڈھیر میں… اور اللہ تعالیٰ کے وفادار بندوں کے منٹ اور گھنٹے… صدیوں سے قیمتی… یا
اللہ! ہمیں بھی… اعتبار والا ایمان … مقبول اعمال صالحہ… حق پر مضبوطی… اور
تَوَاصِی بِالصَّبْرِ نصیب فرما۔آمین یا ارحم الراحمین
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 648
عید مبارک
* ’’عید‘‘
کا دن دعاؤں کی ’’ہول سیل قبولیت‘‘ کا دن
* ’’عید‘‘
کا دن حاجات اور مرادوں کی بر آوری کا دن
* ’’عید‘‘
کا دن انعامات الٰہیہ کی بارش کا دن
* چند
ایمان افروز ’’احادیث قدسیہ‘‘
* کاش!
مسلمانوں کو احساس ہو جائے
* اہل
اسلام کو ’’عید مبارک‘‘ اور عید گذارنے کے لئے اہم ہدایات
یہ
ہیں اس مبارک تحریر کے اہم موضوعات
تاریخ اشاعت:
۲۷ رمضان
المبارک ۱۴۳۹ھ/ بمطابق12 جون 2018
عید مبارک
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ’’رمضان‘‘ کی مغفرت اور ’’عید‘‘ کی
خوشیاں عطاء فرمائے…آپ سب کو پیشگی ’’عید مبارک‘‘ تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ
مِنْکُمْ۔
آج ۲۶ رمضان ۱۴۳۹ھ پیر کا دن ہے… اگر مسلمانوں کو اس بات کا احساس ہو جائے
کہ عید کے دن… ان کی کتنی دعائیں قبول ہوتی ہیں تو وہ آج سے ہی… دعائوں کی تیاری
میں لگ جائیں… اور کبھی بھی عید نماز میں اپنے ساتھ چھوٹے بچے نہ لے جائیں… اور
کبھی عید نماز میں تاخیر نہ کریں… اُس دن تو ’’قبولیت‘‘ کی ’’ہول سیل‘‘ لگی ہوتی
ہے… پورے سال میں یہ خاص الخاص… بہت ہی خاص موقع بس ایک بار آتا ہے… جب ہم’’عید
الفطر‘‘ کے لئے جاتے ہیں… تو ’’عید گاہ‘‘ میں… آخرت کے بارے میں کی گئی ہر دعاء
قبول ہوتی ہے… اور دنیا کے بارے میں کی گئی ہر وہ دعاء جو ہماری مصلحت میں ہوتی ہے
وہ قبول کی جاتی ہے… اور جو مصلحت میں نہیں ہوتی اس کی جگہ اس سے بہتر چیز عطاء
فرمادی جاتی ہے۔
وہ جانتا ہے، ہم نہیں جانتے
ہمارا علم بہت تھوڑا ہے… بہت محدود… ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ
بس جو مانگا وہ مل جائے… حالانکہ ہم اکثر غلط چیزیں مانگتے ہیں… تب ایمان والوں کے
ساتھ اللہ تعالیٰ کی خاص مدد اُترتی ہے اور ہمیں وہ غلط چیزیں نہیں دی جاتیں… ایک
حدیث قدسی ہے… اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’میرے بندوں میں سے بعض ایسے ہیں
کہ… اُن کے ایمان کی درستگی کے لئے مالداری ضروری ہوتی ہے میں اگر اُن کو فقیر
کردوں تو اُن کا ایمان خراب ہوجائے گا… اور میرے بعض بندوں کے ایمان کی درستی فقر
(یعنی غربت) میں ہوتی ہے میں اگر اُن کو مالدار کردوں تو اُن کا ایمان خراب ہوجائے
اور میرے بعض بندوں کے ایمان کی اصلاح صرف بیماری میں ہوتی ہے اگر میں اُن کو صحت
دے دوں تو اُن کا ایمان فاسد ہوجائے اور میرے بعض بندوں کے ایمان کی بھلائی صحت
میں ہوتی ہے اگر میں اُن کو بیمار کردوں تو وہ خرابی میں پڑ جائیں۔‘‘ [الطبرانی]
بے شک اصل چیز اور اصل نعمت ایمان ہے… اللہ تعالیٰ اپنے
پیارے بندوں کے ایمان کی حفاظت فرماتے ہیں… اور انہیں اُن چیزوں سے بچاتے ہیں جو
اُن کے ایمان کے لئے مضر ہوتی ہیں… حتٰی کہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندے کوئی عبادت
کرنا چاہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ… اس عبادت کی وجہ سے ان میں عجب
اورتکبر آجائے گا تو اللہ تعالیٰ اُن کے لئے اس عبادت کی توفیق نہیں کھولتے۔ [طبرانی]
بس دعا کرنی چاہئے کہ… ہم اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور
نگرانی میں رہیں… ورنہ اگر اللہ تعالیٰ اپنی خاص توجہ ہٹالے تو پھر… انسان جو
چاہتا ہے وہی ہوتا ہے… جو مانگتا ہے اُسے ملتا ہے مگر اس میں خیر نہیں ہوتی… ایمان
کی سلامتی نہیں ہوتی…بس وقتی فائدہ اور پھر ہلاکت اور عذاب… یااللہ! آپ کی امان۔
بات یہ چل رہی تھی کہ… عید کے دن جب مسلمان عید کی نماز کے
لئے ’’عید گاہ‘‘ پہنچ جاتے ہیں تو… اُن کے لئے رحمتوں اور قبولیتوں کی بوریاں کھول
دی جاتی ہیں…اُن کو رمضان المبارک کی محنت کا اجر جھولیاں بھر بھر کر دیا جاتا ہے…
ان کی ہر دعاء قبول کی جاتی ہے… اُن کے مسائل حل کئے جاتے ہیں… یہ بڑا خاص موقع
ہوتا ہے… مگر ہم میں سے اکثر کو اس کا احساس نہیں… اور بہت سوں کو اس کا علم نہیں…
وہ اپنا بہت سا ٹائم اپنی بناوٹ سجاوٹ پر ضائع کرتے ہیں… پھر چھوٹے بچوں کو ساتھ
لے جاتے ہیں… اور سارا وقت اُن کے ناز نخرے اُٹھانے میں برباد کردیتے ہیں… آئمہ
کرام بھی دعاء کا وقت اور موقع نہیں دیتے… اور نہ اس کی ترغیب دیتے ہیں… اور یوں
ہمارے اجتماعی گناہوں کی شامت کی وجہ سے… یہ قیمتی وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے… اب یہ
اگلے سال آئے گا… اس وقت معلوم نہیں کون زندہ ہوگا اور کون نہیں۔
سچی بات ہے
اگر مسلمانوں کو احساس ہوجائے کہ… عید کے دن، عید کی نماز
کے وقت اور عید کی نماز کے بعد دعائیں کس قدر قبول ہوتی ہیں تو وہ… عید کے لئے نئے
کپڑے، نئے جوتے اور نئی خریداری بھول جائیں اور بس اس انتظار میں رہیں کہ… کب وہ
لمحہ آئے گا… لوگ دعائوں اور مرادوں کی قبولیت کے لئے دور دور مزاروں کا سفر کرتے
ہیں… حالانکہ ایسا نہیں کرنا چاہئے… کئی لوگ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کی طرف سفر
کرتے ہیں کہ اُن سے دعاء کرائیں گے… بیمار ہوں تو دور دور کے ڈاکٹروں اور حکیموں
کا سفر کرتے ہیں… عید کے دن… عید نماز کے وقت جس طرح سے دعائیں قبول ہوتی ہیں… اور
جس طرح سے مرادیں پوری ہوتی ہیں… وہ بزرگوں کی دعائوں اور ڈاکٹروں، حکیموں کے علاج
سے بہت مؤثر ہیں… کاش! مسلمانوں کو احساس ہوجائے اور وہ یہ نعمت پالیں… آپ نے
عید کے دن دیکھا ہوگا کہ… گھر کے بڑے کتنی سخاوت سے اپنے چھوٹوں میں نوٹ تقسیم
کرتے ہیں… پھر جس کا دل جتنا سخی… اور جیب جتنی مضبوط اسی قدر اس کا ہاتھ بھی
کھلا… اب بغیر تمثیل کے سوچیں کہ… اللہ تعالیٰ سب سے بڑے ہیں… اللہ تعالیٰ سب سے
زیادہ سخی ہیں… اللہ تعالیٰ کے خزانے بے شمار اور لامحدود ہیں اور اللہ تعالیٰ کا
اپنے بندوں سے رشتہ… ماں بیٹے کے رشتے سے بھی زیادہ پیار بھرا ہے… اور پھر عید کا
دن… اور وہ بھی رمضان کے بعد… اب اندازہ لگائیں کہ کیا کیا تقسیم ہوتا ہو گا… اور
کتنا تقسیم ہوتا ہوگا… اور عیدی کا یہ انعام صرف مردوں کے لئے نہیں ہے… عورتوں کے
لئے بھی خوب ہے… وہ بھی اس وقت مصلے پر پہنچ جایا کریں… اور خوب دل بھر کر اپنے
محبوب رب تعالیٰ سے عیدی وصول کرلیا کریں… سچی بات ہے کہ… عید کی تیاری نہ کپڑوں
سے ہے نہ جوتے سے… نہ زیورات سے ہے نہ چوڑیوں سے… نہ سویوں سے ہے نہ بریانی سے…
عید کی تیاری تو اللہ تعالیٰ سے ملنے والی ’’عیدی‘‘ کی چاہت میں ہے… یہ ’’عیدی‘‘
ایمان والوں کو ’’مغفرت‘‘ کی صورت میں ملتی ہے… انعام کی صورت میں ملتی ہے… دعاء
کی قبولیت کی صورت میں ملتی ہے… یہ عیدی جس کو مل گئی… بس اس کی ‘‘عید‘‘ ہوگئی…اور
جو اس عیدی سے محروم رہا… اس بے چارے کی کیا عید؟…شور شرابے، فیشن، گناہ… اور شہوت
میں کونسی عید ہے اور کونسی خوشی؟… عید تو مزدور کی اُجرت ملنے کا نام ہے… رمضان
میں جو مزدوری کی… عید کے دن اس کی پوری پوری اُجرت ملتی ہے… اور اللہ تعالیٰ اپنے
فضل سے مزید بھی عطاء فرماتے ہیں۔
عید مبارک
آپ سب کو دل کی گہرائی سے… عید مبارک… بس ہم سب کو ایک بات
خوب یاد رہے کہ… عید کے دن بھی اعمال لکھے جاتے ہیں… عید کے دن بھی مسلمان کا
مسلمان رہنا ضروری ہوتا ہے… عید کے دن بھی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں… عید کے دن بھی
اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات ہم پر متوجہ ہوتے ہیں… اور یہ بات بھی یاد رہے کہ عید
کے دن بھی… اللہ تعالیٰ دیکھتے ہیں اور فرشتے لکھتے ہیں۔
آپ سب کو بہت عید مبارک… بس اتنی بات ہم سب یاد رکھیں کہ
عید کے دن مساجد سے جو اذانیں ہوتی ہیں… وہ ہم مسلمانوں کے لئے ہی ہوتی ہیں… کسی
اور قوم کے لئے نہیں… پھر مسجدیں خالی خالی کیوں نظر آتی ہیں؟
آپ سب کو خوشیوں بھری عید مبارک… بس اتنی سی بات ہم سب کے
ذہن میں رہے کہ… پیارا قرآن مجید… عظیم قرآن مجید… سکون بھرا قرآن مجید عید کے
دن… ہم سے عید ضرور ملے… اگر ہم نے اس سے عید نہیں ملی… اور وہ عید کے دن ہمارے
ہاتھوں، ہماری آنکھوں اور ہمارے سینے سے دور رہا تو… پھر ہم نے کتنی قیمتی ’’عید
ملن‘‘ ضائع کردی… عید کے دن قرآن مجید ہاتھوں میں لے کر… تھوڑی یا زیادہ تلاوت
کریں… اور قرآن عظیم الشان سے قیمتی عیدی وصول کریں۔
آپ سب کو ایمان افروز عید مبارک… بس یہ یاد رہے کہ آپ کے
بہت سے بھائی بہن مظلوم ہیں… برما سے لے کر فلسطین تک… کشمیر سے لے کر افغانستان
تک… انڈیا سے لے کر شام تک… عید کے دن ہم اپنی دعائوں اور اپنی فکر میں انہیں یاد
رکھیں… خود کو اور ان کو ایک اُمت مسلمہ اور ایک جسم کا حصہ سمجھیں… اور ہم ساری
دنیا میں برسر پیکار مجاہدین اسلام کے لئے دعاء کرنا ہرگز نہ بھولیں… ہم ان اولیاء
مجاہدین کے لئے دعاء کریں گے تو اس سے ہماری دعائوں کو… ان شاء اللہ زیادہ قبولیت
نصیب ہوگی۔
آپ سب کو قلبی عید مبارک… اپنی محترمہ بہن جی ڈاکٹر عافیہ
کو بھی عید مبارک… بگرام، تہاڑ، جموں، پل چرخی… اور دور دور تک کی جیلوں میں
قید…اُن عظیم انسانوں کو بھی ’’عید مبارک‘‘ جو دین کی خاطر آزمائشیں اُٹھا کر…
بلند مقامات پارہے ہیں… اللہ تعالیٰ ہمیں… اُن کے ’’حق واجب‘‘ کو ادا کرنے کی فکر،
توفیق اور صلاحیت عطاء فرمائے…آمین
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 649
اَلسِّبَاحَۃ (تیراکی)…
ایک مُبارک عمل
*
سمندری جہاد کی فضیلت
* ’’اَلسِّبَاحَۃ‘‘
یعنی تیراکی کے فضائل و خصوصیات
*
سمندری جہاد کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے
تیراکی
میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہے
*
ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی رضاء اور جہاد فی سبیل اللہ
کی
نیت سے تیراکی کی تربیت ضرور حاصل کرنی چاہئے
*
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا گھڑسواری، تیر
اندازی اور
تیراکی
سیکھنے کے بارے میں تاکیدی حکم
*
’’تیراکی‘‘ دینی و دنیوی بہت سی خیروں کا باعث…
* تیراکی
میں شفاء، صحت اور طاقت…
* ترکی
میں صدر ’’رجب طیب اردوگان‘‘ کی کامیابی پر اظہار خوشی
* انڈیا
کی پروپیگنڈہ مہم…
یہ
ہیں اس تحریر کے اہم موضوعات
تاریخ
اشاعت:
۱۴شوال۱۴۳۹ھ/بمطابق29جون2018ء
اَلسِّبَاحَۃ (تیراکی)…
ایک مُبارک عمل
اللہ تعالیٰ نے ’’سمندری جہاد‘‘ کو خصوصی فضیلت عطاء فرمائی
ہے… بحری جہاد، سمندری جہاد ، پانی کے سینے پر سوار ہو کر جہاد… یہ زمینی جہاد سے
دس گنا افضل ہے… حدیث صحیح ہے کہ … حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
غَزْوَۃٌ فِی الْبَحْرِ خَیْرٌ مِنْ عَشْرِ غَزَوَاتٍ فِی
الْبَرِّ۔
’’سمندر میں ایک بار جہاد خشکی پر
دس جنگوں سے افضل ہے۔‘‘
[المستدرک للحاکم۔ ج: ۲، ص: ۱۵۵۔ رقم الحدیث: ۲۶۳۴۔ ط:
دار الکتب العلمیہ، بیروت]
سمندر میں شہید ہونے والے مجاہد کو… خشکی پر شہید ہونے والے
مجاہد سے دگنا اجر ملتا ہے… اس بارے میں احادیث اور بھی بہت ہیں… آپ یہ بتائیں کہ
جو شخص تیراکی نہ جانتا ہو… کیا وہ سمندر میں جہاد کر سکتا ہے؟… جہاد ایک قطعی
فریضہ ہے… اور سمندر کا جہاد زیادہ افضل ہے اور سمندر کا جہاد تیراکی سیکھے بغیر
ممکن نہیں ہے… اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ ایک مسلمان کے لئے… تیراکی سیکھنا اور
اس میں حتی الوسع مہارت حاصل کرنا کس قدر ضروری ہے۔
تیراکی اور تُرکی
آج ہمارا موضوع ’’تیراکی‘‘ ہے… اللہ تعالیٰ اس مبارک عمل
کو امت مسلمہ میں جاری فرمائیں… قوت ، صحت اور تازگی سے بھرپور عمل … ’’تیراکی‘‘
پر مزید بات کرنے سے پہلے… ’’ترکی‘‘ کے
انتخابات اور محترم جناب رجب طیب اردگان کا… عثمانی تھپڑ… الحمد للہ جناب ’’رجب
طیب صاحب‘‘ ترکی کے انتخابات میں کامیاب ہو گئے ہیں… اسلام سے محبت رکھنے والا ہر
شخص اس کی خوشی محسوس کر رہا ہے…اور کرنی بھی چاہیے… ایک طویل عرصہ سے مسلمانوں پر
جس قبیل کے حکمران مسلط ہو رہے ہیں… ان کو دیکھتے ہوئے ’’رجب طیب‘‘ بہت غنیمت لگتے
ہیں… وہ اسلام اور مسلمانوں کی بات بھی کرتے ہیں… اور مسلمانوں کے مسائل پر بے چین
بھی ہوتے ہیں… دین سے متوحش اور بیزار مسلمان حکمرانوں کے درمیان… وہ واقعی ایک
’’عجوبہ‘‘ اور ایک ’’نعمت‘‘ ہیں… اسی لئے دنیا بھر کے مسلمان ان سے محبت رکھتے
ہیں… ان کی تائید اور حمایت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ … ہم صدر طیب کے تمام اقدامات
کی تائید کرتے ہیں… یا ان کو اسلامی محنت اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی منزل سمجھتے
ہیں… ایسا بالکل نہیں… ان کے کئی اقدامات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے… ان کی خارجہ
پالیسی بھی… بہرحال مزید اصلاح چاہتی ہے… اور یہ کہ وہ دنیا بھر میں جاری اسلامی
محنت کے نتائج کا آغاز ہیں… ان شاء اللہ یہ محنت جاری رہی تو مسلمان دنیا میں
اسلام کا غلبہ دیکھیں گے… ایک طرف ساری دنیا کا کفر اور نفاق تھا… رنگین اور منقش
سیکولر ازم تھا… اور دوسری طرف… خلافتِ عثمانیہ کو یاد کرنے والا ایک شخص تھا…
زمانے میں جاری دستور کے مطابق خلافت اور جہاد کا نام لینے والوں کا ہر راستہ بند
کر دیا جاتا ہے… مگر اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطاء فرمائی… یہ بہرحال
خوشی اور امید کی بات ہے… اللہ تعالیٰ اُمتِ مسلمہ کو مزید عزت اور کامیابیاں عطاء
فرمائے۔
دوسری بات انڈیا کے حوالے سے ہے… رمضان المبارک
میں کشمیری مجاہدین نے دہلی کی پیلی حکومت کو مار مار کر نیلا کر دیا… ایسے جاندار
اور تابڑ توڑ حملے ہوئے کہ ’’آرمی چیف‘‘ تک نے شکست کا اعتراف کر لیا… عید کے بعد
اسی افراتفری میں مقبوضہ کشمیر کی مخلوط حکومت بھی گر گئی… اور انڈیا نے اپنی فوج
اور عوام کے ڈوبتے مورال کو بچانے کے لئے… ایک تشہیری مہم بھی شروع کی… کبھی کہا
جا رہا ہے کہ… بی ایس ایف کے اہلکاروں کو ’’سنائپر‘‘ کی تربیت دی جا رہی ہے… عجیب
مضحکہ خیز بات ہے… دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی فوج میں بھی ’’سنائپر ‘‘ کی تربیت ہوتی
ہے… یہ کوئی نئی یا ڈرنے والی بات نہیں ہے… ہاتھ میں ’’سنائپر‘‘ ( یعنی دور تک مار
کرنے والی لمبی بندوق) پکڑائی جا سکتی ہے مگر سینے میں دل تو وہی ہوتا ہے… ابھی
کچھ عرصہ پہلے ہمارے مجاہدین کے ایک حملے میں انڈین کمانڈوز کا استاذ… ہارٹ اٹیک
سے مر گیا…اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ… کشمیر میں بلیک کیٹ کمانڈوز کو لایا جا رہا
ہے… یہ بھی محض پروپیگنڈہ ہے… کشمیر میں انڈیا کی ہر فورس پہلے سے موجود ہے اور
بُری طرح ناکام ہو رہی ہے… اس کے بعد یہ شور مچایا جا رہا ہے کہ کشمیری شہداء کے
جنازے ان کے اہل خانہ کے سپرد نہیں کئے جائیں گے… مجاہدین کے لئے یہ بھی کوئی
پریشانی کی بات نہیں ہے… کیونکہ شہداء کرام کے جنازے فرشتے ادا کرتے ہیں… اور ان
کا پیغام اور ان کی محبت اللہ تعالیٰ خود مسلمانوں کے دلوں تک پہنچاتے ہیں… میرے
خیال میں اگر انڈیا نے شہداء کرام کے جنازے ان کے اہل خانہ کے سپرد نہ کئے تو اس
سے تحریک کو بہت فائدہ پہنچے گا… اہل کشمیر کی انڈیا کے ساتھ نفرت میں اضافہ ہو
گا… اس پر بہت خوفناک احتجاج ہو گا… اور بے شمار نوجوان… ان شاء اللہ راہ جہاد میں
شامل ہوں گے…انڈیا نے ہمارے طلحہ شہید رحمہ اللہ کو… خفیہ طور پر سپرد خاک کیا مگر آج ان کا درد
اور پیغام کشمیر کی گلی گلی میں پھیل رہا ہے، والحمد للہ رب العالمین۔
آئیے! تیراکی سیکھئے
آج کی مجلس میں ہر مسلمان یہ نیت کر لے کہ … وہ ان شاء
اللہ… اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے تیراکی سیکھے گا… جہاد فی سبیل اللہ کی نیت سے
تیراکی سیکھے گا… حضرات خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حکم مان کر تیراکی سیکھے گا… حضرات صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم
پر چلتے ہوئے تیراکی سیکھے گا… اُمت مسلمہ کے جانباز فاتحین جنہوں نے قسطنطنیہ کو
فتح کیا… ان کی راہ پر چلتے ہوئے تیراکی سیکھے گا… اور اپنی اولاد کو…نہایت اہتمام
سے تیراکی سکھائے گا…حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے تیراکی کی فضیلت پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے
اس رسالہ کا نام ہے ’’اَلْبَاحَۃُ فِی فَضْلِ السِّبَاحَۃ‘‘…اس میںانہوں نے تیراکی کی فضیلت پر روایات جمع فرمائی ہیں… آج
ارادہ تھا کہ اس رسالہ کا ترجمہ… رنگ و نور میں پیش کیا جائے مگر یہ کام اب ان شاء
اللہ اگلے ہفتے ہو گا… تیراکی ایک بہترین تفریح اور کھیل بھی ہے… آج کل کے میڈیکل
سائنسدان تیراکی کو… سب سے بہترین ورزش قرار دیتے ہیں… اور اسے بے خوابی ، ذہنی
دباؤ ، کمر درد… اور بہت سی بیماریوں کا علاج بھی قرار دیتے ہیں… حضرت سیدنا امیر
المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے… اپنے گورنروں کے ذریعہ اسلامی دنیا میں… یہ
لازمی حکم جاری فرما دیا تھا کہ… ہر مسلمان اپنے بچوں کو تیراکی ، تیر اندازی اور
گھڑ سواری سکھائے… آج کل لوگ ان کھیلوں پر اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں… جن میں نہ
دین کا فائدہ ہے اور نہ جسم کا… جبکہ تیراکی میں دین کا بھی فائدہ ہے اور جسم اور
دنیا کا بھی… اور تیراکی بہت آسان عمل ہے… بچے تو چند دن میں سیکھ لیتے ہیں اور
پھر پوری زندگی اپنے ان والدین کو دعاء دیتے ہیں جنہوں نے ان کے لئے… اس نعمت اور
صلاحیت کا بندوبست کیا… جبکہ بڑی عمر کے افراد بھی… تھوڑی سی کوشش کر کے یہ عمل سیکھ
سکتے ہیں… یقین فرمائیں کہ تیراکی… آپ سے بہت سی دوائیں چھڑوا دے گی… آپ کو بہت
سے ڈاکٹروں سے بچا لے گی… اور جتنی دیر آپ پانی میں ہوں گے… اتنی دیر یوٹیوب ،
فیس بک اور ٹوئٹر وغیرہ… بیماریوں سے بھی… آپ دور رہیں گے… کیونکہ فی الحال عام
موبائل پانی میں کام نہیں کرتے… دیکھیں! یہ عظیم جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ
بن عمرو رضی اللہ عنہ کیا فرما رہے ہیں؟…
فرماتے ہیں کہ میں سمندر میں جہاد کروں یہ میرے نزدیک …سونے کا ایک بڑا ڈھیر مقبول
صدقہ کرنے سے زیادہ محبوب ہے… مطلب یہ نکلا کہ اگر تیراکی آتی ہو تو… انسان
سمندری جہاد کے ذریعے… اربوں روپے مقبول صدقے سے بڑا اجر حاصل کر سکتا ہے۔
آج بس اتنا ہی… اگلے ہفتے ان شاء اللہ اسی موضوع پر مزید
بات ہو گی اور حضرت سیوطی رحمہ اللہ کے رسالہ کا ترجمہ بھی آ جائے گا… یا اللہ!
آسان فرمائیے … قبول فرمائیے… دِلوں میں بات اُتار دیجئے…خالص اپنی رضاء کے لئے…
اپنے کلمے اور دین کی قوت کے لئے، آمین یا ارحم الراحمین۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 650
پانی اور اس کے کنارے
’’آج پانی، ساحلِ سمندر، ندیاں،
چشمے اور جھیلیں ’’برائی‘‘ اور ’’گناہ‘‘ کے اڈے بن چکے ہیں… جب اہل ایمان اور اہل
تقویٰ نے پانی کو اکیلا چھوڑ دیا تو کفار اور فساق نے اس پر قبضہ جما لیا… حالانکہ
ہم اگر ماضی کے روشن قصے پڑھیں تو ہم دیکھیں گے کہ ہمارے اسلاف اور اولیاء کرام
پانی سے کس قدر انس رکھتے تھے… وہ اپنے زمانے کے بہترین تیراک تھے۔‘‘
’’سمندری جہاد‘‘
اور’’تیراکی‘‘کےفضائل،اہمیت اورخصوصیات پر مشتمل ایک مفصل اور دلکش مضمون
تاریخ
اشاعت:
۲۱شوال۱۴۳۹ھ/بمطابق6جولائی2018ء
پانی اور اس کے کنارے
اللہ تعالیٰ نے ’’انسان‘‘ کو بڑی عزت، قوت اور شان بخشی
ہے…سمندروں،دریاؤں، پہاڑوں اور بڑے بڑے جانوروں کو انسان کے لئے ’’مسخر‘‘ فرما
دیا ہے… انسان تھوڑی سی محنت اور کوشش کرے تو … بڑے کمالات حاصل کر لیتا ہے…
تیراکی بھی ایک نعمت، ایک فضیلت ، ایک کمال… اور ایک ہنر ہے…دین کی خاطر، جہاد کی
خاطر، اپنی مضبوطی کی خاطر… اور خدمت کے لئے یہ ’’ہنر‘‘ سیکھنا چاہئے… ہمارے ہر
طرف پانی ہی پانی ہے…زمین کا اکثر حصہ پانی پر مشتمل ہے… پانی میں ہماری حیات ہے…
پانی میں ہماری قوت اور توانائی ہے…اور پانی میں ہماری غذا ہے… اس لئے پانی سے
دوستی لگانی چاہیے … پانی کو ضائع نہیں کرنا چاہیے… اور پانی کو گناہوں سے پاک
رکھنا چاہیے… آج سمندروں کے ساحل گناہوں سے آلودہ ہو گئے …آج دریاؤں اور ندیوں
کے کنارے ذکر اللہ کو ترس گئے… آج پانی صرف عیاشی اور بدمعاشی کی تفریح گاہ بن
گیا… آہ کاش! مسلمان پانی کو سمجھتے… پانی سے دوستی لگاتے اور پانی کو اپنا جہادی
دوست بناتے تو… دنیا خیر سے بھر جاتی…پانی کاجہاد اس قدر مبارک ہے کہ… حضرت سیّدہ
اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
فرماتی ہیں:
’’اگر میں مرد ہوتی تو پھر صرف
سمندر ہی میںجہاد کرتی رہتی کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ’’جسے سمندر میں قے آ جائے
وہ ( اجر و ثواب میں) خشکی پر اپنے خون میں لت پت ہونے والے جیسا ہے۔‘‘
( فضائل جہاد بحوالہ کتاب السنن)
حضرت محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی اور مبارک مسکراہٹ
مسلمانوں کا سمندری جہاد حضرت سیّدنا عثمان بن عفان رضی
اللہ عنہ کے دور خلافت میں شروع ہوا… مگر اس کی فکر اور تیاری حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم کے مبارک زمانے سے جاری تھی…آپ
نے بخاری اور مسلم کی وہ روایت سنی ہو گی جس میں… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں اس اُمت کے ’’بحری مجاہدین‘‘ دکھائے
گئے تو آپ خوشی سے مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے اور بشارت سنائی کہ… مجھے میری امت کے
کچھ لوگ دکھائے گئے جو سمندر میں اس طرح سے سوار ہو کر جہاد کریں گے جس طرح بادشاہ
اپنے تخت پر بیٹھتے ہیں… یہ خواب ایک ہی مجلس میں بار بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا اور ہر بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خوشی اور مسکراہٹ نچھاور فرمائی… سبحان
اللہ! کیسا مبارک جہاد ہے اور کیسے خوش نصیب مجاہدین … آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خواب اور اس لشکر کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتیں… اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس لشکر پر خوشی اور مسکراہٹ نے بحری جہاد کو
مسلمان کے لئے بے حد محبوب بنا دیا اور وہ اس کی تیاری اور فکر میں لگے رہے…
چنانچہ حضرت سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ
عنہ نے تیراکی سکھانے کا باقاعدہ حکمنامہ
جاری فرمایا… خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اسی عمل کو جاری فرماتے تھے جو … حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم کے دین، شریعت اور پسند کے مطابق ہوتا تھا… اسی
لئےحضرات خلفاء راشدین کی سنت کو اپنانے کا حکم فرمایا گیا ہے۔
تیراکی کی یہ سنت آج دیندار مسلمانوں میں ’’مفقود‘‘ ہو رہی
ہے… مشائخ کرام ، علماء عظام اور دیندار مسلمانوں کو اس کی طرف توجہ فرمانی چاہیے…
اور اس مبارک عمل میں کمال حاصل کرنا چاہیے… ہم نے اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر… اللہ
تعالیٰ کی رضاء کے لئے یہ دعوت اُٹھائی ہے… اور اپنی وسعت کے مطابق تیراکی کی
تعلیم کے لئے… کچھ انتظام بھی کیا ہے… الحمد للہ اب تک کئی افراد سیکھ چکے ہیں اور
امید ہے کہ… جماعت کے دیوانے خود اس عمل کو اپنا کر آگے اس کی دعوت چلائیں گے تو
ہزاروں لاکھوں مسلمان تیراکی کے مبارک عمل کو سیکھ لیں گے… اور جب وہ سیکھ لیں گے
تو ان کو عمر بھر دعائیں دیں گے جنہوں نے انہیں اس عمل کی دعوت دی ہو گی۔
آج کیا ہو رہا ہے؟
آج پانی، ساحل سمندر، ندیاں، چشمے اور جھیلیں ’’بُرائی‘‘
اور ’’گناہ‘‘ کے اڈے بن چکے ہیں… جب اہل ایمان اور اہل تقویٰ نے پانی کو اکیلا
چھوڑ دیا تو کفار اور فساق نے اس پر قبضہ جما لیا… حالانکہ ہم اگر ماضی کے روشن
قصے پڑھیں تو ہم دیکھیں گے کہ ہمارے اسلاف اور اولیاء کرام پانی سے کس قدر انس
رکھتے تھے… وہ اپنے زمانے کے بہترین تیراک تھے… وہ پانی میں غوطہ لگاتے تو باہر
والے ان کے نکلنے کے انتظار میں تھک جاتے جبکہ وہ… سانس بند کر کے پانی میں سجدے
کرتے رہتے… وہ پانی سے مچھلی نکال کر اپنے اور اپنے اہل و اولاد کے لئے رزق حلال
کا بندوبست فرماتے… اور جب ان کو ’’بری‘‘ یا ’’بحری ‘‘ جہاد کی طرف بلایا جاتا تو…
زمین اور سمندر سب اُن کے لئے ایک جیسے دوست ثابت ہوتے… ہاں! جنہوں نے… آخرت کی
اونچی منزلیں پانی ہوں وہ دنیا میں مشقت اور محنت کی زندگی اختیار کرتے ہیں… آپ
بھی تجربہ کریں چلتے پانی کے قریب بیٹھ کر ذکر کریں تو… آپ عجیب کیفیت اور لذت
پائیں گے اور آپ کا قلب فوراً… ذکر اللہ سے جاری ہو جائے گا… مگر آج پانی کے
کنارے صرف گناہ ، بدی اور تفریح کے لئے خاص کر دئیے گئے ہیں… اس لئے تاکید کے ساتھ
عرض کیا جا رہا ہے کہ… تیراکی سیکھنے کا عمل فوراً اپنائیں مگر… شرط یہ ہے کہ… ہم
ان تمام گناہوں سے بچیں جنہوں نے… پانی اور اس کے کناروں پر قبضہ جما رکھا ہے…
رومیوں کی گناہگار اور ظالمانہ سلطنت پانی کے کنارے قائم تھی… قسطنطنیہ کا شہر
رومی سلطنت کا مرکز اور دارالحکومت تھا… مسلمانوں نے ہمیشہ اس شہر کو اپنے خوابوں
میں بسائے رکھا… کیونکہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شہر کو فتح کرنے والوں کے لیے بڑی بشارتیں
ارشاد فرمائی تھیں… کتنے خوش بخت اس شہر کے آس پاس پروانوں کی طرح جل کر شہید
ہوئے… اور کتنے اس کی فصیلوں کے نیچے دفن ہوئے… کئی صدیوں کی محنت کے بعد… بالآخر
مسلمانوں نے پانی کے اس ساحل کو فتح کر کے… یورپ کے سینے تک اسلام کے جھنڈے گاڑ
دئیے … ابھی استنبول میں جب … وہاں کے مسلمان صدر رجب طیب ا ردگان کے منتخب ہونے
کی خوشی منا رہے تھے تو… مجھے وہ مجاہدین یاد آ رہے تھے جو اس شہر کو فتح کرنے
کی… ایک طویل ،جان توڑ مگر انتھک تاریخ رقم فرما گئے… حضرت سیدنا ابوایوب انصاری
رضی اللہ عنہ سے لے کر…محمد الفاتح تک…
اللہ تعالیٰ ان سب کو… اس امت کی طرف سے بہترین جرائے خیر عطاء فرمائے۔
عرض یہ کر رہا تھا کہ… آپ تیراکی سیکھنے جائیں
تو اپنے ساتھ… نیکیاں، ذکر اللہ اور تقویٰ بھی پانی کے کناروں تک لے جائیں … پانی
آپ کو دعائیں دے گا… تیراکی جسم ڈھانپ کر کریں… ناف سے لے کر گھٹنے تک جسم ضرور
چھپا ہوا ہو… تیراکی کے دوران ذکر، تلاوت اور مسنون دعائیں… دل یا زبان سے پڑھتے
رہیں… غفلت زدہ تفریح کا ماحول نہ بنائیں… بلکہ اگر چند افراد مل کر جائیں تو پانی
کے کنارے تعلیم کریں…بیان کریں… ایک دوسرے کو حق اور استقامت کی دعوت دیں… آج
پانی اور اس کے کناروں کا نام سنتے ہی اکثر لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کے گناہ
کروٹ لینے لگتے ہیں… مگر آپ ایسے بنیں کہ پانی اور اس کے کناروں کا نام سنتے ہی…
آپ کے لطائف ذکر اللہ سے جاگ اُٹھیں… آپ کے جذبات جہاد سے روشن ہو جائیں… اور
آپ کے ذہن میں… بحری جہاد کے فضائل کروٹیں لینے لگیں… حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’جس نے میرے ساتھ (مل کر) جہاد نہ
کیا ہو اسے چاہیے کہ سمندر میں جہاد کرے، بے شک! سمندر کے ایک دن کا اجر خشکی کے
ایک ماہ کے اجر جیسا ہے۔ ‘‘
[ فضائل جہاد بحوالہ مصنف عبد
الرزاق]
اَلْبَاحَۃ فِی فَضْلِ السِّبَاحَۃ
آپ نے حضرت شیخ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا اسم گرامی سنا ہو گا… وہ اس امت کے حفاظ
قرآن، حفاظ حدیث اور حفاظ تاریخ میں سے تھے… ان کا نام عبد الرحمٰن بن ابوبکر ہے…
۸۴۹ھ رجب کے مہینے میں پیدا ہوئے … آٹھ سال کی عمر میں قرآن
مجید حفظ کر لیا اور سترہ سال کی عمر تک باقاعدہ ’’مفتی‘‘ بن گئے… اللہ تعالیٰ نے
ان کو سات بڑے علوم میں تبحر اور مکمل مہارت عطاء فرمائی تھی… انہوں نے مختلف علوم
و فنون میں پانچ سو اڑتیس (۵۳۸) کتابیں تصنیف فرمائیں… جمعہ کی رات ۹۱۱ھ میں آپ کی وفات ہوئی… اور اہل ایمان نے ان کی تاریخی نماز جنازہ ادا کی…
حضرت سیوطی رحمہ اللہ کی تصنیفات میں سے
ایک تیراکی سے متعلق ہے… اور دوسری جہادی ’’نیزے‘‘ کے متعلق… یہ دونوں مختصر رسالے
ایک ساتھ شائع ہوتے ہیں … تیراکی والے رسالے کا نام… ’’اَلْبَاحَۃ فِی فَضْلِ
السِّبَاحَۃ‘‘ ہے… ’’اَلْبَاحَۃ‘‘ کا مطلب ’’میدان‘‘ … کھجوروں کے بہت سے درخت…
بہت پانی [القاموس] ’’فَضْل‘‘ کا معنٰی فضیلت… اور ’’السِّبَاحَۃ‘‘ کا معنٰی
تیراکی… حضرت علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے
تیراکی کی مناسبت سے رسالے کا نام ’’اَلْبَاحَۃ‘‘ رکھا… گویا کہ وہ علمی چشمہ جو
آپ کو تیراکی کے فضائل سمجھاتا ہے۔
قلبی معذرت
حضرت علامہ سیوطی رحمہ اللہ کا یہ رسالہ بہت مختصر ہے …جبکہ اس کے ساتھ جو
دوسرا رسالہ نیزے کی فضیلت میں ہے وہ قدرے مفصل ہے… اس کا نام ’’اَلسِّمَاح فِی
اَخْبَارِ الرِّمَاح‘‘ ہے… تیراکی والا رسالہ صرف چار پانچ صفحات کا ہے… دو ہفتے
سے اس کا ترجمہ کرنے اور رنگ و نور میں چھاپنے کا ارادہ ہے مگر… کچھ مشغولیات اور
حالات کی وجہ سے ابھی تک یہ ممکن نہیں ہو سکا حالانکہ… صرف ایک گھنٹے کا کام ہے…
ہمارے مقبوضہ کشمیر کے بھائی جب کسی بات پر معذرت کرتے ہیں تو کہتے ہیں… میں دونوں
ہاتھ جوڑ کر آپ سے معذرت کرتا ہوں… دو ہفتے سے ترجمہ پیش نہ کرنے پر میرا بھی یہی
دل چاہ رہا ہے… مگر دونوں ہاتھ جوڑنا اچھا نہیں ہے… اس لئے ہاتھ جوڑے بغیر میں آپ
سے دل کی گہرائی سے معذرت کرتا ہوں… زندگی رہی تو اگلے ہفتے ضرور آ جائے گا، ان
شاء اللہ۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
رنگ و نور … 651
اَلْبَاحَۃ
فِیْ فَضْلِ السِّبَاحَۃ
علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا
تیراکی
کی فضیلت پر تحریرکردہ رسالہ
’’الباحۃ فی فضل السباحۃ‘‘
کا
اردو ترجمہ…
تاریخ اشاعت:
۲۸شوال۱۴۳۹ھ/بمطابق13جولائی2018ء
اَلْبَاحَۃ
فِیْ فَضْلِ السِّبَاحَۃ
(’’تیراکی‘‘ کی فضیلت پرعلامہ جلال
الدین سیوطی رحمہ اللہ کے رسالے کا ترجمہ)
اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر کہ… ’’تیراکی‘‘ کی دعوت کو
مسلمانوں کی ’’توجہ‘‘ مل رہی ہے… الحمدللہ حوصلہ افزاء نتائج سامنے آ رہے ہیں…
تیراکی کے اصل اور مستحکم فضائل تو ’’غزوۃ البحر‘‘ یعنی سمندری جہاد کے ابواب سے
سمجھے جا سکتے ہیں… مگر حضرت علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ان روایات کو جمع فرمایا ہے جن میں براہ راست
’’السِّبَاحَۃ‘‘یعنی تیراکی کا لفظ آیا ہے… لیجئے! ’’اَلْبَاحَۃ فِی فَضْلِ
السِّبَاحَۃ‘‘ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔ ( ہم نے روایات کی سند کو ترجمہ میں شامل
نہیں کیا)
اَلْبَاحَۃ فِی فَضْلِ السِّبَاحَۃ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ
اصْطَفٰی۔
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور سلام ہو اللہ
تعالیٰ کے اُن بندوں پر جنہیں اللہ تعالیٰ نے (نبوت و رسالت) کے لئے منتخب فرمایا۔
تیراکی کا حکم اور اس کی فضیلت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اپنے بیٹوں کو تیراکی اور تیر
اندازی سکھاؤ اور عورتوں کو کاتنا سکھاؤ۔‘‘
بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کا ایک راوی عبید
العطار ’’منکر الحدیث‘‘ ہے۔
( منکَر کاف کے زبر کے ساتھ)
والد پر اپنی اولاد کے چار حقوق
حضرت ابو رافع رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ!کیا ہماری اولاد کے
بھی ہم پر حقوق ہیں جس طرح کے ہمارے حقوق اُن پر ہیں؟‘‘
ارشاد فرمایا :
’’ ہاں اولاد کا حق والد پر یہ ہے
کہ وہ اسے تیراکی، تیر اندازی اور لکھنا سکھائے اور اس کے لئے (صرف) پاکیزہ ( یعنی
حلال) مال ورثے میں چھوڑ جائے۔‘‘
قال البیہقی عیسی بن ابراہیم یروی مالا یتابع علیہ۔
( یعنی حدیث ضعیف ہے)
چار چیزیں مباح کھیل ہیں
رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ہر وہ چیز جس میں اللہ تعالیٰ کا
ذکر نہ ہو وہ بھول ہے اور لغو ہے( یعنی غلط ہے اور بری ہے) مگر چار چیزیں ( کہ وہ
کھیل ہیں مگر مذموم اور برے نہیں)
١آدمی کا تیر اندازی کے دو ہدفوں
کے درمیان چلنا۔
٢اپنے گھوڑے کو سکھلانا۔
٣تیراکی سیکھنا۔
٤ اپنی بیوی سے کھیلنا۔
تیراکی کے بارے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تاکید
ت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شام کے گورنر کو لکھا کہ:
’’مسلمان تیر اندازی سیکھیں اور
تیر اندازی کے دو ہدفوں کے درمیان ننگے پاؤں چلیں اور اپنے بچوں کو کتابت اور
تیراکی سکھائیں۔‘‘
ت حجاج نے اپنے بچوں کے معلم سے کہا:
’’ میرے بچوں کو کتابت سے پہلے
تیراکی سکھاؤ کیونکہ انہیں لکھنے والا تو مل جائے گا لیکن کوئی ایسا نہیں ملے گا
جو ( ضرورت کے وقت) ان کی طرف سے تیر سکے۔‘‘
اگر یہ پوچھا جائے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیراکی فرمائی تو میراجواب یہ ہے کہ: بظاہر
نہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
لئے سمندروں کا سفر مقدر نہیں فرمایا گیا تھا۔
( مگر بعض روایات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیراکی ثابت ہوتی ہے)
ت زہری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی چھ سال کے نہیں ہوئے تھے کہ آپ کی والدہ
ماجدہ آپ کو آپ کے ننھیال ’’بنی عبد النجار‘‘ کے پاس مدینہ منورہ ملانے لے گئیں…
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُمّ ایمن( رضی اللہ عنہا
) بھی تھیں آپ کی والدہ نے ’’دارالنابغہ‘‘ میں ایک ماہ تک قیام فرمایا …
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس قیام کے بارے میں کئی باتیں ارشاد
فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
آگ کی طرف دیکھ کر فرمایا:
’’میری والدہ مجھے وہاں لے گئیں
اور میں نے بنی عبد النجار کے تالاب میں اچھی تیراکی سیکھی۔‘‘
کیا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے تیراکی فرمائی؟
حضرت ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ایک بڑے تالاب میں داخل ہوئے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا… ہر
کوئی اپنے ساتھی کی طرف تیرے… چنانچہ ہر ایک اپنے ساتھی کی طرف تیرنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف تیر کر تشریف لائے اور
انہیں گلے لگا لیا اور فرمایا:
’’اگر میں نے کسی کو اپنا خلیل (
خاص الخاص دوست اور محبوب) بنانا ہوتا تو ابوبکر کو بناتا مگر وہ میرے ساتھی
ہیں۔‘‘ ( یعنی خلیل صرف اللہ تعالیٰ کو بنایا ہے)
تفسیر ابن جریر میں ہے کہ:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مؤمنین ،منافقین اور کافروں کی مثال ان تین
افراد جیسی فرماتے تھے جو ایک دریا سے گذر رہے تھے… مؤمن اس دریا میں گر گیا مگر
اس نے (تیر کر) اسے پار کر لیا۔ پھر منافق اس میں گرا یہاں تک کہ جب وہ تیرتے ہوئے
مؤمن کی طرف پہنچتا تو کافر اسے پکارتا کہ میری طرف آؤ مجھے وہاں تمہارے لئے
خطرہ نظر آ رہا ہے ( وہ کافر کی طرف جاتا تو) مؤمن اس کو پکار کر کہتا کہ میری
طرف آؤ میرے پاس تمہارے بچاؤ کا سامان ہے جو کافر کے پاس نہیں… پس اسی طرح
منافق انڑ دونوں کے درمیان پھرتا رہا یہاں تک کہ پانی اس پر چڑھ گیا اور وہ ڈوب
مرا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے مناقب میں سے
حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہر وہ عبادت جس کے ادا کرنے سے
لوگ عاجز آ جاتے اسے حضرت عبد اللہ بن زبیر
رضی اللہ عنہما پورا فرما دیتے
تھے… ایک بار کعبۃ اللہ پر بڑا سیلاب آیا جس نے لوگوں کو طواف سے روک دیا تو حضرت
عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اس وقت تیر
کر طواف کرتے رہے۔‘‘
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
تیراکی کے بارے میں… حضرت امام سیوطی رحمہ اللہ کا رسالہ مکمل ہوا۔
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ ،لا الٰہ الا اللہ محمد
رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد و اٰلہ و صحبہ و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭