رنگ و نور جلد ہشتم
مفتاح الرزق
٭ رزق کا ہر شخص محتاج ہے اور وسعتِ رزق
کی کنجی ہے … امانت داری…
٭ امانت سے متعلق حضرت عمر اورحضرت علی رضی اللہ عنہما کے فرامین عالیہ…
٭ امانت داری ایمان کی اور خیانت نفاق کی
علامت ہے…
٭ ہر مسلمان کی ذاتی ترقی کا نصاب:
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی…چار عظیم نعمتیں…
٭ ’’امانت اٹھا لی جائے گی‘‘…ایک سخت وعید…
٭ جہاد میں امانت کی اہمیت …
٭ مفسرِ قرآن حضرت لاہوری رحمۃ اللہ
علیہ کا عجیب علمی نکتہ…
٭ ’’امانت‘‘ کی برکات اور خیانت کی مضرتیں…
کامیابی کے راستے
کو واضح کرنے والی ایک رہنما تحریر…
مفتاح الرزق
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو’’امانت داری‘‘ نصیب
فرمائے، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ
عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے یہ دعاء فرمایا کرتے تھے:
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ الصِحَّۃَ
وَالْعِفَّۃَ وَالْاَمَانَۃَ وَحُسْنَ الْخُلُقِ وَالرِّضَا بِالْقَدْر‘‘
’’یا اللہ ! میں آپ سے سؤال کرتا ہوں… صحت، عفت،
امانت،حُسن اخلاق اور تقدیر پر راضی ہونے کا…‘‘(بخاری فی الادب)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:
کسی
آدمی کا ظاہری رعب اور طنطنہ تمہیں متاثر نہ کرے… اصلی’’مرد‘‘ وہ ہے جو امانت دار
ہو اور لوگوں کی عزت میں پڑنے سے خود کو روکتا ہو…
یعنی اُس کے دل،
ہاتھ اور زبان میں امانت ہو… اور مسلمانوں کو ذلیل ورسوا نہ کرتا ہو… وہ واقعی
بہادر اور پسندیدہ انسان ہے…
حضرت علی رضی اللہ عنہ بڑے علم وحکمت والے خلیفہ راشد تھے… انہوں نے
صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ تمام روئے زمین پر بسنے والے انسانوںکو… معاشی ترقی
کا راز ایک جملے میں سمجھا دیا… جو انسان ذاتی طور پر اس نصیحت کو پکڑے اسے بھی
رزق کی تنگی کبھی نہیں آتی اور اگر کوئی ملک اور معاشرہ اس نصیحت پر عمل کرے تووہ
سالوں میں نہیں دنوں میںخوشحال ہو سکتا
ہے… ارشاد فرمایا:
’’اداء الأ مانۃمفتاح الرزق‘‘
امانت داری رزق کی
کنجی اورچابی ہے…
یعنی امانت داری
کو مضبوطی سے اختیار کر لو تورزق کے خزانے خود بخود کُھل جاتے ہیں… پھر خود بھی
کھاؤ، آگے بھی بانٹو اور اپنے لئے آگے بھی بھیجو…
’’خیانت‘‘ دراصل منافق کی علامت ہے
اور’’امانت‘‘ مؤمن کی فطرت اور طریقہ ہے… آج مسلمانوں کے ممالک میں جو معاشی تنگی
ہے اس کی ایک بڑی وجہ ’’خیانت‘‘ ہے… آپ کسی بھی خائن کو خوشحال نہیں دیکھیں گے وہ
ہر وقت مال اور رزق کی فکر اور پریشانی میں رہتا ہے… اُس کے پاس جتنا بھی آجائے
کبھی پورا نہیں پڑتا اور کبھی اُسے خوشی اور آسودگی نہیں ملتی… مسلمانوں کے ممالک
میں’’منافقین‘‘ بہت طاقتور ہو چکے ہیں، اس لئے’’خیانت‘‘ بھی طاقتور ہے… اور جب ’’خیانت‘‘
طاقتور ہوتی ہے تو وہ اپنے ساتھ ذلت اور معاشی تنگی کو لاتی ہے…
حضرت ہشام بن عمر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’مجھے کسی آدمی کی نماز اور اس کے روزے
دھوکا میں نہیں ڈالتے… کوئی چاہے جتنی بھی نماز پڑھے، جتنے بھی روزے رکھے، اصل بات
یہ ہے کہ جو امانت سے محروم ہے وہ دین سے محروم ہے‘‘…
امانت دار انسان کی
اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑی قیمت ہے… مسلمانوں کے ہاں
امانت دار کا بڑا مقام ہے… ’’امانت‘‘ انسان کے لئے کامیابی اور رزق کے دروازے کھول
دیتی ہے…
خود حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لا ایمان لمن لا امانۃ لہ‘‘
جس شخص کے پاس
امانت نہیں ، اُس کا ایمان نہیں…
ایک دوسری حدیث میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو
ذاتی ترقی کا راز سمجھایا کہ… چار صفات اپنے اندر پیدا کر لو… تب دنیا میں تم کسی
عہدے پر ہو یا نہ ہو… یا تمہیں کسی عہدے سے معزول کیا جائے… یا تم سے ساری دنیا چھین
لی جائے تب بھی ان چار صفات کے ہوتے ہوئے تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا:
١ امانت
داری… ٢ سچ بولنا…
٣ اچھے
اخلاق… ٤ پاک اور حلال کھانا…
بے شک جس انسان کو
یہ چار نعمتیں حاصل ہو جائیں اسے کوئی کیا نقصان پہنچا سکتا ہے؟… ایسے آدمی کے
قدموں پر خود کامیابیاں گرتی ہیں… رزق اور روزی کے انبار اُس کے پیچھے پیچھے دوڑتے
ہیں… اور وہ کسی عہدے اور منصب کا محتاج نہیں رہتا، بلکہ عہدے اور منصب اُس جیسے
افراد کے پاؤں پکڑتے ہیں کہ ہمیں قبول کر لو… شیطان پتا ہے کیا کرتا ہے؟… وہ آدمی
کو فقر و فاقے سے ڈرا کر ’’خائن‘‘ بناتاہے… صدقات سے روکتا ہے اور امانت سے دور پھینکتا
ہے… وہ آدمی کو ڈراتا ہے کہ تم سے یہ چیز نہ چھن جائے وہ چیز نہ چھن جائے…
آہ!انسان… کاش انسان اپنی قیمت کو سمجھے، اپنے مقام کو پہچانے… انسان اس زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے… وہ کائنات میں اور مخلوق میں
سب سے افضل ہے… اس کو اللہ تعالیٰ نے بڑی قوت عطاء فرمائی ہے… مگر انسان کی
قوت کا راز امانت اور ہمت میں ہے… امانت ایسی کہ سات پردوں کے پیچھے بھی چمکتی
رہے… اور اُسے ’’خیانت‘‘ کے تصور سے بھی نفرت ہو… اور ہمت ایسی کہ خود کو کسی
علاقے، کسی عہدے، کسی مقام اور کسی انسان کا محتاج نہ سمجھے… وہ ہر لمحہ ہجرت کے
لئے تیار ہو… وہ سارے عالم کو اپنا وطن قرار دے… وہ کسی منزل کو اپنی آخری منزل
سمجھ کر اُس کے ساتھ چپک کر نہ بیٹھ جائے… بلکہ آگے بڑھے اور آگے بڑھے… اپنے رب
پر توکل رکھے کہ اُس کے رب نے نہ تو اُسے بے کار پیدا فرمایا ہے اور نہ اُسے کسی
کا محتاج بنایا ہے… وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے علاوہ کسی چیز کومقصود نہ
بنائے…
ایسا انسان… حقیقت
میںانسان ہوتا ہے… مگر شیطان بڑا ملعون ہے وہ انسان کو چھوٹی چھوٹی چیزوںمیں الجھا
دیتا ہے… اور ہر وقت ڈراتا رہتا ہے کہ… تم اس وقت جس مقام پر ہو یہ نہ چھن جائے…
تمہارے پاس اس وقت جو کچھ ہے وہ نہ چھن جائے… تب انسان اپنی خواہشات اور ایک محدود
دائرے میں قید ہوجاتا ہے… ’’امانت‘‘ کاموضوع بڑا مفصل اور دلکش ہے اور امانت خود
اُس سے بھی زیادہ حسین اور خوبصورت نعمت ہے… یہ آدمی کو قابل اعتبار بنا دیتی ہے
اور حقیقت میں ’’ اللہ والا‘‘ بنا دیتی
ہے… دین کے معاملہ میں امانت… فرائض کی ادائیگی میں امانت… جو عہدہ یا ذمہ داری ملی
ہو اس کے بارے میں امانت… اجتماعی اموال اوردوسروں کی چیزوں میں امانت… خاوند کے
لئے بیوی اوربیوی کے لئے خاوند کے حالات میں امانت… اپنے دوستوں اور مخلوق کے
رازوںمیںامانت… خرید و فروخت،ناپ تول اورتجارت میں امانت… بیت المال میں امانت…
ہاں! ایک مؤمن امانت کا پیکر ہوتا ہے… وہ جانتا ہے کہ امانت… ایمان کی علامت ہے
اور میں نے اسے ہر حال میں اختیار کرنا ہے… اورخیانت… نفاق کی علامت ہے اور میں نے
ہر حال میں اُس سے بچنا ہے… وہ دل کی گہرائی سے مانتا ہے کہ امانت جنت میں لے جانے
والی ہے… اور خیانت جہنم کی آگ ہے… تب وہ دل میں عزم کرتا ہے کہ… میں نے امانت کو
حاصل کرنا ہے اور اس کے ذریعہ اپنے رب کو پانا ہے… پھر وہ رو رو کر بلک بلک کر،
امانت داری کی دعاء مانگتا ہے… اور لاپرواہی چھوڑ دیتا ہے… جی ہاں! لاپرواہی… خیانت
کی پہلی سیڑھی ہے کہ… چھوڑو کچھ نہیں ہوتا… اتنا تقویٰ ہم کہاں سے لائیں؟…بس!گذارہ
چلاؤ دین میں اتنی سختی نہیں ہے…وہ دیکھو! فلاں یہ کرتا ہے، فلاں وہ کرتا ہے چلو
ہم اُن سے تو اچھے ہیں… ہم مجبور ہیں چلو آج خرچ کر لیتے ہیں بعد میں مالدار ہوں
گے تو سارے حساب برابر کر دیں گے… وغیرہ وغیرہ… ایسا کرنے والا انسان… آہستہ
آہستہ ’’خیانت‘‘ کے گڑھے میں گرنے لگتا ہے اور بالآخر ایک رات وہ سوتا ہے پھر جب
صبح اٹھتا ہے تو… اُس کے دل سے امانت نکل چکی ہوتی ہے… بس تھوڑا سا احساس باقی
رہتا ہے… اور پھر ایک رات وہ سوتا ہے تو جب صبح اٹھتا ہے تو اُس کے دل سے یہ احساس
بھی ختم ہو چکا ہوتا ہے… یا اللہ ! امان… یا
حفیظ! امان… یامؤمن! امان…
یہ سب کچھ میرے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے…
اور اُمت کو ڈرایا ہے کہ امانت اٹھا لی جائے گی… تب امانت پر قائم رہنے والوں کے
لئے بڑی مشکل زندگی ہوگی… جی ہاں! ایسی مشکل جیسے ہاتھ پر جلتا انگارہ رکھا ہو…
مگر آخرت کی آگ، قبر کے عذاب اور جہنم کے شعلوں سے بچنے کے لئے… ایمان والوں کو
دنیا کی مشکلات برداشت کرنی چاہئیں… اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے مالی معاملات کو’’امانت‘‘
پر لانے کے لئے قرآن مجید میں… آیتوں پر آیتیں اتاریں… مجاہدین کے زیادہ پھسلنے
کا خطرہ ہوتا ہے… دووجہ سے… ایک یہ کہ وہ روئے زمین کے سب سے افضل اور مقبول بندے
ہوتے ہیں تو شیطان اُن پر زیادہ زورمارتاہے… اور دوسرا اس لئے کہ یہ خیال دل میں
جگہ پکڑتا ہے کہ جہاد میں ترقی کے لئے ڈنڈی مارنے میں کوئی حرج نہیں… قرآن مجید میں
جہادکے حکم کے ساتھ… جوئے اور شراب کی بُرائی کا مسئلہ ذکر فرمادیا… اب جہاد کا
جوئے اور شراب سے کیا تعلق؟… حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے سمجھایا کہ جہاد کرنے والے یہ
سوچ سکتے ہیں کہ جہاد کے لئے اموال کی بہت ضرورت ہوتی ہے… مال کی کمی کی وجہ سے کہیں
ہمارا جہاد بند نہ ہوجائے تو ہم’’جوئے‘‘ کے ذریعہ مال حاصل کر لیتے ہیں… جوئے،
لاٹری اور اس طرح کے ذرائع سے موٹی رقمیں حاصل ہوتی ہیں… اسی طرح اگر عین لڑائی کے
وقت شراب پینے کی کچھ اجازت ہو جائے تو… جم کر
لڑنے میں آسانی ہو گی… شراب کا نشہ حواس کی لطافت کو کم کر دیتا ہے کہ… ہر دیکھی سنی چیز کا انسان اثر نہیں لیتا توبہادری سے لڑسکتا ہے… جواب دیا
گیا کہ… جہاد تمہارا ذاتی کام نہیں ہے کہ ہر حال میں ہر حرام اور حلال ذریعے سے تم
نے ضرور کرنا ہے… یہ جہاد تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور اللہ تعالیٰ کا حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ہی کرنا ہو گا… تب قبول ہو گا… اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے مالی معاملات کو امانت پر
لانے کے لئے… سورۃ انفال نازل فرمائی اور بہت سخت تنبیہ فرمائی… غزوۂ احد کے موقع
پر ایسی شدید ڈانٹ پلائی کہ آئندہ کے لئے مال ہمیشہ اُن کے قدموں میں رہا کبھی
اُن کے دل میں نہیں آیا… اور وہ سمجھ گئے کہ مال ہماری مجبوری نہیں ہے… مال ہو یا
نہ ہو جہاد چلتا ہے اور خوب چلتا ہے… مگر جب خیانت ہو یا حرام مال ہو توجہاد… جہاد
ہی نہیں رہتا… بس اس بارے میں امانت اُن کا حتمی شعار بن گئی… اور امانت رزق کے
خزانوں کی چابی ہے… تب روم و فارس کے خزانے اُن کے قدموںمیں بے وقعت پڑے ہوئے
تھے…’’امانت‘‘ رزق کی چابی کس طرح سے ہے؟… اس پر اہل علم نے دلنشین، دلچسپ اور سچے
واقعات کا روشن انبار جمع فرمایا ہے… حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے مال میں برکت کا واقعہ امام نووی رحمۃ اللہ
علیہ جیسے محدث نے ’’اداء الامانۃ‘‘ کے
باب میں ذکر فرمایا ہے… حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم کا واقعہ… حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم کا واقعہ… اہل علم فرماتے ہیں کہ…
اُمت مسلمہ کو یہ دو عظیم ہستیاں یعنی حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ’’امانت داری‘‘
کی برکت سے نصیب ہوئی ہیں… الغرض! ایسے بے شمار واقعات کہ جس نے بھی’’امانت داری‘‘
کو مضبوطی سے اپنی صفت بنایا، اللہ تعالیٰ نے اُس پر فتوحات اور رزق کے دروازے کھول
دیئے… ان دنوں حکومتی، سرکاری اور سیاسی عہدیدار… جس طرح سے ’’امانت‘‘ کو ذبح کر
رہے ہیں اُن خبروں کو پڑھ کر… یہ موضوع قلم کی نوک پر آگیا… اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اہل حکومت اور اہل سیاست کے
کارناموں کا تذکرہ کئے بغیر… چند باتیں لکھی گئیں… ہم سب کو اپنی اصلاح اور آخرت
کی فکر کرنی چاہئے… اس وقت چاروں طرف سے ایسا گمراہ کن ماحول ہے کہ ہاتھیوں کو بھی
پھسلا دے… ہم سب کو چاہئے کہ امانت کے فضائل اور خیانت کے نقصانات کو بار بار
پڑھتے رہا کریں، آپس میں اُن کا مذاکرہ کیا کریں، ایک دوسرے کو اس کی ترغیب دیا
کریں اور امانت حاصل کرنے اور امانت پر استقامت کے لئے… راتوں کی تاریکی میں سجدوں
میں گر کر دعاء مانگا کریں…دعاء بڑی چیز ہے… مسلمان جس چیز کی دعاء دل کی طلب،
توجہ اور سنجیدگی سے مانگتے ہیں… وہ نعمت جلد حاصل ہوجاتی ہے… ان شاء اللہ
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ
وصحبہ وبارک وسلم
تسلیما کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول
٭٭٭
مناظر اور نصاب
اُمت مسلمہ کی حالت زار کے چند
دلخراش مناظر…
مسلمانوں کے کرنے
کے کام…
مشکل حالات میں
کام کا راستہ سمجھانے والی تحریر…
جیلوں میں قید
مسلمان مردوں عورتوں کی حالت زار…
برما میں مسلمانوں
پر شدید ترین مظالم… ظلم کا ننگا ناچ
جیل میں سزائے موت
پانے والے قیدی بھائی کی بے بسی…
کافروں کی قید میں
قرآن پڑھتی’’عافیہ‘‘کادرد…
قرآن مجید کی تسلی…
مسلمانوں پر مسائل
کی بہتات…حکمرانوں کی بدعملی…
ٹیکنالوجی کے
سامنے احساس کمتری…
جدید ایجادات کے
منفی اثرات…
جدید تعلیم نے
مسلمانوں کو کیا دیا ہے؟…ایک چشم کشا حقیقت…
مسلمان سب سے افضل
قوم ہیں… احساسِ کمتری سے نکلیں…
کلمہ…نماز…جہادفی
سبیل اللہ…
کامیابی اور برے
حالات سے چھٹکارے کا جامع نصاب
مناظر اور نصاب
اللہ
تعالیٰ اُمت مسلمہ کو’’قوّت‘‘ اور غلبہ
عطاء فرمائے… مسلمانوں کی بے بسی اورکمزوری دیکھ کر دل روتا ہے… آئیے اسی بارے میں
آج مل جل کر سوچتے ہیں، مشورہ کرتے ہیں اور چند ایسے آنسو بہاتے ہیں جو گردو
غبار کو جھاڑ دیں…
یہ ایک منظر دیکھیں… ایک کلمہ پڑھنے والا مسلمان زنجیروں میں بندھا ہوا
ہے… جسم پر تشدد کے سرخ سرخ داغ اور داڑھی، بال بکھرے بکھرے… اب اس کے ہاتھوں سے
زنجیر کھولی جارہی ہے اور پھر اس کے جسم کے تمام کپڑے نوچ کر دور پھینک دیئے گئے…
ایک منحوس نے اُس کے گلے میں کتے کو پہنانے والا پٹا ڈالا… اور رسی کو زور سے کھینچا…
تو میرا کتا ہے، تم مسلمان سارے کتے ہو… گالیوںکا ایک طوفان ساتھ لاتیں، مُکّے،
تھپّڑ… چل میرے کُتّے چل… وہ مظلوم جوان دل میں کلمہ پڑھتا ہے… آسمان کی طرف نظر
اٹھاتا ہے … اور اس کی آنکھوں سے پہلا قطرہ زمین پر گِر پڑتاہے… گوانتا نا موبے،
ابو غریب، کوٹ بھلوال… اور تہاڑ جیل… اور قریب ہی بگرام، پُل چرخی… دعاء کرو بھائیو!
اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو قوت اور غلبہ عطاء فرمائے…
یہ ایک اور لمحہ دیکھیں… زعفرانی رنگ کی چادریں پہنے منحوس، موٹے بدھ
بھکشو… مسلمانوں کی ایک بستی پر اچانک حملہ… وہ دیکھو مسجد سے آگ اٹھ رہی ہے اور
قرآن پاک کے اوراق سے دھواںاٹھ رہا ہے… بوڑھی مائیں لنگڑا لنگڑا کر دوڑ رہی ہیں…
اور عفت مآب بہنیں موت، موت پکار رہی ہیں… تلواریں، کلہاڑیاں اور خنجر… ایمان
والوں کے جسموں سے خون پی رہے ہیں… لاشوںپر تیل چھڑک کر جلایا جارہا ہے… اور ندیاں،
دریا مسلمانوں کی بے بسی پر روتے ہیں اور ان میں سے ڈوب جانے والوں کی لاشوں کو
کندھا دیتے ہیں… ہاں! دریا ہی کندھا دے سکتے ہیں… اور کون دے؟… بستی قاتلوںسے بھر
گئی… آگ نے سب کچھ بھسم کر ڈالا… بھاگ کر کہاں جائیں؟… آگے موت، پیچھے موت… ہجرت
کرنے والوں کو غلاموں کی طرح تھائی لینڈ کے جزیروںمیں فروخت کیا جارہاہے… خود کو
مسلمان کہنے والی حسینہ واجد نے سرحد پر مسلّح دستے کھڑے کر دیئے ہیں کہ کوئی
مسلمان امن کا سایہ پانے اِدھر نہ آنکلے… ہاں یہ برما ہے یہ رنگون ہے… یہ اسی زمین
کا ایک ملک ہے جس زمین پر سب سے زیادہ مال، مسلمانوں کے پاس ہے… دور بینکوں میں
اتنا پیسہ پڑا ہے کہ دنیا کے سارے انسان کھائیں تو ختم نہ ہو… مگر برما کی مسلمان
بہن کو… اپنے شِیر خواربچے کے لئے دودھ کا ایک گھونٹ دستیاب نہیں… بھائیو! اور
بہنو! دعاء کرو کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو’’قوت‘‘ اور غلبہ عطاء
فرمائے… اور سوچو کہ ہم کب اپنی ذات اور نفس کے تقاضوں سے اوپر اٹھ کر… مسلمانوں
کے لئے کچھ سوچیں گے…
ایک
اور منظر دیکھیں!… تمہاری پھانسی کا بلیک وارنٹ جاری ہو چکا ہے… صبح چھ بجے تمہیں
پھانسی دے دی جائے گی… ہمیں افسوس ہے مگر کیا کریں اوپر سرکار کا حکم ہے… مگر!مگر!
میرے گھر والوں کو اطلاع تو دی جاتی… وہ ہم نے آج ڈاک سے بھیج دی ہے… مگر؟ آخری
ملاقات تو ہر قیدی کا بین الاقوامی حق ہے؟… ہاں وہ تو ہے… مگر تم مسلمان ہو… میرے
وکیل کو اطلاع ہو گئی؟… نہیں اس کی ضرورت نہیں… تمہاری کوئی آخری خواہش؟… مجھے
قرآن مجید دے دیا جائے… مشکل ہے مگر کوشش کرتے ہیں… چلو یہ لو! کیا یاد کرو گے کہ
ہم مسلمانوں کے ساتھ کتنا اچھا سلوک کرتے ہیں… قرآن پاک ہاتھ میں… اور آنسو کا
آخری قطرہ اس کی مبارک جلد کا بوسہ لینے کے لئے… خوبصورت آنکھوں سے چھلک پڑا…
بھائیو! اور بہنو دعاء کرو! اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو قوت اور غلبہ عطاء فرمائے…
اور سوچو کہ ہم اپنی اس مختصر سی زندگی میں اس کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟…
مناظر بہت زیادہ ہیں
اور ہر طرف ہیں… بس آج کی مجلس کا آخری منظر دیکھنے کی ہمت کرتے ہیں۔
وہ ہاتھوں میں
قرآن پاک لئے تلاوت کررہی ہے… حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ آگیا… ترجمہ تو وہ خوب سمجھتی ہے… حضرت یعقوب
علیہ السلام کا غم پڑھتے ہی اس کے قلبی زخموں کے ٹانکے کھل
گئے… بڑی بچی کہاں ہوگی؟ اور چھوٹی کس کے پاس؟… وہ میرا احمد کتنابڑا ہو گیا ہو
گا؟… آنسو ٹپ ٹپ برستے ہیں… قرآن کی آیتوں میںسیّدنا یعقوب علیہ السلام رو رہے ہیں… اور ان آیتوں کی تلاوت میں عافیہ
بہن رو رہی ہے… آنسوؤں کا دور چل رہا ہے… سورۂ یوسف میں اب غم ختم ہونے کی
داستان جاری ہے… پڑھتے پڑھتے آواز بھرّا کر بلند ہوتی ہے تو اسے گُھونٹ لیتی ہے
کہ… کوئی غیر محرم نہ سُن لے… باہر بوٹوں کی مکروہ آواز قریب آتی ہے تو وہ اپنے
سر کی چادر نیچے چہرے پر لٹکا لیتی ہے… قرآن مجید اُسے سنا رہا ہے کہ وہ دیکھو!
اب غم ختم ہو رہے ہیں…
’’وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی
الْاَرْضِ‘‘
وہ دیکھو! بچھڑا
خاندان مل کر شکر کے سجدے میں گِر رہا ہے… تب اس کی آنکھوں میں چمک ابھرتی ہے… ذہین
چہرے کی جھریوں میں امید کا رنگ دوڑتا ہے اور قرآن مجید کو ہاتھوں میں لے کر اپنا
چہرہ آسمان کی طرف اٹھاتی ہے… اے میرے اللہ ! آپ تو وہی ہیں… زمانہ آپ کا ہے… کل بھی
آپ کا تھا اور آج بھی آپ کا ہے… پھر جیل میں بوٹوں اور سلوٹوں کا شور اٹھتا ہے
وہ جلدی سے قرآن مجید کو اوپر رکھ دیتی ہے… کتنے سال بیت گئے… اور کتنے سال باقی
ہیں؟… معلوم نہیں اُس کا کونسا آنسو پہلا ہوتا ہے… اور کونسا آخری؟… بھائیو!
اوربہنو! دعاء کرو… اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو ’’قوت‘‘ اور’’غلبہ‘‘ عطاء
فرمائے… اورسوچو کہ ہم نے اب تک’’ امت مسلمہ‘‘ کے لئے کیا کیا ہے… اور ہم آئندہ کیا
کر سکتے ہیں؟؟؟…
مسلمانوں کے مسائل
بہت زیادہ ہیں… جی ہاں! مسائل کا ایک جنگل ہے… ہمارے حکمران… ہمارے نہیں غیروں کے
ہیں… ایسے لالچی اور بزدل جیسے غلاظت کے مینار ہوں… مال جمع کرنا، نقلی احترام اور
پروٹوکول پر مرنا، دل کی جگہ معدے سے فیصلے لینا… دماغ کی جگہ پیٹ سے سوچنا… اور غلاموں
سے بڑھ کر کافروں کی غلامی کرنا… یہ مستقل ایک مسئلہ ہے… مسلمانوںکے درمیان چھوٹے
چھوٹے سطحی مسائل پر اختلاف… حد سے بڑھی ہوئی تنگ نظری… تقسیم شدہ قوت… طرح طرح کے
فرقے اور فتنے… دین کا نام لے کر ایمانوں پر ڈاکے ڈالنے والے بہروپئے… اور مستحبات
اور آداب پر جھگڑنے والے کم ظرف… یہ ایک مستقل مسئلہ ہے… مسلمانوںکی فکر میں
گُھلنے والے مغرب زدہ دانشور… ناپاک دل ، ناپاک زبانیں اور حد سے بڑھے ہوئے گمراہ…
یہ سب ایک ہی ڈھول بجا رہے ہیں کہ مغرب’’ترقی‘‘ کر گیا اورہم پیچھے رہ گئے… اور
ہماری ترقی کا راز’’ جدید تعلیم‘‘ میں ہے… یہ بد نصیب لوگ مسلمانوں کو حقارت کا
نشانہ بناتے ہیں… اورکافروں کی باقاعدہ پوجا کرتے ہیں… اُن کے نزدیک جانوروں جیسی
آزاد زندگی ہی’’ترقی‘‘ کہلاتی ہے… وہ مسلمانوں کو ذلت اور غریبی کے طعنے دیتے ہیں
اور انہیں تیسرے درجے کی مخلوق قرار دیتے ہیں… اللہ تعالیٰ ان ظالموں کی زبانوں کو جلا دے…ان کے
قلموں کو آگ لگا دے اور اُن کے ناپاک مال کو ان سے چھین کر انہیں سڑکوں کا بھکاری
بنا دے… یہ ظالم چند ایجادات اور چند سائنسدانوں کا نام لے لے کر… میرے محبوب آقا
صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کی توہین کرتے
ہیں… کوئی ان سے پوچھے کہ بجلی تمہارے باپ نے ایجاد کی تھی؟… انجن تمہارے چاچا نے
بنایاتھا؟… اور جب بجلی نہیں تھی تو کیا انسان مر گئے تھے؟…
ارے ظالمو! آج کے
دور میں جتنی بدامنی ہے… یہ ماضی میں کبھی نہ تھی… آج کے دور میں جتنا ظلم ہے یہ
ماضی میں کبھی نہ تھا… آج کے دور میں جتنی قتل و غارت ہے یہ دنیا میں کبھی نہ تھی…
آج کے دور میں جتنی بے حیائی ہے اس کا تو جانوروں نے بھی کبھی تصور نہیں کیا تھا…
آج کے دور میں جتنی بے سکونی، ٹینشن اور بیماریاں ہیں ماضی میں کوئی ان کے نام سے
بھی واقف نہیں تھا… تمہاری بیوقوفی کی حد نہیں کہ ’’ایڈز‘‘ کے دور کو ترقی کادور
کہتے ہو… کینسر کے زمانے کو بہترین زمانہ قرار دیتے ہو… دنیا کے ہر دوسرے انسان کے
بیمارہونے کے زمانے کو انسانی ارتقاء کا دور کہتے ہو… آج جب کہ ہرطرف قوم لوط کی
بستیاںآباد ہیں اسے تم تہذیب کہتے ہو… آج جب کہ مال پر دنیا کے چند اژدھے قابض ہیں
اسے تم شائستگی اور انصاف کا دور کہتے ہو… اور چند ایجادات کا نام رٹ کر مسلمانوں
کو گالیاں دیتے ہو… آخر یہ تو بتاؤ کہ تمہارا اسلام سے کیا تعلق ہے؟… کلمہ تمہیں
نہیں آتا… قرآن پاک پڑھنے کو تم سطحیت اور وقت کا ضیاع سمجھتے ہو… فقہ کے مسائل
سے تمہیں چڑ ہے… اسلامی سزاؤں کو تم ظالمانہ کہتے ہو… تو پھر تمہیں کیا حق حاصل
ہے کہ… مسلمانوں کی ترقی کے نسخے تجویز کرو؟… تم جس تعلیم کی بات کرتے ہو اس نے اب
تک مسلمانوں کو کیا دیا ہے؟…وہ حکمران جو مسلمانوں کا خون چوستے ہیں… وہ لبرل
فاشسٹ جو دن رات مسلمانوں پر بھونکتے ہیں… وہ ڈاکٹر جو مریضوں کے گُردے بیچتے ہیں…
وہ سائنسدان جو فوراً کافروں کی ملازمت میں چلے جاتے ہیں… وہ انجینئر جو ناقص
عمارتیں اور نقلی سامان بناتے ہیں… وہ سرکاری آفیسر جن میں سے اکثریت کو
’’انسان‘‘ کہنے کے لئے ’’انسان‘‘ کا معنی ہی بدلنا ہوگا… اور وہ صحافی جن کے شر،
جن کے حرص اور جن کے لالچ سے جانور بھی شرماتے ہیں…
یاد رکھو! تعلیم
کا کوئی انکار نہیں کرتا… مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے لیکر آج کے زمانے کے کسی عالم نے عصری تعلیم
سے انکار نہیں کیا… مگر کیا دین کی بنیادی تعلیم ہر مسلمان کے لئے فرض نہیں ہے؟…
ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی اگر حکومت اور قوت دین کا علم اور دین کی سمجھ رکھنے
والے مسلمانوں کو مل گئی … تو ملک کا ہر شہری مرد ہو یا عورت… تعلیم یافتہ ہوگا…
سائنس ایسی ترقی کرے گی کہ یورپ یہاں بھیک مانگنے آئے گا… ان کی سائنس تو اسلام
دشمنی اور ہوس پرستی پر مبنی ہے… وہ انسانوںکو کمزور کر رہے ہیں اور ایسی چیزیں ایجاد
کررہے ہیں جن کا نقصان اُن کے نفع سے بہت زیادہ ہے… بات کچھ دور نکل گئی… خلاصہ یہ
ہے کہ اس قسم کے لبرل لفافے بھی مستقل ایک مسئلہ ہیں… الغرض… مسلمانوں کے لئے ہر
طرف مسائل ہی مسائل ہیں… اور دوسری طرف کفر مسلسل اپنی طاقت بڑھا رہا ہے… اُن کی
فوجیں ، اُن کا اسلحہ، اُن کی خفیہ ایجنسیاں اور اُن کے آلات، سب اسلام اور
مسلمانوں کے خلاف یکسو ہیں… ایسے وقت میں مسلمانوں میں دو باتوں کی محنت ضروری ہے…
ایک تو ان میں اس بات کا شعور اور احساس پیدا کیا جائے کہ وہ بے مقصد پیدا نہیں
ہوئے… وہ مال جمع کرنے اور عورتوں مردوں کی غلامی کے لئے دنیا میں نہیں آئے… وہ فیشن،
میک اپ، اچھے دستر خوان، عمدہ گاڑی ،بہترین بنگلے… اور زندہ باد مُردہ باد کے لئے
پیدا نہیں ہوئے… وہ زمین کے سب سے افضل دین کے پیروکار ہیں… وہ سب سے افضل کتاب کے
حامل ہیں… وہ سب سے افضل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں… اور وہ قوموں میں سب سے افضل اور
اعلیٰ ہیں…اور ان کی زندگی کا مقصد… ذاتی ترقی، ذاتی عزت اور ذاتی آرائش و نمائش
نہیں… بلکہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت قائم و نافذ کرنا اُن کا کام
ہے… اور وہ اسلام اور مسلمانوں کو قوت اورغلبے کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں… شرط یہ
ہے کہ وہ ذاتی مفادات سے دستبردار ہو جائیں… اور اپنے ذاتی معاملات اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں… وہی رزاق ہے اور وہی عزت و
زندگی کا مالک ہے… جان بچانے کی فکر انسان کو مار دیتی ہے… اور مال بنانے کی فکر
انسان کو،انسان ہی نہیں رہنے دیتی… مسلمانوں میں یہ شعور بیدار ہو کہ… کفرنے جو
طاقت بنائی ہے وہ ناقابل تسخیر نہیں… اور جو نام نہاد ترقی حاصل کی ہے… وہ ہرگز
ترقی نہیں… اور ہم… اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قوت بھی حاصل کر سکتے ہیں…
اور حقیقی ترقی بھی… مسلمان کے دل میں جب یہ درد اور شعور پیدا ہو جائے کہ مسلمان
کمزور ہیں اور اُن کا طاقتور ہونا چاہئے… اور کفار طاقت میں ہیں اور انہیں کمزور
ہونا چاہئے… تو وہ سجدوں اور اندھیروں میں اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کے لئے طاقت مانگتاہے… اور
اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے… یہ مرحلہ مکمل ہوتو آگے راستے خود کُھل جاتے
ہیں… مضبوط ایمان… کلمہ طیبہ اس کی بنیاد ہے… اسلام کے ساتھ ترجیحی تعلق…نماز اس
کا ثبوت ہے… اور اسلام کے ساتھ عاشقانہ وفاداری… جس کا میدان… جہاد فی سبیل اللہ ہے…بس یہ تین نکاتی نصاب… یقیناً اس اُمت کی اہم
ترین ضرورت ہے… یہ ایسا نصاب ہے … جو محنت اور قربانی مانگتا ہے… اور قوت ، کامیابی
اور غلبہ دلاتا ہے… آج نہیں تو کل ان شاء اللہ سب
اس حقیقت کو تسلیم کر لیں گے… دعاء کریں… اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو’’قوت‘‘ اور’’غلبہ‘‘ عطاء
فرمائے… اور دل کی گہرائی سے سوچیں کہ ہم اس کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟
لا الہ الا اللہ،
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
مظلوموں کی یاد
اژدھے سے مینڈک
بننے والے ایک بزدل حکمران کی داستان عبرت…
بزدلی اور بداخلاقی…
دوانتہائی برے عیوب…
اخلاق حسنہ کے
حصول کی اہمیت اور صحابیٔ رسول کی دعاء…
ظلم…
عظیم ترین بداخلاقی…
بزدل انسان ظالم
ہوتا ہے…ایک نفسیاتی تجزیہ…
پرویز مشرف کا
انجام بد…
اہل قلم کی ہر
جانب سے اس پر چڑھائی…
عظیم دوست مولانا
مقصود احمدشہید رحمۃ اللہ علیہ کی یاد…
بزدل پرویز مشرف
کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے
مظلوموں کی یادمیں ایک عبرت آموز تحریر
مظلوموں کی یاد
اللہ
تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں ’’حکومت ‘‘ عطاء
فرماتے ہیں… اور پھر اُس کے بُرے اعمال کی وجہ سے اسی حکومت کو اس کے لئے ذلت،
رسوائی اور جہنم کا ذریعہ بنا دیتے ہیں… دل نہیں چاہتا کہ ’’پرویز مشرف‘‘ پر کچھ
لکھا جائے… ایک ’’اژدھا‘‘ جو اب ’’مینڈک‘‘ بن چکا اُس پر کچھ لکھنا’’قلم‘‘ کو پسند
نہیں… ماضی میں جب وہ ایک بااختیار، خوفناک، منتقم مزاج، خونخوار اور ظالم حاکم
تھا تو اُس پر الحمدﷲ دل کھول کر لکھا… انسانی مزاج کے ماہرین کہتے ہیں کہ بزدل
انسان زیادہ ظالم ہوتا ہے… یعنی اگر بزدل کے ہاتھ میں طاقت، قوت اور اختیار آجائے
تو وہ ظلم کی انتہا کر دیتا ہے… جبکہ بہادر آدمی اگر ظالم بھی ہو تو اس کا ظلم
بہت گھٹیا درجے تک نہیں پہنچتا… بہرحال ظلم ہر حال میں بُرا اور حرام عمل ہے… کوئی
بزدل ظلم کرے یا کوئی بہادر… اللہ تعالیٰ ظالموں سے نفرت فرماتے ہیں… حجاج بن یوسف
کے بارے میں آتا ہے کہ بے انتہا بزدل تھا… چنانچہ جب حکومت ملی تو بے انتہا ظالم
بنا… بہت قابلِ نفرت ظالم… یہی حال پرویز مشرف کا تھا… اس نے پاکستان کا نقشہ اور
رنگ ہی بدل دیا اور ملک کو ایک ایسی کھائی کی طرف لڑھکا دیا کہ… اب یہ ملک ہر آئے
دن پستی کی طرف گرتا ہی جارہا ہے… پہلا سبق آج اپنے اور آپ کے لئے یہ ہے کہ
ہم’’بزدلی‘‘ سے بچنے کی بہت دعاء اور کوشش کریں…
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ
الْجُبُنِ وَ الْبُخُل‘‘
یا اللہ ! بزدلی اور بخل سے
آپ کی پناہ…
اندازہ لگائیں کہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم یہ دعاء اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کو اس طرح سکھاتے تھے جس طرح
قرآن پاک کی کوئی آیت مبارکہ سکھائی جاتی ہے…
بزدلی اور بخل
دراصل بُرے اخلاق کا حصہ ہیں… اگر ہم بہت اہتمام سے اچھے اخلاق… یعنی ’’اخلاق
حسنہ‘‘ کی اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگا کریں اور اس بات کی فکر کیا
کریں کہ ہمارے اخلاق اچھے ہو جائیں تو انشاء اللہ زندگی میں بہت مثبت تبدیلی محسوس ہو گی… بہادری،
سخاوت،تحمل، برداشت… اور خدمت یہ سب اچھے اخلاق کا حصہ ہیں… یہ دیکھیں اُمت مسلمہ
کی ایک محسنہ حضرت اُم الدرداء رضی اللہ عنہا ہمیں کیسا عجیب قصہ سنا رہی ہیں… فرماتی ہیں میں
نے اپنے خاوند حضرت ابو الدرداء رضی اللہ
عنہ کو دیکھا کہ ایک رات اُٹھ کر نماز
شروع فرمائی اور رو رو کر یہ دعاء مانگنے لگے
’’اَللّٰھُمَّ اَحْسَنْتَ خَلْقِیْ فَحَسِّنْ
خُلُقِی‘‘
’’یا اللہ آپ نے میری خلقت اچھی بنائی ہے،آپ میرے اخلاق
کو بھی اچھا بنا دیجئے‘‘…
اسی
طرح ساری رات روتے رہے اور یہی دعاء مانگتے رہے… صبح میں نے عرض کیا! اے ابو
درداء! آج پوری رات اچھے اخلاق مانگنے میں آپ نے گزار دی؟… یعنی کوئی اور دعاء
نہیں مانگی… فرمانے لگے اے اُم درداء! ایک مسلمان اپنے اخلاق کو اچھا بناتے بناتے
اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ اس کے اچھے اخلاق اُسے جنت میں پہنچا دیتے ہیں… اور ایک
مسلمان اپنے اخلاق کو بُرا بناتے بناتے یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ اُس کے بُرے اخلاق
اسے جہنم میں پھینک دیتے ہیں…(الادب المفرد للبخاری)
اچھے اخلاق یعنی
اخلاق حسنہ کسے کہتے ہیں؟ اخلاق کریمہ اور اخلاق عظیمہ کونسے ہیں؟… یہ بڑا اہم
موضوع ہے… فی الحال تو اچھے اخلاق حاصل کرنے کی فکر اور دعاء کا تذکرہ ممکن ہے… یہاں
ایک عجیب بات سن لیں… اچھے اخلاق کی دعاء اگر زیادہ فکر اور توجہ سے مانگی جائے…
جس طرح ابھی ہم نے پڑھا کہ عظیم المرتبت صحابی حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ پوری رات… حُسن اخلاق کی دعاء رو رو کر مانگتے
رہے…
’’فجعل یبکی ویقول: اللّٰھم اَحْسَنْتَ
خَلْقِی فَحَسِّنْ خُلُقی‘‘(الادب المفرد)
معلوم ہوا کہ اس دعاء کی اہمیت دل میں تھی اور
خود کو اس کا محتاج سمجھتے تھے… اور اچھے اخلاق کو اپنے لئے بے حد ضروری سمجھتے
تھے… اگر ہم بھی اسی طرح یہ دعاء مانگیں تو اپنے اندر واضح اوراچھی تبدیلیاں پائیں
گے… جی ہاں! ایسی تبدیلیاں کہ آپ خود حیران ہوں گے… ایک صاحب نے بتایا کہ اس دعاء
کو فکر سے مانگنے کے بعد حالت یہ ہو گئی ہے کہ پہلے جن باتوں کی وجہ سے مسلمانوں
پر غصہ آتاتھا اب انہیں باتوں پر دل خوش ہوجاتا ہے اور مسکرانے لگتا ہے… بلکہ شکر
ادا کرتا ہے… جبکہ پہلے غم اور غصے سے کوئلہ بن جاتا تھا… ہاں! بے شک مسلمان کی
دعاء ضائع اور رائیگاں نہیں جاتی… اگر ہم بزدلی سے نفرت کریں گے، پناہ مانگیں گے…
اور اچھے اخلاق کی فکر اور دعاء کریں گے تو انشاء اللہ جب
ہاتھ میں… قوت، طاقت اور اختیار آئے گا تو ظلم جیسے گندے گناہ سے بھی بچ سکیں گے…
دیکھیں حدیث قُدسی… ہمارے خالق، مالک رب تعالیٰ خود فرما رہے ہیں…
’’یا عبادی انی حرمت الظلم علیٰ نفسی وجعلتہ
بینکم محرما فلا تظالمو!‘‘
اے میرے بندو! میں
نے ظلم کو اپنی ذات پر حرام کر دیا ہے اور اسے تم پر بھی حرام کیا ہے پس آپس میں
ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ (صحیح مسلم)
اور روایت میں
آتا ہے:
’’ان ﷲ لیملی للظالم فاذا اخذہ لم یفلتہ‘‘
(بخاری، مسلم)
’’بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتے رہتے ہیں، مگر جب
پکڑتے ہیں تو پھر نہیں چھوڑتے۔‘‘
یہاں ایک عجیب، ایمان
افروز اور مختصر واقعہ پڑھ لیں… خصوصاً وہ لوگ جو کسی درجے میں ’’صاحب اختیار‘‘ یا
’’صاحب منصب‘‘ ہیں…
یہ ایک مشہور صحابی ہیں، حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ : وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے غلام
کی پٹائی کر رہا تھا… یعنی غلام نے کوئی غلطی کی تو اسے بطور تنبیہ کے مار رہے ہوں
گے… فرماتے ہیں کہ اچانک میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی…
’’اعلم ابا مسعود! للہ أَقدَرْ علیک منک علیہ‘‘
اے ابو مسعود، خوب
جان لو… جتنی قدرت تمہیں اپنے اس غلام پر حاصل ہے اُس سے زیادہ قدرت اللہ تعالیٰ کو تم پر حاصل ہے…
میں نے پیچھے مڑ
کر دیکھا تو… حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے اور آپ ہی نے یہ الفاظ ارشادفرمائے
تھے… میں نے فوراً عرض کیا! یا رسول اللہ ! میں اس غلام کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد کرتاہوں… یعنی یہ اب
آزاد ہے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اگر
تم ایسا نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمہیں لپیٹ لیتی۔ (الادب المفرد)
اپنی جماعت کے
ناظمین حضرات کو یہی بات کی جاتی ہے کہ اپنے شعبوں میں حاکم بن کر نہیں خادم بن کر
کام کریں… وہ کمزور اور بے بس لوگ جن کا دنیا میں کوئی نہیں ہوتا… اللہ تعالیٰ اُن کا حامی اور مددگار ہوتا ہے… دوسرا
سبق اپنے اور آپ کے لئے یہ ہے کہ ہم’’ظلم‘‘ کرنے سے بچیں اور ڈریں اور ظلم کرنے
سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں…
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ
أَنْ أَظْلِمَ اَوْ أُظلَمَ‘‘
یا اللہ ! ظلم کرنے اور مظلوم ہونے سے آپ کی پناہ!…
حضرت
سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں…
اگر تم اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملو کہ تم نے ایسے ستر
گناہ کر رکھے ہوں جو تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوں تو یہ اتنے خطرے کی بات نہیں…
جتناخطرہ اس میں ہے کہ تم صرف ایک ایسا گناہ لے کر حاضر ہو جو تمہارے اور بندوں کے
درمیان ہو… یعنی ظلم، زیادتی، غیبت، چوری وغیرہ…
حضرت
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام بھی تھے
اور شاعر بھی… وہ اس بات کو ایک قافیہ جوڑکر سمجھاتے ہیں… فرمایا:
بئس الزاد الی
المعاد
3
العدوان علی
العباد
قیامت کے دن کا
بدترین توشہ، بندوں پر ظلم کرنا ہے…
ہمارے اعمال کی شامت کہ آٹھ سال تک ہم پر ایک
بزدل، اورظالم حاکم کی حکومت رہی… سلام ہو اُن کو جنہوں نے اُس کے تاریک دور میں
بھی دین، جہاد اور جرأت کی شمعیں جلائی رکھیں… وہ ظالم ہمارے ملک میں خونی آگ
لگا کر… کچھ بُرے لوگوں کو اقتدار دیکر اپنے آقاؤں کی آغوش میں چلا گیا… اُس کا
خیال یہ تھا کہ جن لوگوں کو میں نے اقتدار سونپا ہے یہ ملک کو ایسا لوٹیں گے کہ…
عوام خود ہی پکار پکار کر مجھے واپس بلائیں گے… ملک واقعی لُٹ گیا مگر اُس ظالم کو
کسی نے نہیں پکارا… ہاں! خود اس کی ذلت نے اُسے آوازدی اور وہ سرکس کا تماشہ بن
کر واپس آگیا… بڑھاپے کے ایام اور بُرے انجام میں گھرا ہوا ایک بے بس ظالم… ہاں!
بھائیو! عبرت کا مقام ہے… اللہ تعالیٰ ہم
میں سے جسے بھی قوت اور اسباب دے وہ عزم کرے کہ اس قوت اور ان اسباب کو… اللہ تعالیٰ کے دین کی عظمت، خدمت اور انسانیت کی
فلاح کے لئے استعمال کروں گا… دنیا کے تماشے فانی ہیں ہلاک ہو گیا وہ شخص جس نے دنیا
کے مال، اسباب اورشہرت کو اپنا مقصود بنا لیا… لوگ پرویز مشرف کو جوتے ماررہے ہیں…
کالم نویس اُس کے جرائم کی فہرستیں دوبارہ شائع کر رہے ہیں… موقع پرست لوگ نوچ نوچ
کر اُس کا حرام مال کھارہے ہیں… پریس اور میڈیا والے اس کو دونوں ہاتھوں سے لُوٹ
رہے ہیں… ماضی میں اپنے اختیارات کی یاد اُس کے لئے ایک ایسا عذاب ہے جو ہر لمحے
اسے جلاتاہے… میں ایسا تھا، میں ویسا تھا…فلاں میری یوں مانتاتھا اور فلاں میرے
سامنے یوں کانپتا تھا… بس تکلیف دہ اور حسرت میں ڈالنے والی یادیں… دل نہیں چاہتا
تھا کہ اس کے بارے میں کچھ لکھا جائے اور اُسے اہمیت دی جائے… مگر جن پر اُس نے
ظلم ڈھایا اُن شہید مظلوموں کی یادنے چند الفاظ لکھوادیئے… کس کس کو یاد کروں؟…
سلام پیارے مقصود شہید رحمۃ اللہ علیہ !
آج تم ہوتے تو کیسازبردست کالم لکھتے!
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مبارک!کراچی والوں
کو
دلوں کے حالات اور
زندگیوں کا رُخ بدلنے والے دورئہ تربیہ کا کراچی میں آغاز…
اہل کراچی کو
مبارکباد…
الیکشن کی تیاریوں
میں ایمان کش اور موجب عذاب اعمال کا رواج…
ایسے میں رجوع الی
القرآن کی دعوت…
دل …انسانی جسم کا
انجن… آئیے! دلوں میں جھانکیں…
ان کی اصلاح کی
فکر کریں… اور انہیں کلمہ طیبہ سے آباد کریں…
محبوب کی یاد…محبوب کا ذکر…اور اس کے بدلے
رحمتوں کی برسات اور توجہات کی بارش…
’’ذکر اللہ‘‘… ہر عمل کی جان اور دین ودنیا کے
ہر کام کی ترقی کا زینہ…
کراچی میں دورہ
تربیہ کے اجراء پر تہنیت اور دورے میں شرکت کی ترغیب…
مبارک!کراچی والوں
کو
اللہ تعالیٰ کا’’ذکر‘‘ بہت بڑی چیز ہے،بہت اونچی، بہت
قیمتی اور بے حد عالی شان نعمت…
وَلَذِکْرُ
اللّٰہِ اَکْبَرُ…
* ہمارے
ملک میں انتخابات کی تیاری ہے… سیاسی کارکن اپنے لیڈروں کی تصویریں اور بُت جگہ
جگہ لٹکا رہے ہیں… لڑائیوں کے لئے غنڈے بھرتی کئے جارہے ہیں… حرام مال کی تجوریاں
کھل رہی ہیں ووٹ اور وفاداریاں خریدی جارہی ہیں… جھوٹ، دھوکہ، فریب اور ظلم کے
تمام کام سرگرمی سے کئے جارہے ہیں… دھاندلی، دھونس اور رشوت کے راستے ڈھونڈے جارہے
ہیں… بدنصیب نوجوان کارکن اپنے لیڈروں کو کامیاب کرانے کے لئے اپنی زندگی کے قیمتی
ترین اوقات ضائع کر رہے ہیں… یعنی وہ سب کچھ ہو رہا ہے،جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے والا ہے… اگر
خدانخواستہ اس زمین نے کبھی دھنسنا ہوا تو شاید الیکشن کے زمانے میں ہی دھنسے گی…
ابھی جب الیکشن مہم شروع ہو گی تو’’نعوذب اللہ ‘‘ کئی نمازی… مسجدوں سے دورہو جائیں
گے اور کئی مسلمان ذکر اللہ سے محروم… بس گناہ اور بھاگ دوڑ… بلکہ گناہوں کی
بھاگ دوڑ… ان حالات میں… اللہ تعالیٰ کا فضل دیکھیں کہ کراچی میں’’دورہ تربیہ‘‘
شروع ہورہا ہے… جماعت کے مخلص کارکن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بُلا رہے ہیں… ذکر اللہ اور مسجد کی طرف بُلا رہے ہیں… اور مسلمانوں کو
’’ایمان کامل‘‘ کی طرف بُلا رہے ہیں…
وہ دیکھو! سب سے
سچی کتاب، سب سے اونچی کتاب، سب سے ترقی یافتہ کتاب فرما رہی ہے… فَفِرُّوْٓا اِلَی
اللّٰہِ… پس دوڑو اللہ تعالیٰ کی طرف… پس
دوڑو اللہ تعالیٰ کی طرف… اسی میں کامیابی ہے، اسی میں ترقی
ہے اور اسی میں نجات ہے… کراچی والو! مبارک ہو… دورہ تربیہ، ایمان اورذکر کی بہاریں
لئے آپ کے شہر میں آرہا ہے… تاریخ یاد رہے: جمعہ بارہ اپریل2013ء ان شاء اللہ
*
ہمارے جسم کا انجن ہمارا’’دل‘‘ ہے… دل ٹھیک تو سب کچھ ٹھیک، دل خراب تو سب کچھ
خراب… دل کا خالق اور دل کا مالک اللہ تعالیٰ ہے… اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دلوں پر زنگ لگ جاتا ہے…
کبھی کبھار دلوں پرتالے لگ جاتے ہیں… اور کچھ دلوں پرپردے پڑ جاتے ہیں… اور کچھ دل
سختی اور قساوت کا شکار ہو جاتے ہیں… اورکچھ دل بے سمجھ ہوجاتے ہیں… اور کچھ دلوں
میں بیماری لگ جاتی ہے… دل کے ان تمام امراض کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے…
اور ہم اپنے اندر جھانک کر اور ارد گرد دیکھ کر دلوں کی بیماریوں کے خوفناک نتائج
خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں… حدیث پاک میں آتا ہے کچھ لوگوں کے دل بھیڑیوں
کے دلوں جیسے ہوتے ہیں… ظالم اور خونخوار… ہاں بھائیو! اور بہنو! قرآن پاک ہمارے
اندر یہ فکر پیدا کرتا ہے کہ ہم اپنے ’’دل‘‘ کو ٹھیک کریں، ورنہ برباد ہو جائیں
گے…
یہ کون لوگ ہیں جو
روز مال کی خاطر… مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں… اپنی حکومت کی خاطر لوگوں کا خون
بہاتے ہیں… اپنی نوکری کی خاطر گولیاں چلاتے ہیں… یہ ڈاکے ڈالنے والے، یہ اغواء
کار… یہ معصوم بچوں کو اٹھا کر لے جانے والے اور پھر ان کے اعضا کو توڑ کر ان سے
بھیک منگوانے والے… یہ انسانی اعضاء فروخت کرنے والے… یہ قبرستانوں کے مُردے نکال
کر اُن کے جسموں سے نشہ بنا کر بیچنے والے… یہ بڑے بڑے کارخانے بنا کر ان میں نقلی
دوائیاں بنانے والے… کیا ان کے سینے میں کسی انسان کا دل ہے؟… آپ مغربی تہذیب میں
پوری طرح رنگے ہوئے کسی افسر، کسی جج، کسی صحافی یاکسی بزنس مین کے ساتھ بیٹھ جائیں…
آپ کو اُس کے خیالات سُن کر گِھن اور الٹی آئے گی… بس دنیا میں ترقی کرو، بس مال
بناؤ، بس لائف اسٹائل اونچا کرو، بس یورپ کے پیچھے دوڑو… ان کے ہاں نہ اللہ ، نہ رسول، نہ قبر نہ آخرت… نہ انسانیت نہ
صداقت… کیا ان کے سینے میں کسی انسان کا دل ہے؟… یہ دین پر ہنستے ہیں ، مسجدوں پر
آوازیں کستے ہیں اور کلمہ طیبہ سے محروم لوگوں کو’’ترقی یافتہ‘‘ سمجھتے ہیں… بھائیو!
دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ، جو انسان’’کلمہ طیبہ‘‘ سے محروم ہے… کیا وہ کامیاب یا
ترقی یافتہ ہو سکتا ہے؟… زندگی کا اصل راز کلمہ طیبہ، کامیابی کی اصل کنجی کلمہ طیبہ،
فطرت کا پہلا تقاضا کلمہ طیبہ… ارے جو فطرت سے محروم ہو اُس پر تو جانور بھی
تھوکتے ہیں… خیر چھوڑیں، اس داستانِ درد کو…
آئیے
اپنے سینے میں جھانک کر دیکھتے ہیں کہ… ہمارے اپنے ’’دل صاحب‘‘ کس حالت میں ہیں؟…
زندہ ہیں یا مُردہ؟ انسان ہیں یا جانور؟ لالچی ہیں یا قناعت پسند… کھلے ہیں یا
تنگ؟صاف ہیں یا زنگ سے اٹے ہوئے؟… پُرامید ہیں یا مایوسی میں دفن؟… دھوکے کھاتے ہیں
یا سمجھدار؟… اپنے خالق و مالک کو پہچانتے ہیںیا بے سمجھ اور اندھے؟… ہمت والے شاہین
ہیں یا ہر مُردار پر گرنے والے گِدھ؟… ذاکر ہیں یا غافل؟… اس دنیاسے آگے دیکھنے کی
آنکھیں رکھتے ہیں یا اندھے ہیں؟… حق کی آوازوں کو سنتے ہیں یا بہرے ہیں؟… ہم نے
تو اپنے دل کا حساب دینا ہے کسی اور کے دل کا نہیں… دل میں ریا کاری کا سوراخ ہو
تو ساری نیکیاں بہہ جاتی ہیں… دل میں تنگی، بخل اورحرص ہو تو انسان کبھی بھی چین،
سکون اور اونچی منزل کی طرف نہیں چل سکتا… یہ دل اتنا طاقتور ہے کہ ایک لمحے میں
عرش تک… بلکہ اس سے بھی اوپراپنی آواز اور اپنا محبت بھرا تذکرہ پہنچا سکتا ہے…
اور یہ دل اتنا کمزور ہے کہ روٹی کے ایک لقمے پر نیلام ہو جاتا ہے…
ہمارے محسن، ہمارے
رہبر اور ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا کہ بس دل ٹھیک کر لو… باقی سب کچھ ٹھیک
ہو جائے گا… دورہ تربیہ کا مقصد اپنے دل تک پہنچنا، اپنے دل کو دیکھنا اور اپنے دل
کو ٹھیک کرنا ہے… بہت سے لوگوں نے بتایا کہ دورہ تربیہ کے دوران زندگی میں پہلی
بار پتا چلا کہ ہمارا دل کیسا ہے؟…صالحین اور ذاکرین کی صحبت، مسجدکا ماحول… اور
دل اور روح کی اصلی غذائیں… دورہ تربیہ واقعی ایک نعمت ہے… کراچی والو! مبارک ہو
کہ آپ کے مکرّم شہداء کی برکت سے… دورہ تربیہ آپ کے شہر کی طرف روانہ ہے… تاریخ یاد
رہے: بارہ اپریل ، جمعہ کا دن… جامعہ نور کراچی…
*
ہم اپنے محبوب کو یاد کریںیہ بھی بڑی بات… لیکن اگر عظیم محبوب ہمیں یاد فرمائے تو
اس سعادت کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے… کسی مجازی عاشق سے پوچھ لیں کہ اُسے جب یہ
خبر ملے کہ محبوب کے ہاں بس تمہارا ہی تذکرہ چل رہا تھا تو خوشی سے وہ پاگل ہونے
لگتا ہے… بندہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اُس کا ذکر فرماتے ہیں… یہ جملہ انسان کے
دل کو وجد اور رقص میں لے آتاہے… اور یہ جملہ کسی واعظ کا نہیں… خود قرآن مجید میں
محبوب حقیقی کا فرمان ہے…
’’فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ‘‘
اور بالکل صحیح حدیث
قدسی کہ بندہ جب مجھے یاد کرتا ہے تو میں اُس کے ساتھ ہوتا ہوں… اور جب وہ مجھے یاد
کرتا ہے تو میں اُسے یاد فرماتا ہوں… اللہ
والے ایک تابعی حضرت مالک بن دینار رحمۃ
اللہ علیہ … یہ اُن بزرگو ں میں سے ہیں جن کے تذکرہ پر بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے… یہ کبھی کبھی وجد
کی حالت میں کسی مسجد کے باہر تشریف لے جاتے اور پکار پکار کر فرماتے… اے نافرمان
بندو! واپس لوٹ آؤ اپنے مالک کی طرف… اے غافل بندو! بھاگ آؤ اپنے مالک کی طرف…
اے اپنے رب سے منہ موڑنے والو! واپس آجاؤ اپنے اُس مالک کی طرف…جو صبح شام تمہیں
پکار رہا ہے اور فرماتا ہے… تم ایک بالشت میری طرف آتے ہو تو میں ایک ہاتھ تمہاری
طرف آتا ہوں… تم ایک ہاتھ میری طرف آتے ہو تو میں ایک گز تمہاری طرف آتاہوں…
اور تم اگر میری طرف چل کر آتے ہو تومیں تمہاری طرف دوڑ کر آتا ہوں… کراچی والے
بھائیو! چل پڑو اپنے رب کی طرف اور کہتے جاؤ اے محبوب مالک! میں آرہا ہوں… معافی
مانگنے آرہا ہوں، توبہ کرنے آرہا ہوں، تلافی کرنے آرہا ہوں… سب کو چھوڑ کر آپ
کو پانے آرہا ہوں…؎
ہر تمنا دل سے
رخصت ہو گئی
اب تو آجا اب تو
خلوت ہو گئی
تاریخ یاد رہے، زیادہ
دور نہیں، آج پیر کا دن ہے… اور یہ اخبار آپ کو بدھ یا جمعرات کے دن ملے گا… دیوانے
آوازیں تو لگا ہی رہے ہوں گے، ان کو اورکیاکام ہے؟ نہ اپنے لیڈروں کے بت سجانے ہیں
اور نہ زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگانے ہیں… وہ خود بھی اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑ دوڑ کر قربان ہو رہے ہیں… اور
اُمت مسلمہ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف بُلا رہے ہیں… بارہ اپریل جمعہ کے
دن… تھوڑا سا سامان ساتھ… اور دل میں شوق، ارے کچھ دن تو بس اپنے خالق، مالک اور
محبوب کے ذکر میں ہی مست ہو جائیں… صبح ش، شام ش، اور ہرسانس کے ساتھ اللہ ھو
اللہ … اللہ ھو
اللہ
*
ایک بات دل میں بٹھا لیں، کوئی لاکھ کوشش کرے کہ آپ اس بات سے ہٹ جائیں تو ہرگز
نہ ہٹیں… مؤمن کا ہر کام’’ذکر اللہ ‘‘ سے
ترقی کرتا ہے… اور ذکر اللہ سے ہی کامیاب ہوتا ہے… ہرعمل کا وجود اخلاص سے،
ترقی ذکر سے اور اس کے بعد مسلسل محنت… یعنی استقامت… یہ بات قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بار بار سمجھائی ہے… نماز کی کامیابی
اور ترقی بھی’’ذکر اللہ ‘‘ سے ہے… اور جہاد میں کامیابی اور ترقی بھی’’ذکر اللہ ‘‘ سے ہے… منافق کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ
اسے’’ذکر اللہ ‘‘ سے الجھن ہوتی ہے… جبکہ
مؤمن’’ذکر اللہ ‘‘ میں یوں سکون پاتا ہے
جیسے کوئی معصوم بچہ اپنی ماں کی گود میں… یامچھلی پانی میں… ذکر اللہ یعنی
اللہ تعالیٰ کا ذکر دو طرح کا ہے… ایک’’قلبی‘‘ یعنی
دل ہر وقت اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا کویاد رکھے… اللہ تعالیٰ کے حکم کو یاد رکھے… اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرتا رہے… اور دوسرا
ذکر’’جسمانی‘‘ جو عبادات کے ذریعہ ہوتا ہے ، زبان سے اور دوسرے اعضاء سے…
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانثار صحابی حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’اے سعد! اللہ کا
ذکر کرو… یعنی اللہ تعالیٰ کو یاد رکھو اپنے ارادے کے وقت، جب کسی
کام کا ارادہ کرو… اور اپنے ہاتھ اور اختیار کے وقت جب کچھ تقسیم کرو اوراپنے فیصلے
کے وقت جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو…‘‘
دین تو دین ہے،
مؤمن کی دنیا کے کام بھی’’ذکر اللہ ‘‘ سے
ترقی پاتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں… یہ بڑا مفصل اور دلکش موضوع ہے… کسی وقت کوئی
پیچ یا پرزہ نہ کُھل رہا ہو تو وہ آیت پڑھ کر دیکھ لیں جوغزوۂ خندق میں رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے چٹان توڑتے وقت
تلاوت فرمائی تھی…مجھے یقین ہے کہ جب کسی جگہ اسلامی حکومت قائم ہوگی اور اس حکومت
کے سائنسدان… اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ ’’ایجادات‘‘ کریں گے تو یورپ
اور امریکہ کے دجّال اُن کے سامنے سرکس کے ’’بونے‘‘ نظر آئیں گے… ہمارے جو’’کالم
نویس‘‘سائنس کی چند ایجادات اور اُن کے موجدوں کے نام گنواکر نعوذب اللہ مسلمانوں کو’’حقیر‘‘ قرار دیتے ہیں… آپ ان سے
پوچھا کریں کہ تم نے خود کیا ایجاد کیا ہے؟… تمہیں سائنس پڑھنے، ایجادات کرنے اور
آگے بڑھنے سے کس مولوی،کس مدرسے یا کس مجاہد نے روک رکھا ہے کہ تم مسلمانوں کی
پسماندگی کا ذمہ دار… علماء اور مجاہدین کو قرار دیتے ہو؟… چلیں چھوڑیں! اصل بات کی
طرف آتے ہیں کہ جب مسلمانوںکے قلوب زندہ ہوں گے، اُن کو ایمان کامل نصیب ہوگا…
اور وہ ذکر اللہ کو حاصل کریں گے تو… اُن کا ہر عمل کامیاب اور
مقبول ہو گا… اس لئے ضروری ہے کہ ’’مجاہدین‘‘ بھی ذکر اللہ میں
مضبوط ہوں… کیونکہ وہ اسلام کے غلبے اور مسلمانوںکے تحفظ کی عظیم محنت کر رہے ہیں…
خلاصہ یہ کہ مسلمان کے اعمال کی کامیابی اور ترقی… ’’ذکر اللہ ‘‘ میں ہے… اور’’ذکر اللہ ‘‘ کی بہاریں لئے’’دورہ تربیہ‘‘ کراچی کے
دروازے پر چل آیا ہے… ان شاء اللہ اب یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور یہ کراچی کے حالات
کو فسادسے امن کی طرف… اور فسق سے ایمان کی طرف لانے کا ذریعہ بنے گا… مگر آغاز
توآغاز ہوتا ہے، بنیاد کی اپنی حیثیت ہوتی ہے… اور کسی کام میں روز اول سے حصہ
ڈالنے کا اجر بہت بڑا ہوتا ہے…
اس لئے وقت نکالیں،
الیکشن کے فساد زدہ ماحول سے جان چھڑائیں… اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں…
پہلے’’دورہ تربیہ‘‘ میں شرکت کریں…
دورہ تربیہ کے
بارے میں’’باتیں‘‘ بہت تھیں مگر صفحات پورے ہوگئے اور کئی اہم باتیں رہ گئیں… ویسے
سچ یہ ہے کہ’’دورہ تربیہ‘‘ باتوں سے نہیں عمل اور تجربے سے سمجھ آتا ہے… پھر دیر
کیسی؟جمعہ کا دن بارہ اپریل 2013ء… جامعہ نور مفتی ولی حسن رحمۃ اللہ علیہ ٹاؤن گڈاپ کراچی…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیّدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مرضی کس کی؟
کائنات میں جو کچھ
ہوتا ہے کس کی مرضی سے ہوتا ہے؟
صرف اللہ تعالیٰ کی
مرضی سے…
اپنی مرضی چلانے کی
کوشش کرنے والے ہر دم پریشان…
رب کی مرضی کے
تابع رہنے والے کا مران…
اقتدار کی فکر میں
پڑنے والوں کا انجام…حکومت کی بے ثباتی…
صحت کی زیادہ
فکر…تفکرات کاہجوم اور ایمان کا خطرہ…
’’حجامہ‘‘ ایک معجز علاج…
مال کی فکر میں
گھلنے والے… ہر دم آفتوں کی زد میں…
انتخابات کا
غلغلہ… جمہوریت کی حقیقت…جمہوری راستے سے
اسلامی انقلاب لانے کے خواہشمندوں کے لئے نشان
عبرت…
مصر
کا انقلاب اور اس کا انجام…
سب انسان خسارے میں
ہیں سوائے چندایک کے…
خسارے سے بچنے کا جامع نصاب…ایمان، نماز، جہادفی
سبیل اللہ …
مرضی کس کی؟
اللہ
تعالیٰ جو چاہتے ہیں وہ کرتے ہیں… فرمایا!
’’فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ‘‘
اگر کوئی شخص یہ
چاہے کہ سب کچھ اُس کی مرضی اورپسند کے مطابق ہو تو وہ سن لے اورسمجھ لے کہ دنیا میں
ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا… ایسے لوگ ہمیشہ غم اور پریشانی بلکہ حسرت میں رہتے ہیں…
ہاں! جو اپنی مرضی کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کر لے وہ مطمئن رہتاہے… یاد
رکھیں! صرف ایک نکتہ ہماری ہزاروں پریشانیوں کا علاج ہے… وہ یہ کہ ہم دنیا میں ہیں،
جنت میں نہیں… اور دنیا میں وہی کچھ ہوتا ہے جو ہو رہا ہے… ہمارا کام یہاں اپنی
مرضی چلانا نہیں… بلکہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ’’تقدیر‘‘ پر راضی رہیں اور اُس کام
میں لگے رہیں جس کے لئے ہمیں اس دنیا میں بھیجا گیا… تھوڑا سا ماضی کی طرف جھانکیں…
اور ایک نظر موجودہ زمانے پر ڈالیں… جس نے بھی دنیا میں اپنی تمام خواہشات کو پانے
کی کوشش کی اور اسے مقصدبنایا وہ ناکام ہو گیا، ذلیل ہو گیا… کچھ لوگ حکومت اور
اقتدار کے پیچھے پڑے کہ یہ ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مل جائے… کیا انہیں مل گیا؟…
گزشتہ چند سالوں میں ہی کتنے لوگوں کے تاج اُتر
گئے… کتنوں کے تخت چھن گئے… ہمارے ملک میں ایک شخص وزیراعظم تھا… پانچ منٹ بعد وہ
قیدی تھا اور ایک سال بعد جلا وطن… مگر عبرت نہ ہوئی اب پھر اقتدار کے پیچھے دوڑ
رہا ہے… اور ایک شخص جہاز میں بیٹھا بیٹھا معزول ہوا… سب کچھ چھن گیا، مگر آدھے
گھنٹے بعد پورے ملک کا حکمران بن گیا… پھر آٹھ سال اُس نے اقتدار کو خوب رسوا کیا
پھر ایک دن اچانک اُسے صدارتی محل سے نکلنا پڑا… پھر جلا وطن ہوا اور اب دوبارہ
ذلّت کا نشان بنا پاکستان میں بیٹھا ہے… یہ کل پرسوں کی داستانیں ہیں… ماضی میں
غوطہ لگائیں تو ہر طرف عبرت ہی عبرت… ویرانی، رسوائی، پرانی ہڈیاں… چند دن کا عیش
اور پھر ذلّت… یہ سب کچھ دیکھ کر بھی کوئی اقتدار، عہدے یا منصب کو اپنا مقصود بنا
سکتا ہے؟… جی ہاں! دنیا دھوکے کی جگہ ہے، لوگ اقتدار اور عہدے کو بہت کچھ سمجھتے ہیں،
حالانکہ یہ کچھ بھی نہیں… ایک پانی کا بلبلہ ہے جو ابھرتا ہے اور پھر پھٹ جاتا ہے…
کچھ لوگوں نے دنیا میں صحت مند زندگی کو اپنا مقصود بنایا… صحت اچھی چیز ہے مگر یہ
ہمیشہ نہیں رہتی… طرح طرح کے علاج، طرح طرح کی دوائیاں… اور طرح طرح کے چلّے… مگر
صحت کسی کے قابو میں نہ آئی… ارے جب اللہ
تعالیٰ کے پاک انبیاء علیہم السلام
بیمار ہوئے تو… دنیا میں کون ہے جو بیماریوں سے بچنے کا حتمی طریقہ ڈھونڈ
سکے… پرہیز اچھی چیز ہے، صحت کا مناسب خیال رکھنا اچھی بات ہے… علاج کرانا بھی سنت
ہے… لیکن’’صحت‘‘ ہی کو اپنا مقصود بنا لینا؟… یقینا خسارے کا سودا ہے… ایک عباسی
خلیفہ کو شوق چرایا کہ مردانہ قوت بے مثال ہو… اسی شوق میں بہت بُری موت مرگیا… ایک
گرم دوائی کھانے سے جسم پر ایسے پھوڑے نکلے کہ آگ کے بہت قریب ڈالا جاتا تو کچھ
سکون پاتا… بڑھی ہوئی خواہشات کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے… بالآخر چیختے سسکتے مر گیا…
یوگا کے ماہر لوگ اپنے جسم کو تھوڑا لچکدار اور اچھا بنا لیتے ہیں مگر اُن کے منتر
اور بُرا ماحول ان کی روح اور دماغ میں عجیب بیماریاں لگا دیتی ہیں… صحت کی زیادہ
فکر میں لوگ نعوذب اللہ … کفر اورشرک تک جا پہنچتے ہیں… اللہ تعالیٰ کی پناہ! ایسے عامل آگئے ہیں جو سب سے
پہلے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں… انسا ن یہ کیوں نہیں سوچتا کہ یہ دنیا ہے اور یہاںبیماری
آتی ہے… اور میرا جسم فانی ہے، اس نے بالآخر کمزور ہی ہونا ہے… کچھ بیماریوں کو
انسان برداشت کر لے… کچھ کا مناسب علاج کر لے… اور اس معاملے کو زندگی کی سب سے
اہم سوچ اورفکر نہ بنائے… آج میڈیکل کے شعبے میں جتنا خرچہ، جتنا اسراف اور جتنی
ذلت ہو رہی ہے… وہ یقینا اس زمانے میں بڑا المیہ ہے…ٹیسٹ، ٹیسٹ اور ٹیسٹ… پیشاب سے
لے کر ہر بلا ٹیسٹ… کروڑوں کی مشینیں اور ہر مشین کے ٹیسٹ کا نتیجہ یعنی رزلٹ الگ…
انسانی جسم میں کروڑوں اربوں کی تعداد میں پرزے ہیں… انسانی جسم میں کبھی سردی،
کبھی گرمی، کبھی آندھی، کبھی طوفان… کبھی مٹھاس، کبھی کڑواہٹ… ہر منٹ میں یہ نظام
بدلتا ہے… اور ہر گھنٹے میں جسم کے اندر ڈیوٹیاں تبدیل ہوتی ہیں… ان حالات میں کسی
ٹیسٹ سے حتمی حالت ہمیشہ کہاں معلوم ہو سکتی ہے؟… چنانچہ کبھی تشخیص ٹھیک، کبھی
غلط … مسلمانوں کے پاس’’حجامہ‘‘ جیسا مفید ، جامع اور اعلیٰ’’علاج‘‘ موجود ہے…
افسوس، صدا فسوس کہ مسلمان اس مسنون او ر حیرت انگیز علاج سے محروم اور غافل ہیں…
سالہا سال سے جو زہر انسان کے جسم میں بنتا ہے حجامہ کا ایک کپ اُس سارے زہر کو پانچ
منٹ میں باہر نکال پھینکتا ہے… اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حجامہ کی ترغیب دیتے رہے
اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے
اسے افضل ترین علاج قرار دیا… مگر لوگ علاج کے لئے یورپ بھاگتے ہیں اور خوب د ل
پھاڑ کر اپنی صحت کے لئے مال برباد کرتے ہیں… مگر صحت ہے کہ قابو میں نہیں آتی…
کوئی ہے جو ا س بارے میں اپنی فکر کا رُخ تبدیل کرے اور سوچے کہ یہ دنیا ہے جنت نہیں…
یہاں بیمار ہونا بسا اوقات خود ہمارے مفاد میں ہے… کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے دنیا
میں، مال، جاگیر، پلاٹ اور جائیداد بنانے کو اپنی سب سے اہم فکر بنا رکھا ہے… وہ
اسی کی خاطر مرتے ہیں ا ور اسی کی خاطر جیتے ہیں… اور وہ اس کی خاطر سب کچھ کر
گزرتے ہیں خواہ جائز ہو یا حرام… اُن کے نزدیک انسان کی ترقی یہی ہے کہ اُس کے پاس
بہت پیسہ ہو اور بہت جائیداد ہو… انسانوں کا یہ طبقہ سب سے زیادہ پریشان حال، سب
سے زیادہ خطرناک اور سب سے زیادہ ہلاکت میں پڑنے والا ہے… انہوں نے ایسی چیز پر
اپنی زندگی کھپائی جو اُن کے کسی کام کی نہیں… بڑے بڑے پلازے بنانے والوں کو تلاش
کریں کہ وہ کہاں ہیں؟… کبھی کراچی اور لاہورجائیں… ایک ایک پلازے اورایک ایک محل کی
داستان عبرت سنیں تو آپ کو’’جانور‘‘ ان لوگوں سے زیادہ اچھے محسوس ہوں گے… اکثر
لوگ مر گئے… پیچھے والوں نے اُن کے ساتھ کیا کیا… یہ الگ عبرت کی داستان ہے… یہ دنیا
دھوکے کی جگہ ہے ورنہ تو کسی ایک سیٹھ کی قبر لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی
ہوتی… کئی کئی مکان بنا کر اُن کو دے دیئے جو زندگی میں جوتے مارتے ہیں… اور اپنی
آخرت کے لئے ایک مسجد تک نہ بنائی… ہے نہ حسرت اور ناکامی کی بات؟… پیسہ بناتے
رہے، گنتے رہے، اس کے آنے جا نے کا غم سہتے رہے… بھاری ٹیکس ادا کرتے رہے، طرح
طرح کی رشوتیں دیکر اپنا مال بچاتے رہے… اور پھر ایک دن اچانک سب کچھ دوسروں کے
لئے چھوڑ کر خالی ہاتھ قبر میں جا گرے… ہے نہ افسوسناک صورتحال…
یا اللہ ! دنیا کے
فریب اور دھوکے سے ہم سب کی حفاظت فرما…
آج کل پاکستان میں
انتخابات کا موسم ہے… اللہ تعالیٰ ملک کو اچھے اور مسلمان حکمران عطاء
فرمائے… بظاہر تو ایسا نہیں لگتا کہ انتخابات کے ذریعہ کوئی اچھا حکمران اُس ملک
کو نصیب ہوجائے… کوئی عارضی نظام نہ کفر ہوتا ہے نہ اسلام… جمہوریت کے بارے میں
کافی افراط تفریط نظر آرہی ہے… ہم خود جمہوریت کے حامی نہیں اور نہ ہی اسے کوئی
اچھا اور مفید نظام سمجھتے ہیں… مگر یہ فتویٰ دے دینا کہ’’جمہوریت‘‘ کفر ہے… یہ بھی
ہرگز درست نہیں… ایک زمانے تک کچھ متشدّد قسم کے عرب مصنفین پشاور میں مقیم رہے،
ان حضرات کا تعلق مصر کی ایک تنظیم سے تھا جو ہجرت اور تکفیر کا نعرہ لگاتی تھی…
انہوں نے سب سے پہلے یہ فتویٰ جھاڑا کہ جمہوریت کفر ہے… مجاہدین میں سے بھی کئی
افراد نے بغیر سمجھے بوجھے اس فتوے کی تشہیر شروع کردی… ایک بار سفر کے دوران بندہ
نے ایک بزرگ عالم دین کے سامنے اس فتوے کا تذکرہ کیا تو انہوں نے حیرت سے پوچھا …
ایک’’ انتظام‘‘ کس طرح سے کفریا اسلام ہو سکتا ہے؟… بس اُن کے اس جملے نے عقل کی
گرھیں کھول دیں… جمہوریت کی خرابیاں اپنی جگہ اور اس کے مفاسد بھی بے شمار… مگر
اسے خالص کفر قرار دینا بھی ایک بڑی غلطی ہے… اس میں فیصلہ ہر جگہ کی’’جمہوریت‘‘ کے
قوانین پر ہوگا… جہاں حاکمیت اعلیٰ عوام کو دی جائے وہاں کفر اور جہاں ایسا نہ ہو
بلکہ صرف… اکثریت کے ذریعہ انتخاب کا معاملہ ہو وہاںفتویٰ الگ… جمہوریت کے بارے میں
اعتدال پر مبنی رائے حاصل کرنے کے لئے آپ حضرت لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ کا وہ مضمون پڑھیں جو… چند ہفتے قبل القلم کے اسی
صفحے پر ’’کلمہ حق‘‘ میں شائع ہو چکا ہے… اسی طرح حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی احسن الفتاوی میں اس پر بہت عمدہ بحث
فرمائی ہے… یہ سب کچھ اپنی جگہ مگر وہ لوگ بھی قابل رحم ہیں جنہوں نے جمہوریت کی
بحالی کو ہی اپنی زندگی کا مشن او ر مقصد بنا رکھاہے… خصوصاً دینی طبقوں سے تعلق
رکھنے والے وہ افراد جو دن رات جمہوریت، جمہوریت کی رَٹ لگاتے ہیں… اور نعوذ ب
اللہ اس میں شرکت کو جہاد سے بھی افضل
قرار دیتے ہیں… ایسے لوگ اس قابل ہیں کہ ان کی ہدایت کے لئے دعاء مانگی جائے کہ…
اُن کی قیمتی زندگیاں اس دنیا میں کیسے فضول کام پر برباد ہو رہی ہیں اگر وہ اپنا یہی
وقت جہاد فی سبیل اللہ ، عبادات… او ر
خدمت خلق پر لگائیں تو اُن کے لئے کتنا اچھا ہو جائے… آج کل مصر وغیرہ میں اخوان
المسلمون کی حکومت دیکھ کر ہمارے دینی طبقوں کے منہ میں بھی پانی بھر آیا ہے کہ…
ہم بھی ووٹ کے ذریعہ انقلاب لائیں گے… حالانکہ’’اخوان المسلمون‘‘ نے بہت قربانیاں
دی ہیں… اُن کی پوری بنیادی قیادت سولیوں اور پھانسیوں پر شہید ہوئی ہے… اُن کے
لاکھوں کارکنوں نے بڑی بڑی قیدیں کاٹی ہیں… اور انہوں نے رات دن ایک کر کے درس
قرآن، خدمت خلق او ر فروغ تعلیم کے ذریعہ عوام کے دلوں کو جیتا ہے… انہوں نے
جمہوریت کوکبھی اپنا مطلوب، مقصود اور اصل کام قرار نہیں دیا… اور نہ ہی کبھی
آمروں کے ساتھ کسی طرح کا کوئی اتحاد بنایا ہے…اُن کے کئی کاموں سے اختلافات کے
باوجود ہم انہیں اس اعتبار سے مسلمانوں کے لئے ایک روشن مثال سمجھتے ہیں کہ… انہوں
نے سال کے کسی دن، اور رات دن کے کسی منٹ اپنے کام کا وقفہ نہیں کیا… دن رات محنت،
مسلسل محنت… انہوں نے آہستہ آہستہ انتظامی اداروں میں اپنے افراد داخل کئے… اور
ہمیشہ ایک دوسرے کو عزیمت اور قربانی کی دعوت دی… وہ خود اگرچہ مسلح جہاد سے محروم
رہے مگرانہوںنے دعوت جہاد… اور جگہ جگہ مجاہدین کی نصرت اور اعانت کرنے سے کبھی
اپنارخ نہیں موڑا… ان سارے کاموں کے باوجود… آج وہ اپنی حکومتیں چلانے میں مکمل
آزاد نہیں ہیں… بلکہ انہیں قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا ہے… خلاصہ یہ ہے کہ…
پاکستان میں جمہوریت کا فی الحال و ہ مستقبل ہرگز نہیں جو مصر اور تیونس میں ظاہر
ہوا… اس لئے یہاں اس بارے میں جو محنت کی جارہی ہے وہ … دین اور اسلام کی کوئی خاص
خدمت نہیں… بس بھائیو! میں بھی یاد رکھوں اور آ پ بھی کہ یہ دنیا ہے… اور دنیا میں
جو کچھ ہو رہا ہے… اُس سے زیادہ متاثر نہ ہوں… بلکہ یہ عظیم نکتہ یاد رکھیں کہ… دنیا
کے تمام انسان خسارے میں ہیں… مگر وہ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال
کئے … اور وہ حق کی دعوت دیتے ہیں… اور حق پر استقامت کی ایک دوسرے کو تلقین کرتے
ہیں…
معلوم ہوا کہ خود
بھی ٹھیک ہونا ہے… اور دوسروں کو ٹھیک کرنے کی فکربھی کرنی ہے… تب خسارے سے نجات
ہے… اور اس کے لئے ہمارے پاس دور حاضر کے حالات کے مطابق بہترین نصاب موجود ہے… یعنی
کلمہ(ایمان)، نماز اور جہاد فی سبیل اللہ کی محنت…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
میٹھے الفاظ
مٹھاس سے بھرے
مختصر اَلفاظ… جن میں دنیا کی تمام پریشانیوں سے نجات ہے:
حسبنااللہ و نعم الوکیل
ابراہیم خلیل اللہ
علیہ السلام کی ایمانی کیفیت کا مظہر…
اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ٹوٹے دل کا مرہم…
اُحد والوں کے
رِستے زخموں کا سکون…
حسبنااللہ ونعم
الوکیل
پرویزمشرف کے
مظالم…امارتِ اسلامیہ کا سقوط … لال مسجد کا سانحہ…
جہادی تنظیموں پر
پابندیاں او ر اہل ایمان کے لئے قید وبندکی صعوبتیں…
مگر ظلم کا انجام
کیا ہوا؟……اظہار تشکر…
کراچی
کے دورئہ تربیہ کے قابل شُکر اَثرات…
مدارس کے طلبہ کا
منفرد موضوع پر تقریری مقابلہ…
آیتِ
مبارکہ کا ایک طاقتور وظیفہ…
میٹھے الفاظ
اللہ
تعالیٰ ہمارے لئے کافی ہے… یعنی ہمارا ہر
مسئلہ حل فرمانے والا ہے اوردشمنوں کے مقابلے پر ہمار ا مددگارہے…
حَسْبُنَا ﷲ
اور وہ بہترین کار
ساز ہے… یعنی کام بنانے والا ہے…
وَنِعْمَ الْوَکِیْل
اب ان دونوں جملوں
کو ملا کر پڑھیں!
حَسْبُنَا اللہُ
وَنِعْمَ الْوَکِیْل
یہ دعاء بھی ہے
اور قرآن مجید کی آیت مبارکہ بھی… اور ایک ایسا طاقتور قرآنی وظیفہ یا کوڈ جس
کے سامنے کوئی ظالم نہیں ٹھہر سکتا…
حضرت سیّدنا ابراہیم
خلیل علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا…
بڑی بھیانک اور خوفناک آگ تھی… تب انہوں نے فرمایا:
حَسْبِیَ اللہُ
وَنِعْمَ الْوَکِیْل
میری مدد کرنے کے
لئے اللہ تعالیٰ بہت ہے، اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہی بہترین’’وکیل‘‘ ہے… اسی
وقت حکم آیا کہ… اے آگ ٹھنڈی ہوجا! مگرمٹھاس اور سکون والی ٹھنڈک ہو… جی ہاں!
سلامتی والی…
حضرت اماں عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا کو… ان کی زندگی کی
سب سے اذیت ناک خبر پہنچی کہ ظالموں نے آپ کے فرشتوں جیسے دامن پر تہمت لگادی ہے…
اور یہ’’تہمت‘‘ بہت مضبوطی کے ساتھ پھیلائی جارہی ہے… اللہ ، اللہ ! حضرت سیدہ عائشہ رضی رضی اللہ عنہا کے دل
پر کیا گزری ہو گی مگر فوراً فرمایا!
حَسْبِیَ اللہُ
وَنِعْمَ الْوَکِیْل
میرا اللہ موجود ہے، وہی میرا ہے ، وہی میرا ہے… اور وہ
کافی ہے اور وہ ہر بگڑی بنانے پر قادر ہے… دلوں کا بھی وہی مالک اور زبانوں کا بھی
وہی خالق…
اَمّی جی نے جب
اپنا ’’وکیل‘‘ اللہ تعالیٰ کو بنا لیا اور اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد فرما دیا تو… حضرت جبریل امین علیہ السلام عرش سے’’سورہ نور‘‘ لے کر اُترے اور
قیامت تک اعلان ہو گیا…
’’ سُبْحَانَکَ ھٰذا بُہْتَانٌ عَظِیْم‘‘
غزوہ
اُحد کا زخمی لشکر… غمزدہ ، ٹوٹا پھوٹا، زخموں سے چور لشکر ابھی سنبھلا نہ تھا… اللہ
اللہ! غزوہ اُحد کا درد اور اُس واقعہ کے زخم بہت گہرے تھے… ایسی کمزوری کی حالت میں
تو انسان’’ہمت‘‘ سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے… تب اطلاع آگئی … بہت پکی خبر کہ ایک بہت
بڑا لشکر پھر واپس پلٹ کر حملہ آ ور ہونے کو ہے… حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین نے فقیرانہ شان سے کہا…
’’حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل‘‘
لشکر آرہاہے تو کیا
ہوا؟ اللہ تعالیٰ موجود ہے… اور وہ ہمارا ہے، ہاں وہ ہمارا
ہے… کیا کوئی لشکر اس سے طاقتور ہو سکتا ہے؟… وہ آسمان و زمین کو ایک کلمہ سے پیدا
فرمانے والا ہمارا’‘وکیل‘‘ ہے… زخموں سے چور چور لشکر نے جب اللہ تعالیٰ کو اپنا ’’وکیل’’ بنا لیا تو طاقتور
دشمنوں کے دل خوف اوررعب سے بھر گئے… زمین کے تمام قرینے بدل گئے… کائنات کے مالک
نے عمومی قوانین کو وقتی طو پر تبدیل فرما دیا… اور غزوہ حمراء الاسد کے زخمی
مجاہدین خوشیوں، نعمتوں اور رحمتوں سے مالا مال ہو کر واپس مدینہ پہنچ گئے… اس
واقعہ کی تفصیل بڑی شاندار ہے، دل چاہتا ہے بار بار لکھی جائے، پڑھی جائے اور سنی
جائے… اور پھر ہر مجاہد کے دل میں یہ دوکلمے ایسے بیٹھ جائیں کہ… ساری دنیا کے
کافر لرز اٹھیں…
حَسْبُنَا اللہُ
وَنِعْمَ الْوَکِیْل
مگر آج اس داستان
کو چھوڑتے ہیں… اور انہی دو کلموں میں آگے بڑھتے ہیں… مگر پہلے آپ ایک بات بتائیں!…
اگر اللہ تعالیٰ کسی انسان کو کوئی خوشی دے تو اسے محسوس
کرنا چاہئے یا نہیں؟…
شکرانے کے نوافل،
شکرانے کے الفاظ، تشکر کے آنسو اور دل میں اپنے رحیم و کریم مالک کی محبت… عربی
زبان کا ایک مقولہ ہے…
’’یَا ظالم! لَکَ یومٌ‘‘
اے ظالم! تیرے لئے
بھی ایک دن ہے…
یعنی ظلم پائیدار
نہیں ہوتا، ایک دن ختم ہوجاتا ہے… اورپھرظالم کی طرف ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لوٹ جاتا
ہے… اے ظالم! تیرے لئے بھی ایک ایسا دن آنے والا ہے جب یہ ظلم واپس تجھ پر لوٹے
گا… اچھا چھوڑیں اس بات کو آپ سب لوگ خبریں پڑھتے اور سنتے ہیں… یہ بتائیں کہ پرویز
مشرف آج کہاں ہے؟… اور وہ آج کیا ہے؟… وہ جس کی’’ میں میں‘‘ نہ تھمتی تھی … وہ
جو جیلیں بھرنے کاعادی تھا… وہ جس کے کالے دور کے آپریشنوں سے شہر جلتے تھے… وہ
جو’’کالعدم‘‘ قرار دینے کا شوقین تھا… وہ جو بسے بسائے گھروں کو’’سب جیل‘‘ قرار دے
کر آہیںکماتاتھا… آج وہ کہاں ہے؟…
’’یَا ظالم! لَکَ یومٌ‘‘
وہ آج ’’کالعدم‘‘
ہو چکا… ملک کے کسی بھی حلقے سے انتخابات لڑنے کے لئے نااہل اور کالعدم… وہ آج
خود آپریشن کی زد میں ہے… وہ آج دھمکیاں نہیں صفائیاں دے رہا ہے… مگر کوئی نہیں
سنتا… اُس کا شاندار محل آج ایک’’سب جیل‘‘ ہے… اور جیل پولیس کے حوالدار آج اُس
کے’’سر‘‘ ہیں… وہ فرعون کی طرح’’غرق‘‘ ہو جاتا یہ بھی اچھا تھا مگر فرعون نے اپنی
زندگی میں اپنی ذلت صرف چند لمحات دیکھی… اور پھر برزخ کی آگ میں جا گرا…وہ ابو
جہل کی طرح مارا جاتا تب بھی بہت اچھا تھا… مگر ابو جہل نے اپنی ذلّت کا منظر اپنی
زندگی میں تھوڑی دیر دیکھا جب وہ زخمی ہو کر گرا… اورسیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اُس کے سینے پر جا بیٹھے… مگر’’پرویز مشرف‘‘ اپنی
زندگی میں رات، دن ذلت دیکھ رہا ہے… نہ حکومت رہی نہ اقتدار، نہ فوج رہی نہ پولیس…
نہ’’میں میں‘‘ رہی اور نہ آرڈر آرڈر… ساری دنیا کا کفر آج بھی اُس کے ساتھ ہے
مگر کوئی بھی اُسے ذلت سے نہیں نکال پا رہا… اب نکال بھی لیں تو کیا فائدہ؟ممکن ہے
وہ اُسے بھگا کر لے جائیں مگر قدرت نے تو آنکھوں والوں کے لئے عبرت کی مثال قائم
فرما دی ہے… پرویز مشرف نے اس زمانے میں روئے زمین کی واحد اسلامی حکومت کو ختم
کرنے میں اہم کردار ادا کیا… محض اپنی بزدلی اور اپنے حرص کی تکمیل کے لئے… آہ!
امارتِ اسلامیہ، آہ! امارتِ اسلامیہ… پرویز کا یہ جُرم اُس کے تمام جرائم سے بھاری
ہے…اس جرم کی تفصیل لکھوں تو قلم اور کاغذ بھی رو پڑیں… آہ!امارتِ اسلامیہ… بیس
لاکھ شہداء کرام کے خون سے قائم ہونے والی دنیا کی وہ واحد حکومت جہاں قرآن مجید
کی روشنی میں فیصلے ہوتے تھے… وہ خوشبودار وہ امن و امان اور انوارات والی حکومت…
قندھار سے کابل تک گاڑی دوڑاتے تھے نہ خوف نہ کوئی خطرہ… ڈرائیور بھی اونگھتے رہتے
تھے کہ فضائیں بھی ایمان والوں کے ساتھ تھیں… وہ بت شکن اسلامی حکومت، وہ مسلمانوں
کے لئے پرسکون گہوارہ… ہاں! ماں کی گود جیسی اسلامی حکومت…وہ مہمان نواز… وہ غیرت
مند… وہ بہادر اسلامی حکومت…
سبحان اللہ ! ملک کے حکمران، عوام کے خادم اور نوکر
تھے… اور امیر المؤمنین ہر طرح کے ظلم، حرص، لالچ او رگندگی سے پاک اسلام اور
مسلمانوں کے مخلص خادم! صدیوں بعد مسلمانوں نے وہ مناظر دیکھے ، جنہیں دیکھنے کے
لئے چار سو سال سے آنکھیںترستی ترستی روتی بلکتی… بند ہوجاتی تھیں… شیخ موسیٰ
روحانی رحمۃ اللہ علیہ جیسے زندہ دل ولی
نے ایک نظر امارتِ اسلامیہ کو دیکھا تو بے اختیار پکار اٹھے… ارے یہ تو خلافت
راشدہ کے دور کا نمونہ ہمارے زمانے میں رب کریم نے عطاء فرما دیا ہے… ہم قندھار کے
ایک مکان میں بیٹھے تھے کہ ایک گاڑی اندر آکر رُکی… گاڑی میںصرف ایک آدمی تھا وہی
خود ڈرائیور!وہ گاڑی سے اُتر کر ہماری طرف آیا، کسی نے کان میں بتایا کہ ملکِ
افغانستان کا ’’چیف جسٹس‘‘ ہے… سبحان اللہ
! تھوڑی دیر بعد اُس خوش جمال، خوش خصال قاضی کو دیکھا کہ دو زانوں بیٹھا علماء سے
درخواست کر رہا ہے کہ … اسلامی عدالتی نظام کے بارے میں میری مزید رہنمائی فرمائیں
تاکہ اس ملک میں ہر فیصلہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ہو… سات سال کی حکومت میں ڈاکو
گم ہو گئے، لٹیرے غائب ہو گئے یا شاید تائب ہوگئے… قتل و غارت بند ہوگئی… اور چور
اچکے ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتے… آہ! وہ عید کا پُرشکوہ اجتماع… تاحد نظر پھیلے
عماموں والے اونچے سر… آہ! وہ اسلام کی قوت اور شوکت کے عجیب مناظر… ہمارے بڑوں
نے چار صدیاں ایسے مناظر دیکھنے کے لئے طرح طرح کی محنتیں کیں… وہ بامیان کے بتوں
کا ایک دھماکے کے ساتھ اُڑجانا… وہ قندھار کے ایئر پورٹ پرمشرک جسونت سنگھ کا
سرنگوں ہونا… وہ دنیا بھرکی سعید روحوں کا کھنچ کھنچ کر افغانستان کی طرف آنا…
پرویز مشرف نے ایک ٹیلیفون پر غلامی کی کالک منہ پر ملی اور امارتِ اسلامیہ کے پاکیزہ
عمامے کو خاک و خون میں تڑپا دیا… اور جب وہاں سے آہیں بلند ہوئیں تو ان کی گرمی
سے پاکستان کا امن و سکون بھی جل کر راکھ ہو گیا… آج پاکستان میں جتنی بدامنی اور
قتل و غارت ہے یہ سب اُسی گناہ کی نحوست ہے… خونخوار بزدل پرویز مشرف نے اسی پر بس
نہیں کیا بلکہ پاکستان کو… اسلام سے محروم کرنے کے لئے اُس نے بڑے بڑے ظالمانہ
اقدامات کئے… آہ ! لال مسجد، آہ! جامعہ حفصہk!… ایک ایسی داستان جو نئے پرانے سارے زخموں کے منہ کھول دیتی ہے…
اور پھر جاتے جاتے ایسے افراد کے ہاتھوں میں حکومت دے گیا جنہوں نے اُس کے ہر ظلم
اور ہر گناہ کو جاری رکھا… آج پرویز مشرف قدرت کے انتقام میں ہے… یقینا زخمی دل
مسلمان خوش ہیں… کوئی مٹھائی بانٹتاہے تو کوئی شکرانے کے نوافل پڑھتا ہے… ہاں!
مسلمانوں کو خوش ہونا چاہئے… خواہ یہ خوشی چند دن کی عارضی ہی کیوں نہ ہو…مشرف کے
ظلم سے تڑپنے والے کتنے مسلمان اس وقت کہتے تھے…
حَسْبُنَا اللہُ
وَنِعْمَ الْوَکِیْل
اور
آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اللہ
تعالیٰ نے ان کی کیسی مدد فرمائی… وہ جو
زمین کا مالک بنتا تھا آج زمین اُس پر تنگ ہے… اور وہ جن پر زمین تنگ کر دی گئی
تھی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر طرف پھیلتے جارہے ہیں…
سبحان اللہ ! ابھی کراچی میں ماشاء اللہ کیسا
شاندار دورہ تربیہ ہوا… شعبے کو چاہئے کہ دورہ ٔتربیہ میں شریک افراد کے تأثرات
کو شائع کرے تاکہ خوشبو مزید پھیلے… مجھ تک جو حالات پہنچے ہیں وہ شکر کی کیفیت پیدا
کرنے والے ہیں… دینی مدارس کے خطباء طلبہ نے ایک ایسے موضوع پر کتابیں کھنگالی …
اور بیانات کئے جو اس سے پہلے کسی نے نہیںچھیڑا…حضرات محدّثین اور جہاد فی سبیل اللہ … ماشاء اللہ دعوت جہاد… ہر زبان، ہر رنگ، ہر لہجے اور مختلف
علمی جہات کے ساتھ… بڑھتی ہی جارہی ہے… مَاشَآءَ اللہ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ
… اَللّٰھُمَّ بَارِکْ وَزِدْ وَتَقَبَّل… اچھا! اب آج کی آخری بات… وہ مسلمان
جن کو دشمنوں سے خطرہ ہے… وہ مسلمان جو کسی طرف سے ظلم و زیادتی کا شکار ہیں… وہ
مسلمان جن کے دشمن اُن سے بہت زیادہ طاقتور ہیں… وہ مسلمان جو لوگوں کی طرف سے
تہمتوں اور بدنامیوں کا شکار ہیں… وہ مسلمان جنہیں حالات کی آندھیوں نے تنہائیوں
میں جا پھینکا ہے… وہ مسلمان جن کے دشمن اُن پر پلٹ پلٹ کر وار کرتے رہتے ہیں… وہ
مسلمان جو جعلی مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں… وہ مسلمان جو کسی بھی تنگی کا شکار ہیں…
وہ دل کی گہرائی اور کامل یقین سے مان لیں اور کہہ دیں:
حَسْبُنَا اللہُ
وَنِعْمَ الْوَکِیْل
اگر ہر نماز کے
بعد ایک سو مرتبہ… اور تہجد کی نماز کے بعد ایک سو مرتبہ… چند دن اس کامعمول بنائیں
تو اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی قدرت، طاقت اور نصرت کے حیرت انگیز
مناظر دیکھیں گے…اس قرآنی وظیفے اور طاقتور کوڈ کی تفصیل دیکھنی ہو تو سورۂ آل
عمران آیت:۱۷۳… اور
احادیث کی کتابوںمیں دیکھ لیں… ہاں! وظیفے کی قبولیت کے لئے شرط یہی ہے کہ دل بھی
مان لے کہ…
حَسْبُنَا اللہُ
وَنِعْمَ الْوَکِیْل
اللہ
تعالیٰ ہی ہمارے لئے کافی ہے… اور وہ بہترین
کارساز ہے…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مسلمانوں کی ترقّی
حقیقی ترقی کیا
ہے؟…اس کے راستے کی وضاحت…
اچھے اخلاق کی اہمیت
اور ان کا بلند مقام…
اللہ تعالیٰ نے
نعمتیں تقسیم فرما دی ہیں…
مال
تقسیم فرمایا ہے… دوستوں کو بھی دیا ہے اور دشمنوں باغیوں کو بھی…
اخلاق بھی تقسیم
فرمائے ہیں… مگر ان کی بنیادِ حقیقی ’’ایمان ‘‘
صرف اپنے دوستوں
کو عطاء فرمائی…
اخلاق حسنہ میں کمی
کی تلافی… چار بلند مرتبہ اذکار… ان کلمات کی عظیم طاقت…
کیا مال اور مشینیں
ترقی ہیں؟ …اگر ہاں تو نعوذ باللہ
انبیاء کرام علیہم السلام غیر ترقی یافتہ تھے؟… ایک چشم کشا
حقیقت…
کیمونزم
اور سرمایہ دارانہ نظام کی کمزوری…
مسلمانوں کی ترقی
کا راستہ یورپ سے ہٹ کر ہے، اس کی نقل میں نہیں…
دنیا کی حقیقت
سمجھانے والی ایک چشم کشا تحریر
مسلمانوں کی ترقّی
اللہ
تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو’’اخلاقِ حسنہ‘‘
نصیب فرمائے…
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا:
یا رسول اللہ ! انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو چیزیں عطاء کی جاتی ہیں ان
میں سب سے خیر والی چیز کونسی ہے؟ ارشاد فرمایا:
’’خُلُقٌ حَسَنٌ‘‘
یعنی اچھے
اخلاق۔(الادب المفرد للبخاری)
ایک بار پوچھا گیا:
نیکی کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: حُسن الخلق… یعنی اچھے اخلاق…
اور ارشاد فرمایا
کہ … قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں سب سے بھاری چیز’’اچھے اخلاق‘‘ ہوں گے… اورقیامت
کے دن حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جن کے اخلاق زیادہ
اچھے ہوں گے…
اموال کی تقسیم
اللہ
تعالیٰ نے زمین پر رزق بھی تقسیم فرمایا…
اوراس میں یہ قانون رکھا کہ جس سے محبت فرمائی اس کو بھی دیا… اور جس سے ناراض
ہوئے اس کو بھی دیا…
بلکہ بعض اوقات
اُن کو زیادہ دیا جن سے ناراض ہوئے…
ارشاد فرمایا:
ان ﷲ
یعطِی المال من أَحبَّ ومن لا یُحبّ
اللہ تعالیٰ مال عطاء فرماتے ہیں اُن کوجن سے محبت
فرماتے ہیں اور ان کو بھی جن سے محبت نہیں فرماتے…
یہ ہوئی ایک تقسیم…
مگر یہاں ایک اور تقسیم بھی موجود ہے جو زیادہ اہم ہے وہ ہے:
اَخلاق کی تقسیم
اللہ
تعالیٰ نے ’’اخلاق‘‘بھی اپنے بندوں میں
تقسیم فرمائے… کسی کو اچھے اور اعلیٰ اخلاق عطاء فرمائے اور کسی کو بُرے اور ادنیٰ
اخلاق دیئے:
’’ان ﷲ تعالٰی قسم بینکم اخلاقکم کما قسم بینکم
ارزاقکم‘‘
’’ یعنی اللہ تعالیٰ نے بندوں میں’’اخلاق‘‘ کو بھی ویسے تقسیم
فرمایا جس طرح رزق اور مال کو تقسیم فرمایا ہے… ‘‘
مگر یہاں صرف انہی
افراد کو اچھے اخلاق کی بنیاد عطاء فرمائی جن سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں…
اچھے
اخلاق کی بنیاد کیا ہے؟ ایمان، ایمان اور ایمان…
اور اللہ تعالیٰ ایمان صرف اپنے محبوب افراد کو عطاء
فرماتے ہیں:
’’ولا یعطی الایمان الا من یحب‘‘ (الادب
المفرد)
عجیب اعزاز
اگر
ایمان موجود ہو مگر باقی اچھے اخلاق میں سے بعض میں کچھ کمزوری ہو تو…تلافی اور
اصلاح کی گنجائش موجود ہے… اسلام نے ایسے اعمال سکھا دیئے ہیں جن اعمال کو کرکے
انسان اُن کمزوریوں کی تلافی کر سکتا ہے…
مثلاً بہادری اچھے
اخلاق میں سے ہے… مگر کوئی مسلمان’’بہادر‘‘ نہیں ہے… سخاوت اچھے اخلاق میں سے ہے
مگر کوئی مسلمان ایسا ہے کہ اس کا سینہ ابھی تک سخاوت کے لئے تنگ ہے… نیندسے مغلوب
نہ ہونا بلکہ رات کو جاگ کر کچھ نفلی عبادت کرنا اچھے اخلاق میں سے ایک اہم چیز
ہے… یہ انسان کی زبان اور نفس کی اصلاح کرتی ہے… مگر کوئی مسلمان نیند کے سامنے بے
بس اور کمزور ہے… مگرایمان موجود ہے تو ان تمام کوتاہیوں کی تلافی ہو سکتی ہے… اور
وہ یہ کہ ان چار کلمات کوکثرت سے پڑھا کرے…
١…لا الہ الا ﷲ ٢…سبحان ﷲ
٣…الحمدﷲ ٤…ﷲ
اکبر
ان کلمات کو صرف
پڑھنے کا نہیں فرمایا بلکہ کثرت کا فرمایا… اور کثرت کی کم سے کم مقدار تین سو بار ہے… یعنی روزآنہ یا صبح و شام تین
تین سو بار کم از کم… یہ نسخہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے… معلوم ہوا کہ اس کے نافع
ہونے میں کوئی شک نہیں… اور نہ حیران ہونے کی ضرورت ہے کہ… سخاوت، بہادری اور رات
کے قیام جیسے اونچے اخلاق اور عادات کی تلافی صرف چند کلمات پڑھنے سے کیسے ہو جائے
گی؟… جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اندر جھانکنے والی آنکھیں عطاء
فرمائی ہوں وہ خود کو دیکھے… اگر واقعی سخاوت میں کمی ہے… بہادری میں کمی ہے، رات
کے قیام میں کمی ہے تو پھر اس نسخہ کو اپنائے… یقین کریں تلافی بھی ہو جائے گی اور
علاج بھی… تلافی یہ کہ قیامت کے دن اپنی ان بُری عادات پر پکڑا نہیں جائے گا… اور
علاج یہ کہ ان شاء اللہ اگر لگا رہا تو ان کلمات کی تأثیر اس کے اخلاق
میں قوت اور اچھائی بھر دے گی… اورایک ایسا وقت آئے گا کہ اسے بخل، بزدلی اور سستی
جیسے بُرے اخلاق سے ان شاء اللہ آزادی مل جائے گی… آپ یقین کریں کہ… لا الہ
الا اللہ : بہت طاقتور ہے یہ سات زمینوں
کے نیچے سے اٹھا کر سات آسمانوں کے اوپر پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے… اور’’سبحان اللہ ‘‘ کی طاقت کا کیا کہنا… سبحان اللہ ! علم اور پرواز کی تیز رفتار اڑان ہے… صرف
ان دوآیتوں میں کوئی آنکھوں والا غور کر لے…
١
سُبْحٰــنَكَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ (البقرۃ:۳۲)
٢ سُبْحٰنَ
الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى
الْمَسْجِدِ الْاَقْصیٰ(الاسراء:۱)
ایمان کے بغیر
اخلاقِ حسنہ؟
تمام
اچھے اخلاق کی بنیاد’’ایمان‘‘ ہے… تمام اچھے اخلاق کی شاخیں ایمان سے پھوٹتی ہیں…
ایمان کے بغیر اچھے اخلاق حاصل نہیں ہوتے… اور اگرکچھ اچھی عادتیں حاصل کر بھی لی
جائیں تو اُن کا دور رس فائدہ یا اچھا انجام حاصل نہیں ہوتا… یہاں ایک اہم نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے…
١ کیمونزم
نے’’مساوات‘‘ کا نعرہ لگایا… ’’مساوات‘‘ یعنی برابری ایک حد تک اچھی چیز ہے (ایک
حد تک اس لیے کہا کہ معیشت میں مکمل مساوات ایک غیر انسانی اور غیر فطری نعرہ ہے…
اسلام حق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے)… انسانوں کے درمیان اتنا بڑا فرق کہ کسی کے کتے
مکھن کھائیں اور کسی کے بچے روٹی کو ترسیں یقینا اچھا نہیں ہے… دولت کا کچھ افراد
کے پاس مرتکز ہوجانا یعنی رُک جانا… اورکچھ افراد کا دولت کے لئے ’’مرکز‘‘ بن جانا
کہ ہر کسی کی دولت بہہ کر اُن کے پاس پہنچے… اور وہی دولت کی قدرو قیمت مقرر کرنے
کے مالک بن جائیں… یہ بھی بہت بُرا ہے… سرمایہ داری کے اس نظام یا بداخلاقی کو
توڑنے کا نعرہ کیمونسٹوں نے اٹھایا تو بہت مقبول ہوا… مگر کیمونسٹ ایمان سے محروم
تھے تو’’مساوات‘‘ کی حقیقت کو نہ پا سکے اور ان کے ہاں حکومت اور سرکار نے وہ
ظالمانہ اختیارات حاصل کر لئے کہ… انسانوں کی اکثریت کمزور اورذلیل ہوگئی…اور
بالآخر لینن، مارکس کے نظریات کریملن ہی میں اوندھے منہ گرے… معلوم ہوا کہ ایمان
اور اسلام کی بنیاد کے بغیر کوئی اچھا قانون، اچھا اخلاق یا اچھا نعرہ حقیقی اور
پائیدار نہیں ہوتا…
٢ سرمایہ
داری پرمبنی نظام’’سود‘‘ کی لعنت سے لت پت اور ہر طرح کی اخلاقی قدروں سے محروم
ہے… مگر چونکہ اس نظام کے حامیوں کے پاس حکومتی اور عسکری طاقت بے پناہ ہے، اس لئے
انہوں نے اپنے ’’نظام‘‘ کو ’’ترقی یافتہ‘‘ قرار دے دیا ہے… وہ غریب ممالک کو چند
سکّے امداد دیتے ہیں تو لوگ ان کو’’سخی‘‘ سمجھنے لگتے ہیں… حالانکہ وہ پوری دُنیا
کا خون نچوڑ کر پی رہے ہیں…
٣ مسلمان
ترقی کر سکتے ہیں اور ان شاء اللہ ضرورکریں گے… بلکہ ترقی کا سفر شروع ہو چکا ہے…
مگر اس میں کامیابی کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ امریکہ اور یورپ کو ’’ترقی یافتہ‘‘
نہ سمجھیں… کیونکہ اگر دشمن کو ہی اپنی ’’منزل‘‘ سمجھ کر سفر کیا جائے تو اُس سفر
کا اختتام دشمن کے قدموں پر ہی ہوگا… وہ ایمان سے محروم ہیں، وہ اخلاق حسنہ سے
محروم ہیں… وہ بہتر مستقبل سے محروم ہیں… وہ قرآن مجید کی روشنی اور کعبہ شریف کی
درست سمت سے محروم ہیں… پھر وہ ترقی یافتہ کیسے؟… اگر ہم ان جیسے بن کر ہی ترقی یافتہ
ہوں گے تو یہ اسلام سے کفر کی طرف لڑھکنا ہو گا… ہماری ترقی یہ ہے کہ ہمیں ایمان
کامل نصیب ہو، ہمارے معاشرے میں اخلاق حسنہ کا فروغ ہو… ہمارے پاس بے پناہ، عسکری
طاقت اوربلند ایمانی جذبہ ہو… ہم دنیا کے حقیر مفادات سے اوپر اٹھ کر ساری دنیا کے
انسانوں کو آزادی دلانے کے لئے اٹھیں… اور ہم ہر طرح کی نفسانی خواہشات سے آزاد
ہو کر انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر ایک اللہ تعالیٰ کی بندگی میں لائیں… ہم ظالمانہ نظاموں کی
بیڑیوں سے انسانیت کو چھٹکارا دلائیں… یاد رکھیں انسان کی کامیابی زیادہ سامان،زیادہ
مال، زیادہ چمک اور اونچی بلڈنگوں میں نہیں ہے… بلکہ انسان کی کامیابی اس میں ہے
کہ ہر انسان… حقیقی انسان بن جائے… حرص، لالچ، خود غرضی، بخل، ذخیرہ اندوزی اور
ظلم سے پاک انسان… دوسروں کو نفع پہنچانے والا انسان… اپنوں اور غیروں کے ساتھ
انصاف کرنے والا انسان… اللہ تعالیٰ کی حلال نعمتوں کو کافی سمجھنے والا اور
دوسرے انسانوں تک اللہ تعالیٰ کی نعمتیں پہنچانے والا انسان… ہمارے وہ دانشور جو صبح
شام ایک ہی راگ سناتے ہیں کہ مسلمانوں کی ترقی جدید تعلیم میں ہے… وہ دراصل ترقی
نہیں بلکہ مسلمانوں کو یورپ اور امریکہ کا غلام… اور انہی جیسا جانور بنانا چاہتے
ہیںکیونکہ ان کے سوچ کی پہلی کڑی ہی غلط ہے کہ وہ امریکہ اور یورپ کو’’ترقی یافتہ‘‘
سمجھتے ہیں… ایمان کے بغیر کونسی ترقی؟ کیسی ترقی؟ اور کتنے دن کی ترقی؟
صرف ایک نظر ڈالیں
کیا ترقی یہی ہے
کہ انسان کے پاس بہت پیسہ ہو، بڑی بلڈنگ ہو، بہت سے نوکر ہوں… اور طرح طرح کے
آلات ہوں… وہ ایک ناکارہ بت کی طرح ہاتھ میں ریموٹ لیکر لیٹا رہے اور اس کے سارے
کام مشینیں اور ملازم کرتے رہیں… آپ بتائیں یہ ہوس پرستی ہے یا ترقی؟… ترقی کی اس
تعریف میں آپ حضرات ’’انبیاء علیہم السلام ‘‘ کو کس جگہ پر رکھیں گے؟… وہ ترقی یافتہ
تھے یا(نعوذب اللہ ) غیر ترقی یافتہ؟…
اگرکسی انسان کو دنیا کی ساری دولت مل جائے، ہر
آلہ اور مشین اس کے پاس آجائے اور اس کی ہر عیاشی پوری ہو جائے… مگر سؤال یہ ہے
کہ وہ کتنے دن ان تمام چیزوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟… جسم کمزور ہوجاتا ہے،عیاشیاں،
بیماریاں بن جاتی ہیں… اور مال خود ہی ڈسنے، کاٹنے لگتا ہے… پھر یہ کیسی ترقی
ہے؟…اے مسلمانو! اللہ کے لئے اُن آیات اور احادیث کو پڑھو جو دنیا کی
حقیقت کو بیان فرماتی ہیں… ٹھیک ہے کافر تو اندھے ہیں اور اندھیروں میں پڑے ہیںمگر
تمہارے پاس تو عرش کے اوپر سے آنے والی روشنی موجود ہے… اس روشنی کی موجودگی میں
بھی اگر تم دنیا کے مال، سامان اور عیاشیوں کو ترقی سمجھتے ہو تو بہت افسوس کا
مقام ہے… معلوم ہوا کہ تم اس روشنی سے فائدہ نہیں اٹھا رہے… دنیا فانی ہے، دنیا دھوکے کی جگہ ہے… دنیا عبرت کا
مقام ہے… دنیا عمل کی جگہ ہے، یہاں اپنے اعمال کا بدلہ تلاش نہ کرو…حضرات صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے جن
حضرات کو آخری عمرمیں دنیا کی نعمتیں زیادہ مل گئیں وہ خوف سے روتے اور کانپتے
تھے کہ یا اللہ !ہمارے اعمال کا بدلہ ہمیں
اسی دنیا میں نہ مل جائے… آج جس تیزی سے مسلمانوں کی زندگیاں اور صلاحیتیں… اس
فانی دنیا کی محبت پر ضائع ہو رہی ہیں… اور حرص، لالچ جیسے بُرے اخلاق تیزی سے عام
ہو رہے ہیں… وہ یقیناً خطرناک ہے… اے مسلمانو! صرف ایک نظر قرآن و سنت میں دنیا کی
حقیقت پر ڈال لو… اورصرف ایک نظر دو قدم آگے منہ پھاڑے اُس قبر پر ڈال لو جو
ہمارا انتظارکر رہی ہے…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیّدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
محبوب کلام
اللہ تعالیٰ کے
نزدیک محبوب ترین کلام:
’’سبحان اللہ وبحمدہ‘‘
تصاویر کی
لعنت…موبائل کے ذریعے ان کا طوفانی پھیلائو…
جہادی ویڈیوز کے
متعلق مسلمان خواتین کا ایک غلط طرزعمل اور اسکی اصلاح…
شیطان کا عظیم
دھوکہ… نیکی کی نیت سے گناہ کرواتا ہے…
’’سبحان اللہ و بحمدہ‘‘ سے جنت کی آبادی…
’’سبحان اللہ و بحمد ہ‘‘ سے رزق کی فراوانی…
کسی کے گناہوں کو
تلاش نہ کریں… ایک برے عمل کی اصلاح …
’’سبحان اللہ و بحمدہ‘‘ کے بیش بہافضائل…
محبوب کلام
اللہ
تعالیٰ کے ہاں محبوب ترین کلام’’سُبْحَانَ
ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ ‘‘ ہے…
آئیے ہم اپنے
محبوب رب کو راضی کرنے کے لئے دل کی گہرائی سے پڑھیں:
سُبْحَانَ ﷲِ
وَبِحَمْدِہٖ ……سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ ……سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ
آج
کل ہر طرف سیاہی اور تاریکی بکھری ہوئی ہے… الیکشن کی دھوم دھام ہے… کسی من چلے نے
مسجد کے سامنے والی دیوار پر انتخابی پوسٹر لگا دیا… پوسٹر پر دو زندہ تصویریں،
مکروہ اور دلخراش… آج کل کھڑکیاں کھلی ہوتی ہیں، نماز میں کھڑے ہوتے تو اپنے
سامنے یہ پوسٹر نظر آتا… یا اللہ رحم… تصویر پرستی کا کیسا خوفناک طوفان
مسلمانوںپر مسلّط ہے… دائیں بائیں، آگے پیچھے ہر طرف فوٹو ہی فوٹو، بت ہی بت، تصویریں
ہی تصویریں… یہ سب دیکھ کر گِھن آتی ہے اور طبیعت متلانے لگتی ہے… کسی زمانے
ہندوستان جانا ہوا تھا وہاں ہر طرف بُت، تصویریں، اور مجسمے دیکھ کر متلی آتی تھی…
آج پاکستان میں وہی منظر ہے… کسی نے سوچاکہ ان تصویروں کا کیا فائدہ ہے؟… احادیث
مبارکہ میں تصویروں پر کتنی سخت وعیدیں آئی ہیں؟… بعض اہل علم نے فوٹو کو تصویر
قرار نہیں دیا مگر… ان فوٹووں اور تصویروں پر اتنا مال خرچ کرنا، گلی کوچوں اور
مسجدوں پر ان کو لگانا… سینوں اور پیشانیوں پر ان کو سجانا اس کے جواز کا تو شائد
کوئی’’جدیدیا‘‘ بھی قائل نہ ہو… شرک کا آغاز تصویروں سے ہوا اور آج بددینی کا
پورا طوفان تصویروں کے سیلاب پر سوار ہے… چلیں چھوڑیں، دل کو پاک کرتے ہیں پوری
توجہ سے پڑھیں:
سُبْحَانَ ﷲِ
وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ ﷲِ الْعَظِیْم
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سبحان اللہ اور الحمدﷲ یہ زمین سے آسمان تک کے خلا کو اَجر
وثواب سے بھر دیتے ہیں… یعنی جب دل سے پڑھا’’سبحان اللہ ‘‘ اس پر اتنا ثواب ملا کہ زمین سے آسمان
تک کی فضا بھر گئی… اور یہی ثواب الحمدﷲ کہنے پر ہے… سبحان اللہ والحمدﷲ…
یہ صحیح مسلم کی
روایت ہے … ارے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں کیا شک… تصویروں کے طوفان نے دلوں
کا سکون غارت کر دیا ہے… پہلے کوئی نوجوان توبہ کرتا تھا تو سب سے پہلے ٹی وی
توڑتا، تصویریں جلاتا… آج ہر دیندار کے موبائل میں تصویروں اور ویڈیو کے سینکڑوں
کیڑے کلبلا رہے ہوتے ہیں… شرم تب آتی ہے جب نوجوان مجاہدین کی ویڈیو ہماری باپردہ
خواتین دیکھتی ہیں… ان کو سمجھایا جائے اور پوچھا جائے تو جواب یہ ہوتا ہے کہ… یہ
میرے مجاہد بھائی ہیں… بے شک کیا شبہ… مجاہد بھائی ضرور مگر حقیقی بھائی تو نہیں…
دینی بھائی سے پردہ ہے… کل خدانخواستہ یہ نہ ہونے لگے کہ مجاہدین بھی اپنی دینی
بہنوں کی ویڈیو بنا کر دیکھنا جائز قرار دے دیں… شریعت میں بالکل ایک حکم ہے… کوئی
مرد، غیر عورت کو دیکھے یا کوئی عورت غیر مرد کو دیکھے… قرآن پاک کی سورۂ نور
پڑھ لیں… دونوں حکم کندھا ملا کر ساتھ ساتھ کھڑے ہیں… ایمان والے مردوں سے فرما دیجئے
کہ آنکھیں نیچی رکھیں… اور آگے ساتھ ہی فرما دیا… اور ایمان والی عورتوں سے فرما
دیجئے کہ وہ بھی آنکھیں نیچی رکھیں… گناہوں کی ویڈیو دیکھنے والے نادم بھی ہوجاتے
ہیں اور توبہ بھی کر لیتے ہیں مگر نیکی کے نام پر بننے والی ویڈیو کے ذریعہ جو بے
پردگی ہوتی ہے اس پر کون توبہ کرتا ہے؟… وہ روایت یاد آجاتی ہے کہ شیطان نے کہا !
لوگوں نے’’لاالہ الااللہ‘‘ اور استغفار کے ذریعہ میری کمر توڑ دی تب میں نے اُن کو
’’اھواء‘‘ میں لگا دیا… ’’اھواء‘‘ یعنی وہ گناہ جن کو انسان نیکی سمجھ کر کرتا ہے…
آپ کوئی بھی باتصویر ویڈیو دیکھ لیں، دل میں عجیب سی سختی، قساوت، غفلت اور خرابی
آجاتی ہے… ان ویڈیوز کے ذریعہ جو جذبات بنتے ہیں وہ صرف وقتی ہوتے ہیں… اوراُن کے
کوئی دور رس مثبت نتائج نہیں نکلتے… آخرمیرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی وعیدیں جو بیان فرمائی ہیں تو اُن سے بڑھ
کر ہمارا کون خیر خواہ ہو سکتا ہے؟… چلیں چھوڑیں اس داستان درد کو، آج ان باتوں
کو کون سنتا اور مانتا ہے… آئیں جنّت میں درخت لگاتے ہیں، وہاں جا کر اس کے نیچے
ان شاء اللہ اپنے رب تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے… پڑھیے!!
سُبْحَانَ ﷲِ
وَبِحَمْدِہٖ ……سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ ……سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ
معلوم ہے کتنے
درخت لگ گئے؟… ماشاء اللہ پورے تین… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں…
من قال سبحان ﷲ
وبحمدہ غرست لہ نخلۃ فی الجنۃ (ترمذی)
’’جو کہے ’’سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ اُس کے لئے جنت میں ایک درخت لگا دیا جاتا
ہے‘‘
حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الااخبرک باحب
الکلام الی ﷲ؟ ان احب الکلام الی ﷲ’’سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ اور محبوب
کلام’’سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘
ہے۔(مسلم)
گیارہ مئی کا دن
نزدیک ہے… معلوم نہیں انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں… اگر ہوتے ہیں تو کون آتا ہے؟…
ہر حلقے سے اتنے امیدوار کھڑے ہیں کہ بیلٹ پیپر شائد کئی کئی گز کے ہوں گے… آج کل
سیاسی لیڈر ایک دوسرے کے خفیہ راز کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں… سنا ہے کہ انٹرنیٹ
پر ایک دوسرے کے خلاف شرمناک شواہد پر مبنی ویڈیوز لگائی جارہی ہیں… اے ایمان
والو! ایسی کوئی ویڈیو دیکھنا جس میں کسی معروف شخص کے فحش گناہوں کو دکھایا یا
سنایا گیا ہو… بہت خطرناک گناہ ہے… ایسا نہ ہو کہ معلومات کے شوق میں ایسی ویڈیوز
دیکھنے لگ جائیں… پہلے تو یہ سوچیں کہ دوسروں کی کالک اپنی آنکھوں اور دل پر ملنے
کا کیا فائدہ؟… دوسرا یہ سنیں کہ اس طرح کے گناہوں کی سزا موت کے وقت ملنے کا خطرہ
ہوتا ہے… یا اللہ امان… اور تیسرا یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کے غضب کو جوش آیا اور کل آپ کے عیبوں
پر سے اُس نے پردہ ہٹا لیا تو کیا بنے گا؟… ایسے گناہ جن پر شرعی ’’حد‘‘ یعنی
مقررہ سزا جاری ہوتی ہے… ان کو روکنا چاہئے، حکومت ملے تو اُن پر سزائیں جاری کرنی
چاہئیں… مگر اُن گناہوں سے لطف اندوز ہونا اور محض معلومات کے لئے اپنے دل اور
دماغ کی میموری میں ایسے غلیظ اور ناپاک وائرس جمع کرنا اپنی جان پر ظلم کرنا ہے…
جس کسی سے بھی یہ گناہ ہوا ہو وہ سچے دل سے توبہ کر لے کہ… الحمدﷲ توبہ کا دروازہ
ہمارے رحیم مالک نے چوبیس گھنٹے کھلا رکھا ہے… چلیں گناہ مٹانے کا ایک وظیفہ مدینہ
پاک سے لیتے ہیں… پہلے دل کی توجہ سے پڑھیں…
سُبْحَانَ ﷲِ
وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من قال’’سُبْحَانَ
ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ فی یوم مائۃ مرّۃ حطت خطایاہ وان کانت مثل زبد البحر(بخاری،
مسلم)
یعنی جو شخص
روزآنہ سو بار کہے’’سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘
تو اس کی خطائیں معاف کر دی جائیں گی اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں…
یعنی بہت زیادہ ہوں…
سُبْحَانَ ﷲِ
وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ ﷲِ الْعَظِیْم
ابھی یہ تو معلوم
نہیں کون جیتے گا مگر چند کام بہت بُرے ہو رہے ہیں مثلاً ایک انتخابی امیدوار نے اپنے پوسٹر پر ایک
طرف اپنی تصویر اور دوسری طرف قرآن مجید، فرقان حمید کی آیت چھاپ دی… اندازہ
لگائیں کہ اقتدار کے شوق میں کیسی بھونڈی اور ظالمانہ حرکت ہے… ایک طرف اپنی غیرشرعی
تصویر اور ساتھ قرآن پاک کی آیت… یہ پوسٹر جہاں دیکھا دل بہت رویا کہ کافروں سے
ہم قرآن مجید کی بے ادبی پر لڑتے ہیں… یہاں مسلمان کہلانے والوں کا یہ حال ہے…
اول تو تصویر کے ساتھ آیت… اور پھر جگہ جگہ اسے لگانا… نہ ادب نہ احترام اور
پوسٹر تو چند دن بعد گر جاتے ہیں… دوسری بڑی خرابی تحریک انصاف اور چند دیگر پارٹیوں
کا گھروں پر دھاوا بولنا… مرد تو مرد عورتیں بھی طرح طرح کے بے پردہ لباس اور فیشنی
برقعے پہن کر گھروں میں گُھس رہی ہیں… ان بے چاروں کو پتا نہیں کس نے سمجھا دیا ہے
کہ ’’کپتان‘‘ کوئی مسیحا ہے… اور وہ پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں جاری کر دے
گا… کپتان بھی زرداری اور نواز شریف جیسا ہی ہے… اور اس ملک کا نظام حکومت ایسا پیچیدہ
ہے کہ نیک سے نیک شخص بھی آجائے تو زمین پر کوئی تبدیلی نہیں ہوگی… جب تک کہ نظام
حکومت کو اسلام کے سچے اور آفاقی قانون کے ذریعہ درست نہیں کیا جاتا… پیپلز پارٹی
بھی ظالم، نون لیگ بھی خطرناک اور کپتان بھی ڈبل خطرہ… یا اللہ ! مسلمان کہاں جائیں… آپ ہی رحم فرمائیں…
ہاں! ہم مسلمان الحمدﷲ مایوس نہیں ہیں…مجاہدین کی قربانیاں اور اہل دل کی محنتیں
ان شاء اللہ رنگ لائیں گی اور ایک دن اس مُلک میں بھی ان شاء
اللہ ایمان اور امن کی حکومت ہو گی… آئیے اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں… دل کی محبت
اور مٹھاس کے ساتھ پڑھیں…
سُبْحَانَ ﷲِ
وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ ﷲِ
الْعَظِیْم
دیکھیں! ہمارے
مہربان آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کتنا
اونچا وظیفہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ… جو شخص صبح اور شام سو سو بار ’’سُبْحَانَ ﷲِ
وَبِحَمْدِہٖ‘‘ پڑھے گا تو قیامت کے دن اُس سے زیادہ افضل عمل والا اور کوئی نہیں
ہو گا… ہاں وہ شخص جو اتنی بار یا اس سے زیادہ یہی عمل لے کر آئے گا…(مسلم شریف)
سُبْحَانَ ﷲِ
وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ
آج ارادہ بڑا
اونچا تھا کہ ’’سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ کے فضائل،مناقب اور خواص کا جامع
خلاصہ آجائے… اکثر مسلمان آج رزق کی تنگی سے پریشان ہیں… سیاسی جماعتیں روزی،
روٹی اور مکان کے دھوکے دے کر اُن کو لوٹ رہی ہیں… تو ہم نے سوچا کہ اس شور شرابے
میں اپنی آواز بھی لگا دیں اور مسلمانوں کو رزق اورروزی میں حیرت انگیز برکت کا
شرعی عمل عرض کر دیں… ایسا عمل جو ایک طرف دل کو سکون اور پاکی عطاء کرتا ہے، دوسری
طرف اللہ تعالیٰ کی خاص محبت کو پانے کا ذریعہ ہے… اورتیسری
طرف وہ رزق میں برکت کے حیران کن مناظر دکھاتا ہے… یہ عملہے:
’’سُبْحَانَﷲِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘
ہر نماز کے بعد
پوری توجہ سے ایک سو بار سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ… اور سورج نکلنے سے پہلے ایک
سو بار اور سورج غروب ہونے سے پہلے ایک سو بار… لیکن اگر ہر نماز کے بعد ہی اہتمام
کر لیا جائے تو غروب و طلوع والا کام بھی نکل آتا ہے… کیونکہ فجر کی نماز سورج
طلوع ہونے سے پہلے ہے اور عصر کی نماز سورج غروب ہونے سے پہلے…
دراصل اس طاقت ور
عمل کے مقام کو سمجھنے کے لئے قرآن مجید کی بعض آیات… اور کئی احادیث کو سمجھنا
ضروری ہے… صرف اشارہ لے لیجئے کہ اس بارے
میں ایک بنیادی آیت ’’سورہ طٰہٰ‘‘ میں موجود ہے… ملاحظہ کیجئے آیت رقم(۱۳۰) سورۂ طٰہٰ…
اور مزید چند آیات…
اور روایت میں حضرت لقمان علیہ السلام کا یہ فرمان کہ ’’سُبْحَانَﷲِ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ وہ
کلمہ ہے جس کی برکت سے تمام مخلوق کو رزق ملتا ہے… اور مزید چند احادیث… بھائیو!
اور بہنو! وہ سب کچھ نہ آسکا مگر وظیفہ تو آگیا… اللہ تعالیٰ’’تسبیح‘‘یعنی سبحان اللہ کہنے کی قوت اور برکت مجھے اور آپ سب کو نصیب
فرمائے…
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
دو کلمے زبان پر
ہلکے(یعنی آسان) اعمال کے ترازو میں بھاری…
اللہ
تعالیٰ کے نزدیک محبوب…
سُبْحَانَ ﷲِ
وَبِحَمْدِہٖ ، سُبْحَانَ ﷲِ الْعَظِیْم (متفق علیہ)
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مکان کہانی١
اسلام آباد میں
واقع ایک مکان کی عبرتناک کہانی…
یہ مکان ’’بے
وفا‘‘ ہے… اپنے ہر مکین کو کچھ عرصہ بعد
نشانِ عبرت بناکر
نکال دیتا ہے اور نئے مکین بسا لیتا ہے…
یہ مکان ’’منحوس‘‘
ہے…
مکینوں کی بد
اعمالیوں نے اس کے درو دیوار پر نحوست طاری کردی ہے…
اب یہاں سے ’’خیر‘‘
کم اور’’ شر‘‘ زیادہ بر آمد ہوتا ہے…
یہ مکان فریبی ہے…
اپنے ہر مکین کو ہمیشگی کا تأثر دے کر تکبر
میں مبتلا کردیتا
ہے اور پھر…رسوا کرکے نکال دیتا ہے…
یہ مکان ’’موذی‘‘
ہے…
اس کے مکین غریبوں
کا کھاتے ہیں اور انہیں ہی ستاتے ہیں…
یہ باتیں سب جانتے
ہیں… مگر پھر بھی کئی لوگ اس مکان کے عاشق ہیں…
اور اس میں رہنے
کے لیے بے تاب رہتے ہیں…
ایوانِ اقتدار کے
بھوکوں کے لیے تاز یانۂ عبرت…
مکان کہانی ١
اللہ
تعالیٰ’’بہت مہربان‘‘ بہت رحم فرمانے والے
ہیں… رحیم بھی، رحمٰن بھی اور ارحم الراحمین بھی… یا اللہ ہم
پر اور پوری اُمتِ مسلمہ پر’’رحم ‘‘ فرما…
بے وفا مکان
پاکستان کے شہر
اسلام آباد میں ایک’’مکان‘‘ ہے،بڑا بے وفا… مگر پر کشش ایسا کہ اچھے خاصے
عقلمندوں کو پاگل کر دیتا ہے… کونسا ہے وہ مکان؟… ابھی پچھلے چند سالوں میں ہم نے
دیکھا کہ پہلے وہاں ظفر اللہ جمالی آئے… کچھ عرصہ بعد نکال دیئے گئے اور
چوہدری شجاعت آبسے… وہ دو ماہ بھی نہ ٹکے کہ شوکت عزیز آگیا… وہ گیا تو محمد میاں
سومرو سامان لے آئے… وہ گئے تو ملتان والے گیلانی صاحب خاندان سمیت آگئے… اُن کو
نکالا گیاتو راجہ پرویز اشرف نے یہاں دھوم مچائی… اُن کی گھنٹی بجی تو بابا جی میر
ہزار کھوسو اپنا سامان لے آئے… اب وہ جانے والے ہیں اور ایک نیا’’مکین‘‘ اپنی قسمت کے بُرے دن
کاٹنے اس ’’مکان‘‘ میں آنے والا ہے… اب جس کے آنے کا زیادہ امکان ہے وہ یہاں
باعزت طریقے سے داخل ہو کر… نہایت ذلّت کے ساتھ پہلے بھی نکالا جا چکا ہے… ایک بار
نہیں دو بار… اب وہ کافی احتیاط کے ساتھ آرہا ہے مگر’’بے وفا مکان‘‘ قہقہے لگا کر
کہہ رہا ہے… میں وہی ہوں، میں وہی ہوں… بد نصیب مکین کو بے وفا مکان میں جانے دیں…
آئیے ہم اپنے اصل اور وفادار گھر کے لئے کچھ سامان برابر کر لیں…
ارشادفرمایا حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے:
جو شخص’’سبحان اللہ وبحمدہ‘‘ ایک سو بار پڑھتا ہے، اُس کے لئے ایک
لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھ لی جاتی ہیں۔ (رواہ الحاکم وقال صحیح الاسناد)
سبحان اللہ
وبحمدہ، سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم
منحوس مکان
اللہ تعالیٰ نے انسان کے اعمال میں بڑی طاقت اورتاثیر
رکھی ہے… انسان جس زمین پر نیکی کرے وہ زمین برکت سے بھردی جاتی ہے اور انسان جس
زمین پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ظلم کرے تو وہ’’زمین‘‘
نحوست اور عذاب کا گھر بن جاتی ہے… یہ بات قرآن مجید سے بھی ثابت ہے اور احادیث
مبارکہ سے بھی… اس پر بڑے بڑے عجیب واقعات بھی ہمارے سامنے ہیں… جس زمین پر اللہ تعالیٰ کے لئے مسجد بنائی جاتی ہے، تو زمین کا
وہ حصہ اتنا بابرکت ہوجاتا ہے گویا کہ جنت کا باغ… اور زمین کے اس حصے کو فرشتے
اٹھا کر لے جائیں گے اور جنت میں شامل کر دیں گے… بابرکت زمینوں کا تذکرہ
کروںتوپوری کتاب بن جائے… مسجد نبوی میں زمین کا ایک حصہ ہے اس کو… ریاض الجنۃ یعنی
جنت کا باغ کہتے ہیں… جس زمین پر کعبہ شریف ہے اُس کی برکت تو اتنی اونچی کہ تمام
اطراف میں جو بھی ہدایت کا نور چمکتا ہے وہ اسی زمین سے آتا ہے… اب دوسری طرف دیکھیں
چند منافقین نے مدینہ منورہ کے مضافات میں ایک’’ خفیہ اڈہ‘‘ مسلمانوں کے خلاف بنایا
اور اُسے مسجد کا نام دیا… اُن کے اس گناہ کا زمین کے اس حصے پر ایسا خوفناک
اثرہوا کہ بعد میں بھی سالہا سال تک اس میں سے دھواںنکلتا تھا… اور وہاں جو بستا
تھا اس کی اولاد نہیں ہوتی تھی… غزوہ تبوک کو جاتے ہوئے جب مسلمانوں کا لشکر قوم
ثمود کی بستی سے گزرا تو صدیاں بیت جانے کے باوجود وہاں نحوست اور عذاب کے اثرات
بھڑک رہے تھے… عذاب آور ہوائیں چل رہی تھیں… اور وہاں کے پانی تک میں عذاب اور
نحوست کے اثرات تھے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر جب وہاں سے گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے چہرہ مبارک پر کپڑا لٹکا دیا،
اُونٹنی کوتیز فرمادیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تاکید فرمائی کہ
کوئی شخص ان ظالموں کے مکانات میں داخل نہ ہو اور نہ یہاں کا پانی پئے یہاں سے سر
جھکاتے ہوئے گزرو…بعض حضرات نے اس جگہ کے پانی کو لاعلمی میں لے لیا تھا تو فرمایا
کہ وہ پانی گرادو اور اس پانی سے جو آٹا گوندھا ہے وہ جانوروں کو کھلادو… اسلام
آباد کا وزیراعظم ہاؤس… روئے زمین کے عذاب زدہ مقامات میں سے ایک ہے… یہاں کے
بسنے والوں کے گناہوں، نافرمانیوں اور مظالم نے اس مکان کو نحوست اور عذاب کی
سنسان حویلی بنا دیا ہے… کونسا ظلم ہے جو یہاں نہیں ہوا، کونسا گناہ ہے جو یہاں نہیںپلا…
اسلام کے لئے بننے والے ملک میں اسلام کے خلاف زیادہ سازشیں اسی مکان میں ہوئیں…
عوام کے پیسے سے بننے والا یہ مکان ہمیشہ عوام کو لوٹنے کا مورچہ بنا رہا… یہاں سے
بے گناہوں کے قتل کے فیصلے صادر ہوئے… یہاں سے سود کے تحفظ کے فرمان نکلے… یہاں سے
مساجد گرانے کے حکم نامے جاری ہوئے… اسی مکان میں ایک آزاد ملک کو غیروں کا غلام
بنانے کے طریقے ایجاد ہوئے… اتنے گناہ، اتنا ظلم اور اتنی سرکشی نے اس مکان
کو’’نحوست خانہ‘‘ بنا دیا ہے… اب جو بھی یہاں آکر رہتا ہے وہ عزت، سکون اور آزادی
سے محروم ہوجاتا ہے… اور وہ اچھے انجام سے
بہت دور پھینک دیا جاتا ہے… دور،بہت دور… یقین نہ آئے توگڑھی خدا بخش کے قبرستان
میں دو قبروں سے کچھ حال پوچھ آؤ… یا ملتان اور گوجر خان میں ذلّت کے دو تازہ
کھنڈرات دیکھ آؤ… اب ایک نیا مکین بہت
خوش خوش اس’’نحوست خانے‘‘ میں چلا آرہا ہے…نہ اُس کے پاس مال کی کمی تھی اور نہ عیش
وآرام کی… مگر بُری قسمت اُسے گھسیٹ کر اس محل نما قید خانے میں لارہی ہے… وہ کون
ہے؟ بس آج کل ہی میں فیصلہ ہونے والا ہے… اُس کو وہاں جانے دیں… آئیں ہم صدارتی
محل سے بھی زیادہ قیمتی چیز پالیں اور وہ کلام پڑھیں جو ہمارے محبوب آقاحضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد محبوب ہے…
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وہ تمام چیزیں جن
پر سورج کی کرنیں پڑتی ہیں مجھے اُن سب (کوپانے )سے زیادہ پسند یہ ہے کہ میں سبحان
اللہ، والحمدللہ، ولا الہ الا اللہ، واللہ اکبر پڑھوں۔ (مسلم، ترمذی)
پوری محبت اور
عظمت سے پڑھیں:
’’سبحان اللہ، والحمدللہ، ولا الہ الا اللہ،
واللہ اکبر‘‘
دیکھا کیسی افضل
اور بابرکت نعمت مل گئی… وَالْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ…
فریبی مکان
بعض آئینے ایسے
ملتے ہیں جن میں اپنی شکل زیادہ خوبصورت نظر آتی ہے… یار لوگ ایسے فریبی آئینوں
کے سامنے بہت خوش ہوتے ہیں… پرانے زمانے میں فریبی طلسم ہوتے تھے… ان میں پانچ فٹ
کا آدمی خود کو پچاس فٹ کا محسوس کرتا تھا… ان میں انسان خود کو’’شیر‘‘ دیکھتے
تھے اور موٹے لوگ ان میں خود کو اڑتا محسوس کرتے تھے…یہ ہوشر با مناظر تھوڑی دیر
رہتے پھر جب طلسم سے باہر نکلتے تو پرانا قد بھی پورا نظر نہ آتا… اسلام آباد کا
وزیراعظم ہاؤس ایک فریبی مکان ہے… اس میں جو بھی داخل ہوتا ہے اس کی گردن فوراً
لوہے کی بن جاتی ہے… جی ہاں! بے حد اکڑی ہوئی… اس میں داخل ہونے والا خود کو سب سے
بڑا عقلمند سمجھنے لگتا ہے… اور اسے اپنی ذات کی وہ خوبیاں بھی نظر آنے لگتی ہیں
جو کبھی اُس کے باپ دادا کے قریب سے بھی نہیں پھٹکیں… وہ زمین پر دیکھنے سے محروم
ہو جاتا ہے اور اس کے کان صرف غیر ملکی آقاؤں کے فرمان سنتے ہیں…
یہ عجیب فریبی
مکان ہے… ہرآنے والے کو یہ فریب دیتا ہے کہ تم زیادہ سے زیادہ بلکہ ہمیشہ میرے
اندر رہو گے… مگر اس کے لئے تمہیں کچھ گناہ کرنے ہوں گے، کچھ ظلم ڈھانے ہوںگے… اور
کچھ دھوکے دینے ہوں گے…بتاؤ تم تیار ہو؟ ہر کوئی’’ہاں‘‘ میں جواب دیتا ہے… پھر وہ
ان سے کفر کراتا ہے، شرک کراتا ہے… ظلم اور گناہ کرواتا ہے… اور چند دن بعد سب کچھ
چھین کر کان سے پکڑ کر باہر نکال دیتا ہے…یہاں مستقل رہنے کے لئے جادو گر بلائے
جاتے ہیں کہ وہ منترکریں… نجومی بلائے جاتے ہیں کہ وہ ستاروں کو قابو میں رکھیں…
عامل بلوائے جاتے ہیں کہ بکرے مرغے کاٹ کاٹ کر بلاؤں کا منہ بند رکھیں… بُرے مشیر
بلائے جاتے ہیں کہ وہ کافروں کو راضی رکھنے کے ذلت آمیز طریقے سکھائیں… فریب نگری
کے باسی یہاں ہمیشہ رہنے کی فکر میں ہر بُرائی کرتے ہیں مگر اچانک گھنٹی بجتی ہے…
اور بعض اوقات تو سامان سمیٹنے اور اٹھانے کا وقت بھی نہیں ملتا… ہاں بے شک! جس
مکان میں رب ذوالجلال کے بندوں پر ظلم کے فیصلے ہوتے ہوں… وہ مکان ایسا ہی ہوتا
ہے… بالکل ایسا ہی… چھوڑیں اس مکان کو آئیں ہم عرش عظیم تک اپنا پکا معافی نامہ
پہنچائیں تاکہ… اصل اور باقی زندگی میں کام آئے…
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
سبحان اللہ
وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم، استغفراللہ و اتوب الیہ
یہ کلمات جو شخص
پڑھے تو جیسے اُس نے پڑھے ویسے ہی لکھ دیئے جاتے ہیں پھر عرش سے لٹکا دیئے جاتے ہیں،
اور قیامت تک اس کے پڑھنے والے کا کوئی گناہ اس کو مٹا نہیں سکتا، یہاں تک کہ قیامت
کے دن جب اس کی اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوگی تو یہ کلمات اسی طرح مہر لگے محفوظ ہوں
گے… (بزاز)
سبحان اللہ ! ان مبارک کلمات میں تسبیح،حمد اور توبہ
استغفار ہے…جیسے ہی اخلاص اور توجہ سے پڑھے تو محفوظ ہو گئے…اور اب یہ کسی گناہ کی
وجہ سے ضائع نہیں ہوںگے،بلکہ قیامت کے دن تک محفوظ رہیں گے اور وہاں کام آئیں گے…
لیجئے پڑھئے:
سبحان اللہ
وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم ، استغفراللہ واتوب الیہ
موذی مکان
اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو رہنے کے لئے بڑا مکان دیا
ہو،وافر روزی عطاء فرمائی ہو اور ہر طرح سے مالا مال کیا ہو… پھر آپ مسجد میں جا
کر نماز کے بعد کھڑے ہو کر لوگوں سے بھیک مانگیں کہ مجھے روٹی کھلاؤ… یہ اچھا
لگتا ہے؟… ہمارے ملک کے تمام ’’وزراء اعظم‘‘ اچھے خاصے مالدار ہیں… کم از کم
کروڑوں پتی ورنہ اربوں پتی… پھر بھی وہ وزیراعظم ہاؤس میں عوام کے پیسے کی روٹی
کھاتے ہیں… ہے نا عجیب بات؟… مکان عوام کا، کھانا عوام کا، گاڑیاں عوام کی اور
تمام خرچے عوام کے مال سے… آخر ان کا اپنا ذاتی مال کس لئے ہوتا ہے؟ جب ان کی
حکومت کا آغاز ہی عوام کا خون پینے سے ہوتا ہے تو آگے چل کر یہ عوام کی کیا خدمت
کریں گے؟… مسلمانوں کے حاکم اور خلیفہ کے لئے ’’بیت المال‘‘ سے وظیفہ یا خرچہ لینا
جائز ہے اگر وہ ضرورت مند ہو… اور خرچہ بھی ایک حد تک ہے مگر یہ لوگ توخود اربوں
پتی ہو کر بیت المال سے بغیر کسی حد کے عیش اڑاتے ہیں… وزیراعظم ہاؤس کے صرف
باورچی خانے کا ماہانہ خرچہ کروڑوں میں ہوتا ہے… کیا کوئی خوش نصیب آدمی’’حرام‘‘
مال کھا سکتا ہے؟… نہیں بھائیو! حرام مال اُنہیں کو نصیب ہوتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں… اسلام آباد کے ’’وزیراعظم
ہاؤس‘‘ میں کئی خفیہ غیر مرئی(یعنی نظر نہ آنے والی) سرنگیں ہیں…ان سرنگوں سے
اسلام دشمن اور گناہ پرست چوہے اس مکان میں داخل ہو کر ہر وزیراعظم کو گمراہ کرتے
ہیں… یہ طاغوتی چوہے اسلام آباد میں اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ کب انہیں وزیراعظم
ہاؤس میں داخل ہونے کا موقع ملے تو وہ… نئے وزیراعظم کو گمراہی اور گناہوں میں
دھکا دے سکیں … آپ اسے مزاح نہ سمجھیں یہ بڑی دلخراش اور عبرتناک داستان ہے… آپ
ملک کے ہر صدر اوروزیراعظم کے ساتھ اس کی تقرری کے دوماہ بعد… چند نئے قریبی ساتھی
دیکھیں گے… آپ نے ان کا نام پہلے کبھی نہیں سنا ہوگا اور نہ کبھی ان کو پہلے کہیں
دیکھا ہوگا… مگر وہ صدر اور وزیراعظم کے اتنے قریب نظر آتے ہیں جیسے بچپن کے ساتھی
ہوں… پرویز مشرف کے ساتھ لگے ہوئے’’طارق عزیز‘‘ کا آپ نے پہلے کبھی نام سنا تھا؟…
یہ شخص اچانک آیا اور پرویز مشرف کو اُس نے اپنی مٹھی میں لے لیا اور ملک کے سفید
وسیاہ کا مالک بن گیا… وہ پرویز مشرف کو طرح طرح کی خرمستیوں میں مصروف کر کے اپنی
مرضی سے ملک کو چلاتا رہا… اسلام آباد کے یہ چوہے جو دراصل غیر ملکی لابیوں اور
اسلام دشمن تنظیموں کے باقاعدہ ایجنٹ ہیں… ہر نئے سربراہ مملکت تک پہنچ جاتے ہیں…موذی
مکان کے یہ چوہے… ہر وزیراعظم کو ایک ہی سبق پڑھاتے ہیں کہ ملک کی ترقی کیلئے سب
سے بڑی رکاوٹ’’اسلام‘‘ اور ’’اسلامی طبقہ‘‘ ہے…چنانچہ ہر صدر یا وزیراعظم پھر صرف
اسی کام میں لگ جاتا ہے… اور ملک کے عوام مہنگائی، بدامنی، فساد اور کرپشن کی چکی
میں پستے رہتے ہیں… خلاصہ یہ کہ موذی مکان میں جو بھی آتا ہے… وہ ملک کے دینداروں
کو سب سے زیادہ ایذاء پہنچاتاہے… عوام کوستاتاہے… اور پھر خود’’ایذاء‘‘ کا شکار بن
جاتا ہے… ہم نے جب شوکت عزیز کے وزیراعظم بننے کی خبر سنی تھی تو دل مٹھی میں آگیا
تھا… غیر ملکی ملازم، فری میسن یا اسی طرح کی کسی اور تنظیم کا باقاعدہ رکن اور
مسلمانوں کا دشمن ملک کا وزیراعظم؟؟؟… پھردل نے صدا لگائی:
حسبنا اللہ ونعم
الوکیل
تب اطمینان ہوگیا
بے شک… اللہ تعالیٰ ہی مالک ہے، اللہ تعالیٰ ایک ہے، اللہ تعالیٰ کی شہنشاہی ہے… اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے… اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز پر قادر ہے اور ہم سب نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونا ہے… وہی اس قوم اور
ملک کا مالک و خالق ہے… اور وہی اس اُمت کا نگہبان ومحافظ ہے…
حسبنااللہ و نعم
الوکیل… اللّٰھم یا مالک الملک ارحم اُمۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
سبحان اللہ
وبحمدہ،سبحان اللہ العظیم
لا الہ الا اللہ،
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علٰی سیّدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
مکان کہانی ٢
فریبی مکان کے
مقابل کچھ اچھے اور کار آمد مکانوں کا تذکرہ…
حضرت آسیہ علیہا السلام نے مکان مانگا…
جنت کا مکان…اصلی
اور پائیدار مکان…
اسلام آباد کے فریبی
مکان کے مکینوں کی عیاشیاں اور انجام…
’’سبحان اللہ و بحمدہ‘‘… جہنم سے آزادی کا
پروانہ
مکان ہر ایک کی
ضرورت …انسان، چرندپرند… سب اس کے محتاج…
قارون کا زمین میں دھنستا گھر… دولت کا عبرتناک
انجام…
مکڑی کا گھر
…کمزور ترین گھر…دنیا کے عہدے …
منصب اور مقام سب
مکڑی کے گھر کی طرح کمزور…
’’مدینہ منورہ‘‘ کے مبارک، منور اور بلند
مقام کچے حجرے…
اور اُن کا محبت
بھرا تذکرہ…ان حجروں سے فیض حاصل کرنا ہوگا…
’’سبحان اللہ و بحمدہ‘‘ کا اجروثواب…
مکان کہانی ٢
اللہ تعالیٰ سے ایک خوش نصیب
خاتون نے’’مکان‘‘ مانگا…اُ س کا یہ مانگنا اللہ تعالیٰ کو ایسا محبوب ہوا کہ اُسے قرآن پاک کی
آیت مبارکہ بنا دیا…
یہ خوش نصیب عورت،
یہ عقلمند خاتون… یہ کامل و مکمل مؤمنہ کون تھیں؟…
سورۃ التحریم کی
آیت١١ دیکھیں… یہ فرعون کی بیوی، حضرت سیدہ آسیہ بنت مزاحم علیہا السلام ہیں…
انہوں نے دنیا کے صدارتی محل اور شاہی مکان کی قربانی دی… ایک عورت اور اتنے بڑے
عظیم الشان مکان کی قربانی؟… جی ہاں ایسا ہوا… تفسیر کی کتابیں کھولیں اور جھوم
جھوم کر اس خوش قسمت خاتون کا تذکرہ پڑھیں… وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں اور فرعون سے انہوں نے
براء ت کا اعلان فرما دیا… بڑاہی مشکل کام تھا… فرعون اُس زمانے کا امریکہ، اسرائیل
اور انڈیا تھا… وہ اپنے گمان میں سپر پاور اور نعوذب اللہ ’’ربّ اعلیٰ‘‘ تھا… ایک
کمزور سی عورت نے اُس کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا… حالانکہ نہ مقابلے کی
طاقت تھی اور نہ زمین پر کوئی پناہ گاہ… تب آسمان کے دروازے’’ رب تعالیٰ‘‘ نے اُس
پر کھول دیئے… فرشتے اترتے اور اُس پر سایہ کرتے… فاصلے سمیٹ دیئے گئے اور اُسے
جنت کا اپنا مکان پوری آب وتاب سے نظر آنے لگا… جسم اُس کا زخمی تھا مگر روح
اونچی اونچی پروازوں پر تھی… بے شک جتنی قربانی اتنا بدلہ… قربانی بہت بڑی تھی تو
بدلہ بھی بہت اونچا ملا… مفسرین حضرات نے لکھا ہے کہ اس خاتون کا’’حسن ذوق‘‘
ملاحظہ فرمائیں کہ…
اختارت الجار قبل
الدار
یعنی گھر مانگنے
سے پہلے پڑوسی مانگا… پہلے پڑوسی پھر مکان…
رَبِّ ابْنِ لِیْ
عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ (التحریم)
اے میرے رب میرے
لئے بنا دیجئے’’اپنے پاس‘‘ ایک گھر جنت میں…
اپنے پاس، سبحان اللہ ، اپنے پاس یا اللہ ! اپنے قرب میں مکان دے دیجئے… اللہ تعالیٰ تو شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب … مگر یہاں
’’قُرب‘‘ سے مُراد محبت اور رحمت والا’’قُرب‘‘ ہے… واقعی بہت باذوق، بہت باایمان
اور بہت عقلمند خاتون تھیں… علیہا السلام… گذشتہ ’’رنگ و نور‘‘ میں ایک ’’مکان‘‘ کا تذکرہ ہوا تھا…
بات’’مکان‘‘ اور ’’گھر ‘‘ کی آئی تو کئی مکان یاد آگئے… کہاں ایک عذاب زدہ ،بے
وفا حویلی… اور کہاں اللہ تعالیٰ کے قُرب میں ایک دائمی اور ہمیشہ ہمیشہ
کا مکان… اے بھائیو! اے بہنو! مجھے اور آپ کو بھی اسی مکان کی فکر کرنی چاہئے جیسا
مکان حضرت آسیہ علیہا السلام نے مانگا تھا… مکان کی بات آگے بڑھانے سے پہلے دل
کو ’’تسبیح‘‘ کی غذا دیتے ہیں…
حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو شخص صبح کے وقت
ایک ہزار مرتبہ ’’سبحان ﷲ وبحمدہ‘‘ پڑھتا ہے تو وہ اپنی جان، اللہ تعالیٰ کو بیچ دیتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہنم سے آزاد کیا ہوا بن جاتا
ہے… (الطبرانی فی الاوسط)
سبحان ﷲ وبحمدہ،
سبحان ﷲ وبحمدہ، سبحان ﷲ وبحمدہ سبحان ﷲ العظیم
اسلام آباد کے
آفت زدہ مکان… یعنی وزیراعظم ہاؤس میں نئے مکینوں کے لئے تیاری زور شور سے جاری
ہے… سنا ہے کہ کراکری یعنی برتن تک غیر ملکوں سے منگوائے جاتے ہیں… شاید مہنگے برتنوں میں کھانا زیادہ لذیذ
ہوجاتاہوگا… ایک سابقہ وزیراعظم کے لئے کمبل وغیرہ یورپ سے لاکر یہاں ڈالے گئے
تھے…مگر آج وہ لٹھے کے کفن میں زمین کے نیچے ہیں… ایک وزیراعظم کے لئے کھانا یورپ
کے ایک دور دراز ملک سے جہاز پر اس ترتیب سے لایا جاتا تھاکہ گرم اور تازہ رہے… ہمیشہ
نہیں، البتہ کبھی کبھار عوام کے مال سے یہ بچگانہ خواہش پوری کی جاتی تھی… آج کل
وہ قبر میں خود کسی کی خوراک ہیں… اس وزیراعظم ہاؤس کے قصے اورداستانیں ایسی
بدبودار ہیں کہ انہیں لکھنے اور پڑھنے سے بھی طبیعت بھاری ہوجاتی ہے… ابھی جو آنے
والے ہیں ان کی خوش خوراکی کے چرچے چار دانگ عالم میں پھیلے ہوئے ہیں… دیکھیں کیا
بنتا ہے…ویسے مکان اور گھر ہر انسان کی ایک لازمی ضرورت ہے… اور کئی جانور اور
پرندے بھی مکان اور گھر بناتے ہیں… قرآن مجید میں کئی گھروں اور مکانات کا عجیب
سبق آموز تذکرہ ہے…بیسواں پارہ دیکھیں، سورۃ القصص کے آخری دو رکوع میں دو
مکانات کا تذکرہ ہے… ایک مکان وہ جو زمین میں دھنس گیا اور دھنستا جا رہا ہے اور
بالآخر جہنم میں جا شامل ہو گا… وہ مکان اکیلا نہیں دھنسا، بلکہ اپنے ساتھ اپنے
زمانے کے سب سے بڑے مالدار کو لے ڈوبا… وہ اتنا بڑا سرمایہ دار تھا کہ آج اگر
موجود ہوتا تو’’ٹائم میگزین‘‘ کے ٹائٹل پر اس کی تصویر سب سے اوپر چھپتی… ایک اور
میگزین ہے مجھے اس کا نام یادنہیں آرہا، اس میں ہر سال دنیا کے ارب پتی افراد کو
درجہ بندی دی جاتی ہے… بڑا سخت مقابلہ ہوتا ہے اور پوری دنیا سے ایک سو افراد… اور
ان ایک سو میں سے دس افراد کو منتخب کیا جاتا ہے… اور ان کی تصویر اس میگزین کے
ٹائٹل پر آتی ہے… یہ دنیا داروں کے ہاں ایسا اعزاز ہے کہ اس کی خواہش میں ان کی
جان نکلتی ہے… سورۃ القصص کی آیت٨١ میں جس مکان کے زمین میں دھنس جانے کا تذکرہ
ہے… اس مکان کا مالک آج موجود ہوتا تو وہ دنیا میں پہلے نمبر پر آتا… اُسے مسٹر
قارون کہا جاتا… وہ ہمارے دانشوروں کا آئیڈیل ہوتا… کیونکہ اُس کے پاس بے تحاشہ
مال تھا… اور دانشوروں کے نزدیک کامیابی کا معیار’’مال‘‘ ہے… اور اس کا دعویٰ تھا
کہ… یہ مال اُس نے اپنے ’’علم‘‘ یعنی اپنے ہنر، اپنی ٹیکنالوجی او راپنی تعلیم کے
ذریعہ بنایا ہے…
اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ
عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ (القصص:۷۸)
ہمارے دانشور بھی یہی’’قارونی
پیغام‘‘ دن رات سناتے ہیں کہ مسلمان تعلیم حاصل کریں تاکہ مالدار بنیں… اور کامیاب
ہو جائیں… اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے اُسے اُس کے مکان سمیت
زمین میں دھنسا دیا… اور پھر ایک آیت بعد ایک ا ور مکان کا تذکرہ فرماتے ہیں… اس
مکان کا نام ہے… دارالآخرۃ… یعنی آخرت کا دائمی اور حقیقی نعمتوں والا گھر…
ارشاد فرمایا:
تِلْکَ الدَّارُ
الْاٰخِرَۃُ … الایۃ(القصص:۸۳)
ترجمہ: یہ آخرت
کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے بنایاہے جو زمین میں بڑائی نہیں چاہتے اور نہ ہی
فساد پھیلاتے ہیںاو ر اچھا انجام اُن کا ہے جو متقی ہیں…
لیجئے دو مکان
سامنے آگئے…زمین میں دھنستا ہوا گھر… اور جنت کی بلندیوں والا گھر…آئیے تسبیح
پڑھتے اور سمجھتے ہیں تاکہ آخرت کے گھر کا کچھ سامان ہو جائے…
حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حضرت نوح
علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے
ہوئے ارشاد فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے! میں تجھے مختصر سی نصیحت کرناچاہتا ہوں
تاکہ تو اُسے بُھلا نہ دے میں تجھے دو کام کرنے کی نصیحت کرتا ہوں اور دو کاموں سے
روکتا ہوں، جن دو کاموں کے کرنے کی نصیحت کرتا ہوں ان میں سے ایک کام ایسا ہے جسے
میں نے اکثر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہو کر پہنچتے دیکھا
ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کام سے خوش ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندے بھی… وہ کام یہ ذکر ہے ’’
سبحا ن ﷲ وبحمدہ‘‘
کیونکہ یہی عمل
اور یہی ذکر تمام مخلوق کی عبادت ہے اور اسی ذکر کے طفیل تمام مخلوق کو رزق دیا
جاتا ہے۔(کتاب الزہد)
سبحان ﷲ
وبحمدہ،سبحان ﷲ وبحمدہ، سبحان ﷲ وبحمدہ سبحان ﷲ العظیم
اسلام آباد کے
نحوست زدہ مکان… وزیراعظم ہاؤس میں جو صاحب پوری شان و شوکت سے آرہے ہیں… اللہ تعالیٰ اُن کو فکر آخرت عطاء فرمائے… ماضی میں
اسی ’’‘مکان‘‘ میں بیٹھ کر جو فیصلے انہوں نے کئے ان کے تھپیڑے آج تک پوری قوم
کھا رہی ہے… ایک غیر سنجیدہ سیاسی ماحول میں… حد سے زیادہ سنجیدہ فیصلے کرنا ہمیشہ
نقصان دہ ہوتا ہے… یا تو خود انسان کا اپنا عمل بہت اونچا ہو… وہ جو منہ میں سونے
کا چمچہ لیکر پیدا ہوئے اور جنہوں نے کبھی بھوک، پیاس کا نام تک نہیں سنا
وہ’’جذباتی فیصلے‘‘ کرتے ہوئے ٹھوکر کھا جاتے ہیں… کامیاب حکومت کے دو طریقے ہیں
پہلا یہ کہ حکمران خود ریاضت اور مجاہدہ برداشت کرے… اور دوسرا یہ کہ اگر وہ ریاضت
اور مجاہدہ برداشت نہیں کرتا… ہر وقت اس کا پیٹ ،معدہ اور بینک بھرا رہتا ہے تو وہ
زیادہ سنجیدگی اور سختی کرنے کی بجائے… بس گزارہ چلائے اور حتی الامکان خدمت کرے…
ماضی میں زیادہ اختیار ات کے سنجیدہ شوق نے تباہی مچائی…پرویز مشرف جیسے شخص کو بغیر
استحقاق آرمی چیف بنایا گیا… اور پھر جب وہ فضا میں تھا تو اس کو برطرف کیاگیا…
جس کے نتیجے میں وہ برسر اقتدار آگیا اور ملک اندھیروں میں ڈوب گیا… اوّل اُس کو
عہدہ دینا غلط تھا… اور پھر عہدہ واپس لینے کا طریقہ کار تو بہت ہی غلط تھا…
واجپائی کو بس پر بٹھا کر لاہور لانا بھی کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی تھی… اور
بھی بہت سے غلیظ فیصلے… اب دیکھیں کیا بنتا ہے… اللہ تعالیٰ سے خیر اور مدد مانگتے ہیں… حسبنا ﷲ ونعم
الوکیل… قرآن مجید میں جن گھروں اور مکانات کا تذکرہ ہے… ہمیں چاہئے کہ اُن کو
غور سے پڑھیں اور سمجھیں… تاکہ مکان اور گھر کے بارے میں ہمیں خوش قسمتی کا راستہ
معلوم ہو…
قرآن مجید میں ایک
گھر کا تذکرہ ہے… نجات والاگھر… جب زمین و آسمان سے عذاب کا پانی ابل رہا تھا…بڑے بڑے پہاڑ پانی میں
گم ہو رہے تھے اور آسمانی غضب ہر طرف چنگھاڑ رہا تھا… تب ایک کچا سا، پرانا سا
مکان امن اورنجات کی جگہ بنا ہواتھا… یہاں جو آجاتا وہ سیلاب، سمندر اور سینکڑوں
فٹ اونچی لہروں سے بچ جاتا… اور اسے نجات کی سواری بھی مل جاتی… یہ پیغمبر حضرت
نوح علیہ السلام کا مکان تھا جس کا تذکرہ آپ سورۂ نوح کی آیت٢٨
میں پڑھ سکتے ہیں… قرآن پاک کے مکانات میں قوم عاد اور ثمود کے مکانات کا بھی
تذکر ہ ہے… کیسے مضبوط اور شاندار محل بناتے تھے اور مکانات تراشتے تھے… پھر یہ سب
کچھ تباہ ہو گیا… قرآن مجید مکڑی کے گھر اور مکان کا تذکرہ بھی فرماتا ہے… اور
اُن لوگوں کو سمجھاتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا سہارا بناتے
ہیں… جو طاغوت کی ظاہری طاقت کو سجدے کرتے ہیں… اُن کے گھر، عہدے اور منصب مکڑی کے
جالے کی طرح کمزور ہوتے ہیں… بات کو تازہ مثال سے سمجھنا ہو تو اسلام آباد میں’’چک
شہزاد‘‘ کے ایک مکان میں آہیں بھرتے’’پرویز مشرف‘‘ کو دیکھ لیں… کتنی شان و شوکت
تھی اس کی… مگر مکڑی کے جالے کی طرح بکھر
گئی، ٹوٹ گئی… قرآن پاک کے مکانات میں… وہ گرے ہوئے گھر بھی شامل ہیں جن کا تذکرہ
سورۂ نمل کی آیت٥٢ میں ہے… اور وہ اونچے گھر بھی شامل ہیں جن سے دل لگانے والے
بہت اونچے ہوجاتے ہیں… ان گھروں کا تذکرۃ سورۃ النور آیت٣٦ میں ہے… آج میں نے
تھوڑی سی کوشش کر کے قرآن مجید میں مذکورہ گھروں اور مکانات کی فہرست جمع کی ہے…
مگرکالم کی جگہ ختم ہورہی ہے… اور مکانات بہت سے باقی ہیں… مثلاً شہد کی مکھی
کامکان، مہاجر فی سبیل اللہ کا مکان، مظلوم اور روپوش ایمان والوں کے
مکانات، مکینوں کے ہاتھوں گرتے ہوئے مکانات… وغیرہ وغیرہ… اُن سب کو چھوڑ دیتے ہیں…
بس اُ ن مکانات کے تذکرے سے دل روشن کرتے ہیں… جنہیں سورۃ الاحزاب میں ’’مکانات‘‘
اور سورۃ حجرات میں’’حجرے‘‘ فرمایا گیا ہے… دراصل وہ تھے تو چھوٹے چھوٹے حجرے… مگر
ہر حجرہ ایک الگ مکان تھا… اور اس مکان کے مکین اس میں بہت خوش اور راضی تھے…بلکہ
وہ ہمیشہ اپنی قسمت پر شکرا دا کرتے تھے… یہ مکانات اور حجرے… میری اور آپ کی
ماؤں کے تھے… امہات المؤمنین… روئے زمین کی خوش نصیب ترین ہستیاں… اونچے نام،
اونچا مقام، میرے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت یعنی گھر والے… مسجد نبوی شریف کے
ساتھ یہ چھوٹے چھوٹے حجرے بنے ہوئے تھے… سبحان اللہ ! ان حجروں میں وحی نازل ہوتی تھی… اور ان
حجروں میں روئے زمین کا سب سے بڑا دین مدوّن ہوتا تھا…ان حجروں میں کامیابی کے
اصول… اور ترقی کے قوانین کا فیصلہ ہوتا تھا… حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے الادب المفرد میں ان حجروں کا حجم اور سائز
تک بیان فرما دیا ہے… سبحان اللہ ! اتنے
چھوٹے گھر اور اتنا عالی شان مقام… بس مکان کہانی کو… ان مبارک حجروں اور مکانات
کے تذکرے پر ختم کرتے ہیں… کیونکہ دنیا کے کسی بھی مکان نے کامیابی اور برکت پانی
ہو تو اُسے… ان مبارک حجروں سے ہی فیض
پانا ہوگا… اسلام آباد کا آسیب زدہ وزیراعظم ہاؤس بھی پاک، صاف اور بابرکت ہو
سکتا ہے… اگر وہ مسجد نبوی کے حجروں سے روشنی اور خوشبولے آئے… مسلمانوں نے دنیا
کو فتح کیا تو بڑی بڑی منحوس جگہیں اُن کے قبضے میں آئیں… مگر وہ ان جگہوں کو
بابرکت اور باسعادت بنانے کا طریقہ اور گُر جانتے تھے… اور یوں زمین پاک ہوتی چلی
گئی… وہ طریقے اپنی پوری تأثیر کے ساتھ آج بھی موجود ہیں… مگر صرف قسمت والے ہی
اُن سے فائدہ اٹھاتے ہیں …ہاں!صرف قسمت والے… ورنہ اسلام آباد کے وزیراعظم ہاؤس
کے باسیوں کا انجام بہت لرزہ خیز ہوتا ہے…بہت ہی بھیانک…
آئیے تسبیح میںگُم
ہوجاتے ہیں…
نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ
تعالیٰ نے کلام میں سے چار(کلمات) کو (خاص
طور پر) منتخب فرمایا ہے:
سبحان ﷲ،
والحمدللہ، ولا الہ الا ﷲ وﷲ اکبر
جو سبحان اللہ پڑھے اس کے لئے بیس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور
بیس گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور جو اللہ اکبر پڑھے اس کیلئے بھی یہی ثواب ہے اور جو لا
الہ الا ﷲ پڑھے اس کے لئے بھی یہی ثواب ہے اور جو الحمدﷲ رب العالمین پڑھے اس کے
لئے تیس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اُس کے تیس گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں…(احمد،
نسائی)
سبحان ﷲ
والحمدللہ، ولا الہ الا ﷲ وﷲ اکبر
ولا حول ولا قوۃ
الا باللہ العلی العظیم
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مالک الملک کی ُکرسی
اقتدار کی ناپائیدار
کرسی پر ایمان بیچنے والوں کے لیے تازیانہ عبرت…
مالک الملک کی
آسمانوں، زمینوں پر محیط کرسی کا عاشقانہ تذکرہ…
اللہ تعالی کی کرسی
کی وسعت… اس سے بڑا اللہ تعالی کا عرش…
حملۃ العرش فرشتوں
کی تسبیح مبارک…
ایک سیاستدان کا
لطیفہ…
اہل جنت کی حکومت…
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مسلمانوں کے نام نصیحت…
’’سبحان‘‘ کے معنیٰ… سورۃ یس میں دو
جگہ’’سبحان‘‘…لطیف علمی نکتہ…
تسبیح کی فضیلت
اور طاقت…
مالک الملک کی ُکرسی
اللہ
تعالیٰ کی’’کرسی‘‘ نے سب آسمانوں اور زمین
کو اپنے اندر لے رکھا ہے…
وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ
وَالْاَرْضَ (البقرۃ:۲۵۵)
سبحان اللہ ! اللہ تعالیٰ کی ’’کُرسی‘‘… اللہ تعالیٰ کی بادشاہی اور اللہ تعالیٰ کا عرش…
ذرا جھوم کر پڑھیں:
وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ
(البقرۃ:۲۵۵)
حضرت شاہ
عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ
فرماتے ہیں کہ… اللہ تعالیٰ کی کرسی میں گنجائش ہے آسمانوں کے لئے
اور زمین کے لئے… یعنی سات آسمان اور زمین اگر اللہ تعالیٰ کی کرسی پر رکھ دیئے جائیں تو آرام سے
اس میں سما جائیں گے… زمین سے لیکر آسمان تک کتنا فاصلہ ہے؟… پھر ایک آسمان کا
دوسرے آسمان سے کتنا فاصلہ ہے؟… اور ہر آسمان کتنا بڑاہے؟ مگر یہ سب اللہ تعالیٰ کی کرسی میں اس طرح آجاتے ہیں جس طرح ایک
بڑے صحرا میں ایک چھوٹی سی انگوٹھی… اور اللہ تعالیٰ کی کُرسی سے بڑا اللہ تعالیٰ کا عرش ہے… جی ہاں! عرش عظیم یعنی بہت عظیم
عرش…
اس عرش کو اللہ تعالیٰ کے چار فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہے… قیامت
کے دن آٹھ فرشتے اس عرش کو اٹھائیں گے… یہ فرشتے بہت مقرّب اور بہت قوت و طاقت
والے ہیں… قرآن مجید میں ان کا تذکرہ ہے… حملۃ العرش… یہ فرشتے بھی’’سبحان ﷲ
وبحمدہ‘‘ پڑھتے ہیں… خود قرآن مجید نے بتایا ہے۔
یُسَبِّحُوْنَ
بِحَمْدِرَبِّھِمْ (الغافر:۷)
حمد کے ساتھ تسبیح،
یعنی تعریف کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں ان کی تسبیح کے مختلف الفاظ
روایات میں آئے ہیں…
تین ہفتے ہوئے
کہ’’تسبیح‘‘ کا بیان چل رہا ہے…ساتھ ساتھ حالات حاضرہ پر بھی بات ہو رہی ہے… آج
اسی میں کرسی کا تذکرہ آگیا کہ ملک میں کرسی کی جنگ جاری ہے… ایک عارضی اور فانی
کُرسی… ایک کمزور اور ناپائیدار کُرسی… مگر یہ کُرسی اہل دنیا کو بے حد محبوب اور
مرغوب ہے…
ایک سیاستدان کے
بارے میں یہ لطیفہ بھی مشہور ہوا تھا کہ اُن کے ہاتھ میں اکثر باریک دانوں والی ایک
مالا گھومتی رہتی تھی… کسی نے پوچھا! آ پ کیا وظیفہ کرتے ہیں؟ـ… کہنے لگے پیر
صاحب نے آیۃ الکرسی بتائی تھی… مگر مجھے پوری آیۃ الکرسی یاد نہیں ہوتی تو میں
بس کُرسی کُرسی کُرسی پڑھتا رہتا ہوں…
ابھی
حال ہی میں کچھ لوگ کرسی کے پیچھے دوڑتے دوڑتے گر پڑے اور کچھ کے نیچے سے کرسی بے
رحمی کے ساتھ کھسک گئی… اور کچھ چند دن اس کرسی کے جھولے کھا کر دوچار دن میں جانے
والے ہیں… اور کچھ اگلے چند دن بعد اس کرسی پر بیٹھنے والے ہیں… مگر ہمیشہ کے لئے
نہیں… بس چند دن یا چند مہینے یا سال… کاش اس فانی کُرسی پر بیٹھنے والے… اصل کُرسی
کے مالک کی فرمانبرداری کریں تو کتنا اونچا مقام پالیں… یاد رکھیں قیامت کے دن ہر
جنّتی مسلمان کو جنت میں بڑی کرسی اور بڑی بادشاہت ملے گی… ارشا د فرمایا:
وَّمُلْکًا کَبِیْرًا
(الدھر:۲۰)
یعنی اہل جنت کے
لئے بڑی بادشاہت ہوگی
آئیے اپنی جنت کو
یقین کے ساتھ آباد کریں…
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
شب معراج میں جب میری
ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ: اپنی اُمت کو میرا
سلام کہیں اور بتائیں کہ جنت کی مٹی عمدہ
پاکیزہ اور پانی میٹھا ہے مگر وہ جنت بالکل خالی میدان ہے اور اس کے پودے (یعنی
درخت اور آبادی)
سبحان ﷲ،
والحمدللہ، لا الہ ال اللہ اور ﷲ اکبر ہے۔
(ترمذی)
ایک روایت میں
’’لاحول ولا قوۃ الا ب اللہ ‘‘ بھی
ہے۔(ترمذی)
سبحان ﷲ،
والحمدللہ ولاالہ الا ﷲ وﷲ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ
تسبیح کے فضائل
بہت زیاد ہ ہیں… کاش ہر مسلمان کو’’تسبیح‘‘ کی توفیق نصیب ہو جائے… دراصل ’’تسبیح‘‘
سے پاکی اور قوت ملتی ہے… ایمانی قوت، دینی قوت، روحانی قوت ، اُخروی قوت، دنیوی
قوت… جسمانی قوت… قرآن مجید میں غور کریں، جہاں بھی سبحان اللہ یا
تسبیح کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہاں کسی ایسی چیز کا تذکرہ ہے… جس چیز کی
طاقت نہ انسانوں کے بس میں کل تھی اور نہ آج ہے اورنہ آئندہ کبھی ہو گی…
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ
اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا (الاسراء:۱)
والی
آیت دیکھ لیں اس میں معراج کا واقعہ بیان فرمایا… رات کے ایک حصے میں اتنی بڑی
اورلمبی سیر… مکہ مکرمہ سے بیت المقدس… وہاں سے آسمانوں پر اور پھر آسمانوں سے
بہت آگے، بہت آگے… سائنس دان ابھی تک زمین کے مدار میں گھومنے والے سیاروں تک
پہنچنے کی کوشش میں ہیں… سبحان ہے وہ ذات جس نے رات کے ایک حصہ میں اتنا بڑا سفر
پورا کروایا… فاصلے اور زمانے سب سمیٹ دیئے… صدیوں کو سیکنڈوں میں بند فرما دیا…
اور ہزاروں کروڑوں سالوں کی مسافت کو منٹوںمیں طے فرما دیا…
سبحان ﷲ وبحمدہ،
سبحان ﷲ وبحمدہ، سبحان ﷲ وبحمدہ سبحان ﷲ العظیم
اسی
طرح ایک ایک آیت کو لیتے جائیں اور غور کرتے جائیںتو آپ کے دل پر تسبیح… یعنی اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنے… سبحان اللہ پڑھنے کی حقیقت اور طاقت کھلتی جائے گی…
آسمانوں کے اوپر فرشتوں کا یہ کہنا…
سُبْحٰنَکَ
لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّامَا عَلَّمْتَنَا (البقرۃ:۳۲)
اورسمندروںکہ تہہ
میں مچھلی کے پیٹ میں سیدنا یونس علیہ
السلام کا یہ فرمانا:
لَّآ اِلٰہَ
اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْن (سورۃ الانبیاء:۸۷)
دنیا کے تمام
اصولوں اور سائنس کے تمام قوانین کو مدنظر رکھ کر دیکھیںکہ… حضر ت یونس علیہ
السلام کا زندہ رہنا ممکن تھا؟… سمندر میں
چھلانگ لگانا… مچھلی کا نگل لینا… کئی دن یا کئی گھڑیاں مچھلی کے پیٹ میں رہنا…
اور وہاں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنا… عقل تسلیم نہیں کرتی…
سائنس کے قوانین ہرگز نہیں مانتے… مگر سبحان ذات کے لئے کچھ ناممکن نہیں…
’’سبحانک‘‘ پکارا تو ایسی مدد آئی کہ زندہ سلامت سمندر کے ساحل پر آگئے…
سبحان ﷲوبحمدہ سبحان ﷲ العظیم
اچھا ایک اور کمال
دیکھیں… مشرکین مکہ کتنے طاقتو ر تھے؟… خونخوار، مسلّح ، بدزبان… بلکہ زبان دراز
اور ہر طرح کی قوت سے لیس… وہ منہ بھر کر بکتے تھے اور دل کھول کر دشمنی نکالتے
تھے… صرف ایک نظر مکہ مکرمہ کے ماحول پر ڈالیں کہ… کس طرح ہمارے آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم ان خونخوار بھیڑیوں کے درمیان
بالکل اکیلے کھڑے تھے…پورے مکہ میں سب سے زیادہ مظلوم… کیا بچنا ممکن تھا؟… فرمایا
گیا:
آپ ان کی باتوں
پر صبر کریں… سورج کے نکلنے اورغروب ہونے سے پہلے ا ﷲ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ تسبیح
کریں… اور دن اور رات کے کچھ حصوںمیں بھی یہی عمل کریں… تب آپ کے لئے ایسا ماحول
آجائے گاکہ آپ راضی ہوجائیںگے… اب کاغذ پلٹیں آٹھ سال بعد یہی مکہ تھا… آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے گرد آپ کے دس ہزار
جانباز وفادار صحابہ تلواریںلئے کھڑے تھے… اور مکہ کے بچے کھچے مشرک کعبہ کے پردوں
سے لٹکے ہوئے اپنی جان کی بھیک مانگ رہے تھے … کل کے مظلوم آج مکہ کے حاکم تھے… یقینا
یہ سب کچھ… سبحان ذات، اللہ سبحانہ کی
طاقت اور قوت سے ہوا…
سبحان ﷲ وبحمدہ،
سبحان ﷲ وبحمدہ، سبحان ﷲ وبحمدہ ،سبحان ﷲ العظیم
اچھا اور دیکھیں…
آج تسبیح کے میٹھے جام بھر بھر کر پئیں… سو رہ یٰسین میں دو جگہ ’’سبحان ‘‘ کا
تذکرہ ہے… دونوں پرغور کریںتو دل بھی عش عش کر کے… سبحان اللہ ، سبحان اللہ پڑھنے لگے… پہلے فرمایا کہ سبحان ہے وہ ذات جس نے ہر چیز کے جوڑے
بنائے… نر اور مادہ کا نظام… انسانوں میں، جانوروں میں، پودوں میں، حشرات میں،
پرندوں میں… اور اُن چیزوں میں جس میں ہم نہیں جانتے … کیا کسی کے بس میں ہے کہ ایسا
محکم نظام بنا سکے؟… ایسا لطیف اور آٹو میٹک نظام کہ ہر جوڑا ایک پورا کارخانہ جس
میں راحت بھی ہے اور نسل کا بقا بھی… اب تک کی سائنس نے جوڑوں کی جو تفصیل حاصل کی
ہے اسے پڑھ کر لوگ حیران ہو کر سائنس کے مرید ہوجاتے ہیں… اوریہ نہیں سوچتے کہ جس
ا ﷲ تعالیٰ نے جوڑوں کا یہ نظام بنایا ہے ہم اس کی شان اور عظمت کو مان کر اس کی
عبادت اور اطاعت میں لگ جائیں… بہت ہی عجیب، بہت ہی محکم اور بہت ہی شاندار نظام…
ہر چیز کی کامیابی جوڑے سے… اس آیت مبارکہ سے صوفیاء نے بہت کچھ سمجھا… اور مجاہدین
کے لئے بھی اس میں بڑے اسباق ہیں کہ… انسان کی کامیابی کا یہ بڑا اہم راز ہے… سورہ یٰسین کی دوسری آیت میں فرمایا… سبحان ہے
وہ ذات جس کے قبضے میں ہر چیز کی حکومت ہے… آپ بتائیے کہ کسی انسان کے لئے ممکن
ہے کہ وہ صرف اپنے بدن کی تمام چیزوں کی حکومت حاصل کر لے؟… ہر چیز تو بہت دور کی
بات ہے… دنیا کے کسی بادشاہ کو یا کسی سائنسدان کو اپنے پیٹ میں موجود… گردے اور
معدے پر بھی حکومت حاصل نہیں ہوتی… ہر چیز پر مکمل حکومت اور اختیار صرف اسی ذات
کا ہے… جو سبحان ہے، پاک ہے …
سبحان ﷲ وبحمدہ،
سبحان ﷲ وبحمدہ، سبحان ﷲ وبحمدہ، سبحان ﷲ العظیم
اچھا یہ بتائیں
کہ… اگر کوئی شخص سورج کے بہت قریب چلا جائے تو کیا کوئی ایسا لباس ہے جو اسے جلنے
اور راکھ ہونے سے بچا سکے… سورج کی گرمی… جہنم کی گرمی سے ستر گنا یا اس سے بھی
کمزور ہے… مگر سبحان اللہ کے کلمہ میں ا ﷲ تعالیٰ نے یہ طاقت رکھی ہے کہ یہ
جہنم سے ڈھال بن جاتا ہے… یہ طاقت بعض دیگر کلمات اور اعمال میں بھی ہے…
رسول نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اپنی ڈھال لے لو…(یعنی
اپنی حفاظت کا سامان کر لو) صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وسلم )! کسی حاضر دشمن کے حملہ سے؟ ارشاد فرمایا: نہیں! بلکہ جہنم
سے بچنے کی ڈھال لے لو… اور وہ
سبحان ﷲ،
والحمدللہ ولا الہ الا ﷲ وﷲ اکبر
کا پڑھنا ہے… یہ
کلمات قیامت کے دن اس حال میں آئیں گے کہ… اپنے پڑھنے والوں کو آگے بڑھانے والے…
اور ان کی حفاظت کرنے والے ہوں گے اور یہ کلمات باقی رہنے والی نیکیاں ہیں…(یعنی
الباقیات الصالحات) (نسائی)
اندازہ لگائیں…
سبحان اللہ کی قوت کا کہ دنیا کی مضبوط سے مضبوط چیز گل سڑ
جاتی ہے… ختم یا خراب ہوجاتی ہے، ٹوٹ کر فنا ہوجاتی ہے… مگر ایک بار کا ’’سبحان ﷲ‘‘
کہنا… نہ کبھی ختم ہو گااور نہ کبھی مٹے گا… یہ ہمیشہ باقی رہے گا… اورپڑھنے والے
کے کام آتا رہے گا…
سبحان ﷲ وبحمدہ
،سبحان ﷲ العظیم
تسبیح کا موضوع
بہت میٹھا اور لذیذ ہے… دل میں بہت سی باتیں ابھی مچل رہی ہیں… بڑی خواہش ہے کہ
مجاہدین اور تمام دینی بھائیوں اور بہنوں کو دیگر نعمتوں کے ساتھ ساتھ’’تسبیح‘‘ کا
ذوق،تسبیح کی حلاوت اور تسبیح کی قوت بھی مل جائے… آج کی مجلس پر… فی الحال اس
موضوع کو ختم کرتے ہیں…
سبحان ﷲ وبحمدہ
،سبحان ﷲ العظیم…… لا الہ الا ﷲ محمد رسول
ﷲ
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول اللہ
اللّٰھم صل علٰی سیّدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مؤمنین کے محترم
ماموں جان
اہل ایمان کے’’
ماموں جان‘‘ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دلنواز تذکرہ…
صحابہ کرام کا
بلند مقام… ان کی تعظیم کے حوالے سے اہلسنّت کاعقیدہ اور عمل…
رجب میں دنیا سے
رخصت ہونے والی دو عظیم اسلامی شخصیات …
سیّدنا امیر معاویہ
رضی اللہ عنہ … حضرت خواجہ معین الدین اجمیری
رحمۃ اللہ علیہ …
حضرت خواجہ کے
مزار پر دلخراش رسومات…… ان کے مختصر احوال…
حضرت
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کمالات اور سیرت
کا جامع خلاصہ…
آپ کے فضائل کا
تذکرہ…
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبول دعائیں…
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد فرمودہ ایک طاقتور وظیفہ…
مرشد
المجاہدین حضرت ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا فرمانِ عالی…
حضرت امیر معاویہ
رضی اللہ عنہ کی محبت ایمان کا امتحان…
حضرت عمر بن
عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ایمان افروز عمل اور خواب…
حضرت مولانا سیّدابو
الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی بعض
عبارات…
حُبّ
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لبریز
مضمون…
مؤمنین کے محترم
ماموں جان
اللہ
تعالیٰ نے حضرات’’صحابہ کرام‘‘ کو بہت
اُونچا مقام عطاء فرمایا ہے…
رضی ﷲ تعالٰی عنہم
اجمعین…
حضرات صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت رکھنا
اور ان کی راہ پر چلنا ہر مسلمان کے لئے لازمی ہے…
دل کی موت
اہل علم فرماتے ہیں
کہ جس نے بھی حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین پر زبان درازی کی… یا کسی ایک
صحابی رضی اللہ عنہ پر بھی طعنہ زنی کی تو
اللہ تعالیٰ موت سے پہلے اُس کے دل کو مُردہ کر دیتے
ہیں… اور دل کی موت گویا کہ ایمان سے محرومی کا ایک درجہ ہے… اورایسے افراد’’حُسن
خاتمہ‘‘سے محروم رہتے ہیں… وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر طعنہ زنی کرنا… رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کو ایذاء پہنچانا ہے… اور رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہنچانا ایمان سے
محرومی کا ذریعہ بن جاتا ہے… تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سچے ہیں، عادل ہیں، جنتی ہیں، کامیاب ہیں، اونچے
اور روشن ستارے ہیں… اور تمام دنیا کے سارے صدیقین، قطب، مجاہدین، شہداء… اور اولیاء
کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے قدموں کی
اُس خاک کے برابر بھی نہیں ہو سکتے جو خاک اُن کے قدموں پر… جناب رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے لگی
ہے… اور جو خاک اُن کے قدموں پر اسلام قبول کرنے کے بعد کسی بھی عمل میں لگی ہے… یا
اللہ ! گواہ رہنا ہم آپ کے محبوب نبی
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اہل بیت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت رکھتے ہیں… اور ان میں سے کسی کے لئے
اپنے دل میں کوئی بغض، کینہ یا تنگی نہیں رکھتے… ہمارا عقیدہ ہے…
’’رضی اللہ عنہم‘‘ کہ اللہ تعالیٰ اُن سے راضی ہے…
رجب اور دو شخصیات
اس سال جب سے رجب
کا مہینہ شروع ہوا ہے اوراب اختتام کے قریب ہے… دل میں دو بڑی شخصیات کے بارے میں
لکھنے کا داعیہ پیدا ہوا… ایک تو حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ … اور دوسرے خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ
علیہ … ان دونوں حضرات کا انتقال رجب کے
مہینہ میں ہوا ہے… اگرچہ دونوں کے مرتبہ میں بڑا فرق ہے… ایک جلیل القدر صحابی رضی
اللہ عنہ ہیں… اور دوسرے اس اُمت مسلمہ کے
ایک مقبول مجاہد اور ولی… دراصل خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا عُرس جس انداز میں منایا جارہا تھا… اُن کے
مزار اور اس کی انتظامیہ کے بارے میں جوخبریں آرہی تھیں وہ کافی تکلیف دہ تھیں…
اُن کو پڑھ پڑھ کر کلیجہ زخمی ہوتا تھا تو سوچا کہ اُن کی مبارک زندگی کے کچھ
حالات لکھے جائیں تاکہ… مسلمانوں کو معلوم ہو کہ وہ کون تھے اور آج اُن کو کیا
بنا کر پیش کیا جارہا ہے… آج کل اجمیر شریف کے گدی نشین’’زین العابدین‘‘… اپنی’’انڈیا
پرستی‘‘ میں نامور ہیں… انہوں نے خواجہ کی نگری کو باطل اور فضول چیزوں سے بھر
ڈالا ہے…شرکیہ جملے اور ناپاک سیاسی بیانات اُس عظیم ہستی کے مزار سے جاری کئے
جارہے ہیں جنہوں نے… مشرکین سے جہاد کیا اور اُن کے سب سے قابل فخر سورما کو ختم
کروایا… خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ
علیہ کے شیخ اور مرشد خواجہ عثمان ہارونی
رحمۃ اللہ علیہ کے وجد آفرین اشعار اکثر ہماری زبان پر آجاتے
ہیں:
بیا جاناں تماشا
کن کہ در انبوہ جانبازاں
بصد سامانِ رسوائی
سرِ بازار می رقصم
نمی دانم کہ آخر
چوں دم دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں
شوقی کہ پیش یار می رقصم
اللہ
تعالیٰ نے موقع، توفیق اور ہمت عطاء فرمائی
تو ان شاء اللہ کسی دن ’’رنگ و نور‘‘ میں خواجہ جی رحمۃ اللہ
علیہ کی محفل سجائیں گے… اور ان اشعار کے
مست جام بھی بھر بھر کر پئیں گے…مگر آج الحمدﷲ قسمت اچھی لگ رہی ہے کہ… جلیل
القدر عظیم المرتبۃ صحابی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں چند الفاظ لکھنے کی سعادت مل رہی
ہے… واہ میرے مالک واہ! کتنا بڑا احسان ہورہا ہے ،کتنا بڑا فضل ہو رہا ہے…
اَلْحَمْدُ
لِلهِ اَلْحَمْدُ لِلهِ وَاَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
خلاصۂ کمالات
اتنے بڑے انسان کے
بارے میں ایک چھوٹا سا کالم؟… دل حیران ہے کہ کیا لکھے اور کیا چھوڑے؟… چلیں’’بسم اللہ ‘‘ کرتے ہیں… حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل اور کمالات کی فہرست بہت طویل ہے… ایسے
کمالات کہ اگر ان میں سے صرف ایک بھی کسی انسان کو مل جائے تو اس کی عظمت کے لئے
کافی ہو جائے… ایک نظر ڈالیں…
١ رسول
رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ…
قرابت یعنی رشتہ داری… نسبی بھی سسرالی بھی…
سبحان ﷲ وبحمدہ
سبحان ﷲ العظیم
حضرت امیر معاویہ
رضی اللہ عنہ … قریشی اموی ہیں، رسول نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا نسب
’’عبد مناف‘‘ میں ایک ہوجاتا ہے… اور آپ حضرت اُم المؤمنین اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کے سگے بھائی ہیں…
٢ رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقربّ صحابی
رضی اللہ عنہ … حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تمام فضائل آپ کو حاصل ہو گئے۔
٣ رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حنین
اور غزوہ تبوک میں شرکت فرمانے والے مجاہد…
سبحان ﷲ وبحمدہ
سبحان ﷲ العظیم
٤ رب
العالمین کی وحی کے کاتب… آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے، وحی الٰہی اورخطوط
مبارکہ کی کتابت فرماتے… ایسا نازک کام صرف معتمد ترین اہل امانت سے ہی لیا جا
سکتا ہے…
٥ بخاری
وغیرہ مستند کتب میں روایت ہے کہ… رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ
تعالیٰ نے اس اُمت کے’’بحری مجاہدین‘‘
دکھائے… انہیں دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ان کے لئے جنت واجب
ہوگئی… حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے اس جہاد کی توفیق عطاء فرمائی…
٦ مرتد
اعظم مسیلمہ کذاب کے خلاف جہاد یمامہ میں آپ نے شرکت فرمائی اور خوب جم کر مقابلہ
فرمایا… اور بعض مؤرخین کے نزدیک آپ مسیلمہ کذاب کے قتل میں بھی شامل تھے…
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان ﷲ العظیم
٧ آپ
رضی اللہ عنہ نے امت مسلمہ تک حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی مبارک
احادیث پہنچائیں… آپ حدیث رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کے راوی تھے… اور آپ کی روایات
بخاری، مسلم اور حدیث کی دیگر کتب میں موجود ہیں…
٨ آپ
رضی اللہ عنہ اُن صحابہ کرام میں سے ہیں
جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی
مخصوص دعاؤں سے نوازا… حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جو قیمتی دعائیں ملیں وہ حدیث شریف کی کتابوں
میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں…
٩ آپ
اُن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں
شامل ہیں جن کے قلوب پر سکینہ الہٰی کے نزول کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے۔
١٠ آپ
رضی اللہ عنہ نے لاکھوں مربع میل… خشکی
اور سمندر میں اسلامی حکومت قائم فرمائی… جس کی بدولت لاکھوں افراد اسلام میں داخل
ہوئے… اور زمین کا ایک بڑا حصہ ایمان وا سلام کی روشنی سے جگمگا اٹھا…
خلاصۂ سیرۃ
آپ کا اسم گرامی’’معاویہ‘‘،
کنیت’’ابو عبدالرحمن‘‘… والد محترم کا نام حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ (اصل نام: صخر بن حرب)…ولادت نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی بعثت سے تقریبا پانچ سال
پہلے(کچھ اور اقوال بھی ہیں)…
وفات: نصف
رجب ۶۰ھ ، عمر مبارک
اٹھتر(۷۸) سال،
نماز جنازہ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ نے پڑھائی…
حلیہ: بہت حسین و
جمیل، دراز قد، سفید رنگت، باوقار، ذہین، بردبار اور بہادر…
خصوصی صفات سب سے
خاص صفت’’حلم‘‘ یعنی بردباری تھی، صبر اور برداشت کے گویا مینار تھے، اپنے دشمنوں
کو معاف کرنا، لوگوں سے درگذر رکھنا اور مخالفین کے لئے اپنا سینہ کھلا رکھنا آپ
کے لئے آسان تھا… مدبر، عقلمند اور صاحب فراست تھے،دینی سیاست میں امام تھے اس
صفت میں بہت فائق تھے… اور آپ کی سخاوت بھی بہت مشہور تھی… حضرت سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے جب آپ سے بیعت کرلی تو اُس کے بعد پوری
اسلامی دنیا کی حکومت انیس سال تین مہینے ستائیس دن تک بہت خوبی اور مثالی انتظام
سے چلائی… زمین کے ہرطرف فتوحات کا جال بچھا دیا… اور سمندروں پر اسلامی سلطنت
قائم فرمادی… رضی اللہ تعالی عنہ…
مقبول دعائیں
رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے سینے میں چھپی صلاحیتیوں کا اندازہ فرما لیا
تھا… حضرت ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے
’’المرتضیٰ‘‘ میں دو ایسی روایات ذکر فرمائی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ… رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کی پیشن گوئی فرمائی تھی… حضرت ندوی
رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
١ دیلمی سے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے انہوں نے فرمایا میں نے حضرت علی
رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ فرماتے تھے کہ میں نے
سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے دن رات کے تسلسل کا سلسلہ ختم نہ
ہوگا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ برسر حکومت
آجائیں گے…
٢ آجری
کتاب الشریعہ میں عبدالملک بن عمیر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
جب
سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے معاویہ! اگر تم کو
حکومت مل جائے تو اچھی طرح حکومت کرنا، اس وقت سے مجھے خلافت کے حصول کی تمنا تھی…
(المرتضیٰ ،ص:۳۲۳)
تمنا اس لئے ہو گی
تاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم
مبارک کو پورا فرمائیں…
رسول نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کئی قیمتی دعائیںدیں…ارشاد فرمایا:
اللّٰھم اجعلہ ھادیا
مھدیا واھدبہ۔ (ترمذی، وبخاری فی التاریخ)
یا اللہ ان
کو رہنما بنا، ہدایت یافتہ بنا اور ان کے ذریعہ ہدایت کو عام فرما…
ایک اور روایت میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے لئے
دعاء فرمائی…
اللھم علمہ الکتاب
والحساب وقہ العذاب۔ (مسند احمد)
یا اللہ ! انہیں کتاب اللہ کا
علم اور حساب کی سمجھ عطاء فرما اور انہیں اپنے عذاب سے بچا…
ایک دعا ء ایک وظیفہ
لیجئے! آج حضرت
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بابرکت
تذکرہ کی برکت سے ایک طاقتور وظیفہ بھی لے لیجئے…حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بڑے بہادر، جنگ آزما، نامور سپہ سالار تھے…
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی تشکیل پہلے جنگ یمامہ اور پھر شام کی
طرف فرما دی تھی… شام میں ایک سرحد پر اُن کا وصال ہو گیا… حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی جگہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کے لشکر کا امیر بنا دیا… حضرت امیر
معاویہ رضی اللہ عنہ کے جہاد اور فتوحات کی
داستان بہت طویل اور لذیذ ہے… آپ چالیس سال تک مختلف ذمہ داریوں پر رہے اور آپ کی
فتوحات میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا… وہ لوگ جو حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کچھ کینہ رکھتے ہیں وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے جہاد اور آپ کی فتوحات کی صرف ایک فہرست پڑھ
لیں تو شائد اُن کا دماغ ٹھکانے آجائے اور وہ طعن و تنقید کے گناہ سے باز آجائیں…
خیر آج صرف ایک واقعہ!!!
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا:
اما بعد! میں نے
آپ کو’’قیساریہ‘‘ کا ذمہ دار بنا دیا ہے، پس آپ اس کی طرف کوچ کریں اور اُن کے
مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں اور کثرت سے یہ پڑھیں:
’’لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ
الْعَلِیِّ الْعَظِیْم، اَللہُ رَبُّنَا، اَللہُ ثِقَتُنَا وَمَوْلَانَا فَنِعْمَ
الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْر‘‘
ہر طاقت اور ہر
قوت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے جو بلند عظمت والے ہیں، اللہ ہمارے ربّ ہیں، اللہ تعالیٰ ہی ہمارا سہارا اور ہمارے مددگار ہیں وہ
بہترین حامی اور بہترین نصرت فرمانے والے ہیں…
قیساریہ شام کا
آخری علاقہ تھا جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فتح فرمالیا… حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی کو عہدہ دینے کے معاملہ میں بہت محتاط اور
باریک بین تھے… انہوں نے حضرت معاویہ رضی
اللہ عنہ کو عہدہ دیا اور انہیں اس پر
قائم رکھا… یہ بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی امانت، صداقت، حسن تدبیر اور حسن سیاست کی ایک
بڑی دلیل ہے…
مر ؔشد کا فرمان
اس اُمت کے مجاہدین
کے ایک بڑے مرشد، حضرت عبد اللہ بن مبارک
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے کسی
کا امتحان لینا ہو کہ یہ شخص حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت رکھتا ہے یا نہیں تو اس کے لئے… کسوٹی
اور پرکھنے کا مقام حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں… پس جو اُن پر زبان درازی کرتا ہے ہم سمجھ
لیتے ہیں کہ وہ’’حبِ صحابہ‘‘ سے محروم ہے… ایک اور محدث کا قول ہے کہ جس نے حضرات
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے
ناموس پر ہاتھ ڈالنا ہووہ آغاز حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کرتا ہے… حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ… حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ
علیہ …ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم!وہ غبار جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ناک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے داخل ہوا وہ عمر بن
عبدالعزیز سے ہزار گنا افضل ہے ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے
نمازیں ادا کیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے :
’’سمع اللہ
لمن حمدہ ‘‘
تو معاویہ رضی
اللہ عنہ کہتے:
’’ربنا ولک الحمد‘‘
اب بتاؤ اس کے
بعد اور کیا چاہئے۔ (ابنِ عساکر)
ایک دلچسپ واقعہ
حضرت عمر بن العزیز
رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ
انہوں نے کسی انسان کو نہیں پیٹا… صرف ایک آدمی کو کوڑوں سے پیٹا ،یہ وہ شخص تھا
جس نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں
گستاخی بکی تھی… حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کاوہ خواب بھی بہت مشہور ہے جس میں انہوں نے قیامت
اور جنت کے مناظر دیکھے ان میں ایک منظر یہ تھا کہ… حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ رضی
اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ
عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے میں لے جایا گیا… پہلے وہاں سے حضرت علی
رضی اللہ عنہ خو ش خوش نکلے وہ فرما رہے تھے … قَدْ حُکِمَ لِیْ…
کہ میرے حق میں فیصلہ فرما دیا گیا… اُن کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خوش خوش نکلے اوروہ فرما رہے تھے… قَدْ غُفِرَلِیْ کہ مجھے معاف فرما دیا گیا:
چند ایمان افروز
عبارتیں
آج کل اسلام
آباد میں جو سیاسی ماحول ہے، اُسے دیکھ کر اور پڑھ کر دل اور دم گُھٹتا ہے… ایسے
گُھٹن زدہ ماحول میں ایک عظیم المرتبۃ شخصیت کا تذکرہ بہت سکون بخش ہے… مجھے لکھتے
ہوئے مزہ آرہا ہے اور دل چاہتا ہے کہ لکھتا ہی چلا جاؤں… ابھی تو حضرت امیر معاویہ
رضی اللہ عنہ کے بارے میں گویا کچھ بھی نہیں آیا… میں نے جو
اشارات لکھ کر رکھے تھے وہ آدھے بھی نہیں آئے… مگر کالم کی جگہ پوری ہو چکی…
حضرت ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی چند عبارات
پر آج کی مجلس مکمل کرتے ہیں…
١ یہ
امر فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کے ایک ممتاز فرد ہیں… ان کے مناقب میں
حدیثیں وارد ہوئی ہیں… جو لوگ اُن پر ’’زبان طعن‘‘ دراز کرتے ہیں… اور اُن کے
سلسلہ میں بے باکی و زبان درازی سے کام لیتے ہیں… ان کو اس امر کا پاس و لحاظ ہونا
چاہئے… کہ وہ ایک ایسے صحابی رضی اللہ عنہ ہیں جن کو قرابت کا شرف بھی حاصل ہے… (المرتضیٰ،
ص:۳۲۲)
٢
یہ بات ثابت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ
عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کاتب بنایا تھا اور آپ اپنا کاتب اسی
کو بناتے تھے جو عدل وامانت کی صفات سے متصف ہو…(المرتضیٰ: ۳۲۳)
٣ مشہور
مؤرخ مسعودی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت معاویہ
رضی اللہ عنہ کے(زمانہ امارت) کے روزانہ کے معمول کا تذکرہ
کرتے ہوئے لکھا ہے:
اُن کے یہاں دن
رات میں پانچ مرتبہ اذنِ عام(یعنی ملاقات کی عام اجازت کا نظام) تھا وہ صبح نمازِ
فجر سے فارغ ہوتے تھے تو بیٹھ جاتے اور پچھلے حوادث و واقعات کی داستان سنتے، پھر
دولت خانہ تشریف لے جاتے اور قرآن مجید کے ایک پارہ کی تلاوت کرتے، پھر مکان پر
جا کر انتظامی ہدایات دیتے، پھر چار رکعت پڑھتے اور خواص الخواص کو آنے کی اجازت
ہوتی اور اُن سے تبادلۂ خیالات کرتے، پھر مشیرانِ سلطنت حاضر ہوتے اور اُس دن کے
کرنے والے کاموں کی اطلاع دیتے، پھر کچھ ناشتہ فرماتے، پھر ایک بار گھر جا کر باہر
تشریف لے آتے، مسجد میں کُرسی لگا دی جاتی اور آپ کے پاس کمزور، بادیہ(یعنی دیہات)
کا رہنے والا اعرابی، بچہ ، عورت اور بے کس ولاوارث آدمی آتا آپ فرماتے اس کے
معاملہ کی تحقیق کرو جب کوئی باقی نہ رہتا تو مجلس سے اٹھتے، چارپائی پر بیٹھ جاتے
اور فرماتے: لوگوں کو ان کی حیثیت کے مطابق آنے دو، جب سب بیٹھ جاتے تو فرماتے کہ
صاحبو! اُن لوگوں کی ضروریات و مسائل کو ہم تک پہنچایا کرو جو خود نہیں پہنچ سکتے،
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تم کو اعزاز بخشا ہے، پھر ہر ایک کے
معاملہ اور ضرورت کے مطابق ہدایات دیتے روزآنہ کا یہی معمول تھا…
خال المؤمنین
حضرت امیر معاویہ
رضی اللہ عنہ کا ایک بہت میٹھا لقب اور
رشتہ ہم سب مسلمانوں سے ہے… وہ ’’خال المؤمنین‘‘ یعنی ایمان والوں کے محبوب اور
محترم ماموں جان ہیں… حضرات ائمہ اور محدثین اُن کو اسی لقب سے یاد کرتے ہیں… وہ
ہماری امّاں جی حضرت سیّدہ اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں… حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہماری’’اماں جی‘‘ قرار
دیا ہے… یوں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہم
سب مسلمانوں کے ’’ماموں جان‘‘ ہوگئے… آخر میں صرف دو باتیں…
١ مسندِ احمد میں ہے کہ… اپنے زمانہ امارت میں آپ
دمشق کی جامع مسجد میں خطبہ دے رہے تھے اور آپ کے کپڑوں پر پیوندلگے ہوئے تھے…
سبحان اللہ ! یہ حالت تھی لاکھوں مربع میل پر حکومت
کرنے والے عظیم انسان کی…
٢ آپ
رضی اللہ عنہ کو نماز اور قرآن پاک کے ساتھ بہت شغف اور تعلق تھا اور آپ کی نماز
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے
بہت مشابہ تھی…
رضی ﷲ تعالیٰ عنہ
وارضاہ
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علٰی سیّدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مولاناحضرت شاہ حکیم
محمد اختر صاحب نور اللہ مرقدہٗ
حضرت
اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب نوراللہ مرقدہٗ کا محبت بھرا تذکرہ…
جماعت کے ایک مخلص
اور قدیم ساتھی…ڈاکٹر جمیل کاشف صاحب کا سانحہ ارتحال…
ان
کے بعض فضائل کا تذکرہ…بیعت علی الجہاد پرپختگی… مجاہدین کی خدمت…
حضرت
حکیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا سفرِ
افغانستان اور اس کی یادیں…
بذلہ سنجی کے
واقعات…ذوقِ ہدایا…
اپنے مرشد سے محبت
اور تعلق…متکلمِ اسلام … اصلاحی واقعات…
ایک اللہ والے
بزرگ کی زندگی کے حسین گوشوں کی پردہ کشائی…
مولاناحضرت شاہ حکیم
محمد اختر صاحب نور اللہ مرقدہٗ
اللّٰھم بارک لنا
فی رجب و شعبان وبلغنارمضان
آج
رجب المرجب۱۴۳۴ھ کی آخری رات ہے… کل مغرب سے ان شاء اللہ ’’شعبان المعظم‘‘ کا مہینہ شروع ہو جائے گا… رجب
اور شعبان کے مہینوں سے رمضان المبارک کی خوشبو آتی ہے… اُمت مسلمہ اچھے کی آس
اور امید میں ہے… ان شاء اللہ یہ اُمید ضرور پوری ہوگی… برما کے حالات پڑھنا،
سننا اور لکھنا بے حد مشکل ہے… ظلم،بہت ہی بڑا ظلم، اُن کے لئے دل دعائیں مانگتا
ہے اور بازو کچھ کر گزرنے کو مچلتے ہیں… شام کے حالات بھی انتہائی دردناک ہیں… ایران
اور حزب اللہ نے مظالم کی حد کر دی ہے… اور بشار الاسد تو ہے
قاتل ابن قاتل… اللہ تعالیٰ اس قاتل کو مقتول بنائے کہ مسلمانوں کو
راحت ملے… باتیں اور بھی بہت ہیں… مگر آج اپنے ایک مرحوم دوست اور ایک مرحوم بزرگ
کا تذکرہ… ڈاکٹر جمیل کاشف صاحب ہماری جماعت کا قیمتی اثاثہ تھے… الحمدﷲ کئی
مسلمانوں نے جماعت سے فائدہ اٹھایا… بعض تو ایسے ہیں جو کسی عہدے پر نہیں… مگر
ابتداء سے لے کر اب تک جماعت کی تمام کتابیں، تمام مضامین اور تمام مکتوبات انہوں
نے پڑھے… ہر مہم میں پورا حصہ لیا… ہردعوت پر لبیک کہی… اور ہر پیغام کو قبول کیا…
یہ وہ حضرات و خواتین ہیں جو اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ جماعت ایک دینی نعمت ہے، ایک
دینی کام ہے… اور جماعت اُن کے لئے خیر اور نیکی کی رہنما ہے… اُن کو اس بات کی
کوئی پرواہ کبھی نہیں رہی کہ جماعت میں کون آیا اور کون گیا… وہ جانتے ہیں کہ بیعت
صرف ایک سے ہوتی ہے اور بیعت کا مطلب کیا ہے… ایسے لوگ ہمیشہ خوش، مطمئن اور
آسودہ رہتے ہیں اور جماعت کے ذریعہ ملنے والی نعمتوں سے جھولیاں اور نامہ اعمال
بھرتے رہتے ہیں… کلمہ کی آواز لگی تو انہوں نے اُس دن کے بعد سے ایک دن بھی بارہ
سو بار کلمہ کا ناغہ نہ کیا… نمازکی آواز لگی تو انہوں نے تکبیرِ اولیٰ کے چلّوں
سے اپنا نامہ اعمال وزنی کرنا شروع کر دیا… رنگ و نور میں جو دعاء بھی شائع ہوئی
انہوں نے لپک کر سینے سے لگالی اور اپنے اعمال میں سجا لی… انفاق فی سبیل اللہ کی
آواز لگی تو انہوں نے عطیات، صدقات اور خیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا… اور جہاد
تو الحمدﷲ جماعت کی بنیادی دعوت ہے جس کے ساتھ یہ حضرات و خواتین ایمانی جذبے کے
ساتھ جڑے ہوئے ہیں… اللہ تعالیٰ اس گلشن کی حفاظت فرمائے اور اسے ایمان
اور تقویٰ کی بنیادوں پر قائم رکھے… ڈاکٹر جمیل کاشف صاحب بھی ایسے افراد میں شامل
تھے جن کے نزدیک جماعت، دنیا نہیں آخرت کے لئے تھی… وہ پہلی ملاقات ہی میں
آنکھوں کو بھا گئے اور پھر تیرہ سال تک کبھی آپس میں کوئی رنج و شکوہ نہیں ہوا…
وہ آخری سانس تک کام سے جڑے رہے اور الحمدﷲ انہیں آخری وقت بہترین انداز میں’’
کلمہ طیبہ‘‘ نصیب ہوا… اُن کو بہت شوق تھا کہ میرے درد کمر کا اپنے ہاتھوں سے علاج
کریں… بار بار کئی ذرائع سے انہوں نے پیغام بھیجا… اُن کی بے چینی سے یوں لگتا تھا
کہ درد مجھے نہیں اُنہیں ہے… انتقال سے محض چار پانچ دن پہلے پھر اصرار کیا… مگر
بندہ مسافر و مجبور، اپنے محبت کرنے والے دوستوں کو دعائیںہی دے سکتا ہے… اُن کے
اچانک انتقال کی خبر سے بہت صدمہ ہوا… آج الحمدﷲ پورے ملک کے تمام ساتھیوں نے اُن
کے ایصال ثواب کی مجالس قائم کی ہیں… عجیب خوش نصیبی ہے کہ… جو بھی ڈاکٹر صاحب کا
تذکرہ کرتا ہے تو اُن کے احسانات کو یاد کرتا ہے… ابھی پیغام ملا کہ جب ڈاکٹر صاحب
رحمۃ اللہ علیہ کو ہسپتال لیجایا جارہا
تھا تو انتقال سے چند لمحات پہلے انہوں نے اپنے مال میں سے جماعت کے لئے وصیت کی…
حالانکہ نہ مالدار تھے نہ تاجر و سرمایہ دار… اور پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے… مگر دین
اور جماعت کی محبت اور نیکی کرنے کا جذبہ اُس وقت بھی قائم تھا جب لوگ سب کچھ بھول
جاتے ہیں… اور موت کی گرمی اُن کو پگھلا رہی ہوتی ہے… اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بہت مغفرت، اکرام اور
رحمت والا معاملہ فرمائے… مجھے الحمدﷲ حقیقت میں اُن سے محبت فی اللہ تھی…
اُن کے گھر والے اور بچے غمزدہ تو بہت ہیں مگر اُن کو اپنے مستقبل کے حوالے سے
ہرگز تشویش نہیں رکھنی چاہئے… ایسے صالح اور ولی اللہ مسلمانوں کے بچوں کی کفالت، حفاظت اور تربیت… اللہ تعالیٰ
کی طرف سے بہت اکرام کے ساتھ ہوتی ہے… ڈاکٹر صاحب نے مال نہیں بنایا، اللہ تعالیٰ سے دوستی بنائی اور اللہ تعالیٰ ہی سب کے رزاق، کفیل، وکیل اور ربّ
العالمین ہیں…
ڈاکٹر صاحب! آپ
پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی اوررحمت ہو… اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی مغفرت فرمائے… آپ آگے
چلے گئے ہم ان شاء اللہ پیچھے آتے ہیں ہم سب اللہ تعالیٰ کے ہیں… اور ہم سب نے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے…
انا للہ وانا الیہ
راجعون… اللّٰھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منھا
اب تذکرہ مرحوم
بزرگ ہستی کا… جی ہاں! حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب نور اللہ مرقدہٗ
اُن کے ساتھ وابستہ یادوں کو ایک کالم میں سمیٹنا بہت مشکل ہے… کئی سال تک
اُن سے بہت قریبی تعلق رہا… آٹھ دن تک ایک سفر میں بھی رفاقت رہی… اس سفر کا روٹ
کچھ یوں تھا کہ کراچی سے پشاور، پشاور سے بنوں، بنوں سے میران شاہ… میران شاہ سے
افغانستان کا سرحدی علاقہ ژاور… ژاور سے خوست، خوست سے گردیز… اور پھر اسی روٹ سے
کراچی تک واپسی… ایسا دلکش اور ہرا بھرا سفر کہ واپسی پر بندہ نے اس کی مفصّل روئیداد
لکھی جو ماہنامہ صدائے مجاہد میں شائع ہوئی… اس سفر کی چند دلچسپ جھلکیاں ملاحظہ
فرمائیں…
ذہن سازی شروع ہو
گئی
کراچی
سے پشاورکی پرواز علی الصبح تھی… فجر کی نماز ائیرپورٹ کے لاؤنچ کی مسجد میں ادا
کی… امامت کے لئے حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے
بندہ کو آگے دھکیل دیا… بندہ نے دونوں رکعتوں میںجہادی مضامین کی آیات پڑھیں…
سلام پھیرتے ہی حضرت بہت گہرا مسکرائے اور تمام حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا… لو
بھائی! ائیر پورٹ سے ہی ہماری ذہن سازی شروع کر دی گئی ہے… حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی گہری مسکراہٹ وہ ہوتی تھیں جن میں حضرت کی
آنکھیں اُن کے ہونٹوں سے بھی زیادہ مسکراتی تھیں…
بعدما أماتنا
پشاور سے بنوں کا
سفر پی آئی اے کہ ایک پرانے فوکر پر تھا… راستے کا موسم بھی خراب تھا… فوکر نے
خوب قلابازیاں کھائیں…کبھی بادلوں سے الجھ جاتا تو کبھی دھڑام سے کچھ نیچے ہوجاتا…
حضرت رحمۃ اللہ علیہ ذکر میں مشغول رہے…
بالآخر فوکر بنوں پر اُتر گیا، جیسے ہی وہ رکا تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی آواز گونجی
الحمدللہ الذی أحیانا
بعد ما أماتنا
’’تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی
عطاء فرمائی‘‘
یہ دعاء سنتے ہی جہاز کے اندر ماحول خوشگوار ہوگیا… اور کئی افراد جو زیادہ
خوفزدہ تھے اب زور زور سے ہنس رہے تھے…
ھدایا کا ذوق
کراچی سے پشاورکی
پرواز میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے بندہ کو
اپنے ساتھ والی سیٹ پر بٹھا لیا… اور خادم خاص کچھ فاصلے پر چلے گئے… فرمایا: ہمیں
مولانا! سے کچھ کام ہیں… ماشا ء اللہ اس سفر میں ایسی دلچسپ گفتگو ہوئی کہ معلوم ہی
نہ ہوا اور دو گھنٹے گذر گئے… ایک تو اختیاری مال کا مسئلہ سنایا… فرمایا :ہمارے
کچھ دوستوں نے ہم کو کچھ رقم دی ہے اور اختیار دیا ہے کہ ہم جس کو چاہیں دے دیں…
اب ہم اس رقم کے بارے میں آزاد ہیں کہ اپنی ذات کے علاوہ جس کو چاہیں دے سکتے ہیں…
جہاد میں تو بہت لوگ دیتے ہیں مگر مجاہدین کے جو ذمہ دار ہوتے ہیں، جن سے سارا کام
چلتا ہے آخر اُن کے بھی تو کچھ اخراجات ہوتے ہیں… کبھی چھت ٹپک گئی، کبھی گھر میں
کوئی بیمار پڑ گیا… اب اگر اُن کے پاس حلال مال نہیں ہوگا تو جو کمزور ہیں وہ خیانت
کر بیٹھیں گے جس سے اُن کا جہاد خراب ہو جائے گا… اور جو عزم والے ہیں وہ تکلیف
اٹھائیں گے… اس لئے ہم تو یہ ساری رقم مجاہدین کے ذمہ داروں کو دیں گے… آپ نام
بتاتے جائیں ہم لفافے بناتے جائیں گے… پھر کئی لفافے بنائے اُن پر خود نام تحریر
فرمائے… پھر خوب گہرا مسکرا کر فرمایا اب ایک اہم لفافہ آرہا ہے… ایک لفافے میں
پانچ ہزار روپے ڈالے اور اس پر لکھا… برائے نکاح حضرت مولانا………یعنی آگے بندہ کا
نام… فرمایا اب نکاح بھی ہوجائے گا…
اپنے مرشد کا
تذکرہ
حضرت شیخ
مولاناعبدالغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت حکیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا عجیب تعلق تھا… شائد ہی کسی مرید نے اپنے شیخ
کے ساتھ اس زمانے میں ایسی محبت یا وفا کی ہو جو حضرت حکیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سے کی… مسلسل سولہ سال ان کی خدمت میں ایک غلام
اور نوکر کی طرح رہے… اور خو د کو ایسا مٹایا کہ پھر اس مٹانے پر یہ شان پائی کہ
آپ کا جنازہ دیکھ کر حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے کی یادیں تازہ ہو گئیں… سفر جہاد کے
دوران بھی حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ… مسلسل جاری رہا، خصوصی طور پر اُن کے
شوق جہاد اور ان کی حربی مہارت کا والہانہ تذکرہ فرما کر دلوں کو گرماتے رہے…
بس آج اس سفر کی یہ
چند جھلکیاں کافی ہیں… دراصل ا للہ تعالیٰ نے ہم پر یہ احسان فرمایا کہ اُن دنوں
حضرت حکیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ
قُرب اور تعلق عطا ء فرمایا جن دنوں اُن کے گرد زیادہ رش اور بھیڑ نہیں تھی…
الحمدللہ گھنٹوں کے حساب سے کھلا وقت ملتا… کئی دفعہ بندہ کے ساتھ خانقاہ سے مدرسہ
بھی تشریف لے جاتے … اُن دنوں بندہ کے پاس ایک وقف گاڑی ہوتی تھی… سارا راستہ علمی
اور روحانی نکتے اور مفید مزاح کا سلسلہ جاری رہتا… ایک بار دہلی کالونی بھی تشریف
لائے… شمیم مسجد میں ہونے والے اس بیان کو لوگوں نے بہت شوق، خوشی اور حیرت سے سنا…حیرت
اس پر کہ ماشاء اللہ بہت عمدہ بیان فرماتے تھے… الفاظ کو قافیہ بندی اور تسلسل کے
ساتھ جوڑنا، ہر مضمون کو ایک خلاصے میں قید کر لینا… برموقع اشعار پڑھنا… ایک لمحہ
ایسا لطیفہ کے قہقہے ہی قہقہے اور دووسرے لمحے خود حضرت کی آنکھوں کے آنسو داڑھی
کی طرف رواں… اور مجمع کے سر بھی گھٹنوں میں… بندہ ایک بار ایک مفتی صاحب رحمۃ
اللہ علیہ کو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں لے کر گیا… وہ غالباً پہلی بار آئے
تھے… حضرت نے دومضامین بیان فرمائے… وہ مفتی صاحب میرے کان میں کہنے لگے… یہ ہیں
متکلم، بالکل متکلم اسلام… کوئی بولے تو ایسا بولے…
اس
پر ایک لطیفہ یاد آگیا… کئی بار ایسا ہوتا کہ ملاقات کے دوران کھانے کا وقت ہو
جاتا تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کھانا منگوالیتے…
صفائی، سلیقہ، طب، حکمت اورطرح طرح کی نعمتیں اُن کے دسترخوان پر نظر آتی تھیں… ایک
بڑی عمر کے بزرگ بھی ایک ڈونگے کو احتیاط سے تھامے ہوئے کھانے میں شریک ہوجا تے
تھے… وہ اُس ڈونگے کو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے رکھ کر کھول دیتے… ایک بار حضرت خوب
مسکرائے اور فرمایا!ہم الحمدللہ ہر مضمون بیان کرلیتے ہیں مگر ایک مضمون ہم سے ٹھیک
طرح بیان نہیں ہو پاتا… معلوم ہے وہ کونسا مضمون ہے؟ پھر خود فرمایا!وہ مضمون یہ
ہے کہ یہ صاحب جو پکوان اس برتن میں لاتے ہیں وہ صرف ہمارے لئے ’’خاص ‘‘ ہوتا ہے…
ہم نے بہت کوشش کی مگر ایسے الفاظ اور دلائل نہیں مل پاتے کہ یہ مضمون سمجھا سکیں…سب
حاضرین ہنسنے لگے حضرت نے اُس پکوان میں سے ایک ایک چمچ سب کو تقسیم کیا… وہ ان
باباجی کا کوئی طبّی قیمتی پکوان تھا…جو بڑی محنت اور خرچے سے تیار ہوتا تھا اور
صحت کے لئے نافع تھا… ا للہ تعالیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو بہت جزائے خیر عطاء فرمائے انہوں نے بہت شفقتیں
فرمائیں… اور بہت کچھ سمجھایا اور سکھایا… الحمد للہ اُمت مسلمہ کو حضرت رحمۃ اللہ
علیہ کی ذات سے بہت فائدہ پہنچا… اُن کے
مواعظ، اُن کی تصنیفات اور اُن کی مجالس سے بے شمار انسانوں کور وشنی ملی… حضرت
رحمۃ اللہ علیہ کی یادوں اور باتوں کا ایک
پورا ذخیرہ الحمدللہ بندہ کے دل و دماغ میں محفوظ ہے… بندہ نے ابتداء میں جو
’’رسائل‘‘لکھے ان میں مصنف کے نام کے ساتھ ’’مولانا‘‘ نہیں لکھا جاتا تھا… ایک بار
حضرت نے بلوایا اُن کے ہاتھ میں چند رسائل تھے… پہلے تو اُن کی تعریف اور بندہ کی
حوصلہ افزائی فرمائی… پھر فرمایا کہ آپ سے تعارف سے پہلے ہم نے یہ پڑھ لئے تھے،
بہت پسند آئے مگر ہم ڈرتے رہے کہ لکھنے والا کوئی مستند عالم ہے یا کوئی بابو؟…
آپ اپنے نام کے ساتھ مولانا لکھا کریں… اُن کے حکم پر اگلے ایڈیشن میںمولانا کا
اضافہ کر دیا گیا… حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے
ہمیں تو’’مولانا‘‘ بنا دیا مگر ہم سے ایک بار یہ غلطی ہوئی کہ صدائے مجاہد کے
سرورق پر اُن کے نام کے ساتھ ’’مولانا‘‘ نہیں لکھا… تب حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے تو کچھ نہیں فرمایا البتہ اُن کے خادم خاص
جناب میر صاحب نے خوب احتجاج کیا… اور فرمایا! ہمارے شیخ جاہل صوفی نہیں بلکہ
الحمدللہ عالم ہیں… میر صاحب کی بات بالکل ٹھیک تھی… حضرت حکیم صاحب رحمۃ اللہ
علیہ اپنے اکابر کی محبت میں منجھے ہوئے
مستند عالم دین تھے… وہ عربی عبارات بہت سلیقے سے پڑھا کرتے تھے… فتاویٰ کے معاملے
میں ان کی شرط تھی کہ مفتی بھی ہو اور متقی بھی ہو… ایک بار کچھ عربی مہمانوں
کوحضرت رحمۃ اللہ علیہ کے پاس لے کر گیا
تو ماشاء اللہ بہت عمدہ عربی میں اُن سے گفتگو فرمائی…
آہ! حضرت مولانا
شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی چلے گئے…
اللّٰھم لا تحرمنا
اجرہ ولا تفتنا بعدہ
سب نے جانا ہے… سب
ہی چلے جائیں گے… ا للہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان کامل کے ساتھ حسن خاتمہ نصیب
فرمائے… آمین
سبحان ﷲ
والحمدللہ، ولا الہ الا ﷲ وﷲ اکبر
ولا حول ولا قوۃ
الا باللہ العلی العظیم
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
ماہِ مبارک کی تیاری
رمضان المبارک کی
آمد سے قبل اسکی تیاری کی طرف توجہ…
شیطان
شکن…وساوس کش نعرہ…
اللہ
اکبر.....اللہ اکبر.....اللہ اکبر .....
وساوس کا آنا
علامتِ ایمان… اماں عائشہ رضی اللہ عنہا
کا واقعہ اور تعلیم…
وساوس کے چند اور
علاج…احادیث مبارکہ سے…
عبادت…آخرت کی تیاری
ایک لازمی ذمہ داری…
عقلمندلوگوں
کاطرزعمل…
ایسے اعمال جن کا
اجر مرنے کے بعدبھی جاری رہے…
ایک ایمان افروز
واقعہ اور چند اشعار…
سورۃالبقرۃ میں
پوشیدہ کامیابی کے بڑے بڑے راز…
شعبان میںرمضان کی
تیاری کے حوالے سے
بعض اعمال کی طرف
توجہ کریں…
ماہِ مبارک کی تیاری
اللہ تعالیٰ ایک ہے، اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے، نہ کوئی اُن سے پیدا ہوا اور
نہ وہ کسی سے پیدا ہوئے… اور کوئی بھی اُن جیسا یا اُن کے برابر نہیں…
سبحان ﷲ،
والحمدللہ، لاالہ الا ﷲ، وﷲ اکبر
شیطان شکن نعرہ
شیطان بڑی محنت سے
انسان کے دل میں بہت بُرے وساوس ڈالتا ہے… کبھی کفریہ وسوسے، کبھی مایوسی کے وسوسے
اورکبھی خطرناک گناہوں کے… ایسے وسوسے کہ انسان اوندھا گر جاتا ہے کہ میں کتنا
ناکام انسان ہوں کہ ایسی باتیں سوچتا ہوں… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا کہ اللہ کے
بندو! ایسے وسوسے تو اس بات کی علامت ہیں کہ تم ایمان والے ہو… پس خوشی میں نعرہ
لگاؤ اور وہ بھی تین مرتبہ… اللہ اکبر.....اللہ
اکبر.....اللہ اکبر .....
حضرت شہر بن حوشب
فرماتے ہیں کہ میں اپنے ماموں کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی خدمت میں
حاضر ہوا اور عرض کیا… ہم میں سے کسی کے دل میں ایسی بات آتی ہے کہ اگر وہ اُسے
کہہ دے تو اس کی آخرت برباد ہو جائے اور اگر وہ بات(لوگوں کے سامنے) ظاہر ہو جائے
تو اس کی وجہ سے قتل کر دیا جائے… یہ سن کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے تین بار تکبیر کہی… اللہ اکبر.....اللہ
اکبر.....اللہ اکبر .....
پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:
اگر تم میں سے کسی
کو ایسی صورت پیش آئے تو وہ تین بار تکبیر کہے کیونکہ ایسے خیالات صرف ایمان
والوں کو ہی آتے ہیں۔ (الادب المفرد)
لیجئے! وساوس کا
علاج مدینہ منورہ سے آگیا…
تین بار پورے ایمان
کے ساتھ اللہ اکبر.....اللہ اکبر.....اللہ اکبر ...… علاج اور بھی کئی ارشاد
فرمائے ہیں… ایک روایت میں فرمایا: اٰمنت باللہ ورسلہ کہہ دو… یعنی جیسے ہی شیطان
نے وسوسے کا تیر دل پر چلایا فوراً کہہ دو
اٰمَنْتُ بِاللہِ
وَرُسُلِہ
کہ میں
ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر…
ایک اور حدیث میں
سمجھایا کہ وسوسہ کا حملہ ہو تو فوراً کہو
قُلْ ھُوَ اللّٰہُ
اَحَدٌ اَللٰہُ الصَّمَدُ
پوری سورۃ ہی پڑھ
لیں اور بائیں طرف تھوک دیں اور اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں…
اَعُوْذُ بِاللہِ
مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم
یاد رکھیں!وسوسے
سے نہ وضو ٹوٹتا ہے، نہ روزہ ٹوٹتا ہے، نہ کوئی حد یا سزا جاری ہوتی ہے… نہ ایمان
ختم ہوتا ہے اور نہ دین میں فرق پڑتا ہے… لیکن اگر وسوسے کو پکا دل میں بٹھالیا… یا
اپنا عمل بنا لیا یا اپنی کم علمی کی وجہ سے وسوسے کو الہام سمجھ کر دھوکے میں پڑ
گئے تو پھر خطرناک ہے بہت خطرناک… اس لئے ضرورت ہے کہ کلمہ طیبہ پکا کریں… دین کا
علم سیکھیں اور خود کو بے کار اور فارغ نہ چھوڑیں… ماشاء اللہ رمضان المبارک کا کمائی والا مہینہ آرہا ہے…
پیشگی تیاری
ایک آسان سی بات
سمجھیں… انسان کو دُنیا میں ’’عبادت‘‘ کے لئے بھیجا گیا…
وَمَا خَلَقْتُ
الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
عبادت کا معنیٰ… اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری، تابعداری… جو حکم بھی اللہ تعالیٰ نے دیا اُسے بجا لانا… انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک محدود سی عمر دی ہے… بالغ ہونے کے
بعد کی عُمر میں جوٹھیک ٹھیک’’عبادت‘‘ کر لے گا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کامیاب ہو
جائے گا… کسی کے پاس دس سال ہیں کسی کے
پاس بیس سال… اور کسی کے پاس کچھ کم ، کچھ زیادہ… ایمان بھی عبادت، نماز بھی
عبادت، روزہ، حج، جہاد بھی عبادت… حرام سے بچنا بھی عبادت… وغیرہ وغیرہ…اب جو
انسان مرجاتا ہے اُس کا نامۂ اعمال بند ہوجاتا ہے… مگر کچھ عقلمند انسان ایسے ہیں
جو ایسی نیکیاں کر جاتے ہیں کہ… وہ خود تو مر جاتے ہیں مگر ان کی ’’عبادت‘‘ جاری
رہتی ہے… سبحان اللہ ! زندہ تھے تب بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت… اور مر گئے اب بھی عبادت جاری
ہے… ایسے لوگ بڑی کامیابی پاجاتے ہیں…
اسے ایک حکایت کی
روشنی میں سمجھیں… کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک نبی علیہ السلام کی خدمت میں ایک چھوٹا سا بچہ حاضر ہوا اور
کہنے لگا… حضرت! میرے لئے مالداری کی دعاء فرما دیجئے… یعنی میں ’’مالدار‘‘ بن
جاؤں… نبی علیہ السلام نے بچے کا امتحان لینے کے لئے پوچھا کہ… تم اپنی
زندگی کے پہلے تیس سال مالدار ہوناچاہتے ہو یا آخری تیس سال؟… بچہ بہت ذہین تھا
کہنے لگا حضرت سوچ کر عرض کرتا ہوں… واقعی سوچنے کی بات تھی کیونکہ جوانی میں مال
انسان کے بہت کام آتا ہے… مگر بڑھاپے میں انسان مال کا زیادہ محتاج ہوتا ہے… جوانی
میں مال حاصل کرنے کی استعداد اور صلاحیت انسان میں ہوتی ہے… جبکہ بڑھاپے میں یہ
صلاحیت موجود نہیں رہتی… جوانی میں انسان کے پاس ما ل نہ ہو تو زندگی کی ساری اُ
منگیںادھوری رہ جاتی ہیں… لیکن اگر بڑھاپے میں انسان کے پاس مال نہ ہو تو اپنی
اولاد بھی پہچاننے سے انکار کر دیتی ہے… الغرض دونوں طرف کے دلائل موجود تھے اور زیادہ
دلائل اس بات کے تھے کہ زندگی کے آخری حصے میں انسان کے پاس مال ہو تو آسانی رہتی
ہے… کیونکہ بڑھاپا اور غربت دو عذاب اکٹھے ہو کر انسان کو توڑ دیتے ہیں… لو گ یہی
سمجھ رہے تھے کہ بچہ ذہین ہے اور وہ زندگی کے آخری تیس سالوں کے لئے ’’مالداری‘‘
کی دعاء کرائے گا… اگلے دن بچہ حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ حضرت! زندگی کے پہلے تیس
سالوں کے لئے مالداری کی دعاء فرمادیں… سب لوگ حیران رہ گئے کہ اس نادان نے اپنے بڑھاپے
کو خرا ب کر دیا… جبکہ بچے کی دلیل یہ تھی کہ پیسہ تو جوانی ہی میں کام آتا ہے…
اور یہ بھی معلوم نہیں کہ عمر کتنی ہے… مگر اصل بات اُس بچے کے دل میں پوشیدہ تھی…
لوگوں نے تاریخ لکھ لی کہ تیس سال بعد اس بچے کو دیکھیں گے کہ… غربت و فقیری میں
کہاں تک گرتا ہے… تیس سال گزر گئے… لوگوں نے جا کر دیکھا تو وہ پہلے سے بھی زیادہ
مالدار، خوشحال اور ہشاش بشاش تھا… لوگوں نے پیغمبر علیہ السلام کو جا کر بتایا انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگی کہ… یاا ﷲ! آپ نے تیس سال
مالداری کا وعدہ فرمایا تھا مگر وہ اس کے بعد بھی مالدار ہے… جواب آیا کہ جا کر
پتا کریں کہ اُس نے مالداری والے تیس سال کیسے گزارے؟… پیغمبر علیہ السلام نے تحقیق فرمائی تو معلوم ہوا کہ وہ شخص جیسے ہی
مالدارہوا اُس نے نیکی اور سخاوت کے دونوں ہاتھ پوری طرح کھول دیئے… وہ صرف غریبوں
کی مدد ہی نہیں کرتا تھا بلکہ غریبوں کو پورے پورے کاروبار کرا کے دے دیتا… یتیموں
کی کفالت کرتا، یتیم بچیوں کی شادیاں کراتا… اور عبادت اور نیکی کے کاموں میں خرچ
کرنے میں تو اس کی کوئی حد ہی نہیں تھی…بس خیر اور نیکی نظر آتے ہی بے تحاشا مال
خرچ کرتا… گویا اس نے اپنے مالداری کے ایام
میں ایسی انویسٹمنٹ کر لی تھی کہ… آسمانی خزانوں کے دروازے بھی اُس کے لئے کھل
گئے… اب تیس سال تو کیا وہ مزید جتنا بھی زندہ رہتا اس کے لئے کمی کاکوئی اندیشہ
نہیں تھا… اور اس کی آخرت بھی سنور گئی… یہی حال انسان کی عمر کا ہے… زندگی کے
اوقات کو اگر قیمتی بنایا جائے ، سستی اور غفلت میں عمر ضائع نہ کی جائے تو یہ عمر
اتنی لمبی ہوجاتی ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد بھی… اُس کا اصل کام(یعنی ’’عبادت‘‘
کا عمل) جاری رہتاہے… اور قیامت تک اُس کے نامۂ اعمال میں نیکیاں جمع ہوتی رہتی ہیں…
ایسے اعمال کو’’صدقہ جاریہ‘‘ کہا جاتا ہے… حدیث شریف میں کئی اعمال کو ’’صدقہ جاریہ‘‘
قرار دیا گیا ہے… علامہ عبد الباقی الخلیلی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پانچ اشعار میں چند ایسے اعمال شمار کئے
ہیں…
اذا مات ابن آدم
جاء یجری
3
علیہ الأجر عدّ
ثلاث عشر
وراثۃ مصحف ورباط
ثِغر
3
وحفر البئر أو
اجراء نھر
وبیت للغریب بناہ یأوی
3
الیہ اوبناء محل
ذکر
و تعلیم لقرآن کریم
3
شہید للقتال لأجر
بتر
کذا من سنّ صالحۃ
لینفضی
3
فخذھا من أحادیث
بشعر
یعنی جب انسان
مرجاتا ہے تو یہ چند اعمال ایسے ہیں جن کا اجر اُس کے لئے جاری رہتا ہے…
١ وراثت
میں قرآن کریم کا نسخہ چھوڑ جانا… یعنی قرآن مجید کی کتابت کی اور وہ چھوڑ گیا… یا
اپنی اولاد یا کسی کو قرآن مجید کا نسخہ دے گیا۔
٢ اسلامی
سرحد کی جہادی پہرے داری کرنا… جہاد میں رباط یعنی پہرے داری کی بہت فضیلت ہے کیونکہ
یہ بہت مشکل ، صبر آزما اور محنت طلب کام ہے… اور اس کے فوائد بے شمار ہیں… جہاد
میں پہرے داری کرنے والا چونکہ پورے اسلام کی حفاظت کرتا ہے اس لئے اُسے دنیا بھر
میں ہونے والے تمام نیک اعمال کا اجر ملتار ہتا ہے… اور مرنے کے بعد بھی جاری رہتا
ہے… یعنی جب تک اسلام رہے گا اس کا عمل جاری رہے گا…
٣ کنواں
کھودنا اورجاری کرنا…
٤ نہر
جاری کرنا…
٥ مسافروں
کے لئے گھر بنانا جہاں وہ رہا کریں…
٦ ذکر
اللہ کے لئے کوئی جگہ بنانا یعنی مسجد، مدرسہ وغیرہ…
٧ قرآن
مجید کی کسی کو تعلیم دینا…
٨ جہاد
میں سچی نیت سے شہید ہونا…
٩ نیکی
کا کوئی کام جاری کر جانا وغیرہ وغیرہ…
یہ فہرست کافی طویل
ہے… اللہ کرے مسلمان سورہ بقرہ کو سمجھیں اس میں کامیابی
کے بڑے بڑے راز چھپے ہوئے ہیں بار بار تلاوت، بار بار پڑھنے اور پڑھانے سے اور
دعاء مانگنے سے وہ راز کھلتے جاتے ہیں… انسان جو مال بھی دل کی خوشی سے کسی اچھے
کام میں خرچ کرتا ہے وہ مال اُسے ضرور واپس لوٹایا جاتا ہے… اصل اجر تو آخرت میں
ملے گا، دنیا میں بھی تنگی نہیں آتی… یہ راز بہت سلیقے سے سورہ بقرہ نے سمجھایا…
اب اگر دنیا بھر کے مسلمان اس راز کو سمجھ کر اس پر عمل کریں تو کیا مجاہدین کو
چندہ مانگنا پڑے گا؟… مساجد کے لئے جھولیاں پھیلانی پڑیں گی؟… مدارس کے لئے
مالداروں کے دروازوں پر جانا پڑے گا؟… ہر گز نہیں… مسلمانوں کے پاس کھربوںڈالر ہیں…
وہ یہ لگا دیں تو دنیا میں اُن کو کئی گنا زیادہ ملے گا… اور آخرت میں بے شمار…
دنیا میں جو ملے اُسے وہ پھر لگا دیں… یہی سلسلہ چلتا رہے تو ہر طرف کتنی خیر و
برکت نظر آئے… مگر چونکہ یہ راز ہے اس لئے لوگ نہیں سمجھتے اور جمع کرنے کی فکر میں
پڑے رہتے ہیں… خیر… رمضان المبارک آرہا ہے… کچھ پیشگی تیاری کر لی جائے… سب سے
پہلے نمازوں کا معاملہ درست ہو جائے… ابھی سے تکبیر اولیٰ کی پابندی… تلاوت میں
قابل قدر اضافہ ہو جائے… شعبان میں چند روزے رکھ کر اپنے بدن کو تیاری کا کہہ دیا
جائے… عید کی خریداری شعبان میں کر لی جائے تاکہ رمضا ن المبارک کے آخری عشرے کے
قیمتی اوقات ضائع نہ ہوں… اور ر مضان المبارک میں جہاد فی سبیل اللہ … اور دیگر دینی کاموں میں زیادہ سے زیادہ
مال لگانے کی ابھی سے ترتیب بنالی جائے…
اَللّٰھُمَّ
بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَان
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا ﷲ محمد
رسول ﷲ
٭٭٭
منگتا
ہم سب اللہ تعالیٰ
سے مانگیں کہ وہ ہمیں اپنا ’’منگتا‘‘ بنالے …
ہدایت سب سے بڑی
دولت …
ہدایت سب مانگتے ہیں
مگر کیا وہ سب کو مل جاتی ہے؟…
اپنے ہدایت یافتہ
ہونے کے زعم میں مبتلا تین بدبخت ترین انسان…
ہدایت کی دعاء
قبول نہ ہونے کی وجہ … زبان درازوں کا انجامِ بد…
اللہ تعالیٰ کی
عظمت دلوں میں بٹھائیں…
’’ عبادت‘‘ زعم میں مبتلا نہ کرے…
ہر انسان اللہ
تعالیٰ کے فضل کا خود کو محتاج سمجھے…
ہدایت کی دعاء کس
طرح قبول ہوگی؟… مقبول دعاء کی کیفیت…
قبولیتِ دعاء کا
راستہ سمجھانے والی ایک رہنما تحریر
منگتا
اللہ
تعالیٰ جسے چاہتے ہیں’’ہدایت‘‘ عطاء
فرماتے ہیں…
یا اللہ یا ھادی
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ
ہدایت کی دعاء ہم
روز مانگتے ہیں… ایک بار نہیں بلکہ بار بار… نماز کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے
ذریعہ’’ہدایت‘‘ کی دعاء ہر مسلمان مانگتا ہے…
اِھْدِنَا
الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ
کیا
ہر کسی کو’’ہدایت‘‘ مل جاتی ہے؟… بڑے بڑے گمراہ لوگ، جن کی گمراہی میں شک کرنا بھی
گناہ ہے… وہ بھی عمر بھر کہتے رہے… اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ…
کعبہ شریف جیسی
مقدس جگہ… خیر القرون جیسا بہترین زمانہ اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین جیسے ہدایت کے ستارے جس وقت چاروں طرف جگمگا رہے تھے… اس وقت تین افراد
کعبہ شریف میں بیٹھ کر قرآن عظیم جیسی کتاب پر حلف لے رہے تھے کہ… ہم نے حضرت سیدنا
علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا
ہے… اس وقت اسلام اور مسلمانوں کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ نعوذب اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں…تینوں خبیث مجرم باوضو تھے، قرآن کے قاری
تھے اور بہت عبادت گزار بھی…مگر مشورہ یہ چل رہا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنا ہے… حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو شہید کرنا ہے… ان میں سے کسی کو ایک رائی کے
دانے برابر بھی اپنی حقانیت میںشک نہیں تھا… انہیں یقین کامل تھاکہ وہ حق پر ہیں،
وہ سچے ہیں اور وہ اسلام کی ایک بڑی تاریخی خدمت کرنے جارہے ہیں…
میرے آقا صلی
اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی خبر ارشاد فرما
دی تھی کہ سابقہ امتوں میں بڑا بدبخت اور شقی انسان وہ تھا جس نے حضرت صالح علیہ
السلام کی اونٹنی کو قتل کیا تھا… اور اس
اُمت کا بڑا بدبخت اور شقی وہ ہو گا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سر کے خون سے ان کی داڑھی کو تر کرے گا… مگر
اس شقی، بدبخت اور ناکام انسان کو مکمل یقین تھا کہ وہ ’’برحق ‘‘ ہے… وہ ہدایت یافتہ
ہے اور وہ بڑا نیک انسان ہے… اس بدنصیب نے زندگی بھر عبادت کی مشقت بھی اٹھائی اور
پھر ایسا بھیانک جرم کر کے مرا کہ جھلستی آگ نے اُس کا استقبال کیا… کیا وہ سورہ
فاتحہ نہیں پڑھتا تھا؟… کیا وہ دن اور رات میں کئی بار یہ دعا ء نہیں مانگتا تھا
کہ…اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ…
ہاں وہ سورہ فاتحہ
پڑھتا تھا… ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ‘‘ کی دعاء بھی مانگتا تھا مگر
اللہ تعالیٰ نے اس کی دعاء قبول نہیں فرمائی… اس کی
ہر دعاء واپس اُس کے منہ پر مار دی گئی … مرزا قادیانی بھی سورہ فاتحہ پڑھتا تھا…
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ کی دعاء بھی مانگتا تھا مگر نہ اس کی فاتحہ
قبول ہوئی اورنہ اسکی دعاء قبول کی گئی…
آخر کیوں؟… ایک
وجہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے، خالق ہے، غنی اور صمد ہے… بے نیاز
بادشاہ… بہت بڑا، بہت عظیم اور عرش عظیم کا مالک شہنشاہ ہے… وہ جو چاہے کرتا ہے
کوئی اُس سے پوچھ نہیں سکتا کہ ایسا کیوں کیا؟… او ر کوئی اُسے یہ کہہ نہیںسکتا کہ
ایسا کیوں نہیں کیا؟… وہ چاہے تو روئے زمین کے سب سے متکبر کافر فرعون کی بیوی کے
دل تک ہدایت کا نور پہنچا دے… اور چاہے توروئے زمین کے سب سے پُرسوز اور محنتی ترین
داعی حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کو
محروم فرما دے قرآن پاک میں فرما دیا کہ وہ… فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ہے… جو
چاہتا ہے وہی کرتا ہے… لَایُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ… اُس سے پوچھنے کی کسی کو مجال
نہیں…انسانوں کے دعوے اور تکبر تو پانی کے بلبلوں کی طرح ہے…بڑے زبان دراز لوگ جو
اپنی دلیلوں کے زور سے اللہ تعالیٰ پر اعتراضات کر کے محفلیں جماتے ہیں… چند
ہی دن میں مرجاتے ہیں… جلنے والے بدبودار دھویں میں راکھ ہوجاتے ہیں اور جو دفنائے
جاتے ہیں… دفن کے چوبیس گھنٹے کے اندر اُن کے پیٹ اور شرم گاہ میں ایسی بدبو پیدا
ہوجاتی ہے کہ جانور بھی برداشت نہ کر سکیں… دو دن بعد چہرہ پھول جاتا ہے… سات دن میں
جسم کا رنگ سبز ہوجاتا ہے اور پورا جسم ایک خاص قسم کے کیڑوں سے بھرجاتا ہے…کل پچیس
سال میں… پورا انسان ریزہ ریزہ ہو کر غائب ہو جاتا ہے … صرف ایک چھوٹی سی ہڈی باقی
رہ جاتی ہے…
میں، میں اور میں
کرنے والوں میں سے ایک بھی زندہ نہیں اور جو زندہ ہیں وہ بھی سب مرجائیں گے… اور ایک
دن ایسا ہوگا کہ… سالہا سال تک زمین وآسمان اور کون ومکان میں ایک ہی صدا گونج رہی
ہو گی:
لِمَنِ الْمُلْکُ
الْیَوم
آج
کس کی بادشاہی ہے؟… آج کون ہے جو’’میں‘‘ کہہ سکے…
کوئی نہیں، کوئی
نہیں صرف:
لِلہِ الْوَاحِدِ
الْقَہَّار
صرف ایک اللہ ، صرف ایک اللہ ، صرف ایک اللہ …
اللہ
تعالیٰ کی مرضی جب چاہے جس کی دعاء قبول
فرما لے… اور جب چاہے جس کی دعا ردّ فرما دے… ایک جواب تو یہ ہوا اور اس جواب سے یہ
بات سمجھ آئی کہ… ہر انسان کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے… اللہ تعالیٰ کاخوف بڑی نعمت ہے جو سعادت والوں کو ملتی
ہے… اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی بیان کرنا… ہر مسلمان
کے ذمہ لازم ہے…
وَرَبَّکَ
فَکَبِّر
اور
اپنے رب کی بڑائی اور عظمت بیان کرو… اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبرکبیرا سب سے
پہلے اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت بٹھائی جائے… تب دل سے اپنی ذات
کا تکبر اور عجب نکلے گا… تھوڑی سی نیکی کر کے پھول جانا… تھوڑی سی عبادت کرکے
نخرے میں آجانا، اور تھوڑی سی قربانی دیکر آسمان کو سر پر اٹھانا یہ انسان کو زیب
نہیں دیتا … قرآن مجید دلوں کا علاج کرتا ہے وہ دکھاتا ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑا رہے ہیں… اور حضرات
ملائکہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہیں… اور
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اتنی محنت اور عبادت کے باوجود… یَبْتَغُوْنَ
فَضْلًا مِّنَ اللہِ… اللہ تعالیٰ کے فضل کے اُمیدوار ہیں… ’’فضل‘‘ کا مطلب
یہ کہ ہمارا حق تو نہیں بنتا آپ احسان فرما کر رحمت فرمادیں… ہر وہ عبادت، ہر وہ
جہاد اور ہر وہ قربانی جو دل میں بڑائی پیدا کرے… وہ خطرناک ہے… وہ عبادت نہیں زہر
ہے جو روح تک اُتر جاتا ہے…ایسے لوگ چونکہ’’عبدیت‘‘ کے مقام سے ہٹ جاتے ہیں… تو اس
لئے نہ ان کی سورہ فاتحہ اوپر جاتی ہے… اور نہ ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ
الْمُسْتَـقِيْمَ‘‘ کی دعاء… اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم فرمانے والے نہیں ہیں… اللہ تعالیٰ سمیع الدعاء… اور مجیب الدعوات ہیں… وہ
خود فرماتے ہیں کہ مانگو میں عطاء فرمائوں گا… وہ لوگ جو اپنی ’’حقانیت‘‘ کے زعم میں
مبتلا ہوتے ہیں وہ کہاں مانگتے ہیں؟… وہ تو نعوذب اللہ خود کو ایسا سمجھتے ہیں کہ جیسے دعاء نہ کر رہے
ہوں نعوذب اللہ حکم دے رہے ہوں…ارے دعاء
تو یہ ہوتی ہے کہ… مانگنے والا خود کو غلام سمجھے بندہ سمجھے… خود کومحتاج اور
مجبور سمجھے… اور اپنی روح میں تواضع اور انکساری بھرے… اُس کے اندر تک اس بات کا یقین
اُترا ہوا ہو کہ… میں غلام ہوں، بندہ ہوں، عاجز ہوں، خطا کار ہوں… مجبور ہوں،
لاچار ہوں… اور میں جس کے سامنے بیٹھا ہوں، اُن کے سامنے ایک ذرّہ کے برابر بھی نہیں
ہوں… میرا کوئی حق نہیں… وہ دیں تو اُن کا فضل وہ نہ دیں تو اُن کا حق… میرا کام
مانگنا ہے… اب ذرا اسی کیفیت میں ڈوب کر کہیں:
اِھْدِنَا
الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ
ارے بھائیو اور
بہنو! ایسی دعاء ان شاء اللہ ردّ نہیں ہوتی… آج کسی بھی نماز کے بعد… اپنی
روح میں عاجزی، مسکینی، تواضع اور محتاجی بھر کر اللہ تعالیٰ کے حضو ر پانچ منٹ دعاء کر کے دیکھیں… ان
شاء اللہ آسمانوں کے دروازے بھی کھلتے محسوس ہو گے…کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے حقیقی’’منگتا‘‘ یعنی بھکاری بن
کر تو دیکھے…لیکن جب روح میں تکبر بھراہو، خود پسندی بھری ہو… اپنی ذات کا غرور
بھرا ہو… اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر شکوے اور شکایتیں بھری ہوں…
دوسروں کے لئے حقارت اور نفرت بھری ہو… اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لئے بُرائی اور فساد بھرا
ہو… اپنے اعمال کاتکبر اور عجب بھرا ہو تو پھر صرف زبان ہلانے اور الفاظ ادا کرنے
سے تو کوئی چیز’’دعاء‘‘ نہیں بن جاتی…ایک واقعی شریف آدمی جس نے زندگی میں کبھی
بھیک نہ مانگی ہو… اچانک ایسا محتاج ہو جائے کہ گھر میں بچے بھوک سے نڈھال ہوں…تب
وہ کسی کے پاس زندگی میں پہلی بار کچھ مانگنے جائے… اس کی کیا حالت ہوگی؟… حالانکہ
وہ بھی انسان اور جس سے مانگ رہا ہے وہ بھی انسان… مگر یہ اپنے نفس میںکس قدر عاجزی
اور مسکینی محسوس کرتا ہے … بھائیو! ہم مالک الملک کے سامنے ہاتھ اٹھا کر بھی اپنی
ذات اور نفس میں عاجزی اور مسکینی محسوس نہ کریں تو اندازہ لگالیں کہ…ہمار ا نفس
کتنا بیمار ہے…کتنا موذی اور خراب ہے… حالانکہ ہم ہدایت کے اُ س سے زیادہ محتاج ہیں
جتنا وہ شخص اپنے بچوں کے لئے روٹی کا ضرورت مند ہے… ہم خود کو محتاج اور فقیر
سمجھ کر اگر دل سے گڑ گڑا کر مانگیں:
اِھْدِنَا
الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ
تو ان شاء اللہ ہدایت کا دروازہ کھل جائے گا…
اپنی حقانیت کے
زعم میںمبتلا … متکبر اور بدنصیب’’ابن ملجم‘‘ نے زبان سے ضرور کہا… اِھْدِنَا
الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ… مگر یہ دعاء نہیں تھی… محض الفاظ تھے… محض ایک آواز
تھی…( ہم نے کالم کے آغاز میں اسے جو ’’دعاء‘‘ لکھا تو بطور محاورہ اور صورت کے
اسے دعاء کہا جاتا ہے)… یہی حال مرزا قادیانی کے … اِھْدِنَا الصِّرَاطَ
الْمُسْتَـقِيْمَکہنے کا تھا… محض ناپاک منہ سے نکلے ہوئے غیر ارادی الفاظ… اب ایسے
الفاظ اگرقبول نہ ہوں تو… کون کہہ سکتا ہے کہ دعاء قبول نہیں ہوئی… ارے حقیقی دعاء
ہوتی تو قبول ہوتی… فریاد ہوتی تو سنی جاتی… کوئی زمین ہو تو اُسپر پانی برس
کرپودے نکالے… فوم کے گدوں پر بارش سے فصل نہیں اُگتی… بے شک اللہ تعالیٰ دعاء سنتے ہیں، دعاء قبول فرماتے ہیں…
دعاء سے تقدیر کو بدل دیتے ہیں … دعاء کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں… دعاء کرنے
والوں کے لئے راستے کھولتے ہیں… دعاء کرنے والوں کوبڑے مقامات عطاء فرماتے ہیں… بس
شرط یہی ہے کہ… دعاء، حقیقی دعاء ہو… یا اللہ ہم سب کو مقبول’’دعاء‘‘ نصیب فرما اور ہم سب کو
صرف اپنا ’’منگتا‘‘ بنا… آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا ﷲ محمد
رسول ﷲ
٭٭٭
مسکراتی باتیں
چند بکھری
اورمسکراتی باتیں…
حکومت،کو عزت کا
معیار سمجھنا ہندوانہ سوچ ہے…
مسلمانوں میں یہ
سوچ پھیلانے والوں کی نقاب کشائی…
عزت صرف ایمان اور
اسلام میں ہے…
’’قطر‘‘ میں مذاکراتی دفتر کا قیام، طالبان کی
فتح…
دفتر قائم رہا تب
بھی ٹھیک، نہ رہا تب بھی کوئی فرق نہ پڑے گا…
بھائی افضل گورو
شہید رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب، شہید کی
زندہ کتاب اور زندگی کی دلیل…
شہید کا ایمان
افروز خط، کتاب کے بارے میں تأثرات…
مومن کا کام
مسکرانا ہے، حسد کرنا نہیں…
قہقہے لگانا
ناپسندیدہ عمل، مسکرانا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم …
حسد ایک ہلاکت خیز
گناہ…
حسد والی نظر سحر
سے سخت آفت…
نظر بد کا ایک
طاقتور علاج…
مسکراتی باتیں
اللہ
تعالیٰ جسے چاہتے ہیں’’عزت‘‘ عطاء فرماتے
ہیں اور جسے چاہتے ہیں’’ذلّت‘‘ دیتے ہیں،
وَ تُعِزُّ مَنْ
تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ
’’عزت‘‘ کا مطلب ہے ایمان کی دولت… اور ذلّت
کا مطلب ہے کفر، نفاق اور ہمیشہ کی ناکامی… ہندو مذہب میں’’حکومت‘‘ عزت کی سب سے
بڑی علامت ہے… یعنی جس کو حکومت مل جائے وہ’’عزت والا‘‘ ہے… دیوتاؤں کا پسندیدہ
اور مقرب ہے… اور جسے مال مل جائے وہ بھی بڑی ’’عزت‘‘ والا ہے وہ بھی بھگوان کے
ہاں بہت مقرب ہے…قرآن مجیداس غلط اور مشرکانہ سوچ کی نفی فرماتاہے… وہ ناکام، ذلیل
اوربُرے لوگوں کی فہرست میں فرعون، ہامان اور قارون کا تذکرہ فرماتا ہے… حالانکہ
ان کے پاس حکومت، اختیارات اور مال وافر تھا… آج کل مسلمانوں میں جو فتنہ… ڈاکٹر
جاوید غامدی اور وحید الدین خان کے ذریعہ سے برپا ہے اس کی بنیاد بھی یہی مشرکانہ
اور کافرانہ ذہنیت ہے کہ جس کے پاس حکومت ہے وہ معزز ہے، جس کے پاس مال ہے وہ کامیاب
ہے… اس لئے ان کے نزدیک بش بھی کامیاب، اُبامہ بھی کامیاب، گاندھی بھی کامیاب اور
ایڈوانی بھی کامیاب… جبکہ مسلمانوں کو یہ لوگ تیسری دنیا کی حقیر کمیونٹی قرار دیتے
ہیں… اگر یہ فتنہ کسی دلیل پر قائم ہو تا تو ان کے ساتھ بات کی جا سکتی تھی مگر دلیل
نام کی کوئی چیز ان کے پاس سرے سے ہے ہی نہیں… یہ لوگ چڑھتے سورج کے پجاری، حبّ دنیا
کے مریض اور نفس پرست مفکر ہیں… نائن الیون کے بعد مغربی طاقتوں نے ان مفکرین کو
ہر طرح کی مالی اور سیاسی مدد دے کر کافی نمایاں کیا ہے… ٹی وی چینلوں پر ان کا
قبضہ ہے… اور مسلم دنیا کے حکمرانوں کو حکم ہے کہ ان لفافے مفکرین کی بات سب کو
سنوائیں… میری تمام مسلمانوں سے درد مندانہ گذارش ہے کہ وہ خود کو اور دوسرے
مسلمانوں کو اس شیطانی فتنے سے بچانے کی بھرپور کوشش کریں… ہم نے اپنا رخ کعبہ شریف
کی طرف رکھنا ہے، جدیدیت کی طرف نہیں… ہمیں اپنا تعلق مدینہ پاک سے جوڑے رکھنا ہے
اور کسی سے نہیں… ہمارا نظریہ لا الہ الا اللہ ہے…اور ہمارا راستہ اور عمل’’محمد رسول اللہ ‘‘ میں ہے… میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت کھجور کی چٹائی پر آرام فرما تے تھے اس
وقت روم و فارس میں کافروں کی بڑی بڑی سلطنتیں قائم تھیں… مگر عزت اور کامیابی میرے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں تھی
اورآج بھی ہے… بے غیرتی کو عزت سمجھنا، چار دن کی عیاشی کو عزت سمجھنا، گاڑیوں
اور بنگلوں کو عزت سمجھنا… یہ کسی مشرک کا عقیدہ تو ہو سکتا ہے مسلمان کا ہرگز نہیں…
عزت صرف اسلام میں ہے، عزت صرف ایمان میں ہے، عزت صرف دین برحق میں ہے… قرآن پاک یہی
نکتہ بار بار سمجھتاتا ہے… بار بار سناتا ہے…
دفتر کُھل گیا
قطر کے
دارالحکومت’’دوحہ‘‘ میں امارت اسلامی افغانستان کا دفتر کھل گیا… یہ کیسے مسکراتے
الفاظ اور کیسی مسکراتی خبر ہے… ساری دنیا نے جن کو مٹانے کی کوشش کی… غامدی اور
وحیدالدین پارٹی نے دس سال پہلے خوب شور مچایا اور پیشن گوئیاں داغیں کہ… بس چند
دنوں بعد’’طالبان‘‘ نام کی کوئی چیز دنیا میںموجود نہیں ہوگی… مگر آج ساری دنیا
کا کفر… طالبان کے وجود کو تسلیم کر رہا ہے… اُن سے اپنے قیدی چھڑانے کے لئے
مذاکرات کر رہا ہے… اُن سے اپنی افواج کی واپسی کے لئے پُر امن راستہ مانگ رہا ہے…
اور دوحہ کی ایک عمارت پر جھومتا ہوا مست پرچم دیکھ رہا ہے… ارے اب تو مان لو کہ…
جہاد ایک حقیقت ہے اور شہداء کا خون بہت بڑی طاقت ہے… بے شک اللہ تعالیٰ شہداء کرام کے اعمال کو ضائع نہیں
فرماتے…
وَالَّذِیْنَ
قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَھُمْ
قطر میں کھلنے
والا دفتر محض ایک’’علامت‘‘ ہے… یہ دفتر کھلا رہا تب بھی اچھاہے… اور بند کر دیا گیا
تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا… کیونکہ اصل محاذ جنگ… اسلام کی فتح کی ہر دن گواہی
دے رہا ہے…
مسکراتی تحریر
اوپر عرض کیا کہ… اللہ تعالیٰ شہداء کرام کے اعمال کو ضائع نہیں
فرماتے… بلکہ اُن کی حفاظت فرماتے ہیں… اُن کو مزید نکھارتے ہیں اور اُن میں برکت
و قبولیت عطاء فرماتے ہیں… یہ قرآن مجید کا اعلان ہے…
وَالَّذِیْنَ
قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَھُمْ
ابھی اس کی ایک
اور تازہ مثال ہمارے سامنے آئی ہے… بے حد ایمان افروز مثال… شہید غزوۃ الہند…
جناب بھائی محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ نے تہاڑ جیل کے پھانسی گھاٹ میں ایک کتاب لکھی…
تقریباً تین سال پہلے… قربانیوں میں گوندھا ہوا ایک باضمیر، روشن فکر… اور بہادر
نوجوان رات کی تاریکیوں میں یہ کتاب لکھتا رہا… اور کسی طرح سے لکھ لکھ کر چھپاتا
اور جمع کرتا رہا… کتاب کیا ہے؟ بس یوں کہیں کہ موتیوں کا خزانہ… اور حکمت کا خزینہ
ہے… ایک باعمل انسان… موت سے دوگز کے فاصلے پر بیٹھ کر جو کچھ سیکھتا گیا… اُسے
کاغذ پر منتقل کرتا گیا… کتاب مکمل ہوئی تو بھائی افضلؒ نے کسی ذریعہ سے بھجوا دی…
ان کی خواہش تھی کہ یہ کتاب ان کی زندگی ہی میں شائع ہو جائے… اور دوسری خواہش یہ
تھی کہ اس کتاب کا مقدمہ… بندہ کے قلم سے تحریر ہو…انہوں نے اس کتاب کے شروع میں
بندہ کے نام ایک خط بھی تحریر کیا… اس خط کے چند الفاظ ملاحظہ فرمائیں…
السلام علیکم!
’’یہ کتاب مصنف کے اپنے اصلی نام سے شائع ہو،
راقم کے دل سے کفر کے تمام خدشات و خطرات اللہ کے
کرم و فضل سے نکل چکے ہیں اور نکل رہے ہیں۔ یہاں پر(وادی میں) اس کتاب کا شائع
ہونا میرے لئے دشوار ہے ،کیونکہ کوئی معتبر اور ہمت والا ذریعہ و اسباب نہیں ہے، میری
دلی خواہش ہے کہ یہ کتاب جلد از جلد Print ہو کے وادی کے عام لوگوں تک پہنچ جائے، یہ کام کس طرح انجام پائے
اس بارے میں آپ حضرت خود ہی فیصلہ کریں، میرے اختیارات چار دیواری کے اندر بند ہیں
مگر میرے جذبے اور ارادے ان شاء اللہ وہیں ہیں جہاں پر شہید غازی بابا رحمۃ اللہ علیہ
نے چھوڑا تھا… یہ کتاب میں نے2010ء میںتیار
کی تھی ، تب سے اب تک کوئی معتبر Source کے نہ ملنے کی وجہ سے یہیں پڑی تھی‘‘… (فقط)
افسوس کہ یہ کتاب
بھائی افضل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی
میں ہم تک نہ پہنچ سکی… مگر اس کی اطلاع پہنچ چکی تھی کہ انہوں نے کوئی کتاب لکھی
اور بھجوائی ہے… ان کی شہادت کے بعد شہید کے ایمانی، روحانی اور نظریاتی وارثوں نے
کتاب کی تلاش شروع کی اور الحمدﷲ… ابھی چند دن پہلے یہ معطر اور پرُسوز کتاب بہت
لمبا سفر کر کے ہم تک پہنچ گئی ہے… اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے بندے افضل کے اس عمل
کی حفاظت فرمائی… اب دعاء ہے کہ یہ کتاب جلد از جلد شائع ہو کر… مسلمانوں کے
ہاتھوں میں پہنچے… خصوصاً جموں وکشمیر کے مسلمان اور ہندوستان کے مسلمان اس کتاب
سے زیادہ استفادہ کریں… آج کل یہ کتاب میرے پاس رکھی رہتی ہے… اور معلوم نہیں کیوں
بہت گہرا مسکرا کر مجھے آبدیدہ کرتی رہتی ہے…
ع
کہ لب پر زخم کے
بھی تو ہنسی معلوم ہوتی ہے
حسد نہیں مسکراہٹ
مسکرانا میرے آقا
صلی اللہ علیہ وسلم کی حسین سنت ہے… حضرات
محدثین نے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی دلکش مسکراہٹ پر ابواب باندھے ہیں… زیادہ زور
سے ہنسنا، فلک شگاف قہقہے لگانا… اور غفلت سے ہنسنا تو اچھی بات نہیں ہے…مگر
مسکراہٹ ایک بڑی نعمت ہے… اس میں شکر بھی ہے اور صحت بھی… اخلاق بھی ہیں اور محبت
بھی… جبکہ’’حسد‘‘ کرنا شیطان کا کام ہے… وہ حسد اور تکبر میں مبتلا ہو کر جنت سے
نکالا گیا… اور پھر اس نے بنی آدم سے انتقام لینے کیلئے ان کے دلوں میں حسد اور
تکبر کا زہر بونا شروع کر دیا… روئے زمین پر پہلا بڑا گناہ… قتل، حسد کی وجہ سے
ہوا… حاسد شخص نہ کسی کی عزت دیکھ سکتا ہے، نہ کسی کی خوشی… اُسے نہ کسی کی خوشحالی
اچھی لگتی ہے اور نہ کسی کی صحت… حسد ایک زہر ہے جو آنکھوں میں گُھس کر ’’نظر‘‘
بن جاتا ہے…’’نظر بد‘‘ بہت خطرناک چیز ہے… اس کے بارے میں پہلے بھی کئی بار لکھا
جا چکا ہے… بات دراصل یہ ہے کہ پہلے زمانوں میں لوگ حسد کو بُرا سمجھتے تھے… جس
آدمی کو محسوس ہوتا کہ میرے اندر’’حسد‘‘ ہے تو وہ یوں گھبرا جاتا جسے آج کل کینسر
کا پتہ چلنے پر مریض گھبراتا ہے… اور ہرطرح سے علاج کراتا ہے… حسد کی بیماری کینسر
سے زیادہ خطرناک ہے… کیونکہ حاسد آدمی کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ
رمضان المبارک میں بھی اس کی مغفرت نہیں ہوتی… اور حاسد آدمی کا دین… بہت کمزور
ہوجاتا ہے…کینسر قبر تک لے جاتا ہے… جبکہ حسد جہنم میں ڈالتا ہے… چنانچہ ہر مسلمان
اس بات کی فکر کرتا تھا کہ… حسد کا یہ زہر اس کے دل سے کیسے نکلے… دعاء،علاج، اچھی
صحبت اور ہر کوشش… اس لئے اُس زمانے میں ’’نظربد‘‘ بھی کم تھی… مگر آج کے مسلمان
حسد کوبُرا نہیں سمجھتے… وہ حسد کے زہر کو اپنے اندر خوب پالتے ہیں جس طرح کہ سپیرے
سانپوں کو پالتے ہیں… آج کل حسد کو فن اور چالاکی سمجھا جاتا ہے کہ کس طرح سے
دوسروں کو نقصان پہنچایا جائے اور کس طرح سے دوسروں کو نیچا دکھلا کر آگے بڑھا
جائے… حسد کی اس کثرت کی وجہ سے آنکھوں میں زہر بھی زیادہ ہے… اور یہ زہر نظر کی
صورت دوسروں پر پھینکا جاتا ہے… ایک بات یاد رکھیں’’نظر‘‘ جادو سے زیادہ خطرناک
اور سخت چیز ہے… اور دوسری بات یہ یاد رکھیں کہ نظر ہی آج کل بہت سے لوگوں کے
مرنے کا ذریعہ بنتی ہے… اور ایسا بعض روایات سے بھی ثابت ہے… موت تو خیر آنی ہے،
اس کا ذریعہ اور سبب کچھ بھی ہو… مگر نظر کے دوسرے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں…اچھے
خاصے لوگ نظر کا شکار ہو کر غافل، بیمار اور سست پڑ جاتے ہیں… اور طرح طرح کے
فتنوں اور مصیبتوں کا شکار ہوجاتے ہیں…
لوگوں کی ناواقفیت دیکھیں کہ… جادو کے علاج کے
لئے طرح طرح کے عاملوں کے پاس دھکے کھاتے ہیں… جبکہ نظر کو کچھ بھی نہیں سمجھتے…
عرض کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ وہم کا شکار ہو جائیں… بلکہ دو مقصد ہیں… پہلا یہ کہ خود کو حسد سے
بچائیں… کسی سے حسد نہ کریں بلکہ دوسروں کو فائدہ اور ترقی پہنچائیںاور دوسرا یہ
کہ خود کوحاسدوںکی نظر سے بچانے کے لئے… معوذتین اور سورہ قلم کی آخری دو آیات
کا بہت اہتمام کریں… جس پر سخت نظر ہو وہ صرف ایک ہفتہ محنت کرے کہ روزآنہ چالیس
منٹ معوذتین… اور دس منٹ سورہ قلم کی آخری دو آیات توجہ سے پڑھ کر خود کو دم کرے
اور پانی پر دم کر کے پی لے اور جسم پربہالے…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مبارک مقابلہ شروع
رمضان المبارک کی
آمد، نیکیوں کا مقابلہ شروع…
’’مصر‘‘ کے دردناک احوال…
محمدمرسی کی صدارت
سے معزولی اور عوام پر فوج کی وحشیانہ گولہ باری…
محمد مرسی کی بعض
صفات کا تذکرہ…
رمضان المبارک کو
قیمتی بنانے کا تین رکنی نصاب…
١ مسلمانوں
کے لیے دعاء… دعاء کے بارے میں ایک غلط طرز عمل کی اصلاح…
٢ مسلمانوں
کی خدمت… اطعامِ طعام کی فضیلت وبرکت…
٣ تقویٰ
حاصل کرنے کی محنت… تقویٰ کا بلند مقام اور اہمیت…
ماہِ مبارک کے
اوقات کو قیمتی بنانے کا راز سمجھاتی ایک رہنما تحریر…
مبارک مقابلہ شروع
اللہ
تعالیٰ رمضان المبارک میں’’جنّت‘‘ کے تمام
دروازے کھول دیتے ہیں… ایک دروازہ بھی بند نہیں رہتا… سبحان اللہ ! اور جہنم کے تمام دروازے بند فرما دیتے ہیں…
ایک دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا… سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم… رمضان
المبارک تشریف لانے والا ہے… بس دو، تین دن باقی ہیں…
کیا ہم رحمت،
برکت، مغفرت اور نجات والے اس عظیم مہینے کے استقبال کے لئے تیار ہیں؟… گزشتہ کئی
سالوں سے’’رمضان المبارک‘‘ کے موقع پر بعض ضروری اعمال کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے…
اور رمضان المبارک کو پانے کا نصاب بھی عرض کیا جاتا ہے…
الحمدﷲ کئی
مسلمانوں کی قضاء نمازوں کی طرف توجہ ہوئی… کئی حضرات و خواتین نے محنت کر کے اپنا
یہ بھاری قرضہ اتار دیا… اور کئی اُتارنے میں لگے ہوئے ہیں… اللہ تعالیٰ ہماری اور ان کی نصرت فرمائے…قرآن
پاک کی طرف بھی بہت سے مسلمان متوجہ ہوئے اور ماشاء اللہ تلاوت میں مقابلے کا ماحول بن جاتا ہے… اور
رمضان المبارک کی نیکیوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے… اس رمضان المبارک کے لئے تین
بہت ہی ضروری اور آسان کاموں کو ہم سب اپنا ہدف بنا لیں… جی ہاں! صرف تین کام…
اُن تین کاموں کا تذکرہ کرنے سے پہلے دو آنسو’’مصر‘‘ کے لئے… قرآن پاک میں ملکِ
’’مِصْر‘‘ کا تذکرہ ہے… چار بڑ ے انبیاء کرام کے حوالے سے… حضرت یعقوب، حضرت یوسف،
حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام…
قرآن پاک نے جس قصے کو سب سے ’’احسن‘‘ اور عمدہ قصہ قرار دیا ہے… وہ بھی’’مصر‘‘
کے گرد گھومتا ہے… مصر کا ملک خلافت راشدہ کے ابتدائی زمانے اسلام میں داخل ہوا…
اور پھر یہ اسلامی علوم، اسلامی تہذیب اور اسلامی فتوحات کا مرکز بن گیا…
دین اسلام کا کوئی
ایسا شعبہ نہیں کہ جس میں مصر کے باسیوں کا بڑا حصہ نہ ہو… حدیث ہو یا فقہ، تفسیر
ہو یا بلاغت… جہاد ہو یاشہادت… مصر نے ہر میدان میں بڑے بڑے لوگ پیدا کئے… ابھی طویل
عرصہ تک مصر پر دوبارہ چھوٹے فرعونوں کی حکومت قائم تھی… جمال عبدالناصر، انورالسادات
اور حسنی مبارک… ساٹھ سال کا عرصہ یہ تین فرعون چاٹ گئے اور مصر کو ناقابل بیان
پستیوں میں دھکیل گئے… فحاشی، عریانی ، الحاد، زندقہ… اوردین اسلام پر فرعونی
بدزبانی… راکھ کے اس ڈھیر میں اسلام کی روشنی اور چنگاری سخت دباؤ کے باوجود جلتی
اور چمکتی رہی… اسلام مٹنے کے لئے تو آیا نہیں کہ کسی فرعون کے جبر سے مٹ جائے…
مصر کے مخلص مسلمان… خوف، تشدد اور بربریت کے ماحول میں اسلام کی خدمت کرتے رہے…
بالآخر حسنی مبارک کو زوال آیا، ملک میں انتخابات ہوئے اور ایک باوقار شخص
’’محمد مرسی‘‘ مصر کا صدر بن گیا… قرآن مجید کا حافظ اور نماز کا پابند… چوری اور
کرپشن سے پاک اور پروٹوکول کی لعنت سے دور… چہرے پر کچھ کچھ داڑھی اور صدر ہونے کے
باوجود جمعہ نماز کے لئے جامع مسجد میں حاضری… وہ مدرسہ کا فاضل نہیں تھا بلکہ امریکہ
سے’’ڈاکٹریٹ‘‘ تھا مگر دل میں ایمان رکھتا تھا… اُس نے مشائخ کے سامنے دو زانو بیٹھ
کر دین کا علم پایا… اور برُے ماحول میں آہستہ آہستہ اسلام کے نفاذ کی طرف بڑھنے
لگا… ہمیں اندازہ تھا کہ اُسے نہیں چلنے دیا جائے گا… ہمیں اندازہ تھا کہ جمہوریت
کے ذریعہ اسلام کا غلبہ نہیں ہو سکتا… ہمیں اندازہ تھا کہ یہ عقلمند اورباوقار شخص
ہر کافر اور ہر منافق کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے… بس صرف ایک سال اُسے
برداشت کیا گیا… اور پھر ایک بیہودہ بہانے کی آڑ میں اُسے گرا دیا گیا… مگر وہ
گِر کر بھی اونچا ہے… وہ قید ہو کر بھی آزاد ہے… کل مصر کے ایک بڑے دانشور نے صاف
کہہ دیا کہ… اب ہم اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ جمہوریت کے ذریعہ اسلام نافذنہیں کیا
جا سکتا…
رمضان المبارک کی
آمد ہے… اور مصر میں خون اور گرمی ہے… پرسوں ایک خاتون کو… ہاں! ایک باپردہ
باحجاب بہن کو شہید کر دیا گیا… وہ گِر رہی تھی اور پکار رہی تھی… فوجی بغاوت
نامنظور… فوجی بغاوت گرے گی، گرے گی… اسلام آئے گا، آئے گا… اس کے ساتھ ہزاروں
مسلمان آواز ملا رہے تھے… اور پھر ہماری وہ بہن گِر کر شہید ہوگئی… ہم مسلمانوں
کے ملکوں میں یہ خونی دریا بہانے والے… ان شاء اللہ خود بھی امن سے نہیں بیٹھ سکیں گے… ان ظالموں سے
چھوٹی سی داڑھی والا محمد مرسی… جو کوٹ، ٹائی اور سوٹ پہنتا تھا برداشت نہیں ہوا…
اب ان شاء اللہ انہیں مصر سے کسی پوری داڑھی والے… صلاح الدین ایوبی
رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند کا سامناہو گا…
ہاں! ضرور ہوگا… ہماری باپردہ بہنوں کے لاشے گرانے والو… سرخ آندھی تمہارے ملکوں
کا رخ کر چکی ہے… بچ سکتے ہو تو بچ جاؤ مگر تم نہیں بچ سکو گے… معلوم نہیں کیوں!
مجھے’’محمد مرسی‘‘ اچھے لگتے تھے… اور اچھے لگتے ہیں… مجھے اُن کے چہرے کی ذہانت
اور وقار بہت بھاتے تھے… اُن کی حکومت کا گرنا دل پر صدمے کی چُھری چلا گیا… اللہ تعالیٰ ان کی اور اُن کے اہل خانہ کی حفاظت
فرمائے… ہمارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب مسلمانوں کوبھائی بھائی بنا کر گئے ہیں…
اور محمد مرسی کے انداز میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم چھلکتا تھا… اللہ تعالیٰ اُن کا حامی و ناصر ہو… شاید اُن کی
قربانی سے… اخوان والے بھی سمجھ جائیں اب سیاست نہیں صرف جہاد، الجہاد،الجہاد…
رمضان المبارک اور
تین کام
رمضان المبارک کا
سب سے آسان نصاب یہ ہے… روزہ، فرض نمازوں اور تراویح کی پابندی… اور تمام گناہوں
سے سختی کے ساتھ حفاظت…
یہ لازمی نصاب ہے…
جو زیادہ تلاوت نہیں کر سکتے، زیادہ اذکار اور صدقات نہیں دے سکتے… وہ بس اسی نصاب
کو لازم پکڑ لیں ان شاء اللہ رمضان المبارک کو پالیں گے… روزہ دو چیزوں کا
نام ہے… پہلی چیز صیام… اور دوسری چیز صوم… صیام کا مطلب… صبح سے شام تک کھانے پینے
اوربیوی سے پرہیز… اور صوم کا مطلب زبان کی مکمل حفاظت کہ اس سے کوئی بھی غلطی اور
گناہ نہ ہو… روزہ میں پورے جسم اور روح کی عبادت ہے… اور چودہ گھنٹے کا ہر منٹ اور
ہر لمحہ عبادت میں آجاتا ہے… جو مسلمان رمضان المبارک میں یہ تین کام بھی نہ کر
سکے وہ خسارے میں رہتا ہے… خسارہ بھی معمولی نہیں… تمام فرشتوں کے سردار حضرت جبرئیل
علیہ السلام کی بددعا ء ہے کہ جس نے
رمضان المبارک پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی وہ ہلاک ہو جائے اور اس دعاء پر تمام
مخلوق کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین فرمائی… اس لئے اس لازمی نصاب کے لئے
ہم سب دعاء اور بھرپور محنت کریں… اس لازمی نصاب کے ساتھ ساتھ دیگرکئی اعمال ہیں
جو ہمارے رمضان المبارک کو قیمتی اور ہمارے نامہ اعمال کو وزنی بنا سکتے ہیں… ان
اعمال کو جاننے کے لئے آپ دو کام کرلیں… پہلایہ کہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد
زکریا مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ
’’فضائل رمضان‘‘ مطالعہ کر لیں… اچھا ہوگا کہ گھروں میں اس کی تعلیم ہوجائے… یہ
رسالہ رمضان المبارک میں ’’پیغامِ مدینہ‘‘ ہے… اور پیغام مدینہ میں ہماری کامیابی
ہے… بہت آسانی کے ساتھ دو ، تین دنوں میں اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے… دوسرا یہ
کہ گزشتہ سات سالوںمیں رمضان المبارک کے موقع پر جو رنگ و نورشائع کئے گئے ان کو ایک
نظر دیکھ لیں… انشاء اللہ بہت فائدہ اور اعمال میں بہت آسانی ہو جائے گی…
اس سال ارادہ تھا کہ رمضان المبارک سے پہلے ان تمام مضامین کو کتابی شکل میں شائع
کر دیا جائے… مگر ایسا نہ ہو سکا… اب آپ رنگ و نور کی جلدوں میں ان کامطالعہ کر
سکتے ہیں… اب آتے ہیں اس رمضان المبارک میں اپنے تین مبارک اہداف کی طرف …
١ اس
رمضان المبارک میں… مسلمانوں کے لئے دعاء کو اپنا اہم معمول بنا لیں… ہر نماز کے
بعد اور افطاری سے پہلے او رسحری کے وقت سر جھکا لیں، ہاتھ پھیلا دیں ، روح کو
عاجزی و انکساری سے بھر لیں اور خود کو فارغ کر کے دعاء میں لگ جائیں… مظلوم
مسلمانوں کے لئے، بیمار مسلمانوں کے لئے، گناہ گار مسلمانوں کی ہدایت و توبہ کے لیے…
مجاہد مسلمانوں کے لئے، دین کا کام کرنے والوں کے لئے… اسیران اسلام کے لئے…مقروض
مسلمانوں کے لئے، پریشان حال اور دکھی مسلمانوں کے لئے… خوب رو رو کر، تفصیل کے
ساتھ… اپنی حاجت سمجھ کر اُن کے لئے دعاء کریں…
آج کل مائک اور
مجمع سامنے ہو تو لوگ مسلمانوں کے لئے دعاء کرتے ہیں مگر جب اکیلے ہوں تو یہ نیکی
بہت کم لوگ کرتے ہیں… آپ اخلاص کے ساتھ یہ عمل شروع کر دیں … ان نشاء اللہ ا
س کے فوائد اور برکات آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے… خود سوچیں کہ اللہ تعالیٰ کتنے خوش ہوں گے کہ آپ ان کے بندوں کے
لئے مانگ رہے ہیں… حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم کتنے خوش ہوں گے کہ آپ اُن کے امتیوں کے لئے
مانگ رہے ہیں… پھر آپ جو کچھ دوسروں کے لئے مانگیں گے وہی سب کچھ فرشتے آپ کے
لئے مانگیں گے… اور پھر جب آپ دوسروں کے لئے دعاء استغفار اور ہمدردی کا یہ عمل
جاری رکھیں گے تو… آپ اُمت کے لئے مفید اور کام کے آدمی بن جائیں گے… اور آپ کے
دل میں مسلمانوں کے لئے ہمدردی، محبت اور احترام کے جذبات پیدا ہوں گے… اور آپ کا
دل حسد، بغض اور کینے سے پاک ہو گا… ارے بھائیو! اور بہنو! مجھ جیسے بے کار لوگ جو
کسی کے کچھ کام نہیں آسکتے وہ مسلمانوں کے اتنے کام تو آجائیں کہ اُن کے لئے
مستقل دعائیں کرتے رہیں، استغفار کرتے رہیں… اور دعاء آپ سب جانتے ہیں کہ ضائع نہیں
ہوتی… یہ تو ہوا پہلا کام… دوسرا کام اس رمضان المبارک میں ہم یہ کریں کہ… ہمارے
مال سے زیادہ سے زیاد ہ لقمے مسلمانوں کے منہ میں جائیں… ارے بھائیو! اور بہنو! سب
کو اللہ تعالیٰ کھلاتے اور پلاتے ہیں… کوئی کسی کا رازق
نہیں،سب کے رازق اللہ تعالیٰ ہیں مگر جو لوگ مخلوق کے لئے کھانے کا
بندوبست کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کو بہت پیارے ہوتے ہیں… ہر وقت اپنا منہ
اور پیٹ بھرنے کی فکر نہیں بلکہ یہ فکر کہ میرے ذریعہ سے کتنے مسلمانوں کے منہ میں
تر لقمہ اور ان کے معدے میں اچھا کھانا پہنچ سکتا ہے… یہ ایک ایسا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کے غصے اور غضب کو ٹھنڈا کر تا ہے، اور
بڑے بڑے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنتا ہے… یہ ایسا عمل ہے جس کی فضیلت میں قرآن
مجید کی آیات اُتری ہیں… ایک نہیں کئی آیات… عرب کہتے ہیں کہ لقمے کھلاؤ اور
قدرت کے انتقام سے بچو… یعنی لقمہ انسان کونِقمہ سے بچاتا ہے… مگر یہ سب کچھ دل کی
خوشی سے ہو، سامنے والے کے احترام کے ساتھ ہو… اور کسی پر نہ احسان جتایا جائے اور
نہ اسے اپنا احسان سمجھا جائے…یہ ہوا دوسر اکام…
اور تیسرا اور سب
سے اہم کام یہ ہے کہ ہم اس رمضان المبارک میں’’تقویٰ‘‘ حاصل کریں… رمضان المبارک
کے روزے آتے ہی اس لئے ہیں کہ… ہم متقی بنیں… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
رمضان المبارک تم
پر آچکا ہے، یہ برکت والا مہینہ ہے، اس مہینے میں اللہ تعالیٰ تمہیں ڈھانپ لیتے ہیں پس رحمت نازل ہوتی
ہے اور خطائیں معاف کی جاتی ہیں… اوراس میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں… اس مہینے میں
نیکیوں میں تمہارے مقابلے کو اللہ تعالیٰ دیکھتے ہیں… پس ا ﷲ تعالیٰ کو اپنی طرف
سے اچھے اعمال دکھاؤ… بے شک شقی(یعنی بدنصیب) وہ ہے جو اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جائے… (الہیثمی)
تقویٰ، جنت کا اور
ایمان کا سب سے اونچا درجہ ہے… اور تقویٰ کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے نفس کو انسان
پہچان لے اور اس کی اصلاح کی فکر کرے اور گناہوں سے بچے…
میمون بن مہران سے
روایت ہے کہ… کوئی شخص اُس وقت تک متقی نہیں ہو سکتا جب تک اپنے نفس کا سخت محاسبہ
نہ کرتا رہے، جیسا کہ کوئی اپنے شریک کا محاسبہ کرتا ہے… نفس کا محاسبہ کرے تاکہ
جان لے کہ میرا کھانا حلا ل ہے یا حرام، میرا پہننا حرام ہے یا حلال…(تفسیرعزیزی)
بس اس رمضان
المبارک کے یہ تین ہدف ہوئے…
١ مسلمانوں
کے لئے مستقل اور خوب زیادہ دعاء…
٢ زیادہ
سے زیادہ لقمے اپنی استطاعت کے مطابق عزت و احترام کے ساتھ دوسروں کو کھلانا…
٣ تقویٰ
حاصل کرنے کی بھرپور دعاء اور محنت کرنا…بس بھائیو! مقابلہ شروع… مقابلہ شروع…
اللہ
تعالیٰ دیکھ رہے ہیں، پیار اور محبت سے دیکھ
رہے ہیں… ہاں! بے شک اللہ تعالیٰ د یکھ رہے ہیں…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا ﷲ محمد
رسول ﷲ
٭٭٭
مؤمنین کے لئے
رحمت
رمضان المبارک میں
چار کاموں کی کثرت کا نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حکم:
١
کلمہ طیبہ… جماعت کی کلمہ طیبہ کی محنت اور اس کے ثمرات
٢ استغفار…
استغفار مہم کے اثرات وثمرات
٣ جنت
کا سوال
٤ جہنم
سے پناہ
چند جامع دعائیں،
نفل نمازوں میں دعا کی اہمیت اور ترغیب…
رمضان المبارک اور
قرآن… کثرت تلاوت کی ترغیب، قرآن بھلانے پر وعید…
قرآن مجید سے
محبت کی برکات… ایک عجیب واقعہ…
رمضان المبارک اور
جہاد… غزوۂ بدر کے بعض معارف…
رمضان المبارک میں
دعوت جہاد کی اہمیت…
جہاد کے بارے میں
صحیح اسلامی عقیدہ و نظریہ… جہاد میں شرکت کا نصاب…
مؤمنین کے لئے
رحمت
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو’’جنت‘‘ عطاء فرمائے…
بغیر حساب کتاب،جنت الفردوس الاعلیٰ… اور جہنم سے ہم سب کو بچائے… آمین…
رمضان المبارک کے
بارے میں یہ فرمان’’مدینہ منورہ ‘‘ سے اٹھا کہ…چار کام اس مہینے میں زیادہ کیا
کرو… دو وہ جن سے تم اپنے رب کو راضی کرتے ہو… ایک کلمہ طیبہ کی کثرت اور دوسر ا
استغفار اور دو وہ جن کے بغیر تمہارے لئے کوئی چارہ نہیں… ایک یہ کہ جنت کا سؤال
کرو… اور دوسرا یہ کہ جہنم سے پناہ مانگو… یہ دراصل ایک مؤمن کی ترجیحات طئے
فرمادیں… تمہاری ترجیح دنیا کا آرام، عیش، مال اور عہدہ نہ ہو… بلکہ جنت کو پانا
اور جہنم سے بچنا تمہاری ترجیح بن جائے…
الحمدﷲ کلمہ طیبہ
کی محنت سے… ہزاروں لاکھوں مسلمان کثرت کے ساتھ کلمہ کا ورد کرنے پر آگئے ہیں…
الحمدﷲ رب العالمین… اُمید ہے کہ رمضان المبارک میں بھی یہ معمول جاری رہے گا تو
پہلا کام بارہ سو بار کلمہ طیبہ کے ورد سے پورا ہو گیا… کیونکہ کثرت کا حکم فرمایا
اورکثرت کی کم سے کم مقدار تین سو ہے… بعض حضرات و خواتین نے لکھا ہے کہ وہ رمضان
المبارک میں کلمہ طیبہ کی تعداد بڑھا دیتے ہیں… اُن کے لئے بہت مبارک ہو… ذکر کے
برابر کوئی عمل نہیں… اور کلمہ طیبہ کا ورد سب سے افضل ذکر ہے…
الحمدﷲ استغفار کی
محنت بھی دو سال سے چل رہی ہے… کئی مسلمان ایک ہزار کی تعداد اپنا چکے ہیں… ما شاء
اللہ عجیب و غریب تأثرات لکھتے ہیں… بعض پانچ سو پر
ہیں اور بعض تین سو پر… یوں الحمدﷲ دوسرا کام بھی معمول کا حصہ بن چکا ہے… باقی رہ
گئے دو کام… اہتمام تو کرنا ہے کہ ہمارے سب سے بڑے خیر خواہ آقا اور محبوب کا حکم
ہے… اور اس میں ہمارے لئے فائدہ ہی فائدہ ہے… مگر اکثر لوگ بھول جاتے ہیں… حالانکہ
دعاء بہت آسان اور جاندار ہے…
اَللّٰھُمَّ اِنِّی
اَسْئَلُکَ الْجَنَّۃ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ النَّار
یا اسی معنیٰ کے
کوئی بھی الفاظ… تو ایسا کر لیں کہ سنتوںاور نوافل کے رکوع، قومہ، سجدہ اور جلسہ میں…
یہ دعاء مانگ لیا کریں… اگر ایک ایک بار بھی مانگیں… تو ہر رکعت میںپانچ بار ہو
جائے گی… ایک بار رکوع میں… دوسری بار قومہ میں، اسی طرح ہر سجدہ ا ور سجدہ کے درمیانی
جلسے میں… یوں ان شاء اللہ یہ دعاء رات دن میں تین سو بار ہو جائے گی… اس میں
ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ نماز میں دعاء زیادہ قبول ہوتی ہے… دوسرا فائدہ یہ ہو گا
کہ دعاء کی فکر سے نماز میں توجہ رہے گی… اور آٹو میٹک نماز کی بجائے خشوع اور
توجہ والی نماز نصیب ہوگی… تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم نے نماز میں دعاء مانگنے کا
جو طریقہ ترک کر دیا ہے وہ زندہ ہو جائے گا… چوتھا فائدہ یہ ہو گا کہ نماز میں
دعاء کی برکت سے جنت کی رغبت اور جہنم کا خوف پیدا ہوگا جو ایک مومن کے لیے ضروری
مطلوب ہے… بس اس طرح سے یہ چار کا م ان شاء اللہ بہت آسانی سے پورے ہو جائیں گے… استغفار میں ایک
کام یہ کیا کریں کہ ایک آدھ تسبیح… ایسے استغفار کی پڑھیں اور مانگیں کہ جس میں
سب مسلمان شامل ہو جائیں… مثلاً
رَبِّ اغْفِرْلِیْ
وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَاب
یا
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ
وَالْمُؤْمِنَات وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَات
یا
رَبَّنَا
اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا
تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُ
وْفٌ رَّحِیْمٌ
یا
اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ
یا
أَعَلْمُ اَنَّہُ
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَسْتَغْفِرُاللہَ لِذَنْبِیْ وَلِلْمُؤمِنِیْنَ
وَالْمُؤمِنَاتِ
بہرحال کوئی بھی
الفاظ ہوں… بس توجہ رہے اور یہ فکر کریں کہ میں نے اپنے لئے، اپنے والدین کے لئے
اور سب مسلمانوں کے لئے مغفرت مانگنی ہے…
باقی رمضان
المبارک کا سب سے بڑا عمل… قرآن مجید ہے…
شَھْرُ رَمَضَانَ
الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ
رمضان اور قرآن
کا باہمی ربط بہت گہر اہے… اور قرآن پاک میں خیر ہی خیر، نور ہی نور اور رحمت ہی
رحمت ہے… مسلمانوں کی اکثریت قرآن مجید سے دور ہو چکی ہے… اور قرآن مجید کے ساتھ
بے وفائی اور ترک تعلق نے ہماری زندگیوں کو پریشانیوں ، ناکامیوں اور میل کچیل سے
بھر دیا ہے… یاد رکھیں ہم جیسا معاملہ قرآن عظیم الشان کے ساتھ کریں گے، اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ویسا ہی معاملہ فرمائیں گے…
ہمیں تو قرآن پاک میں ڈوب جانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی نعمت ہمیں عطاء فرمائی ہے…
مگر ہم نے قرآن پاک کو نعوذب اللہ پیٹھ پیچھے
رکھ لیا ہے…
استغفرﷲ، استغفرﷲ،
استغفرﷲ
کتنے حافظ قرآن
مجید بھول گئے … آہ افسوس… کیسا خزانہ پا کر محروم بیٹھے ہیں… کتنے مسلمان ایسے ہیں
کہ انہیں قرآن پاک پڑھنا تک نہیں آتا… آہ افسوس… مسلمان اور قرآن پاک کی درست
تلاوت سے محروم… بے شمار مسلمان ایسے ہیں جن کو معلوم نہیں کہ… قرآن پاک ان سے کیا
فرماتا ہے اور کیا کیا باتیں کرتا ہے… ایک بزرگ جو تنہا رہتے تھے ان سے کسی نے
پوچھا کہ آپ کو تنہائی سے وحشت نہیں ہوتی؟… فرمایا بالکل نہیں… اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہیں… مجھے جب ان کی بات سننی
ہوتی ہے تو تلاوت شروع کر دیتا ہوں… قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ مجھ سے باتیں فرماتے ہیں… بے شک قرآن مجید
اللہ تعالیٰ کا کلام ہے… اور جو شخص قرآن مجید کی ہر
آیت خود کو مخاطب سمجھ کر پڑھے کہ… یہ آیت مجھ سے خطاب فرما رہی ہے تو اسے اسکی
حقیقی لذت محسوس ہوتی ہے… اور فرمایا کہ جب مجھے اللہ تعالیٰ سے باتیں کرنی ہوتی ہیں تو میں نماز شروع
کر دیتا ہوں… نماز میں بندہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتا ہے… اِیَّاکَ
نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ… اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ…
عربستان میں ایک
بوڑھی خاتون سخت بیمار ہو گئیں… ان کو ہسپتال میں داخل کرادیا گیا… بیماری سخت اور
لمبی تھی ان کو ایک سال ہسپتال میں رہنا پڑا … مگر اس ایک سال میں ہسپتال والوں نے
عجیب منظر دیکھا… اس خاتون کے پاس ہر وقت ملنے والوں کا ہجوم رہتا… ایک بیٹا آرہا
ہے تودوسرا جا رہا ہے… ایک پڑوسن آرہی ہے تو دوسری جارہی ہے… رشتے داروں کا بھی
ہر وقت تانتا بندھا رہتا… نہ دوائیوں کی کمی، نہ غذا اور خوراک کی کمی اور نہ خون
دینے والوں کی… ہسپتال والوں کو کئی بار مجبوراً لوگوں کو روکنا پڑتا… مگر جیسے ہی
اجازت ملتی رش لگ جاتا… چیزیں اور ہدایا اتنے آتے کہ ہسپتال والے بھی کھا کھا کر
تھکتے… پورا سال اس حالت میں کوئی فرق نہ آیا… آخر ایک خاتون ڈاکٹر نے اُس بوڑھی
عورت سے پوچھ لیا کہ… اماں جی! یہ کیا معاملہ ہے ؟… ہم تو ہسپتال میںدن رات انسانیت
کو سسکتا دیکھتے ہیں… یہاں تو مریض اکیلے پڑے موت مانگتے ہیں اور دو چار دن سے زیادہ
کسی کو رہنا پڑے تو گھر سے کھانا لانے والابھی کوئی نہیں ہوتا… جبکہ آپ کا تو سال
پورا ہو رہا ہے مگر خدمت اور دیکھ بھال کرنے والوں میں ذرا بھی تھکاوٹ یا اکتاہٹ
نہیں ہے… خاتون نے فرمایا میرا اور تو کوئی عمل نہیں ہے مگر میں قرآن پاک کی
تلاوت زیادہ کرتی ہوں… اور قرآن پاک کے کسی نسخے کو فارغ نہیں پڑا رہنے دیتی… میرے
گھر میں قرآن مجید کے جتنے بھی نسخے ہیں میں ان سب میں تلاوت کرتی ہوں… اگرچہ کسی
میں ایک دو آیات ہی پڑھوں مگر میں… کسی نسخے کو مہجور نہیں چھوڑتی… اسی طرح جب
مسجد جاتی ہوں…( عرب ممالک کی مساجد میں خواتین کے لئے الگ جگہ مختص ہوتی ہے)… تو
الماری میں موجود ہر قرآن پاک میں تھوڑی تھوڑی تلاوت کرتی ہوں… خصوصا ً وہ نسخے
جو ضعیف ہونے کی وجہ سے الگ رکھے رہتے ہیں، ان کو صاف کر کے تلاوت کرتی ہوں… شائد اللہ تعالیٰ کو یہی عمل پسند آیا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا اکرام کیا… اور کسی نسخے کو
فارغ نہیں چھوڑا تو میرے مالک نے … میری اس کمزوری،بڑھاپے اور بیماری میں مجھے اکیلا
اور تنہا نہیں چھوڑا اور اولاد، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے قلو ب میں میرے لئے
وافر محبت ڈال دی… یہ ایک ادنیٰ سی مثال ہے… قرآن مجید توایسی باوفا کتاب ہے کہ…
موت کے وقت انسان کے سینے پر ایک ہمدرد مونس بن کر کفن کے اندر آجاتی ہے… اور
مرنے والے کو موت کی سختی اور وحشت نہیں ہوتی… قرآن پاک کی ہر خدمت سعادت ہے اور
قرآن پاک کی ہر تعظیم، توقیر اور تعلیم میں انسان کے لئے بڑی بڑی سعادتیں ہیں…
قرآن مجید پر ایمان لانا، قرآن مجید کا ادب کرنا، قرآن مجید کو درست
پڑھنا…قرآن مجید کو پڑھانا، قرآن مجید کو دیکھنا ، قرآن مجید پر عمل کرنا… اور
مسلمانوں کو قرآن مجید کی طرف متوجہ کرنا یہ سب بڑے اعمال ہیں… حضرت سیدنا علی
کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: باپ پر بیٹے کا یہ حق ہے کہ اس
کا اچھا نام رکھے، اچھی تربیت کرے اور قرآن مجید پڑھائے(المرتضیٰ ،ص: ۳۳۴)
رمضان المبارک میں
قلوب نرم ہوتے ہیں… ہر شخص خود سوچے کہ میں نے اب تک قرآن مجید کے حقو ق میں کیا
کیا کوتاہی کی ہے؟… توبہ کا دروازہ کھلا ہے اور رمضان المبارک مغفرت کا مہینہ ہے
ان سب غلطیوں سے معافی مانگیں، توبہ کریں… کبھی قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہو، بے
وضو ہاتھ لگایا ہو، کبھی مذاق، مزاح یا لطیفے میں قرآن پاک کی مبارک آیات کو
استعمال کیا ہو تو صدقہ دیکر بہت ندامت سے توبہ کریں… رمضان المبارک میں دعائیں
قبول ہوتی ہیں، رات دن، صبح شام یہ دعاء کریں کہ یا اللہ ہمیں
قرآن مجید رحمت کے ساتھ نصیب فرما… جن کو درست تلفظ کے ساتھ پڑھنا نہیں آتا وہ
اسی رمضان المبارک سے ’’بسم اللہ ‘‘ کریں…
جو حفظ چاہتے ہیں وہ اسی رمضان المبارک سے آغاز کریں… جو سمجھنا چاہتے ہیں وہ اسی
رمضان المبارک سے چند سورتوں کا ترجمہ یاد کر کے ابتداء کردیں… اور جن کو طاقت ہو
وہ اچھے اچھے نسخے خرید کر مساجد میں رکھیں… طلبہ اور علماء کو ہدیہ دیں… اور جن
کو قرآن پاک کا مکتب یا مدرسہ کھولنے کی طاقت ہو وہ اس نیکی میں دیر نہ کریں…
الغرض… دل قرآن پاک سے جڑ جائے، اسے پانے کا جنون سوار ہو جائے اور اس کی خدمت
اور توقیر کا جذبہ دل میں پختہ ہوجائے… رمضان المبارک کا ایک اہم عمل جہاد فی سبیل
اللہ ہے… اسلام کا ایک قطعی اور محکم اور آج کل کے
لحاظ سے ایک مظلوم فریضہ… اسلام کے اہم ترین معرکے رمضان المبارک میں ہوئے… رمضان
المبارک کے ان معرکوں نے مسلمانوں کو جہاد کے دو بڑے طریقے سکھائے…
١ فدائی
جہاد… یعنی اعلیٰ درجے کی سرفروشی اور قربانی سے جنگ لڑنا… یہ غزوہ بدرنے سکھایا
جو رمضان المبارک میں پیش آیا…
٢ حکیمانہ
جہاد… یعنی مضبوط قوت ، رازداری اور اعلیٰ حکمت عملی سے ایسی جنگ کرنا کہ دشمن بے
بس ہو کر ہتھیار ڈال دے… اورلڑنے کی مہلت نہ پائے یہ فتح مکہ نے سکھایا… جو رمضان
المبارک میں پیش آیا…
ہر مسلمان کے لئے
لازم ہے کہ وہ رمضان المبارک کے موقع پرجہاد فی سبیل اللہ کو
بھی یاد رکھے… کیونکہ رمضان، قرآن اور جہاد ان کا آپس میں بہت گہر اتعلق ہے اور یہ
تینوں نعمتیں مسلمانوں کی کامیابی کی ضمانت ہیں… جہاد فی سبیل اللہ کو
بغیرتأویل او ر تحریف کے ماننا… جہاد فی سبیل اللہ کی
تیاری کرنا… جہاد فی سبیل اللہ کی دل میں پختہ نیت رکھنا… جہاد فی سبیل اللہ میں
اپنی جان اور اپنا مال لگانا… یہ ہے مختصر سا نصاب… الرحمت ٹرسٹ کے مخلص دیوانے
سخت گرمی میں شہر شہر، گلی گلی دینِ کامل اور جہاد کی آوازیں لگاتے پھر رہے ہیں…
ان کے ذریعہ سے آپ جہاد فی سبیل اللہ میں بہت آسانی کے ساتھ مالی شرکت کا اعزاز حاصل
کر سکتے ہیں…
یا اللہ ! ہم سب کو جنت
الفردوس عطاء فرما… اورہم سب کو جہنم کے عذاب سے بچا… آمین… یا ارحم الراحمین…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا ﷲ محمد
رسول ﷲ
٭٭٭
مرہم ہی مرہم
زخمی دلوں کا
مرہم… سورۂ یوسف
ایک عالم کا عجیب
طرز عمل… پریشانی مالی ہو یا خانگی…
بیماری کی آفت ہو
یا قید کی… اپنوں سے بچھڑنے کا غم ہو یا محبوبوں کی جدائی کا…
ہر غم کا مداوا
ہے، سورۃ یوسف میں…
عام الحزن، غموں
کا سال، آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی
غمخوار اہلیہ سیّدۃ خدیجہ رضی اللہ عنہا
کا وصال اور
مددگار چچا کا انتقال…
تسلی کے لیے سورۃ یوسف
کا نزول…
سورۂ یوسف میں
بکھرے چند مناظر…
محبت کا منظر،
جدائی کا منظر، مظلومانہ قید کا منظر، ملاپ کا منظر، معافی کا منظر…
غمگین دلوں پر
مرہم رکھتی سورۂ یوسف کے معارف پر مشتمل ایک روشن تحریر…
مرہم ہی مرہم
اللہ
تعالیٰ نے اس اُمت کو جو خاص نعمتیں عطاء
فرمائی ہیں… وہ کسی اور اُمت کو نہیں ملیں… قرآن مجید جیسی کتاب کسی کے پاس نہیں…
نور ہی نور، روشنی ہی روشنی اور سکون ہی سکون… صرف’’سورۂ یوسف‘‘ کو ہی دیکھ لیں…
کون ساغم اور کون سی پریشانی ہے جس کا علاج اس میں نہ ہو… ایک عالم دین کا طریقہ
تھا کہ اُن کے پاس کوئی بھی پریشان حال آدمی آتا اور اپنے مسئلے کا حل پوچھتا تو
وہ فرماتے روزآنہ دوبار سورۂ یوسف پڑھ لیا کرو…پریشانی گھریلو قسم کی ہو یا
خاندانی… کوئی مالی پریشانی ہو یا سیاسی… کسی کی جدائی کا غم ہو یاکوئی محبوب بچھڑ
گیا ہو…راستے بند ہوگئے ہوں یا مایوسی چھا گئی ہو… روتے روتے آنکھیں بہہ گئی ہوں یا
جیل کی سلاخیں بہت موٹی ہو گئی ہوں… واقعی عجیب سورت مبارکہ ہے… اس میں ایک تاریک
کنواں ہے اور پھر اس سے نجات بھی… ہم میں سے کتنے لوگ طرح طرح کے اندھے کنوؤں میں
گرے پڑے ہیں … اس سورۃ میں جیل بھی ہے اور پھر ٹاٹھ اور شان والی رہائی بھی… آج
بھی ظالمانہ جیلوں میں گمنام جوانیاں سسک رہی ہیں… پرسوں مصر کے صدر محمد مرسی یاد
آئے تو دل رو پڑا…کیا جرم اور قصور ہے اس مسلمان شخص کا؟… عافیہ بہن بھی جیل میں…
اور ہر طرف جیلیں ہی جیلیں… سورۂ یوسف، جیل کے اندر کا ماحول بھی دکھاتی ہے… اور
بے قصور قیدیوں کے حالات بھی سناتی ہے…ویسے دنیا بھی توجیل خانہ ہے… درد، غم،
گھٹن،بیماری اور پریشانی کی جگہ… دھوکہ،فریب، جھوٹ اور مکاری کا گھر… حضرت یوسف
علیہ السلام کو جیل سے رہائی ملی تو سیدھے
بادشاہ کے مقرب بنے… کیونکہ جیل میں بے قصور تھے… اسی طرح جو دنیا کے قید خانے میںجرائم
نہیں کرے گا… مالک کو راضی رکھے گا وہ یہاں سے رہائی پاتے ہی شہنشاہِ حقیقی کا
مقرب مہمان بن جائے گا…
اچھا ایک بات بتائیں…
سورہ یوسف کب نازل ہوئی؟ اور اس سورۃ کی سب سے بڑی تأثیر کیا ہے؟… جواب بالکل
آسان… یہ سورہ مبارکہ’’عام الحزن‘‘ کے موقع پر نازل ہوئی… غموں کا سال… میرے آقا
صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بڑے غموں کا
سال… جب ہر طرف دشمن ہی دشمن تھے… جان کے دشمن، عزت وآبرو کے دشمن اوردین کے
دشمن… تب دوسایہ دار درخت اس کڑی دھوپ میں میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو راحت پہنچاتے تھے… ایک تو حضرت امّی جان سیّدہ
خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا … سبحان اللہ !
کس شان اور مقام کی خاتون تھیں… قیامت تک کی عورتیں اُن پر بجا طور پر فخر کر سکتی
ہیں… مجھے ایک مسلمان مصنفہ کا یہ جملہ بہت پسند آیا کہ… ہم عورتوں کے پاس سیدہ
خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا… ہیں… ہمیں اور کیا چاہئے؟… سبحان اللہ !کس طرح سے حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کی خدمت فرمائی ، کس طرح سے دلجوئی کی
اور کس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
تسلّی دی… اور کیسا شاندار ساتھ نبھایا… یہ سب کچھ آسان کام نہیں تھا، بہت مشکل
تھا ، بے حد مشکل… مگر وہ کائنات کی افضل ترین عورتوں میں سے ایک تھیں… ما شاء اللہ بہت اونچی شان والی… اُن کا انتقال ہو گیا… میرے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کڑکتی
دھوپ میں جو سایہ دار درخت تھا وہ جنت البقیع میں جا سویا… اور پیچھے چار بچیاں…
پہلے ہی سارے جہاں کا بوجھ… چار وں طرف دشمن اور اب گھر میں چار بیٹیاں اکیلی… اور
دوسرے چچا ابوطالب… وہ ایک ناقابل شکست ڈھال کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں لگے ہوئے تھے… وہ بھی رخصت ہو گئے…
ایک ہی سال میں یہ دو بڑے حادثے… ان حادثوں کی شدّت کو ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا…
اتنے عظیم کا م کا بوجھ، اتنی بھاری ذمہ داری، زمین پر ہر طرف دشمنی ہی دشمنی… اور
حمایت کرنے والوں کی مظلومیت اور کمزوری… ایسے وقت میں یہ دو شخصیات بھی وفات پا
گئیں… تب عرش سے تسلی اور مرہم لئے سورۂ یوسف اُتری…سبحان اللہ! اول تا آخر تسلی
ہی تسلی… مرہم ہی مرہم… اور کچھ ایسے اٹل قوانین جن کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے کبھی مایوس نہیں ہو سکتے…
سورہ یوسف کی سب سے اہم تأثیر ہی یہی ہے کہ… وہ مایوسی کو توڑتی ہے… اور اعلان
فرماتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا صرف کافروں کا کا
م ہے مسلمانوں کا نہیں… سورۃ کا آغاز ہی ایک عجیب منظر سے ہوتا ہے… ہم اسے ’’منظر
محبت‘‘ کہہ سکتے ہیں… بیٹا کتنے لاڈ سے اپنے ابا جی کو خواب سنا رہا ہے… اور ابا جی
خواب سنتے ہی دو متضاد کیفیتوں میں… ایک تو بے انتہا خوشی کہ محبو ب بیٹا بھی بڑے
مقام والا ہے جو خواب میں دکھایا گیا ہے… اور دوسرا ایک دم پریشانی کہ یہ با مقام
بیٹا کہیں حسد اور حادثات کے تیروں کا شکار نہ ہو جائے…
پہلا منظر… محبت
کا ہے… اور دوسرا منظر جدائی، فراق، غم اور صدمے کا ہے… ایک دم بچھڑ گیا نہ بیٹے
کوباپ کی خبر اور نہ باپ کو بیٹے کی… بھائیو اور بہنو! اندازہ لگاؤ ، حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشی پہنچے تب
بھی اُمت کو فائدہ پہنچاتے ہیں… اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غم پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم کے واسطے سے بھی اُمت کو فائدہ ملتا ہے…
بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’رحمۃ
للعالمین‘‘ ہیں… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم کے وقت سورہ یوسف نازل ہوئی… اور اس سورت
نے قیامت تک کے انسانوں کے بے شما رغموں اور بیماریوں کا علاج بتا دیا… دنیا میں
شائد کسی کو گناہ کا ایسا موقع ملا ہو جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو ملا… آپ اپنے وطن اورخاندان سے دور تھے اور
بالکل گمنام تھے…یعنی جب’’نام‘‘ ہی نہیں تھا تو بدنامی کا کیا خطرہ؟… گناہ کی طرف
بلانے والی معمولی عورت نہیں تھی بلکہ حسب نسب اور جمال و رعنائی میں اپنی مثال
آپ تھی… وہ آپ کے پیچھے دیوانہ وار دوڑ رہی تھی… گھر بند تھا، دیکھنے والا کوئی
نہ تھا… وہ عورت جس مقام پر تھی، ایسے مقام والے لوگ کبھی اپنے گناہوں کو ظاہر نہیں
کرتے… الغرض گناہ کے لئے ہر سہولت، ہر کشش اور ہر حفاظت موجود تھی… ایسے حالات میں
اللہ تعالیٰ کے حکم پر مضبوطی سے عمل کرنا… انسان کے
لئے کامیابی کا ہر دروازہ کھول دیتا ہے… اوریہی ہے وہ’’اخلاص‘‘ جو کامیابی اور
قبولیت کی چابی ہے… آج اُمت مسلمہ نے خود کو’’بے بس‘‘ سمجھ کر ہر گناہ اور ہر
غلامی کو گلے لگالیا ہے… حضرت یوسف علیہ السلام ایک خریدے ہوئے غلام اپنی مالکن کے سامنے ’’بے
بس‘‘ نہیں ہوئے… حالانکہ غلام سے بڑا بے بس کون ہو سکتا ہے؟… آ پ بالکل اکیلے تھے
نہ خاندان ساتھ تھا اور نہ قوم… خود اسی گھر میں پلے بڑھے تھے اور اُن کے ممنون
تھے…مگر خود کو بے بس نہیں سمجھا… گناہ سے بھاگ سکنے کی جتنی طاقت تھی وہ استعمال
فرمائی تو… اللہ تعالیٰ نے کائنات کے قرینے اور قانون تک اُن کے
لئے بدل دیئے… اور ایک شیر خوار بچے کو اُن کا گواہ بنا دیا… اسی طرح جب جیل میں
تھے، اور آپ نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر ارشاد فرمائی تو بادشاہ نے آپ کو بلا بھیجا…
ایک قیدی سے زیادہ کون بے بس ہوتا ہے؟… اورقیدی بھی ایسا کہ جسے ملک کے زور آور
وزیر نے اپنے خاص حکم سے قید کر رکھا ہو … ایسا قیدی جس سے ملنے کے لئے آنے والا
بھی کوئی نہیں تھا… اور نہ پورے ملک میں اُس کا کوئی سفارشی تھا… ایسا قیدی جس کی
قید اندھی تھی، یعنی یہ تک معلوم نہیں تھا کہ کس وجہ سے قید ہیں اور کب تک اس جیل
خانے میں رہیں گے… آپ بتائیں! ایسے قیدی کو رہائی کا پروانہ ملے اور وہ بھی
بادشاہ کی طرف سے تووہ کس طرح سے رہائی کی طرف دوڑے گا… مگر حضرت یوسف علیہ السلام نے یہاں بھی کوئی بے بسی محسوس نہیں فرمائی… اور
رہائی کا پروانہ واپس بھیج دیا اور فرمایا کہ پہلے اُس تہمت کی تحقیق کی جائے جو میرے
ارد گرد گھوم رہی ہے…
سبحان اللہ ! پوری سورت تربیت ہی تربیت ہے… اور حکمت ہی
حکمت…
کیسا دلکش منظر
ہوگا… جب حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ سورت نازل ہو رہی ہو گی… آپ صلی اللہ
علیہ وسلم غمگین تھے… سورت نے حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کے غم کا تذکرہ چھیڑاہوگا… میرے آقا صلی اللہ
علیہ وسلم کے دل مبارک پر مرہم لگا ہو گا…
اور پھر آخر میں سورت نے سنایاہوگا کہ پورا خاندان آپس میں مل گیا… بھائی معافیاں
مانگ رہے تھے اور حضرت یوسف علیہ السلام فرما رہے تھے …لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم…
آج کھلی معافی ہے، کوئی بدلہ نہیں،کوئی سزا نہیں… اور پھر۸ ہجری کے رمضان
المبارک میں… میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کے اپنی قومی بھائیوں کے سامنے… یہی
اعلان فرما رہے تھے کہ…
لَا تَثْرِیْبَ
عَلَیْکُمُ الْیَوْم
آج کھلی معافی
ہے، کوئی بدلہ نہیں، کوئی سزا نہیں
سورۂ یوسف کے
معارف بہت زیادہ ہیں… ابھی تو ان میں سے چند کی طرف اشارہ ہوا ہے… ایک مختصر
ساکالم کہاں ان سب باتوں کو سمیٹ سکتا ہے… رمضان المبارک میں مسلمان سورۂ یوسف کو
توجہ سے دیکھیں… ان شاء اللہ عجیب و غریب فوائد پائیں گے… حسد اور اس کا
انجام، محبت اور اس کے طریقے، ظلم اور ظالم… ظلم اور مظلوم… اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے بعض بندوں کو ملنے والے
خصوصی علوم… انسان کی زندگی اور پورے معاشرے پر خوابوں کے اثرات… سچے خوابوں کی
ملک گیر تأثیرات… عورتیں اور اُن کا مزاج… دعوت اور اس کے ثمرات… اصل اعتبار
انجام کا ہوتا ہے، اس کی شاندار تفصیلات…زمین کا تنگ ہونا اور کُھلنا… حسنِ خاتمہ
کی فکر، تڑپ اور دعاء… نظرِ بد سے حفاظت کی تدبیر… نفسِ امّارہ اور اس کا علاج…
رازداری کی اہمیت… جھوٹے آنسو، سچے آنسو … دنیاوی ترقی کا راز… اخروی ترقی کی فضیلت…
اور بہت کچھ…
اس سورۃ مبارکہ کے
اختتام پر بہت عجیب بات ارشاد فرمائی گئی… وہ یہ کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں پر حالات اتنے تنگ ہو جاتے
ہیں کہ… اُن کو بس اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے… اور حالات کے درست ہونے کی کوئی
امیدنظر نہیں آتی… اُن کے دشمن اتنے طاقتوراور زور آور ہو جاتے ہیں کہ اُن کے
ختم ہونے کا ظاہری امکان تک باقی نہیں رہتا… ایسے سخت حالات میں اللہ تعالیٰ کے انتہائی مقرب بندے بھی مایوسی کے قریب
پہنچنے لگتے ہیں… انہیں بھی یہ خیال آنے لگتا ہے کہ شائد ہم غلط ہیں، شائد ہم حق
پر نہیں ہیں… بشری کمزوری کی وجہ سے خیال کی حد تک وہ یہ سوچتے ہیں… مگر اُن کا یقین
ٹھیک ہوتا ہے… ایسے سخت اور دردناک حالات میں اچانک اللہ تعالیٰ کی نصر ت آجاتی ہے… ایمان والوں
کوحفاظت ملتی ہے، غلبہ ملتا ہے اور اُن کے دشمن ذلیل و رسوا ہوتے ہیں… کیا خیال
ہے؟ آج کل مسلمانوں پر ایسے حالات نہیں ہیں؟ بے شک بہت سخت حالات ہیں… اور بہت سے
لوگ نعوذ ب اللہ شک میں جاگرے ہیں… سورۂ یوسف
ہمیں سنبھالتی ہے، مسکرا مسکرا کر ہمیںاٹھاتی ہے … حسین و جمیل پیغمبر حضرت یوسف علیہ السلام کا میٹھا قصہ سناتی ہے کہ کہاںایک اندھا کنواں…
اور کہاں پورے ملک مصر کے مالک… اور غم میں نڈھال حضرت سیّدنا یعقوب علیہ السلام کا فرمان سناتی ہے… اے میرے بیٹو! جاؤ یوسف اور
اس کے دونوں بھائیوں کو تلاش کرو اور اللہ
تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو… اللہ تعالیٰ کی رحمت سے تو صرف کافر مایوس ہوتے ہیں (یوسف)…
اٹھو مسلمانو، اٹھو… جاؤ اسلام کے غلبے اور مسلمانوں کے لئے عزت کو تلاش کرو… یوسف
جیسے حسین و جمیل مستقبل کو تلاش کرو … اٹھو! گندی زندگیاں چھوڑو اور اسلام کے رنگ
میں رنگی ہوئی حسین زندگی اور یوسف جیسی حسین شہادت تلاش کرو… اور اللہ تعالیٰ کی ر حمت سے ہرگزمایوس نہ ہو ا ﷲ تعالیٰ
کی رحمت سے تو صرف کافر مایوس ہوتے ہیں…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا ﷲ محمد
رسول ﷲ
٭٭٭
مہمان خصوصی جاتے
ہیں
معزز مہمانِ خصوصی
رمضان المبارک کی رخصت کا وقت…
ہمارے اعمال کی
حالت زار، عقائد، فرائض، اخلاق سب کمزور…مغفرت کی التجاء…
رمضان المبارک کی
خوشبو… گرمی اور لوڈ شیڈنگ کے باوجود آسانیاں…
رمضان المبارک کو
اچھی طرح کمانے والے لوگ…
سترہ رمضان
المبارک کے معرکے کی یاد…
کفار کی معیشت
پرکاری ضرب لگانے کی سنت…
رمضان المبارک میں
رزق میں عجیب برکت کا منظر…
وقت میں برکت…
تلاوت قرآن کی کثرت…حضرات اکابر کا طرزِ عمل…
امام احمد بن حنبل
رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے استاذ سے منسوب مغفرت کی ایک دعاء…
مہمان خصوصی جاتے
ہیں
اللہ
تعالیٰ ’’غفور‘‘ ہیں، غفار ہیں، عفوّ ہیں،
توّاب ہیں، رحیم ہیں…
یَا غَفَّارْ
اِغْفِرْ جَمِیْعَ ذُنُوْبِنَا
اے غفار!ہمارے
سارے گناہ بخش دیجئے…
مغفرت، مغفرت اور
مغفرت… ہم مسلمانوں کے لئے جان سے بھی زیادہ اہم
اور مال سے بھی زیادہ ضروری…
مغفرت، مغفرت، مغفرت…
رمضان المبارک
کا’’مغفرت‘‘ والا عشرہ بھی جارہا ہے آج اٹھارہ رمضان کی رات ہے… ہمارے پاس ایسی
چار رکعت بھی نہیں جو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکیں کہ مکمل توجہ اور
خشوع سے ادا کی ہوں… مغفرت میرے مالک مغفرت ! معافی میرے مالک معافی!… کبھی ہم نے
سوچا کہ ہمارا’’ایمان‘‘ کیسا ہے؟ ٹھیک ہے یا ملاوٹی؟… ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارے
عقائد کیسے ہیں؟ درست ہیں یا گمراہی سے لبریز؟… ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارے فرائض کیسے
ہیں؟ پورے یا ادھورے؟… ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارے اخلاق کیسے ہیں؟ اخلاق نبوی یا عاداتِ حیوانی؟… معافی میرے مالک معافی!…
مغفرت میرے مالک مغفرت!… آپ اپنے فضل سے مغفرت فرمادیں تو کام بن جائے ورنہ دامن
تو بس خالی خالی ہے… رمضان المبارک ایک رحمت والے معزز مہمان خصوصی کی طرح آتا ہے
تاکہ ہمارا رُخ سیدھا کر دے… ہم میں سے اکثر الٹی طرف جارہے ہیں… جی ہاں! جہنم کی طرف، ناکامی کی طرف… یا اللہ ! مغفرت کی التجا ہے… کتنی تیزی سے رمضان
المبارک گزر رہا ہے… پتا ہی نہیں چلا اور سترہ روزے بیت گئے…اگرچہ گرمی سخت ہے اور لوڈشیڈنگ بھی
جمہوریت کے انتقام والی… مگر رمضان المبارک کی خوشبو اور اُٹھان ان چیزوں سے ماند
نہیں پڑتی… ماشاء اللہ خوب مہک رہا ہے اور کمانے والے جھولیاں بھربھر
کر کمارہے ہیں… اب آخری عشرہ شروع ہونے کو ہے… کوئی محاذوں کا رخ کر رہا ہے اور
کوئی اعتکاف کے انتظار میں گھڑیاں گن رہا ہے…
بے شک جن کا رُخ سیدھا
ہے وہ تو بس نیکیوں کی تلاش اور جستجو میں رہتے ہیں… کتنے لوگ چپکے سے روتے ہوئے
مانگتے ہیں کہ یا اللہ ! رمضان المبارک میں
جمعہ کے دن کی شہادت عطاء فرما…
سبحان اللہ ! ایک توشہادت، پھر رمضان المبارک کا مہینہ
اور پھر جمعہ کا دن… غزوہ بدر کے شہداء کو یہ تینوں نعمتیں اکٹھی نصیب ہو گئیں…
بے شک وہ ان
نعمتوں کے مستحق تھے… سترہ رمضان المبارک جمعہ کے دن اسلام کا یہ عظیم الشان معرکہ
پیش آیا اوراس نے دنیا کے رنگ کو ہی بدل ڈالا… ہاں بے شک! دنیاکا رنگ تبھی بدلتا
ہے جب مسلمان کا رخ سیدھا اللہ تعالیٰ کی طرف ہو جاتا ہے… اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے مر مٹنے کو ہی زندگی سمجھتا ہے…
اور وہ اسلام کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دینا اپنی کامیابی سمجھتا ہے… غزوہ بدر یہی
تو تھا… مکہ مکرمہ اور پورے عرب پر مشرکین کا ایسا سکّہ جما ہو اتھا جس طرح آج کل
دنیا پر امریکہ، ورلڈ بینک اور یورپ کا دجّالی سکّہ جما ہوا ہے…
عربوں کے ’’ورلڈ بینک‘‘
کا تجارتی قافلہ ملک شام سے مکہ مکرمہ کی طرف جا رہا تھا تو
مسلمانوں نے… حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں شرک کی جڑ کاٹنے کا عزم کر لیا…
اور بھوکے، پیاسے میدان بدر کی طرف دوڑ پڑے… نشانہ’’ورلڈ بینک‘‘ تھا مگر شکار’’سپر
پاور‘‘ ہو گئی… بے شک مؤمن اخلاص پر آئے تو زمین و آسمان سب اُس کے ہو جاتے ہیں…
ابھی چند دن پہلے یہودیوں کے قائم کردہ ورلڈ بینک کی بعض تفصیلات پڑھیں تو اس بات
کا یقین اور پختہ ہوگیا کہ دنیا کا رنگ جہاد سے ہی بدلا جاتا ہے… ورلڈ بینک کا
مالک ایک یہودی خاندان ہے… دنیا کے کسی گمنام جزیرے میں رہتا ہے… یہ جزیرہ انہوںنے
اربوں ڈالر سے آباد کیا ہے… بالکل خفیہ اور ہر طرح سے محفوظ… مگر اللہ تعالیٰ سے خفیہ نہیں… اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے بھی محفوظ نہیں… موت، بیماری
اور خوف وہاں بھی پہنچتے ہیں… دنیا کی تمام دولت کا چھٹا حصہ ان چوہوں کے پاس ہے…
وہ بٹن دبا کر سونے کو مٹی اور مٹی کو سونا بناتے ہیں… یعنی دجال کے انڈے بچے ہیں
اور اپنی شاطرانہ چالوں سے دنیا کی کرنسی کو کنٹرول کرتے ہیں… اور ہر طرف صہیونیت
کا جال پھیلانے اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے سرمایہ کاری کرتے ہیں… کئی
ممالک کے صدر اور وزراء اعظم اس خاندان کے بالواسطہ یا بلاواسطہ ملازم ہیں…اُن کی
عیاشی، اُن کے تعلقات اور اُن کی طاقت کی بہت ہوشربا داستان اس رپورٹ میں تھی… مگر
ہم نے جب پڑھی تو یوں لگا کہ چند کالے زہریلے چوہے… ایک بے کار کام میں خود کو
کھپا رہے ہیں… صہیونیت کے لئے سب کچھ کیا جارہا ہے مگر صہیونیت ایک چھوٹے سے خطے میں
پڑی کانپ رہی ہے… اور اُس کا گذارہ دوسروں کے کندھوں اور مکاریوں پر ہے… اسلام کے
خلاف سب کچھ کیا جارہا ہے مگر اسلام ہے کہ پھیلتا ہی جارہا ہے ، پھیلتا ہی جارہا
ہے… کیا یورپ اور کیا امریکہ… کیا انڈیا اور کیا روس ہر طرف لوگ جوق در جوق مسلمان
ہور ہے ہیں… گوری عورتیں مکمل حجاب اوڑھ کر یورپ کی گلیوں میں… لا الہ الا اللہ کی
آوازیں لگاتی پھرتی ہیں… اور دشمنوں کے فوجی کھلم کھلا لا الہ الا اللہ محمد رسول
اللہ کی غلامی میں آرہے ہیں… ورلڈ بینک کا مالک خاندان ایک گمنام جزیرے میں چھپنے
پر مجبور ہے… ارے! اُس کو وہ میٹھا ٹھنڈا شربت اور وہ لذیذ کھانے کہاں ملتے ہوں
گے… جو آج مغرب کی اذان کے ساتھ ہی کروڑوں مسلمانوں کا مقدر بن جاتے ہیں… سبحان
اللہ! ایسا لذیذ شربت، ایسا لذیذ پانی اورایسا عمدہ کھانا… یہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں اور محنت کی برکت ہے کہ… افطاری اور
سحری کا کھانا قدرتی طور پر ایسا لذیذ ہوجاتا ہے کہ… دنیا بھر کے کافر اس کی لذت
کا تصور بھی نہیں کر سکتے… کیا فائیو سٹار ہوٹلوں کے کھانے اور کیا جنک فوڈ کے
بدبودار بھبھکے… افطاری اور سحری سادہ ہو یا پُرتکلف… ایسی لذید، ایسی بابرکت اورایسی
صحت افزاء ہوتی ہے کہ جسم کا ایک ایک بال لذت محسوس کرتا ہے… اور پھر ساتھ گرم گرم
آنسو…
سبحان اللہ وبحمدہ
سبحان اللہ العظیم
ویسے بھی رمضان
المبارک میں ایمان والوں کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے… غریب سے غریب مسلمان کو بھی
اللہ تعالیٰ سحر اور افظار میں طرح طرح کی نعمتیں پہنچاتے ہیں… مجھے بادامی باغ سرینگر
کے ٹارچر سینٹر میں افطاری کے وقت ملنے والا ایک سموسہ کبھی نہیں بھولتا… وہاں بہت
سخت پابندی تھی… مگر وہ سموسہ ساری حدود اورپابندیاںتوڑ کر ہاتھوں میں آبیٹھا… تب
شکر اور تشکر کی ایسی کیفیت آئی کہ دل کہاں سے کہاں تک جاپہنچا… رزق میں برکت کا
ایک معنیٰ یہ ہے کہ… کھانے پینے اور مال اسباب میں اضافہ ہو… دوسرا معنیٰ یہ ہے
کہ… نیک اور مقبول اعمال کی زیادہ توفیق ملے… آپ تلاوت کریں یہ بھی رزق ہے… نماز
زیادہ پڑھیں یہ بھی رزق میں برکت ہے… دین اور جہاد کی دعوت کا موقع ملے یہ بھی رزق
ہے… صدقہ خیرات قبول ہو یہ بھی رزق ہے… کوئی اچھی بات سنیں یہ بھی رزق ہے… دین کا
کام زیادہ کریں یہ بھی رزق ہے… الغرض ہر نعمت کا ملنا، ہر مقبول عمل کی توفیق پا
نا یہ’’رزق‘‘ ہے اسی لئے کئی بظاہر غریب لوگ… بڑے رزق والے ہوتے ہیں کہ اُن کو نیکیوں
کا رزق وافر ملتا ہے… رمضان المبارک میں مؤمن کے لئے ہر طرح کے رزق میں برکت ہی
برکت ہوجاتی ہے… وہ جو آدھا پارہ مشکل سے پڑھتے تھے اب پانچ پاروں پر بھی بریک نہیںلگاتے…
وہ جو چار رکعت نفل پڑھ کر کمر کو پکڑ لیتے تھے اب بیس رکعات کے بعد بھی مزید کی
خواہش رکھتے ہیں… اور وہ جوبیان کرنے سے
پہلے طرح طرح کے قہوے، سوپ پی کر خود کو چارج کرتے تھے اور پھر بھی آدھے بیان میں
تھک جاتے تھے… اب ماشاء اللہ بھوکے پیاسے روزآنہ چار پانچ بیان مکمل جذبے سے کر لیتے
ہیں… ہمارے محترم قاری عالمگیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ لاہور والے جو اس رمضان المبارک سے پہلے انتقال
فرما گئے وہ کراچی میں حضرت لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اعتکاف بیٹھا کرتے تھے اوربسا اوقات ایک
ایک رکعت میں دس پارے کھڑے ہو کر پڑھ لیتے تھے اور بعض اوقات پندرہ پارے… اور حضرت
لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ پیرانہ سالی اور
بیماری کے باوجود اُن کے پیچھے کھڑے رہتے اور کبھی کبھارتھوڑی دیر کے لئے بیٹھ
جاتے… بات غزوۂ بدر کی چل رہی تھی کہ مسلمانوںنے عرب کے ورلڈ بینک کو اکھاڑنے کے
لئے رمضان المبارک میں جہاد کے لئے کوچ کیا… آپ سورہ انفال میں یہ سارا منظر پڑھ
سکتے ہیں… اللہ تعالیٰ مجاہدین سے محبت فرماتے ہیں اور اہل بدر تو مجاہدین کے امام
ہیں… قرآن مجید نے کس طرح سے تفصیل کے ساتھ اس غزوہ کو بیان فرمایا… اور تو اور
محاذ جنگ کا پورا نقشہ قرآن مجید میں مذکور ہے… مشرکین مکہ جو عرب کی نام نہاد
سپر پاور اور ظاہری طور پر ناقابل شکست تھے… جب انہوں نے دیکھا کہ’’ورلڈ بینک‘‘ ہی
جاتا ہے تو وہ سب لڑنے کے لئے نکل آئے… بے شک مشرکین کی جان ان کے مال میں ہوتی
ہے… اور ورلڈ بینک مکہ کی مشرک حکومت کے لئے شہہ رگ کی طرح تھا… وہ سب اس کے تحفظ
کے لئے نکل آئے…قرآن پاک اُن کے نکلنے کا منظر بھی دکھاتا ہے کہ… کیسا غرور تھا،
کیسا فخر اور کیسی جنگی تیاری… اُدھر شیطان نے صورتحال پر گہری نظر رکھی ہوئی تھی…
عرب میں شیطانیت کا مکمل نیٹ ورک خطرے میں نظر آیا تو شیطان بھی اپنے لشکروں کے ساتھ
میدان میں نکل آیا… سبحان اللہ ! تین سو
تیرہ نہتے فدائی مسلمان… کسی کے پاؤں میں جوتا اور کسی نے کپڑے کے چیتھڑے پاؤں
سے لپیٹ رکھے تھے… چند کے پاس تلواریں اور باقی سب کے پاس لاٹھیاں، پتھر اور
کھجوروں کی ٹہیناں… یہ تین سو تیرہ نکلے تو ہر طرف بھونچال آگیا… شیطان اور اس کے
لشکر… ابوجہل اور اس کا لشکر اور اہل مکہ کے نامور سردار… سب جنگجو اور جنگ آزما
میدان میں آپڑے… مقابلہ ہوا اور اپنے ورلڈبینک کو بچانے کی کوشش کرنے والوں کی
اپنی دنیا یعنی ورلڈ ہی ڈوب گئی… آج اگر مسلمانوں کو غزوہ بدر دیکھ کر بھی جہاد
سمجھ نہیں آتا تو بہت افسوس کا مقام ہے… چند مسلمان شہید ہوئے وہ آج بھی میدان بدر میں آسودہ ہیں… آج ان شہداء بدر کے مبارک
تذکرے کے خوشبودار ماحول میں… ہم بھی اللہ تعالیٰ سے شہادت مانگ لیں… مغفرت مانگ لیں…
مغفرت والا عشرہ جا رہا ہے… یا اللہ ، یا
غفور، یا غفار… ہم سب کو اپنی مغفرت عطاء فرما… ہر مسلمان مرد اور عورت کو اپنی
مغفرت نصیب فرما…
آمین
یا ارحم الراحمین
آخر میں مغفرت
اور استغفار کی ایک دعاء یاد کر لیں جو حضرت احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور اُن کے استاذ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ
علیہ سے منسوب ہے…
یَا رَبَّ کُلِّ
شَیْیٍٔ بِقُدْرَتِکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْیٍٔ اِغْفِرْلِیْ کُلَّ شَیْیٍٔ حَتّٰی لَا
تَسْئَلْنِیْ عَنْ شَیْیٍٔ
اے ہر چیز کے رب،
ہر چیز پر اپنی قدرت کے واسطے میری ہر خطاء معاف فرمادیجئے اور مجھ سے کسی چیز
کا(قیامت کے دن) حساب نہ فرمائیے۔
بابرکت اور
معززمہمان خصوصی… رمضان المبارک تیزی سے جارہا ہے… اے مسلمانو! اس کی قدر کر لو…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیّدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا ﷲ محمد
رسول ﷲ
٭٭٭
ّمنورخاکے
امام المجاہدین
حضرت مولانا شاہ محمد اسماعیل شہید قدس سرہٗ
کی حیات طیبہ کے
منور پہلو…خلاصۂ حیات…
حسن خاتمہ کا اعلیٰ
مقام… شہادت فی سبیل اللہ…
مغفرت کی دعاء، ایک
مقبول عمل…
حضرت شہید رحمۃ
اللہ علیہ کے بارے میں ایک غلط اَفواہ اور اس کی تردید…
’’جہاد‘‘ کے بارے میں ایک غلط نظریہ اور حضرت
شہید رحمۃ اللہ علیہ کا عمل…
حضرت شاہ
عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ اور ان
کے بلند پایہ تربیت یافتگان…
طلبہ
کرام کے لیے ایک روشن نصیحت…
حضرت شاہ شہید
رحمۃ اللہ علیہ کا حضرت سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ سے تعلق…
مقامِ اطاعت… چند
اہم واقعات…
حضرت شاہ صاحب
رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا احاطہ کرتی ایک
مختصر جامع تحریر…
منورخاکے
اللہ تعالیٰ اپنے
مہاجر، مجاہد، مسافر بندے ’’شاہ محمد اسماعیل‘‘ کی مغفرت فرمائے… اُنکی شہادت کو
قبول فرمائے… اور اُن کو مثالی درجات عالیہ میں مزید ترقی عطاء فرمائے… (آمین)
خلاصہ ٔحیات
نام: شاہ محمد اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ …
والد محترم کا
نام:حضرت شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ ابن
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ …
ولادت: ۱۲ ربیع الثانی ۱۱۹۳ ھ بمطابق ۲۹ ؍ اپریل ۱۷۷۹ء …
شہادت: ۲۴؍ ذوالقعدہ ۱۲۴۶ھ
اعزازات: یتیمی ، راسخ اور نافع علم، مثالی خطیب ، بہادر ،
جنگجو ، سپہ سالار ، شہید…
سرمایہ: اخلاص، امت مسلمہ کی ہدایت اور
اسلام کے غلبے کی حقیقی کڑھن ، ہجرت ، جہاد فی سبیل اللہ اور اطاعت امیر …
تصانیف: ٭ایضاح الحق… ٭ منصب امامت… ٭ عبقات… ٭ تقویۃ
الایمان ٭اصول فقہ… ٭ صراط مستقیم و غیرھا
…
کتنا اچھا لگتا ہے
کتنی خوش نصیبی ،
خوش بختی اور اللہ تعالیٰ کا فضل کہ … ایک مسلمان کی سوانح حیات میں ایک خانہ
ولادت کا ہو کہ کب اور کہاں پیدا ہوئے … اور آخری خانہ شہادت کا ہو کہ کب اور
کہاں شہید ہوئے خود سوچیں کہ یہ کتنا اچھا
لگتا ہے… ’’شہادت‘‘ کا مطلب بہترین اور اعلیٰ درجے کا ’’حسن خاتمہ ‘‘ … حضرت شاہ
اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ پھلت مظفر
نگر میں پیدا ہوئے یہ علاقہ آج کل ہندوستان کے قبضہ میں ہے، اور آپ کی شہادت ’’
بالاکوٹ‘‘ میں ہوئی … ’’بالاکوٹ‘‘ پاکستان کے صوبہ سرحد میں واقع ہے اور اس کی وجہ
شہرت … حضرت سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کا قافلہ ٔ جہاد و شہادت ہے … اور حضرت شاہ
اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اسی قافلے
اور تحریک کے روح رواں اور ہمسفر تھے ۔
عجیب تو نہیں لگا
؟
مضمون کے آغاز میں
حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے لئے جو دعائیں مانگی گئی ہیںوہ آپ
کو عجیب تو نہیں لگیں؟… اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ کی مغفرت بڑی نعمت ہے … اور
اللہ تعالیٰ کے مقرب اولیاء کے لئے ’’ مغفرت ‘‘ کی دعا مانگنا بڑا مقبول عمل ہے …
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بڑھ کر امت میں کس کا مقام ہے ؟… وہ حضرات ایک
دوسرے کے لئے اور اپنے صحابی والدین کے لیے ’’مغفرت‘‘ کی دعا مانگتے تھے … اللہ
تعالیٰ استغفار اور توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں … ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ
کے مقرب بندوں کے لئے بھی استغفار کیا کریں … استغفار کے معنی ہیں ، مغفرت کی دعا
کرنا ‘ مغفرت کا سوال کرنا …
کچھ غلط افواہیں
بڑے لوگوں کے دشمن
بھی زیادہ ہوتے ہیں، حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اس امت کے بڑے اور مقبول لوگوں میں سے تھے ‘ جس
طرح حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نیکیاں
تھمنے کا نام نہیں لیتیں اسی طرح اُن کے ’’دشمن‘‘ بھی رکنے کا نام نہیں لیتے …
دشمنوں کی دو قسمیں معروف ہیں ‘ ایک وہ جو کھلے دشمن ہوتے ہیں اور دوسرے وہ ظاہری
خیر خواہ جو دشمنوں کی طرح نقصان پہنچاتے ہیں … حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ
علیہ کے کھلے دشمن اب تک اُن کے خلاف
لکھتے ہیں ‘ منہ بھر کر بولتے ہیں اور انہیں نعوذ باللہ ایک گستاخ کے روپ میں پیش
کرتے ہیں … جبکہ کچھ دوسرے خیر خواہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ … وہ لشکر جہاد میں اپنی
الگ رائے رکھتے تھے، ہر وقت اپنے امیر کو ٹوکتے تھے ‘ اپنے شیخ اور امیر سے بات
بات پر اختلاف کرتے تھے اور کشیدگی کے ماحول میں رہتے تھے … یقینایہ ایک خالص جھوٹ
‘ افتراء اور بہتان ہے … حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ ’’اطاعت امیر ‘‘ کے اُس مقام پر فائز تھے جو صرف
قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے … ’’اطاعت امیر‘‘ ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے …
اور اس میں صرف وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہو اور وہ
اخلاص کے بلند مقام پر فائز ہوں … ’’اطاعت امیر ‘‘ دراصل کسی ایک شخص کی اطاعت نہیں
… بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم اور اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تاکیدی فرمان ہے …
بے کار لوگوں کا
کام ؟
کیا جہاد فی سبیل
اللہ بے کار لوگوں کا کام ہے؟… وہ طالبعلم جو پڑھائی میں ناکارہ اور علم میں کمزور
ہوں وہی جہاد پر نکلیں ؟… وہ علماء جو نہ پڑھا سکتے ہوں اور نہ تقریر کر سکتے ہوں
وہی جہاد کے راستے کو اختیار کریں ؟…
یہ بہت غور طلب
موضوع ہے … بلکہ یوں کہیں عصر حاضر کی ایک روحانی اور دماغی بیماری ہے… ایک صاحب جو کسی مدرسہ میں درجہ رابعہ تک کی
کتب پڑھاتے تھے ، کسی کی ترغیب سے جہادی تشکیل میں آگئے … وہ اکثر فخر کرتے اور بیانات
تک میں کہہ دیتے کہ میں بڑی قربانی کر کے آیا ہوں … میں کامیاب مدرس تھا بے کار
آدمی نہیں … اُن کے اسی احساس نے اُن کو ’’جہاد ‘‘ کے حسین راستے پر نہ جمنے دیا
وہ بالاخر چلے گئے … عصر حاضر کی اس مروج بیماری کا علاج پانا ہو تو صرف ایک نظر
’’قافلہ سیّد بادشاہ‘‘ کے چند علماء کرام کے علمی مقام پر ڈالیں … خصوصاً حضرت شاہ
اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت
مولانا عبدالحی رحمۃ اللہ علیہ کے علمی
مقام کو دیکھیں … سبحان اللہ ! کیا علمی شان تھی … اہل علم جانتے ہیں کہ حضرت شاہ
صاحب رحمۃ اللہ علیہ پندرہ سولہ سال کی
عمر میں جید عالم دین اور کامیاب مدرس بن چکے تھے … علوم نقلیہ اور علوم عقلیہ میں
آپ کی بصیرت مجتہد انہ تھی … مشکل سے مشکل کتابوں کو منٹوں میں حل فرماتے تھے …
دوران مطالعہ کتابوں پر علمی حاشیے تحریر فرماتے تھے …
حضرت ندوی رحمۃ
اللہ علیہ جیسے انصاف پسند بزرگ لکھتے ہیں
:
آپ ( حضرت شاہ
اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ ) مجتہدانہ
دماغ کے آدمی تھے اور اس میں ذرا مبالغہ نہیں کہ بہت سی درسی کتابوں کے مصنفین و
شراح سے زیادہ ذکاوت اور علمی مناسبت رکھتے تھے ‘ اگر آپ کو اشتغال اور تصنیف و
تالیف و درس و تدریس کا موقع ملتا تو آپ اپنے بہت سے پیشر و اور معاصر علماء سے
بہت آگے ہوتے اور بہت سے فنون میں امام یا مجدد کا منصب آپ کو دیا جاتا۔
(کاروانِ ایمان و عزیمت)
مولوی فضل حق خیر
آبادی کی حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ سے علمی کشمکش بہت معروف ہے اس کے باوجود جب
مولوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت شاہ
اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ کے شہید ہونے کی
خبر ملی تو اس وقت طلبہ کو سبق پڑھا رہے تھے ‘ خبر سنتے ہی کتاب بند کر دی ‘
گھنٹوںبیٹھے روتے رہے ‘ اس کے بعد کہا کہ اسماعیل کو ہم مولوی نہ جانتے تھے ، وہ
امت محمدیہ کا ’’حکیم‘‘ تھا کوئی شے نہ تھی جس کی ’’انّیت‘ ‘اور لمیّت اس کے ذہن میں
نہ ہو ۔ (جماعتِ مجاہدین)
حضرت شاہ شہید
رحمۃ اللہ علیہ کے علمی مراتب کی داستان بہت حیرت انگیز اور دلچسپ ہے، طلبہ کرام
کو اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ وہ کم از کم حضرت ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا غلام رسول مہر رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں میں ہی اس ’’داستان ہوشر با ‘‘کو پڑھ
لیں … مگر اس بلند پایہ علمی مقام کے باوجود حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ
نے ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کے راستے کو
اختیار کیا … اور آج تک اہل علم میں سے کسی کو یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی کہ
حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فیصلہ
غلط تھا اور انہوں نے اپنی علمی صلاحیتوں کو ضائع کیا… بلکہ تمام اہل حق ہی لکھتے
اور یہی کہتے ہیں کہ … حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فیصلہ کر کے اپنے علم کا حق ادا کیا… اور یہ
کہ اُن کے پاس جو علم تھا وہ ’’علم نافع ‘‘ تھا جس نے انہیں کامیابی اور عظمت کا
راستہ دکھایا … اور انہوں نے جہاد اور شہادت کے راستے کو اختیار کر کے ’’جماعت
علماء‘‘ میں بلند اور منفرد مقام حاصل کر لیا ہے …
واقعی قابل رشک
کمال
معلوم نہیں کیا
وجہ ہے کہ ’’ بندئہ بے علم ‘‘ کے دل میں حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لئے ایک عجیب سی عقیدت… محبت اور احترام ہے …
عجیب سی کالفظ اس لئے لکھا کہ یہ عقیدت و محبت ایک مثالی صورت پکڑ کر دل میں ایسی
اتری ہے کہ میں خیالات میں اُن کو دیکھتا ہوں اور بہت سے اہل علم پر اُنہیں فضیلت
دیتا ہوں … اور جب اُن کا کام یا تذکرہ سنتا یا پڑھتا ہوں تو دل میں مٹھاس بھر جاتی
ہے … اور کبھی کبھار یہ جذبہ دل میں ابھرتا ہے کہ کچھ عرصہ سارے کام کاج چھوڑ کر
حضرت شا ہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر ’’ موضح قرآن‘‘ پر کام کروں … آپ
طلبہ بھائی ! حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کمال دیکھیں کہ ایک مسجد میں خود کو قید کر کے ایسی
لا جواب تفسیر تحریر فرمائی … سبحان اللہ ! کیا ترجمہ ہے اور کیا حاشیہ … اور جہاد
فی سبیل اللہ کی ایسی ترجمانی کہ روح بھی عش عش کر اٹھتی ہے … پھر اگلا کمال دیکھیں
کہ قلم سے جہادی تفسیر ’’موضح قرآن ‘‘ تحریر فرمائی اور اپنے عمل اور روحانی قوت
سے صدیوں پر بھاری تین افراد تیار کئے … یہ تین افراد گویا کہ ’’موضح قرآن‘‘ کی
عملی تفسیر تھے … اب ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ’’موضح قرآن‘‘ ایک جلد میں ہے … اور
اس تفسیر کی عملی تفسیر تین جلدوں میں ہے … پہلی اور مرکزی جلد… حضرت سیّد احمد شہید
رحمۃ اللہ علیہ ، دوسری اور تیسری جلد …
حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اور
حضرت مولانا عبدالحی رحمۃ اللہ علیہ … میری اس مبہم سی بات کو سمجھنے کے لیے دو
باتوں کی ضرورت ہے …
١ حضرت
سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شاہ
اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت
مولانا عبدالحی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات
زندگی کا مطالعہ …
٢ ان
تینوں حضرات کے حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ سے تعلق کی نوعیت اور کیفیت…
آج کا مضمون
چونکہ حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہے اس لئے اتنا عرض ہے کہ… حضرت شاہ
اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ دس سال کی عمر میں
یتیم ہو گئے تھے … اُن کے والد گرامی حضرت شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ کا ۱۲۰۳ھ میں انتقال ہو گیا تو آپ کے عم
محترم (یعنی چچا ) حضرت شاہ عبدالقادر نے آپ کو اپنے دامن تربیت میں لے لیا …
حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کی نرینہ
اولاد نہیں تھی، آپ کی صرف ایک صاحبزادی تھی جن کا نام ’’زینب تھا ‘‘ … چنانچہ
حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ نے
اپنے یتیم بھتیجے کی اپنے سگے بیٹے کی طرح پرورش اور تربیت فرمائی اور پھر اپنی
نواسی سے اُن کا نکاح بھی کر دیا … اور اپنی جائیداد میں سے بھی شرعی ورثا ء کی
اجازت سے اُن کو کچھ حصہ عطا فرمایا …
چنانچہ حضرت شاہ
عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کے قابل رشک اعمال اور صدقات جاریہ میں جہاں ایک طرف
’’تفسیر موضح قرآن‘‘ ہے تو دوسری طرف … حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ بھی
آپ کا ’’صدقہ جاریہ‘‘ ہیں … دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ یہ حضرت شاہ عبدالقادر
رحمۃ اللہ علیہ پر اللہ تعالیٰ کا کتنا
بڑ ا فضل اور احسان ہے … واقعی ہے نہ بڑا کمال ؟…
آج بس اتنا ہی
حضرت شاہ اسماعیل
شہید رحمۃ اللہ علیہ کے کمالات اور حالات
کو ایک مضمون میں سمیٹنا ممکن نہیں ہے …
آج کی مجلس کا اختتام حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ’’حیات معطرہ‘‘ کے ایک بہت قیمتی اور انمول
پہلو کی چند جھلکیوں پر کرتے ہیں…
* حضرت
شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے جب
حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت
کر لی تو بیعت کے بعد آپ کا یہ حال تھا کہ سیّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جو تیاں اٹھاتے ، پالکی کے پیچھے پیدل چلتے ،
رکاب تھامتے، شکار بند پکڑ کر چلتے ، مولوی محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ صاحب لکھتے ہیں:
’’ راستہ میں حضرت (سیّد صاحب ) فرماتے کہ
مولانا ! خدا نے سواری دی ہے ، سوار ہو لو، بس جا کر سوار ہو جاتے ، بیس قدم چل کر
پھر اتر پڑتے اور شکار بند آکر پکڑلیتے پھر حضرت فرماتے مولانا ! منزل تک سوار ہو
چلو، ہاتھ باندھ کر عرض کرتے کہ حضرت! اسماعیل کو اتنی بھی مفارقت (یعنی آپ کی
جدائی ) گوارا نہیں ‘‘۔( کاروان ایمان و عزیمت )
* ایک
شخص نے شاہ صاحب سے کہا : حضرت آپ کی عمر اور سیّد صاحب کی (عمر) ایک ہے (یعنی وہ
اور آپ ہم عمر ہیں پھر اتنا احترام ؟) فرمایا کہ عمر سیّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ہے ‘ میری کیا عمر ‘ میں اُن
کا غلام ہوں ۔ اس لفظ کو مکرر (یعنی بار بار) کہتے رہے۔ (کاروان ایمان و عزیمت )
* جس
تاریخ سے یہ دونوں بزرگ (حضرت مولانا عبدالحی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ )
داخل خدام ہوئے ( یعنی سیّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے ) اس تاریخ سے تا مرگ بلا کسی دینی
ضرورت کے آپ کی خدمت بابرکت سے ایک امر بھی علیحدہ نہیں ہوئے اور حق تو یہ ہے کہ
ان بزرگوں نے سید صاحب کو خوب پہچانا تھا … ان کی جاں نثاری او ر فرمانبرداری ضرب
المثل ہے، یہ دونوں بزرگ آپ کی پالکی کے ساتھ ننگے پائوں دوڑنے کو فخر دارین
جانتے تھے اور ان دونوں سر تاج علماء دہلی نے جن کی تعظیم بادشاہ دہلی تک کرتے
تھے، اپنے تئیں بالکل مٹا دیا تھا …
( کاروان ایمان وعزیمت )
* سید
صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کے بعد (
حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ )
کا زیادہ وقت انہیں کی معیت میں گذرا‘ جہاد کے لئے تبلیغ و تنظیمات کا کام سب سے
بڑھ کر انہوں نے انجام دیا ، سیّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حج کیا، اس وقت ان کی والدہ ماجدہ زند ہ
تھیں، حج کے لئے ساتھ گئیں، مکہ معظمہ میں انہوں نے سیّد صاحب کی بیعت کی، وہاں
وفات پائی اور جنت المعلّٰی میں دفن ہوئیں۔(جماعتِ مجاہدین)
* (حضرت
شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ )بعض
اوقات بیماری کی تکلیف میں دو دو دن تک سو نہ سکتے یہاں تک کہ اٹھنے بیٹھنے کی
طاقت بھی نہ رہتی ‘ تاہم سید صاحبؒ کی طرف سے کسی جنگی مہم کے انتظام کا حکم پہنچ
جاتا تو بے توقف ، ہتھیار سنبھال کر شیر کی طرح مسلمانوں کے معاملات کی درستی میں
مصروف ہو جاتے ۔ (جماعت مجاہدین)
* آپ
سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حکم سے پہلی
مرتبہ بالاکوٹ آئے تھے تو سکھوں پر شبخون (یعنی حملے) کا فیصلہ کر لیا تھا ، عین
آخری وقت میں تاکیدی حکم آیا کہ شاہ صاحب خود ’’ سچوں‘‘ آجائیں اور بالاکوٹ کی
حفاظت کا کام حبیب اللہ خان گڑھی والے کے حوالے کر دیا جائے ، شاہ صاحب رحمۃ اللہ
علیہ نے یہ فرمان پاتے ہی شبخون کا ارادہ
ملتوی کر دیا اور ’’سچوں‘‘ جانے کی تیاری کر لی۔ (جماعت مجاہدین)
* تکیہ
( رائے بریلی) کے قیام میں یہ فاضل بے بدل ( یعنی حضرت شاہ اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ
) سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فرمائے ہوئے
مضمون کو تختی پر لکھتا اور سیّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو سناتا … سیّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کبھی کبھی پانچ پانچ مرتبہ دھلواتے اور لکھواتے
(یعنی کئی بار مٹانے اور نیا لکھنے کا حکم فرماتے) تو آپ کی پیشانی پر شکن نہ آتی
۔
’’ صراط مستقیم‘‘ میں تین تین چار چار سطروں
کے القاب میں سیّد صاحب کا نام لیتے ہیں ۔
(کاروان ایمان و عزیمت)
* بیعت
کے بعد سفرو حضر میں مولانا عبدالحیٔ رحمۃ اللہ علیہ و مولانا محمد اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ دونوں بزرگ سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ رہے ‘ رائے بریلی کے مقام میں ہر حال میں
شریکِ حال رہے ‘ فاقے کئے ، لکڑیاں کاٹیں ، گھاس چھیلی ، اینٹیں تھاپیں ، مکانات
اور مسجدیں بنائیں۔ (کاروان ایمان و عزیمت )
٭…حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں :
اگر سیّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ مجھے اس مبارک لشکر سے نہایت سختی
اور ذلت و اہانت کے ساتھ نکال دیں اور باہر کر دیں تو بھی ہر گز ہرگز اس فرشتہ صفت
لشکر سے جدا نہیں ہو سکتا، سو تدبیریں کر کے پھر اُن کے خدّام میں شامل ہو جائوں
گا ۔ (کاروان ایمان و عزیمت)
خلاصہ یہ کہ حضرت
شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے
راسخ علم کی روشنی میں دیکھا کہ خدمت اسلام اور نجات اخروی کا بہترین راستہ ’’
جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ ہے … چنانچہ وہ سب کچھ چھوڑ کر اس راستے پر چل پڑے … اور وہ
جانتے تھے کہ ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کی قبولیت اور کامیابی کے لئے ’’ اطاعت امیر
‘‘ لازم ہے تو اس میں انہوں نے حد درجہ محنت کی … اور بالآخر اپنی اونچی منزل کو
پا گئے …
اللّٰھم صل علی سیدنا
محمد و الہ و صحبہ
و بارک وسلم تسلیماً
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ
محمد رسول اللہ
٭٭٭
مصر کے بعد
پاکستان؟؟
کامیابی وناکامی
کا اصل معیار دنیوی عزت نہیں…آخرت کی کامیابی ہے…
قرآن مجید کی
عدالت…
اکثر لوگ ایمان نہیں
لاتے… جمہور ناکام… انبیاء کرام علیہم
السلام کامیاب…
ناکام لوگوں کا
انجام… خواہ فرعون بن جائیں مگر ناکام…
کامیاب لوگ کون؟ ایمان
والے… خواہ کسی حال میں بھی ہوں…
مصر میں گولیاں
کھا کر ایمان پر رہنے والے کامیاب…
انہیں غلط کہنے
والے بھی مرجائینگے…
کامیابی ایمان میں
ہے،قرآن کا فیصلہ…
ایمانی کیفیات پیدا
کرنے کی ضرورت…
پاکستان میں مصر جیسے
حالات لانے کا منصوبہ…
ماضی میں ان حالات
پر ہمارا موقف…
حال کو ماضی سے
ہمکنار کرکے کامیابی کا معیار سمجھاتی تحریر…
مصر کے بعد
پاکستان؟؟
اللہ
تعالیٰ کا نظام برحق ہے…
ذٰلِکَ بِاَنَّ
اللہَ ھُوَ الْحَقُّ
اللہ
تعالیٰ کے نظام کو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے ہی سمجھتے ہیں… شیطان بڑے
بڑے دھوکے اور مغالطے ڈالتا ہے… مسلمان غالب کیوں نہیں ہو رہے؟… دیندار مسلمان ہر
جگہ مظلوم کیوں ہیں؟ ہر جگہ مار کیوں کھا
رہے ہیں؟…
کبھی آپ نے قرآن
مجید کی ’’عدالت‘‘ دیکھی ہے… ایک ’’نبی‘‘ کا قصہ سنایا جاتا ہے… یہ نوح ہیں، یہ
ابراہیم ہیں، یہ ھود ہے، یہ صالح ہیں، یہ لوط ہیں، یہ شعیب علیہم السلام ہیں… انہوں نے اپنی اپنی قوم کو دعوت دی، خوب محنت
فرمائی… نتیجہ کیا نکلا؟ قرآن فرماتا ہے:
وَمَا کَانَ
اَکْثَرُھُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (الشعراء:۸)
قوم کے اکثر لوگ ایمان
نہیں لائے… جمہور نے ان انبیاء علیہم السلام
کی دعوت کو ردّ کر دیا… انہوں نے ان انبیاء علیہم السلام کو بے حد ستایا، بہت زبان درازی،
بہت مذاق اڑایا… اب قرآن پاک فیصلہ سناتا ہے کہ…
’’انبیاء علیہم السلام کامیاب ہو گئے‘‘
دوسرا فیصلہ سناتا
ہے…!!!
جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کا
ساتھ دیا وہ نجات پا گئے یعنی وہ بھی کامیاب…
اور جمہور ناکام
ہو گئے، ذلیل ہو گئے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مر گئے بلکہ مارے گئے…
سبحان اللہ !… ہے نا عجیب فیصلہ؟
اس فیصلے کی دلیل
کیا ہے؟… بار بار فرمایا!
اِنَّ رَبَّکَ
لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمِ (الشعرآء:۹)
’’بے شک آپ کا رب عزیز ہے، غالب ہے اور رحمت
والا ہے‘‘
زور آور مخالفوں
نے چند دن بہت دھوم اڑائی… مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کیا بگاڑا؟… اللہ تعالیٰ کے نظام کا کیا بگاڑا؟…
سورج اسی طرح نکل
رہا ہے، غروب ہو رہا ہے… حتی کہ چڑیا اور مکھی تک کا نظام اسی طرح چل رہا ہے… یہ
لوگ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں آئے تھے تو انہوں نے کون
سی کامیابی حاصل کر لی؟… زندگی کا نظام وہی اور موت کا نظام وہی… سارے فرعون،
قارون، ہامان مر گئے… دجّال بھی مر جائے گا… شیطان بھی مر جائے گا… اللہ تعالیٰ عزیز ہے، اسی کی عزت اور غلبہ دائمی ہے… مگر وہ حکیم ہے…
اس کی حکمت کا انداز عجیب ہے…کسی کو غالب کر کے آزماتا ہے اور کسی کو مغلوب کر کے
آزماتا ہے… اور کامیابی اسی کو دیتا ہے… جو اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکا رہے، عاجز رہے اور اللہ تعالیٰ سے حُسن ظن رکھے… اس کی لاش کے ٹکڑے کتے
کھا رہے ہوں تب بھی وہ کامیاب ہے… وہ ہر طرح سے بے بس اور مجبور کسی چشمے کے کنارے
پڑا کراہ رہا ہو وہ کامیاب ہے…وہ بیماریوں سے چور چور ہلنے جلنے سے عاجز ہو وہ کامیاب
ہے… وہ بھوک پیاس سے نڈھال کہیں اکیلا پڑا ہانپ رہا ہو وہ کامیاب… وہ کسی جیل میں
الٹا لٹکا ماریں کھا رہا ہو وہ کامیاب… وہ کسی سولی کے پھندے پر جھول رہا ہو اس کی
آنکھیں اور زبان باہر نکل آئی ہیں… وہ کامیاب…
ایسے کامیاب لوگ… اللہ تعالیٰ کے نزدیک سورج سے بھی قیمتی، چاند سے بھی
قیمتی… آسمان اور زمین سے بھی قیمتی…حالانکہ دیکھنے میں وہ ’’ناکام‘‘ نظر آتے ہیں
مگر… فرشتے اُن پر رشک کرتے ہیں اور حوریں اُن کے شوق میں شرماتی ہیں… دوسری طرف
دجّال ساری دنیا کا بادشاہ ہو کر… ہر طرح کے اختیارات سے مالا مال ہو کر بھی ناکام
… ایسے لوگوں کی قدر خنزیر برابر بھی نہیں…
یہ سب کچھ قرآن
پاک سکھاتا ہے، ہر ہر آیت میں سمجھاتا ہے… مگرپھر بھی لوگوں کو مایوسیاں بانٹنے
کا شوق ہے… ابھی مصر میں حالات خراب ہوئے تو مایوسیاں ہی مایوسیاں… اسلام کہیں
نافذ نہیں ہو سکتا؟… مزاحمت کا کوئی فائدہ نہیں؟ ارے مصر میں جو مر رہے ہیں وہ کامیاب
جارہے ہیں… ان کو اپنے وقت پر ہی مرناتھا… سیلاب سے مرتے یا زلزلے سے … ایکسیڈنٹ
سے مرتے یا سانپ کے کاٹنے سے… کینسر سے مرتے یا دم گھٹنے سے… مکان گرنے سے مرتے یا
بد ہضمی سے … مگر شان تو دیکھو کہ اسلام کے نعرے لگاتے، سینے میں گولیاں کھاتے… بغیر
کسی درد کے مررہے ہیں… کیا مرنا کوئی ناکامی ہے؟… اگر مرنا ناکامی ہے تو دنیا میں
کون کامیاب ہے؟… کیا اُبامہ نہیں مرے گا؟ کیا بش نہیں مرے گا؟… کیا بل گیٹس نہیں
مرے گا؟… کیا ورلڈ بنک کے مالک یہودی نہیں مریں گے؟ سب ہی مر رہے ہیں، اورسب ہی مرجائیں گے… کیا دنیا میں کوئی ایسا آدمی
ہے جس کا پچھلے دن کا عیش اُس کے ساتھ ہو؟… جو دن گذر گیا وہ گذر گیا… عیش میں
گذرا یا مشکل میں…
ارے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کے نظام کو سمجھو اور اللہ تعالیٰ کے دین میں شک نہ کرو… ارشاد فرمادیا کہ:
’’اگر تم ایمان پر ہو تو تم ہی غالب ہو‘‘
کالم میں زیادہ آیات
نہیں لکھتا کہ… اخبار پڑھنے والے ہمیشہ وضو کی حالت میں نہیں ہوتے… ترجمے پر بے
وضو ہاتھ لگ جائے تو کوئی حرج نہیں… مشرکین مکہ کا لشکر فتح اور شادمانی کے ڈنکے
بجاتا مکہ کی طرف لوٹ رہا تھا… اور مسلمان… غم پر غم، صدمے پر صدمہ اور زخم پر
زخم… بس یوں کہیں کہ بالکل چور چور تھے ٹوٹے پھوٹے تھے… قائد لشکر حضرت آقامدنی
صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں سے خون رُک
نہیں رہا تھا… شہداء کے لئے کفن کا کپڑا دستیاب نہیں تھا… منافقین کی لمبی زبانیں
طعنے دینے سے نہیں رک رہی تھیں… اسلامی لشکر کا تقریبا ہر سپاہی زخمی تھا… اور
مذاق اڑانے والوں کے قہقہے ان زخموں پر نمک بن کر گر رہے تھے… تب قرآن کی عدالت
سے سچا فیصلہ آیا کہ… اپنے دلوں میں دیکھو! اگر ایمان موجود ہے تو تم ہی غالب ہو…
بظاہر بہت عجیب فیصلہ ہے… مگر بالکل برحق فیصلہ تھا… اللہ تعالیٰ فتح دے تو ہم اللہ تعالیٰ سے خوش… اور اگر اللہ تعالیٰ
شکست دے تو ہم اللہ تعالیٰ سے ناراض… یہ ایمان تو نہ ہوا… یہ وفاداری
تو نہ ہوئی… یہ عبدیت تو نہ ہوئی… یہ تو خود غرضی ہوئی اور اپنی ذات کا تکبر… جو
بندہ اللہ تعالیٰ کو یہ حق بھی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ اُسے اس کی غلطی پر سزا دے، یا اپنے پیاروں
کے پیار کا قربانی سے امتحان لے… تو وہ کیسا بندہ ہے؟… ارشاد فرمایا:
’’اگر تم ایمان پر ہو تو تم ہی غالب ہو‘‘
حضرات صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین ایمان پر تھے…
اُس وقت جس غلبے کا اعلان ہوا وہ اگرچہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا… مگر وہ اللہ تعالیٰ کے نظام میں موجود تھا… اور پھر کچھ عرصہ
بعد وہ غلبہ ہر کسی نے دیکھ لیا… مشرکین کا نام و نشان مٹ گیا اور اُحد کے زخمی دنیا
کے حاکم بن گئے… اور ہمیشہ ہمیشہ والی اصل زندگی میں بھی کامیاب ہو گئے… بات سمجھ
آگئی کہ ایک مسلمان کو… نتائج سے بالکل بے پرواہ ہو کر دو باتوں کی فکر کرنی
چاہئے…پہلی یہ کہ اُس کے دل میں ایمان کی جو شمع جل رہی ہے وہ کبھی نہ بجھے، کبھی
نہ بجھے… اور دوسرا یہ کہ اُس کا راستہ سیدھا رہے… منزل ملے یا نہ ملے… یہ راستہ ہی
خود منزل ہے… اس لئے سورہ فاتحہ میں راستہ مانگا گیا… منزل نہیں مانگی گئی…مسلمان
غالب ہو جائے تب بھی ایمان پر رہے اور راستے پر رہے…مسلمان مغلوب ہو جائے تب بھی ایمان
پر رہے اور راستے پر رہے… دونوں آنکھیں چھن جائیں تب بھی ایمان پر رہے… اللہ تعالیٰ سے ناراض نہ ہو… دنوں بازو اور دونوںٹانگیں
چھن جائیں… تب بھی ایمان پر رہے… اللہ تعالیٰ سے بدگمان نہ ہو… مال اور حکومت مل جائے
تب بھی ایمان پر رہے تکبر اور غفلت میں مبتلا نہ ہو… فقر اور بھوک ملے تب بھی ایمان
پر رہے… مایوس نہ ہو… بس یہی ہے، اسلام… یعنی خود کو سپرد کر دینا… اور یہی ہے ایمان…یعنی
اللہ تعالیٰ پر پورا اعتماد رکھنا…
کبھی کبھی سجدے میں
گر جایا کریں… اور کہا کریں…
یَا رَبِّ اَنَا
الذَّلِیْلُ الْمُفْتَقِرْ
یا اللہ ! میں آپ کے سامنے ذلیل ہوں… دل اور جان
سے مطیع اور جھکا ہوا ہوں… اور میں آپ کا ہی محتاج ہوں… بار بار پڑھتے رہیں… بار
بار پڑھتے رہیں… پھر کہیں…
اَللّٰھُمَّ
اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْم
یا اللہ ! آپ عزت وغلبے والے
اور کرم و احسان فرمانے والے ہیں… آج ہم مسلمانوں کا بڑا مسئلہ نہ امریکہ کی طاقت
ہے اور نہ انڈیا کی بدمعاشی… یہ سب تو میرے مالک کے سامنے مچھر کے پر کے برابر بھی
نہیں… مسلمانوں کا اصل مسئلہ اُن کے دل میں ایمان کی کمزوری ہے… کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کٹ گئے… وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ذلیل اور محتاج بن کر پیش نہیں
ہوتے… تو ساری دنیا میں ذلیل و محتاج ہوتے ہیں… وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ذلیل و محتاج بنتے تو ساری دنیا
پر حکومت کرتے… اپنے دل کے ایمان کی فکر مسلمانوں سے نکل گئی… ہر شخص کسی نہ کسی
فانی یا فسادی فکر میں مبتلا ہے… اس کے پاس وقت ہی نہیں کہ… اپنے دل کو دیکھے کہ
اس میں ایمان کہاں کھڑا ہے؟… اور اُس کے دل کا اللہ تعالیٰ سے تعلق کتنا ہے؟… دنیا دیکھے گی کہ…
جہاد کی طاقت کی برکت سے دنیا کے تمام موجودہ فرعون ذلیل و رسوا ہو جائیں گے… جہاد
میں یہ طاقت اللہ تعالیٰ نے ہی رکھی ہے… مجاہدین کو چاہئے کہ… اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط تر کریں… ایمان
کے ذریعہ،امانت کے ذریعہ، عبادت،اتباع سنت وذکر کے ذریعہ، اطاعت امیر کے ذریعہ اور
اچھے اخلاق کے ذریعہ… غیبت بالکل بند… خیانت سے اس طرح نفرت جس طرح خنزیر کے گوشت
سے… فساد اور ذاتی برتری اور عہدوں کا شوق دل سے نکالیں… خود کو مٹاکر آگے بڑھیں
کیونکہ جنت بہت اونچی ہے… اور ناک و عزت کا بوجھ انسان کو اڑنے نہیں دیتا… اپنی
مجالس کو غیبت اور فتنہ وفساد سے پاک رکھیں… اوراپنے دل کے نور کو نہ بجھنے دیں…
جب فکر گھر کی، کھانے کی، عہد ے کی، منصب کی… اور اپنی ذات کی پڑجائے تو دل کا نور
بجھ جاتا ہے… اور اونچے عزائم… جلی ہوئی لکڑیوں کی طرح دھواں دینے لگتے ہیں…عہدوں
کا ایسا شوق کہ… اپنی ذرہ سی معزولی یا تبدیلی کا خطرہ محسوس ہو تو… فوراً غیبت کا
طوفان کھڑا ہو جائے… اور دل فساد کی طرف مائل ہو جائے تو… ایسے عہدے ایمان کے لئے
زہر قاتل ہیں (یہ خاص کسی کی طرف اشارہ نہیں، یہ ایک عمومی مہلک مرض ہے جس میں شیطان
مبتلا کرتا ہے… اور یہ ایک مسلمان کے دین کے لیے اُس سے بھی زیادہ خطرناک ہے جتنا
ایک بھوکا خونخوار بھیڑیا بکریوں کے لیے جیسا کہ حدیثِ پاک میں آیا ہے… پس جس میں
یہ بیماری ہو وہ اپنی نجات کے لیے اس کا علاج کرے)… مُردہ وہ نہیں جس میں جان نہ
ہو… مُردہ تو وہ ہے جس کے دل کا نور بجھ
چکا ہو… اللہ تعالیٰ ہی عزت دینے والا ہے… اللہ تعالیٰ ہی ذلت سے بچانے والاہے… اسی کی ذات سے
محبت اسی کی ذات پر اعتماد… اور اسی پر توکل کر کے… قربانی، محنت اور دیانت سے
جہاد کا کام کرنے والوں کو… کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا… وہ کامیاب ہی رہتے ہیں…
جس حالت میں بھی ہوں… ان کی کامیابی نظر آتی ہو یا نہ آتی ہو… اللہ تعالیٰ کے محکم نظام میں کامیاب ہیں… یہود و
نصاری اور دشمنان اسلام نے ایک منظم ترتیب کے ساتھ’’مصر‘‘ میں خون مسلم کی ہولی کھیلی
ہے… اب اُن کا رخ’’پاکستان‘‘ کی طرف ہے… وہ یہاں بھی وہی تجربہ آزمانے کے لئے
اپنے تمام مہروں کو سرگرم کر چکے ہیں… مسلمان، مسلمان سے لڑے… مسلمان، مسلمان کو
مارے… مسلمانوں کے ہر گھر میں یتیم بچے اور بیوائیں ہوں… مسلمانوں کا خون ہر طرف
بہتا نظر آئے…یہ ان کی خواہش ہے… اور اس خواہش کی تکمیل کے لئے وہ منافقین کو
پالتے ہیں… اورپھر ان منافقین کے ذریعہ اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں… پاکستان میں… مصرکا ماحول بنانے
کی تیاریاں مجھے زور و شور سے ہوتی نظر آرہی ہیں… قتل و غارت اور خونریزی کا ایک
طوفان تیار کیا جارہا ہے…ہماری تو کوئی سنتا نہیں کہ اس طوفان کو روکنے کے لئے
تجاویز دیں… پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں جب ایساطوفان اٹھانے کی تیاریاں تھیں
تو… ’’کالی آندھی‘‘ کے نام سے ایک مضمون لکھ کر… ہر طرف پھیلایا، ہر کسی تک پہنچایا…
کچھ لوگوں نے مان لیا، اللہ تعالیٰ نے اُن سے دس سال کلمے اور جہاد کی محنت
کا اونچا کام لیا… اللہ کرے وہ اس کام کی
حفاظت کر کے اسے اپنے ساتھ آخرت میں لے جائیں… مگر حکومت اور کچھ طبقوں نے اُس
مضمون کو دھمکی اور بزدلی قرار دے کر پھینک دیا… تب کچھ ہی عرصہ بعد وہ کالی آندھی
آئی جو ابھی تک نہیں تھمی… اور ہزاروں افراد کا خون کر گئی… اور مستقبل کا جو
منظر نامہ اس مضمون میں بیان کیا گیا تھا وہ ہر کسی نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا…
اب اُس سے زیادہ ایک بڑی آندھی کفر کے ایوانوں سے تیار کر کے… پاکستان بھیجی جا
چکی ہے… خیبر سے کراچی تک جنگ ہی جنگ اور خون ہی خون… افغانستان میں قائم انڈین
سفارتخانے اس آندھی کو تیز کرنے کے لئے پوری طرح سرگرم ہیں…ہم اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعاء مانگتے ہیں… اورکہتے ہیں…
حَسْبُنَااللّٰہُ
وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ
اللہ تعالیٰ سب کی
سنتے ہیں ہم انہیں کے حضور التجاء اور دعا کرتے ہیں کہ وہ اس طوفان کو روک دیں…
اور فریقین کو عقلِ سلیم عطاء فرمائیں…
باقی رہاڈر اور
خوف… تو یاد رکھیں! دنیا میں کوئی ایسانہیں جس سے ڈرنے یا خوف کھانے کی گنجائش ہو…
یہ لوگ مار ہی سکتے ہیں… اور موت نے ہر حال میں آنا ہے… خوف اور ڈر صرف اللہ تعالیٰ کا… اور اس بات کا کہ… دل سے ایمان نہ
نکل جائے… اور سیدھے راستے سے پاؤں نہ پھسل جائے… اور دل میں جو دین کے کام کی
فکر روشن ہے وہ… دنیا کے دھندوں میں نہ بجھ جائے…بس بھائیو! اور بہنو…
ایمان کی حفاظت، سیدھے
راستے پر قائم رہنے کی فکر… اور اپنی فکر کو روشن رکھنے کی آرزو… اور کچھ نہیں،
اور کچھ نہیں…
ہاں سنو! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں!
تم ہی غالب ہو،
اگر تم ایمان پر ہو…
اَللّٰھُمَّ یَا
مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوْبَنَا عَلیٰ دِیْنِک
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا ﷲ محمد
رسول ﷲ
٭٭٭
مراقبۂ شکر
ہمارے ہر طرف نعمتیں
ہی نعمتیں ہیں اور ان پر شکر لازم ہے…
ایک تاجر اور ایک
بزرگ کا عمل… ایک اہم سبق…
’’الحمدللہ‘‘ بند دروازے کھولنے والا کلمہ…
عظیم نیکی…
نعمت ایمان پر
الحمدللہ…
دنیا کے اربوں
انسان اس نعمت سے محروم…
نعمت نماز پر
الحمدللہ… نماز کا عظیم مقام…
آزادی کی نعمت پر
الحمدللہ…
لاکھوں لوگ اس
نعمت سے محروم ہیں…
جہاد اور جہادی
جماعت ملنے کی نعمت پر الحمدللہ…
اطاعت امیر کی اہمیت
اور حدود…
جہادی امور میں
عسکری و غیر عسکری کا فرق…
اللہ تعالیٰ کی بڑی
نعمتوں کا ذکر اور ان پر شکر کا مراقبہ…
مراقبہ ٔ شکر
اللہ
تعالیٰ’’شکر‘‘ کی توفیق عطاء فرمائے… ایسی توفیق کہ ہم دل سے پکار اٹھیں:
اَلْحَمْدُ
لِلهِ،اَلْحَمْدُ لِلهِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
ایک بار دبئی میں
ایک تاجر کو دیکھا،وہ ہم مہمانوں کو بھی نمٹا رہاتھا اور ساتھ ساتھ اپنے فون کے ذریعہ
کاروبار بھی چلا رہا تھا…موبائل کا دور آیا نہیں تھا، تار والا فون تھا اور وہ حیرت
انگیز تیزی سے نمبر ملاتا تھا… پھر ایک اللہ والے کو دیکھا وہ ہم مہمانوں کو بھی نمٹا رہے
تھے، مکہ مکرمہ کے ایک چھوٹے سے ہوٹل کا کمرہ تھا… وہ بہت اچھی اچھی باتیں فرماتے
اور ہماری بھی سنتے مگر جیسے ہی ان کی بات پوری ہوتی تو ان کی زبان اُن کے تالو سے
ٹکرانے لگتی:
ش ش ش ش ش
نہ ہاتھ میں تسبیح
اور نہ ذکر کا اظہار، بس چپکے چپکے اپنا کاروبار چلا رہے تھے اور آخرت کا نفع کما
رہے تھے… پھر ایک اور بزرگ سے ملاقات ہوئی وہ مہمانوں کو یوں نمٹاتے کہ ساتھ ساتھ
اُن کا ’’کاروبار‘‘ بھی چلتا رہتا… ملتے ہی فرماتے…
دیکھونا! اللہ سائیں نے ملا دیا… الحمدﷲ، الحمدﷲ… اکثر جملوں
کے ساتھ دو بار الحمدﷲ، الحمدﷲ… جو لوگ ’’الحمدللہ‘‘ کا معنیٰ اور مقام سمجھتے ہیں
وہ جانتے ہیں کہ اس مبارک اور اونچے کلمے کو پڑھنا کتنی نفع بخش تجارت ہے…
آئیں ہم بھی پڑھ
لیں…
اَلْحَمْدُ
لِلهِ،اَلْحَمْدُ لِلهِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
کسی نے بہت پہنچی
ہوئی بات کہی کہ… الحمدﷲ پڑھنے سے بنددروازے کھلتے جاتے ہیں… مالک حقیقی نے خود
فرمایا… تم شکر کرو گے تو میں زیادہ دوں گا… دنیا میں اس وقت پانچ ارب سے زائد
انسان’’کلمہ طیبہ‘‘ سے محروم ہیں… اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل سے یہ مبارک کلمہ’’لاالہ
الا ﷲ محمد رسول ﷲ‘‘ نصیب فرما دیا… اس عظیم اور انمول نعمت پر تو پڑھ لیں…
اَلْحَمْدُ
لِلهِ،اَلْحَمْدُ لِلهِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
صرف تین بار الحمدﷲ
پڑھنے سے … عام نہیں خاص الخاص قسم کی نوے نیکیاں ملتی ہیں… اور پھر الحمدﷲ قرآن
پاک کی آیت مبارکہ بھی ہے… اور قرآن پاک کے ہر حرف کوپڑھنے پر دس نیکیاںملتی ہیں…
اور صرف’’الحمد‘‘ میں پانچ حرف ہیں اور پھر بڑی اونچی بات یہ ہے کہ… سب سے افضل دعاء’’الحمدﷲ‘‘
ہے اور دعاء… تمام عبادتوں کا اصل اور مغز ہے… پڑھیں! پڑھیں! شکر میں ڈوب کر پڑھیں…!
اَلْحَمْدُ
لِلهِ،اَلْحَمْدُ لِلهِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
مجھے معلوم ہے کہ
آپ سب دکھی ہیں اور غمگین… شام کے مسلمانوں پر کیمیاوی ہتھیاروں سے حملہ ہوا…مصر
کا خون دریائے نیل کو سرخ کر رہا ہے… اور امت مسلمہ لہو لہو ہے…مگر ہم مسلمانوں کے
پاس اپنے رب کی ایسی ایسی نعمتیں ہیں کہ انتہائی دُکھی حالات میں بھی وہ… ہمیں مایوس
نہیں ہونے دیتیں… کیا آج آپ نے فرض نمازیں اداکیں؟… فرض نمازیں اتنی بڑی، اتنی
اعلیٰ اور اتنی قیمتی نعمت ہے کہ مرتے ہی ہر انسان کو اس نعمت کی قدر آجائے گی…
جب جہنمی کہہ رہے ہوں گے ہمیں اس لئے یہ آگ جلا رہی ہے کہ… ہم نمازیں نہیں پڑھتے
تھے، ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے…
لَمْ نَکُ مِنَ
الْمُصَلِّیْنَ…
تب نماز کی نعمت
پانے والے کہیں گے…
اَلْحَمْدُ
لِلهِ،اَلْحَمْدُ لِلهِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
عشاء کے بعد مصلے
پر بیٹھ جائیں، آنکھیں بندکر لیں اور دل میں کہیں یا اللہ آپ نے آج فجر کی نماز نصیب فرمائی…الحمدﷲ،
الحمدﷲ،الحمدﷲ… آپ نے ظہر کی نماز نصیب فرمائی… الحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ…اسی طرح ہر
نماز کو یاد کرتے جائیں اورالحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ پڑھتے جائیں…
پانچ نمازوں پر
پندرہ بار الحمدﷲ… یہ شکر بھی ہو گیا، دعاء بھی ہوگئی اور آگے کی نمازیں بھی
آسان… جو آج کی نمازوں پر شکرادا کرے گا اُس کے لئے کل کی نمازیں پھولوں کی
خوشبو کی طرح آسان ہوجائیں گی…کہتے ہیںکہ فجر میں نہیں اُٹھا جاتا… عشاء کے بعد
عشاء کی نماز کا شکر ادا کریں…الحمدﷲ، الحمدﷲ،الحمدﷲ… دل کی گہرائی سے… تب ان شاء اللہ فرشتے آپ کو فجر میں اٹھا کر مسجد کی پہلی صف میں
جا بٹھائیں گے…
اَلْحَمْدُ
لِلهِ،اَلْحَمْدُ لِلهِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
آج
آپ اپنے گھر پر ہیں؟… اگر گھر پر ہیں تو شکر ادا کریں…
اَلْحَمْدُ
لِلهِ،اَلْحَمْدُ لِلهِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
دنیا کے کئی ملین
انسان جیلوں میں ہیں… اُن کو اپنے گھر کی شکل تک بھول گئی… دنیا کے کئی کروڑ انسان
ہسپتالوں میں ہیںوہ گھر جانے کو ترستے ہیں… اوردنیا کے کروڑوںانسان ایسے ہیں کہ
اُن کے پاس گھر ہی نہیں… اورپھر گھر بیٹھنے سے بھی زیادہ بہتر اور افضل اللہ تعالیٰ کے راستے کا سفر ہے… جہاد کا سفر، طلبِ
علم کا سفر اور احیائِ دین کا سفر، جنہیں یہ سفر نصیب ہو جائے وہ دل کی گہرائی سے
کہیں:
اَلْحَمْدُ
لِلهِ،اَلْحَمْدُ لِلهِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
جہاد کاسفر فرشتوں
کو زمین پر لے آتاہے… اور جہاد کے راستے کی مٹی جنت کا مُشک بن جاتی ہے… ایک ہے
جہاد…وہ شروع ہوتا ہے دشمنوں کے مقابلے سے… یعنی محاذ جنگ سے… اُس کا مقام بہت
اونچا اور نرالاہے… اور دوسرا ہے جہاد کا کام… وہ بہت وسیع ہے… اور اس میں دور قریب
کا کوئی فرق نہیں… کوئی مجاہدین کیلئے اموال جمع کرے، کوئی مجاہدین کے لئے افراد تیار
کرے… کوئی مجاہدین کی مضبوطی اور دعوت جہاد کیلئے مساجد و مراکز آباد کرے… کوئی
مجاہدین کو جسمانی اور سلاحی تربیت دے، کوئی مجاہدین کو دینی اور روحانی تربیت دے…
کوئی مجاہدین کے اموال کی حفاظت کر ے اور حساب رکھے، کوئی مجاہدین کی دعوت اور کام
کو پھیلانے کیلئے لکھے، پڑھے اور چھاپے… کوئی مجاہدین کو آخری وقت رخصت کرے اور
کوئی مجاہدین کے گھروں کی حفاظت اور دیکھ بھال کرے… یہ سب جہاد کے مبارک کام ہیں…
اس میں عسکری کی چمک اور غیر عسکری کی حقارت والی تقسیم غلط ہے اور شیطانی فتنہ
ہے… اس میں جس کی جتنی محنت، جس کا جتنا اِخلاص اور جس کی جتنی قربانی ہو گی اُسے
اُسی قدر اجر ملے گا… ان میں سے کوئی کام ایسا نہیں کہ جس کے بغیرمنظم اور شرعی
جہاد چل سکے اور آگے بڑھ سکے… پس یہ سب کچھ جہاد کا حصہ ہے… جس کو اس میں سے کچھ
بھی اخلاص کے ساتھ نصیب ہو جائے وہ دل کی گہرائی سے شکر ادا کرے:
اَلْحَمْدُ
لِلهِ،اَلْحَمْدُ لِلهِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
اگر ان کاموں میں
سے بعض کو جہاد کہیں اوربعض کو غیر جہاد… بعض کو عسکریت کہہ کر چمکایا جائے اور
بعض کو غیر عسکریت کہہ کر گرایا جائے تو… جہاد کا پورا نظام ہی فنا ہو جائے گا… کیا
بغیر مال کے جہاد چلتاہے؟… کیا بغیر دعوت کے جہاد بڑھتاہے؟ کیا بغیر تعلیم و تربیت
کے جہاد پنپتاہے؟… تب تو’’امیر‘‘ ظالم ہوگا کہ اُس نے اپنے بعض مأمورین کو جہاد میں
لگایا… اور دوسرے بعض کو جہاد سے محروم کر دیا حالانکہ سب نے جہاد کی بیعت کی تھی…
آج اسلامی حکومتیںموجودنہیں ہیں کہ شہداء
کرام کے گھروں کی کفالت کریں… اُمت میں جہاد کا درد زندہ رکھیں تاکہ افراد کی کمی
نہ ہو… مجاہدین کے لئے تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں تاکہ جہاد، فتنہ اور فساد میں
تبدیل نہ ہو… علم، پیسے اور تقوے کی کمی مجاہدین کو اغواکاری اورفساد میں ڈالتی
ہے… اگر اسلامی حکومتیں موجود ہوتیں تو باقی سارے کام وہ کرتیں اور مجاہدین صرف
محاذوں پر لڑتے… مگر اب اسلام کے اس قطعی اور محکم فریضے کو… شرعی بنیادوں پر زندہ
رکھنے کے لئے… جہاد اورمعاونت جہاد… یہ دونوں کام مجاہدین کو کرنے ہیں… اور ان میں
سے ہر کام کی تشکیل کے لئے ہر مجاہدکو تیار رہنا چاہئے… جن کو اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی بھی کام کی توفیق عطاء
فرمائی ہے وہ شکر اداکریں اور مایوسی میں نہ گریں… دل سے پکاریں…
اَلْحَمْدُ
لِلهِ،اَلْحَمْدُ لِلهِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
کسی
مسلمان کا جہاد قبول ہو جائے یا اس کی جہادی محنت قبول ہو جائے تووہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حُسن خاتمہ کو پالیتا ہے… یعنی
پکا ٹھکا کامیاب ہو جاتا ہے… یہاں ایک ضروری نکتہ سمجھ لیں… ممکن ہے آج کل اسے نہ
سمجھا جائے مگر ہم نے اور آپ نے تو مرجانا ہے… ان شاء اللہ اگلی نسلیں ان باتوں سے فائدہ اٹھالیںگی… جہاد کی
قبولیت کے لئے امیر کی اطاعت شرط ہے… امیر کا راضی ہونا شرط نہیں… ایک شخص امیر کی
اطاعت کرے اور اس کی تشکیل میں چلے مگر امیر اس سے راضی نہ ہو یہ شخص اور اس کا
جہاد کامیاب ہے…اور ایک شخص امیر کی نافرمانی کرے مگر امیر اس سے راضی ہو تو امیر
کاراضی ہونا اُس کے جہاد کو مقبول نہیں بنا سکتا…امیر بنانے کا حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے… امیر کی بیعت کا حکم شریعت اسلامیہ
نے دیا ہے… امیر کی اطاعت کا حکم اللہ تعالیٰ نے اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے… امیر کی اطاعت کی جائے تو جماعت پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ رہتا ہے اور دلوں پر سکینہ نازل ہوتا ہے… امیر کی
نافرمانی کی جائے تو اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اٹھ جاتا ہے اور دلوں کا اطمینان
جاتارہتاہے…
امیر کی اطاعت کے
لئے شریعت نے بہت عمدہ الفاظ فرمائے ہیں کہ… سنو اور اطاعت کرو(اَلسَّمْعُ وَ
الطَّاعَۃْ) … دیکھنا شرط نہیں، جانچنا شرط نہیں… بس ایک ہی شرط ہے کہ اُس کا حکم…
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف نہ ہو… ایسے حکم کو سنو اور
اطاعت کرو…وہ تمہیں آگے رکھے تو آگے رہو، وہ تمہیں پیچھے دھکیلے تو پیچھے
آجاؤ…تب تمہارے جہاد میں نور ہوگا، برکت ہوگی اور تمہارے دل میںروشنی ہوگی… امیر
کو راضی کرنا شرط نہیں… ایک مجاہد مکمل اخلاص سے اطاعت کرتا ہے اور حکم کے مطابق
کوئی کام کرتا ہے… مگر قسمت کی بات کہ مطلوبہ نتائج نہیں نکلتے… امیر بھی انسان ہے
وہ اس پر ناراض ہو سکتا ہے…امیر کو کیا معلوم کہ مأ مور نے پوری محنت یا اطاعت کی
یا نہیں… تو ایسی ناراضی کوئی نقصان دہ نہیں… یاد رکھیں والدین اور امیر کی ڈانٹ،
تنبیہ ایک مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے… جبکہ ایک اور مجاہد جھوٹ،
دھوکے اور فریب سے امیر کو خوش اور راضی کر لیتا ہے… مگر نہ اطاعت کرتا ہے اور نہ
بات مانتا ہے… ایسے شخص کو امیر کاراضی ہونا فائدہ نہیں دے سکتا… آج چودہ صدیوں
بعد جس صدی کے مجاہد ہیں، امیر بھی اسی صدی کا انسان ہو گا… جبکہ حضرت آقامدنی
صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے بارے میں
فرمادیا کہ(مفہوم)… دو آدمی میرے پاس کوئی فیصلہ کرانے آتے ہیں ان میں سے ایک
چرب زبان ہے وہ اپنی زبان کے زور پر فیصلہ اپنے حق میں کرالیتا ہے… مگرحقیقت میں
وہ جھوٹا ہوتا ہے تو میرا اس کے حق میں فیصلہ کر دینا قیامت کے دن اُس کے کسی کام
نہیں آئے گا… میرے فیصلے سے اُس کے لئے کوئی حرام چیز حلال نہیں ہوگی… جہاد کا
ملنا ایک بڑی نعمت ہے… جہاد والی جماعت کا ملنا ایک بڑی نعمت ہے… اور امیر جہاد کا
ملنا ایک بڑی نعمت ہے… جن کو اس زمانے میں یہ نعمتیں نصیب ہوں… وہ دل کی گہرائی سے
کہیں…
اَلْحَمْدُ
لِلهِ،اَلْحَمْدُ لِلهِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
کیا آپ کو دو وقت
کی روٹی نصیب ہے؟… اگر نصیب ہے تو شکر ادا کریں…
اَلْحَمْدُ
لِلهِ،اَلْحَمْدُ لِلهِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
دنیا کے کروڑوں
انسانوںکو… دو وقت کی پوری غذا نہیںملتی… آپ کی ٹانگیںسلامت ہیں؟… شکرادا کریں…
آپ کے بازو کام کرتے ہیں؟ شکر ادا کریں؟… آپ کو قرآن مجید پڑھنا آتا ہے؟… شکر
ادا کریں…
بھائیو! اور بہنو!
ہر طرف نعمتیں ہی
نعمتیں… پھر یہ ناشکری کیوں؟…
کہتے ہیں اصل شکر
تو تب ادا ہوتا ہے جب… آپ کے چاروں طرف موجود ہر شخص آپ کو مایوسی کی طرف دھکیل
رہا ہو… کسی سے کوئی امید باقی نہ رہے… تب اپنے دل کو یاد دلائیں کہ… اے دل!جس نے
تجھے پیدا فرمایا وہ کہتا ہے… لَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ… اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو… ارے جب تم سے سب
کچھ چھن جائے تو یہ سوچو کہ مالک نے جس کے ہاتھوں میں پہلے سے زیادہ قیمتی چیز دینی
ہو تو پہلے اس کے ہاتھ پرانی چیزوں سے خالی کرادیتا ہے… تاکہ وہ بڑی نعمتوں کو اچھی
طرح سنبھال سکے… اللہ ایک ہے، اللہ قادر ہے… اللہ تعالیٰ رحیم ہے کریم ہے… وہ ہمارا رب ہے… وہ
ہمارا رب ہے… وہ ہمارا رب ہے…
اَلْحَمْدُ
لِلهِ،اَلْحَمْدُ لِلهِ، اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا ﷲ محمد
رسول ﷲ
٭٭٭
محفوظ راستہ
دنیا دارالعمل ہے،
دارالجزاء نہیں… دنیا میں اعمال کے بدلے کی خواہش…
انسان کی گمراہی
کا نقطۂ آغاز ہے…
امریکہ کا عراق، لیبیا
اور شام کے بارے میں متضاد طرز عمل…
امریکہ
سے انصاف مانگنا، اسے آئینہ دکھانا ایک کارِ لا حاصل…
خطے میں امریکہ کے
مقاصد اور اس کے مددگار گروہ…
لیبیا… خطے میں
امریکہ کے خلاف نیا محاذ…
ایک مسلمان امریکی
کرنل کی عظیم کاروائی اور استقامت…
’’جہاد‘‘ کے عمل میں برکت کی ایک عجیب مثال…
شام کے ایک مجاہد
’’زکریا‘‘ شہید کی یاد…
مسلمانوں کی باہمی
لڑائیاں اور ان کا سبب…
متنوع موضوعات کا
احاطہ کرتی ایک روشن تحریر…
محفوظ راستہ
اللہ
تعالیٰ نے ’’دُنیا‘‘ کو’’عمل‘‘ کی جگہ بنایاہے…
بدلے کی جگہ نہیں…
انسان کی گمراہی
کا آغاز اسی سے ہوتا ہے کہ… وہ اپنے نیک اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں لینے اور
پانے کا خواہش مند ہو جاتا ہے… یہ بڑا اہم نکتہ ہے اسے یہاں روک کر چنداور باتیں…امریکہ
آج کل’’شام‘‘ پر حملے کے لئے پر تول رہا ہے… عراق پر حملے کے لئے اُس نے سوچنے کا
تردّد بھی نہ کیا، فوراً چڑھ دوڑا… جبکہ ایران پر حملے کی صرف دھمکیاں ہی چلتی رہتی
ہیں… کیا وجہ ہے؟… لیبیا پر اتنی تیزی سے حملہ کیا گیا کہ دنیا حیران رہ گئی… جبکہ
شام پر صرف حملے کی باتیں ہی چل رہی ہیں… حالانکہ شام میں لیبیا سے چار گنا زیادہ
افراد جنگ کا لقمہ بن چکے ہیں… آخر کیا وجہ ہے؟… قارئین یہ نہ سمجھیں کہ ہم دیگر
صحافیوں کی طرح امریکہ سے انصاف مانگ رہے ہیں یا اُسے آئینہ دکھا رہے ہیں… ہر گز
نہیں! ہمارے نزدیک یہ مکروہ ترین موضوع ہے… جن کی دشمنی واضح ہے اُن سے کیا انصاف
مانگنا، اُن کو کیا آئینہ دکھانا اور انہیں کیا اخلاق اور قانون یاد دلانا؟… مقصد
یہ ہے کہ دنیا میں دوستوں اور دشمنوں کی ایک نئی صف بندی ہور ہی ہے تو ان سوالات
کو ذہن میں رکھ کر مسلمان یہ دیکھیں کہ… اُن کا دوست کون ہے اور اُن کا دشمن کون
ہے؟… ایک بات سوچیں کہ… آج کل عراق میں صدام کے زمانہ سے زیادہ بدامنی، زیادہ قتل
و غارت اور زیادہ خونریزی ہے… تو پھر امریکہ اور نیٹو وہاں امن قائم کرنے کیوں نہیں
جار ہے؟… جواب واضح ہے کہ انہوں نے وہاں صدام کی حکومت ہٹانی تھی اور ایران کی حامی
حکومت بٹھانی تھی… وہ بٹھا دی…اب وہاں کوئی مَرے یا جئے اس سے ان کو کیا غرض؟…
امریکہ بلوچستان
سے لیکر اسرائیل تک… ایک ایسا محفوظ حصار بنانا چاہتا ہے …جو اسرائیل کی حفاظت کر
سکے…
اب دیکھیں کہ شام
میں مسلمان شہید ہوتے رہے… شام کے ان آزادی پسند مسلمانوں کے خلاف بارہ سے زائد
ممالک اورتنظیموں نے جنگ لڑی… مثلاً…
١ بشار
الاسد کی فوج
٢ ایران
کے پاسداران انقلاب
٣ لبنان
کی حزب اللہ
٤ یمن
کے علوی قبائل
٥ کویت
اور بحرین کے وہ لوگ جو مسلکاً ایرانی ہیں…
اور عالمی طاقتوں
میں سے روس اور چین نے بشار الاسد کا پورا ساتھ دیا… برطانیہ نے بشار الاسد کی خفیہ
حمایت کی… امریکہ صرف دھمکیاں دیتا رہا… اور پھر ابھی دو ہفتے قبل’’بشار‘‘
نے’’طنجہ‘‘ کے مسلمانوں پر کیمیاوی ہتھیار تک استعمال کر ڈالے… اس حملے میں شہید
ہونے والے صرف معصوم بچوں کی تعداد پندرہ سو سے زائد ہے… صورتحال یہ ہے کہ شام
کا’’جبھۃ النصر‘‘ اور دیگر مجاہد اور آزادی پسند تنظیمیں شام کے ستر فیصد حصے پر
قبضہ کر چکے ہیں… اس وقت وہ سمندروں کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں…جبھۃ النصر کی
اسلامی شناخت سے اسرائیل لرز رہا ہے کہ… بالکل اُس کے پڑوس میں مجاہدین کی حکومت
اُس کے لئے موت کا پیغام بن سکتی ہے… ایسے میں اب امریکہ نے حملے کی ٹھانی ہے تو
اس کا اہم مقصد’’جبھۃ النصر‘‘ کی پیش قدمی کو بھی روکنا ہے… اور بشار الاسد کے بعد
شام میں کوئی ایسی سیکولر حکومت قائم کرنا ہے جو اسرائیل کے لئے بالکل کوئی خطرہ
نہ ہو… دوسری طرف اس بات کا بھی امکان ہے کہ’’بشار الاسد‘‘ کے ذریعہ ایک دو میزائل
سعودی عرب، لبنان اور اردن کی طرف پھینکوا دیئے جائیں… اور پھر ان ملکوں میں امریکہ
اور نیٹو کی فوجیں جا بیٹھیں… یوں قبضہ بھی مضبوط ہو گا اور ان ملکوں کی دولت لوٹ
کر اپنے ممالک کی ڈوبتی معیشت کو بھی بحال کیا جا سکے گا…
یہ تو زمینی حقائق
ہیں… مگر’’زمین‘‘ ایک چھوٹا سا’’سیارہ‘‘ ہے اللہ تعالیٰ کی قوت اور تدبیر بہت بڑی ہے… وہاں سے جو
فیصلہ آتا ہے وہی زمین پر نافذ ہوجاتا ہے… دشمنان اسلام کے پاؤں کے نیچے سے ریت
کھسکنا شروع ہو چکی ہے… دنیا کے حالات اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ بڑے بڑے
عقلمندوں کی عقل نے کام کرنے سے معذرت کر لی ہے… جہاد کی ایک چھوٹی سی تحریک کو
کچلنے کے لئے دنیا کے سارے ہاتھی جمع ہو کر چڑھ دوڑے… مگر جہاد پھیلتا چلا گیا، پھیلتا
چلا گیا… دس سال پہلے کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ لیبیا میں جہاد کے
نعرے گونجیں گے… اور شام، تحریک جہاد کا مرکز بنے گا… دنیا میں بس جہاد کے دو محاذ
تھے… ایک فلسطین اور دوسرا افغانستان… مگر آج اتنے محاذ ہیں کہ ان کو شمار کرنا
بھی ممکن نہیں… افغانستان اور فلسطین کے گمنام شہداء کا خون آج پوری دنیا میں دوڑ
رہا ہے… دنیا کے ہر براعظم میں جہادی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں… کفر کا فارمولا
نمبر١ ناکام ہوگیا کہ… طاقت اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ جہاد کا نام و نشان مٹا دیاجائے…
نام و نشان تو کیا مٹتا خود امریکی فوج کے ایک مسلمان میجر نے تیرہ آفیسر
مارڈالے… مرنے والے تمام فوجی کرنل اور میجر رینک کے تھے… اب عدالت نے اس
’’مجاہد‘‘ کو موت کی سزا سنا دی ہے… اخبارات میں آیا ہے کہ وہ اللہ کا
بندہ بڑے اشتیاق سے شہادت کا انتظار کر رہا ہے… معلوم ہوا کہ… جہاد میں کام کرنے
والوں کی محنت ضائع نہیں گئی بلکہ اس کی شاخیں دور دور تک پھیل گئی ہیں… یہ تو دنیا
کے نتائج ہیں… آخرت کا بدلہ کتنا اونچا ہوگا؟…
یہاں ایک اور بات یاد
آگئی… معراج کی رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں پر بلایا گیا، جنت دکھائی گی… اور
آسمانوں کے اوپر عرش تک کا ایک عجیب سفر… اس سفر کی کئی خاص باتیں ہیں ان میں سے
ایک یہ ہے کہ… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو
اچھے اور بُرے اعمال کی تأثیریں دکھائی گئیں… ان اعمال میں جس عمل کی تأثیر سب
سے زیادہ تیز دکھائی گئی وہ ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ ہے…کچھ لوگ صبح بیج کاشت کر رہے ہیں اور
شام کو فصل کاٹ رہے ہیں… سبحان اللہ !
جہاد کے ثمرات، نتائج، فضائل… اور اجر بہت بڑا ، بہت تیز اور بہت وسیع ہے… بس
اشارہ عرض کردیا اب آپ حدیث معراج میں یہ مقام نکال کر غور کریں تو آپ پر حیرت
کا دروازہ کھلتا چلا جائے گا… شروع میں افغانستان جانا ہوا تو وہاں ہمارے ساتھ شام
کے ایک مجاہد تھے… اُن کا نام’’زکریا‘‘ تھا… آج کل جب ملک شام سے جہاد کے زمزمے
سنائی دیتے ہیں تو مجھے… زکریا شہید یاد آجاتے ہیں… وہ بظاہر خوست کے مضافات کی ایک
قبر میں گمنام جا لیٹے… مگر آج شام میں کتنے’’زکریا‘‘ کھڑے ہو گئے ہیں… بات یہ چل
رہی تھی کہ فارمولا نمبر١ ناکام ہوگیا…
اور دشمنان اسلام اپنے زخموں کو چاٹ رہے ہیں… اب دوسرا فارمولا زیر عمل ہے کہ
مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑایا جائے… آپ کہیں گے کہ یہ فارمولا تو صدیوں سے چل
رہا ہے… عرض یہ ہے کہ پہلے ’’کفار‘‘ خود بھی فوجی مداخلت کرتے تھے… اب اُن کا
ارادہ اپنی تمام تر صلاحیتیں اس بات پر لگانے میں ہے کہ مسلمانوں کو مسلمانوں کے
ہاتھوں سے ہی ختم کرایا جائے… ویسے ہم مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لئے کسی سازش
کی کم ہی ضرورت پڑتی ہے… ہمارے اندر آپس میں لڑنے کا جوہر بہت وافر مقدار میں
موجود ہے…
وجہ یہ ہے کہ ہم میں
سے کچھ لوگ اپنے تمام اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں چاہتے ہیں… اور وہ ثواب آخرت سے
غافل ہو جاتے ہیں… وہ اسی دنیا کو ہی سب کچھ سمجھنے لگتے ہیں… اور پھر یہاں کے
مال، یہاں کے عیش اور یہاں کی عزت اور عہدوں…
کے لئے لڑنے مرنے پر اُتر آتے ہیں… ہم مسلمانوں کی آپس کی لڑائیاں… کسی
اصول یا ضابطے پر بہت کم ہوتی ہیں… یہ لڑائیاں اکثر حب مال، حب جاہ اور حب شہوات
پر ہوتی ہیں… ابھی چند دن پہلے اچانک جماعت کے وہ ساتھی یاد آگئے جو بہت زور شور
سے جماعت کو چھوڑ گئے… زور شورکا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے سخت دھوم مچائی، بہت
بدنام کیا اور اپنے ساتھ کچھ افراد بھی توڑ گئے… جماعت چھوڑنے کی جو وجوہات ان
لوگوں نے بتائیں… چند دن کے بعد وہ خود اُن وجوہات کا بُری طرح شکار ہو گئے… مثلاً
کچھ لوگ نکلے کہ… ہم نے ملک میں کارروائیاں کرنی ہیں… مگر چند دن بعد اُن کے
ہاتھوں میں’’دفاع پاکستان‘‘ کے جھنڈے ساری دنیا نے دیکھے… کچھ لوگ نکلے کہ ہم نے
حکومت سے مرتے دم تک لڑنا ہے ، بدلہ اور انتقام لینا ہے… آج اخبارات میں انہیں کے
بیانات آرہے ہیں کہ ہم نے حکومت سے امن مذاکرات کرنے ہیں… حالانکہ ملک کا آئین
آج بھی وہی ہے جو ان کے اعلان جنگ کے وقت تھا… کچھ لوگ نکلے کہ جماعت کا کوئی
دستور اور آئین نہیں ہے… آج خود اُن کا دستور اور آئین یہ ہے کہ… کبھی سیاسی لیڈر
بن جاتے ہیں، کبھی مجاہد بن جاتے ہیں… اور کبھی مرشدان طریقت… جبکہ جماعت الحمدللہ
جس کام کے لئے اٹھی تھی… آج بھی ماشاء اللہ مکمل یکسوئی کے ساتھ اُسی کام میں لگی
ہوئی ہے… مقصد اُن لوگوں پر اعتراض کرنا نہیں ہے… جو گیا اُس کے جانے سے جماعت کو
الحمدللہ فائدہ ہی ہوا… اور لاکھوں مسلمانوں نے جماعت سے دین، جہاد اور قرآن سیکھا…
اور لاکھوں مسلمانوں کی زندگیوں میں جماعت کی برکت سے ایمان، جہاد اور اعمال کی
بہاریں آئیں… اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ اپنے فضل سے قبول فرمائے… مسلمانوں کی باہمی
جنگیں مکمل طور پر تو ختم نہیں ہو سکتیں… مگر ہم یہ کوشش ضرور کر سکتے ہیں اورہمیں
یہ کوشش کرنی بھی چاہئے کہ… ہم ان جنگوں میں مبتلا ہونے سے بچیں… ایک انسان اُس
وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل اور مہلت پاتا ہے جب تک وہ ’’خون مسلم‘‘ سے
اپنے ہاتھ نہ رنگ لے… اللہ تعالیٰ اُس کے گناہ معاف فرماتے ہیں، اس کے عیبوں پر
پردہ ڈالتے ہیں … اُس کے لئے توفیق کے دروازے کھولتے ہیں… اور اُس کے بڑے بڑے
گناہوں سے در گزر فرماتے ہیں… لیکن جیسے ہی وہ ’’قتل مسلم‘‘ کے گناہ میں مبتلا
ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس پر سے اپنی مہلت اور عیب پوشی کا پردہ ہٹا دیتے ہیں…
اور پھر وہ گرتا ہی چلا جاتا ہے، گرتا ہی چلا جاتا ہے… ہم اگر’’دنیا‘‘ کو ہی سب
کچھ نہ سمجھیں اور ’’آخرت‘‘ کی کامیابی کو اپنا مقصود بنا کر چلیں تو ان شاء
اللہ… اس جرم عظیم سے حفاظت رہے گی…بے شک اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کو مقصود
بناناہی محفوظ راستہ ہے…یا اللہ! قتل مسلم کے بھیانک جرم سے ہم سب کی حفاظت
فرما…آمین یا ارحم الراحمین…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
ملاقات… مگر محبت
سے
شوقِ شہادت، اللہ
تعالیٰ سے ملاقات کا شوق بہت مبارک ہے…
لیکن آداب ضروری
ہیں…اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت…
ایک
اعرابی کا عمل اور اس کی اصلاح…
مولانا عطاء اللہ
شہید کے احوال…
مدرسہ اویس قرنی
رحمۃ اللہ علیہ کے قیام کے مقاصد…
ساتھیوں کو اس کی
جانب ترغیب…
شہادت صرف اللہ
تعالیٰ سے ملاقات کے شوق میں مانگیں،دنیا سے تنگ آکر نہیں…
ڈاک میں خط مختصر
لکھیں… زیادہ القاب سے اُلجھن…
القاب کے بارے میں
طرز عمل…
سیّد احمد شہید
رحمۃ اللہ علیہ سے تقابل نہیں…سیّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے احوال اور بلند مراتب…
علماء، طلبہ کو ان
کے حالات کے مطالعہ کی ترغیب اور اس کا مقصد…
حضرت مہدی رضی
اللہ عنہ کے موضوع پر لکھنے کا وعدہ…
ایک تحریر… کئی
غلطیوں اور غلط فہمیوں کی اصلاح…
ملاقات… مگر محبت
سے
اللہ
تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو’’بہترین انجام‘‘
اور’’عمدہ اختتام‘‘ نصیب فرمائے…
الحمدﷲ ڈاک کا
سلسلہ رمضان المبارک کے بعد سے شروع ہو چکا ہے… غالباً چوتھی ڈاک جانے کو تیار ہے…
خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ مجاہدین کرام میں’’شہادت‘‘ اور جلد ملاقات کا شوق کافی
بڑھ چکا ہے…
ما شاء اللہ بہت مبارک شوق ہے… مگر اس جذبہ اور شوق کے لئے
شریعت کے کچھ قوانین ہیں… ہم مسلمان ہیں… ہمارا مرنا اور جینا اسلام کے مطابق ہونا
چاہئے… ایک عزیز نے لکھا ہے کہ میں اس دنیا میں نہیں رہنا چاہتا اس لئے میری آگے
کی ترتیب جلد بنا دی جائے… مجھے احساس ہوا کہ اسلام کے ان لاڈلے سپاہیوں کی دینی
تربیت میں مزید بہتری لانی چاہئے… شہادت کا جذبہ اس لئے دل میں آئے کہ ’’دنیا
سے‘‘ تنگ ہوں… یہ کوئی اچھی بات اور پسندیدہ سوچ نہیں ہے… مؤمن کو ہر قربانی، ہر
عبادت اور ہر عمل اللہ تعالیٰ کی محبت میں کرنا چاہئے… بعض اللہ والے صدیقین دنیا کو چھوڑ کر جنگلات میں جا بسے
تو کچھ عرصہ بعد انہیں حکم دیا گیا کہ… یہ دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جا کر مخلوق میں رہو اور اُن کی اذیتوں اور
تکلیفوں کو برداشت کرو…
اچھا ہوگا کہ
جماعت کے اہل علم ساتھی… ایسے مضامین اور ایسے بیانات عام کریں جن میں… شوق شہادت
کے ساتھ اس مبارک ترین شوق کے آداب بھی ہوں…’’فتح الجوّاد‘‘ اور ’’فضائل جہاد‘‘ میں
اس بارے میں کافی مواد موجود ہے… کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک عرب بدّو یعنی’’أعرابی‘‘
ایام حج سے کچھ پہلے احرام باندھ کر دوڑتا ہوا حرم شریف جا پہنچا اور کعبہ شریف سے
چمٹ کر رونے لگا… وہ کہتا تھا! یا اللہ ابھی آپ کے پاس لوگوں کا رش زیادہ ہو جائے گا
اس لئے مجھے پہلے ہی بخش دیجئے… چھوٹے سے دماغ نے اللہ تعالیٰ کی قدرت، رحمت اور بخشش کی وسعت کو نہ
سمجھا… اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی پیش آیا جب ایک… اعرابی رضی
اللہ عنہ نے ایسی ہی دعاء مانگی… انہیں
سمجھایا گیا کہ… آپ نے اپنی دعاء میں بڑی وسیع رحمت کو تنگ اور چھوٹا سمجھ لیا…
بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت اتنی وسیع ہے کہ اگر کوئی
اس کی ایک جھلک بھی دیکھ لے تو اُسے کسی پر عذاب کا اندیشہ تک نہ رہے… مگر دوسری
طرف اللہ تعالیٰ کا غضب اور عذاب بھی بہت سخت ہے… بس
انسان کو امید اور خوف کے درمیان رہنا چاہئے… لیکن دنیا سے تنگ آکر، گناہوں سے
تنگ آکر اور آئندہ گناہ ہونے کے خطرے سے گھبرا کر… شہادت کے فیصلے کرنا یہ اہل
دل، اہل محبت اور اہل عزیمت کا کام نہیں… مزہ تو تب ہے کہ حالات بہترین ہوں… ہر
طرف دودھ اور شہد نظر آرہا ہو… کسی طرح کی تنگی نہ ہو… دینی اور دنیوی دونوں طرح
کے مزے ہی مزے ہوں، تب انسان شہادت کی طرف لپکے… مشکل حالات میںصبر، استقامت اور
شہادت ان تینوں کی دعاء کرنی چاہئے اور ان تینوں کوحاصل کرنے کے طریقے اختیار کرنے
چاہئیں… آج کل کے ماحول میں بہت اچھے حالات تو قسمت سے ہی ہو سکتے ہیں… فقیر عطاء
اللہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کے حالات بہت اچھے تھے… انہیں قرآن پاک حفظ تھا
اور حفظ بھی محفوظ، دین کا علم تھا اور علم بھی باعمل… مالی طور پر مستحکم تھے اور
مال بھی تجارت کا…طبعاً خوش مزاجی تھی اور خوش مزاجی بھی طبعی… بہت افسوس ہوتا ہے
جب کوئی ساتھی جماعتی تشکیل کو مجبوری بنا کر’’قرآن مجید‘‘ بھول جاتا ہے… ایسے ہی
حضرات کے لئے مدرسہ سیّدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ قائم کیا گیا ہے… آج بھی جماعت کے سب ساتھیوں
کے لئے کھلا اعلان ہے کہ جو ’’حفاظ قرآن‘‘ جماعتی تشکیل میں ہیں اور قرآن مجید
بھول چکے ہیں وہ ’’مدرسہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ ‘‘ آجائیں… ان کی تشکیل اور دیگر
مراعات مکمل طور پر باقی اور جاری رہیں گی… اُن کے کاموں پر عارضی ساتھی لگا دیئے
جائیں گے اور وہ خود اپنا قرآن مجید واپس حاصل کریں… مولانا فقیر عطاء اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے تشکیل میں آکر قرآن پاک سے رشتہ اور زیادہ
مضبوط کر لیا… وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اپنے تمام معمولات کو’’تلاوت قرآن مجید‘‘
میں ضم کر لیتے ہیں… تب انہیں تمام معمولات کا اجر پورا بلکہ زیادہ ملتا ہے… زمین
کا سینہ کبھی بھی’’اولیاء اللہ ‘‘ سے خالی
نہیں ہوتا… اللہ تعالیٰ کے یار ختم نہیں ہوتے… اس زمانے میں
جس نے دیکھنے ہوں وہ شہیدی تشکیلات کے لئے
روتے تڑپتے، دعائیں مانگتے نوجوانوں کو دیکھ لے… بات یہ چل رہی تھی کہ حالات اچھے
اوردل خوش ہو ایسے وقت میں شہادت کی طرف لپکنا بڑے مقام کا کام ہے… لیکن اگرحالات
اچھے نہیں ہوتے تب اپنے اندر کے حالات اچھے کر لینے چاہئیں اور اللہ تعالیٰ سے ’’غلامی‘‘ اور ’’یاری‘‘ والا تعلق بنا
لینا چاہئے… اور شہادت کی طرف، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت، اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے شوق… اسلام کے غلبے اور دین
کی حفاظت کے لئے لپکنا چاہئے… دنیا اور گناہوں سے تنگ آنے کی وجہ سے نہیں… خلاصہ یہ
ہے کہ… محبوب سے ملاقات کا شوق محبوب سے محبت کی وجہ سے ہو، محبوب کی بنائی ہوئی
دنیا سے تنگ آنے کی وجہ سے نہیں…ہم فرشتے نہیں ہیں کہ ہم سے گناہ نہ ہوں… ہاں! اس
بات کا ہمیں ضرور حکم ہے کہ ہم شیطان نہ بنیں کہ… گناہوں کو حلال سمجھنے لگیں…
دوسروں کو بھی گناہوں کی طرف بُلانے لگیں… آخرت کے حساب سے بے فکر ہوجائیں… اور
توبہ استغفار بھی چھوڑ دیں… بات ڈاک سے شروع ہوئی تھی ایک تو پھر یہ یاد دہانی ہے
کہ خط مختصر لکھا کریں… بعض خطوط پوری کتاب ہوتے ہیں… بندہ کا سالہا سال سے طریقہ
ہے کہ خطوط’’سلام‘‘ سے پڑھنا شروع کرتا ہے… سلام سے پہلے کس نے کیا القاب لکھے…
القاب لکھے یا گالیاں لکھیں… اُن کو پڑھنے کا معمول نہیں ہے… اچٹتی ہوئی نظر
پڑجائے توالگ بات ہے…زیادہ القاب پڑھ کر دل بیٹھنے لگ جاتا ہے… بہت پہلے کراچی میں
ایک صاحب نے خط میں کچھ اعتراضات لکھے اور ساتھ یہ بھی کہ… آپ کو میرا خط پڑھ کر
اس بات سے دکھ پہنچا ہو گا کہ میں نے آپ کو زیادہ القاب نہیں لکھے… حالانکہ القاب
پڑھنے اور دیکھنے کا معمول ہی نہیں تھا… کئی ساتھی ’’مجدد الجہاد‘‘ لکھتے تھے، ان
کو منع کیا… اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطاء فرمائے کہ وہ مان
گئے…دراصل اس طرح کی باتوں سے’’ دعوت جہاد‘‘ کو نقصان پہنچتا ہے… اور ایک ’’فرض
دعوت‘‘ متنازع بن کر رہ جاتی ہے… اسی لئے اب تک کئی علماء حضرات کو اس بات سے روک
چکا ہوں کہ وہ میری سوانح حیات لکھیں… حالانکہ ان میں سے بعض کا مصمم ارادہ اور
اصرار تھا… ایک قریبی صاحب علم ساتھی کو اصلاحی خط میں مشورہ لکھا تھا کہ… آپ
حضرت سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت
کا بغور مطالعہ کریں اور پھر اس بارے میں مضامین لکھیں… وہ سمجھے میری غرض یہ ہے
کہ وہ حضرت سیّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے
حالات پڑھ کر بندہ کو اُن کے ساتھ ملانے یا اُن جیسا قرار دینے کے لئے مضمون لکھیں…
انہوں نے اگلے خط میں لکھا کہ… مجھے آپ کے ذاتی حالات کا چونکہ علم نہیں ہے اس
لئے شاید میں زیادہ بہتر نہ لکھ سکوں… بندہ کو ان کی بات سے سخت دھچکا لگا… دراصل
حضرت سیّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت
بہت گہری ہے… وہ کوئی عام انسان، عام بزرگ یا عام مجاہد نہیں تھے… وہ اللہ تعالیٰ کے خاص اور مخلص بندے تھے… اس لئے ان کی
شخصیت کو محض سطحی مطالعہ سے نہیں سمجھا جا سکتا… سطحی مطالعہ تو یہی دکھاتا ہے کہ
وہ لوگوں کو دم کر رہے ہیں، کھانے میں برکت کے وظیفے کر رہے ہیں… جہاد پر کچھ
لوگوں کو لے کر نکلے… پانچ چھ سال میں دو تین لڑائیاں لڑیں اور شہید ہو گئے… اسی
لئے تو کسی ظاہر بین نے کہہ دیا کہ… تحریک سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کیا تھی… لکھنؤ سے چلے، پشاور سے گزرے، بالاکوٹ
پہنچے اور پانچ چھ سال میں قصہ ختم… بڑی ظالمانہ بات… بلکہ کوئی ناراض نہ ہو تو بڑی
جاہلانہ بات ہے… سیّد احمدشہید رحمۃ اللہ علیہ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے… اور وہ
دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کی
چلتی پھرتی دلیل تھے… ان کی شہادت کو دو سو سال ہو چکے… ابھی تک اُن کا لہو تازہ
ہے، کام بھی تازہ، پیغام بھی تازہ، نام بھی تازہ… اور قافلہ بھی تازہ ہے… خیر، عرض
یہ کر رہا تھا کہ محض سرسری اور سطحی مطالعہ سے ان کی شخصیت کو سمجھنا مشکل ہے تو
اس لئے اپنے علماء دوستوں کو عرض کر دیتا ہوں کہ… آپ نے اُن کے بارے میں مضمون بھی
لکھنا ہے… مقصد یہ ہوتا ہے کہ لکھنے کی فکر میں زیادہ غور سے پڑھیں گے… زیادہ
گہرائی میں اتریں گے… اور جتنی زیادہ
گہرائی میں اتریں گے اُسی قدر فائدہ پائیں گے… کیونکہ سیّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ’’شہید‘‘
ہیں… اور شہید زندہ ہوتا ہے… اور زندہ پیر سے مریدوں کو روحانی فائدہ خوب ملتا ہے…
بس صرف یہی مقصد ہوتا ہے ، باقی بندہ کو کبھی یہ وہم نہیں ہوا کہ میں حضرت سیّد
احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ جیسا ہوں…
جی ہاں! وہم بھی
نہیں، یقین اور گمان تو دور کے درجے ہیں… بندہ نے الحمدﷲ راتوں کو جاگ کر سید صاحب
رحمۃ اللہ علیہ کو سمجھنے اور دیکھنے کی
کوشش کی ہے… میں ان کو پہچان سکا یا نہیں… البتہ جتنا پہچانا اس میں بھی ان کو بہت
اونچا پایا… اور کبھی دل میں یہ شوق نہیں ابھرا کہ اپنا اُن سے تقابل کروں… خاک کو
کیا مجال کہ آسمان و فلک کے ساتھ اپنا قد ملائے… باقی رہی تحریک تو اسلام ایک ہے،
قرآن ایک ہے، کامیابی کے نسخے ایک ہیں… سیّد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے بھی جہادی تحریکیں اٹھیں، اُن کے بعد بھی
جہادی تحریکیں برپا ہوئیں… اور قیامت تک ان شاء اللہ جہاد کا مئے خانہ آباد رہے گا… اور کامیابی کے
لئے… ان سب تحریکوں کے لئے اسلام کے قوانین یکساں ہیں… تحریک آٹھ سو سال پرانی
ہو… یا آج کی… ان سب کو ایک ہی رنگ میں آنا ہوگا… اگر کامیابی مطلوب ہے… پچھلی
ڈاک میں ایک طالب علم بھائی نے دلائل، قرائن اور شواہد کا انبار لگا کر یہ پیشین
گوئی کی تھی کہ… حضرت امام مہدی رضی اللہ
عنہ بس آج کل میں آتے ہیں… اس پر انہوں
نے بندہ کی رائے مانگی تھی… ان کو مختصر جواب لکھ دیا تھا اورآج کے کالم میں اسی
مختصر جواب کی کچھ تفصیل لکھنے بیٹھا تھا… اسی لئے بات ڈاک سے شروع کی تھی… مگر
اور باتیں آگئیں اور اصل بات رہ گئی…
قدر ﷲ ماشاء وفعل…
واَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا ﷲ محمد
رسول ﷲ
٭٭٭
مزاجِ عمل
اپنی زندگی کو کام
پر لگائیں…باتوں میں ضائع نہ ہوجائے…
برکت والی موت
مانگیں… مسنون دعاء اور اس کا مختصر نصاب…
موت میں برکت کے
معنیٰ…چند مختصر خبریں…
حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کا موضوع…چند بنیادی باتیں…
مسلمان فروعی
مسائل میں نہ اُلجھیں…حضرت مہدی رحمۃ اللہ
علیہ کا تعارف…
ان کے بارے میں
غلط نظریات اور ایک اصلاح…
حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے منتظر طبقات اور ان کے غلط روئیے
کی اصلاح…
حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں درست نظریہ اور اہل ایمان
کے لیے درست طرز
عمل حسّاس اور اہم موضوع پر ایک رہنما تحریر
مزاجِ عمل
اَللّٰھُمَّ
بَارِکْ لِیْ فِی الْمَوْتِ وَفِیْمَا بَعْدَ الْمَوْت
یا اللہ میرے
لئے موت میں برکت عطاء فرمائیے اور موت کے بعد والی زندگی میں بھی برکت عطاء فرمائیے…
حیرانی ہوئی؟؟
موت میں برکت؟ کیا
آپ کو حیرت ہوئی؟… موت سے تو سب کچھ ختم ہوجاتا ہے… حیرانی کی کوئی بات نہیں…
برکت والی موت اللہ تعالیٰ سے مانگا کریں، یقین کریں اگر یہ موت ہمیں
مل گئی توہم کہیں گے کہ دنیا میں ہم نے بڑی مشکل، پھیکی اور بے مزہ زندگی گزاری…
مزے تو اب ہیں، جی ہاںمرنے کے بعد… برکت کی دعاء بہت بڑی دعاء ہے اپنے لئے بھی کیا
کریں اور دوسروں کو بھی کہا کریں… بارک اللہ … اللہ تعالیٰ برکت دے… برکت والا ایمان، برکت والے
اعمال، برکت والی عافیت، برکت والا رزق… برکت والے اوقات، برکت والی صحت… اور آخر
میں برکت والی موت…
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لِیْ فِی الْمَوْتِ وَفِیْمَا
بَعْدَ الْمَوْت
امید ہے کہ آپ سب
یہ مسنون دعاء روزآنہ پچیس بار پڑھتے ہوں گے نہیں پڑھتے تو بہت رغبت سے شروع کردیں…
وہ دیکھیں موت تشریف لا رہی ہے… اللہ کرے مسکراتی ہوئی آئے اور اپنے آگے پیچھے خیر
ہی خیر لائے…
کیا لکھیں؟
گذشتہ کالم میں
حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر آیا تھا، آج اسی موضوع پر کچھ موٹی
موٹی باتیں لکھنی ہیں… ویسے آج حالات حاضرہ پر بھی ایک نظر ڈالی تھی مگر کوئی خبر
تبصرے کے قابل نظر نہ آئی… حکومت پاکستان اور مقامی طالبان مذاکرات کی طرف بڑھ
رہے ہیں… یہ ایسا موضوع ہے کہ اسے چھیڑا تو تین ہفتے میں کچھ کچھ پورا ہو گا… امریکہ
شام پر حملہ نہیں کررہا، بہت پہلے سے اس کا امکان تھا… ایران کے دوست پر امریکا کیسے
حملہ کرے؟… اللہ تعالیٰ شامی مجاہدین کو اپنی غیبی اورخاص نصرت
عطاء فرمائے… آج کل مجاہدین میں ہر جگہ سلفی اور غیر سلفی کا جھگڑا کھڑا کیا
جارہا ہے… یہ اچھی صورتحال نہیں ہے… بھائی محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے خط میں شکوہ فرمایا تھا کہ سلفی
حضرات لوگوں کو فروعی مسائل میں الجھا رہے ہیں… رفع الیدین، فاتحہ خلف الامام اور
آمین بالجہر… وغیرہ… اور وہ مسلمانوں کے پسندیدہ بزرگان دین کی عزت بھی نہیں
کرتے… اس سے جہاد ی تحریکات کو نقصان ہوتا ہے…
ہندوستان میں بی جے پی نے بزدل قاتل’’نریندر مودی‘‘
کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کر دیا ہے… امید تو نہیں ہے کہ وہ وزیراعظم بنے…
لیکن اگر بنا تو بُری موت مارا جائے گا… بس یہی چند تازہ خبریں نظر آرہی ہیں… ان
کو چھوڑ کر آج حضرت امام مہدی رضی اللہ
عنہ کی تلاش میں نکلتے ہیں…
مختصر تعارف
حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ … کوئی نبی یا فرشتہ نہیں… بلکہ
اُمت کی نسبت سے ہمارے ایک خلیفہ، امیر اور مسلمان بھائی ہیں… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے ہوں گے… نام’’محمد‘‘ ہوگا… وہ قیامت
کی اچھی علامات میں سے ہیں… وہ مسلمانوں کے امیر ہوں گے… امیر جہاد اور امیر
المؤمنین… اُن کا زمانہ، جہاد کا زمانہ ہوگا… انہیں کے زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا… حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری اور امارت اتنی واضح ہو گی کہ…
دوست، دشمن سب پہچان جائیں گے… اور آسمانوں سے آنے والی آوازیں ان کی خلافت کا
اعلان کریں گی… اور ان کی جہادی فتوحات، ساری دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھے گی…
حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کو اس بات کا دعویٰ کرنے کی ضرورت بھی پیش نہیں
آئے گی کہ وہ ’’مہدی‘‘ ہیں… مسلمانوں کے اہل دل، اہل علم حضرات اُن کو خودڈھونڈ لیں
گے… اور اُن کی واضح علامات سے اُن کو پہچان لیں گے… حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ اور حکمران ہوں گے… اور اُن کی
موجودگی میںمسلمانوں میں سے کسی اور کا حکمران رہنا ممکن نہیں ہوگا…
ایک باطل نظریہ
اوپر کے مختصر سے
تعارف میں کئی بڑے سؤالات کے جوابات آگئے… حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کئی غلط نظریات بھی لوگوں میں رائج
ہیں… ایک تو’’اثنا عشریہ امامیہ‘‘ کا عقیدہ کہ امام مہدی موجود ہیں وہ بارہویں
امام ہیں اور ایک غار میںروپوش ہیں… یہ نظریہ غلط اور باطل ہے… دوسرا غلط نظریہ
اہلسنت کے بعض طبقوں کا ہے کہ… امام مہدی رضی اللہ عنہ کوئی مخصوص شخصیت نہیں ہیں جو قرب قیامت میں
ظاہر ہوں…
دائرۃ المعارف
الاسلامی کے مؤلفین نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے… اور وہ کہتے ہیں کہ سنّیوں میں
یہ نظریہ شیعوں سے منتقل ہو گیا ہے… ورنہ امام مہدی سے مُراد آخری زمانے کا ہر وہ
مسلمان حاکم ہے جو جہاد و خلافت کا احیاء کرے… یہ نظریہ بھی غلط ہے… اور اس نظریہ
سے کئی احادیث مبارکہ کا انکار لازم آتا ہے … ممکن ہے کہ منکرین حدیث نے یہ نظریہ
عام کیا ہو… اہلسنت و الجماعت کا برحق نظریہ یہ ہے کہ امام مہدی رضی اللہ عنہ … ایک مخصوص شخصیت ہیں اور ان کی
علامات احادیث نبویہ میں موجود ہیں… اور قرب قیامت میں ان کی خلافت قائم ہو گی اور
اللہ تعالیٰ اُن کے ہاتھوں اسلام اور مسلمانوں کو
غلبہ عطاء فرمائیں گے…
ایک دلچسپ حقیقت
مسلمانوں میں طرح طرح کے مزاج والے افراد موجود
ہیں… ہمارے دور میں بھی کئی لوگ امام مہدی رضی اللہ عنہ کے انتظار میں بیٹھے ہیں… گذشتہ صدی بلکہ صدیوں
پہلے بھی… ایسے مصنفین اور ایسے خوش فہم افراد موجود تھے جن کے نزدیک حضرت امام
مہدی رضی اللہ عنہ … چند دنوں یا مہینوں میں آنے والے تھے… ہم ایسے لوگوں کو…
فرقہ انتظاریہ، خوش فہم پارٹی، جماعۃ الاستبشار… یا تحریک غلبہ اسلام بلا محنتِ
ذاتی… وغیرہ کوئی بھی نام دے سکتے ہیں… یہ دراصل کئی طرح کے لوگ ہیں مثلاً
١ وہ
افرادجن کی شدید قلبی خواہش یہ ہوتی ہے کہ پوری دنیا میں اسلام غالب آجائے… کفر
کا سارا نظام ٹوٹ جائے… مگر یہ لوگ خود عمل اور قربانی کے میدان میں نہیں اُترتے…
بس یہ چاہتے ہیں کہ… امام مہدی آجائیں اور وہ اپنے جہاد کے ذریعہ ان حضرات کو
اسلام غالب کر کے دے دیں…
٢ وہ
مایوس حضرات جو یہ سمجھتے ہیں کہ … دنیا پر کفر کا غلبہ مکمل ہو چکا ہے… اس غلبے
کو اب کسی بھی صورت نہیں توڑا جا سکتا… اور اس زمانے کے طاقتور کفر کے خلاف جہاد
کرنا بس اپنا ہی سر پھاڑنا ہے… پھر مایوسی کے اس عالم میں ان کی نظریں جب ایسے
دلائل پر پڑتی ہیں کہ اسلام ضرور غالب ہوگا… تو اُن کو اس کی ایک ہی امکانی شکل
نظر آتی ہے کہ امام مہدی رضی اللہ عنہ تشریف لے آئیں… تب وہ امام مہدی رضی اللہ عنہ کی علامات اور زمانے کا مطالعہ کرتے ہیں اور
مختلف تخمینے لگا کر اُن کے جلد از جلد ظاہر ہونے کی پیشین گوئیاں کرتے ہیں…
٣ وہ
حضرات جو اپنی ذات کے بارے میں اس خوش فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ…’’ میں کوئی عام
آدمی نہیں ہوں‘‘… شیطان انہیں بہکاتا ہے کہ تمہارے اندر فلاں صفت ایسی ہے جو کسی
اور میں نہیں… اور تم میں فلاں صلاحیت ایسی ہے جو عام لوگوںمیںنہیں پائی جاتی …
اور تو اور ایسے افراد جب بیت الخلاء میں بیٹھے زندگی کے مشکل اور بدبودار ترین
لمحات گذار رہے ہوتے ہیں تب بھی وہ اپنی خصوصیات اور اعلیٰ صفات پر غور فرما رہے
ہوتے ہیں… ایسے افراد میں سے بعض تو(نعوذب اللہ ) گمراہ ہو جاتے ہیں اور امام مہدی
رضی اللہ عنہ کا انتظار کرتے کرتے خود’’مہدی‘‘ ہونے کا یا کچھ
اور ہونے کا دعویٰ کر دیتے ہیں… لیکن جو گمراہ نہیں ہوتے وہ اس فکر میں رہتے ہیں
کہ… امام مہدی رضی اللہ عنہ تشریف لائیں تو یہ اُن کے ساتھ مل کر کام کریں…
اور اپنی شان کے مطابق کوئی بڑا کام کریں… کیونکہ انہیں اپنے ارد گرد کے تمام
افراد اور کام چھوٹے نظر آتے ہیں… چنانچہ وہ بڑا کام کرنے کی فکر میں زندگی پگھلا
دیتے ہیں…
٤ کچھ
صوفی،صافی قسم کے سادہ مزاج افراد… مراقبوں اور خیالی پروازوں میں گم… جہاد کے عملی
کام سے بہت دور… اپنے’’شیخ‘‘ کو بہت ہی اونچا سمجھنے والے… یہ حضرات سوچتے ہیں کہ
اگر امام مہدی رضی اللہ عنہ ہمارے شیخ کے دور میں نہ آئے تو پھر کب آئیں
گے؟ اور اگر ہمارے شیخ امام مہدی رضی اللہ
عنہ کو نہ لا سکے تو پھر اُن کو کون لا
سکے گا؟؟… چنانچہ وہ امام مہدی رضی اللہ
عنہ کی تلاش میں گھومتے پھرتے، پوچھتے،
جھانکتے پھرتے ہیں…
٥ وہ
افراد جن کا دل ایک طرف… اور دماغ دوسری طرف ہوتا ہے… مثلاً دل پر سستی، غفلت،
شہوات اور آرام پرستی کا مکمل غلبہ ہوتا ہے … جبکہ دماغ دین کی خدمت، دین کے
غلبے… اور دین کی خاطر کچھ کر گزرنے کے لئے گرم رہتا ہے… دل اور دماغ کی اس جنگ میں
فتح چونکہ دل کی ہوتی ہے کیونکہ دل زیادہ مضبوط پہلوان ہے… اس لئے ایسے افراد عملی
طور پر تو سستی، غفلت اور آرام پرستی ہی کی زندگی گذارتے ہیں… مگراپنے دماغی مشن
کی تکمیل کے لئے یہ طئے کر لیتے ہیں کہ…
جب امام مہدی رضی اللہ عنہ آئیں گے تو ہم اُن کے ساتھ مل کر جہاد کریں گے…
٦ وہ
درد مند، فکر مند اللہ والے… جو ایک لمحہ کے لئے مسلمانوں کی مغلوبیت
نہیں دیکھ سکتے… اسلام کا غلبہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتا ہے… وہ اسلام
کی عظمت اور غلبے کے لئے ہر وقت خلوت و جلوت میں روتے اور کڑھتے ہیں… بڑی عبادت
اور لمبے سجدے کر کے دعائیں مانگتے ہیں… مگر وہ خود کچھ بھی نہیں کر سکتے… معذوری،
بیماری، بڑھاپا یا بے بسی… وہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں… مگر ان کو راستہ نہیں ملتا…
وہ برحق تحریکوں سے بھی واقف نہیں یا اُن سے رابطہ میںنہیں… ایسے افراد بہت اخلاص
اور بہت درد سے امام مہدی رضی اللہ عنہ کا انتظار کرتے ہیں اور اُن کے زمانے کے قرب کی
خواہش کرتے ہیں…
معذرت
ابھی
بہت سی باتیں باقی ہیں کہ کالم کی جگہ ختم ہو گئی… وعدہ نہیں ہے بس ارادہ ہے کہ
موقع ملا تو ان شاء اللہ اگلے ہفتے اس موضوع کو مکمل کرنے کی کوشش کریں
گے… لیکن اگر موقع نہ ملا تو بس یہ خلاصہ یاد رکھ لیں…
١ ہر
مسلمان کو یہ عقیدہ رکھنا چاہئے کہ امام مہدی رضی اللہ عنہ تشریف لائیں گے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور اُمتی ہوں گے…وہ مسلمانوں کے خلیفہ
اور امیر ہوں گے اور اُن کے زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا…
٢ کوئی
مسلمان حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے انتظار میں نہ بیٹھے، بلکہ اپنے فرائض خود
ادا کرے اور اپنے حصہ کا کام خود کر جائے…
٣ کوئی
مسلمان اس موضوع کو اپنی زندگی کا حاصل نہ بنالے بلکہ خود وہ کام کرے جس کام کے
لئے امام مہدی رضی اللہ عنہ تشریف لائیں گے… یعنی جہاد فی سبیل اللہ اور اسلام کے غلبے کی محنت…
٤ ہر
مسلمان اپنے زمانے کے مسلمانوں کو، اپنے زمانے کے امیر جہاد کو اور اپنے زمانے کے
جہاد کو غنیمت اور نعمت سمجھے… اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے آپ کو اس زمانہ میں پیدا
فرمایا ہے…
٥ ہر
مسلمان اپنی ذاتی، اجتماعی اور خانگی زندگی اس طرح گزارے کہ اگر اُس کے زمانے میں امام مہدی رضی اللہ عنہ تشریف لے آئیں تو وہ اُن کے ساتھ مل کر جہاد کر
سکے… ایسا نہ ہو کہ اُن کے انتظار میں بیٹھا رہے اور جب وہ آجائیں تو اپنے
گھر،مکان اور تجارت میں پھنس جائے…
٦ وہ
افراد جو اپنے زمانے میں جہاد کی ٹوٹی پھوٹی محنت کر رہے ہیں وہ اُن افراد سے بہت
افضل، عقلمند اور سمجھدار ہیں جو جہاد نہیں کرتے اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ جب
امام مہدی رضی اللہ عنہ تشریف لائیں گے تو وہ اُن کے ساتھ مل کر جہادکریں
گے…(انتہیٰ)
آئیے آخر میں
پھر وہی دعاء مانگتے ہیں جو کالم کے آغاز میں مانگی تھی:
اَللّٰھُمَّ
بَارِکْ لِیْ فِی الْمَوْتِ وَفِیْمَا بَعْدَ الْمَوْت
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا اللہ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مسنون دعاء کی
طاقت
مسنون اور طاقتور
قرآنی عمل…اللہ الصمد کے خواص و معارف…
الصمد کے معنیٰ…
اللہ الصمد کے ورد کی تاثیر کا واقعہ…
الصمد جل شانہ کی
شان،…ملابرادرصاحب کی دشمنوں کی قید سے رہائی کی خبر…
امریکہ میں ایٹم
بم پھٹتے پھٹتے رہ گیا… ٹیکنالوجی کی بے بسی…
حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک اور غلط نظریے اصلاح…
حضرت مہدی رضی
اللہ عنہ کی رفاقت آسان نہیں ہوگی…
اس کے لیے جہاد کی
مکمل تیاری کریں…
لطف اللطیف کی
مقبولیت…
عملیات میں غلوکی
ممانعت…ایک قیدی کا دلچسپ واقعہ…
اللہ الصمد کا
طاقتور عمل… سخت سے سخت سحر کا توڑ…
ایک
کار آمد واقعہ…
مسنون دعاء کی
طاقت
اَللهُ الصَّمَدُ…
اللہ تعالیٰ بے
نیاز ہے… تھوڑا سا دل لگا کر پڑھیں
اَللهُ الصَّمَدُ…
’’الصمد‘‘ وہ ذات جس کے سب محتاج اور وہ کسی
کا محتاج نہیں… تھوڑا سا ڈوب کر پڑھیں…
اَللهُ الصَّمَدُ
کافی عرصہ پہلے کی
بات ہے کراچی میں قیام تھا… سمندر کے کافی قریب… اچانک ایک حاجت پیش آگئی… ظاہری
اسباب مہیا نہیں تھے کہ کوئی امکان نظر آتا… دل میں کچھ تنگی آئی… مگر پھر اپنی
سواری سمندر کی طرف دوڑا دی اور زبان پر ایک ہی ورد
اَللهُ
الصَّمَدُ،اَللهُ الصَّمَدُ،اَللهُ الصَّمَدُ……
پڑھتے پڑھتے جوش
آگیا، دل خوش ہو گیا اور سامنے سمندر کی دلکش لہریں… واپسی ہوئی تو’’الصمد جل
شانہ‘‘ نے…حاجت پوری فرما دی…
اَللّٰهُ
الصَّمَدُ،اَللّٰهُ الصَّمَدُ،اَللّٰهُ الصَّمَدُ……
عربی
بہت وسیع زبان ہے… اردو میںایسے الفاظ نہیں ملتے
کہ عربی لفظ کے پورے مطلب کو اپنے اندر سمو سکیں…’’الصّمد‘‘ اللہ تعالیٰ کا نام ہے اوراس کا ایک مطلب یہ ہے:
الذی یقصد الیہ فی
قضاء الحوائج
وہ ذات کہ جس کی
طرف اپنی حاجتیں پوری کرانے کے لئے رجوع کیا جاتا ہے…
جی ہاں! ہر حاجت
کے لئے جس کے در کا قصد کیا جائے… ہر ضرورت کے لئے جس کو پکارا جائے اور وہ حاجت
اورضرورت پوری فرما دے… اُس کے خزانوں میں کیا کمی… توجہ سے پڑھیں:
اَللهُ
الصَّمَدُ،اَللهُ الصَّمَدُ،اَللهُ الصَّمَدُ……
کبھی دل میں ایک
دم شوق اٹھتا ہے کہ…’’ﷲ الصّمد‘‘ کے معنیٰ ، مطلب اور خواص پر ایک چھوٹی سی کتاب
لکھ دوں… مگر آہ! افسوس کہ لکھنے لکھانے کا بازار اب بہت ٹھنڈا ہوتا جارہا ہے… چلیں
کتاب کی کیاضرورت،ذکر اللہ کے لئے تو یقین
اور عشق کی ضرورت ہوتی ہے… یقین اور عشق میں ڈوب کر پڑھیں:
اَللهُ
الصَّمَدُ،اَللهُ الصَّمَدُ،اَللهُ الصَّمَدُ……
اللہ
تعالیٰ کی ’’الصمد‘‘ والی شان دیکھیں…
حضرت ملّا برادر مدظلہ کل رہا ہو گئے… وہ ذکر اللہ سے عشق رکھنے والے… اور جہاد کی حقیقت کو سمجھنے
والے، اولیا اللہ میں سے ہیں… ہم نے ان کی گرفتاری اور اسیری کا
مرثیہ بھی لکھا تھا اور آج اُن کی رہائی کی تبریک بھی لکھ رہے ہیں… اللہ تعالیٰ حالات بدلنے پر قادر ہیں… چند گھنٹوں میں
صدیوں کی تبدیلی آجاتی ہے… اور دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں…
اَللهُ
الصَّمَدُ،اَللهُ الصَّمَدُ،اَللهُ الصَّمَدُ……
حالات کی تبدیلی
کا اندازہ اُس خبر سے لگائیں جو آج کل’’گرم‘‘ ہے… امریکہ کا ایک جوہری بم1961ء میں
پھٹتے پھٹتے رہ گیا… نالائق کہیں کا… لکھا ہے کہ یہ بم’’ہیروشیما‘‘ پر پھینکے جانے
والے بم سے ڈھائی سو گنا زیادہ طاقتور تھا… یہ بم پھٹ جاتا تو امریکہ کا بہت بڑا حصہ
نیست و نابود ہو جاتا… یہ خبر پڑھتے ہی ایک مجلس یاد آگئی… ایک صاحب نے فرمائش کی
تھی کہ چند باتیں علیحدگی میں کرنی ہیں… مجلس سے اُٹھ کر کمرے کے ایک کونے میں ان
کے ساتھ جا بیٹھا… فرمانے لگے آپ کے نزدیک حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کب تشریف لاتے ہیں؟… عرض کیا… اس بارے میں کوئی
علم نہیں… جب بھی تشریف لائیں سر آنکھوں پر… اللہ تعالیٰ ہی اُن کے آنے کا وقت جانتے ہیں… انہوں
نے فرمایا: سن لیجئے! امام مہدی اگلے کئی سو سال بلکہ کئی ہزار سال تک آنے والے
نہیں ہیں… وہ اتنے یقین اور وثوق سے فرما رہے تھے جیسے انہیں اس بات کا قطعی علم
ہو… عرض کیا! آپ کس بنیاد پر یہ فرماتے ہیں؟… انہوں نے چند دلائل دیئے جو دل کو
بالکل نہ لگے… عرض کیا!… دلائل میں زور نہیں تو وہ بڑے تھے ناراض ہونے لگے… تب
موضوع بدل دیا گیا کہ اس جھگڑے کا ابھی کیا فائدہ؟ تھوڑا سا سوچیں کہ کیا فائدہ؟؟…
اُن کے دلائل میں ایک بات آج کل کی سائنسی ترقی بھی تھی کہ… ابھی انسان نے اور
آگے جانا ہے… ہمارے نزدیک تو انسان پیچھے جارہا ہے… خیر وہ آگے جانا سمجھیں تو
کوئی حرج نہیں… مگر ایک بات سوچیں کہ… بی باون طیارے سے گرنے والا ہائیڈروجن بم
پھٹ جاتا… وہ اپنے ساتھ اپنے جیسے چند اور بم بھی پھوڑ دیتا… تب دنیا کہاں کھڑی
ہوتی؟… آج کل جس چیز کو ترقی کہا جارہا ہے… اس کی بنیادیں بہت کمزور ستونوں پر
کھڑی ہیں… کوئی ایک ستون بھی گرا تو لوگ واپس جہاز سے گھوڑے پر … گاڑی سے گدھے پر
اور ٹرین سے اونٹ پر آکر گریں گے… اس لئے سائنسی اکتشافات پڑھ کر یہ نہ سمجھا
جائے کہ زمانہ اب ایسے ہی رہے گا… نہیں جی!… رات دن کا آنا جانا اور حالات کا
بدلنا یہ جاری رہے گا… کبھی تیزی سے اور کبھی آہستہ آہستہ… بس ایک ذات ہے جو
قائم ہے ، باقی ہے اور قادر ہے…
اَللهُ
الصَّمَدُ،اَللهُ الصَّمَدُ،اَللهُ الصَّمَدُ……
حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ نظریہ بھی درست معلوم نہیں ہوتا
کہ اُن کے تشریف لانے میں… ابھی ہزاروں، لاکھوں سال باقی ہیں… اصل بات یہ ہے کہ اس
ٹوہ اور تلاش میں لگنے… اوراُن کے جلد یا بدیر آنے کے تخمینے لگانے میں آخر
فائدہ کیا ہے؟… دین اسلام الحمد ﷲ مکمل ہو گیا… اب نہ اس میں کوئی کمی ہوگی نہ
اضافہ…ہر مسلمان کو اس کی ذمہ داریاں بتا دی گئیں کہ… تم پر کیا فرض ہے اور کیا
حرام؟… جو مسلمان جس زمانے میں بھی دین پر عمل کرے وہ کامیاب ہے… خواہ وہ قرون اولیٰ
کا زمانہ ہو… فتنے کا دور ہو… فتوحات کا زمانہ ہو… یا آزمائش اور مغلوبیت کا دور…
فرما دیا گیا کہ… اپنا کام کرو اور کامیاب ہو جاؤ… اپنی ذمہ داری پوری کرو اور
نتائج کی فکر نہ کرو… پھر تلاش، جستجو، تخمینے اور جھگڑے بحثیں کس لئے؟؟؟ ہاں اگر
کوئی مسلمان اپنے دل میں اس کی تمنا رکھے کہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ تشریف لے آئیں اور میں اُن کی قیادت میں جہاد
کروں… پھر اس کی دعاء بھی کرے… اور خود کو جہاد کے لئے قلبی، ذہنی اور جسمانی طور
پر تیار بھی کرے… اور اپنے زمانہ کے عملی جہاد میں بھی شریک رہے… تو ایسا کرنے میں
کوئی حرج نہیں… بلکہ یہ اُس کی عالی ہمتی کی دلیل ہو گی… اور اللہ پاک بعض انسانوں کو اونچی اورمضبوط ہمت عطاء
فرماتے ہیں… وہ جتنا بھی کام کرلیں اُسے تھوڑا سمجھتے ہیں اور مزید کام، مزید ترقی
اور مزید دینی ترقی کی جستجو میں رہتے ہیں… لیکن جو مسلمان کمزور ہیں… اُن کے لئے
تو یہی اچھا ہے کہ وہ امام مہدی رضی اللہ
عنہ کی رفاقت کی تمنا سے پہلے… خود کو
تھوڑا ساتول لیا کریں کہ… آیا ہم اس قابل ہیں بھی یا نہیں؟… اُن جیسے عالی مقام اور عظیم الشان’’امیر‘‘ کی نہ
تو رفاقت آسان ہو گی اور نہ اطاعت… اور ان کی نافرمانی کی سزا دنیا اورآخرت میں
بہت سخت ہو گی… اور یہ سزا کھلی آنکھوں سے نظر آئے گی… ہاں! ثقہ اہلِ علم کو چاہیے
کہ ہر زمانہ میں حضرت امام مہدی رضی اللہ
عنہ اور ان کی برحق علامات کا تذکرہ زندہ
رکھیں… اس کے فوائد بے شمار ہیں…
اس لئے اچھا ہوگا
کہ… اس موضوع کو چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں اور پوری محنت اور ایمان داری
سے اپنے فرائض ادا کریں… پڑھیں توجہ سے پڑھیں…
اَللهُ
الصَّمَدُ،اَللهُ الصَّمَدُ،اَللهُ الصَّمَدُ……
اللہ
الصمد کے کچھ خواص لطف اللطیف میں لکھے
گئے ہیں… الحمدﷲ’’لطف اللطیف جل شانہ‘‘ کتاب کافی چل رہی ہے… اس کا پشتو ترجمہ بھی
آچکا ہے… بس یہ خواہش رہتی ہے کہ وہ ’’فضائل جہاد‘‘ سے زیادہ نہ چلے… عملیات کی
طرف لوگوں کا رجوع کچھ زیادہ ہی ہوتا جارہا ہے…’’لطف اللطیف‘‘ کے بارے میں طرح طرح
کے خطوط آتے ہیں… اور لوگ اس کی ’’اجازت‘‘ مانگتے ہیں… کتاب کا لکھنا اور چھاپنا اسی لئے تو ہوتا ہے کہ…
مسلمان اس سے استفادہ کریں… ویسے برکت کے لئے جو اجازت درکارہوتی ہے وہ کتاب کے
تعارف میں لکھ دی ہے… خصوصی اجازت بعض خاص طرح کے وظائف میں ہوتی ہے، ہر وظیفے اور
عمل میں نہیں…
اور خاص طرح کے
وظائف وہ ہوتے ہیں جن کو کرنے والے… پھر ساری زندگی’’وظیفے‘‘ ہی کرتے رہتے ہیں مزید
کوئی کام نہیں کرتے…کیونکہ ایمان اور طبائع کمزورہیں اور سخت وظائف کو برداشت کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں
ہے… آپ’’جنات‘‘ قابو کرنے کی بجائے اپنے نفس کو قابو کرلیں… تب آپ کو’’جنات‘‘ کی
ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی…
اس پر ایک لطیفہ یاد
آگیا… جیل میں ایک’’قیدی مجاہد‘‘ جنات کو قابو کرنے کا عمل کر رہے تھے… کسی نے ان
سے کہا!آج کل ’’جنات‘‘ کے لئے اپنے بچوںکو بہلانا بہت آسان ہو گیا ہو گا؟… انہوں
نے پوچھا وہ کیسے؟… کہنے لگا! جب جنات کے بچے روتے یا تنگ کرتے ہوں گے تو اُن کے
بڑے انہیں کہتے ہوں گے کہ آؤ تمہیں چڑیا گھر لے کر جا کر وہ پاگل دکھاتے ہیں… جو
خود پنجرے میں بیٹھا ہے اور ہمیںقید کرنے کے وظیفے کررہا ہے… بھائیو! اور بہنو! زیادہ
وظیفے، عملیات اور طرح طرح کے نام نہاد روحانی علاج چھوڑو… قرآن پاک سے نور
اورقوت لو… اور مسنون اذکار… کلمہ طیبہ، استغفار، تسبیح اور درود شریف سے اپنی
روحانی طاقت کو چٹانوں سے مضبوط بنا لو…
ابھی حال ہی میں ایک
صاحب کا واقعہ پڑھا… اُن کے کچھ دوست کسی بات پر اُن کے دشمن ہو گئے… انہوں نے بہت
ماہر اور مہنگے جادوگروں کی خدمات حاصل کیں… تاکہ اُن صاحب کو سحر میں جکڑ کر
برباد کردیں… جادوگروں نے بہت زور مارا مگر وہ اُن کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے… قصہ طویل
ہے… مختصر یہ کہ یہ صاحب صبح شام مسنون کلمہ…
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُوَھُوَ عَلیٰ
کُلِّ شَیْیٍٔ قَدِیْر
پابندی سے سو بار
پڑھتے تھے… اب جادو اتنے طاقتور مسنون عمل کو کہاں پار کر سکتا تھا؟…
اَللهُ
الصَّمَدُ،اَللهُ الصَّمَدُ،اَللهُ الصَّمَدُ
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ،لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
سبحان ﷲ،
والحمدللہ، ولا الہ الا ﷲ وﷲ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلیٰ العظیم
استغفرﷲ العظیم
الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم و اتوب الیہ
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُوَھُوَ عَلیٰ
کُلِّ شَیْیٍٔ قَدِیْر
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللّٰہُ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
ممکن ہی نہیں
جہاد کا عمل ایسی
جگہ لکھا گیا ہے جہاں سے اسے مٹانا ممکن ہی نہیں…
اگرچہ سب کفار
کوشش کرلیں…
بلوچستان کے زلزلہ
زدگان سے اظہار ہمدردی اور امدادی سرگرمیوں کا اعلان…
ہندوستان، پاکستان
وزراء اعظم ملاقات…
ہمارے حکمران ہندو
ستان سے دوستی کے لیے مرتے ہیں… ایک المیہ…
جیل کے ایک کافر
پڑوسی کی فرمائش پر لکھی گئی کتاب…
کفار کی پالیسیاں
جہاد کو مٹانے کی بجائے بڑھا وا دینے کاکام کررہی ہیں…
مجاہدین کا ایک
غلط اور شدید نقصان دہ طرز عمل…
مکمل فتح سے پہلے
نفاذ اسلام پر شدت اور مسائل میں سختی…
یہ مفید نہیں مضر
اَنداز ہے…
کفار کا چار نکاتی
ایجنڈا اور ہر طرف پھیلتی جہادی تحریکات…
عشرہ ذی الحجہ کو
قیمتی بنانے کی طرف توجہ… تقویٰ، عبادت اور قربانی…
ممکن ہی نہیں
اللہ
تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو دنیا اور آخرت
میں’’عافیت‘‘ عطاء فرمائے…
اللّٰھم اِنَّا
نَسْئَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃ
بہت سی ضروری باتیں
جمع ہیں… بلوچستان میں ہلاکت خیز زلزلہ آیا ہے، زمین لرز اُٹھی، پانی پھٹ گیا،
نئے جزیرے نکل آئے اور زمین پر عذاب کے مناظر ہر طرف بکھر گئے…
زلزلے کا شکار
ہونے والے بھائیوں سے… قلبی تعزیت ہے… ہم سب کو’’استغفار‘‘ کی طرف متوجہ ہونا
چائے… اللہ تعالیٰ کی پکڑ بہت سخت ہے اور وہ غفوراوررحیم
ہے… اہل پاکستان سے گذارش ہے کہ آگے بڑھیں… یہ مصیبت کسی پر بھی آسکتی ہے… دل
کھول کر زلزلہ زدگان کی امداد کریں… اور تعاون کا ہاتھ مضبوط بنائیں… جماعت کی طرف
سے بھی امدادی کام کا آغاز کیا جارہا ہے… اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور اس میں برکت عطاء
فرمائے…
ملاقات
بالکل اسی وقت جب یہ
الفاظ لکھے جارہے ہیں… پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم امریکہ میں باہم مل رہے ہیں…
ایک طرف سے بے تابی ہے اور دوسری طرف سے بے رخی… ایک طرف سے اشتیاق کا عالم ہے اور
دوسری طرف سے سرد مہری… بھارتی وزیراعظم نے امریکہ پہنچتے ہی پاکستان کے خلاف
پٹاخے چھوڑنا شروع کر دیئے… جبکہ پاکستان کے حکمران… انڈیا کی طرف پھول ہی پھول
برسا رہے ہیں… معلوم نہیں اتنے زیادہ پھول ان کے پاس کہاں سے آگئے ہیں؟…بھارتی وزیراعظم
نے امریکی صدر سے ملاقات میں… پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز اور دہشت گردی کی بنیاد
قرار دیا ہے… مقصد یہ تھا کہ امریکہ اور بھارت ساتھ مل کر پاکستان کا قصہ ختم کر دیں…
ویسے کوشش تو دونوں نے بھرپور کر لی ہے… مگرپاکستان کو’’ اللہ تعالیٰ‘‘ چلا رہے ہیں… اور ابھی تک بچا رہے ہیں…
یہاں اکثریت ہم جیسے ہی سہی مگر کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے بہت وفادار ہیں، بہت پیارے ہیں… بھارت
سرکاری طور پر پاکستان میں دہشت گردی کرتا ہے… یہ اس کا قومی اور حتمی ایجنڈا ہے…
جبکہ پاکستان کے حکمران… کبھی بھی پاکستان کے بارے میں’’نظریاتی‘‘ واقع نہیں ہوئے…
وہ ہمیشہ انڈیا سے دوستی کے لئے مرتے ہیں… اور اسی دوستی میں ملک کا نقصان کرتے ہیں…
آج کی ملاقات میں کیا ہوگا؟… بھارت اپنے مطالبات کی فہرست پورے رعب داب کے ساتھ
پاکستانی وزیراعظم کے ہاتھ میں تھما دے گا… اور پاکستانی حکمران… ڈھیلے، بھیگے اور
پھیکے لہجے میں دوستی اور اچھے تعلقات کی بھیک مانگتا رہ جائے گا… اور ساتھ اپنی
مجبوریاں کہ… ہم تو آپ کی خاطر سب کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں… مگر کچھ مجبوریاں ہیں…
آپ سر پرستی کریں، تعاون کریں، کچھ وقت دیں تو ہم… آپ کا ہر مطالبہ پورا کر دیں
گے… مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے…مشرکین پر کھلی فضیلت عطاء فرمائی ہے…
مگر معلوم نہیں ہمارے حکمران… اس ’’فضیلت‘‘ سے کیوں محروم نظر آتے ہیں… بھارت کو
پاکستان کا وجود ہی کبھی تسلیم نہیں… تو پھر اسے کہاں تک خوش کریں گے؟… کب تک راضی
رکھیں گے؟… اور اس کی خوشی کے لئے اپنا کتنا نقصان کریں گے؟… سوچ لیں، اچھی طرح
سوچ لیں…
پرانا واقعہ
1995ء کو کتنے سال ہو گئے؟… اٹھارہ سال پہلے
تہاڑ جیل میں کچھ وقت گزرا… وہاں ایک نامی گرامی مجرم سے اس لئے دوستی ہوئی کہ شاید
وہ ’’اسلام‘‘ قبول کر لے… ویسے’’دوستی‘‘ بھی نہیں… بس پڑوس کا تعلق… اسلام نے پڑوسی
کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم دیا ہے… بشرطیکہ پڑوسی جنگ نہ چھیڑے… جہاد میں پہلا
حق’’پڑوسی‘‘ کا ہے… اگر پڑوسی ملک کافر، اسلام دشمن اور جنگجو ہو… پہلے اس سے قتال
کیا جائے گا… قرآن مجید میں واضح حکم موجود ہے…
اس شخص نے کہا کہ
… آپ لوگ کیوں لڑتے ہیں؟… ٹوٹی پھوٹی لغت میں اسے جہاد اور جہادی تحریکوں کے بارے
میں سمجھایا… اس نے درخواست کی کہ اس بارے میں آپ کتاب لکھیں… میں اس کا انگریزی،
فرانسیسی ترجمہ کراؤں گا… کاغذ،قلم اس نے مہیا کئے… ڈیڑھ سال بعد قلم،ہاتھ میں آیا
تو فرّاٹے بھرنے لگا… دو تین دن میں فل اسکیپ کے دوسو کاغذ لکھ دیئے…
اس وقت جہاد
کا’’کام‘‘ کافی محدود تھا…بس چند محاذ تھے… افغانستان، کشمیر، فلسطین،تاجکستان وغیرہ…
مگر پھر بھی ہر طرف شورتھا کہ…دنیا کو اسلامی اتنہا پسندی اور بنیاد پرستی سے خطرہ
ہے…اُن دو سو اوراق میں یہ بات زور دے کر لکھی تھی کہ… چند ایک جائز اسلامی تحریکوں
کو جس سختی کے ساتھ روکنے کی کوشش کی جارہی ہے… اس کے نتیجے میں’’جہاد‘‘ بے قابو
ہو جائے گا… اور جنگ پوری دنیا میں پھیل جائے گی… اور دنیا تب اپنی آنکھوں سے
اصل’’شدّت پسندی‘‘ دیکھے گی… فی الحال تو میٹھا میٹھا سا جہاد ہے… اصولوں اور
قواعد میں بندھا ہوا اور مخصوص علاقوں تک سمٹا ہوا… مگر اسے بہت بے رحمی سے ختم
کرنے کی کوشش کی جارہی ہے… یہ کوشش کامیاب نہیں ہو گی… اور ساری دنیا جنگ کی لپیٹ
میں آجائے گی…
ضروری بات
آج دنیا بھر میں
جہاد کے پھیل جانے کی دلچسپ کہانی سنانے بیٹھا ہوں… مگر ایک بات جو کافی عرصہ سے
لکھنے کی کوشش ہے مگر وہ رہ جاتی ہے… اس کا کچھ تذکرہ ہو جائے… مجاہدین کو جن چیزوں
نے سخت نقصان پہنچایا ہے… ان میں سے ایک یہ ہے کہ… جہاد شروع کرتے ہی اسلام نافذ
کرنے کی بہت جلدی کی جاتی ہے… اور اسلام کے بھی صرف وہ احکامات نافذ کرنے میں تیزی
دکھائی جاتی ہے جو فرائض کے درجہ میں نہیں آتے… اسلام میں سب سے پہلے کلمہ طیبہ… یعنی
ایمان اور عقیدہ کی اہمیت ہے… اس کے بعد فرائض کا درجہ آتا ہے… اقامت صلوٰۃ، زکوٰۃ،
حج، رمضان المبارک کے روزے… اور جہاد فی سبیل اللہ … اگر کوئی مسلمان ان دو میں پختہ ہو جائے یعنی
کلمہ اور فرائض… تو پھر اس کے لئے باقی احکام پر عمل آسان ہو جاتا ہے… مگر دیکھا یہ
گیا کہ… اسلام نافذ کرنے کا کام نائیوں، حجاموں کی دکانوں پر بم پھاڑنے، یا ویڈیو
کی دکانوں کو اڑانے سے ہوتا ہے… اگر آپ عوام کے ساتھ جوڑ، محبت اور حسن سلوک کے
ساتھ پیش نہیں آتے تو پھر آپ کا جہاد زمین پر نہیں جم سکتا… کچھ کم علم لوگ جن
کو دین کی بنیادی باتوں کو بھی علم نہیں ہے… وہ جو مسئلہ بھی سنتے ہیں بس وہی ان
کے نزدیک دین اور علم کی ’’انتہا‘‘ ہوتا ہے… داڑھی کا سنا تو اب داڑھی منڈانے
والوں کے لئے گولی… پردے کا سنا تو اب بے پردہ عورتوں کے لئے تیزاب… فلموں کا سنا
تو اب ویڈیو والوں کے لئے سزائے موت… یہ بہت خطرناک صورتحال ہے… اسی طرح مال غنیمت
کے مسائل میں بھی بہت غلطی ہے… لوگوں سے زبردستی چندہ، تاوان، یا زکوٰۃ وصول کرنے
سے جہاد کو بے حد نقصان پہنچا ہے… ایک زمانہ کشمیر کے ہر پہاڑ پر ایک’’امیر
المؤمنین‘‘ بیٹھا تھا… بکروال اپنے ریوڑ لیکر نکلتے تو ہر پہاڑ پر بیٹھایہ’’حاکم‘‘
بکریاں گن کر’’زکوٰۃ‘‘ نکال لیتا… اور یوں جہاد کے اہم ترین معاونین ’’بکروال
برادری‘‘ مجاہدین سے بدظن ہو گئی… بے شک داڑھی منڈانا گناہ ہے… بے شک ویڈیو کی
دکانیں اسلامی معاشرے کے لئے خطرناک ہیں… بے شک اسلام میں پردہ کا حکم ہے… لیکن یہ
وہ احکامات نہیں ہیں کہ جن سے… نفاذ اسلام کا آغاز کیا جائے اور انہی مسائل کو سب
کچھ سمجھا جائے… اورا ن غلطیوں پر قتل جیسے بھیانک فیصلے کئے جائیں… یا اسکولوں کو
اڑانا ہی جہاد سمجھا جائے… مجاہدین کو چاہئے دین کا پختہ علم حاصل کریں یا پختہ
علم والے علماء کرام کی اتباع کریں… اپنی توجہ جنگ پر رکھیں ان احکامات کو نافذ
کرنے کا وقت بعد میں آئے گا… اپنے اعمال کا بھی محاسبہ کریں کہ دوسروں کو جن چھوٹی
باتوں پر قتل کرتے ہیں کہیںخود اُن سے بڑی غلطیوں میں تو مبتلا نہیں… اور یہ مسئلہ
بھی یاد رکھیں کہ زمین پر غلبہ قائم ہونے کے بعد احکامات کو قوت سے نافذ کیا جا
سکتا ہے… یہ نہیں کہ جہاد شروع کرتے ہی عوام پر قوت آزمانا شروع کر دیں… اور یہ
کہ عوام کے دلوں کو جیتنے اور ان کی دینی اصلاح کرنے کی کوشش کریں نہ کہ اُن کے
خلاف جنگ چھیڑ دیں… یہ بہت اہم موضوع ہے
بس بطور اشارہ چند باتیں عرض کر دی ہیں…
آج جنگ ہی جنگ ہے
اٹھارہ سال پہلے جو باتیں اُن صفحات پر لکھی تھیں
وہ آہستہ آہستہ زمین پر نمودار ہوتی گئیں… نائن الیون کا واقعہ پیش آیا اور پھر
جنگ دنیا بھر میں پھیل گئی اور اب مزید پھیلتی جارہی ہے… اور یہ بات یاد رکھیں کہ یہ
جنگ اب اور زیادہ پھیلے گی… کیونکہ دنیا میں اس وقت جو ’’طاقتور‘‘ ممالک اور لوگ ہیں
وہ مسلسل اسی راستے کی طرف جارہے ہیں جس میں جنگ ہی جنگ ہے… ان سب کا ایک ہی مؤقف
ہے کہ…
١ اسلامی
شدت پسندی کو سختی سے کچل دیا جائے…
٢ اسلامی
جہاد کا نام و نشان مٹا دیا جائے…
٣ اسلامی
بنیاد پرستی کی جڑ ہی کاٹ دی جائے…
٤ مجاہدین
کی کمر ہمیشہ کے لئے توڑ دی جائے…
یہ ہے چار نکاتی
فارمولہ… آ ج کل اقوام متحدہ کا اجلاس گرم ہے… ساری دنیا کے انسان غربت، بھوک، ایڈز،
کینسر اور کرپشن سے مررہے ہیں… مگر دنیا بھر کے حکمران… صرف اسی ایک’’صفر‘‘ پر
کھڑے ہیں کہ دنیا سے اسلامی انتہا پسندی اور جہاد کا خاتمہ کیسے ہو؟… ان سب کی یہی
فکر مندی… اوراس فکر مندی سے پھوٹنے والے ظالمانہ اقدامات ہی دنیا بھر میں’’جنگ‘‘
کا سب سے بڑا سبب ہیں… چنانچہ یہ اس سمت میں
جتنا بھی آگے بڑھیں گے دنیا اسی قدر جنگ کی لپیٹ میں آتی جائے گی… یہ لوگ نہ تو
اسلام کے مزاج سے واقف ہیں… اور نہ ہی یہ حقیقی مسلمانوں کی سوچ کو سمجھتے ہیں…
چنانچہ یہ ’’ظلم‘‘ میں تیزی کرتے ہیں… اور ظلم میں تیزی کے جواب میں جہاد اور زیادہ
مضبوط، مستحکم اور وسیع ہوتا ہے… ان شاء اللہ اگلے کالم
میں اس چار نکاتی عالمی فارمولے پر بات ہوگی کہ… یہ فارمولہ دنیا میں کیا
گُل کھلائے گا… بس اتنی بات یاد رکھیں کہ… جہاد کو اللہ تعالیٰ نے ایسی جگہ لکھ دیا
ہے جہاں سے اسے مٹانا ممکن نہیں… جی ہاں! ممکن ہی نہیں…
بھولیں نہ
ذوالحجہ کا چاند
نظر آتے ہی… ہوشیار ہو جائیں… ذوالحجہ کے پہلے دس دن دنیا کے ایام میں… سب سے
افضل اور بہترین دن ہیں… یہ وہ دن ہیں کہ جن کی راتوں کی قسم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کھائی ہے… ان دنوں کے
اعمال اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت پسندیدہ اور مقرب ہیں…
معلوم نہیں قرآن وسنت میں اتنے زیادہ فضائل کے باوجود مسلمان ان دنوں کی فضیلت سے
کیوں غافل رہتے ہیں؟… ان ایام کوہم سب قیمتی بنائیں… توبہ،استغفار، روزے،
عبادت،تقویٰ… اور پھر قربانی… یا اللہ توفیق
عطاء فرما… آمین
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیّدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
منفرد
سابقہ موضوع کی
تکمیل… عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل اور اہتمام…
دُنیا میں جہاد کے
پھیلائو سے اسلام کا پھیلائو…
ایک چشم کشا حقیقت…
ایک غلط دعوے کی تردید…
سال کے تین قیمتی
عشرے…صاحبِ بصیرت اسلاف کا طرز عمل…
ظلم جہاد کی غذا
ہے… جس قدر غذا وافر، اُسی قدر جہاد کا پھیلائو…
ایک مصری نوجوان
کا عبرت آموز قصہ…
سال کے افضل ترین
دن…
جہاد کو مٹانے کی
کوششوں کا اُلٹا انجام… خونِ شہداء کی برکات…
عشرۂ ذی الحجہ کے
بعض فضائل…
دو اہم موضوعات کا
احاطہ کرتی روشن تحریر…
منفرد
اللہ
تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے… آج دو ضروری
موضوع ہیں، کوشش کرتے ہیں دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلیں… ایک تو وہی گزشتہ کالم
والا کہ دنیا بھر کے حکمران اور طاقتور طبقے جہاد اور دیندار مسلمانوں کو ختم کرنے
کی کوشش میں ہیں… ان کوششوں کا کیا بنے گا؟…
اور دوسرا عشرہ ذی
الحجہ… یعنی ماہ ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں کی فضیلت…
ہر منٹ میں اڑتیس
٣٨نئے مسلمان
ایک سچی اور دلچسپ
رپورٹ شائع ہوئی ہے… پچھلے سال یعنی2012ء میںدنیا بھر میں جن نئے خوش نصیب افراد
نے اسلام قبول کیا ان کی تعداد کئی ملین ہے… اورحساب لگانے سے معلوم ہوا کہ گذشتہ
سال اوسطاً ہر منٹ میں اڑتیس نئے افراد نے اسلام قبول کیا… اللہ اکبر کبیرا…
والحمدللہ رب العالمین
اب اُس دعوے کو
مدنظررکھیں کہ…جہاد سے(نعوذب اللہ ) اسلام بدنام ہو رہا ہے… استغفر اللہ ، استغفر
اللہ … کیسا فضول اور ناجائز دعویٰ ہے… یہ جہادی دور کی برکات ہیں کہ… اب اسلام
اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے… کیونکہ اپنا خون دے کر مجاہدین نے اسلام کے’’وجود‘‘ کو
منوایا ہے… جہاد کے اس مبارک پھیلاؤ نے اسلام کو، دیندار مسلمانوں کو، دینی مدارس
کو، علماء اور دینی جماعتوں کو طاقت دی ہے… بیس پچیس سال پہلے اسلام اتنی تیزی سے
نہیں پھیل رہا تھا جس قدر تیزی سے آج پھیل رہا ہے… اور الحمدﷲ ہر دینی شعبہ پہلے
سے زیادہ مضبوط ہوا ہے…بے شک جہاد اسلام کا محکم اور قطعی فریضہ ہے اور اس میں
مسلمانوں کے لئے خیر ہی خیر ہے…
ذٰلِکُمْ خَیْرٌ
لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْن
بڑے قیمتی دس دن
ذو الحجہ کے پہلے
دس دن اتنے اونچے اور قیمتی ہیں کہ قرآن مجید میں دو جگہ خاص طور پر ان کا تذکرہ
ہے… سورۃ الفجر میں تو اللہ تعالیٰ نے ان دنوں کی دس راتوںکی قسم کھائی ہے…
اور سورۃ حج میں انہیں ’’ایام معلومات‘‘ قرار دیا ہے… ان دونوں آیات سے آپ ان
دنوں کی قیمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں… ہمارے صاحب بصیرت اسلاف پورے سال میں تین
عشروں کا خاص اہتمام فرماتے تھے…
١ رمضان
المبارک کا آخری عشرہ…
٢ ذوالحجہ
کا پہلا عشرہ…
٣ محرم
الحرام کا پہلا عشرہ…
ان تین عشروں کی
عبادت انسان کو بہت کچھ عطاء فرماتی ہے…
جہاد
کی وافر غذاء
جس چیز کو بھی
وافر غذا ملے وہ صحت مند اور طاقتور ہوجاتی ہے… جہاد کی غذا… کافروں اور ظالموں کا
ظلم ہے… وہ جس قدر ظلم بڑھاتے جاتے ہیں جہاد اسی قدر طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے… یہ
بات محض کوئی کھوکھلا دعویٰ نہیں… قرآن مجید میں’’اسباب جہاد‘‘ کا مطالعہ کریں…
کن اسباب کے پیدا ہونے سے جہاد کا حکم متوجہ ہوتا ہے؟… اور جہاد کے اہداف کیا ہیں؟…
جب دشمنان اسلام کھلی دشمنی پر اترتے ہیں،جب وہ مسلمانوں پر مظالم ڈھاتے ہیں… جب
وہ مسلمانوں کی عزتوں اور عصمتوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں… جب وہ مسلمانوں کی مساجد
گراتے ہیں… جب وہ مسلمانوں کو قیدی بناتے ہیں… جب وہ اللہ تعالیٰ اور رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھلم کھلادشمنی،
عداوت اور بے ادبی کا اعلان کرتے ہیں… جب وہ اسلامی زمینوں پر قبضے کرتے ہیں تو
قرآن پاک کے’’جہادی انوارات‘‘ غازیوں کو… ایک خاص سگنل دیتے ہیں… جس طرح اونچے
پہاڑوں کے درخت بادلوں اور ہواؤں کو سگنل دیتے ہیں… قرآن پاک کی طرف سے اشارے
ملتے ہیں… خوش نصیب جنَّتی اور مدنی ارواح… جہاد کی طرف دوڑنے لگتی ہیں…
بس آسان الفاظ میں
یوں سمجھ لیں کہ… آج جہاد کو ختم کرنے کی جتنی کوششیں جاری ہیں وہ سب جہاد کو
مضبوط اور مستحکم کرنے کا ذریعہ ہیں…
یا جدید الفاظ میں
یوں سمجھ لیں کہ… ہالی وڈ اور بالی وڈ سے تو جہاد اور مسلمانوں کا کچھ نقصان کیا
جا سکتا ہے… مگر پینٹا گون اور را، موساد کے ذریعہ جہاد کا کچھ بھی نہیں بگاڑا جا
سکتا… اور پھر کرامت دیکھئے کہ جو مسلمان جہاد پر آجائے اور پکا آجائے تو پھر
ہالی وڈ اور بالی وڈ بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے… راحت، آرام اور عیش پرستی…
مسلمان کے لئے ہلاکت ہے… جبکہ امتحان، مشقت اور سخت حالات مسلمانوں کو پکا مؤمن
بنا دیتے ہیں… ابھی مصر کی ایک نومسلمہ نے عجیب داستان لکھی ہے… وہ قبطی عیسائی تھی
اور کالج میں ایک مسلمان لڑکے سے محبت کرتی تھی… وہ لڑکا نام کا مسلمان تھا، نہ
نمازاور نہ دین… عیسائی لڑکی کی کوشش تھی کہ وہ لڑکا عیسائی ہو جائے تاکہ شادی
آسان ہو … اس نے گمنام ذریعہ سے ایک پادری کی چند’’ویڈیوز‘‘ اس تک پہنچائیں… اب
وہ انتظار میں تھی کہ کب پادری کا جادو چلتا ہے مگر یہ کیا… اس نے دیکھا کہ لڑکے نے داڑھی رکھ لی، نماز شروع
کر دی… تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ پادری نے اپنے بیانات میں اسلام اور مسلمانوں کو
بار بار ’’چیلنج‘‘ کیا تھا…یہ’’چیلنج‘‘ سن کر لڑکے کے اندر سوئی ہوئی غیرت جاگ اٹھی
کہ ایک پادری کی یہ ہمت کہ… مسلمانوں کو چیلنج دے… بس اُس نے پادری کو جواب دینے کے لئے اسلام کا مطالعہ شروع کیا، علماء سے
ملنا شروع کیا اور دیندار مسلمان بن گیا… بعد میں اسی کی باحیا اور مدلل محنت سے
وہ عیسائی لڑکی بھی مسلمان ہو گئی…
دُنیا کے دنوں میں
افضل ترین
حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
دنیا کے ایام میں
سب سے افضل دن ذوالحجہ کے پہلے دس دن ہیں… عرض کیا گیا… کیا جہاد میں گذرے ہوئے دن
بھی ان دنوں کے برابر نہیں؟ ارشاد فرمایا… جہاد میں گذرے ہوئے دن بھی ان دنوں کے
برابر نہیں مگر یہ کہ جہاد میں جانے والے کا چہرہ مٹی میں جاملے۔(یعنی وہ شہید ہو
جائے)… (البزاز، ابن حبان، صحیح)
ان دس ایام میں
عبادت کی فضیلت کا ا ندازہ لگائیں کہ… وہ مجاہد جو اپنی جان واپس لے آئے یعنی غازی
بن کر لوٹ آئے… ان دس دنوں کی عبادت اُس کے عمل سے بھی افضل ہے… سبحان اللہ اگر کوئی خوش نصیب شخص یہ دس دن جہاد اور جہادی محنت میں گزار دے تو اس کا اجر
کتنا بڑا ہوگا…
یہ اُلٹی کوشش
کفار اور منافقین
میں سے جو زیادہ عقلمند اور تھنک ٹینک ہیں… اُن کی سوچ یہ ہے کہ… مسلمانوں پر ایسے
حالات لائے جائیں کہ ان میں سے جو لڑنے والا طبقہ ہے وہ کھل کر سامنے آجائے… پھر
اس طبقے کو طاقت کے ذریعہ ختم کر دیا جائے… پیچھے صرف جھاگ اور چھلکے قسم کے
مسلمان رہ جائیں گے اور ہم آرام سے دنیا پر حکومت کریں گے… قرآن مجید کے اوراق کی
بے حرمتی، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
شان اطہر میں گستاخی… گندی گستاخانہ فلمیں اور خاکے… یہ سب اس لئے لائے جاتے ہیں
کہ مسلمانوں میں اشتعال اور حرکت پیدا ہو… اور اُن مسلمانوں کاپتہ چل جائے جو لڑ سکتے
ہیں… تب ان کو گھیر گھار کر مار دیا جائے… کفار اور منافقین کی یہ سازش بہت مضبوط
تھی اور یہ کامیاب بھی ہو جاتی اگر… مسلمان بھی دوسرے مذاہب والوں کی طرح ہوتے…
مگر’’مسلمان‘‘ بالکل ایک الگ، انمول، انوکھی اور منفرد ’’مخلوق‘‘ ہیں… اللہ تعالیٰ کی سب سے پسندیدہ مخلوق… ان کے پاس زندہ
قرآن، زندہ کعبہ ،زندہ مدینہ، زندہ مکہ… زندہ سیرت اور زندہ علم ہے… یہ اس کنویں
اورچشمے کی طرح ہیں کہ جس میں سے جتنا پانی نکال لیا جائے اسی قدر مزید پانی بلکہ
اس سے بھی زیادہ صاف پانی اس میں آجاتا ہے… پھر قرآن پاک کے صرف ایک لفظ پر غور
کریں…’’ بَلْ اَحْیَاءٌ‘‘ شہید مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں… زندگی کا ایک بڑا مطلب یہ
ہے کہ… شہید کا خون بیج بن جاتا ہے جس سے مزید پودے اورپھل، پھول نکلتے رہتے ہیں… اور شہید کا کام
زندہ رہتا ہے…جہاں تک ان کوششوں کے پہلے حصے کا تعلق ہے کہ گستاخی اور ظلم کے ان مناظر
کو دیکھ کر مسلمانوں میں سے لڑنے والا طبقہ سامنے آجاتا ہے… یہاں تک توٹھیک ہے…
مگراس لڑنے والے طبقے کو بالکل ختم کر دیا جائے گا… یہ غلط ہے… کیونکہ یہ
طبقہ…’’ بَلْ اَحْیَاءٌ‘‘ ایک خاص اور
دائمی زندگی پاجاتا ہے… اب تک جو نتائج
سامنے آئے ہیں اُن کو ملاحظہ کریں تو آپ میری اس بات کی تصدیق کریں گے…
فضائل ہی فضائل
ذوالحجہ کے پہلے
عشرہ کے فضائل کا ایک مختصر منظر دیکھیں…
١ اسی
عشرے میں حج ادا ہوتا ہے… جی ہاں اتنا بڑا فریضہ ان دنوں کے علاوہ کبھی ادا نہیں
ہو سکتا…
٢ اسی
عشرے میں’’یوم عرفہ‘‘ ہے… اور یوم عرفہ کے فضائل بے شمار ہیں اور یوم عرفہ کا روزہ
دو سالوں کے گناہوں کا کفارہ ہے… یوم عرفہ مغفرت اور جہنم سے نجات کا دن ہے… اور یہی’’حج
اکبر‘‘ کا دن ہے…
٣ اسی
عشرہ میں’’یوم نحر‘‘ یعنی قربانی والا دن بھی ہے… جس کے بارے میں حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اعظم الأیام
عنداللہ یوم النحر(ابو داؤد، نسائی)
اللہ
تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظمت والا دن’’یوم
النحر‘‘ یعنی دس ذوالحجہ کا دن ہے…
٤
اسی عشرے کے نیک اعمال اللہ تعالیٰ کے نزدیک باقی تمام دنوں کے اعمال سے زیادہ
محبوب ہیں… (بخاری)
٥
اس عشرے میں تہلیل، تکبیر اور تحمید زیادہ کرو…
لا الہ الا اللہ…
اللہ اکبر کبیرا… والحمدللہ
ان دنوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کو بہت ہی محبوب ہیں… (خلاصہ روایۃ احمد)
حج، عمرہ، جہاد،
روزے، صدقہ، تہلیل و تکبیر… گناہوں سے بچنا… اور دل کی خوشی سے کھلی قربانی کرنا… یہ
ہے مختصر نصاب…
بے
بسی
دو
موضوع ساتھ ساتھ چلائے… نہ ایک پورا ہوا نہ دوسرا… اور جگہ ختم ہوگئی… ابھی بہت سی
اہم باتیں باقی ہیں… بس جتنی ہو گئیں… اسی پر شکر ادا کرتے ہیں… والحمدﷲ رب العالمین…
لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
متاثرنہ ہوں
’’ملالہ‘‘ کے فتنے سے متأثر نہ ہوں…
عزت اللہ اور اس
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان
کیلئے ہے …
جو کلمہ سے محروم
ہے وہ ذلیل ہے…
’’اُبامہ‘‘ معزز نہیں… اور نہ ہی اس سے
ملاقات کوئی کمال کی بات ہے…
اقوام متحدہ کا بے
وقار سٹیج اور ملالہ کی بے اصل باتیں…
وہ گولی سے بچ گئی
مگر فتنے اور ایوارڈ اسے لے ڈوبے…
غامدی اور وحیدالدین
خان کا فتنہ آلود نظریہ اور اس کا قرآنی توڑ…
عزت حکومت و سلطنت
میں نہیں …ایمان میں ہے…
تعلیم کا شور اور
خود تعلیم سے فرار…ملالہ کی بے وقوفانہ باتیں…
حضرات اُمہات
المؤمنین عالمات فا ضلاتl…
ان کے بیٹے خواتین
کی تعلیم کے مخالف کیسے ہوسکتے ہیں؟…
ایک چشم کشا حقیقت…
متاثرنہ ہوں
اللہ
تعالیٰ کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں…
لا الہ الا ﷲ
حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں…
مُحمَّد رسول ﷲ
بس یہی ہے کامیابی
کاراز… یہی ہے سب سے بڑی عزت اور یہی ہے سب سے بڑی دولت
لا الہ الا ﷲ
مُحمَّد رسول اللہ
جس نے یہ’’کلمہ‘‘
پالیا… وہ عزت والا ہے… اور جو اس’’کلمہ‘‘ سے محروم ہے وہ ذلت میں ہے…
امریکہ کے
صدر’’ابامہ‘‘ نے ’’کلمہ‘‘ سنا، آذان سُنی… بچپن میں قرآن پاک پڑھا مگر وہ ’’کلمہ
طیبہ‘‘ کو نہ پا سکا… محروم، محروم، محروم… بد نصیبی کی انتہا…
اللہ
تعالیٰ ہم سب کو محرومی اور بد نصیبی سے
بچائے…
جن کے دل میں
’’کلمہ طیبہ‘‘ ہے… وہ نہ سورج کی پوجا کرتے ہیں، نہ ستاروں سے متاثر ہوتے ہیں… نہ
چاند پر جانے والوں کو بڑا سمجھتے ہیں… اور نہ کسی کوٹھی، کار اور عیاشی سے متاثر
ہوتے ہیں… کیونکہ’’کلمہ طیبہ‘‘ کی شاخیں آسمانوں سے اونچی ہیں… یہ کلمہ انسان کو
اتنا بلند کر دیتا ہے کہ اُسے ساری دنیا کی بادشاہت… اور مال و دولت مچھر کے پر کے
برابر نظر آتا ہے…
لاالہ الا ﷲ محمد
رسول ﷲ
وہ لوگ
جو’’ابامہ‘‘ سے ملنا’’اعزاز‘‘ سمجھتے ہیں… وہ بے چارے نا سمجھ ہیں، نا بالغ ہیں…
قابل رحم ہیں… اُن کو دیکھ کر وہ دعاء
پڑھنی چاہئے جو کسی معذور کو دیکھ کر پڑھی جاتی ہے:
اَلْحَمْدُلِلہِ
الَّذِی عَافَانِی مِمَّا ابْتَلاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلیٰ کَثِیْرٍ مِّمَّنْ
خَلَقَ تَفْضِیْلَا
آج کی دنیا کتنی
سمجھدار اور دانشمندہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیں کہ سوات کی ایک سولہ
سالہ بچی… دنیا کی بڑی مفکر اور بڑی دانشور بنی ہوئی ہے… وہ کتاب بھی لکھ چکی… اور
اس کتاب کی پیشگی اجرت… کئی کروڑ روپے بھی وصول کر چکی ہے… چند دن پہلے وہ ابامہ سے جا ملی اور آج اس نے ملکہ
الزبتھ کے چرنوں میں حاضری دینی ہے…
اقوام متحدہ کا سٹیج
ایسا بے وقار کہ…وہاں اُسے تقریر کے لئے کھڑا کیا گیا… اُس نے کونسی دانش کی بات کی؟…
اللہ تعالیٰ کسی کوکمسنی میں ہی مثالی عقل و دانش سے نواز دے… یہ ممکن ہے… ماضی میں
ایسا ہو چکا اور آئندہ بھی خوش نصیب افراد کو یہ نعمت ملتی رہے گی … مگر یہاں تو
عقل و دانش نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی… بس بولنے والا ایک کھلونا ہے جس کے ذریعے
اسلام اور پاکستان کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کی کوشش کی جا رہی ہے…
میں تعلیم عام
کروں گی… میںگولی سے نہیں ڈرتی… دنیا میں امن ہونا چاہئے اور یہ امن قلم اور کتاب
سے آئے گا… تالیاں، تالیاں…
یہ ہے آج کی نام نہاد مہذب دنیا کی دانش… آج جتنا فساد پڑھے لکھے لوگ
پھیلا رہے ہیں اتنا ان پڑھ لوگوں نے کبھی نہیں پھیلایا…
مجھے خطرہ ہے کہ…
سوات کی یہ بے عقل سی بچی گولی سے تو بچ گئی… مگر، کہیں… اپنے ایوارڈوں کی رقم
گنتے گنتے نہ مر جائے…
دراصل اُسے
مسلمانوں کی ’’قیادت‘‘ کے لئے تیار کی جارہا ہے… تاکہ غلامی کی تاریک رات کو…
مسلمانوں پر مزید طویل کیا جا سکے… سکول سے واپس آتے ہوئے اُس پر گولی چلائی گئی…
یا چلوائی گئی… جو کچھ بھی ہوا تھا ہمیں اچھا نہیں لگا تھا…
مسلمانوں کو اپنی
بندوقوں کا رخ… کفار، دشمنان اسلام کی طرف رکھنا چاہئے… کفر کمزور ہوتا ہے تو
’’نفاق‘‘ اپنی موت آپ مر جاتا ہے… کیونکہ’’منافق‘‘ صرف اپنے مفادات کا اور وقت کی
طاقت کا پجاری ہوتا ہے…
آپ’’غامدی‘‘ اور
’’وحید الدین خان‘‘ کے فتنے کا جائزہ لے لیں… اُن کا یہی نظریہ ہے کہ… جو حکمران
ہے وہی ٹھیک ہے… جو طاقتور ہے وہی برحق ہے… اور جودنیا میں مضبوط ہے بس اسی کا
ساتھ دو… یہ خالص’’منافقانہ‘‘ سوچ ہے مگر یہ ہر زمانے میں پائی جاتی ہے… اورہمارے
زمانے میں یہ اپنے عروج پر ہے… یہ لوگ کہتے ہیں…
’’ہم دریا کی مچھلیاں ہیں… پس جو ہمارے دریا
کا مگرمچھ ہے اُس سے بنا کر رکھو… اس کی غلامی کرو… اور اس غلامی پر فخر کرو اور
اسے دانشمندی سمجھو‘‘…
قرآن پاک بار بار
اس سوچ کی نفی فرماتا ہے… ایک پوری سورۃ’’المنافقون‘‘ اس موضوع پر نازل ہوئی ہے…
وہ سورۃ آج کے غامدی، ملالی… اور بلاولی فتنوں کا مکمل نقشہ کھینچتی ہے… آپ اس
سورۃ کو پڑھیں گے تو یوں لگے گا کہ…
آپ کسی کرزئی، کسی
پرویز مشرف، کسی زرداری… کسی سواتی بچی کے حالات پڑھ رہے ہیں… قرآن پاک اس سورۃ
کے آخر میں نفاقی فتنے سے بچنے کا علاج بھی بیان فرماتاہے کہ…
دنیا کی چمک، عزت
اور مال سے متاثر ہونا چھوڑ دو…
یہ محض خلاصہ ہے…
علاج کی تفصیلات پڑھنی ہیں تو’’فتح الجواد‘‘ کی طرف رجوع کریں… ایک مجاہد ساری دنیا
کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف لپکتا ہے تو… فدائی اور شہید بن
جاتا ہے… اور دوسرا مجاہد… اللہ تعالیٰ سے غافل ہو کر… دنیا کی طرف لپکتا ہے…
روشن مستقبل، پروٹوکول، طرح طرح کے ملبوسات شاہانہ دستر خوان… اور ضرورت سے زیادہ
مال کی فراوانی… تو وہ ذلیل اور رسوا ہو جاتا ہے… اور راستے سے ہٹا کر حکمرانوں یا
میڈیا کے ہاتھ کا کھلونا بن جاتا ہے…
اَللّٰھُمَّ
اَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الْاُمُوْرِ کُلِّھَا وَاَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا
وَعَذَابِ الْآخِرَۃ
ایک دعاء بہت
محتاجی اور عاجزی سے مانگنی چاہئے…
اَللّٰھُمَّ
اجْعَلْ خَیْرَ عُمُرِیْ اٰخِرَہٗ وَخَیْرَ عَمَلِیْ خَوَاتِیْمَہٗ وَخَیْرَ اَیَّامِیْ
یَوْمَ اَلْقَاکَ فِیْہ
او کلمے والے
مسلمانو!… او! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے امتیو!… دنیا کی کسی چمک سے متاثر نہ
ہونا… اگرچہ وہ چمک دینی شکل و صورت میں ہی کیوں نہ ہو… میڈیا پر آناکوئی فخر اور
عزت نہیں… سانپ، بچھو ، بندر اور خنزیر رات دن میڈیا پر دکھائی دیتے ہیں… کسی کے
اڑنے سے متاثر نہ ہونا مکھیاں رات دن اڑتی رہتی ہیں… بس اس فکر میں رہو کہ… کلمہ
دل میں پکاہو جائے… اخلاص والی نماز نصیب ہو جائے… اور زیادہ سے زیادہ جہاد فی سبیل اللہ میں
محنت اور قربانی کی توفیق ملے… یہی عزت ہے، یہی ترقی ہے یہی کامیابی ہے… اور یہی
فلاح کا راستہ ہے…
ایک جامع نصاب…
کلمہ، نماز اور جہاد فی سبیل اللہ …
جی ہاں! کلمہ،
نماز… اور جہاد فی سبیل اللہ …
جو مسلمان اس نصاب
کو یقین اور اخلاص کے ساتھ پا لیتا ہے … اسے ساری دنیا کی چمک دمک اور دولت متاثر
نہیں کر سکتی…
وہ جب کسی
کو’’اُبامہ‘‘ کے ساتھ بیٹھا دیکھتا ہے تو اُسے رشک نہیں آتا… گِھن آتی ہے…
نقلی عزت، عارضی
چمک دمک… دھوکہ ہی دھوکہ… بناوٹ ہی بناوٹ… ہر شخص تصنع، دکھلاوے اور بناوٹ میں
جکڑا ہوا ہے… اور پھر دنیا کے پیچھے بھاگتے بھاگتے… اچانک موت اور قبر کا گڑھا… میں
نے انصاف کے ساتھ غور کیا کہ سوات کی بچی کے بیانات میں کوئی ایسی بات ہو… جس سے
دنیا کے کسی ایک انسان کا بھی بھلا ہو جائے… مگر کوئی بات نہ ملی… آپ ڈھونڈ لیں
اگر مل جائے تو مجھے بتا دیں… جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو اس بچی کے پیدا ہونے سے
پہلے… پاکستان کی خواتین تعلیم حاصل کر رہی ہیں… اسلام میں خواتین کی تعلیم پر کوئی
پابندی نہیں… بلکہ’’خواتین‘‘ کے لئے بھی ضروری علم… اُسی طرح فرض اور لازم ہے جس طرح مردوں کے لئے… مگر ایک موٹی
سی بات دنیا کے بے عقل لوگوں کو کیوں سمجھ نہیں آتی کہ… عورت، عورت ہے اور مرد،
مرد ہے… اللہ تعالیٰ نے دونوں کو جب الگ طرح کا بنایا ہے تو یقیناً
اُن کے کاموں اور ذمہ داریوں میں بھی فرق ہو گا… سوات کی دانشور بچی… عالمی ایوارڈوں
کی مالک مفکرہ… اقوام متحدہ کی خطیبہ نے فرمایا کہ…’’میں عام عورت کی طرح بچے پیدا
کرنے والی نہیں بننا چاہتی‘‘… کاش اُس کی والدہ بھی یہی فیصلہ کر لیتی تو آج ہمیں
دن رات اُس کے بیانات کی اذیت نہ جھیلنی پڑتی… اگر عورت بچے پیدا نہیں کرے گی تو کیا
یہ کام مردوں کے ذمہ لگایا جائے گا؟… کیا بچہ پیدا کرنے سے کوئی عورت ’’عام عورت‘‘
بن جاتی ہے ؟… دنیا کے جتنے بھی خاص اور بڑے لوگ ہیں اُن کو عورت نے ہی جنم دیا
ہے… مگر سر میں ایک گولی اُتروا کر جسے دانش کی ڈگری دے دی جائے اُسے کون
سمجھائے؟… ارے تعلیم اتنی ہی ضروری ہے تو خود اُس بچی کو چاہئے کہ پہلے ضروری کام یعنی
تعلیم حاصل کرے… اُس کے بعد تقریریں کرے ، کتابیں لکھے… خود تو ابھی اُس نے دنیا
کا سب سے ضروری کام… یعنی’’حصول تعلیم‘‘ پورا نہیں کیا…اور شور ساری دنیا میں تعلیم
تعلیم کا مچاتی پھرتی ہے… پھر ایک سؤال ہے… جب وہ سوات میں تھی توبی بی سی کی جو
ڈائری اس سے لکھوائی جاتی تھی… اس میں وہ اسکول کے ناغے اور اسکول کے بند ہونے کا
بہت رونا روتی تھی… مگر اب روز اپنے اسکول سے چھٹی کر کے کبھی ابامہ سے ملنے بھاگ
جاتی ہے … کبھی ملکہ برطانیہ کے پاس جا بیٹھتی ہے… کبھی اٹلی ایوارڈ لینے چلی جاتی
ہے… کبھی جنیوا میں تقریر جھاڑنے جا پہنچتی ہے… کبھی فرانس میں تمغے پہننے اڑی جاتی
ہے… اگر اسے واقعی تعلیم کا شوق ہوتا تو وہ کہہ دیتی کہ بابا بس… اب مجھے پڑھنے
دو… میرے لئے اہم کام’’ابامہ‘‘ سے ملنا نہیں بلکہ تعلیم حاصل کرنا ہے…… اوپر خواتین
کی تعلیم کی بات چلی تھی جسے مکمل ادھورا چھوڑنا خطرناک ہے…اس لئے مختصراً عرض ہے
کہ اسلام خواتین کو تعلیم سے نہیں روکتا… البتہ دیگر احکامات کی طرح اس میں بھی
اسلام کا اپنا قانون ہے… عورت کو اسی قانون اور اسلام کی مقرر کردہ حدود کے اندر
رہ کر تعلیم حاصل کرنا ہوگی… مخلوط تعلیم، دین سے مکمل جاہل رہ کر صرف دنیوی تعلیم…
اور اپنی شرعی ذمہ داریوں سے ہٹانے والی تعلیم عورت کے لئے زہر قاتل ہے… ہم مسلمان
تو الحمدﷲ دن رات… حدیث کی کتابوں میں اُن عورتوں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں… جو’’امہات
المؤمنین‘‘ اور ’’صحابیات راضیات‘‘ ہیں… ہم اپنی اُن ماؤں کے شاگرد ہو کر اپنی
’’بیٹیوں‘‘ کو کس طرح تعلیم سے محروم رکھ سکتے ہیں؟؟…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مالک کا
دروازہ ُکھلا ہے
سورۃ الکہف کے تین
قیمتی اسباق…
سوئی ہوئی قسمت کسی
وقت بھی جاگ سکتی ہے…
خوابِ غفلت میں
سوئی قوم کسی وقت بھی بیدار ہوسکتی ہے…
دُنیا میں اہل شر کا غلبہ دیکھ کر
مایوس ہونے کی ضرورت نہیں…
سورۃ الکہف یاد کریں…
انسانی دماغ کی وسعت…
دنیا میں کفرونفاق
کا غلبہ…
حق والے مغلوب… جہادی تحریکیں فتح
کامل سے ہمکنار نہیں ہورہی ہیں…
ایسے میں کرنے کے
دو کام:
١ انابت
الی اللہ… پورے دل سے، عاجزی سے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ…
٢ اللہ
تعالیٰ سے حسنِ ظن… اس کی رحمت سے حالات ضرور بہتر ہونگے…
انبیاء کرام کے
قلوب میں یہی نور موجزن تھا…
اس نور کو حاصل
کرنے مالک کے دروازے پر آئیں
مالک کا دروازہ
کھلا ہے
اللہ تعالیٰ نے
’’اصحاب کہف‘‘ کو تین سو نو سال کی گہری نیند کے بعد ’’بیداری‘‘ عطاء فرمائی…بات
سمجھ آ گئی!!
خ ہمارا سویا ہوا ’’مقدر‘‘ اور ’’نصیب‘‘ کسی
بھی وقت جاگ سکتا ہے…مایوس ہونے کی گنجائش نہیں۔
خ ہماری سوئی ہوئی ’’قوم‘‘ اللہ تعالیٰ کے
حکم سے کسی بھی وقت جاگ سکتی ہے…تب صدیوں کی غفلت کے سارے اثرات یوں گم ہو جائیں
گے کہ…دنیا میں قرون اولیٰ کی یادیں تازہ ہو جائیں گی…تین سو نو سال کی نیند اصحاب
کہف کا کچھ نہ بگاڑ سکی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں تھے…اسلام بھی اللہ
تعالیٰ کی حفاظت میں ہے۔ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا… اس لئے مایوس
ہونے کی گنجائش نہیں۔
خ کبھی زمین والوں کی قسمت میں’’خیر‘‘نہیں
ہوتی…کیونکہ وہ خیر کے قابل نہیں ہوتے…تب ’’خیر والوں‘‘ کو کچھ دور انکی خیر سمیت
نیند سلا دیا جاتا ہے… اور جب زمین والوں کے حالات اس قابل ہو جاتے ہیں کہ…اُن
پر’’خیر‘‘برسائی جائے تو ’’خیروالوں‘‘کو جگا کر واپس اُن میں بھیج دیا جاتا ہے…اہل
شر کا غلبہ اور ان کو ملی ہوئی کھلی چھوٹ دیکھ کر مایوس ہونے کی گنجائش نہیں…
یہ ہوئے تین سبق…
دراصل پورا قرآن مجید اور سورۃ الکہف طرح طرح کے ایسے اسباق سے بھرے ہوئے ہیں…جن
میں امید ہے،زندگی ہے اور روشنی ہے…آپ سب سے دردمندانہ گزارش ہے کہ…جمعہ کے دن
پوری سورۃ الکہف اہتمام کے ساتھ پڑھ لیا کریں…اور اس سورت کی پہلی اور آخری دس آیات
ہر مسلمان حفظ کر لے… اور جن کا دماغ تروتازہ ہو…وہ پوری سورۃ الکہف زبانی یاد کر
لیں…
ابھی ایک نئی تحقیق
سامنے آئی ہے کہ…انسانی دماغ میں کتنی معلومات سما سکتی ہیں؟…کہتے ہیں کہ انسانی
دماغ کی میموری اتنی بڑی اور وسیع ہے کہ ساری دنیا کی معلومات اگر اس میں ڈال دی
جائیں تو ان سے اس کا صرف چوتھائی حصہ بھرے گا…
واقعی ایسا ممکن
ہے…جن لوگوں نے ہمت کی اور اپنے دماغ کو گندگی سے بچایا تو انہوں نے لاکھوں روایات،مسائل
اور احکامات یاد کر لئے اور ان کا دماغ گرم تک نہیں ہوا…
زیادہ کھانا،زیادہ
سونا،زیادہ باتیں کرنا…کھٹی چیزیں کھانا…زیادہ جاگنا…اور پڑھائی لکھائی سے دور
رہنا…یہ دماغ کو کمزور کرنے کے موٹے موٹے اسباب ہیں…زہریلا گوشت کھانے سے دماغ
بالکل ختم ہونے کے قریب ہو جاتا ہے…زہریلا یعنی مردار گوشت کھانے کا مطلب ہے’’غیبت‘‘کرنا…
اَنْ یَّاْ کُلَ
لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا
آج بھی ایسے
افراد موجود ہیں جن کو قرآن مجید بھی یاد ہے اور کتابوں کی کتابیں ازبر ہیں…اور
کبھی ان کے دماغ نے ’’میموری فل‘‘کا سگنل دیکر معذرت نہیں کی…دماغ کو آپ جتنا کام
میں لگائیں گے یہ اتنا طاقتور ہوتا چلا جائے گا…اور جتنا سوچوں میں پگھلائیں یہ
اتنا کمزور ہو جائے گا…خیر بات چلی رہی تھی سورۃ الکہف کی…آجکل فتنے بہت زیادہ ہیں…اور
اہل حق کے لئے اس زمانے کا سب سے بڑا فتنہ…مایوسی اور بے چینی ہے…جو بھی حق پر ہے
وہ پریشان ہے…اور موت،موت سوچتا پھر رہا ہے…کیونکہ ایسے لوگوں پہ شیطان بڑی قوت سے
حملہ آور ہوتا ہے…آج چاروں طرف کفر،نفاق اور گناہ کھلم کھلا ننگے ناچ رہے ہیں…بظاہر
ان کے لئے ڈھیل ہی ڈھیل ہے…انکی طاقت ہر آنکھ کو ناقابل تسخیر نظر آ رہی ہے…اور
ان کی چمک دمک ہر آنکھ کو اچھی لگ رہی ہے…ایسے وقت میں ’’اہل حق‘‘ کس چیز سے
حوصلہ پائیں؟…کس چیز میں اُمید کی روشنی دیکھیں؟… ایک جہادی تحریک اٹھتی ہے…اور
پھر بیٹھ جاتی ہے…کہیں زوردارجہاد اٹھتا ہے مگر آخر میں کوئی سیکولر حکومت آ جاتی
ہے…کافر اڑتے پھر رہے ہیں…منافقوں کے نخرے سنبھالے نہیں سنبھل رہے…اہل حق کی دعائیں
ان کے آنسوؤں میں بھیگ کر گم ہو جاتی ہیں تو…شیطان ان کے دل پر وساوس کے تابڑ
توڑ حملے کرتا ہے…اندھیرا ہی اندھیرا…دور دور تک اندھیرا…
تب نمازیں بے
لذت،وظائف بے اثر…اور تنظیمیں اور جماعتیں منتشر منتشر…بس زور لگا کر خود کو اتنا
سنبھال لیتے ہیں کہ ہم جلدی مر جائیں…تاکہ گمراہ نہ ہو جائیں…
آپ جانتے ہیں
کہ…شیطان کے پاس ’’عملہ‘‘بہت ہے اور اکثر لوگ خود ہی گمراہی کے راستے پر چل رہے ہیں…اس
لئے شیطان اپنے تمام لشکروں کے ساتھ انہیں چند افراد پر حملے کرتا ہے…پھر کیسے بچا
جائے؟…جواب یہ ہے کہ دو چیزیں اختیار کرنے سے…ان شاء اللہ شیطان کے ان حملوں سے بچا
جا سکتا ہے…پہلی چیز ہے’’انابت‘‘…اور دوسری چیز ہے اللہ تعالیٰ سے ’’حسن ظن‘‘…
انابت کا معنیٰ یہ
ہے کہ…مکمل توجہ،عاجزی اور یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں…اور اللہ
تعالیٰ سے مانگیں…
اس کی ایک مثال
عرض کرتا ہوں…ہر آدمی کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ ’’حق‘‘پر ہے…حالانکہ ایسا نہیں
ہوتا…جو لوگ غلطی پر ہوتے ہیں ان کو بھی شیطان یہی سمجھاتا ہے کہ تم حق پر ہو…اب یہاں
’’انابت‘‘کا مطلب دیکھیں…آپ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے وضو کر کے مسجد گئے…اچھی
طرح نماز ادا کی…پھر آنکھیںبند کر کے اپنے گناہوں کو یاد کیا تو یوں لگا کہ…ہم تو
برباد ہو گئے، اتنے خطرناک گناہ؟…اب آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کو پکارنا شروع کیا…دائیں
بائیں کی کوئی خبر نہیں…روٹی،پیسے،عہدے کسی چیز کا خیال نہیں…بس یہ کہ گناہ بہت ہو
گئے عذاب قریب ہے میں اپنے مالک سے معافی مانگ لوں…ایک ایک گناہ کو یاد کر رہے ہیں
معافی مانگ رہے ہیں… آج بس یہی آخری موقع ہے تھوڑی دیر بعد موت آنے والی ہے…ہر
فکر ختم…بچے وہ پال لے گا جس نے ان کو پیدا کیا…بیوی کو وہ رزق دے گا جو شادی سے
پہلے اور ماں کے پیٹ میں اسے دیتا تھا… دُنیا کے سارے کام میرے بغیر چلتے رہیں
گے…ہر فکر ختم…بس خالص ایک فکر کہ ابھی اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے…اتنے سارے گناہ
کیسے معاف ہوں…پکارے جا رہا ہے،پکارے جا رہا ہے…مسجد خالی ہو گئی…اب اس نے مزید سر
جھکا لیا…یا اللہ مجھے صرف آپ چاہئیں…مجھے صرف آپ کی رضا چاہیے…یا اللہ اگر میرا
کوئی عقیدہ غلط ہے تو میں اسے آپ کی رضا کے لئے چھوڑنے پر تیار ہوں…یا اللہ جو عقیدہ
آپ کو پسند ہے مجھے وہی عطا فرما دیجیے… یا اللہ اگر میرا مسلک غلط ہے تو آپ کی
رضا کے لئے اسے چھوڑنے پر تیار ہوں یا اللہ مجھے صراط مستقیم پر چلا دیجیے…وہی
راستہ وہی مسلک جو آپ کو پسند ہے…یا اللہ میں جس جماعت میں ہوں اگر ’’غلط‘‘ ہے تو
میں اسے آپکی خاطر چھوڑنے پر تیار ہوں…مجھے اپنی پسند والی جماعت میں شامل فرما دیجیے…یا
اللہ میرے اخلاق غلط ہیں اور آپ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں تو میں انہیں چھوڑنے کے
لئے تیار ہوں…مجھے اپنی پسند والے اخلاق حسنہ عطاء فرما دیجیے…بس اسی طرح روتا
جائے،بلکتا جائے اور دعا میںکسی طرح کے تناؤ اور ’’میں میں‘‘کا شکار نہ ہو پس
عاجزی،خود سپردگی اور مالک کے سامنے مکمل رضا اور تسلیم…یہ ہے انابت کی ایک مثال…
دوسری چیز ہے…اللہ
تعالیٰ کے ساتھ’’حسن ظن‘‘…یہ بڑا اونچا کام ہے اور آج کے حالات میں تھوڑا سا مشکل
بھی…
دراصل…باطل پر ڈٹے
ہوئے لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں زیادہ بے فکر ہوتے ہیں…وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ
تعالیٰ انہیں ضرور بخشیں گے…
یٰٓااَیُّھَا
الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ
اے انسان تجھے کسی
چیز نے اپنے کریم رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے…یعنی نہ صحیح ایمان،نہ
فرائض کی ادائیگی،نہ حرام سے بچنا…نہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کا احترام…اور پھر
مکمل یقین کہ…اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور بخشیں گے…
یہ ہے خالص دھوکہ
اور نقصان…جبکہ’’حسن ظن‘‘بالکل ایک الگ اور نرالی چیز ہے…ایک مسلمان ہمیشہ اللہ
تعالیٰ کو راضی کرنے کی فکر میں رہے…اپنی طرف سے جو کچھ کر سکتا ہو پورا کرے…اللہ
تعالیٰ سے سچی محبت رکھے…گناہ ہونے پر توبہ میں دیر نہ کرے…اور ساتھ یہ حسن ظن
رکھے کہ اللہ تعالیٰ بڑے شکور یعنی قدر دان…بڑے فضل والے اور بڑے رحیم و کریم ہیں…میری
عبادات تو کچھ نہیں…مگر ان کا فضل اور احسان سب کچھ ہے…وہ مجھے بخشیں گے…وہ میرے
ساتھ خیر فرمائیں گے…وہ مجھے ضائع نہیں فرمائیں گے…مجھ پر جو مشکلات ہیں یہ میرے
مالک کا مجھ پر ظلم نہیں بلکہ ان میں میرا ہی کوئی نفع پوشیدہ ہے…میں نا اہل مگر
وہ ایسے کریم اور قادر کہ نااہل کو اہل بنا دیتے ہیں…اسے کہتے ہیں’’حسن ظن‘‘…یہ سچی
محبت کا وہ رشتہ ہے جو تنگیوں اور تاریکیوں میں …خوب چمکتا ہے…
یہی نور تھا جو
آگ کے الاؤ میں گرتے وقت…سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دل میں تھا…یہی نور تھا جو مچھلی کے پیٹ میں
حضرت یونس علیہ السلام کو تسلی دے رہا
تھا…یہی نور تھا جو خوفناک محاصرے میں غار ثور کے اندر مہک رہا تھا،مسکرا رہا
تھا…حسن ظن کا یہ نور…انسان کو گناہوں میں نہیں لگاتا…بلکہ نیکیوں سے تھکنے نہیں دیتا…اکتانے
نہیں دیتا…اور برے حالات میں مایوس نہیں ہونے دیتا…یہ نور ہمیشہ ایک ہی آواز
لگاتا ہے…آ جاؤ! آجاؤ! رحیم،کریم مالک کا دروازہ کھلا ہے…تم جیسے بھی ہو آ
جاؤ…غفور و منان رب کا دروازہ کھلا ہے…اور وہ سمیع ہے سنتا ہے…اور قریب ہے بہت قریب…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیّدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا ﷲ محمد
رسول ﷲ
٭٭٭
مذاکرات کا لہو
مذاکرات کی باتیں
اور ساتھ ساتھ باہمی قتل وغارت کا عذاب…
کفار کا اہم ہدف…
مسلمانوں کو آپس میں لڑائے رکھیں…
پرویزمشرف کے ایک
ظالمانہ فیصلے کی آگ…
حضرت عثمان رضی
اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت اور حق پر
ثبات…
ملالہ کا فتنہ بے
نقاب… اس کے زوال کا آغاز ہوگیا…
دنیا میں مقبولِ
عام اور سب سے زیادہ پھیلنے والا نام محمد…
مسلمانوں کی طرف
سے کفار کی گستاخیوں کا جواب…
اسم ’’محمد‘‘ کا
عموم…
ڈینگی مچھر کے ضرر
سے بچنے کا سستا اور مفید نسخہ…
پودینہ کے کچھ
فوائد…
مذاکرات کا لہو
اللہ
تعالیٰ ہی کے لئے تمام تعریفیں ہیں:
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
آج کی کچھ مختصر
باتیں!
مذاکرات کا لہو
مسلمانوں میں باہمی
خونریزی کو جاری رکھنا… یہ دشمنان اسلام کا اہم ترین ہدف ہے… حکومت اورمقامی
طالبان کے درمیان’’ امن مذاکرات‘‘ کا معاملہ ویسے بھی کافی مشکل تھا… مگر پھر بھی
سب دعاء گو تھے کہ یہ مذاکرات شروع ہو جائیں اور اچھے نتائج کے ساتھ کامیاب ہوں…
ملک کے اکابر علماء کرام نے اس بارے کافی محنت فرمائی… ان کی محنت کے نتیجہ میںمذاکرات
کچھ قریب ہوئے تھے کہ… ڈرون حملہ ہو گیا… اور مسلمانوں کے درمیان باہمی امن کی ایک
مثبت کوشش میرانشاہ کے ایک گمنام قبرستان میں’’دفن‘‘ہو گئی…
اب کون کس پر
اعتبار کرے گا؟… پرویز مشرف نے ایک حرام اور ظالمانہ جنگ پاکستان پر مسلّط کی… ایک
اسلامی ملک نے مسلمانوں کو برباد کرنے کے لئے ’’ظالم‘‘ کوکندھے فراہم کئے… اور سچی
بات ہے…
’’جو ظالم کی مدد کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس پر اسی ظالم کو مسلّط فرما دیتے ہیں‘‘
جب
تک ملک کے حکمران اس حرام فیصلے کو واپس نہیں لیتے… جب تک ہمارا ملک اس ظالمانہ
جنگ سے باہر نہیں آتا… آگ جلتی رہے گی… پہلے لہو میدان جنگ میں بہتا تھا مگر…
آج مذاکرات کا لاشہ بھی لہو میں تڑپ رہا ہے… مایوس ہونے کی حاجت نہیں… انسان
دراصل’’جنت‘‘ کا باشندہ ہے زمین کے چھوٹے سے’’سیارے‘‘ پر اس کو بطور امتحان کے بھیجا
گیا ہے… یہ ادنیٰ اور چھوٹا سا’’سیارہ‘‘ ہمارا مستقل مسکن اورہماری منزل نہیں ہے…
اس لئے یہاں کے بارے میں زیادہ پریشان
ہونا اچھا نہیں… اصل فکر یہ ہو کہ واپس اپنے اصلی اور بڑے سیارے’’جنت‘‘ پر کیسے
جائیں… جہاں نہ دکھ ہے نہ غم، نہ موت ہے نہ بیماری… نہ تنگی ہے نہ پریشانی… نہ
خسارہ ہے نہ زوال… یاد رکھیں…
انسانوں کے ’’والدین‘‘
تو جنت سے آگئے مگر ان کی ساری اولاد واپس جنت میں نہ جا سکے گی… بہت سے انسان
جہنم نامی سیارے میں ڈالے جائیں گے جو
سورج سے زیادہ گرم ہے اور بہت خوفناک…
’’سیارہ‘‘ کا لفظ ویسے ہی لکھ دیا… اللہ تعالیٰ ہی اپنی مخلوق کے رازوں کو جانتے ہیں… اس
لئے کوئی نئی بحث نہ چھڑ جائے… بہرحال زمین بہت چھوٹی، انسان بہت کمزور اور دنیا کی
زندگی دھوکے اورفریب کی جگہ ہے… قرآن پاک دل کی آنکھیں کھولتا ہے یہ آنکھیں
کُھل جائیں تو عجیب عجیب مناظر انسان کو دکھائی دیتے ہیں… ایک مظلوم شخص محاصرے میں
ہے… چالیس دن سے پانی تک بند ہے… باہر زور آورلوگوں کا غلبہ ہے وہ خود کو حق پرست
سمجھتے ہیں… اور بالآخر وہ شخص قتل کر دیا گیا… جس کے احسانات تلے پوری امت دبی
ہوئی تھی… سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا قصہ پڑھنا اور سننا بہت دل
گُردے کا کام ہے… مگر دل والوں کی آنکھوں نے انہیں مسکراتے ہوئے ’’جنت‘‘ کی طرف
پرواز میں دیکھا… اور اُن کے زور آور قاتلوں کو… جہنم کی طرف لڑھکتے دیکھا…
فتنہ بے نقاب
کچھ دن پہلے تک
سوات سے اٹھنے والا سولہ سالہ فتنہ… پورے ملک میں مقبول اور محبوب تھا… کوئی کالم
نگار یا قلمکار اس کی ہمت نہیں رکھتا تھا کہ اس فتنہ کے بارے کھلم کھلا لکھے یا
بولے… گویا کہ پورا ملک اس زہریلے فتنے کے سامنے بے بس نظر آرہا تھا… دوسری طرف
حوصلہ ایسا بڑھا کہ وہ ’’وزیراعظم‘‘ بننے کے اعلانات کرنے لگی… مگر اب الحمدﷲ چند
دن سے اس فتنے کے خلاف ہر طرف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں… اور بڑے عجیب
سؤالات بھی سر اٹھا رہے ہیں… جھوٹ اور ملال سے بھری ہوئی اُس کی کتاب کس نے لکھی؟…
کوئی کہتا ہے اُس کے باپ نے… اور کوئی کہتا ہے کرسٹینا لیمب نے… اور پھر بعض لوگوں
کی یہ تحقیق( و اللہ اعلم) کہ جو اُس کا باپ بنا ہوا ہے وہ حقیقی باپ نہیں… اور یہ
لڑکی دراصل پولینڈ سے لاکر یہاں اُگائی گئی ہے… ملعون سلمان رشدی کی وکالت… اور
پاکستان پر تابڑ توڑ حملے… خلاصہ یہ کہ… الحمدﷲ، فتنہ بے نقاب ہو گیا ہے… اور اب
ہر دن اُس کے زوال میں اضافہ ہو گا… اور وزیراعظم بننے کا خواب… ان شاء اللہ ایک
ڈراؤنا خیال بن کر رہ جائے گا…
مقبول ترین نام
ایک تازہ سروے کے
مطابق اس وقت دنیا کا سب سے مقبول ترین
نام ’’محمد‘‘ ہے… مقبول ترین کا مطلب یہ ہے
کہ اس وقت دنیا میں یہ نام سب سے زیادہ رکھا جارہا ہے… اب تک’’محمد‘‘ نام کے رجسٹر ہونے والے
افراد کی تعداد… ماشاء اللہ … پندرہ کروڑ
سے زائد ہو چکی ہے… یعنی دنیا کے کسی بڑے ملک کی پوری آبادی کے برابر… سروے کرنے
والوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ… پندرہ کروڑ کی یہ تعداد حتمی نہیں ہے بلکہ…
’’محمد‘‘ نام کے افراد کی تعداد پندرہ کروڑ سے بہت زیادہ ہے… مگر کئی وجوہات کی
وجہ سے سب کو رجسٹر کرنا ممکن نہیںہے… دیکھا آپ نے کتنی اچھی خبر ہے…آئیے اپنے
آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر دل
کی محبت سے درود پڑھ لیں…
صلی
اللہ علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ وسلم
یاد رکھیں’’محمد‘‘
جب حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا
اسم گرامی ہو گا تو جب پڑھیں یا سنیں تو درود شریف پڑھیں… لیکن جب’’محمد‘‘ کسی اور
مسلمان کا نام ہوگا تو اس وقت یہ حکم نہیں ہے… الحمد ﷲ ’’عشق محمد صلی اللہ علیہ
وسلم ‘‘ کی شمع خوب دمک رہی ہے اور مسلمان
اپنے بیٹوں کا نام بڑے فخر اور بڑی سعادت سے ’’محمد‘‘ رکھ رہے ہیں… اور وہ جو حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخیاں
کر کے خوش تھے اب انہیں ہر طرف… محمد، محمد، محمد نام کے مسلمان نظر آرہے ہیں… جو
انہیں بتا رہے ہیں کہ تمہاری گستاخیوں سے کچھ نہیں بگڑا… بلکہ اُن کی محبت دلوں میں
اور زیادہ بڑھ گئی ہے… اب تم اپنے غم اور غیظ میں مرجاؤ… وہ مسلمان جو اپنے بیٹے
کا نام’’محمد‘‘ رکھ چکے ہیں… اور وہ جو آئندہ اس کی تمنا رکھتے ہیں… وہ اپنے
’’محمد‘‘ کو… حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاسچا اور متبع غلام بنانے کے لئے بہت دعاء اور
محنت کریں اور اس نام مبارک کے… ادب کو حتی الوسع ملحوظ رکھیں…
بڑی شان والا ہے
نام محمد
صلی
اللہ علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ وسلم … صلی اللہ علیہ وسلم
مفید نسخہ
اللہ
تعالیٰ تمام بیمار مسلمانوں کو’’شفاء
کاملہ‘‘ عطاء فرمائے… اور ہر طرح کے شرور و امراض سے امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے…
صبح شام کی مسنون دعاؤں اور تعوّذات کا اہتمام کریں… آج کل’’مچھر‘‘ خاص طور
سے’’ڈینگی‘‘ ایک ’’وبال‘‘ کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں… ان دنوں تازہ پودینہ ہر
جگہ آسانی سے مل جاتا ہے… آپ سبز پودینے کی چند گڈیاں لیکر اپنے کمرے میں مختلف
جگہوں میں رکھ دیں… خاص طور پر اپنے تکیہ کے قریب… ان شاء اللہ مچھر اور ڈینگی دونوں بھاگ جائیں گے… پودینہ جسے
عربی میں’’ النعناع‘‘ کہتے ہیں بڑی تأثیر والا پودا ہے… محبوب صلی اللہ علیہ وسلم
کے شہر مدینہ منورہ میں کھجور کے بعد پودینہ
بڑی کثرت سے پیدا ہوتا ہے… مچھر وغیرہ حشرات سبز پودوںپر زیادہ آتے ہیں مگر پودینہ
سے یہ دور بھاگتے ہیں… پودینہ کھانا اور اس کا رس پینا بھی کئی امراض کا علاج ہے…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ ال اللہ ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللھم صل علٰی سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
معطّر نصیحت
اللہ تعالیٰ کے
فضل کو محسوس کریں… ایک معطر اور مفید نصیحت…
افضل عمل کی بحث…
کون سا عمل سب سے افضل ہے؟…
ایک مفیدِ عام علمی
نکتہ…جہاد کے لیے والدین کی اجازت…
ایک غلط فہمی کا
ازالہ…جہاد کی دعوت مثبت انداز میں دیں…
تنقید سے اجتناب…دین
کے احکام کو آپس میں نہ ٹکرائیں…
ایک غلط طرز عمل کی
اصلاح… انسان کی خواہشات کا حال…
دو چیزیں انسان کو
تباہ کردیتی ہیں: ناشکری اور عجب…
سیّدنا یوسف علیہ السلام کا قید میں بھی شکر… ایک سبق آموز نکتہ…
ایک دیوانے کا
عبرت انگیز واقعہ… عجیب دعاء…
عجب کی تباہ کاریاں
اور اس سے بچنے کا طریقہ…
معطّر نصیحت
اللہ
تعالیٰ ہر عیب سے، ہر کمزوری سے اور ہر ظلم سے پاک ہے:
سبحان ﷲ وبحمدہ
سبحان ﷲ العظیم
ایک شخص نے ایک
بزرگ سے پوچھا: اس وقت وہ سب سے افضل عمل کونسا ہے جو میں اللہ تعالیٰ کی رضاء کیلئے کر سکتا ہوں؟
ارشاد فرمایا:
اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے فضل کو محسوس کریں…
سبحان ﷲ وبحمدہ
سبحان ﷲ العظیم
افضل عمل کی بحث
بھی بڑی عجیب ہے… نماز سب سے افضل عمل ہے یا جہاد فی سبیل اللہ ؟ علمی طورپر اس کی تحقیق کرنا بہت اچھا
ہے… احادیث مبارکہ کو پڑھنے، پڑھانے، سننے اور سنانے سے رحمت نازل ہوتی ہے اور
گناہ معاف ہوتے ہیں… روزآنہ مدینہ منورہ کے ساتھ اپنے رابطے کو تازہ اور مضبوط
کرنے کیلئے… کچھ احادیث مبارکہ پڑھا کریں، سنا اور سنایاکریں… اور پورے یقین کے
ساتھ یہ سمجھا کریں کہ… رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خطاب فرما رہے ہیں… نماز سب سے افضل عمل ہے یا جہاد فی سبیل اللہ ؟ دونوں ہو سکتے ہیں… یہ بحث دراصل ہر شخص
کے ذاتی حالات سے تعلق رکھتی ہے… ورنہ نماز بھی ضروری اور جہاد بھی ضروری… کوئی دن
رات نماز ادا کرے مگر جب جہاد فرض ہو جائے تو اُسے جہاد میں بھی جانا ہوگا… اور
کوئی بہت اونچا جہاد کرے مگر جب نماز کا وقت داخل ہوگا اُسے نماز ادا کرنا ہوگی…
کسی نے انٹرنیٹ کے ’’بحث‘‘ والے صفحہ پر وہ روایت لگا دی کہ… ایک صحابی کو رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد میں جانے کی
اجازت نہیں دی بلکہ انہیں حکم دیا کہ اپنے والدین کی خدمت کریں… ایک دوسری روایت میں
اپنی والدہ کی خدمت کریں… اسی صفحہ پر ایک عالم دین نے ایک سؤال لکھ کر لگا دیا…
وہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو جہاد پر نکلے کیا اُن میں سے کسی کے والدین
زندہ نہیں تھے؟… جہاد پر نکلتے وقت جب رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری چھانٹی فرماتے تو اس وقت کبھی یہ اعلان نہیں
ہوا کہ جس کے والدین زندہ ہیں وہ واپس چلا جائے… چھوٹے بچوں کو ضرور واپس بھیجا گیا…
معذور افراد کو بھی رخصت عطاء فرمائی گئی…مگر والدین کا معاملہ کبھی نہیں اٹھا…
اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے
والدین حیات تھے… معلوم ہوا کہ جن صحابی کو روکا گیا تھا اُن کے لئے والدین کی
خدمت ازحد ضروری ہوگی… کسی کسی کے ایسے حالات ہوجاتے ہیں… جہاد اور نماز دونوں فرض
ہیں… دونوں کے درمیان نہ کوئی ضد ہے نہ کوئی ٹکراؤ… بلکہ دونوں ایک دوسرے کے
معاون ہیں…اور ہم مجاہدین،الحمدﷲ لاکھوں افراد کو یہ بات یاد کراچکے ہیں کہ… نماز
کو اپنی زندگی کا سب سے اہم کام بنانا اور سمجھنا ہر مسلمان کے لئے لازم ہے… عرب
ممالک کے بعض اہل علم نے تو یہاں تک فتویٰ دے دیا ہے کہ…بے نمازی مرد کے ساتھ کسی
نمازی عورت کی شادی جائز ہی نہیں… اسی طرح بے نمازی عورت کے ساتھ کسی نمازی مرد کی
شادی جائز نہیں… یہ فتویٰ اگرچہ قابل نظر ہے لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ بے نمازی کے
ایمان کا کچھ پتا نہیں ہوتا کہ باقی ہے یا نہیں… ایک مؤمن اور کافر کے درمیان فرق
کرنے والی چیز’’نماز‘‘ ہے… دوسری طرف جہاد کے افضل ترین عمل ہونے پر… قرآن مجید میں
صریح آیات موجود ہیں اور کئی احادیث مبارکہ بھی…خلاصہ یہ کہ کوئی ٹکراؤ نہیں…
آپ نماز کو افضل مانیں یا جہاد کو… نماز ہر حال میں ادا کرنی ہے اور جہاد بھی
اسلام کا محکم اور قطعی فریضہ ہے… اس لئے دین کو اس طرح بیان نہ کریں کہ… اعمال کے
درمیان’’کُشتی‘‘ مقابلے اور ’’ریسلنگ‘‘ کا ماحول بن جائے… نماز اور جہاد تو فرائض
میں سے ہیں کسی سنت کی اہمیت کو بھی کم کرنا یا نعوذب اللہ اسے حقیر بنا کر پیش کرنا جائز نہیں ہے…
جہاد کو ہمیشہ اس
طرح سے بیان کریں کہ… کسی اور عمل پر تنقید نہ ہو… اور ایسی روایات کو خندہ پیشانی
سے قبول کریں جن میں بظاہر دیگر اعمال کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے… کیونکہ کسی
عمل کا’’ٹھیکیدار‘‘ بن جانا اچھا کام نہیں…اور کامیابی پورے دین میں ہے… اور پورے
دین میں نماز بھی ہے جہاد بھی ہے… امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے جہاد سے نیچے
والے درجے بھی ہیں… یعنی گناہ کو زبان سے روکنا… دل میں بُرا جاننا وغیرہ… وہ شخص
جس نے کسی بزرگ سے پوچھا کہ… اس وقت میرے
لئے سب سے افضل عمل کونسا ہے؟… اُس کے حالات اس قسم کے ہوں گے کہ طبیعت
پر’’ناشکری‘‘ کا غلبہ ہوگا… اُس کا دل اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتا رہتا ہوگا… وہ خود کو دنیا
کا سب سے بڑا مصیبت زدہ انسان سمجھتا ہوگا…دراصل انسان کی اس دنیا کے بارے میں
خواہشات جتنی زیادہ ہوتی ہیں… وہ اسی قدر ناشکرا ہوتا چلا جاتا ہے… وہ چاہتا ہے کہ
بس سب کچھ اس کو یہاں مل جائے… وہ نیکی بھی اس لئے کرتاہے کہ دنیا اچھی ہو جائے…
اب آپ بتائیں! بھلا دنیا میں بھی کسی کی سب خواہشات پوری ہو سکتی ہیں؟… ایک شخص
رو رہا ہے کہ روٹی نہیں… دوسرا رو رہا ہے کہ گاڑی نہیں… تیسرا رو رہا ہے کہ بلڈنگ
نہیں… کوئی رو رہا ہے کہ بہت ناقدری ہے کوئی پوچھتا نہیں ہے… دوسرا رو رہا ہے کہ
ہر کوئی بس میرے پیچھے پڑا ہے اور مجھ سے مانگ رہا ہے، اب کس کس کو دوں؟… کوئی رو
رہا ہے کہ اولاد نافرمان ہے …اور کوئی رو رہا ہے کہ اولاد نہیں ہے… اور کوئی رو
رہا ہے کہ اولاد توٹھیک ہے مگراُن کا کام دھندا نہیں لگ رہا… اورکوئی رو رہا ہے کہ
اولاد تو خوش ہے مگر پوتوں اورنواسوں کی پریشانی ہے…مسجد کے ایک کونے میں ایک شخص
مانگ رہا ہے… یا اللہ پچاس روپے مل جائیں تو کام بن جائے… دوسرا سر
جھکائے پچاس ہزار کی درخواست کر رہا ہے… تیسرا پیچھے بیٹھا ہوا التجا کر رہا
ہے یا اللہ ! صرف پانچ لاکھ دے دیں… آپ
کے خزانوں میں کیا کمی… اور چوتھا سجدے میں کہہ رہا ہے یا اللہ ساتھ والی دوکان بک رہی ہے صرف پانچ کروڑ کی ہے…
مل جائے تو میرے بیٹے کا مسئلہ حل ہو جائے… دعاء مانگنے پر اعتراض نہیں ، دعاء خوب
مانگنی چاہئے، جو دعاء میں اللہ تعالیٰ سے حلال پیسے مانگتے ہیں بہت اچھا کرتے ہیں
ان کی مرضی جتنے بھی مانگیں… یہاں عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسانی خواہشات اور
ضروریات کی کوئی حد نہیں ہے…دنیا دھوکے، حرص اور فنا کی جگہ ہے یہاں صرف وہی خوش
رہتا ہے جو اپنی دنیوی خواہشات کو کم اور محدود کر لے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہوجائے… سؤال کرنے
والا شخص’’ناشکری‘‘ کے مرض میں مبتلا ہوگا… اس لئے بزرگ نے اسے یہ معطر نصیحت
فرمائی کہ… سب سے افضل عمل یہ ہے کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے فضل کو محسوس کرو…
سبحان ﷲ وبحمدہ
سبحان ﷲ العظیم
دو چیزیں انسان کو
بُری طرح مار دیتی ہیں…ایک ناشکری اور دوسرا عُجب… ناشکری کا علاج بھی یہی ہے کہ
اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے فضل کو محسوس کرو… جب اپنی طرح طرح کی
مصیبتیں اور پریشانیاں یاد آنے لگیں کہ دیکھو! تم کتنی تکلیف میں ہو… شیطان ایک
پوری سی ڈی دماغ میںچلا دیتا ہے اور دل غم سے پگھلنے لگتا ہے… فلاں نے تمہارے ساتھ
یہ کیا … فلاںمسئلے میں تم نے کتنی دعاء مانگی ذرا بھی قبول نہ ہوئی… فلاں کو دیکھو
کتنے مزے اور آرام میں ہے اور تم کتنی پریشانی
میں ہو… ایسے وقت میں شیطان کی یہ ڈاکومنٹری… ایک ڈاکو کی طرح دل سے ایمان کو چھینتی
ہے… اور انسان اپنے رحیم اور کریم رب سے بھی نعوذ ب اللہ بدگمان ہونے لگتا ہے کہ… کیا ملتا ہے عبادت سے؟کیا
ملتا ہے دعاء میں؟ اس کا علاج یہی ہے کہ جلدی سے شیطانی’’سی ڈی‘‘ بند کریں اور یاد
کریں کہ مجھ پر اس وقت اور پہلے اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل جاری ہے… میرے کیسے کیسے
گناہ چھپا دیئے گئے… صرف وہی ظاہر ہو جاتے تو میرا کیا بنتا؟… بہت سے لوگوں کے ایسے گناہ بھی اللہ تعالیٰ نے چھپا دیئے اور اُن پر توبہ کی توفیق
عطاء فرما دی کہ… اگر وہ گناہ ظاہر ہو جاتے تو ان کی سزا موت تھی… ایمان کا مل
جانا، کلمہ طیبہ کا نصیب ہونا اور رزق کا ملنا… ابھی چند دن پہلے نائیجیریا سے خبر
آئی کہ ایک صحرا میں ایک سو افراد پیاس سے جاں بحق ہو گئے… بڑی درد ناک داستان تھی
کہ سفر کے دوران وہ کس طرح سے پانی کے ایک گھونٹ کو ترستے رہے اور ایک دوسرے کے
سامنے پیاس میں گُھل کر مرتے رہے…اگر ہمیں اس وقت پانی میسر ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے… حضرت سیدنا یوسف
علیہ السلام جیل میں بیٹھے تھے… اپنے
خاندان سے دور، طرح طرح کی آزمائشوں… اور تنہائیوں میں… مگروہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے فضل کو محسوس فرما رہے تھے:
ذلک من فضل ﷲ علینا
کہ ہمارے پاس جو ایمان
موجود ہے یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے… مگر اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے… آج کے کئی ارب پتی
مالدار… کلمہ اور ایمان کی دولت سے محروم ہیں… کیا فائدہ ایسے اربوں ڈالر کا جو
جہنم کی آگ سے نہ بچا سکیں… ایک بار ایک مسجد میں ایک دیوانے کو دیکھا… معلوم ہوا
کہ مکمل دیوانہ ہے جسے ہمارے عرف میں پاگل کہتے ہیں… عجیب طریقے سے نماز ادا کر
رہا تھا… لوگ چلے گئے تو اس نے سر جھکا کر اپنی توتلی زبان میں کہا…
یا اللہ ! جہنم کی آگ سے بچا…
اُس کا یہ جملہ سن
کر جسم میں سنسنی دوڑ گئی اور آنسو ابلنے لگے کہ… جس کے لئے جہنم کی آگ ہے ہی نہیں
وہ اس سے بچنے کا اتنا درد اور اتنی فکر رکھتاہے… جبکہ ہم جو عقلمند اور مکلف
کہلاتے ہیں جہنم کی آگ سے کتنے بے فکر ہیں؟… دنیا کی حاجتیں مانگتے ہوئے بلک بلک
کر روتے ہیں… اپنی اولاد بیمار ہوجائے تو دعاء میں آنسو گراتے ہیں… مگر جہنم کی
آگ سے بچنے کی دعاء میں اب تک ہم نے کتنے آنسو خرچ کئے ہیں؟؟… جہنم کوئی مذاق تو
نہیں… ہمارا رحیم اور کریم مالک قرآن پاک میں بار بار اور جگہ جگہ جہنم کی آگ کی
شدّت کو بیان فرماتا ہے تاکہ ہم… اس سے بچنے کی فکر کریں…
اَللّٰھُمَّ
اَجِرْنَا مِنَ النَّار… سُبْحَانَ ﷲِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ ﷲِ الْعَظِیْم
دوسری خطرناک چیز’‘عجب‘‘
ہے… اپنے اچھے حالات کو اپنا کمال سمجھنا… اپنے اعمال پر فخر میں مبتلا ہونا… خود
کو دوسروں سے افضل سمجھنا… دوسروں کو حقیر سمجھ کر اُن پر طعنے بازی کرنا… اس کا
علاج بھی یہی ہے کہ انسان اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے فضل کو محسوس کرے… فضل وہ ہوتا ہے جو
کسی عمل کے بدلے میں نہیں ہوتا… بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی طرف سے بغیر کسی عمل کے بدلے میں جو
رحمت ملتی ہے… وہ اللہ تعالیٰ کا فضل کہلاتی ہے… چنانچہ جب بھی نظر اپنی
ذات، اپنے کمالات اور اپنے فضائل پر جانے لگے تو…انسان یہ سوچے کہ میرااس میں کچھ
کمال نہیں… یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملا ہے… پس مجھے فخر نہیں شکر
اداکرنا چاہئے…
سُبْحَانَ ﷲِ
وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ ﷲِ الْعَظِیْم
اَللّٰھُمَّ
اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ وَ رَحْمَتِک
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مستانہ نعرہ… اللہ
اکبر
بطل ِاسلام حضرت
مولانا جلال الدین حقانی مدظلہٗ کے سبق آموز حالات…
جوان بیٹے کی
شہادت پر خراجِ عقیدت کے پھول…
ہمارے مسائل کا
حل… م
ہمارے زخمی دلوں
کا مرہم… م
زندگی اور موت کو
آسان بنانے والا سبق… م
اللہ تعالیٰ کی
کبریائی کا استحضار اور اس کے فوائد…
حضرت حقانی کی یادیں…
سبق آموز مختصر واقعات…
علمی استحضار… عملی
قربانیاں…خاندان سے شہادتیں…
حکومت کی خیانتیں
اور حقانی صاحب کی استقامت…
سانحہ راولپنڈی…ملک میں فرقہ واریت
کی آگ بھڑکا
نے کے کھیل کا
اندوہ ناک باب… حکومت کو سدِباب کی نصیحت…
مستانہ نعرہ… اللہ
اکبر
اللہ اکبر … اللہ
تعالیٰ سب سے بڑا ہے …
جی
ہاں! ہمارے اُن غموں سے بھی بڑا ہے، جن غموں نے آج ہمارا خون چوس رکھا ہے… وہ ان
غموں کو مٹانے پر قادر ہے…اللہ اکبر…
اللہ تعالیٰ ہمارے
اُن مسائل سے بھی بڑا ہے ، جن مسائل نے ہماری کمر توڑ رکھی ہے… وہ اُن مسائل کو حل
فرمانے پر قادر ہے… یقین کی قوت کے ساتھ کہیں: اللہ اکبر…
اذان کا پہلا سبق:
اللہ اکبر ، اللہ
اکبر
نماز
کا پہلا سبق… اللہ اکبر
یہ سبق دل میں اُتر جائے تو زندگی بھی آسان ، مرنا بھی آسان اور مرنے
کے بعد کے مراحل بھی آسان … اور عبادت ایسی مزیدار کہ کیا کہنے اور دعاء میں ایسی
لذت کہ بیان سے باہر…
اللہ اکبر ، اللہ
اکبر
ہم نے اپنے دل میں
معلوم نہیں کن کن چیزوں کو بڑا بنا رکھا ہے… اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑا کہتے ہیں…مگر
دل سے بڑا نہیں سمجھتے…اس لیے نہ شوق سے عبادت اور نہ ذوق کے ساتھ دعاء … ہر فکر
بڑی ، ہر مسئلہ بڑا ، ہر آفت بڑی ، ہر دشمن بڑا…ہر دنیا پرست بڑا ، ہر افسر بڑا ،
ہر طاقتور بڑا…ہم نے اپنے دل پر اتنے سارے ’’بڑوں ‘‘ کو بٹھا رکھا ہے تو دل بے
چارہ وزن سے دب گیا ہے… وہ بوجھ سے لرز رہا ہے… وہ غموں سے چور چور ہے… آج جب
اذان کی آواز سنیں…
اللہ اکبر ، اللہ
اکبر
تو
پورے یقین کے ساتھ جواب دیں…
اللہ اکبر ، اللہ
اکبر
اور
پھر مسجد کی طرف لپک کر جائیں کہ میں تو بس اُسی کا بن کر رہوں گا… جو سب سے
طاقتور او ر عظیم ہے … نماز میں یہی خیال رہے کہ سب سے بڑے کے سامنے حاضری ہے اور
سجدے میں یہ خیال کہ…میں خوش نصیب اب اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہوں…اور جب دعاء کو
ہاتھ اُٹھائیں،تو ہر مسئلہ پیش کرتے وقت یقین کہ…اللہ تعالیٰ اس مسئلے سے بڑے ہیں…
اور وہ اسے حل کرنے پر قادر ہیں…
اللہ اکبر ، اللہ
اکبر ،لاالہ الا اللہ ، واللہ اکبر ،اللہ اکبر وللہ الحمد
اللہ تعالیٰ کی
عظمت اور کبریائی… کسی دلیل کی محتاج نہیں… ہمارے ہر طرف ایسے دلائل بکھرے پڑے ہیں،
جن کو دیکھ کر ہم مان سکتے ہیں کہ…
اللہ اکبر ، اللہ
اکبر
اللہ
تعالیٰ ہی سب سے بڑے ہیں… اور اصل طاقت اُنہی کی طاقت ہے…دراصل دنیا سے دل لگا کر
، ہر مسئلے کو بڑا سمجھ کر اور اُسے دل پر بٹھا کر ہمارے دل سخت ہو گئے ہیں… جو دل
دنیا سے جڑ جائے وہ سخت ہو جاتا ہے… اللہ تعالیٰ اُس دل میں نہیں آتے… اورجو دل
دنیا سے ٹوٹ جائے… ایسے ٹوٹے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا نور جگمگاتا ہے …
اللہ اکبر ، اللہ
اکبر
ہمارے دو رکے مثالی مجاہد… حضرت مولانا جلال الدین
حقانی نے اپنے تیسرے بیٹے کی شہادت کا غم بھی جھیل لیا… عصر حاضر کا قابل رشک جرنیل…
جلال الدین حقانی… جس کے ایک ایک سانس میں ایمان اور جہاد بستا ہے… انہوں نے سوویت
یونین کے خلاف جہاد لڑا… سوویت ریچھ اُس کا کچھ نہ بگاڑ سکا… کیونکہ ’’جلال الدین
‘‘ کے نزدیک اللہ سب سے بڑا ہے… یہ یقین اُس کی نسوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے…
سابقہ جہادی دور میں ہم اُنہیں کراچی لے گئے تھے، تاکہ اہل کراچی… ایک حقیقی مجاہد
کی زیارت سے فیض یاب ہوں… بنوری ٹاؤن کی جامع مسجد میں بہت بڑا جلسہ ہوا اور
’’حضرت حقانی‘‘ کا ایمان افروز خطاب…اور بھی کئی مقامات پر پُررونق اور بھرپور
اجتماعات ہوئے… کئی جلسوں سے خطاب کے بعد رات کو قیام گاہ تشریف لائے تو طلبہ کرام
نے گھیر لیا… طلبہ کے ساتھ بہت خوش ہوئے… کوئی اُن کے سر کی مالش کر رہا تھا تو
کوئی کندھے دبا رہا تھا… ایک طالبعلم نے اپنی ڈائری پیش کر دی کہ کچھ تحریر فرما دیں…
بہت خوشی سے قلم تھاما اور لکھ دیا:
ایمانکم جھادکم ، جھادکم ایمانکم
تمہارا ایمان،
تمہارا جہاد ہے اور تمہارا جہاد، تمہارا ایمان ہے۔
یعنی ایمان اور
جہاد لازم ملزوم ہیں… فرمایا:یہ روایت کنزالعمال میں موجود ہے… پھر کافی دیر تک
طلبہ کو احادیث سناتے رہے اور اُن سے احادیث سنتے رہے… سابقہ جہادی دور میں اُن کا
جہاد بہت زوردار تھا… وہ پکتیا، پکتیکا،غزنی،وردک اور میدان… ان پانچ صوبوں کے گویا
بادشاہ تھے… بہت سلیقے سے جہاد کرتے تھے اور بہت حکمت عملی سے جنگ لڑا کرتے تھے…
انہوں نے ہمیشہ اپنی عسکریت کا رخ ’’محاذی دشمن‘‘کی طرف رکھا اور باقی سب سے جوڑ
اور دوستی بنائی… اس طرح اپنے محاذ کی طرف مکمل یکسوئی اور اطمینان…یہ نہیں کہ
جہاں سے جذبات کا بادل گرجا ، اپنا محاذ چھوڑ کر اُس طرف لپک پڑے… اُن دنوں ہمارا
بھی افغانستان آنا جانا لگا رہتا تھا… آج کل جب اخبارات میں اُن کے بیٹے ’’نصیرالدین‘‘
کی شہادت کی خبریں نظر سے گذرتی ہیں تو… شیخ حقانی کے ساتھ گذرے ہوئے یادگار اور قیمتی
لمحات آنکھوں میں گھومنے لگتے ہیں… قربانی ہی قربانی اور محنت ہی محنت… جوانی اور
کہولت کے ایام محاذوں پر اور جہاد کو منظم کرنے پر صرف ہو گئے… اور اب بڑھاپا
’’روپوشی‘‘ کی ظاہری گھٹن میں گزر رہا ہے… اور ہر کچھ عرصے بعد ایک بیٹے کا خون
آلود جنازہ اُن کی ’’عزیمت‘‘ کو اور اونچا کر دیتا ہے… طالبان کے دورمیں وہ امارت
اسلامی کا حصہ رہے… اور اپنے مقام سے کافی چھوٹی وزارت کو انہوں نے قبول کر لیا…
آس پاس والوں نے بھڑکانے ،غیرت دلانے اور ماضی کے مقامات یاد دلانے کی بہت کوشش کی…
مگر ’’حضرت حقانی‘‘ نے اپنے جہاد کو اس فانی دنیا کے… فانی پروٹوکول کی چوکھٹ پر
ذبح نہ فرمایا… وہ خاموشی کے ساتھ ’’امارت اسلامیہ‘‘ کا حصہ بنے رہے… پھر جب امریکہ
اور نیٹو نے افغانستان پر حملہ کر دیا تو… کمانڈروں کی بڑی اونچی بولیاں لگیں… وہ
جو طالبان سے شاکی تھے اُن کو دل کی بھڑاس نکالنے… اور اس فانی دنیا میں اپنے
اَرمان پورا کرنے کا موقع مل گیا… ماضی کے بڑے بڑے مجاہد امریکی چادر کے نیچے جا بیٹھے…
کابل کے شاندار مکانات اور محلات سابقہ جہادی دور کے کمانڈروں سے بھر گئے… ’’حضرت
حقانی‘‘کو بھی بار بار پیش کش ہوئی… اُنکی طاقت اور اثرو رسوخ کے باعث وہ چاہتے تو
سیاف اور صبغت اللہ مجددی سے زیادہ قیمت پر بک جاتے… مگر انہوں نے اپنے عمل اور
جہاد کو… دنیا کی چند روزہ راحت پر قربان نہ کیا اور امریکہ کے خلاف جہاد کا اعلان
فرما دیا… جہاد کا یہ مرحلہ اُن کے لیے اس لیے مشکل تھا کہ… اُن کاسارا کام
پاکستان کے قبائلی علاقے سے چلتا تھا… میرانشاہ میں اُن کا ایک بڑاشاندار مدرسہ
’’منبع ا لعلوم‘‘قائم تھا… اور میرانشاہ کے مضافات میں اُن کے مضبوط ٹھکانے
تھے…پاکستان نے اس جنگ میں امریکہ کاساتھ دیا اور یوں بظاہر ’’حضرت حقانی‘‘ کے لیے
پاؤں رکھنے کی جگہ بھی نہ رہی… مگر…
اللہ اکبر ، اللہ
اکبر
اللہ سب سے بڑاہے
… آج بارہ سال کا عرصہ گذر چکا… حضرت حقانی کا جہاد جاری ہے… اور وہ بھی الحمدللہ
حیات ہیں… اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے سروں پر اُن کا سایہ تا دیر قائم رکھے… کسی نے
بتایا کہ مسلسل روپوشی اور تنگ مکانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا یہ شیر… مختلف اَمراض
کا شکار ہے… اللہ تعالیٰ اُنہیں صحت وعافیت عطاء فرمائے… پچھتر سال کی عمر میں یہ
جذبہ ، یہ عزیمت اور یہ قربانیاں… بے شک وہی دے سکتا ہے جس کے دل میں… اللّٰہ اکبر
کا سبق پختہ ہو… اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی دل میں ہو تو اُس کی خاطربیٹوں کی
قربانی بھی آسان… اُس کی خاطر اپنی آزادی کی قربانی بھی آسان… اور اُس کی خاطر
ساری دنیا سے ٹکرانا بھی آسان…
حضرت حقانی کے پیارے
لخت جگر… ذہین وجانباز نوجوان نصیرالدین حقانی کو… دیار غربت میں سرخ ’’شہادت‘‘
مبارک ہو… اللہ تعالیٰ مغفرت اور شہادت کا اعلیٰ مقام نصیب فرمائے… اور حضرت حقانی
کے لیے اس صدمے پر ’’تعزیت‘‘ اور اس ’’اعزاز‘‘ پر ہدیۂ تبریک ہے …
اللہ اکبر ، اللہ
اکبر ،لاالہ الا اللہ ، واللہ اکبر ،اللہ اکبر وللہ الحمد
حکومت پاکستان نے
امریکہ کو بڑا مان کر…اُس کے ہاتھوں میں اپنی گردن دے دی تو اب ہر دن اس ملک پر…نئی
مصیبت نازل ہوتی ہے…ابھی دو روز پہلے پیش آنے والے ’’سانحہ راولپنڈی ‘‘ کو ہی دیکھ
لیں… معلوم نہیں کہ فرقہ واریت کے خلاف منہ سے جھاگ نکال نکال کر…حضرات علماء کو
گالیاں دینے والے اب کیوں خاموش ہیں ؟… کس طرح سے ایک مسجد اور مدرسہ کی حرمت کو
روندا گیا…کس طرح سے قرآن پڑھنے والے معصوم بچوں کو ذبح کیا گیا…کس طرح سے مسجد
کے امام کو خون میں تڑپایا گیا… یقینا یہ دلوں کا وہ بغض ہے جو ایران ،عراق سے لے
کر شام تک پھن اٹھائے پھنکار رہا ہے…یہ فرقہ واریت نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں
کے خلاف کھلی جارحیت ہے…اسی لیے تو امریکہ نے بشارالاسد پر حملہ نہیں کیا…اسی لیے
تو ایران کے ایٹمی پروگرام کو پروان چڑھایا جا رہا ہے…اور زبانی دھمکیوں اور جمع
خرچ سے آگے کچھ معاملہ نہیں بڑھتا…راولپنڈی میں مدرسہ تعلیم القرآن میں جو کچھ
ہوا…اگر اس کا بروقت سدباب نہ کیا گیا…اور اس واقعہ کے مجرموں کو کیفرکردار تک نہ
پہنچایا گیا تو یہ آگ پورے ملک کو… جوکہ پہلے ہی جل رہا ہے ، مزید تباہی میں دھکیل
دے گی…مسلمانوں کے مسائل بہت زیادہ ہیں… مگر
اللہ اکبر ، اللہ
اکبر
اللہ
تعالیٰ ان مسائل کو حل فرمانے پر قادر ہے…مسلمانوں کی بے چارگی بہت زیادہ ہے… مگر
اللہ تعالیٰ نے ہر امتحان کے نیچے ایک خزانہ چھپا رکھاہے…عرب کہتے ہیں۔تحت کل محنٍۃ
منحۃ…
ہر آزمائش کے نیچے
انعام ہے… بس ہمت کے ساتھ آزمائش کی چٹان کو کھود ڈالو…نیچے خزانہ مل جائے گا…ہر
مسلمان اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط اور میٹھا بنائے…اللہ تعالیٰ پر یقین
اور حسن ظن رکھے…دنیا میں زیادہ جینے کا شوق دل سے نکالے…اور مایوسی کو ایک طرف پھینک
کر…دین کی خاطر اپنے حصے کا کام کر جائے اور یقین رکھے کہ…
اللہ
اکبر ، اللہ اکبر،لا الہ الاللہ
لا الہ الاللّٰہ ،
لا الہ الا للہ ،لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ
اللّٰھم صل علٰی سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الااللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
مومن مجاہد کی
کتاب
شہیدِ اسلام بھائی
محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ کی
کتاب کا
ابتدائی تعارف اور
انہیں خراج تحسین…
جیل خانے کی تاریخ…
’’سجن‘‘کے معنیٰ… قرآن مجید میں بیان کی گئی
’’سجن‘‘…
ظالم حکمرانوں کے
تین سہارے…
اسلام میں قید اور
جیل کا تصور… اسلام کا نظام جزاء وسزا …
دور حاضر کی جیلوں
کے لرزہ خیز احوال…
برصغیر کو برطانیہ
کا فراہم کردہ جیل نظام…
انسانیت کی بدترین
تذلیل…دہلی کی تہاڑ جیل…
دہلی… افضل شہید
کا مدفن…
مجاہدین کے قافلے
وہاں تک پہنچیں گے…ان شاء اللہ تعالیٰ
افضل شہید کی
کتاب…ابتدائی تأثرات
مومن مجاہد کی
کتاب
اللہ تعالیٰ تمام
مجاہدین،مہاجرین، اسیران اسلام کو… باعزت و عافیت رہائی عطا فرمائے…
سجن یا جیل
عربی میں اسے
’’سجن‘‘ کہتے ہیں اور انگریزی میں جیل اور اردو میں بھی جیل یا قید خانہ اور فارسی
میں زندان…یہ ایک عمارت ہوتی ہے،بہت پُراسرار…جہاں زندگی کو زنگ لگتا ہے،چلتی گھڑیاں
رک جاتی ہیں…جہاں لوھا پگھل جاتا ہے،ہڈیاں گل جاتی ہیں اور احساسات،بے حس ہونا
شروع ہو جاتے ہیں…یا اُن کی حسّاسیت مزید بڑھ جاتی ہے…قید خانے دنیا کی قبر ہوتے ہیں…ایسی
قبریں جہاں زندہ افراد کو دفن کر دیا جاتا ہے…اور وہ اس ہنستے بستے جہاں سے کٹ کر
ایک ایسی تنگ دنیا میں جا بستے ہیں…جہاں کے دستور بالکل الگ ہوتے ہیں…
ظالم حکومتوں کے تین
سہارے
دنیا میں ظلم کی
تاریخ بہت طویل ہے…ظلم جب حکمران بنا تو اس نے جیل بھی بنا ڈالی…بس یوں سمجھ لیں
کہ جب دنیا میں پہلا ظالم، حکمران بنا تو اسی دن جیل بھی ایجاد ہو گئی…ظالم حکمران
کو اپنی حکومت چلانے کے لئے تین سہارے درکار ہوتے ہیں…
١ فوج
یا پولیس یا یوں کہیں افرادی طاقت…
٢ ایسے
قید خانے جن میں پھانسی کا بھی انتظام ہو…
٣ اور
ایسی عدالتیں جو حاکم کے اشارے پر فیصلے کرتی ہوں…
بس یہ تین ہتھیار
ہاتھ میں ہوں تو حکومت چل جاتی ہے…عوام بھوکی ہو یا بیمار…کوئی مر رہا ہو یا جی
رہا ہو…ملک میں کوئی اچھا نظام ہو یا نہ ہو…خزانہ بھرا ہوا ہو یا خالی ہو…بس اتنا
مال ضروری ہے جس سے ان تین سہاروں کو پالا پوسا جا سکے…
تاریخ میں تلاش کیا
جائے تو شاید’’جیل‘‘ کے یوم ولادت کا کچھ پتا چل جائے…مگر قرآن مجید میں جس جیل
کا تذکرہ ہے وہ بھی بہت پرانی ہے…یہ مصر کی جیل تھی جس میں…حضرت سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے حضرت سیّدنا یوسف علیہ السلام کو قید کیا گیا تھا…اور وہ اس جیل (واللہ اعلم)
میں کم و بیش بارہ سال، نو سال یا آٹھ سال تک رہے…قرآ ن پاک نے یہ تذکرہ چھیڑا
ہے کیونکہ ’’جیلوں‘‘ نے قائم رہنا ہے اور کئی بے گناہوں نے جیلوں میں جانا ہے تو
انہیں طریقہ معلوم ہو جائے کہ…جیل میں اپنے ایمان،عقیدے اور جذبات کو…زنگ لگنے سے
کیسے بچانا ہے…جیل میں وقت کس طرح گزارنا ہے…اور جیل میں رہتے ہوئے قید کے برے
اثرات سے کس طرح بچنا ہے…سبحان اللہ!
جیل کی بدشکل
عمارت میں جب خوش شکل،حسین و جمیل یوسف پہنچے تو قیدیوں کو…جیل میں بھی حسن
پانے،حسن حاصل کرنے اور حسن بڑھانے کا طریقہ معلوم ہو گیا…
سبحان اللہ وبحمدہ
سبحان اللہ العظیم
اسلام اور جیل
اسلامی سزاؤں پر
غور کریں تو ان میں لمبی قید،طویل جیل اور عمر قید جیسے الفاظ نہیں ملتے…اسلام
چونکہ انسانوں کی تعمیر اور ترقی چاہتا ہے اور انسانیت کی قدر کرتا ہے اس لئے اس میں…انسانوں
کو ذلیل کرنے اور انسانوں کو حیوان بنانے والی’’قید‘‘ کا کوئی تصور نہیں…
قرآن مجید کی سورۃ
انفال نے ’’قیدیوں‘‘ کا معاملہ چھیڑا ہے…اور احادیث مبارکہ میں قیدیوں کے ساتھ حسن
سلوک کی تاکید ہے…لمبی قید اور مجرموں کی صحبت چونکہ انسانوں کو…مجرم بنا سکتی ہے
اس لئے اسلام فوری اور جلدی سزا دے کر ختم فرما دیتا ہے…اسلامی احکامات پر عمل کیا
جائے تو جرم بھی ختم ہو جاتا ہے اور مجرم بھی…مجرم یوں ختم ہوتا ہے کہ یا تو اسے
قصاص وغیرہ میں انصاف کے مطابق مار دیا جاتا ہے…یا ایسی سزا دی جاتی ہے جس سے اسے
تنبیہ ہو جاتی ہے…یوں وہ جیلوں میں لمبا عرصہ رہ کر مزید جرائم نہیں سیکھتا اور نہ
ہی اسکی اچھی صلاحیتیں زنگ آلود ہوتی ہیں…
آج کل کی جیلوں
کے لرزہ خیز حالات
آج کل ساری دنیا
جیلوں سے بھری پڑی ہے…اور ہر جیل قیدیوں سے بھری پڑی ہے… دُنیا کے کئی ملین افراد
اس وقت جیلوں میں ہیں…مگر جرائم ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتے…بلکہ جیسے جیسے جیلیں اور
قیدی بڑھتے جا رہے ہیں اسی قدر جرائم میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے…آج کے حکمران
اگر’’انسانیت‘‘ کے خیر خواہ ہوتے تو وہ ضرور اس نکتے پر غور کرتے کہ …جیلوں کے
موجودہ نظام سے انسانیت کو کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے…اور کتنا نقصان؟…
مگر کون غور
کرے…جمہوریت میں ہر کسی نے اپنی باری کے پانچ سال لوٹنے ہوتے ہیں…اپنے مخالفوں کو
جیلوں میں ڈالنا ہوتا ہے…اور اپنے لئے اگلے پانچ سال کی روزی روٹی کے پیسے جمع
کرنے ہوتے ہیں…ابھی چند دن پہلے مصر کے ایک ’’ڈاکٹرصاحب‘‘ نے عدالت میں ایسا بیان
پڑھا کہ جج زاروقطار رونے لگا…بیان طویل ہے…خلاصہ یہ کہ اخوان المسلمین سے تعلق
رکھنے والے ایک ڈاکٹر صاحب جو قرآن پاک کے حافظ ہیں آج کل جیل کاٹ رہے ہیں…بلا
وجہ،بلا سبب اور بے گناہ…انہیں عدالت لایا گیا تو انہوں نے وکیل کو روک کر خود بیان
شروع کر دیا…اس میں یہ بھی کہا کہ ہمارے سترہ سولہ سال کے بچوں کو جیلوں میں
مجرموں کے ساتھ رکھا گیا ہے…جہاں وہ سارا دن نشے،جرائم اور خباثت کے طریقے سنتے
اور سیکھتے ہیں…انہوں نے جب جیلوں کے حالات پر بات کی تو تمام کمرۂ عدالت سسکیوں
اورآنسوؤں سے بھیگنے لگا…اور جج بھی رو پڑا…
چند سال پہلے ایک
جماعت دینی تبلیغ کے لئے چین گئی…انہوں نے واپسی پر کارگذاری میں بتایا کہ ہم نے
وہاں بعض ایسے علماء اور بزرگوں کو دیکھا ہے وہ چند منٹ سیدھے نہیں بیٹھ سکتے…ہر
دو چار منٹ کے بعد زور دار جھرجھری لے کر رخ بدلتے ہیں اور کانپنے لگتے ہیں…معلوم
ہوا کہ ان میں سے کسی نے بیس سال اور کسی نے اس سے بھی زیادہ عرصہ جیلوں میں گزارا
ہے…جیلوں کے خوفناک حالات ان کے حواس پہ سوار ہیں…اچانک پیچھے سے کمر پر فوجی بوٹ
کا پڑنا…لمبی ٹھنڈی راتیں جاگ جاگ کر گزارنا …اور مسلسل تشدد اور بے یقینی نے ان
کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے…اب یہ زندہ اور آزاد ہیں مگر بہت مشکل زندگی گزار رہے
ہیں…قید سے تو یہ رہا ہو گئے مگر قید کے حالات اب تک ان پر مسلط ہیں…ساری دنیا
جانتی ہے کہ کئی بے گناہ لوگ چند دن کے لئے جیل جاتے ہیں اور پھر وہ ماہر مجرم بن
کر نکلتے ہیں…یا کسی مجرم گینگ کا مستقل حصہ بن جاتے ہیں…
غلاموں کی جیلیں
برطانیہ منحوس…زمین
کے جس حصے کا بھی حکمران بنا اسے ہر طرح سے برباد کر گیا…انگریز کسی قوم یا انسان
کا نام نہیں…بلکہ یہ ایک موذی،غلیظ،ناپاک اور ظالم وائرس ہے…جی ہاں! جرثومہ…بس
انکے رنگ گورے ہیں باقی کوئی چیز سفید نہیں…افریقہ سے لے کر ایشیا تک جس ملک کی بد
قسمتی سے یہ ’’وائرس‘‘وہاں کا حکمران ہوا…وہاں کے لوگوں کو ہر طرح کی اخلاقی پستی،رسوائی
اور جرائم میں ڈال آیا…برصغیر پاک و ہند پر بھی ڈیڑھ سو سال سے زائد عرصہ تک اس
’’وائرس‘‘ کا اٹیک رہا…آج کے کم عقل دانش ور برصغیر کے لوگوں کی پستی،بد نظمی پر
بات کرتے ہیں…اور اس کا حل یہ بتاتے ہیں کہ انگریزی تعلیم حاصل کی جائے…حالانکہ یہاں
کے لوگوں کی ہر گراوٹ کا سبب’’غلامی‘‘ ہے…ڈیڑھ سو سال تک ایک ناپاک جرثومے کی غلامی…چنانچہ
جو کوئی خود کو…قرآن پاک سے جوڑ کر اس ذہنی غلامی سے نجات پا لیتا ہے وہ خودبخود
ترقی اور کامیابی کی راہ پر چل پڑتا ہے…خیر چھوڑیں یہ ایک الگ اور طویل موضوع
ہے…بات جیلوں کی چل رہی تھی…انگریز نے اپنے محکوم ملکوں میں بڑی بڑی جیلیں تعمیر کیں
اور اپنے دور حکومت میں ان جیلوں کو آباد رکھا…انہوں نے ان جیلوں کے لئے انتہائی
ظالمانہ دستور،قانون اور مینوئل بنایا…انگریز نے خود تو ان جیلوں میں رہنا نہیں
تھا اور نہ ہی انگریزوں کو ڈالنا تھا…اس نے یہ جیلیں اپنے غلاموں، دشمنوں اور
محکوموں کے لئے بنائی تھیں تو ان جیلوں کا قانون اور نظام ایسا بنایا جو…انسانیت
کے سر کو شرم سے جھکا دیتا ہے…چکر چیف، نمبردار، چکی، اڑتی،پھانسی گھاٹ،معائنہ وغیرہ
غیر انسانی اصطلاحات انگریز کے زمانہ سے چل رہی ہیں…جب برصغیر آزاد ہوا تو
حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ جیل کے نظام کو بدل دیتے کیونکہ…اب یہاں انگریزوں کے
غلام نہیں بلکہ اپنے ملک کے باشندوں نے رہنا ہے…مگر مجال ہے کہ ایک قانون بھی بدلا
گیا ہو…آج بھی ایک سو دس سالہ پرانا نظام جیلوں میں…انسانیت کی تذلیل کر رہا
ہے…اور حکمران اس نظام کو مزید سخت کرتے جا رہے ہیں…ہمارے ملک میں جرائم کی کثرت کی
ایک بڑی وجہ…یہاں کی جیلیں اور ان جیلوں کا نظام ہے…
دہلی کی تہاڑ جیل
دلی انگریزوں کا
دارالحکومت تھا…یہ شہر ہمارے مسلمان مغل بادشاہوں نے آباد کیا تھا مگر آج دلی پر
مسلمانوں کی دشمن حکومت قائم ہے…دلی کے مضافات میں ایک قصبے کا نام تہاڑ ہے…اس میں
ایک بہت بڑی جیل ہے جسے’’تہاڑ جیل‘‘ کہا جاتا ہے…یہ جیل ہمارے پیارے بھائی محمد
افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ کا
’’مزار‘‘ ہے…انگریزوں نے جب ’’دلی‘‘ پر قبضہ کیا تو وہاں کے مسلمان حکمران’’بہادر
شاہ ظفر‘‘کو قید کر کے ’’رنگون‘‘ جلا وطن کر دیا…بہادر شاہ ظفر خوش شکل،خوش کلام،
خوش خوراک…اور قدرے نیک حکمران تھا…افسوس کہ وہ انگریزوں سے نہ لڑ سکا…کیونکہ
حکومت کی’’اجتماعیت‘‘ختم ہو چکی تھی…اور مسلمانوں کی ساری طاقت ’’اجتماعیت‘‘ میں
ہوتی ہے…جب الگ الگ جزیرے بن جائیں تو پھر مسلمانوں کے لشکر جھاگ کی طرح مٹتے چلے
جاتے ہیں…بہادر شاہ ظفر بہت اچھا شاعر تھا اور ’’داغ‘‘جیسے صاحب طرز’’استاذ‘‘ کا
شاعری میں شاگرد تھا…وہ برما کے شہر رنگون میں جلا وطنی کے دن اور راتیں کاٹتے وقت
’’دلی‘‘کو بہت یاد کرتا تھا…آپ نے وہ درد انگیز اشعار پڑھنے ہوں تو ’’دیوان ظفر‘‘
میں ملاحظہ فرما لیں…سنگدل انسان بھی پڑھے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں…
’’ظفر‘‘ کی بڑی تمنا تھی کہ کسی طرح ’’دلی‘‘
واپس مل جائے اور اگر دلی نہیں ملتا تو کم از کم وہاں ’’قبر‘‘ہی مل جائے…وہ کہتا
ہے ؎
کتنا ہے بدنصیب
ظفر قبر کے لئے
دو گز زمیں بھی نہ
مل سکی کوئے یار میں
مگر ہمارا بھائی
محمد افضل گورو…دلی میں دو گز زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا…اس میں بالکل واضح
اشارہ ہے کہ…دلی ان شاء اللہ مسلمانوں کو ضرور ملے گا…اور آج کے مجاہدین یا انکے
مجاہد بیٹے…ان شاء اللہ محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضر ہو کر …ان کی قبر کے سرہانے
’’فتح اسلام‘‘کا پرچم نصیب کریں گے…تب پیارا افضل…جو شہید ہے،زندہ ہے، بہت مسکرائے
گا…ہاں! بہت گہرا مسکرائے گا…
اے مجاہدو!… اپنے
بیٹوں کو مجاہد بنانا…اور انہیں دلی میں افضل گورو کا…جموں میں سجاد افغانی کا…اور
سری نگر میں غازی بابا کا ایڈریس اچھی طرح یاد کرا دینا…اور انہیں تاکید کرنا کہ فیض
آباد جا کر اپنے پیارے چچوں بروہی،پاملا،اور ابو طلحہ کو بھی سلام کہہ آئیں…
یہ ساری باتیں کیوں؟
آپ سوچتے ہوں گے
کہ آج سعدی فقیرکو جیلوں کے تذکرے کیوں یاد آ گئے؟…
بات یہ ہے کہ…میں
نے حال ہی میں پوری ایک رات اور ایک دن محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کے ساتھ گذارا ہے…مجھے خوشی ہوئی،رشک آیا،تسلی
ملی اور میرے دل نے کہا کہ…جیلیں جتنی بھیانک کیوں نہ ہوں…قید جتنی لمبی کیوں نہ
ہو…پھانسی کا پھندا جتنا سخت کیوں نہ ہو…یہ سب کسی مخلص،مومن مجاہد کا کچھ نہیں
بگاڑ سکتے…سبحان اللہ! کیسی دلکش اور جراتمندانہ کتاب لکھی ہے …ایمان کے انوارات
سے بھری ہوئی…یقین کے نور سے جگمگاتی ہوئی…دعوت جہاد کی کرنوں سے چمکتی ہوئی… اور
سکون و اطمینان کی خوشبو سے مہکتی ہوئی…
افضل بھائی! اللہ
تعالیٰ آپ کی روح کو اپنی عظیم شان کے مطابق جزائے خیر عطا فرمائے اور آپ کو
سابقین اولین مجاہدین کے ساتھ اپنے سچے قرب میں ٹھکانا عطا فرمائے… آمین یا ارحم
الراحمین
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول اللہ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا ﷲ محمد
رسول اللہ
٭٭٭
مختصر محبس نامہ
اسلام کے نظامِ
جزاء وسزا کی خوبیاں اور قیدیوں
کے لیے قید کو
بہتر بنانے کا بہترین نصاب…
اسلامی سزائیں
وحشت ناک یا غیر اسلامی سزائیں؟…
ایک چشم کشا تجزیہ…
اسلام میں پہلی جیل
کا قیام… دورِ فاروقی رضی اللہ عنہ …
دوسری جیل… سیّد
نا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا دور…
اسلام میں مسجد کا
مقام… مسجد تمام اعمال کے لیے ہے،کسی کی اجارہ داری نہیں…
ایک غلط طرز عمل کی
اصلاح…
حضرت عمربن
عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا دیوانی
قانون…
امام احمد بن حنبل
رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ…
خوفناک جیلوں کی
تاریخ…
جیل کی زندگی کو
بہتر اور کار آمد بنانے کا مختصر نصاب…
مختصر محبس نامہ
اللہ تعالیٰ مجھے
اور آپ سب کو…دنیا و آخرت کی رسوائی سے بچائے…
آج بھی’’جیل‘‘
اور قید خانے کی بات کرتے ہیں…یہ وہ موضوع ہے جو قرآن پاک نے اٹھایا ہے
اور’’قرآن مجید‘‘میں ’’ اَلسِّجْنْ‘‘ یعنی جیل کا لفظ چھ ٦ بار آیا ہے…
اس لئے کم از کم
چھ کالم اس موضوع پر لکھنے چاہئیں…فی الحال دو پر اکتفاء کرتے ہیں…کوشش ہو گی کہ
آج ان شاء اللہ یہ موضوع سمٹ جائے…
وحشت ناک سزائیں
یورپ کے دو ٹانگوں
والے حیوانات نے یہ شور مچا رکھا ہے کہ…اسلامی سزائیں وحشت ناک ہیں…جبکہ’’جیلوں‘‘کا
موجودہ نظام انسانی حقوق کے عین مطابق ہے…
استغفر اللّٰہ،
استغفر اللّٰہ، استغفر اللّٰہ
اب سنئے! ایک شخص
نے چوری کی…کیا چوری کرنا وحشت ناک عمل نہیں ہے؟
اسلامی حکم کے
مطابق اس شخص کو پکڑا گیا،چند دن الزام کی تحقیق کے لئے اسے ’’قید‘‘رکھا گیا،
الزام ثابت ہوا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا اور اسے چھوڑ دیا گیا…کیا یہ وحشت ناک
عمل ہے؟یہ شخص اپنے اس ہاتھ سے تو ضرور محروم ہوا جو ہاتھ ’’خائن‘‘ہو چکا تھا…ایسا
ہاتھ سلامت رہتا تو معلوم نہیں کتنے گھر اجاڑ دیتا،کتنے عزتم مندوں کو رسوا کر دیتا،
کتنی معصوم بیٹیوں کو بھکاری بنا دیتا…ہاتھ کٹ گیا خود اس کے لئے بھی عبرت کا
سامان ہوا اور دیکھنے والوں کے لئے بھی…اب کوئی چوری کرنے سے پہلے سو بار سوچے
گا…اور یہ شخص واپس اپنے بیوی بچوں میں آ گیا…ایک شرمندگی اس کے ساتھ ضرور لگی ہے
لیکن اگر وہ اپنی حالت بدل لے تو لوگ اس کے کٹے ہاتھ کو بھی چومیں…کتنے بڑے بڑے
گناہگاروں نے جب سچی توبہ کر لی تو مخلوق کے ’’محبوب‘‘بن گئے…اب یہ شخص اپنے گھر
والوں اور بچوں کی دیکھ بھال کر سکتا ہے…ان کی تعلیم و تربیت اور روزی کا بندوبست
کر سکتا ہے…اور یوں درجنوں افراد بے آسرا اور بے سہارا ہونے سے بچ گئے…
اب دوسرا منظر دیکھیں…اس
چور کو پکڑ لیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا…چار پانچ سال اس کا کیس ٹرائل ہو گا…یہ
چور اس دوران جیل میں کئی دیگر افراد کو چوری کا فن سکھادے گا…مقدمہ لڑنے اور وکیلوں
کی فیس دینے کے لئے اس کے گھر والے یا تو زیور بیچیں گے یا مکان فروخت کریں گے یاکسی
جرم کے ذریعے پیسہ کمائیں گے…وہ آٹھ دس سال جیل میں گذارے گا…اس دوران اگر اس کے
گھر کا ماحول دینی اور خاندان کا نظام مستحکم نہیں تو اس کے زیر کفالت افراد طرح
طرح کے جرائم اور برائیوں میں مبتلا ہو جائیں گے…اس کے بچے معاشرے میں مجرم بن جائیں
گے…اور یوں چوری کے ایک جرم سے ہزار جرائم جیل کے اندر اور باہر جنم لیتے جائیں
گے…ہاں!جب دین فطرت سے ہٹ کر حیوانی طریقوں کو ’’انسانی حقوق‘‘ سمجھ لیا جائے تو یہی
نتیجہ نکلتا ہے اور آج ساری دنیا اسی طرح کے نتائج کو بھگت رہی ہے…اور چوری اتنی
عام ہو گئی کہ کئی حکمران تک چور بن گئے ہیں…کیا یہ سب کچھ خوفناک اور وحشت ناک نہیں
ہے؟…
پہلی جیل
ہمارے اسلامی مورخین
اور فقہاء کرام کے ہاں یہ مسئلہ زیر بحث رہا ہے کہ اسلام میں’’جیل‘‘کا تصور ہے یا
نہیں؟…اور اگر ہے تو کسی انسان کو زیادہ سے زیادہ کتنا عرصہ قید میں رکھا جا سکتا
ہے؟…سبحان اللہ! کیسا پیارا دین ہے… زیادہ سے زیادہ ایک دو ماہ یا جب بھی مجرم توبہ
کر لے…
ترمذی کی روایت
ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کسی الزام میں روک لیا اور پھر
اسے چھوڑ دیا…بس اتنی سی قید…علامہ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے’’فتح القدیر‘‘میں تحقیق فرمائی ہے کہ… رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں’’جیل‘‘نہیں تھی…سیّدنا حضرت عمر رضی
اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ میں صفوان بن امیہ
کا گھر چار ہزار درہم میں خرید کر اسے ’’قیدخانہ‘‘بنایا…کچھ دن کے لئے بعض جرائم
پر کسی انسان کو کسی جگہ روک لینا یا پابند کر دینا…یہ اسلام میں منع نہیں
ہے…مثلاً کسی پر الزام لگا…اب الزام کی جلد تحقیق تک اسے پابند کرنا…کسی نے قرضہ لیا
اور اب ادا نہیں کر رہا حالانکہ ادائیگی کی طاقت رکھتا ہے…ایسے شخص کو چند دن کے
لئے یا قرض کی ادائیگی تک ’’بند‘‘ کر دینا…کوئی شخص فتنہ فساد اور گمراہی پھیلا
رہا ہے،اسے چند دن بطور تنبیہ’’بند‘‘کر دینا…
حضرت عمر رضی اللہ
عنہ نے ایک شاعر’’حطیئۃ‘‘ کو اس کے غلط اشعار پر تنبیہ کے لئے ’’بند‘‘
فرما دیا…شاعر جی کا دماغ فوراً ٹھیک ہو گیا،چند اشعار لکھ کر حضرت کی خدمت میں بھیجے…مفہوم
یہ تھا کہ…حضرت ! اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے،ان چھوٹے چھوٹے چوزوں کا کیا بنے
گا،جن کے پاس نہ خوراک ہے،نہ پانی اور ان کا کھلانے پلانے والا بند کر دیا گیا ہے…یعنی
اس نے اپنے بچوں کا رونا رویا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے فوراً رہا فرما دیا…
دوسری جیل
کہتے ہیں کہ حضرت
علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے ایک جگہ بطور وقتی قید خانہ تعمیر کروائی…بالکل
کھلی،روشنی والی اور ہر طرح سے با سہولت…اور اس کا نام ’’النافع‘‘رکھا یعنی نفع
پہنچانے والی جگہ…کیونکہ مقصد قیدیوں کی اصلاح تھا…خلافت راشدہ کے دور میں بس یہی
نظام چلتا رہا…حضور پاک صلی اللہ علیہ
وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں…کسی کی وقتی قید کے لئے کوئی خاص
جگہ نہیں تھی…
بعض افراد کو مسجد
میں بند کر دیا جاتا تھا…اسلام میں ’’مسجد‘‘کا بہت وسیع نظام ہے…ایک بزرگ نے اس پر
بہت تفصیلی کتاب لکھی ہے…اسلام کا نظام مساجد از قلم مفتی ظفیر الدین صاحب… حیرت
ہے ان مسلمانوں پر جو مسجد میں اپنی مخصوص اجارہ داری قائم کر کے لوگوں کو عبادات
سے روکتے ہیں…درس شروع ہو گیا تو اب ہر کوئی ذکر چھوڑے،نماز بند کرے،تلاوت روک دے
اور درس میں حاضر ہو…کیا کوئی درس فرض کے درجے تک جا پہنچا ہے؟؟…تعلیم شروع ہوئی
تو اب نہ کوئی نماز پڑھے،نہ ذکر و تلاوت کرے…کیا تعلیم فرض ہے؟…یاد رکھیں! کسی بھی
عمل کی اہمیت اس کی شرعی حدود سے بڑھانا’’الحاد‘‘ اور بد دینی ہے…رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد نبوی شریف میں کوئی نماز میں
لگا رہتا،کوئی ذکر میں گم ہوتا،کوئی تعلیم و تعلم کا حلقہ سجاتا اور کوئی تلاوت میں
مست رہتا…کوئی بھی کسی کو نہیں روکتا تھا…اور مسجد کی شان یہی ہے کہ اس میں جہادی
تشکیلات سمیت یہ تمام اعمال زندہ رہیں…کسی پانچ وقت کے پختہ نمازی کو اس لئے حقیر
سمجھنا یا طعنہ زنی کا نشان بنانا کہ وہ ’’تعلیم‘‘میں نہیں بیٹھتا…یہ خود ایک
خطرناک جرم ہے…اور ایسا کرنے والے لوگ’’مساجد‘‘ پر ظلم کرتے ہیں…مسجد اللہ تعالیٰ
کا گھر ہے اور مساجد پر ظلم کرنا بہت ہی برا عمل ہے…آپ درس دیتے ہیں،یا تعلیم
کراتے ہیں تو بہت اچھا…آپ لوگوں کو مثبت ترغیب دیں کہ وہ آپ کے ساتھ بیٹھیں… کوئی
نہیں بیٹھتا اور دوسری عبادات میں لگا رہتا ہے تو آپ اسے تنگ نہ کریں اور نہ ہی
اسے اپنے سے کم تر سمجھیں… یاد رکھیں اگر آپ کی ناجائز شدت کی وجہ سے کوئی ایک
شخص بھی مسجد سے محروم ہوا تو یہ جرم آپ کے سارے نیک اعمال کو کھانے کے لئے کافی
ہے…اسی طرح آپ مسجد میں کوئی ایسا عمل نہ کریں جس سے نمازیوںکو تکلیف ہو یا ان کی
نمازوں میں خلل ہو…تلاوت آہستہ آواز سے کریں…ذکر میں بھی آواز ایسی بلند نہ کریں
کہ نمازیوں کی نماز خراب ہو…گندے اور بدبودار لباس کے ساتھ مسجد نہ جائیں…کوئی سخت
کراہیت آمیز بیماری لگی ہو…ایسی بیماری جس سے لوگ گھن کھاتے ہیں تو آپ گھر میں ہی
نماز ادا کر لیں مسجد نہ جائیں…آپ کا یہ عمل مسجد آباد کرنے کے ثواب میں لکھا
جائے گا،حالانکہ آپ نے نماز اپنے گھر میں ادا کی ہے…لیکن اگر اس بیماری کے ساتھ
مسجد گئے اور آپ کی وجہ سے کچھ لوگ مسجد آنا بند ہو گئے تو آپ نے مسجد کو ویران
کرنے والا عمل کر ڈالا…بھائیو! مساجد سے دل جوڑو،مساجد سے رشتہ بناؤ،مساجد سے
محبت کرو،مساجد کو آباد کرو اور مساجد کی ہر طرح سے خدمت کرو…عارضی قیدیوں کو
رکھنے کا ایک طریقہ تو یہی تھا کہ مساجد میں رکھ لیا جاتا تھا…دوسرا طریقہ گھروں کی
دہلیز میں رکھنے کا تھا…اس زمانے گھر کے دروازے اور صحن کے درمیان کچھ جگہ ہوتی تھی
اسے ’’دہلیز‘‘ کہتے تھے…تیسرا طریقہ اپنے گھر میں نظربندی کا تھا جس کا تذکرہ سورۃ
النساء میں موجود ہے…اور ایک طریقہ ترسیم کا تھا…اس میں دائرہ بنایا جاتا تھا…اور
ایک طریقہ لزوم کا تھا کہ حقدار کو مسلسل اس کے پیچھے لگا دیا جاتا تھا…یہ بس
مختصر خاکہ ہے تفصیل آپ تاریخ اور فقہ کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں…
اسلامی قید خانوں
کا اصل دستور…حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں بطور’’دیوانی قانون‘‘جاری کیا گیا…اس
کے چند اہم نکات یہ تھے…
١ قیدیوں
کو ان کے جرم کے مطابق الگ الگ رکھا جائے…مثلاً قرض ادا نہ کرنے والوں کو چوری
کرنے والوں کے ساتھ ہرگز خلط نہ کیا جائے۔
٢ تمام
قیدیوں کو گرمی اور سردی کی الگ غذا اور ان موسموں کے موافق لباس دیا جائے۔
٣ بیمار
قیدیوں کا خاص خیال رکھا جائے، ان کے علاج وغیرہ کی ترتیب رہے۔
٤ کسی
قیدی کو اس طرح سے نہ قید کیا جائے کہ اسے ’’اقامت صلوۃ‘‘میں دشواری یا تنگی ہو…وغیرہ
خوفناک جیلیں
آپ نے پڑھ لیا
کہ…اسلا م میں لمبی قید اور آج کل جیسی جیلوں کا کوئی تصور نہیں…بس کسی شخص کو
بہت تھوڑے اور محدود وقت کے لئے’’بند‘‘رکھا جا سکتا ہے، پہلے اس کے لئے کوئی جگہ
مخصوص نہیں تھی…مگر بعد میں افراد اور آبادی کے اضافے کی وجہ سے بعض جگہیں مخصوص
کی گئیں…ہم ایسی جگہوں کو ’’سجن‘‘کی جگہ’’محبس‘‘ کہہ سکتے ہیں…اور اسلام میں ان
جرائم کی تعداد بہت محدود ہے جن میں کسی کو تھوڑے عرصے کے لئے بھی بند رکھا جا
سکے…کسی نے کل تین جرائم لکھے ہیں اور کسی نے پانچ سات…حضرت امام احمد بن حنبل
رحمۃ اللہ علیہ سے بعض مجرموں کو قید کرنے
کی اجازت کا فتوی مانگا گیا تو انکار فرما دیا…لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا: ان
کے گھروں میں ان کی بہنیں اور بیٹیاں ہیں…
یہ تو ہے اصل
اسلام…لیکن خود کو مسلمان کہنے والے بعض حکمرانوں نے بڑی خوفناک جیلیں بنائیں…حجاج
بن یوسف کے مظالم میں سے ایک ظلم اس کی وہ’’جیل‘‘ بھی ہے جس میں وہ ہزاروں
مسلمانوں کو بند رکھتا تھا اور ان قیدیوں کی تسبیح اور آہ و بکا سے پورا شہر
لرزتا تھا…مصر پر جب رافضیوں کے فرقے’’فاطمیہ‘‘کی حکومت آئی تو انہوں نے بڑی دہشت
ناک جیلیں بنائیں لوگ ان جیلوں کو ’’سرخ جہنم‘‘کہتے تھے…گوانتاناموبے اور ابو غریب
جیسی…وہاں قیدیوں کو بڑے دردناک حالات میں رکھا جاتا تھا اور ان سے سخت مشقت لی
جاتی تھی…شام میں بشار الاسد نے آج کل ایسی ہی جیلیں قائم کر رکھی ہیں…
قصہ مختصر
یہ سب ہوئی عام
باتیں…اصل یہ کہ ہم میں سے ہر ایک کے لئے ان تفصیلات میں کیا سبق ہے؟… لیجیے ایک
مختصر نصاب:
١ ہم
پر لازم ہے کہ ہم دنیا بھر میں موجود جیلوں کے موجودہ ’’غیر انسانی‘‘نظام سے نفرت
کریں…گناہ اور برائی سے نفرت کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔
٢ ہم
خصوصی طور پر اسیر مجاہدینِ اسلام کی باعزت رہائی کے لئے دعاء کو اپنے معمولات کا
حصہ بنائیں…کوئی دن ایسا نہ گزرے جس میں ہم نے’’اسیران اسلام‘‘کے لئے دعاء نہ کی
ہو…اسی طرح تمام بے گناہ قیدیوں کی رہائی کی دعاء بھی کرتے رہیں…اور اسیران اسلام
کی رہائی کے لئے…جہادی اور مالی طور پر جو کچھ کر سکتے ہوں کر گزریں…اس عظیم عمل
کے فضائل آپ… فضائل جہاد میں پڑھ سکتے ہیں…
٣ اسیرانِ
اسلام…اور مسلمان قیدیوں کے گھر والوں اور بچوں کا حرمت اور احترام کے ساتھ خیال
رکھیں…جس طرح کہ ہم اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں…آج اس بارے میں مسلمانوں میں بہت
کوتاہی پائی جاتی ہے۔
٤ ہم
جیل،ہتھکڑی اور کوڑوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کریں جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دعا ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ
اَعُوذُ بِکَ مِنَ السِّجْنِ وَالْقَیْدِ وَالسَّوْطِ
’’یا اللہ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں قید
خانے ،ہتھکڑی اور کوڑے سے‘‘
٥ ہم
جیل اور قید کا خوف اپنے دل میں نہ بٹھائیں…حضرت سیّدنا یوسف علیہ السلام نے جیل کاٹی،حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین نے قیدیں کاٹیں…امت کے ائمہ کرام جیلوں
میں بند رہے…ان سب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ فضل اور رحمت والا تھا…معلوم ہوا
کہ بعض اوقات یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا ایک رنگ ہوتا ہے کہ انسان جیل
چلا جائے…اس لئے جیل اور قید کے خوف سے دین کا کام چھوڑنا،جہاد فی سبیل اللہ سے
محروم ہونا یا حق کے بارے میں مداہنت اختیار کرنا درست نہیں…
٦ کبھی
جیل جانا پڑے تو’’حسنِ یوسف‘‘ سے روشنی لیں…حضرت سیّدنا یوسف علیہ السلام نے خود ’’جیل‘‘مانگی…کیونکہ گناہ اور بد دینی میں
مبتلا ہونے سے جیل جانا بہتر ہے…اور جیل میں دین کی دعوت کو انہوں نے اپنا اوڑھنا
بچھونا بنا لیا…
بس جیل کو خوبصورت
بنانے اور اپنی قید کو ’’اعتبارافزا‘‘بنانے کا ایک نکاتی نصاب ’’دین کی دعوت‘‘
ہے…جو یہ کر لے جیل اُس کے لئے نعمت…اور جو یہ نہ کرے جیل اُس کے لئے بڑی مصیبت…
سورۃ یوسف میں غور فرمائیں یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ میں آ جائے گا…ان شاء اللہ
٧ آپ
میں سے اللہ تعالیٰ کسی کو کبھی حکومت یا اقتدار دے تو اپنے زیر انتظام علاقے میں
جیلوں کے موجودہ غیر انسانی نظام کو ختم کرنے اور اسلام کا پاکیزہ نظام مقرر کرنے
کے اقدامات کرے…
اللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر،لا الہ الااللّٰہ
لا الہ الااللّٰہ
، لا الہ الااللّٰہ ،لا الہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علٰی سیّدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الااللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
مسنون علاج مہم
مسنون اور مفید ترین
علاج ’’الحجامۃ‘‘ کا تعارف…
اس کے لیے چلائی
گئی مہم کی اہمیت…
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم وحی الٰہی ہے…
طب نبوی عام طب نہیں…
قطعی اور یقینی علاج ہے…
’’الحجامۃ ‘‘ کا احیاء… ایک عظیم نعمت کی
واپسی…
عرب ممالک میں
’’الحجامۃ‘‘ کا فروغ اور علماء کی محنت…
ایک اماراتی
نوجوان کا لائق تحسین عمل…
خواتین کے لیے
حجامۃ…
’’الحجامۃ‘‘ جسم سے زہر اور زہریلے مادے
نکالنے والا علاج…
انسان کے جسم میں
زہر انڈیلنے والے شیاطین… ایک زبردست علمی نکتہ…
پاکستان میں حجامۃ
کو لانے والے حضرات…
حجامۃ کو آسان
اور سستا کرنے کی ضرورت…
اُجرتِ حجامہ کے
بارے میں ائمہ کا فرمان…
حجامۃ کیمپ لگانے
والوں کے لیے خصوصی تنبیہات…
مسنون علاج مہم
اللہ تعالیٰ امت
مسلمہ کو ہر ’’سنّت‘‘ اور ہر نعمت نصیب فرمائے… اور کسی سنّت اور نعمت سے محروم نہ
فرمائے… یاد رکھیں ہر سنت… بڑی نعمت ہے، بے حد خوشبو دار نعمت…
آج بات چلانی ہے
’’الحجامۃ‘‘ کی… ’’الحجامۃ‘‘ ایک علاج ہے، روحانی بھی اور جسمانی بھی… نفسیاتی بھی
اور قلبی بھی… یہ وہ مبارک علاج ہے جو سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا، بار بار کروایا، اسے پسند
فرمایا، اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس کا حکم فرمایا، اپنی اُمت کو اس کی ترغیب
دی… اور خود اس علاج کے فوائد کو بیان فرمایا…
اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں… ’’تمہیں جو کچھ رسول صلی اللہ
علیہ وسلم دیں اُسے لے لواور جس چیز سے
منع فرمائیں اُس سے رک جائو‘‘…
مَآ اٰتٰکُمُ
الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ…(سورۃ الحشر:۷)
ہمارے آقا صلی
اللہ علیہ وسلم نے ہمیں… علاج کے طور پر
’’الحجامۃ‘‘ عطا فرمایا اور بالکل واضح فرما دیا کہ یہ ہر بیماری کا علاج ہے… اور یہ
بھی فرما دیا کہ اس علاج میں برکت ہے اور یہ بھی کہ یہ علاج انسان کو زیادہ عقلمند
بناتا ہے… اُس کی عقل کو بڑھاتا ہے… ظاہر بات ہے رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں وہ ’’وحی‘‘ ہوتا
ہے… جی ہاں وحی الٰہی…
وَمَا یَنْطِقُ
عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی(النجم:۳۔۴)
اسی لیے زاد
المعاد میں لکھا ہے کہ… طبِ نبوی عام طب نہیں ہوتی بلکہ یہ طب قطعی اور طب الٰہی
ہوتی ہے…
’’حجامہ‘‘ کی عظیم الشان سنت آہستہ آہستہ
امت میں مٹتی چلی گئی… مسلمان غیروں کے غلام بنے تو اُن سے بہت سی نعمتیں ’’چھن‘‘
گئیںان نعمتوں میں ایک ’’الحجامہ‘‘ بھی تھی… اب الحمدللہ پھر امت مسلمہ جاگ رہی
ہے، ہر طرف مجاہدین اسلام کا مبارک خون چمک رہا ہے، مہک رہا ہے تو الحمدللہ بہت سی
نعمتیں واپس ملنا شروع ہو گئی ہیں… ان نعمتوں میں ایک ’’الحجامۃ‘‘ بھی ہے، جو
ماشاء اللہ اب بہت تیزی کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل رہی ہے… ہمارے ہاں! یہ علاج
ابھی تک اجنبی ہے اور اس کے ’’احیاء‘‘ کی محنت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے… لیکن
عرب ممالک میں یہ محنت اب ایک منظم تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہے… چند دن پہلے میں
نے ایک عرب خطیب صاحب کا ’’خطبہ جمعہ‘‘ پڑھا جو پورا … ’’الحجامہ‘‘ کے موضوع پر
تھا… ہمارے لوگوں نے ہر کسی کے لیے ایک الگ ’’شان‘‘ کا پنجرہ بنا رکھا ہے… کسی
عالم کو بازار میں خریداری کرتا دیکھیں تو کہتے ہیں… یہ علماء کی شان نہیں… کسی
مجاہد کو دین کا کوئی اور کام کرتا دیکھ لیں تو کئی دوسرے مجاہدین پکار اُٹھتے ہیں
کہ یہ کام مجاہدین کو نہیں جچتا حالانکہ ہم سب مسلمانوں کی بس ایک ہی شان ہے… اور
وہ ہے ’’محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی
غلامی‘‘… جس کو یہ شان نصیب ہے وہ شان والا ہے اور جس کو یہ نصیب نہیں وہ حقیقی
عزّت سے محروم ہے… ہمارے ہاں کوئی عالمِ دین اگرجمعہ کا خطبہ ’’الحجامہ‘‘ کے بارے
میں دے دے تو لوگ کیا کہیں گے؟… یقینا طرح طرح کی باتیں… کوئی کہے گا مسجد اور
منبر دین کی باتوں کے لیے ہوتے ہیں… ان باتوں کے لیے نہیں… کوئی مغرب زدہ جرثومہ
کہے گامولویوں کو ڈاکٹری کے معاملات میں منہ نہیں مارنا چاہیے… اور کوئی کہے گا
باتیں اگرچہ ٹھیک ہیں مگر علماء کی شان کے مطابق نہیں… آپ خود سوچیں کس قدر
’’جہالت‘‘ ہے… جو باتیں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کے ساتھ ارشاد فرمائیں… اُن باتوں کو
نقل کرنا کسی عالم یا مجاہد کی شان کے خلاف کس طرح ہوگیا؟… حجامہ کے بارے میں روایات
بخاری میں موجود ہیں، مسلم میں موجود ہیں… حدیث شریف کی ہر کتاب میں موجود ہیں…
عربوں میں چونکہ ’’الحجامہ‘‘ کا احیاء اب تیزی سے ہو رہا ہے تو وہاں اس موضوع پر
کتابیں اور رسائل بھی کثرت سے آنا شروع ہو گئے ہیں… وہاں بھی ابتداء میں کئی
علماء اس بارے میں ہچکچا رہے تھے… اور کئی تو مخالف بھی تھے… مگر جب انہوں نے احادیثِ
مبارکہ اور سیرت طیبہ میں غور کیا تو اُن کا سینہ کھلتا چلا گیا اور اب
’’الحجامہ‘‘ کے موضوع پر کئی عمدہ، علمی اور تحقیقی کتابیں سامنے آچکی ہیں… ایک
عالمِ دین نے حجامہ پر ۷۰
سے زائد احادیث کی تخریج کی ہے اور تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ ان میں سے چالیس سے
کچھ زائد احادیث سند کے اعتبار سے ’’صحیح‘‘ اور باقی تیس کے لگ بھگ ضعیف ہیں… ہم
مسلمانوں کے لیے ایک حدیثِ صحیح بھی کافی ہوتی ہے… جبکہ حجامہ پر چالیس سے زائد
احادیثِ صحیحہ کا ذخیرہ موجود ہے… دوسرے کچھ عرب علماء نے الحجامہ کو جدید سائنس
کے اصولوں پر پرکھا ہے اور اس بارے کئی اہم کتابیں اور رسائل لکھے ہیں… ظاہر بات
ہے کہ آج کل مسلمان اُن باتوں کی طرف جلدی متوجہ ہوتے ہیں جن میں سائنس کا حوالہ
دیا گیا ہو… ذہنی اور فکری غلامی اور مرعوبیت کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ … نعوذ
باللہ، نعوذباللہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم کے فرمان پر اتنا یقین نہیں
رکھتے… جتنا ایک سائنس دان کی بات پر رکھتے ہیں…
عرب ممالک میں’’الحجامہ‘‘
کے بارے میں بیداری اب اس حد تک بڑھ رہی ہے کہ ایک ’’اماراتی نوجوان‘‘ نے ’’موبائل
حجامہ ہسپتال‘‘ شروع کیا ہے… یہ ایک بڑی سی گاڑی ہے جسے اندر سے دو تین کمروں میں
تقسیم کرکے… ہر طرح کی سہولیات سے آراستہ کر دیا گیا ہے… یہ گاڑی مختلف شہروں اور
ریاستوں میں گھومتی رہتی ہے… اور اس میںتلاوت کی آواز کے دوران ’’الحجامہ‘‘ کیا
جاتا ہے… اسی طرح ایک خاتون ڈاکٹر نے حجامہ کلینک کھولا ہے اس میں خواتین کا علاج
ہوتا ہے… اسی کلینک سے ایک کتاب بھی جاری کی گئی ہے جس میں اُن خواتین نے اپنے
تأثرات کا اظہار کیا ہے جن کو… الحجامہ کی برکت سے بڑے بڑے موذی اور پرانے امراض
سے اللہ تعالیٰ نے شفاء عطاء فرمائی ہے… لیبیا کے شہر بن غازی میں ایک عجیب واقعہ
پیش آیا… ایک خاتون کا حجامہ کیا گیا تو ’’حجامہ کپ‘‘ میں خون کے ساتھ ایک بڑی سی
سوئی بھی نکلی… وہاں کے مسلمانوںنے اُس کپ اور سوئی کی تصویریں انٹرنیٹ پر لگا دی
ہیں… اور اس پر بہت ایمان افروز تبصرے لکھے ہیں… یہ اُن لوگوں کا جواب ہے جو یہ
کہتے ہیں کہ حجامہ تو کھال پر ہوتا ہے… جبکہ بیماریاں اندر دل، گردے وغیرہ میں ہوتی
ہیں… وہ شاید نہیں جانتے کہ انسان کا سارا بدن کھال کے ساتھ ٹانکا گیاہے، اور خون
پورے جسم میں دوڑتا ہے… کسی تالاب سے پانی نہ نکالا جائے تو چند روز بعد اُس میں
بدبو اور بیماری پیدا ہوجاتی ہے… کنویں سے پانی نہ نکالیں تو وہ سوکھ جاتا ہے… یہی
حال انسان کے بدن کا ہے اگر حجامہ کے ذریعہ فاسد اور زہریلا خون نہ نکالا جائے تو
جسم میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں… زہر کے لفظ سے ایک اور بات یاد
آگئی… ایک یہودی عورت نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کے گوشت میں زہر دیا… آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ اسی زہر سے شہید ہو گئے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لقمہ واپس تھوک دیا تھا مگر دہن مبارک میں
لقمہ لینے کی وجہ سے زہر کا کچھ اثر اند رپہنچ گیا… روایات میں آیا ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو جب اس زہر کی تکلیف
محسوس ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’حجامہ‘‘ کروا لیتے تھے… اس واقعہ سے دو باتیں
معلوم ہوئیں…
١ حجامہ
زہر خوری کا علاج ہے…
٢
یہودیوں کا کام زہر تقسیم کرنا اور انسانوں کو زہر دے کر مارنا ہے…
آج ہمارے ہر طرف
زہریلی غذائوں کا جال بچھا ہوا ہے… مکھیوں کی آلائش میں لٹکا ہوا گوشت… بیکری اور
جنک فوڈ کے زہر آلود تحفے اور سب سے بڑھ کر بوتلیں یعنی سافٹ ڈرنکس… کچھ عرصہ پہلے ایک تحقیق سامنے آئی کہ کوک، پیپسی
وغیرہ دنیا کا زہر نمبر ٧ ہیں… یعنی دھیما زہر جو آہستہ آہستہ اثر کرتا ہے، جسے
سلو پوائزن کہا جاتا ہے… یہ سارا زہریہودی کمپنیاں انسانوں میں بانٹتی ہیں… یہودی
کی فطرت اور خصلت سانپ کی طرح ’’زہریلی‘‘ ہوتی ہے… یہ نہ مسلمانوں کے دوست ہیں نہ
عیسائیوں کے… مگر عیسائیوں کو انہوں نے دوستی کا جھوٹا جھانسہ دے کر اپنے کام میں
لگایا ہوا ہے… دنیا کا کوئی ڈاکٹر، حکیم یا عقلمند شخص کوکا کولا اور پیپسی وغیرہ
کا ایک بھی ’’فائدہ‘‘ آج تک نہیں بتا سکا… ہاں! نقصانات سب بتاتے ہیں… مگر پیتے
بھی سب ہیں… اور یہ زہر رگوں میں جا کر بیماریوں کی شکل اختیار کرتا ہے… پھر آج
کل کی نام نہاد ترقی میں پانی بھی آلودہ، ہوا بھی آلودہ… ہر انسان روزانہ کئی
کلو زہریلا دھواں پینے پر مجبور ہے… زہریلی ہوا، زہریلا پانی، زہریلی بوتلیں… زہریلے
کھانے اور پھر زہر سے بھری ہوئی دوائیں… ایسے حالات میں ’’الحجامہ‘‘کتنی بڑی نعمت
ہے جو حتمی طور پر زہر کا علاج ہے… یہ خون اور جسم سے ہر زہر کو باہر نکال پھینکتا
ہے… اور انسان کو ہر طرح سے پاک اور صاف کر دیتا ہے… دمشق کے تیس ڈاکٹرحضرات نے کئی
سال تک ’’حجامہ‘‘ پر ریسرچ کی اور بالآخر یہی بتایا کہ… واقعی! یہ کینسر سے لے کر
گردے فیل ہونے تک کی ہر مہلک بیماری کا علاج ہے… یہ ڈاکٹر حضرات تو آج مشینوں پر
دیکھ کر کہہ رہے ہیں جبکہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی سمجھا دیا کہ الحجامہ ہر بیماری کا
علاج ہے… اگر اس کا اچھی طرح فائدہ لینا چاہتے ہو تو ہر قمری یعنی چاند والے مہینے
کی ۱۷،
۱۹ اور ۲۱ تاریخ کو حجامہ
کروا لو… روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ… حجامہ کے بعض مقامات حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اور دیگر فرشتوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم حجامہ ضرور کروایا کریں اور اپنی امت
کو بھی اس کا حکم دیں… ان روایات میں غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ
’’الحجامہ‘‘ صرف جسمانی علاج نہیں، بلکہ یہ روحانی اور نفسیاتی علاج بھی ہے… جادو،
جن، آسیب ان سب کا تعلق ’’عالمِ سفلی‘‘ سے ہے جبکہ ملائکہ ’’عالمِ علوی‘‘ یا
’’عالمِ ملکوت‘‘ کی مخلوق ہیں… انسان کوئی معمولی چیز نہیں… زمین پر اللہ تعالیٰ کا
خلیفہ ہے… ہر انسان کے ساتھ کئی کئی ملائکہ اور فرشتوں کی ڈیوٹی ہوتی ہے… اور
انسان کے تمام اقوال اور اعمال کے ساتھ بھی فرشتوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے… اور
انسان کی روح کا ’’کنٹرول ٹاور‘‘ عرش الٰہی کے نیچے ہے… اسی طرح شیاطین جو انسان
کے دشمن ہیں وہ بھی انسانی جسم اور انسانی روح پر قبضہ کرنے کی فکر میں رہتے ہیں…
اور انسانی خون میں دوڑتے رہتے ہیں تاکہ اس خون کو ناپاک، گندہ، شہوت سے آلودہ
بنا دیں… ملائکہ کا انسان کے ساتھ ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے… اور شیطانوں کا
انسان کے خون میں دوڑنا اور انسان پر مسلط ہونے کی کوشش کرنا اور انسان کے ساتھ ان
کا لگے رہنا بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے… تلاوت، درود شریف اور دیگر اذکار کے وقت
فرشتوں کا ہجوم انسان کے ہر طرف آجاتا ہے… جبکہ گانا اور موسیقی کے دوران شیاطین
ننگے ہو کر انسان کے گرد ناچتے ہیں اور اُن کے جسموں کی گندی لہریں انسان کے اندر
داخل ہوتی ہیں… حیرت ہے اُن لوگوں پر جو آج کل کمپیوٹر کے ’’جراثیم‘‘ تو مانتے ہیں
مگر فرشتوں کی پاکیزہ لہروں اور شیاطین کے ناپاک اثرات کا انکار کرتے ہیں… حجامہ میں
اللہ تعالیٰ نے جس طرح یہ تاثیر رکھی ہے کہ وہ گندے اور فاسد خون کو چوس لیتا ہے…
اسی طرح اس میں یہ تاثیر بھی ہے کہ وہ شیطانی اثرات سے آلودہ خون کو بھی چوس لیتا
ہے… اور یوں انسان کا بدن جادو ، سفلی، نظر اور آسیب وغیرہ کے اثرات سے پاک
ہوجاتاہے… ہمارے ہاں’’الحجامہ‘‘ ابھی نیا نیا آیا ہے… بہت سے لوگ حسد اور کئی لوگ
ناواقفیت کی وجہ سے مخالفت بھی کریں گے… ڈاکٹر حضرات میں سے کئی طیش میں بھی آئیں
گے… مگر الحمدللہ عمومی فضاء یہی بتا رہی ہے کہ ’’حجامہ‘‘ کی نعمت یہاں کے
مسلمانوں کو واپس ملنے کا فیصلہ ہو چکا ہے… وہ افراد جن کی عمر چالیس سال سے کم ہے
وہ اس بارے میں زیادہ خوش نصیب ہیں… وہ اگر کچھ عرصہ ہر چالیس دن بعد ’’حجامہ‘‘
کرواتے رہیں تو انشاء اللہ صحت کی عجیب نعمت دیکھیں گے… اور جن کی عمر چالیس سال
سے اُوپر ہے اُن کے لیے بھی ’’حجامہ‘‘ بے حد مفید ہے… ہمارا یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ
پاکستان میں ’’حجامہ‘‘ہم لائے ہیں… نہیں! یہ سعادت کچھ اور مسلمانوں نے حاصل کی،
اللہ تعالیٰ اُن کو جزائے خیر عطاء فرمائے… ہماری توجہ جب حجامہ کی طرف ہوئی تو ہم
نے اُنہی حضرات سے استفادہ کیا… مگر پاکستان میں حجامہ کو عام کرنے کا شرف اللہ
تعالیٰ نے ــ’’مجاہدینِ کرام‘‘ کو عطاء فرمایا ہے… مجاہدین کا یہ کام نہیں ہے… اور
نہ ہی کسی مجاہد کے لیے مناسب ہے کہ وہ مستقل جہاد چھوڑ کر اس کام میں خود کو لگا
دے… لیکن ایک سچے مجاہد کو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اتباع میں… ’’اشداء علیٰ الکفار‘‘ کے ساتھ
’’رحماء بینھم‘‘کا کردار بھی نبھانا ہوتا ہے… چنانچہ جہاد کے کام کے ساتھ ساتھ ایسے
کام بھی بعض اوقات شروع کر دئیے جاتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان میں
برکت ہو جاتی ہے اور جہاد کے کام کو مزید قوت مل جاتی ہے… ہم نے کوشش کی کہ…
’’حجامہ‘‘ کا تعارف کرائیں، صالح اور متقی افراد کو حجامہ کرنے پر لگائیں… اور
’’حجامہ‘‘ کو سستا رکھیں… اور مسلمانوں کو اپنے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ علاج پر لائیں یعنی اصل نیت ’’احیاء
سنت‘‘ اور خدمتِ امت کی تھی … کئی لوگوں نے ’’حجامہ‘‘ کو بہت مہنگا کر دیا ہے… وہ
ایک پوائنٹ کے دو سو، چھ سو اور ایک ہزار تک لیتے ہیں… اُن کی دلیل یہ ہے کہ جب تک
زیادہ پیسہ نہ نکالیں لوگوں پر علاج کا اثر نہیں ہوتا… یہ دلیل درست نہیں… حجامہ ایسی
چیز ہے جو اپنا اثر خود دکھاتی ہے… اس میں علاج باللّسان یعنی زبان سے فضائل بڑھا
چڑھا کر پیش نہیں کرنے پڑتے… بعض لوگ کہتے ہیں سنت کو سستا کرو تو لوگ قدر نہیں
کرتے… شکر ہے اُن حضرات کے ہاتھ مسواک کا کاروبار نہیں لگا ورنہ یہ ایک مسواک پانچ
سو سے پانچ ہزار کا بیچتے کہ اگر سستا بیچیں تو لوگ سنت کی قدر نہیں کریں گے… ارے
بھائیو! جو چیز انسان کے لیے قیمتی اور ضروری ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ نے یا مفت
رکھی ہے یا سستی جیسے ہوا اور پانی… اور جن چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی وہ مہنگی کر
دی جاتی ہیںجیسے سونا اور چاندی… دنیا کا ہر انسان ’’سنت‘‘ کا محتاج ہے… کیونکہ
’’سنت‘‘ انسانی فطرت کا نام ہے… اور سنت وہ طریقہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں
کو دیکھنا پسند فرماتے ہیں… دراصل کئی مسلمانوں کے اندر ایک دھوتی والا’’بنیا‘‘ بیٹھا
ہوتا ہے جو اُنہیں مہنگی سوداگری کے گُر سکھاتا رہتا ہے… سچی بات ہے کہ دین دار
لوگ مہنگائی پھیلاتے ہوئے بالکل اچھے نہیں لگتے… اور یہ بھی افسوس ناک ہے کہ آج دیندار
کہلانے والے لوگ عام دوکانداروں سے زیادہ مہنگائی پھیلاتے ہیں… ہائے کاش ہم میں سے
ہر شخص اپنے اندر چھپے ہوئے ’’بنیے‘‘ کو باہر نکال دے… اُسے باہر نکالنا آسان ہے
مگر مال کی ظالم کشش ہمیں ہمت نہیں کرنے دیتی… ’’حجامہ‘‘ کی جو فیس لی جاتی ہے اس
میں مہنگائی کرنا اس لیے بھی بُرا ہے کہ… حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور بعض دیگر آئمہ کے نزدیک حجامہ کے معالج کو
اُس سے زیادہ ’’فیس‘‘ لینا جائز نہیں ہے جتنی اُجرت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ’’حجام‘‘ کو عطاء فرمائی تھی… وہ اُجرت
زیادہ نہیں بہت کم تھی، آپ حدیث شریف کی کتابوں میں دیکھ لیں… حجامہ کے بارے میں
باتیں بہت ہیں جبکہ کالم کی جگہ مکمل ہو چکی ہے… حجامہ کے لیے سب سے اچھا موسم اپریل
اور مئی کا مہینہ ہوتا ہے… مگر مہم دسمبر میں آگئی ہے، ان شاء اللہ اس مبارک سنت
کی طرف اہلِ اسلام متوجہ ہوں گے… کیمپ لگانے والوں کو چاہیے کہ حجامہ کو مفید
بنانے کے لیے اپنے کیمپوں میں ہیٹر یا آگ کا بندوبست رکھیں اور جہاں کپ لگائیں
اُس جگہ کو خاص طور پر تھوڑاسا گرم کر لیں… حضرت علی المرتضیٰ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں دیکھی تھی کہ…
آیت الکرسی کی تلاوت حجامہ کو بہت مؤثر بنا دیتی ہے… مریض سے بھی پڑھوائیں اور
خود بھی پڑھیں… کسی ایسے مریض کا حجامہ نہ کریں جس نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہوا
ہو… حجامہ کے ایام میں بھی اپنی نمازوں کا اہتمام کریں، باجماعت تکبیر ِ اولیٰ کے
ساتھ… اور اپنی اصل دعوت کو نہ بھولیں… کلمہ طیبہ یعنی ایمان، اقامتِ صلوٰۃ اور
جہاد فی سبیل اللہ…
لا
الہ الااللّٰہ ، لا الہ الااللّٰہ ،لا الہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللّٰھم صل علٰی سیّدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الااللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ
٭٭٭
مسنون،مفید اور
سستا
علاج کے باب میں
غلو نہ کریں… ایک مفید عام موضوع…
ایک مسنون دعاء…
حدیث کا یاد کرنا مختلف امراض کا علاج…
جماعت کی اہمیت…
اجتماع اور جماعت میں فرق…
حجامہ مہم کی
مقبولیت… علاج کے معاملے میں غلو…
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا علاج کے بارے میں
طرز عمل…
ایک صحابیہ kکا
سبق آموز واقعہ…
زندگی کی مثال…دنیا
کی تمام چیزیں فانی ہیں…
ایک عبرت آموز
سبق…علاج میں غلو… دنیا آخرت کا خسارہ…
مسلمان توکل اختیار
کریں اور میانہ روی اپنائیں…
مسنون دعاء اور اس
کے فوائد…
مسنون، مفید اور
سستا
اللہ
تعالیٰ کی رضا کیلئے ایک دعا یاد کرلیں…اور
پڑھ لیں
بِسْمِ ﷲِ
تَوَکَّلْتُ عَلَی ﷲِ وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ
اس دعاء کے بارے میں
چند باتیں عرض کرنی ہیں …مگر ایک اور قیمتی تحفہ یاد کرلیں …اوروہ ہے حضرت محمد
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک
مبارک حدیث … یاد رکھیں !حدیث پاک جب زبان پر آتی ہے تو زبان کی بیماریاں دور ہوتی
ہیں… اللہ تعالیٰ معاف فرمائے ہم سب زبان کے مریض ہیں… اور
حدیث پاک جب یاد ہو کر دماغ میں جاتی ہے تو دماغ کے اَمراض دور ہوتے ہیں… اللہ تعالیٰ معاف فرمائے ہم سب دماغی مریض ہیں۔ لیجئے
حدیث شریف یاد کیجئے:
اَلْجَمَاعَۃُ
رَحْمَۃٌ ، وَالْفُرْقَۃُ عَذَابٌ
’’جماعت رحمت ہے اور تفرقہ عذاب ہے ‘‘
یہ مبارک الفاظ ہم
سب بار بار دہرائیں تاکہ ہماری دنیا اور آخرت ’’رحمتوں‘‘سے بھر جائے اور ہم سب
’’عذاب‘‘ سے نجات پائیں۔
یہ حدیث حضرت
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی روایت سے سند صحیح کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے۔
اَلْجَمَاعَۃُ
رَحْمَۃٌ ، وَالْفُرْقَۃُ عَذَابٌ
جماعت اور اجتماع
میں بڑا فرق ہے۔ اجتماع گندی مکھیوں کا بھی کسی گندی چیز پر ہو جاتا ہے… پھر وہ سب
اپنااپنا حصہ کھا کر الگ ہو جاتی ہیں… جبکہ جماعت وہ ہوتی ہے جس میں سب کا
’’مقصد‘‘ ایک ، ’’فکر‘‘ ایک ، راستہ ایک ، منزل ایک اور’’امیر‘‘ ایک ہو… اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ’’جماعت‘‘ کی برکت سے الحمدﷲ
’’الحجامہ‘‘ مہم بہت اچھی جارہی ہے… اب بہت امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ
مسنون ، مفید اور سستا علاج پاکستان میں اجنبی نہیں رہے گا… ویسے ایک بات ہم سب کو
دل میں بٹھانی چاہئے … وہ یہ کہ آج ہم نے نعوذ ب اللہ ’’علاج‘‘ کو تمام فرائض سے بڑا فرض اور تمام
کاموں میں سب سے اہم کام سمجھ لیا ہے… یہ کافی غلط اور نقصان دہ سوچ ہے…
ڈاکٹروں کے پاس
لوگوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں … ہسپتالوں پر عوام کا ہجوم ہے۔ مشہور حکیموں اور
عاملوں کے پاس کئی کئی مہینوں کے لئے مریضوں کی بکنگ ہے … اور میڈیکل کی دکانوں کا
کاروبار… آسمان سے باتیں کررہاہے… اگر ہم اپنے دین کو پڑھیں اور سمجھیں تو یہ
رجحان کافی غلط لگتا ہے… بیماری کا علاج سنت ہے، فرض نہیں… بیماری پر صبر کا بڑا
درجہ ہے …کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صحابیات نے علاج کرانے سے انکار فرما دیا
اور بیماری کو اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت سمجھا… ایک صحابیہ کے بارے میں
آتا ہے کہ لوگ کہا کرتے تھے، جس نے دنیا میں کسی ’’جنتی‘‘کو دیکھنا ہو وہ اِن کو
دیکھ لے… ان صحابیہ محترمہk کو ایک بیماری تھی… حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اختیارملا کہ …شفاء کی دعا کرالیں یا
بیماری پر صبر کرکے جنت پالیں… انہوں نے بڑی عقلمندی کا فیصلہ فرمایا کہ بیماری پر
جنت کو خرید لیا… دنیا تو جیسی بھی ہو کٹ جاتی ہے …چند دن پہلے ایک ’’باباجی‘‘ ملے
وہ کافی بیمار تھے…فرمایا!نوے سال کا ہوگیاہوں اور اپنی پچھلی تمام زندگی یوں لگتی
ہے ، جیسے بس ایک دن گذارا ہو…دُکھ والے دن بھی گذر گئے اور سکھ والے دن بھی نہیں
رُکے۔ مشکل راتیں بھی کٹ گئیں اور اچھی راتیں بھی آج ساتھ نہیں ہیں … اللہ تعالیٰ کی رحمت بس اُس پر ہے جس کو ہمیشہ کی
اُخروی زندگی کے لئے …اِس فانی زندگی میں تیاری کا موقع مل جائے… دنیا کے عہدے،
مال اور اختیارات کی یہ حالت ہے کہ …اُنیس تاریخ کو ایک شخص پورے پاکستان میں سب
سے طاقتور تھا… اُس کے اشارے پر لاکھوں بندوقیں چلتی اور بند ہوتی تھیں… صحافی اس
کا قرب پانے کے لئے بے چین تھے… اور حکمران اس کے ڈر سے اس کی خوشامد پر مجبور
تھے…مگر اگلے دن یعنی بیس نومبر کو وہ ایسا تھا کہ …کسی ایک آدمی پر بھی اُس کا
اختیار باقی نہ رہا… پہلے لوگ اُس سے ملاقات کا وقت مانگتے تھے… اب وہ اپنا وقت
گذارنے کی فکر میں ہے …وہ اچھا تھا یا بُرا یہ آج ہمارا موضوع نہیں… پاکستان آرمی
کا سربراہ …بالآخر ریٹائر ہو گیا … یہی منظر نومبر کے بعد پھر دسمبر میں ہمیں
دکھایا گیا… بارہ دسمبر تک ایک شخص پورے ملک میں سب سے زیادہ مشہور اور باوقار
تھا… وہ حکمرانوں کے تاج اُڑاتا اور وردی والوں کو اپنے سامنے کھڑا رکھتا… اُس کے
منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ ’’فیصلہ‘‘ تھا… اور اس کے ہر بیان کے لئے اخبارات کی بڑی
سرخیاں وقف تھیں … مگر تیرہ دسمبر کو وہ اچانک ایسا عام انسان بن گیا کہ اب کسی
چپڑاسی کو بھی طلب نہیں کرسکتا… وہ اچھا تھا یا بُرا یہ آج ہمارا موضوع نہیں… سپریم
کورٹ کا چیف جسٹس بالآخر ریٹائر ہوگیا …بس یہی حال دنیا کے ہر عہدے اور ہر چمک کا
ہے… افسوس ہے اُس انسان پر جو اِن عہدوں اور چمک کی خاطر اپنی آخرت برباد کردے…
صحابیہ محترمہ!
شفاء پاجاتیں تب بھی دنیا سے جانا تھا… اس بیماری کے علاوہ کوئی اور مرض بھی لگ
سکتا تھا… چنانچہ انہوںنے بیماری کے ساتھ رہنا برداشت کیا اور اپنی بیماری کو قیمتی
بنا لیا… ایسی بیماری جس کے بدلے میں یقینی جنت مل جائے بے شک دنیا بھر کی دولت
اور صحت سے زیادہ قیمتی ہے… لیکن آج تو معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ … مسلمانوں کی
دولت کا ایک بڑا حصہ ’’علاج‘‘ پر خرچ ہو رہا ہے …امریکہ اور یورپ کے کئی طبّی
ادارے اور ہسپتال صرف عرب مسلمانوں اور ہمارے حکمرانوں سے سالانہ اَربوں ڈالر کما
رہے ہیں … آج کے مسلمان جتنا پیسہ اپنے علاج پر لگاتے ہیں اگر اس کا دسواں حصہ بھی
جہاد پر لگا دیں تو ساری دنیا کے خزانوں کے مالک بن جائیں … مسلمانوں نے ’’علاج‘‘
کو اپنی کمزوری اور مجبوری بنایا تو دشمنانِ اسلام نے انہیں بیمار کرنے کے لئے الگ
طریقے اور اُن کا علاج کرنے کے لئے الگ طریقے ایجاد کرلئے … پہلے وہ زہریلی خوراک
، زہریلی دواؤں اور زہریلے ماحول سے بیماری پھیلاتے ہیں … اور پھر مارکیٹ میں اس
کا علاج حاضر کردیتے ہیں … تاکہ مسلمان اُن سے بیماری بھی خریدیں اور علاج بھی خریدیں
… طرح طرح کی مشینیں ، طرح طرح کے ٹیسٹ ، طرح طرح کے آپریشن اور طرح طرح کے علاج
…اور حیرت یہ ہے کہ … دنیا بھر میں علاج کے اتنے مہنگے اور سائنسی طریقے آنے کے
باوجود بیماریاں پہلے سے زیادہ پھیل رہی ہیں … صرف برطانیہ میں ’’کینسر‘‘ کا مرض
سالانہ سو فیصد کی رفتار سے بڑھ رہا ہے… امریکی لوگ موٹاپے اور ڈپریشن سے دبے
جارہے ہیں … دماغی اَمراض کے اضافے کی توکوئی حد ہی نہیں … اور ایڈز سے گذشتہ دس
سال میںکروڑوں انسان مرچکے ہیں…
ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ … اس
معاملہ پر غور کریں اور علاج ہی کو اپنی زندگی کا مقصد نہ بنا لیں… بیماری پر صبر
کرنا سیکھیں… ہر وقت صحت کی فکر میں نہ گھلیں اور مہنگے مہنگے علاجوں پر اپنا مال
برباد نہ کریں… ہم اپنی صحت قرآن پاک میں تلاش کریں… جہاد والی سادہ اور پُرمشقت
زندگی اختیارکریں تو بے شمار بیماریاں خود بھاگ جائیں گی … اللہ تعالیٰ سے شفاء، صحت اور عافیت مانگیں … اور’’
الحجامہ‘‘ کے مسنون علاج کو اختیار کریں … انسان کے جسم پر ہر وقت تبدیلیوں اور تغیرات
کا سلسلہ جاری رہتا ہے… آپ آدھے گھنٹے میں اپنا وزن چند بار کریں تو مختلف نتائج
سامنے آئیں گے … ایک ہی انسان خوشی اور غم کی حالت میں الگ الگ دنیا میں ہوتا ہے
… اس لئے ضروری نہیں کہ کسی چیز کے ٹیسٹ کے وقت جو بیماری سامنے آرہی ہے وہ ’’پکی‘‘
ہو … جس قدر ممکن ہو طرح طرح کے ٹیسٹ کرانے سے بچیں … اور اُن دعاؤں کا اہتمام کریں
جو صحت و شفاء کے لئے ہمارے آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہیں … آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک ’’حکیم صاحب‘‘ نے مدینہ منورہ
قیام کی اجازت مانگی کہ … لوگوں کا علاج کریں گے … اُن کو اجازت دے دی گئی … چند ہی
دن بعد وہ واپس جانے لگے اور وجہ یہ بتائی کہ اتنے دن یہاں قیام رہا مگر ایک مریض
بھی نہ آیا… اس سے آپ علاج کے بارے میں … حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دلچسپی کا اندازہ
لگا سکتے ہیں… دوسری طرف ہم ہیں کہ … ہر ڈاکٹر، ہر معالج، ہر عامل کے پاس ہجوم ہی
ہجوم ہے … اور افسوس یہ کہ ہمارے ہاں ہر دوسرا آدمی ڈاکٹر اور معالج ہے… آپ رکشے
والے کو بتائیں کہ مجھے فلاں بیماری ہے تو وہ فوراً آپ کے لئے علاج تجویز کردے گا
اور پورے دعوے کے ساتھ سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے علاج بتائے گا… آپ حجام کی خدمت میں
بال کٹوانے حاضر ہوں تو اگر غلطی سے کسی بیماری کا تذکرہ کردیں تو آپ کو فخر
محسوس ہوگا کہ آپ کا حجام معمولی آدمی نہیں… اس زمانے کا مسیح الملک، اور حاذق
حکیم ہے… وہ دواؤں کے ناموں کا ڈھیر آپ کے سر پر رکھتا جائے گا… اور تو اور آپ
بیماری سے کراہتے ہوئے کسی شخص کی عیادت کے لئے جائیں اور وہاں اُن کو پتا چل جائے
کہ آپ کو بھی کوئی بیماری ہے تو وہ تھوڑی دیر کے لئے کراہنا بند کرکے …آپ کو
ضرور آٹھ دس علاج بتا دے گا… آپ حیران ہوں گے کہ آج ہم مسلمان اپنے علاج پر
اتنا مال خرچ کرتے ہیں کہ … بعض افراد اگر اپنے علاج کی رقم کو شمار کریں تو وہ
کروڑوں میں نکلے گی … مگر کیا اس کے باوجود صحت مل گئی؟؟… ہائے کاش ہم صدقہ کرتے …
ہم جہاد میں مال لگاتے، ہم مساجد تعمیر کراتے، ہم غریبوں کو کھانا کھلاتے … ایک صاحب
جن کو آخرت کی فکر نصیب تھی اُن کے گھر والے انہیں ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے …
چند ٹیسٹ ہوئے اور حکم آگیا کہ فوری آپریشن کرائیں ورنہ مر جائیں گے… انہوں نے پوچھا
آپریشن پر کتنا خرچہ ہوگا؟؟… ڈاکٹروں نے چند لاکھ بتائے … انہوں نے گھر آکر آپریشن
کے خرچ جتنی رقم نکالی اور جاکر صدقہ کردی … اور خود توکل اور صبر کرکے بیٹھ گئے…
اللہ
تعالیٰ کی شان ! چند دن میں بیماری بالکل
ٹھیک ہوگئی … ایسے واقعات بے شمار ہیں… مگر افسوس کہ آج اگر کسی کو اس بارے میں
تھوڑا سا بھی سمجھایا جائے تو سامنے والا باقاعدہ گرم آنسوؤں سے رونے لگتا ہے …
کیونکہ اُس کا ذہن یہ بن چکا ہے کہ بس علاج ضروری ہے… خواہ ساری دنیا کا مال ہی اس
پر لگ جائے تب بھی یہ اُس کا اخلاقی اور شرعی حق ہے کہ وہ ضرور علاج کرائے … بھائیو!
اور بہنو! ہم کسی علاج سے نہیں روکتے… آپ بقدر ضرورت علاج کرائیں مگر یہ بھی یاد
رکھیں کہ موت چند قدم کے فاصلے پر کھڑی ہے… اُمت مسلمہ غموں اور مظالم سے تڑپ رہی
ہے … اور ہم اپنے جسم کے ایک ایک بال اور ایک ایک عضو پر بے تحاشا مال خرچ کررہے ہیں
… اور یہ نہیں سوچتے کہ اس جسم نے بالآخر ایک دن گل سڑ کر ختم ہی ہونا ہے…
ایک مسلمان کے لئے ’’توکل‘‘
… یعنی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا، اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور یقین رکھنا… بہت بڑی نعمت
ہے … تھوڑا سا دل کے یقین کے ساتھ پڑھ لیں۔
بِسْمِ ﷲِ
تَوَکَّلْتُ عَلَی ﷲِ وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ
اللہ
تعالیٰ کے نام کے ساتھ … میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کیا… ہر توفیق اور حفاظت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتی ہے…
یہ دعاء حدیث شریف میں آئی ہے
اور یہ بہت عجیب اور سکون آور دعاء ہے… بس جیسے ہی دل میں کوئی غم اور پریشانی
اُٹھے تو … اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اُسی
پر ’’اعتماد‘‘ کا اعلان کردیا جائے …حتیٰ کہ عام گھریلو کاموں میں …یا جماعت او
جہاد کے کاموں میں جہاں ذرا سی اُلجھن ہو تو مستانہ وار یقین کے ساتھ پڑھتے جائیں…
بِسْمِ ﷲِ
تَوَکَّلْتُ عَلَی ﷲِ وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ
آج اس دعاء اور اس کے فضائل و
مناقب پر بات کرنی تھی … وہ سب کچھ رہ گیا مگر چند ایسے اشارے آگئے کہ … امید ہے
غمزدہ اور پریشان حال مسلمانوں کی توجہ اس دعاء کی طرف ہو جائے گی… تب وہ خود اس
کے فوائد محسوس کرلیں گے۔
لاالہ ال اللہ ،
لاالہ ال اللہ ، لاالہ ال اللہ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد و الہ و صحبہ
و بارک و سلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ ال اللہ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مذاکرہ!
دُنیا میں پیش
آنے والے چند اہم واقعات کا تذکرہ…
ہماری تین اہم
ضروریات اور ان کی دعاء کا مذاکرہ…
دُنیا کے اکثر
لوگوں کا رُخ ناکامی کی طرف…
بنگلہ دیشی حکومت
کے مظالم…پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ…
موجودہ حکمران اور
پرویزمشرف میں مماثلت…
مصر میں الاخوان
المسلمون کو کالعدم قرار دیاجانا…
ہدایت،کفایت اور
وقایت… ہماری تین اہم ضروریات…
ان کے حصول کی
دعاء اور اس کا نصاب…
دنیا کی محبت دلوں
سے نکالنے والی دعاء…
مسلمانوں کے پاس
قرآن عظیم الشان ہے… پھر بھی مایوس کیوں؟…
’’الحجامۃ‘‘ مہم کی کامیابی پر
مبارکباد…اجتماع کی تیاری کی ترغیب…
مذاکرہ!
اللہ
تعالیٰ پر ’’اعتماد‘‘ اور’’توکل‘‘ کرنے
والے ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں…
بِسْمِ اللہِ
تَوَکَّلْتُ عَلٰی اللہِ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ
دنیا میں سب اپنے
اپنے کاموںمیں لگے ہوئے ہیں… اور اکثرلوگ ناکامی کی طرف دوڑ رہے ہیں… وہ دیکھیں!
بنگلہ دیش کی حسینہ واجد نے اپنی قوم کے بزرگ کو قتل کرڈالا… پینسٹھ سالہ بزرگ
پھانسی پرجھول گئے… اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے… آج پوری دنیا میں
اسلام سے تعلق رکھنے والوں کو اسی طرح مارا اور ستایا جارہا ہے…
بِسْمِ اللہِ
تَوَکَّلْتُ عَلٰی اللہِ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ
ہمارے ہاں! دیکھیں…
ملک کے سرمایہ دارحکمران، سابق صدر پرویزمشرف پر غداری کا مقدمہ چلا رہے ہیں… ان
حکمرانوں نے پرویز مشرف کے کسی غلط اقدام کا خاتمہ نہ کیا… وہ جو گندے انڈے چھوڑ گیا
یہ اُنہیں انڈوں پر بیٹھے ہیں… نہ اُس کے ظالمانہ قوانین کو ختم کیا… نہ اُس کی جلائی
ہوئی آگ کو بجھایا… نہ اُس کی کالعدم قرار دی گئی جماعتوں کو سانس لینے دیا… نہ
اُس کی بنائی ہوئی خارجہ پالیسی کو توڑا…ان میں اورپرویزمشرف میں کیا فرق ہے؟… وہ
بھی امریکہ کاغلام یہ بھی امریکہ کے غلام… وہ بھی انڈیا کا یار یہ بھی انڈیا کے یار…
وہ بھی دیندار مسلمانوںکا دشمن یہ بھی دیندار مسلمانوں کے دشمن… اُس کے زمانے میں
جو کالعدم اِن کے دور میں بھی کالعدم… وہ بھی غیروں کی جنگ میں اپنوں کو مارتا تھا
یہ بھی غیروں کی جنگ میں اپنوں کو مار رہے
ہیں… اُس کے تمام جرائم کو انہوں نے اپنے گلے کا ہار بنایا ہوا ہے اور اب اُس کو
’’غدار‘‘ قرار دے رہے ہیں، صرف اس جرم میں کہ اُس نے ان کے ساتھ زیادتی کی تھی… وہ
تو اپنے اعمال کا انجام دیکھ رہا ہے مگر پاکستان کے مسلمانوں کے لئے… کل بھی اندھیرا
تھا اور آج بھی اندھیرا ہے… وہ فوجی آمر تھا اور یہ جمہوری آمر ہیں… وہ اپنے
انجام کو پہنچ رہا ہے… اور یہ بھی اگر اسی طرح چلتے رہے تو جلد اپنے انجام کو پالیں
گے… ایمان والوں کے لئے کل بھی’’ اللہ ‘‘ تھا اور آج بھی’’ اللہ ‘‘ ہے…
حَسْبِیَ
اللہُ،بِسْمِ اللہِ تَوَکَّلْتُ عَلٰی اللہِ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا
بِاللہ
دنیا بھر میں اگر
کوئی ’’کالعدم‘‘ ہے تو وہ اسلامی جماعتیں ہیں… ابھی مصر نے پھر’’اخوان المسلمون‘‘
کو کالعدم قرار دے دیا ہے… وہ پہلے بھی کئی عشروں تک کالعدم رہے… پھر اچانک اقتدار
میں آگئے… کسی جلد باز نے فوراً کتاب لکھ ڈالی…
’’من المحظورۃ الی المحظوظۃ‘‘
یعنی اخوان المسلمین
کی تاریخ… کالعدم سے بانصیب ہونے تک… پابندی سے اقتدار تک… مگر’’محظوظ‘‘ ہونے کا یہ
عمل صرف ایک سال رہا اور اب پھر کالعدم… ہم لوگ بھی اپنے ملک میں ’’کالعدم‘‘… اور
اخوان والے بھی اپنے ملک میں ’’کالعدم‘‘… ’’کالعدم‘‘ کی فہرست میں جب کوئی نیا نام
آتا ہے تو اپنی آبادی بڑھنے کا احساس ہوتا ہے ؎
آ عندلیب مل کر
کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں
چلاؤں ہائے دل
ہمارے اسلامی
ممالک تو شاید چندغلاموں کی ذاتی جاگیر بن گئے ہیں وہ رہتے امریکہ اور یورپ میںہیں…
وہ ہمارے ملکوں کا سرمایہ لوٹ کر اپنے آقاؤں کو دیتے ہیں… وہ انہیں کی بولی
بولتے ہیں اور انہیں کے اشاروں پر ناچتے ہیں… مگر وہ خود کو ہمارے ملکوں کا مالک
سمجھتے ہیں… ابھی آپ بلاول زرداری کے بیانات پڑھ لیں… وہ ٹویٹر پر ہر دوسرے دن
پاکستان کے بارے میںنیا فیصلہ صادر کرتا ہے… چند دن پہلے اُس نے ملالہ کو وزیراعظم
بنادیا… مگر شاید وہاں بات نہیں بنی اب اُس نے پاکستان کا وزیراعظم کسی عیسائی کو
نامزد کر دیا ہے… ہائے یہ بیچارے! کیا کیا حسرتیں ہیں ان کے دلوں میں… مگر ان شاء اللہ اُن کی یہ حسرتیں خود انہیں کے ساتھ دفن ہو جائیں گی… پاکستان میں اذان گونجتی رہے گی،
تکبیر بلند ہوتی رہے گی اور جہاد کے مینار سر اٹھاتے رہیں گے… یہ شہداء، غازیوں
اور فقیروں کا ملک ہے…
حَسْبُنَاللہُ،
بِسْمِ اللہِ تَوَکَّلْتُ عَلٰی اللہِ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ
یہ دعا جو آج میں
بار بار دُھرا رہا ہوں… یہ’’مذاکرہ‘‘ اس لئے تاکہ یہ میرے دل میں بھی اُتر جائے
اور آپ کے دل میں بھی… ہمیں آج کل صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک بار بار اس
دعاء کی ضرورت پڑتی ہے… اس دعاء کے ساتھ اللہ تعالیٰ
نے تین انعامات باندھ دیئے ہیں…
١ ہدایت
یعنی رہنمائی…
٢ کفایت،
یعنی اللہ تعالیٰ کی پوری مدد…
٣ وقایت
یعنی اللہ تعالیٰ کی حفاظت…
جب کوئی مسلمان ایمان
اور یقین کے ساتھ یہ دعاء پڑھتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے…
ھُدِیْتَ، وکُفِیْتَ
ووُقِیْتَ
اے، اللہ تعالیٰ پر توکل کا اعلان کرنے والے! تجھے ہدایت،
کفایت اور وقایت عطاء کر دی گئی ہے… اور اس وقت شیطان اس سے دور بھاگ جاتا ہے…
دوسرا شیطان اس سے پوچھتا ہے کہ اب ایسے
شخص پر تیرا کیا بس چلے گا جسے ہدایت، کفایت اور وقایت مل چکی ہے…
بِسْمِ اللہِ
تَوَکَّلْتُ عَلٰی اللہِ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ، میںنے اللہ تعالیٰ پر توکل کیا اور ہر توفیق اور ہر
حفاظت اللہ تعالیٰ سے ہی ملتی ہے…
آج ہم مسلمانوں
کا سب سے بڑا مسئلہ نہ امریکہ ہے نہ اسرائیل… نہ انڈیا ہے نہ یورپ… نہ مہنگائی ہے
اور نہ منافق حکمران… ہمارا سب سے بڑا مسئلہ … مایوسی ہے، جی ہاں! اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی، اللہ تعالیٰ کی نصرت سے مایوسی، اللہ تعالیٰ کی مدد سے مایوسی، اللہ تعالیٰ کی محبت سے مایوسی، اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے مایوسی… ہم مایوسی چھوڑ دیں
اور اللہ تعالیٰ پر اعتماد کریں تو پھر ساری دنیا اوراس
کے تمام مسائل بہت چھوٹے ہیں، بہت چھوٹے… یا اللہ !
دنیا کو ہماری نظروں میںچھوٹا بنا دے…
اَللّٰھُمَّ
صَغِّرِ الدُّنْیَا بِاَعْیُنِنَا
یا اللہ ! اپنے جلال اور اپنی قدرت کو ہمارے
دلوں میں بڑا بنا دے…
وَعَظِّمْ
جَلَالَکَ فِیْ قُلُوْبِنَا
چلیںیہ پوری دعاء
ہی پڑھ لیں، سمجھ لیں اور سیکھ لیں
اَللّٰھُمَّ
صَغِّرِ الدُّنْیَا بِاَعْیُنِنَا، وَعَظِّمْ جَلَالَکَ فِیْ قُلُوْبِنَا،
اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَرْضَاتِکَ وَثَبِّتْنَا عَلٰی دِیْنِکَ وَ طَاعَتِکْ
یا اللہ ! دُنیا کو ہماری آنکھوں میں چھوٹا بنا دیجئے،
اور اپنے جلال کو ہمارے دلوں میں بڑا بنا دیجئے، یا اللہ ! ہمیں اپنے پسند والے اعمال کی توفیق دیجئے
اور ہمیں اپنے دین اور اپنی عبادت پر ثابت قدمی عطاء فرما دیجئے…
سبحان اللہ ! بہت عجیب دعاء ہے… ترجمہ ذہن میں رکھ کر
اگر سجدے میں پڑھیں اور روزآنہ کم از کم تیرہ بار کامعمول بنا لیں تو دل روشنی سے
بھر جائے…تب نہ دنیا کے دشمن بڑے لگیں نہ دنیا کی بیماریاں… نہ دنیا کے مسائل
پہاڑوں جیسے نظر آئیں اور نہ دنیا کے غم…
بے شک ’’ اللہ ‘‘
ایک ہے، ’’ اللہ ‘‘ سب سے بڑا ہے، ’’ اللہ ‘‘ ہمارا ہے،’’ اللہ ‘‘ ہر چیز پر قادر
ہے…ہم’’ اللہ ‘‘ کے اور’’ اللہ ‘‘ ہمارا…
بِسْمِ اللہِ
تَوَکَّلْتُ عَلٰی اللہِ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ
روایات میں آیا ہے کہ جب ہم اپنے گھرسے نکلتے ہیں تو
فرشتے اپنا نورانی جھنڈا لے کر… اور شیاطین اپنا شیطانی جھنڈا لے کر ہمارے منتظر
ہوتے ہیں… واقعی بھائیو! انسان کو اللہ تعالیٰ نے بڑی قدر و قیمت عطاء فرمائی ہے… اگر
ہم نے گھر سے نکلتے ہی یہ دعا پڑھ لی۔
بِسْمِ اللہِ
تَوَکَّلْتُ عَلٰی اللہِ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ
توشیاطین اپنے
جھنڈوں سمیت بھاگ جاتے ہیں … اور فرشتے اپنے جھنڈے دعاء پڑھنے والے پرتان کر اُس
کے ساتھ ہو جاتے ہیں… بس دل میں یقین شرط ہے… اور گھر سے اچھے کام کے لئے نکلنے کی
نیت بھی ضروری ہے…ویسے آج کل شیطانی جھنڈوں کا ہر طرف زور ہے… ڈرنے گھبرانے کی
ضرورت نہیں… مقابلہ کرنا چاہئے مقابلہ… کسی نے حضرت بصری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا! اے ابو سعید! ایک شخص
گناہ کرتا ہے پھر توبہ کرلیتاہے،پھر گناہ کرتا ہے پھر توبہ کرلیتا ہے پھر اُس سے
گناہ ہوجاتا ہے؟ آخر کب تک؟؟؟
ارشاد فرمایا! اُس
وقت تک جب تک کہ شیطان اُس سے مایوس نہ ہو جائے… یعنی توبہ کا سلسلہ جاری رہے، جاری
رہے… یہاں تک کہ شیطان تھک ہار کر مایوس ہو جائے کہ… اس بندے سے گناہ کروانے کا
کوئی فائدہ نہیں… بلکہ اُلٹا نقصان ہے … کیونکہ سچی توبہ گناہوں کو بھی نیکی بنا دیتی
ہے…
بِسْمِ اللہِ
تَوَکَّلْتُ عَلٰی اللہِ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ
آج کل ہم خبریں
پڑھنے لگتے ہیں توبار بار دل میں ہوک اٹھتی ہے… اگر یہ دعاء اپنے پاس ہو تو کام
آتی ہے… جیسے ہی بُری خبر پڑھی اللہ تعالیٰ کی طاقت اور قوت کا اعلان کر دیا اور دل
پُرسکون ہو گیا… ارے یہ دنیا کے مچھر اسلام کا اور مسلمانوں کا کیا بگاڑ لیں گے…
بِسْمِ اللہِ
تَوَکَّلْتُ عَلٰی اللہِ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ
حیرانی ہم سب
مسلمانوںپر ہے کہ… ہمارے پاس قرآن عظیم الشان موجود ہے مگر ہم پھر بھی مایوس ہوتے
ہیں اور دنیا کے کافروں اور دنیا کے مسائل کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں… قرآن پاک
ہمیںدکھاتا ہے کہ فرعون ڈوب رہا ہے… قرآن پاک ہمیں دکھاتاہے کہ قوم عاد کی طاقت
اوندھے منہ گری پڑی ہے… قرآن ہمیں دکھاتا ہے کہ قوم لوط علیہ السلام منے بالآخر
بہت اوپر جا کر نیچے گرنا ہے… آج کل کے کفار بھی بہت اوپر جانے کی فکر میں ہیں
اور یہ بہت گہرا گریں گے… قرآن پاک ہمیں میٹھے میٹھے قصے سناتا ہے… وہ دیکھو! یوسف
علیہ السلام کے بھائی اُن کے قتل کی تدبیر
کر رہے ہیں… مگر یوسف علیہ السلام زندہ
رہے… وہ انہیں بے نام و نشان کرنے کی فکر میں مگر اُن کی شان اونچی ہو گئی… وہ انہیں
باپ کے دل سے نکالنا چاہتے ہیںمگر باپ کے دل میں محبت اور بڑھ گئی…
وہ دیکھو! اُن کو
بیچا جارہا ہے تاکہ وہ مملوک بنیں… مگر وہ پورے ملک کے مالک بن گئے… کیوں؟ اس لئے
کہ حضرت یوسف علیہ السلام ، اللہ تعالیٰ
کے پیارے تھے اور وہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور توکل رکھتے تھے… پس اسی
طرح دین اسلام بھی اللہ تعالیٰ کو پیاراہے… اور مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہیں… اگر وہ اللہ تعالیٰ پرا عتماد اوریقین رکھیں تو… انہیںمارنے
والے، انہیں مٹانے والے اور انہیں بیچنے والے سب ناکام ہوجائیں گے…
بِسْمِ اللہِ
تَوَکَّلْتُ عَلٰی اللہِ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ
الحمدﷲ… اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فضل سے ’’الحجامہ مہم‘‘ کامیاب
ہو گئی… اور اب ان شاء اللہ 26جنوری کا’’اجتماع‘‘ آتاہے… دعاء کریں، فکر کریں،
محنت کریں… اور پورے یقین کے ساتھ یہ کہتے ہوئے میدان میں کود پڑیں:
بِسْمِ اللہِ
تَوَکَّلْتُ عَلٰی اللہِ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ
لا الہ الا اللہ،
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭٭٭
منزل اور مجنوں
افضل گورو شہید
رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’آئینہ‘‘ کی تقریب رونمائی…
ایک منفرد
اجتماع…صاحبِ کرامت شہید…
’’بَلْ اَحْیَآءٌ‘‘ شہداء کی حیات کا ایک
پہلو… ان کا کام زندہ رہتا ہے…
افضل گورو شہید
رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب اور ان کی قربانی کے ثمرات…
افضل گورو شہید
رحمۃ اللہ علیہ کے راستے کی طرف فدائیوں کے قافلے…
ایک روشن مستقبل کی
نوید…شہید کا ایک عظیم مقولہ…
’’ زندگی جان میں نہیں ایمان میں ہے‘‘…اور اس
پر شہید کا اپنا عمل…
اجتماع میں شرکت کی
دعوت اور شرکت کے درجات…
منزل اور مجنوں
اللہ
تعالیٰ اپنے فضل سے 26جنوری کے ’’اجتماع‘‘
کو قبولیت اور کامیابی عطاء فرمائے… اجتماعات ہوتے رہتے ہیں اور ہوتے رہیں گے… اور
اللہ کرے مفید اجتماعات ہوتے رہیں… مگر ہمارے بھائی
محمد افضل گورو شہید کا اجتماع… ان شاء اللہ ’’ منفرد اجتماع‘‘ ہوگا… زندہ اجتماع، زندگی
سے بھرپور اجتماع… آپ سوچیں گے اس جملے کا کیا مطلب؟ زندہ اجتماع، زندگی سے
بھرپور اجتماع… مطلب کچھ زیادہ مشکل نہیں… بس آپ ایک بار بھائی افضل شہید کی
کتاب’’ آئینہ‘‘ پڑھ لیجئے… اور26جنوری کے اجتماع میں شرکت کر لیجئے… مطلب خود
معلوم ہو جائے گا…
صاحب کرامت شہید
اللہ
تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ مسئلہ اچھی
طرح سمجھا دیا کہ… تمام’’رسول‘‘ برحق ہیں… اور بعض رسولوں کو اللہ تعالیٰ
نے دوسرے بعض پر فضیلت عطاء فرمائی ہے:
تِلْکَ الرُّسُلُ
فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْض
اسی قرآنی اصول
کے تحت… ’’صدیقین کرام‘‘ تمام کے تمام اونچے مقام والے ہیں…مگر ان میں بھی بعض
دوسرے بعض سے افضل ہیں…اور صدیقین کے امام اور سردار حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں… اسی طرح شہداء کرام سب کے سب اونچے مقام
والے… مگر شہداء میں بھی بعض دوسرے بعض سے
افضل ہوتے ہیں… اور شہداء کرام کے امام اور سردار حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم کے پیارے چچاجان حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ہیں… اللہ تعالیٰ
نے ہمارے زمانے کویہ اعزاز بخشا ہے کہ اس میں جہاد اور شہادت کی نعمت
وافرمقدار میں زمین پر اُتری ہوئی ہے… والحمدﷲ رب العالمین…اس زمانے کے شہداء روئے
زمین کے تقریباً ہر حصے سے اٹھے ہیں… اونچے پہاڑوں پر بھی اور دور ریگزاروںمیں بھی…
ٹھنڈے علاقوں میں بھی اور گرم میدانوںمیں
بھی… ماشاء اللہ جہاد اپنے جوبن کی طرف بڑھ رہا ہے اور شہادت
کا’’آب حیات‘‘ اپنی تمام تر شیرینی کے ساتھ اُبل رہاہے… اور خوش نصیب مسلمان اسے
پی،پی کرحقیقی زندگی پارہے ہیں… جس مسلمان کی شہادت اللہ تعالیٰ کے ہاںقبول ہو جائے وہ’’شہید‘‘ زندہ
ہوتاہے… اور اُس کی زندگی میں شک کرنا کفر ہے… قرآن مجید نے زور دے کر فرما دیا:
’’بل أحیائٌ‘‘
یہاں اس ’’بل‘‘ کا
اصل مفہوم یہ ہے کہ… شہید بالکل زندہ،شہید بالکل زندہ، شہید بالکل زندہ… ارے سمجھو
یانہ سمجھو مگردل سے مان لو کہ شہداء بالکل زندہ ہیں… شہادت کی نعمت مل جانا ہی بڑی
سعادت ہے اور پھر اگر کسی کو شہادت میںبھی خاص
مقام ملا ہو تویہ اللہ تعالیٰ کا بڑافضل ہے…ہمارے زمانے کے شہداء کرام
میں اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ بھائی محمد افضل گورو رحمۃ اللہ علیہ ایک خاص مقام رکھتے ہیں… منفرد شان والا مسکراتا
ہوا مقام… اُن کی شہادت مظلومانہ ہوئی… دنیا میں جو جتنے دکھ اور ظلم سہتا ہے
آخرت میںاسی قدر اونچا مقام پاتا ہے… شہادت سے پہلے طویل عرصہ انہوں نے قید کاٹی…
اور اسی قید میں انہوں نے ایک خاص روشنی پائی… یاد رکھیں جو قیدی فی سبیل اللہ … اپنے دل سے رہائی کا شوق نکال کر اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہو جائے… وہ معرفت کا
اونچا مقام پا لیتا ہے… بھائی محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ نے… اُسی روشنی کی شعاعیں ایک ’’آئینے‘‘ میں
محفوظ کر لیں تاکہ… اُمت مسلمہ اس روشنی سے فیض یاب ہو سکے… انہوں نے اس کتاب میں
زور دے کرلکھا کہ… اگر دعوت کے پیچھے
قربانی ہو تو وہ دعوت بہت مؤثر ہو جاتی ہے… انہوں نے اپنی شہادت سے تین سال پہلے یہ
کتاب بھیجنے کی بار بار کوشش کی مگر کتاب اُن کے دوستوں تک نہ پہنچ سکی… پھر محمد
افضل شہید رحمۃ اللہ علیہ خود’’قربان‘‘
ہوگئے… جب قربانی نے اُن کی دعوت کو بے حد مؤثر بنادیا تو… اُن کی کتاب بھی باہر
پہنچ گئی… اور اب ماشاء اللہ چھپ کر تیار ہے… یہ وہ کتاب ہے جس پر سب سے پہلے
اُس کے مصنف نے حرف بحرف عمل کیا ہے… بھائی محمد افضل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کے بعد اُن کی بہت سی کرامات ظاہر ہوئیں…
اس کتاب کا بحفاظت پہنچ جانا، اتناعمدہ شائع ہونا اور کتاب کے بارے میں مصنف کی
ہرتمنا اور فرمائش کا پورا ہونا یہ بھی بھائی محمد افضلؒکی واضح کرامت ہے… بھائیو
اوربہنو! آج ہی نیت کر لو کہ یہ کتاب ضرور خریدنی ہے… ضرور پڑھنی ہے اور دوسرے
مسلمانوں تک پہنچانی ہے…بس اسی کتاب کی تقریب رونمائی کے لئے’’26 جنوری‘‘ کا
اجتماع سجایا جارہا ہے…افضل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی طاقتور زندگی کے اثرات دیکھیں کہ… آج ہزاروں
دیوانے اُن کے اجتماع کی محنت میں لگے ہوئے ہیں… درجنوں اہل دعاء ہردن جھولیاں پھیلا
کر اجتماع کے لئے دعائیں مانگ رہے ہیں… اور کتاب کے بارے میں جس کے ذمہ جو کام لگا
اُس نے یوںمحنت کی کہ… کوئی اپنی ذاتی تصنیف پر بھی ایسی عرق ریزی نہ کر سکتا ہو
آج جماعت میں ایک روحانی جوش ہے… ماشاء اللہ لا
قوۃ الا ب اللہ … یہی نہیں بلکہ اب تک چھ کڑیل مؤمن نوجوان… بھائی افضل شہید رحمۃ
اللہ علیہ کے لہو کے قطروںپر دوڑتے ہوئے
زندگی کی منزل پا چکے ہیں… اور مزید نجانے کتنے اس تمنا میں تڑپ رہے ہیں… بھائی
افضل رحمۃ اللہ علیہ کو شہید کرنے والی
کانگریسی حکومت شدید زوال کا شکار ہے… اور مقبوضہ کشمیر کی تحریک میں ایک نئی جان
ہرکوئی محسوس کر رہاہے… فیس بک اور ٹویٹر تک کے فسادی ماحول میں’’افضل شہید رحمۃ
اللہ علیہ ‘‘ کے نام پر صفحات قائم ہو چکے ہیں اور دہلی جہاں پر افضل شہید رحمۃ
اللہ علیہ کا مزار ہے تیزی سے کروٹ بدل
رہاہے… اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: شہید کو مُردہ مت سمجھو
’’بَلْ اَحْیَآء‘‘
وہ بالکل زندہ ہے،
بالکل زندہ ہے… ہاں! انڈیا والو! سن لو افضل شہید بالکل زندہ ہے… یقین نہ آئے
تو26 جنوری کو مظفرآباد میں آکر دیکھ لینا… جہاں افضل شہید کی زندگی… گرجے گی،
برسے گی، کڑکے گی… اور افضل شہیدکا آئینہ… چمکے گا…
ان شاء اللہ … ان شاء اللہ … ان شاء اللہ
زندگی جان میں نہیں
بھائی افضل شہید
رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں یہ کہنا درست
ہے!
عاش سعیدا و مات
شہیدا
کہ اُس نے زندگی
خوش نصیبوں والی… اور انجام شہیدوں والا پایا
ہاں! جس کے اندر
سچی طلب ہو اُسے راستہ بھی مل جاتا ہے اور منزل بھی… بلکہ یوںکہنا چاہئے کہ… لوگ
راستے اور منزل کی تلاش میں ہوتے ہیں… لیکن جس کی طلب سچی ہو… منزل خود اس کی تلاش
میں ہوتی ہے… افضل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی
طلب سچی تھی تو اُسے… ایک خیر کے بعد دوسری خیر خود ہی ملتی چلی گئی… اُسے غازی
بابا شہید رحمۃ اللہ علیہ جیسا رہنما ملا…
اُسے آفاق شہید رحمۃ اللہ علیہ جیسا دوست
ملا… اُسے ارسلان اور حیدر جیسے رفقاء ملے… اُسے جیش محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسی جماعت ملی… اُسے اللہ تعالیٰ کے راستے کا جہاد ملا… اُسے جہاد کی بلند
کارروائیاں ملیں…
اُسے اللہ تعالیٰ کے راستے کا اعتکاف… یعنی قید تنہائی ملی…
اُسے روشن دماغ اور رواں روشن قلم ملا… اُسے شعور کی پختگی ملی… اور بالآخر یہ
سارے پہاڑ، جنگل، ریگستان طئے کرتے کرتے وہ ایک بڑے خزانے تک جا پہنچا… اُس نے
خزانے کا پتھر اٹھایا اندر اسے ایک بڑا راز مل گیا… یہ راز بے شمار خزانوں کی چابی
ہے… اس راز کے الفاظ سب جانتے ہیں مگروہ اس کی حقیقت کو نہیں پہچانتے… اس لئے اس
راز میں پوشیدہ خزانوں سے محروم رہتے ہیں … راز کے الفاظ یہ ہیں:
’’زندگی جان میں نہیں ایمان میں ہے!‘‘
افضل شہید نے راز
دل میں بٹھایا… جان کی فکر دل سے نکالی اور ایمان کو سینے سے لگا لیا… تب اس آبلہ
پا مجنوں کو اُس کی منزل لیلیٰ کی طرح بانہیں پھیلا کر…بلانے لگی… وہ دوڑپڑا اور
اُس نے لیلیٰ کے بازو اپنے گلے میں ڈال کر… زندگی کی طرف چھلانگ لگا دی… دشمن
سمجھے دیوانہ پھانسی پر مر گیا… مگر دیوانہ رقص کرتے ہوئے مسکرایا کہ…پھانسی پر
موت مر گئی اور زندگی جیت گئی:
بیا جاناں تماشا
کن کہ در انبوہ جاں بازاں
بصد سامان رسوائی
سر بازار می رقصم
منم عثمان ہارونی
کہ یار خواجہ منصورم
ملامت می کند خلقی
ومن بردار می رقصم
بھائیو! اور بہنو!
آپ تو ماشاء اللہ اہل یقین ہیں… اگر کوئی شک کرنے والا ہو تو وہ
بھائی افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ کی
کتاب صرف ہاتھ میں لیکر چند صفحات پڑھ لے… وہ اجتماع کے لئے دعاء کرنے والے اہل دل
کو جامع مسجد عثمان و علی رضی اللہ عنہما میں روتا گڑ گڑاتا دیکھ لے… وہ اجتماع کی محنت میں
بھاگ دوڑ کرتے دیوانوں کو دیکھ لے… وہ اجتماع میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی تیاری
میں لگے معصوم بچوں کو دیکھ لے… وہ افضل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے انتقام کے لئے بے چین مضبوط بازئووں والے غازیوں
کو دیکھ لے… ہاں! وہ اگر آنکھیں رکھتاہو تو کشمیر کے کہساروں پر اُترتی روشن کرنوں
کو دیکھ لے وہ بے ساختہ بول اٹھے گا کہ…
بے شک شہید زندہ
ہے… ہاں بالکل شہید زندہ ہے…
اجتماع میں شرکت
کے درجات
آپ سب حضرات و
خواتین پہلا کام یہ کریںکہ… جیسے ہی بھائی افضل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مکتبوں پر آئے… فوراً خرید لیں… آپ
جانتے ہیں کہ ہمارے مکتبوں کے کوئی تجارتی مقاصد نہیں… ہمارے ہاں تو مصنفین کو بھی
کوئی رائلٹی، معاوضہ اجرت نہیں دی جاتی… سب فی سبیل اللہ لکھتے ہیں…اورمکتبے کا نفع دینی کاموں میں خرچ
ہوتا ہے… جن مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے استطاعت دی ہے وہ کم از کم پانچ کتابیں
خرید کر تقسیم کریں… اپنے اُس مظلوم شہید کی آواز اُمت تک پہنچانا ہم سب پر لازم
ہے… جسے جیل کی کال کوٹھڑی ہی میں شہید کر کے دفن کر دیا گیا… انٹرنیٹ، فیس بک اور
ٹویٹر کے کھلاڑی وہاں اس کتاب کی تشہیر کریں… اور اس کتاب کوزیادہ سے زیادہ تعداد
میں کشمیراور انڈیا تک پہنچانے کی… بھرپور کوشش خالص اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے کریں… باقی رہی اجتماع میں
شرکت تو اُس کے تین درجے ہیں… وہ ان شاء اللہ آئندہ ہفتے عرض کئے جائیں گے…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علٰی سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مجاہدہ مشاہدہ
مجاہدہ اُٹھانے
والوں کو جو مقامات ملتے ہیں عام لوگوں کو انکا تصور بھی کہاں؟
بھائی افضل گورو
شہید رحمۃ اللہ علیہ کے مجاہدات اور مشاہدات کا تجزیہ…
سخت ترین آزمائشیں…
ہندو کا مزاج… بدترین قوم…
جیل میں دین پر
استقامت… سخت ترین مجاہدہ
جیلوں میں قیدیوں
کو بگاڑنے کے انتظامات…
جیلوں میں نظریات
بدل لینے والوں کا تذکرہ…
ایمان والوں کو
دُنیا میں مجاہدہ پیش آتا ہے…حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال… حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی مثال… ان کے سخت مجاہدات اور ان کے ثمرات…
بھائی افضل شہید
کا سخت مجاہدہ اور اس کے بدلے میں نصیب ہونے والا مشاہدہ…
مشاہدہ کی ایک عجیب
مثال…
مقام شرح صدر سے
وجود میں آنے والی کتاب اور اس کی طباعت…
شہید کی زندہ
کرامت… اجتماع میں شرکت کی پرزور دعوت…
مجاہدہ مشاہدہ
اللہ
تعالیٰ کی خاطرجو لوگ تکلیفیں برداشت کرتے
ہیں… اللہ تعالیٰ اُن پر اپنے راستے کھول دیتے ہیں… ہمارے
بھائی محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ نے بہت تکلیفیں برداشت کیں… وہ ’’مجاہدۂ نفس‘‘
کے اُس مقام پر پہنچے، جس کا تصور بھی عام انسانوں کے لئے مشکل ہے…انڈیا کے مشرک…
دنیا کی غیر مہذب ترین قوم ہیں… آپ یقین کریں، انتہائی بدترین قوم… نہ اخلاق، نہ
حیا، نہ غیرت اورنہ کوئی اصول… بس جانوروں کی طرح مفاد پرست، ہرطرح سے آزاد… اور
ہر طرح کے انسانی جذبوں سے عاری… وہ اپنے قیدیوں کے ساتھ ایسا بُرا سلوک کرتے ہیں،
جس کا کسی اور ملک یا قوم میں رواج نہیں… بھائی محمد افضل رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے ظالموں کی قید میں مسلسل تیرہ سال کاٹے…
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ’’جیل‘‘ کی آزمائش’’اضطراری‘‘ ہوتی ہے… یعنی جبراً انسان
پر مسلّط ہوجاتی ہے، کوئی اپنی مرضی سے توجیل جاتانہیں… اس لئے اسے’’مجاہدۂ نفس‘‘
نہیں کہا جا سکتا… کیونکہ یہ’’مجاہدہ‘‘ اپنے اختیاراور اپنی مرضی سے نہیں کیا
جاتا…لوگوں کی یہ سوچ غلط ہے… اول توایسے راستے کو اختیار کرنا جس میں قید اور جیل
آسکتی ہو یہ انسان کے اپنے اختیار سے ہوتا ہے… دوسرا یہ کہ جیل جانے کے بعد انسان
کے لئے آرام اور راحت حاصل کرنے کے کئی راستے کھلے رہتے ہیں… جموںکشمیر میں انڈین
حکمرانوں نے ایک ایسی جیل بھی بنا رکھی ہے جہاں کی سہولتیں بعض معاملات میں آزادی
سے بھی زیادہ ہیں… جو کچے افراد جہاد میں آجاتے ہیں اور پھرتھوڑی سی تکلیف
اورمجاہدہ بھی برداشت نہیں کر سکتے بلکہ گرفتار ہوتے ہی دشمن کے قدموںمیں گر جاتے
ہیں… اور اُن کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں ایسے افراد کو اُس جیل میں رکھا
جاتاہے… اور وہاںاُن کے اخلاق اورعادات کومزید بگاڑاجاتا ہے… جیلوں میں بیٹھ کر کئی
افراد نے بڑی بڑی جائیدادیں بنائیں اور ہر وہ ناجائز لذت حاصل کی جو بہت سے آزاد
افرادکو بھی آسانی سے میسّر نہیں آتی… اس لئے دشمن کی جیل میں اپنے ایمان اور
جہاد پر ثابت قدم رہنا… وہ عمل ہے جو انسان کو بہت سے ’’مجاہدات‘‘اور تکلیفوں میں
ڈالنے کا ذریعہ بنتا ہے… اسی طرح جیل میں اپنے دینی اعمال پر ثابت قدم رہنا بھی
آسان کام نہیں ہوتا… وہاں کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ نے نماز پڑھی یا نہیں… وقت پر
پڑھی یاقضا کردی… صبح دس بجے اٹھے یاچار بجے… وہاں معمولات کے بارے میں پوچھنے
والا بھی کوئی نہیں ہوتا… اور دشمن کی جیل
میں یہ دعوت چلانے والے شیاطین بکثرت پائے جاتے ہیں کہ… خود کو’’سیکولر‘‘ بنا کر
رکھو تاکہ آزادی مل سکے اورجیل میں زیادہ سختی نہ ہو… بہت سے باریش افراد اسی
پھندے میں پھنس کر داڑھی سے محروم ہوئے…کئی نے نمازیں ترک کر دیں اورکئی نے دینی
اعمال اور اچھے کردار سے ہاتھ دھولئے… آپ اپنے ملک میں چاروں طرف نظر دوڑائیں آپ
کو ایسی کئی شخصیات نظر آجائیں گی… جنہوں نے محض چارچھ ماہ کی قید میں ہی
اپنے’’نظریات‘‘ بدل لئے… بھائی محمد افضل شہید رحمۃ اللہ علیہ تیرہ سال تک ایسے ظالم اور موذی دشمن کی قید میں
رہے… مگر اُن کے نظریات میں ذرہ برابر تبدیلی نہ آئی… بلکہ اُن کے عزم اورشرح صدر
میںمزید اضافہ ہی ہوتا چلا گیا… وہ شادی شدہ تھے اور شادی شدہ افراد کے لئے جیل
کاٹنا کنوارے افراد کی بنسبت کافی مشکل ہوتا ہے… اُن کا ایک معصوم پھول جیساپیارا
بیٹا تھا… اس بچے نے جب سے شعور کی آنکھیں کھولیں اپنے والدکو سلاخوں کے پیچھے ہی
دیکھا… مگر اُسے یہ بات کبھی نہیں بھولے گی کہ اُس نے اپنے باپ کو ہمیشہ مسکراتے ہی
دیکھا… اُن کی اہلیہ کو اپنے خاوند کی قید کے دوران سوپور سے دہلی تک ڈھائی ہزار
بار سفر کرنا پڑا… کوئی اور ہوتا تو اپیلیں، فریادیں، انسانی حقوق کی دھائیاں اور
حکمرانوں کی منت سماجت کے راستے ڈھونڈتا… مگر یہاں ماشاء اللہ ہر
منظر ایمان اور زندگی سے بھرپور ہے… لوگ جیلوں میں بیٹھ کر لمبی لمبی درخواستیں
لکھتے ہیں… اپنی رہائی کے لئے بااثرافراد کو خطوط لکھواتے ہیں… مگر بھائی محمد
افضل رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ میں جب قلم
آیا تو وہ آفاق شہید رحمۃ اللہ علیہ کی
داستان لکھنے بیٹھ گئے… انہوں نے کشمیر کے نوجوانوں کو سمجھایا کہ پتھر چھوڑو
بندوق اٹھاؤ… انہوں نے گاندھی واد اور عدم تشدد کا پرچارکرنے والے لیڈروں کے مکر
کا پردہ چاک کیا… اور مسلمانوں کو ایمان اور جہاد کی طرف کھینچنے والا ایک ’’آئینہ‘‘
تیار کر ڈالا… ایک بات یاد رکھیں دنیا میں کسی انسان کی دنیاوی خواہش مکمل پوری نہیں
ہوتی… جو میاں بیوی ساتھ رہتے ہیں وہ بھی بالآخر ایک دن جدا ہوجاتے ہیں… بیس سال
دودھ اور شہد کی طرح محبت میں ساتھ رہنے والے میاں بیوی کے درمیان جب اچانک نفرت کی
لکیر آتی ہے تو انہیں آپس میں ایک ساتھ گزارا ہوا ایک دن بھی یاد نہیں رہتا…
انسان ساری زندگی شاہانہ کھانے کھائے صرف ایک دن معدے کا درد اٹھے تو یہ تک یاد نہیںرہتا
کہ پوری زندگی بکرے کھائے یا دال… بس ہر چیز بری لگنے لگتی ہے… انسان دنیا میںجتنی
بھی دنیوی عزت پالے پھر بھی اُس کے اندر کا احساس تنہائی ختم نہیں ہوتا… کیونکہ
نفس پرست انسانوں کا نفس … نعوذب اللہ خدائی
کا دعویدارہوتا ہے اور وہ سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق چاہتا ہے… اورپھر جب سب کچھ
اپنی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا ہے تو انسان…محرومی کے احساس میں تڑپنے لگتا ہے…
اس لئے یہ سوچنا
کہ جس کو دنیا میں کچھ نہیں ملا… وہ ناکام ہے… یہ بڑی غلط سوچ ہے… دنیا میں حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کو کیا ملا؟… آج اُن کے نام پر ویٹی کن میں سونے کی ریاست
قائم ہے… مگر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی غریبی، مسکینی اور مظالم سہتے ہوئے گزری…
اور بالآخر اُن کے دشمنوں نے انہیں اپنے گمان میں سولی پر قتل کر دیا… تب اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ سلامت اسی دنیوی زندگی کے
ساتھ آسمانوں پر اٹھا لیا… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کامیاب رہے، اُن کی کامیابی میں شک کرنا بھی کفر
ہے… مگر اپنی زندگی میں انہوں نے اس دنیا میں کیا پایا؟… معلوم ہوگیا کہ جو دنیا میں
اپنے مجاہدات اور تکلیفوں کا دنیوی بدلہ نہ پائے وہ زیادہ بڑا کامیاب ہوتا ہے… ابھی
کچھ دن پہلے جب لاہور والے’’داتا جی‘‘ کا عرس منا رہے تھے، پورا لاہور بند تھا…
اربوں پتی حکمران پھول چڑھانے مزار پر جارہے تھے… کروڑوں نہیں اربوں روپے اس عرس میں
اِدھر اُدھر ہورہے تھے… ہر طرف دیگیں ہی دیگیں پک رہی تھیں… تب مجھے خود حضرت ہجویری
رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے مجاہدات اور
تکلیفیں یاد آئیں کہ… لاہوریوں نے اُن کی زندگی میں اُن کے ساتھ کیا معاملہ کیا…
اور اب اُن کے وصال کے بعد کیا معاملہ کر رہے ہیں… حضرت ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا اسم گرامی’’علی‘‘ اور والد محترم کا
نام’’عثمان‘‘ ہے… آپ کی کنیت ابوالحسن تھی اور قبیلہ سادات کے چشم و چراغ تھے… ان
سب چیزوں کو جوڑیں تو پورا نام یوں بنتا ہے…
سید ابوالحسن علی
بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ
آپ لاہور کے رہنے
والے نہیں تھے… بلکہ افغانی تھے یعنی غزنی کے رہنے والے تھے… لاہور میں آپ جب اپنی
مایہ ناز کتاب’’کشف المحجوب‘‘ لکھ رہے تھے تو آپ نے افسوس کے ساتھ فرمایا کہ… میں
یہاں لاہور میں اپنے ناجنسوں… یعنی غیر مانوس لوگوں کے درمیان ہوں اور میرا کتب خانہ
غزنی میں رکھا ہے… اللہ تعالیٰ کے اس مقبول ولی کی پوری زندگی اسفار اور
مجاہدات میں گزری… اور دنیا میں ناقدری کے ایسے واقعات پیش آئے کہ آج کے بزرگ
اُن کا تحمل نہیں کر سکتے…
مگر آج ساری دنیا
مانتی ہے کہ… حضرت ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کامیاب تھے اور اُن کا فیض آج تک جاری ہے… مصر
کے معروف زمانہ ولی حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کےبارے میں آتا ہے کہ… اُن کے شہر اور محلے کے
لوگ تک اُن کو نہیں پہچانتے تھے… جبکہ آج ہماری یہ حالت ہے کہ کوئی دکاندار ہمیں
زیادہ رعایت نہ دے تو ہمیںخطرہ لگنے لگتا ہے کہ… شاید ہماری نماز قبول نہیں ہوئی
ہو گی… کیونکہ اگر نماز قبول ہوتی تو یہ دکاندار ہمیں زیادہ رعایت دیتا اور ہمارا
زیادہ اکرام کرتا…
اَسْتَغْفِرُﷲ،
اَسْتَغْفِرُﷲ، اَسْتَغْفِرُﷲ
کتنے خسارے کی بات
ہے کہ… ہر نیکی کا بدلہ دنیا ہی میں پانے کی خواہش انسان کے دل پر سوار ہوجائے…
بھائی محمد افضل
گورو رحمۃ اللہ علیہ نے جیل میں
بھرپور’’مجاہدہ‘‘پایا… ایسے ’’مجاہدہ‘‘ سے انسان کے اندر کی آنکھیں کھل جاتی ہیں…
اور اُسے ’’حقائق‘‘ کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے… اس کو ایک مثال سے سمجھیں… چار پانچ
سال کے ایک بچے کو بتایا جائے کہ ہم آپ کو… اسم اعظم سکھا دیں گے… یہ وہ اسم ہے
کہ جس کو پڑھ کر آپ جو کچھ مانگیں گے… وہ فوراًمل جائے گا… اب وہ بچہ کیا مانگے
گا… بہت سی چاکلیٹ، ٹافیوں کے بھرے ہوئے پیکٹ… اوریہ کہ میری امی مجھے دودھ کا فیڈر
لبالب بھر کر دیا کرے… آپ اس بچے کو لاکھ سمجھائیں کہ بیٹا آپ وزارت عظمٰی مانگیں،لندن
میں فلیٹ مانگیں، امریکہ کا گرین کارڈ مانگیں… خوبصورت دلہن مانگیں… مگر وہ نہیں
سمجھے گا،بلکہ ڈرے گاکہ دلہن آگئی تو آدھی ٹافیاں وہ کھا جائے گی… اب دوسرا منظر
آپ کسی بالغ عمر کے شخص کو اسم اعظم بتائیں… کیا وہ بھی ٹافیاں اور چاکلیٹ مانگے
گا؟… بلکہ اگر اُسے کہا جائے کہ اسم اعظم کے ذریعہ دعاء کر کے ٹافیاں مانگو تو
اُسے ہنسی آئے گی اور یہ سب کچھ مذاق معلوم ہوگا…
بس یہی حال اُن
لوگوں کا ہے جن کو ’’مشاہدہ‘‘ نصیب ہو… یعنی دیکھنے کی طاقت… اُن کو دنیا کی یہ
پوری زندگی ایک ٹافی جیسی لگتی ہے… یہاںکی حکومت، یہاں کی عزت، یہاںکی شہوات، یہاں
کی خواہشات… بس ایک ٹافی کے برابر… اور آخرت ہمیشہ ہمیشہ کی دائمی لذت… چنانچہ وہ
باوجود اسم اعظم رکھنے کے کبھی دنیانہیں مانگتے… بلکہ دنیا کی ناقدری اور دنیا کے
دکھ درد پر صبر کر لیتے ہیں… اور یوں کامیاب ہو جاتے ہیں… ایک اللہ والے بزرگ نے کسی کو بتایا کہ… میرا ہمیشہ تہجد
کا معمول ہے…اوراب یہ حالت ہے کہ تہجد کے وقت مجھے پوری دنیا ایک چھوٹے سے خوبصورت
گلدستے کی طرح نظر آتی ہے… اوروہ گلدستہ میرے سامنے رکھا ہوتاہے… سننے والے نے
تڑپ کر کہا! پھر آپ اس گلدستے کے کسی حصے پر اپنا ہاتھ کیوں نہیں رکھ دیتے؟ یعنی
دنیا میں سے وافر حصہ لے کیوںنہیں لیتے؟… وہ فرمانے لگے کہ ! اگرمیں تہجد کی نماز
کے بدلے اتنی چھوٹی سی دنیا لے لوں تو اس سے بڑا خسارے والا سودا اور کیا ہوگا؟…
انڈین حکومت اپنی پارلیمنٹ پر حملے کی وجہ سے سخت شرمندگی، ذلت اور غصے کا شکار تھی
اور اُس کے ہاتھ میں… یہ سارے بوجھ اتارنے کے لئے ایک ہی مظلوم جان تھی… اور وہ
تھے ہمارے پیارے بھائی محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ … انڈیا غصے اور غم سے
پھٹ رہا تھا جبکہ… پُرسکون ’’افضل‘‘ جیل میں ’’مشاہدے‘‘ کی اونچی منزلیں طے کررہا
تھا… بالآخر اُس کا ’’شرح صدر‘‘ ایک خاص مقام تک پہنچا تو…’’آئینہ‘‘ نامی کتاب
قلم سے کاغذ پر اُتر آئی… الحمدﷲ یہ کتاب شائع ہو چکی ہے… ہمارا پہلا ہدف کتاب کے
ایک لاکھ نسخے مسلمانوںتک پہنچانے کا ہے… آپ سب اس مبارک کام میں اپنا حصہ ڈالیں…ایک
زندہ، ایک شہید اور ایک مقبول انسان کے دینی کام کو ہم آگے بڑھائیں گے تو… ان شاء
اللہ ہمیں بھی زندگی اور قبولیت ملے گی…
بندہ نے چند نسخے
خرید کر تقسیم کرنے کی نیت کر لی ہے… آپ بھی کرلیں اور جلد اپنی نیت کو عمل تک
پہنچائیں… الحمدﷲ پورے ملک سے کتاب کے لئے ’’آرڈر‘‘ مکتبہ کو موصول ہو رہے ہیں
اور اہل مکتبہ کے پریشانی سے ہاتھ پاؤںپھول رہے ہیں… اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ…
بلاشبہ شہید زندہ ہے…
26جنوری۲۰۱۴ء اتوار کے دن…
مظفر آباد میں اس کتاب کی تقریب افتتاح کا اجتماع ہے… اجتماع میں شرکت کے تین
درجے ہیں… پہلا یہ کہ… اپنا مال اور اپنا وقت لگا کر خود اجتماع میں شریک ہوں… ایسے
مواقع زندگی میں روز نہیں آتے…
دوسرا درجہ یہ کہ…
اجتماع کے اخراجات میں مالی تعاون کریں اور تیسرا درجہ یہ کہ… دل کے مکمل اخلاص کے
ساتھ اجتماع کی کامیابی اورقبولیت کی مستقل دعاء اجتماع مکمل ہونے تک کرتے رہیں…
وَمَا تَوْفِیْقِیْ
اِلّا بِاللہ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْب
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیّدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مثالی ثمرات
جہاد اور دعوتِ
جہاد کے مثالی ثمرات کا پوری دنیا میں پھیلائو…
مایوسیوں کے پردے
چاک کرنے والی جانفزا تحریر…
کمانڈو ’’روشن خیالی‘‘کا
انجام…مظفر آباد کا مثالی اجتماع…
ربیع الاوّل منانے
والوں سے چند سوالات…
کیا کوئی جواب
ہے؟دعوت جہاد کا آغاز…
کچھ پرانی یادیں…برطانوی
مجاہدین… بھائی بلال شہید رحمۃ اللہ علیہ کی یاد…
مسلمانوں میں جہادی
کارناموں کے حوالے سے ممتاز اقوام…
کُرد قوم کا ماضی
وحال…شام میں مجاہدین کے باہمی انتشار کی افواہیں…
مسلمانوں کے دو
طبقے…جہادی طبقے کا عروج…
صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین اور برحق صوفیاء کرام
کا تعلق اسی طبقے سے ہے…
مجاہدینِ اسلام کو
مبارکباد… ان کی قربانیاں رنگ لائی ہیں…
مثالی ثمرات
اللہ
تعالیٰ کا شکر ہے’’ جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کی دعوت اور ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کا عمل… یہ دونوں بہت تیزی سے ساری دُنیا
میں پھیل رہے ہیں…
آج سے چند سال
پہلے پاکستان میں ایک طاقتور حکمران نے اعلان کیا تھا کہ… اب اس ملک میں صرف’’روشن
خیالی‘‘چلے گی… اور جہاد ’’انتہا پسندی‘‘ ہے اور ہم’’انتہا پسندی‘‘ کا مکمل خاتمہ
کردیں گے… اُن دنوں اُس حکمران نے جہاد کے خلاف ایسی سختی اٹھائی کہ… لوگ مجاہدین
کو’’مساجد‘‘ میں بیان تک نہ کرنے دیتے… اور کئی مدارس نے’’مجاہدین‘‘ کا داخلہ بند
کر دیا… سنا ہے وہ’’روشن خیالی‘‘ آجکل پنڈی کے ایک فوجی ہسپتال میں’’زیر علاج‘‘
ہے…
اُس بے چاری کو
سات بڑی بڑی ’’بیماریاں‘‘ لپیٹے پڑی ہیں… اُس کے دل کی بعض شریانیں بند ہیں…
کندھوں میں درد اور سر میں ڈپریشن کی تکلیف ہے… گردے ٹھیک کام نہیں کر رہے اور
مثانہ بُری طرح سے سوزش کا شکار ہے… یہ روشن خیالی اٹھتے بیٹھتے ایک ہی نعرہ لگاتی
تھی… سب سے پہلے پاکستان… مگر آج کل وہ فرماتی ہے!!… سب سے پہلے امریکہ میںعلاج…
روشن خیالی کی بیماری آئی ہی امریکہ سے تھی… اورپھر وہ امریکہ کی خاطر ہی بیمار
پڑی… اب علاج بھی امریکہ میں ہوگا… بھائیو دل سے کہہ دو
’’ﷲ اکبر کبیرا‘‘
یاد تو کرو آٹھ
دس سال پہلے کے حالات… اور پھر اپنے عظیم رب تعالیٰ کی قوت، نصرت اور تدبیر کو یاد
کرو… ماشاء اللہ جہاد زندہ ہے، خوب زندہ ہے، بلکہ زندگی بانٹ رہا
ہے… اور ہر طرف تیزی سے پھیل رہا ہے… ان شاء اللہ 26 جنوری ۲۰۱۴ء ایک مثالی
مجاہد کا اجتماع… مظفر آباد میں برپا ہوگا… معلوم نہیں اُس دن روشن خیالی کہاں
ہوگی؟ پاکستان میں یا امریکہ میں… اچھا اس بات کو تھوڑا سا روک کر ایک چھوٹی سی
وضاحت… ربیع الاوّل کا مہینہ گذررہا ہے اور اس بار’’ رنگ ونور‘‘ میں سیرت طیبہ کے
موضوع پر کچھ نہیں آیا… بات دراصل یہ ہے کہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم غلاموں کا رشتہ کسی خاص مہینے یا خاص
دن تک محدود نہیں ہے… ہم عیسائی نہیں… وہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سال میں’’کرسمس‘‘ کے دن یاد کرتے ہیں… یا کبھی
کبھار اتوار کے دن… جبکہ ہم مسلمان!
ہر ایک شام و سحر
سے پہلے
میں تجھ پہ آقا
درود بھیجوں
الحمدﷲ کافی عرصہ
سے معمولات کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ…صبح اور شام کے تمام معمولات کا آغاز درود شریف
سے ہوتا ہے…
اَللّٰھُمَّ صَلِّ
عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ فِیْ اَوَّلِ
کَلَامِنَا
اَللّٰھُمَّ صَلِّ
عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ فِیْ اَوْسَطِ
کَلَامِنَا
اَللّٰھُمَّ صَلِّ
عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ فِیْ آخِرِ کَلَامِنَا
ترجمہ اس درود شریف
کا مختصر طور پریہ ہے کہ… ہمارے ہر کلام کے شروع، درمیان اوراخیر میں… ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر درودو سلام ہو…
’’آل‘‘ کے ہم وہ معنیٰ لیتے ہیں جن میں…
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ، اہل بیت اور حضرات صحابہ کرام تمام
شامل ہوتے ہیں… اِس سال جب ربیع الاول شروع ہوا تو ارادہ بنا کہ مسلمانوں کے نام ایک
سؤالنامہ بھیجا جائے تاکہ وہ اُس پر خود غور کریں… اس سؤالنامے کے چند سؤال یہ
تھے؟
١ رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں…
بارہ ربیع الاول کا جلوس مدینہ منورہ میں کس مقام سے نکلتا تھا اور اس کا اختتام
کہاں ہوتا تھا؟
٢ اس
جلوس کے شرکاء نے کس رنگ کا لباس پہنا ہوتاتھا اور وہ جلوس کے راستے میں کیا پڑھتے
تھے؟
٣ حضرت
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ … جو سب سے بڑے
عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے اُن کے
دو سالہ دور خلافت میں… بارہ ربیع الاول کے مرکزی جلوس کی قیادت خود حضرت صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے یا آپ کا کوئی مقرر کردہ نائب؟…
٤ حضرت
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں… یکم ربیع الاول سے بارہ ربیع
الاول تک مدینہ منورہ کے کن کن مقامات پر چراغاں ہوتاتھا… مکہ مکرمہ میں عید میلاد
کا جلوس کس کی قیادت میں نکلتا تھا… اور عید میلاد کا مرکزی جلسہ اُن دنوں مکہ
مکرمہ میں ہوتاتھا یا مدینہ منورہ میں؟؟…
یہ ہیں چار سؤال…
اس طرح کے کل دس سوالات تھے آپ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں ان کے ’’جوابات‘‘
تلاش کریں… آپ کہیں گے کہ ہم نے بہت تلاش کیا… اُن دنوں تو کوئی جلوس نکلتا ہی نہیں
تھا… نہ کوئی محفل برپا ہوتی تھی… اور نہ چراغاں… پھر سؤال یہ ہے کہ اگراُن دنوں یہ
سب کچھ نہیں ہوتا تھا تو اب یہ سب کچھ کیوں لازم ہو چکا؟ دراصل غیروں کے ساتھ ساتھ
بہت سا قصور اپنوں کا بھی ہے… ہم مسلمانوں کے لئے سال کا ہر دن عشق رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کا دن ہے…
اَللّٰھُمَّ صَلِّ
عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ کُلَّمَا ذَکَرَہُ
الذَّاکِرُونَ وَکُلَّمَا غَفَلَ عَنْ ذِکْرِہِ الْغَافِلُونْ
بات واپس جہاد اور
اجتماع پر لاتے ہیں… ابتداء میں جہاد کے موضوع پر جب بعض مختصر رسالے لکھنے کی توفیق
ملی تو… ایک سال کے اندر ہی اُن رسالوں کا انگریزی ترجمہ ہونے لگا… اُس وقت یہ محض
ایک اتفاق لگتا تھا…برطانیہ کے کچھ مخلص دوست خود بخود متوجہ ہوئے… اور انہوں نے
بڑے سلیقے سے ترجمہ کیا اور ان کتابچوں کو برطانیہ ہی سے شائع کر دیا… اُن دنوں
برطانیہ اور یورپ کے مسلمانوں میں’’مجاہدین‘‘ بہت ہی کم تھے… انہیں صرف’’ بوسنیا‘‘
کا محاذ میسر تھا اور یہ محاذ بھی بہت جلد بند ہوگیا… جبکہ بعض مجاہدین نے
افغانستان اور کشمیر کارخ کیا… یہ تمام افراد بس اتنے تھے کہ انہیں آسانی سے انگلیوں
پر شمار کیا جا سکتا تھا… مگر جب انڈیا سے رہائی پر واپسی ہوئی تو دیکھا کہ
افغانستان اور کشمیر دونوں طرف… یورپی مجاہدین جنہیں آپ’’پونڈ اینڈ یورو
کمانڈوز‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں… کافی تعداد میں محاذوں پر موجود ہیں… کل رات ایک پرانی
کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے اپنے قلم سے لکھا ہوا وہ مضمون سامنے آگیا جو برطانیہ
کے ایک مجاہد… بلال شہید رحمۃ اللہ علیہ کی
یاد میں تھا…
مقام کرگس وشاہیں
ہے اپنے ظرف کی بازی
جو ٹھکرا دے صراحی
کو اُسے مے خانہ ملتا ہے
اُس مضمون میں
لکھا تھا کہ… آج کل کتنے لوگ برطانیہ کے پاسپورٹ کے لئے اپنی زمین سے لیکر اپنے
ضمیر تک کیا کچھ بیچ ڈالتے ہیں… جبکہ بلال شہید رحمۃ اللہ علیہ کے پاس یہ پاسپورٹ پیدائشی طور پر موجود تھا…
مگر اُس نے ادنی اور حقیر چیزکو چھوڑ کر… اعلیٰ خیر یعنی شہادت کو پالیا… پھر نائن
الیون شروع ہوگیا…برطانیہ، یورپ اور امریکہ کے مجاہدین کے لئے افغانستان اور کشمیر
جاناممکن نہ رہا… مگر پھر اچانک عراق سے لیکر شام تک اور لیبیا سے لیکر مالی تک
محاذ ہی محاذ کھلتے چلے گئے… پچھلے دنوں خبر آئی کہ صومالیہ میں کئی ہزار امریکی
اور یورپی مجاہدین موجود ہیں… اب خبرآرہی ہے کہ عراق اور شام میں کئی ہزار برطانوی
اور یورپی مجاہدین موجود ہیں… اوریہ بھی بتایا جارہا ہے کہ… صرف مرد ہی نہیں بلکہ
بہت سی خواتین بھی امریکہ، برطانیہ اور یورپ سے ہجرت کر کے… جہادی محاذوں تک جا
پہنچی ہیں اور وہ باقاعدہ جنگ میں حصہ لے رہی ہیں…
ماضی میں عربوں کے
لئے صرف ایک محاذ تھا… مگر اب’’عرب مجاہدین‘‘ کے لئے دنیا میں کم ازکم آٹھ یا نو
بالکل کھلے محاذ موجود ہیں اور ان محاذوں پر… عرب مجاہدین کی تعداد سینکڑوں میں نہیں
بلکہ ہزاروں میں ہے… مسلمانوں میں بعض قومیں جہادی حوالے سے بہت اونچی تاریخ رکھتی
ہیں… مثلاً کُرد قوم… آپ جانتے ہوں گے کہ نامور مسلمان فاتح حضرت سلطان صلاح الدین
ایوبی رحمۃ اللہ علیہ ’’کُرد‘‘ تھے… مگر
دشمنان اسلام کی طرف سے اس قوم کے خلاف سخت محنت کی گئی اور ان میں… علاقائی اور
لسانی قوم پرستی کے جراثیم پھیلائے گئے تاکہ یہ قوم اپنی جنگی صلاحیتوں کو اسلام
کے لئے استعمال نہ کر سکے…دوسری طرف انہیں جغرافیائی طور پر کئی ملکوں میں تقسیم
کر دیا گیا… کچھ عراق، کچھ ترکی اور کچھ شام میں پھنس گئے… مگر الحمدﷲ تحریک جہاد
کی برکت سے اب کُردوں میں بھی اسلامی اور جہادی رجحانات بڑھ رہے ہیں… اور عراق کے
بہت سے کُرد حریت پسند… اب ما شاء اللہ باقاعدہ ’’مجاہد‘‘ بن چکے ہیں… جہاد اورمجاہدین
کے خلاف’’میڈیا‘‘ پر آج کل کافی منفی خبریں آرہی ہیں… مثلاً شام کے مجاہدین آپس
میں لڑ پڑے ہیں وغیرہ…
یہ تمام خبریں
بناوٹی،جھوٹی اور مبالغہ پر مبنی ہیں… امریکہ اور یورپ نے ’’بشار الاسد‘‘ کی پیٹھ
پر ہاتھ رکھ دیاہے بس اسی ہاتھ رکھنے سے… یہ تمام خبریں جنم لینے لگی ہیں… مجاہدین
میں تھوڑے بہت اختلافات چلتے رہتے ہیں… کبھی کبھار لڑائی جھگڑا بھی ہوجاتا ہے…پونڈ
اوریورو کے نوٹ جہاں پہنچیں اور وہاں جھگڑا نہ ہو یہ ممکن نہیں ہے… مجاہدین بھی
سارے’’برحق‘‘ نہیں ہوتے، بہت سے دشمن بھی’’مجاہدین‘‘ کا روپ دھار کر انہیں بدنام
کرتے ہیں… سب’’مجاہدین‘‘ کا ظرف بھی ایک جیسا نہیں ہوتا… کچھ صبر اور بلند مقام
والے ہوتے ہیں… جبکہ کچھ تھوڑی سی فتوحات دیکھ کر بہک جاتے ہیں…
قرآن و حدیث نے
پہلے سے یہ سب کچھ ہمیں بتا دیا ہے… اس لئے الحمدﷲ ہم اس طرح کی خبروں سے مایوس نہیں
ہوتے…اول تو یہ خبریں جھوٹی اور مبالغہ آمیز ہیں… اگر شامی مجاہدین آپس میں اتنی
سخت جنگ لڑ رہے ہوتے جو خبروں میں آرہی ہے تو ’’بشارالاسد‘‘ کی حکومت اُن کا کچومر
نکال دیتی… جبکہ حال یہ ہے کہ کل ہی شامی وزیر خارجہ نے مجاہدین سے قیدیوں کے
تبادلے اور بعض علاقوںمیںجنگ بندی کی بھیک مانگی ہے… دوسری بات یہ ہے کہ اگر مجاہدین
کے درمیان جنگ کی یہ خبریں سچی ہیں تو … سوچنے کی بات یہ ہے کہ مجاہدین اب کس قدر
طاقتور ہو چکے کہ ایک ہی وقت میں دشمنوں سے بھی لڑ رہے ہیں اور آپس میں بھی لڑ
رہے ہیں… کیونکہ اب تک یہ تو کسی نے نہیں سنا کہ شامی حکومت نے کوئی علاقہ مجاہدین
سے خالی کرالیاہے…
دراصل اس وقت
مسلمانوں کے دوطبقے ہیں… ایک وہ طبقہ جو اپنے دین کی خاطر لڑ سکتا ہے، لڑنا چاہتا
ہے،یا لڑنے والوں کے ساتھ تعاون اور محبت کا تعلق رکھتا ہے… اور دوسراوہ طبقہ جو
اپنے دین کی خاطر نہیں لڑ سکتا اور نہ ہی لڑنا چاہتا ہے… اور نہ ہی دین کی خاطر لڑی
جانے والی کسی جنگ میں تعاون کرتا ہے… اب سے کچھ عرصہ پہلے تک مسلمانوںمیں پہلا
طبقہ آٹے میں نمک برابر بھی نہیں تھا… حالانکہ تمام کے تمام حضرات صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین اسی طبقے سے تعلق
رکھتے ہیں… تمام برحق صوفیاء کرام بھی اسی طبقے سے تھے… قرآن مجید اول تا آخر…
اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت
طیبہ اول تا آخر مسلمانوں کو اسی طبقے میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں… جبکہ
دشمنان اسلام کی ہمیشہ سے یہ محنت ہے کہ… مسلمان یا تو کافر بن جائیں اور اگر کافر
نہیں بنتے تو دوسرے طبقے والے مسلمان بن جائیں تاکہ… انہیں اور ان کی نسلوں کو
غلام بنا کر رکھا جا سکے… الحمدﷲ گذشتہ پچیس تیس سال کے جہاد کا یہ کھلا ثمرہ اور
نتیجہ سامنے آیا ہے کہ… مسلمانوں کے پہلے طبقے میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے… اور یہ
طبقہ جوں جوںبڑھتا جائے گا کفر اوراس کی طاقت اسی قدر کمزور ہوتی چلی جائے گی…
مقصد یہ کہ دور حاضر کی جہادی تحریک کے نتائج اور ثمرات بہت وسیع اورمثالی ہیں…
مبارک ہو شہداء اسلام کو… بے شک اُن کا خون رائیگاں نہیںگیا…مبارک ہو غازیان اسلام
کو کہ… اُن کا جہاد بے کار نہیں گیا… مبارک ہو جہاد میں ایک لمحہ، ایک پیسہ یاایک
پسینے کا قطرہ لگانے والوں کو کہ… ان کی کوئی قربانی نہ اس دنیا میں رائیگاں گئی
اور نہ ہی ان شاء اللہ آخرت میں ضائع ہو گی… بے شک انسان اپنی
سوچ کے مطابق مانگتا ہے… مگر اللہ تعالیٰ قربانی دینے والوں کو ان کی سوچ سے بہت زیادہ…
اپنی شان کے مطابق عطاء فرماتے ہیں… وہ دیکھو!
فریضہ
جہاد کی فصل زمین کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک… اور دنیا سے لیکر جنت تک… جھوم
جھوم کر لہلہا رہی ہے…
محمد افضل گورو شہید
رحمۃ اللہ علیہ کانفرنس کے شرکاء کو… دل کی
گہرائیوں سے خوش آمدید
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا ﷲ محمد
رسول ﷲ
٭٭٭
منظرِ نصرت
بھائی افضل گورو
شہید رحمۃ اللہ علیہ کے عنوان سے مثالی اجتماع اور چندمناظر نصرت…
ایک فدائی مجاہد
’’مسرور شہید‘‘ کی امانت…
عامۃ المسلمین کے
لیے دعائے مغفرت کی فضیلت واہمیت…
بھائی افضل گورو
شہید رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں نظم کا ایک خاص شعر اور اس کا دل پر اثر…
شہید کی مقبولیت
اور اکرام من اللہ…
دو رستے زخم… ایسے
واقعات جنہوں نے زندگی پر گہرا اثر ڈالا…
بابری مسجد کی
شہادت… بھائی افضل گورو کی شہادت…
ان دونوں واقعات کی
خصوصیت…
مخصوص احوال اور
بھیانک ایجنڈا…
ہندو انتہا پسندوں
کی ستر سالہ محنت کا نچوڑ…
اہل ایمان سے
مطالبہ…
منظرِ نصرت
اللہ
تعالیٰ قبول فرمائے… الحمدﷲ بھائی محمد
افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ کا اجتماع
واقعی ایک منفرد، مثالی اور زندہ اجتماع تھا…
الحمدللہ الذی
بنعمتہ تتم الصّالحات
اجتماع کا آنکھوں
دیکھا حال تو وہ احباب ان شاء اللہ بیان کریں گے… جن کی خوش نصیب آنکھوں نے یہ
اجتماع دیکھا… بندہ نے اس حوالے سے چند باتیں عرض کرنی ہیں… مگر پہلے ایک امانت…
پہلے ایک شہید کی
امانت
میرے تھیلے میں ایک
باوفا’’شہید‘‘ کا خط ہے، انہوں نے آپ بھائیوں اور بہنوں کے لئے ایک قیمتی پیغام دیا
ہے… انہیں کے سادہ اور پر تأثیر الفاظ میں پڑھ لیجئے تاکہ مجھے یہ امانت حرف بحرف
پہنچانے کا ثواب مل جائے… بھائی محمد مسرور احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت ایک عرض ہے کہ اگر ہو سکے تو جماعت کے
روزآنہ کے معمولات(میں) ایک دعاء کا اضافہ فرمائیں
’’اللھم اغفر للمؤمنین والمؤمنات‘‘
تاکہ(ہر) ساتھی
روزآنہ امت کے لئے دعاء کر سکے…‘‘
سبحان اللہ ! شہداء کرام بھی عجیب لوگ ہیں… اپنے ساتھیوں
کے اعمال بڑھانے کی فکر، انہیں غیبت سے بچانے کی فکر، اور پوری امت مسلمہ کے لئے
مغفرت کی فکر…
انہوں نے جس عمل کی
طرف اشارہ فرمایا ہے، اس پر پہلے بھی تفصیل سے لکھ چکا ہوں اور اب اپنے ایک لاڈلے
بھائی کی فرمائش پر ان شاء اللہ رنگ ونور یا مکتوب کے ذریعہ ایک بار پھر تفصیل
سے توجہ دلانے کا ارادہ ہے… آج صرف اتنا ہی کہ یہ بڑا قیمتی عمل ہے… جو مسلمان بھی
اپنے تمام مسلمان بھائیوں کے لئے روزآنہ ستائیس بار استغفار کرتا ہے، اُسے تین
نقد انعامات دیئے جاتے ہیں:
١ تمام
مسلمانوں کی تعداد کے برابر نیکیاں اُس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں…
٢ اُسے’’مستجاب
الدعوات‘‘ بنا دیا جاتا ہے… یعنی اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں…
٣ اس
کی برکت سے بہت سے افراد کو روزی عطاء فرمائی جاتی ہے…
یہ باقاعدہ مسنون
عمل اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور فرشتوں کا وظیفہ ہے… الفاظ کوئی بھی
ہوں مقصد یہ کہ دل کی توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے
مغفرت کی دعاء مانگی جائے…
رَبِّ اغْفِرْلِیْ
وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَاب
یا
اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْلِیْ وَلِلْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ
وَالْمُسْلِمَاتِ اَلْاَحْیَائِ مِنْھُمْ وَالْاَمْوَاتِ…
یا
وہ الفاظ جو شہید
ساتھی نے لکھے ہیں…
کم سے کم مقدار
ستائیس بار روزآنہ… اور زیادہ جس قدر بھی ہو سکے… اب واپس آتے ہیں اجتماع کی
طرف…
ایک شعر، دل کی
آواز
بابری مسجد کی
شہادت کے بعد جس اجتماعی غم نے دل کو بہت رُلایا… اور اپنی زندگی میں بعض تبدیلیوں
پر مجبور کیا… وہ بھائی محمد افضل گورو رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت ہے… اس غم پر دل کی جو حالت تھی وہ
ہمارے بھائی وامق انصاری کے اس شعر میں کچھ کچھ آگئی ہے:
اُٹھا اس شان سے
تو چاہنے والوں کی محفل سے
کلیجہ چیر ڈالا
چشم کو تر کر دیا تو نے
مجھے یہ نظم بہت
پسند آئی… اس کے چند اشعار بہت گہرے اور دل کی آواز ہیں… فوراً یہ خواہش ابھری
کہ اس نظم کو خوبصورت آواز مل جائے، محنت شروع ہوئی تو بھائی محمد افضل شہید رحمۃ
اللہ علیہ کی ایک اور کرامت ظاہر ہوئی اور
سید عزیز الرحمن شاہ صاحب کی آواز میں نظم کو مزید شان مل گئی… نظم کے بارے میں
اتنی محنت اُس کے’’مقطع‘‘ یعنی آخری شعر کی وجہ سے ہرگز نہیں تھی… بلکہ جب یہ نظم
پڑھنی شروع کی تو پانچویں شعر پر ہی دل کے زخم آنکھوں سے بہنے لگے… اور تمنا ہوئی
کہ اس درد کوترنم ملے تاکہ دور دور تک بھائی محمد افضل شہید رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام پہنچے… عجیب بات ہے!بھائی محمد افضل
گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ کی’’زندہ
کرامات‘‘ ان کی شہادت کے بعد سے مسلسل ظاہر ہو رہی ہیں… بے شک اللہ تعالیٰ اپنے ’’شہداء‘‘ کا بہت اکرام فرماتے ہیں…
کتاب کا بحفاظت پہنچ جانا، کتاب پر اتنا عمدہ کام ہونا، کتاب کا بروقت شائع ہونا…
اجتماع کا فیصلہ… دور دور سے مسلمانوں کا مظفر آباد کھنچے چلے آنا… مجاہدین کا
فدائی جذبے سے محنت کرنا… بیانات پر انوارات کا برسنا… اور بہت کچھ…
جماعت والے یہ سب
کچھ نہ کرتے تو کوئی پوچھنے ٹوکنے والا نہیں تھا… ساتھی روز شہید ہوتے ہیں… جہادی
جماعت میں’’شہادت‘‘ کوئی نئی بات نہیں ہے… بھائی افضل کا کوئی خونی نسبی رشتہ دار
بھی یہاں موجود نہیں جو طعنہ دیتا کہ آپ نے اپنے شہید کو بُھلا دیا… مگر ان تمام
باتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے کس طرح سے ہزاروں افراد کو… اپنے ایک’’شہید‘‘
کے کام پر لگا دیا… نہ کسی کو گھر یاد رہا نہ کوئی اور کام لکھنے والوں کے قلم
خودبخود’’شہید‘‘ کی یاد اور تعریف میں جولانیاں بھرنے لگے… کیا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’محمد افضل گورو شہید رحمۃ
اللہ علیہ ‘‘ کا اکرام نہیں؟… یہ مناظر دیکھ کر تو ہر مسلمان کادل’’شہادت‘‘ کے لئے
مچلنے لگتا ہے… لوگوں میں’’مقبولیت‘‘ دیکھ کر نہیں، اللہ تعالیٰ کے ہاں’’قبولیت‘‘ کے علامات دیکھ کر…
لوگوں میں ’’مقبولیت‘‘ کا کسی شہید کو کیا فائدہ؟… ہاں اللہ تعالیٰ کے ہاں’’قبولیت‘‘ کی بعد جو مقبولیت ملتی
ہے… اُس کا ہر شہید کو فائدہ پہنچتا ہے… بے شمار دعائیں، استغفار، ایصال ثواب… اور
سب سے بڑھ کر جس کام پر جان دی اُس کام کا ترقی پانا… آپ نے وہ قصہ تو بارہا سنا
ہوگا کہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک شہید کو اپنے مبارک ہاتھوں میں اٹھا کر
اور سینہ اطہر سے لگا کر دفن فرما رہے تھے تو… کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین نے کہا! کاش ان کی جگہ ہم ہوتے…
دورِستے ہوئے زخم
بعض واقعات بظاہر
دیکھنے میں بالکل عام سے لگتے ہیں… مگر اُن کے پیچھے بہت بڑے طوفان چھپے ہوتے ہیں…
اُس وقت اہل ایمان بیدار ہوجائیںاور اپنی طاقت کے مطابق اپنا فرض ادا کردیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد آجاتی ہے اور طوفان رک جاتے ہیں…
اہل مکہ نے ’’غزوۂ حدیبیہ‘‘ کے موقع پر جب حضرت سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو روک لیا اور ان کی شہادت کی خبر اڑا دی… یہ
بظاہر عام واقعہ تھا… مسلمان شہادتوں کے عادی تھے… بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین بدر، احد اورخندق وغیرہ کی
جنگوں میں شہید ہو چکے تھے… مگر حقیقت میں یہ عام واقعہ نہیں تھا… مشرکین مکہ
دراصل یہ اندازہ لگا رہے تھے کہ مسلمان کیا کرتے ہیں… اگر مسلمان انتقام کا فیصلہ
نہ کرتے اور کہتے کہ ہم بعد میں نمٹ لیں گے تو مشرکین مکہ بھرپور قوت کے ساتھ…
اسلامی قافلے پر حملہ آور ہو جاتے… وہ اپنے گھر کے قریب تھے اور چاروں طرف کے
قبائل اُن کے ساتھ تھے… لیکن جب حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’انتقام‘‘ کاحتمی فیصلہ فرما دیا اور موت پر
بیعت شروع ہوئی تو… سارے طوفان اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور طاقت سے موڑ دیئے… بابری
مسجد کی شہادت ہندوستان میں بظاہر کوئی نیا واقعہ نہیں تھا… وہاں مشرقی پنجاب،
مغربی بنگال اور کئی علاقوںمیں اب تک سینکڑوں مسجدیں شہید کی جا چکی ہیں… مگر
’’بابری مسجد‘‘ کی شہادت کے پیچھے’’راشٹریہ سیوک سنگھ‘‘ کی مسلسل ستر سالہ محنت
کار فرما تھی… یہ ایک ’’امتحان‘‘ تھا کہ مسلمان کیا کرتے ہیں؟… اور مسلمانوں کی
خاموشی کی صورت میں تین ہزار مساجد کی فہرست تیارتھی جو چھ ماہ میں شہید کر دی جاتیں…
لوگوں کو دراصل’’سنگھ پریوار‘‘ کی سیاست اور محنت کا علم نہیںہے… اور نہ ہی وہ یہ
جانتے ہیں کہ یہ ابوجہلی تنظیم ہندوستان کے ہر مسلمان کو ہندو بنانا یا اُسے قتل
کر دینا اپنا مشن سمجھتی ہے… اس تنظیم کی سیاسی شاخ’’ بی جے پی‘‘ ہے اور شیوسینا…
اور اس کی نظریاتی شاخ’’وشواہندو پریشد‘‘… اور اس کی عسکری شاخ’’بجرنگ دل‘‘ ہے…اس
تنظیم کے مالی اثاثے اربوں ڈالر کے ہیں اور ان کا نیٹ ورک دنیا کے کئی ممالک میں
پھیلا ہوا ہے… یہ نام، شکل اور انداز بدلنے میں ماہر ہیں… بالی وڈ کے کئی فنکار،
انڈین کرکٹ کے کئی کھلاڑی… اور دنیا کے کئی ارب پتی ان کے باقاعدہ نظریاتی ممبر ہیں…
میں اُن کے کام کے طریقوں کی تفصیل میں نہیں جاتا… عرض یہ کرنا ہے کہ ستر سال کی
جان توڑ محنت کے بعد انہوں نے… ہندوستان کی مساجد اور مسلمانوں پر بڑا ہاتھ ڈالنے
کی طاقت بنالی… اور اس طاقت کا امتحان تھا ’’بابری مسجد‘‘ کا واقعہ… مگر اللہ تعالیٰ غالب ہے، یہ مشرکین مکہ کے گندے انڈے اللہ تعالیٰ کی طاقت کو نہیں جانتے … انہوں نے بس اپنی
اور مسلمانوں کی طاقت کو تولا… آس پاس کے سیاسی ماحول کو دیکھا، دنیا کے حالات کو
اپنا موافق پایا تو بابری مسجد پر چڑھ دوڑے… اس کے بعد انہوں نے اصل طوفان اٹھانا
تھا… مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں کو بابری مسجد کے
درد سے زندہ فرما دیا… بندہ اس وقت کراچی میں مقیم تھا جب یہ واقعہ ہوا تودل بے
قرار اور زخمی ہوگیا… الحمدﷲ مسلمانوں کی طرف سے ایسا ردّ عمل آیا کہ… مشرکین
کواپنے ارادے بدلنے پڑے…جب بابری مسجد گرانے کا سب سے بڑا مجرم اور رام مندر کا سب
سے بڑا داعی ’’پرم راج ہنس سنگھ‘‘ اپنی آخری بھوک ہڑتال پر بیٹھا تو دل کو ہلکا
سا قرار آیا… اس نے کہا ہم نے’’بی بے پی‘‘ کو حکومت دلوائی کہ وہ’’رام مندر‘‘ بنا
دے مگر وہ بھی نہیں بنا رہی تو اب میرے جینے کا کیا فائدہ میں نے مرنے کا ارادہ کر
لیا ہے… وہ طاقتور رہنما تھا اورمنٹوں میں بی جے پی حکومت کو گرا سکتا تھا… تب’’بی
جے پی‘‘ کے واجپائی اور ایڈوانی اُس کے قدموں میں گرے، اپنی مجبوریاں بتائیں، کچھ
دن مزید انتظار کا کہا اور بھوک ہڑتال ختم کرادی… مگر وہ چند دن بعد اپنی حسرتوں
کے ساتھ مر گیا… دل کو کچھ خوشی ہوئی کہ ہم اگر بابری مسجد کو دوبارہ تعمیر شدہ نہیں
دیکھ سکے تو الحمدﷲ… مشرک لیڈر بھی رام مندر دیکھنے کی حسرت لئے مرگیا ہے…یہ خوشی
ایک پہلو سے تھی… اصل درد دل میں باقی ہے… اللہ تعالیٰ اتنی قوت دے کہ ہم دوبارہ بابری مسجد کو
اس کے اصل مقام پر دیکھ سکیں… بس ایک بار خواب میں تعمیر شدہ بابری مسجد کی زیارت
ہوئی کہ بندہ اور جماعت کے چندساتھی اس میں نماز ادا کر رہے ہیں… اللہ کرے مجاہدین کبھی بابری مسجد کو نہ بھولیں… یہ
زخم دل میں موجود تھا کہ دوسرا زخم بھائی محمد افضل گورو کی شہادت نے لگا دیا…
جماعت کے شہداء کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ ہے… مگر یہ عام واقعہ نہیں ہے… یہ
مشرکوں کی طرف سے مجاہدین پر آخری وار کرنے کا پہلا امتحان ہے… اوراس کے لئے
انہوں نے بہت محنت اور بہت انتظار کیا ہے… وہ جوناگڑھ اور حیدر آباد کی طرح کشمیریوں
کا قتل عام کرنا چاہتے ہیں… وہ مشرقی پنجاب کے سکھ حریت پسندوں کی طرح کشمیری
مسلمانوں کا بھی لوہے کے رولروںمیں قیمہ بنانا چاہتے ہیں… انہیں پاکستان کی طرف سے
کافی اطمینان ہے کہ… یہاں کے حکمران اب روٹی، پیسے، تجارت اور عیاشی کے چکر میں ہیں…
انہوں نے بارڈر پر باڑھ بھی لگا دی ہے… انہوں نے اجمل قصاب کو شہید کیا تو کوئی اس
کا وارث بننے کو تیار نہ ہوا تب اس نے’’بھائی محمد افضل گورو ‘‘ کو شہید کر دیا…
وہ ہمارے ساتھی تھے، ہم انہیں بارہ سال تک رہا نہ کروا سکے… ہم نے مشرکوں پر جو
دباؤ بنا رکھا تھا اس میں بھی کمی آئی… یوں مشرک کا حوصلہ بڑھا اور اس نے ایک
بڑے طوفان کو مسلمانوں پر اٹھانے کا فیصلہ کرلیا… انڈیا پاکستان کے وجود کو تسلیم
نہیں کرتا وہ اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا ہے…بنگلہ دیش عملاً اُس کے قبضے میں ہے… کشمیر
اس کی فوجوں کے نرغے میں ہے… اور پاکستان کے حکمران کسی خطرے کا ادراک کرنے سے
قاصر ہیں… ایسے وقت میں یہ بھائی محمد افضل گورو کی ’’شہادت‘‘ بالکل کوئی عام
واقعہ نہیں… اس وقت اگر ہم نہ جاگے اورہم نے اپنی طاقت کے مطابق قدم نہ اٹھایا تو…
برصغیر ایک دوسرا’’اسپین‘‘ بننے کو تیار ہے… مگر بھائی محمد افضل گورو شہید رحمۃ
اللہ علیہ کے درد نے مسلمانوں کو جھنجھوڑ
دیا ہے… الحمدﷲ عملی میدانوں سے لے کر… دعوتی میدانوں تک ایک نئی زندگی محسوس کی
جارہی ہے… سینکڑوں نوجوان بھائی محمد افضل گورو شہید رحمۃ اللہ علیہ کاانتقام لینے کے لئے بے چین اور تیار ہیں… مظفر
آباد کا اجتماع اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کا ایک منظر تھا… اب ہم نے اپنے
زخمی دلوں کے ساتھ اس کام کو ان شاء اللہ آگے بڑھانا ہے… ہندوستان نے ہمیں ختم کرنے کے
لئے یہ’’امتحانی قدم‘‘ اٹھایا مگر الحمدﷲ حالات کے تیور خود اس کے خلاف جارہے ہیں…
بھائیو! یہ ایمان اور کفر کی جنگ ہے… یہ خالص اسلامی جہاد ہے… یہ برصغیر کے ساٹھ
کروڑ سے زائد مسلمانوں کے ایمان کو بچانے کی لڑائی ہے… پیچھے نہ ہٹو، سستی اور کم
ہمتی نہ دکھاؤ… اگر تم نے اس موقع پر ایمان کا مطالبہ پورا کیا تو ان شاء اللہ تم
ہی غالب رہو گے…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علٰی سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مؤقف اور امکانات
حکومت اور تحریک
طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کا آغاز…
اس بارے میں موقف
کی وضاحت اور کامیابی کے امکانات کا جائزہ…
ایک راہنما تحریر…
دعاء ِعافیت کی تاکید… نماز میں اس دعاء کی ترغیب…
معافی اور عافیت میں
فرق…مذاکرات کے بارے میں مؤقف…
مذاکرات کی کامیابی
کے امکانات پانچ فیصد… وجوہات…
میڈیا کی طاقت اور ہر معاملے میں
حد سے زیادہ دخل اندازی…
دونوں کمیٹیوں کی
کمزوری اور بے اختیاری…
آگ کے بھڑکنے کی
اصل وجہ… حکمرانوں کی اصلاح سے روگردانی…
فریقین کا باہمی
انتشار… ہر معاملے میں غیر ملکی عمل دخل اور حکمرانوں کی غلامی…
جہاد کرنے والے
جہاد میں لگے رہیں…
اتحادی افواج کی
افغانستان میں بدکردار یاں…
فدائینِ اسلام اور
جہاد پر ڈٹنے والوں کو سلام!!!
مؤقف اور امکانات
اللہ
تعالیٰ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا
سؤال ہے:
اَللّٰھُمَّ
اِنَّا نَسْئَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃ
حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم … اللہ تعالیٰ سے’’عافیت‘‘ کا سؤال فرماتے تھے اور آپ
نے مسلمانوں کو بھی تاکید فرمائی کہ وہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگا کریں… اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنے محبوب چچا حضرت سیّدنا
عباس رضی اللہ عنہ کو بار بار اس بات کی ترغیب دی کہ اے میرے چچا! اللہ تعالیٰ سے’’عافیت‘‘ مانگا کریں…
ایک ہے’’معافی‘‘
اورایک ہے’’عافیت‘‘ دونوں کا کیا مطلب ہے اور دونوں میں کیا فرق ہے؟
ایک بہت اونچی
دعاء جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی
سب سے عزیز اہلیہ محترمہ حضرت سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سکھائی…
اَللّٰھُمَّ
اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی
اس میں’’معافی‘‘
کا سوال ہے… یا اللہ آپ معاف فرمانے والے ہیں، معافی کو پسند کرتے ہیں،
مجھے معاف فرمائیں…
لوگ سمجھتے ہیں کہ
یہ’’دعاء‘‘ صرف رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مانگی جاتی ہے… یہ بڑی غلطی ہے…
روز مانگا کریں اور بار بار مانگا کریں… آج جب یہ کالم پڑھیں تو فرض کے علاوہ اپنی
باقی نمازوں کے رکوع، سجدے، قومے اور جلسے میں دل کی توجہ سے یہ دونوں نعمتیں مانگیں…معافی
بھی… اور عافیت بھی، آپ عجیب سکون اور لطف پائیں گے…
معافی سے گناہ ایسے
مٹ جاتے ہیں کہ کسی بھی جگہ اُن کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا اور عافیت سے
گناہوں کی سزائیں، نعمتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں…
معافی اور عافیت
کا مطلب اور ان دونوںمیں فرق پھر کبھی ان شاء اللہ … آج کچھ باتیں حالات حاضرہ پر عرض کرنی ہیں…
مذاکرات کے بارے
ہمارا مؤقف
حکومت اور مقامی
طالبان کے درمیان مذاکرات کا ماحول بن رہا ہے… اس بارے میں جو خبریں آرہی ہیں،
اُن کو دھرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ آپ سب میڈیا پر مجھ سے زیادہ
اپنا وقت ضائع کرتے ہیں… اس لئے لازمی بات ہے کہ آپ کے علم میں’’خبریں‘‘ بھی مجھ
سے زیادہ ہوں گی… ہمارے رفقاء اس بارے ’’جماعت‘‘ کا موقف پوچھتے ہیں… جماعت کا
موقف یہ ہے کہ ہم مذاکرات کے حامی ہیں، پاکستان میں ایمان اور امن دیکھنا چاہتے ہیں
اور مذاکرات کے بارے میں نیک تمنائیں رکھتے ہیں…
امکانات
ہمارا موقف تو وہی
ہے جو اوپر آپ نے پڑھ لیا… اب آتے ہیں ان مذاکرات کے نتائج اور امکانات کی طرف
تو نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اب تک جو اقدامات فریقین کی طرف سے
ہوئے ہیں ان میں ان مذاکرات کی کامیابی کا امکان صرف پانچ فیصد ہے… یعنی نہ ہونے
کے برابر…
وجوہات
مذاکرات کے کامیاب
نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے چند اہم وجوہات یہ ہیں…
١ مذاکرات
میں’’میڈیا‘‘ کا حد سے زیادہ عمل دخل… میڈیا غیروں کے قبضے میں ہے درجنوں چینل ہیں
جن کو اپنا پیٹ بھرنے کے لئے خبروں کی ضرورت رہتی ہے… خبریں نہ ملیں تو افواہوں سے
کام چلتا ہے…میڈیا شہرت پسندی کے جراثیم پھیلا رہا ہے حالانکہ مسئلہ خون کا ہے،
جانوں کا ہے، ملک کی بقا کا ہے… او رایسے مسائل کے حل کے لئے’’اخلاص‘‘ شرط اول ہے…
شہرت پسندی مزید خون خرابے کا باعث بنتی ہے…
٢ دونوںطرف
کی کمیٹیاں مؤثرنہیں ہیں… کمیٹیوں میں اگرچہ بعض قابل احترام شخصیات شامل ہیں…
مگر بندوقوں کے ٹریگر ان کے قبضے میں نہیں ہیں… مذاکرات صرف اور صرف اسی وقت کامیاب
ہو سکتے ہیں جب اس میں ایک طرف مقامی طالبان کے عسکری کمانڈر ہوں اور دوسری طرف
پاکستانی افواج کے عسکری کمانڈر… اللہ تعالیٰ کو جب پاکستان’’امن‘‘ کے قابل نظر آئے
گا تو ساری دنیا دیکھے گی کہ حقیقی اور واقعاتی مذاکرات انہیں دو فریقوں کے درمیان
ہوں گے…
٣ پاکستان
میں بدامنی کے بنیادی اسباب کی طرف توجہ نہیں دی جارہی… پاکستان میں بدامنی کے بنیادی
اسباب دو ہیں…
(الف) پاکستان
کا اس صلیبی جنگ میں صلیبیوں کے ساتھ تعاون
(ب)
پاکستانی حکمرانوں کی سیکولر انتہا پسندی
ہم اس بارے میں
پہلے بھی کئی بار تفصیل سے عرض کر چکے ہیں کہ ایک حرام فیصلے کی آگ سے ہمارا ملک
جل رہا ہے… دوسری طرف پاکستان کے حکمران مشرف کے دور سے سیکولر ازم یا بد دینی میں
مکمل انتہا پسند بن چکے ہیں… یہ ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں جس میں’’دینداری‘‘
ممنوع ہو… حضرات صوفیاء کرام کے وہ اشعار جن میں ’’مسجد گرادو مگر کسی کا دل نہ
توڑو‘‘ کے الفاظ ہوں… انہیں بغیر سمجھے بہت پسند آتے ہیں… کیونکہ ان میں مسجد
گرانے کا تذکرہ ہوتا ہے… کیا مسجد گرانے سے کسی کا دل نہیں ٹوٹتا؟… جس اللہ والے بزرگ کے یہ اشعار ہیں ان کی پوری زندگی
مسجد ہی میں گذری ہے… جب کہ ہمارے حکمرانوں کو روڈ کے کنارے بنی ہوئی مسجد دیکھ کر
بخار آجاتا ہے… بددینی جب اپنی اس’’انتہا‘‘ کو پہنچ چکی ہو تو پھر اس کا ردعمل بھی
’’انتہا پسندی‘‘ کی شکل میں آتا ہے… یاد رکھیں جب تک ملک کے حکمرانوں کے دلوں سے
بددینی کی انتہا پسندی نہیں نکلتی… یا ملک کواچھے اور باایمان حکمران نصیب نہیں
ہوجاتے یہ ملک اسی طرح(نعوذب اللہ ) آفتوں کی زد میں رہے گا… کیونکہ اس ملک کی
جڑوں میں لاکھوں شہداء کا خون ہے… اور ان شہداء نے یہ قربانی’’اسلام‘‘ اور’’لا الہ
الا اللہ ‘‘ کے لئے دی ہے تو جب حکمران اس
خون سے غداری کریں گے تو ملک میں خون ہی ابلتا اور بہتا رہے گا… پرویز مشرف سے
پہلے کے حکمران بھی دیندار نہیں تھے… مگر وہ کھلم کھلا بددینی کی ہمت بھی نہ رکھتے
تھے، چنانچہ ملک میں امن تھا… مگر اس منحوس دجال نے حکمرانوں کے لئے بددین انتہا
پسندی کو آسان بنا دیا… وہ چلا گیا مگر اس کے بعد جو بھی آرہا ہے وہ اسی کے نقش
قدم پر چل رہا ہے… اور تو اور اب تو سرکاری تبادلوں اور ترقیوںتک میں’’دینداری‘‘
سب سے بڑا جرم ہے…مقامی طالبان نے تو حکومت کے ساتھ جنگ کی لیکن جن مجاہدین نے
حکومت کے ساتھ جنگ نہیں کی، حکومت نے اُن کو کب چین کا سانس لینے دیا؟ مشرف نے ملک
میں بددینی کی جو خبیث عمارت کھڑی کی اب ہر آنے والا حکمران اس عمارت کو مزید
مضبوط کر رہا ہے… یہ ملک کافروں کا ہوتا تو اس میں بددینی سے ترقی آتی مگر یہ مسلمانوں کا ملک ہے اس لئے اس میں’’بددینی‘‘
سے کوئی ترقی نہیں آسکتی صرف بدامنی اور خونریزی ہی آسکتی ہے… اور وہ آچکی ہے…
٤ مذاکرات
کامیاب نہ ہونے کی چوتھی وجہ… فریقین کا انتشار ہے… حکومت کو بھی ملک کے تمام
اداروںپر کنٹرول حاصل نہیں… اور طالبان قیادت کو بھی اپنے تمام افراد پر قابو نہیں…
ہمارے وزیراعظم صاحب ہر کسی کے کام میں اپنی بے بسی کارونا روتے رہتے ہیں… اور
چپکے سے یہ بتانا نہیں بھولتے کہ فلاںفلاں ادارے بہت گڑ بڑ کر رہے ہیں میں انہیں
قابو کرنے کی کوشش میں ہوں… اور دوسری طرف مقامی طالبان کے بھی ان گنت دھڑے ہیں…اور
اکثر عسکری کمانڈر اپنے فیصلوںمیں خود مختار ہیں…
٥ مذاکرات
کامیاب نہ ہونے کی پانچویں اہم وجہ… ملکی معاملات میں غیر ملکیوں کا عمل دخل ہے…
پرویز مشرف کی صدارت اور حسین حقانی کی سفارت سے فائدہ اٹھا کر صہیونیوں، صلیبیوں،
مشرکوں اور دیگر اسلام دشمن قوتوں نے ملک میں اپنے اڈے مضبوط بنالئے ہیں اور ریاستی
مشینری میں اپنے افراد داخل کر لئے ہیں… پنجاب کے سابق مقتول گورنر سلمان تأثیر
کے بارے میں یہ خبر فاش ہو گئی تھی کہ وہ… برطانوی خفیہ ایجنسی کا باقاعدہ
اہلکارہے… وہ تو چلو مارا گیا مگراس جیسے اور کتنے افراد اہم عہدوں پرہوں گے… حال
ہی میں پاکستانی فوج کے ایک سابق جنرل نے کتاب لکھی ہے … وہ مشرف کے زمانے اہم
عہدوں پر رہے ہیں… انہوں نے لکھا ہے کہ امریکی خفیہ اداروں نے انہیں اپنے کام کے
لئے بھرتی ہونے کی پیشکش کی تھی… اللہ تعالیٰ کا شکر ہے انہوں نے پیشکش ٹھکرا دی… لیکن
کیا سب میں اتنا ایمان اور ہمت ہے کہ ایسی بھاری پیشکش ٹھکرا دیں؟… جب دنیا ہی
مطلوب اور مقصود بن چکی ہے اور دینداری جرم کے درجے میں داخل ہو چکی ہے تو ماہانہ
لاکھوں ڈالر کی تنخواہ پر بکنے والوں کی کیا کمی ہوگی؟… کیا ایسے لوگ جو غیروں کے
لئے کام کر رہے ہیں، اس ملک میں امن دیکھنا گوارہ کر لیں گے؟… چند وجوہات اور بھی
ہیں مگر آج انہیں پانچ پر اکتفا کرتے ہیں…
پھر کیا ہوگا؟
پہلے عرض کر دیا
کہ… ہم مذاکرات کے حامی ہیں اور ملک میں ایمان اور امن دیکھنے کی شدید خواہش رکھتے
ہیں… ہمیں بھی حکومت کی طرف سے بہت ستایا گیا اور بندوق اٹھانے پر بہت اکسایا گیا
مگر ہم نے… حکومت پاکستان اور یہاں کی فورسز کے خلاف ایک کارروائی بھی نہیں کی… اس
کی وجہ سے ہمیں طرح طرح کے طعنوں کا سامنا ہے… کوئی ہمیں ایجنسی کا ایجنٹ کہتا ہے
تو کوئی بزدلی کے طعنے دیتاہے… لیکن ہم نے کسی کی پرواہ نہیں کی اور دینی علم کی
روشنی میں جو کچھ اپنے ایمان اور اپنے جہاد کے لئے مناسب سمجھا وہی کیا… ہم نے
حکومت کے خلاف جنگ نہ کر کے کوئی مراعات نہیں لیں اور نہ کبھی اپنے اس عمل کا
واسطہ دے کر حکومت سے کوئی بھیک مانگی… ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک مؤقف شعوری طور پر
اختیار کیا ہے… ہم نے اپنے ہاتھ مسلمانوں کے لہو سے پاک رکھنے کی جان توڑ اور مشکل
محنت کی ہے… اور اپنا رُخ اُن محاذوں کی طرف رکھا ہے جہاں کفار، مسلمانوں پر حملہ
آور ہیں… ہم نے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے کیا، اپنے دین، ایمان اور جہاد کے
لئے اسے بہتر سمجھا اس لئے ہم اس پر دنیا میں کسی صلے یا اجر کے امیدوار نہیں ہیں…
ہماری یہ خواہش بھی نہیں ہے کہ… حکومت اور مقامی طالبان کے درمیان مذاکرات ناکام
ہو جائیں… اور کل ہم لوگوں سے کہہ سکیں کہ دیکھو! ہمارا تجزیہ بالکل ٹھیک نکلا… ایسا
بالکل نہیں بلکہ یہ خواہش ہے کہ ہمارا تجزیہ غلط نکلے اور ملک میں ایمان اورامن
قائم ہو جائے… لیکن جو کچھ کھلی آنکھوں سے نظرآرہا ہے اسے بھی نظر انداز نہیں کیا
جا سکتا…پاکستان میں حالات واقعی خطرناک حدتک خراب ہو چکے ہیں…لیکن ہم مسلمان… کبھی
بھی امید کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتے… اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اوروہ اپنے بندوں پر
مہربان ہے… الحمدﷲ جہاد کی برکت سے عالم کفر کو شکست ہوئی ہے اور ہمارے پڑوس سے…’’مغضوب
علیھم‘‘… اور’’ضالین‘‘ کے قافلے اس سال کے آخر تک اپنے ملکوں کو لوٹ رہے ہیں…
’’مغضوب علیھم‘‘ وہ جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے… اور اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا غضب یہ ہے کہ کسی کافر کو
اپنے کفر پر اطمینان ہو جائے اوروہ اسی کفر میں مرے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم
کا ایندھن بن جائے… اور ضالین وہ گمراہ لوگ جو صراط مستقیم سے بھٹک گئے اور انہوں
نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنالیا… ہمارے پڑوس میں اتنے گندے اور برے لوگوں کا
اجتماع… ایک بڑی نحوست ہے اور افسوس کہ اس نحوست کو ہمارے حکمران پالتے رہے… اب
الحمدﷲ وہ سب واپس جارہے ہیں… اُن کے واپس جانے سے بھی ان شاء اللہ اس
خطے پر بہت فرق پڑے گا… انسانوں کے اعمال کا زمین پر بڑا اثر پڑتا ہے…
صلیبی افواج نے
افغانستان میں وہ گندے اعمال کئے کہ جنہیں سننا بھی محال ہے… یہ کالم ہماری مسلمان
بہنیں اور بچیاں بھی پڑھتی ہیں… اس لئے تفصیل لکھنے کی ہمت نہیں… یہ انسانیت کے
لئے کینسر جیسے افراد جب افغانستان سے چلے جائیں گے تو ان شاء اللہ وہاں اور یہاں اچھی تبدیلیاں شروع ہو جائیں گی…اس
لئے مایوسی، ناامیدی اور پریشانی کی بات نہیں ہے … بلکہ سر اونچا کرنے کا وقت ہے
کہ حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں نے… اپنے آقا کی غلامی کا حق ادا کیا
اور ایسی سرفروشانہ جنگ کی کہ… دنیا بھر کی عسکری ٹیکنالوجی کو مکڑی کے جالے کی
طرح روند ڈالا… سلام ہو فدایان اسلام کو… سلام ہو فقیرعطاء اللہ شہید
رحمۃ اللہ علیہ اور اُن کے رفقاء کو… آج
مجھے صبح سے وہ یاد آرہے ہیں… سلام ہو استقامت کے ساتھ جہاد پر ڈٹے رہنے والوں
کو… اور سلام ہو قابل فخر اُمت محمدیہ، اُمت مسلمہ کو… بس اے بھائیو! اور بہنو!
سلامتی کاراستہ کھلا ہے…
١ ایمان…’’لا
الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کو دل میں بٹھانا اور اس پر کامل یقین
رکھنا اور اس کا خوب ورد کرنا…
٢ نماز…
زندگی کا سب سے اہم اور میٹھا کام نماز… اللہ تعالیٰ سے ہر نعمت پانے کا ذریعہ نماز
٣ جہاد
فی سبیل اللہ … مغفرت، عزت،غلبے، کامیابی،
سعادت، حسنِ خاتمہ، آزادی… اور شہادت جیسی اونچی نعمتیں حاصل کرنے کا ذریعہ… جہاد
فی سبیل اللہ …
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علٰی سیّدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
معتدل
میڈیا کے بارے
جماعت کے مؤقفِ اعتدال کی وضاحت…
مجاہدین کے لیے ایک
راہنما تحریر…
اللہ تعالیٰ اور
بندوں کے درمیان خفیہ تعلق… اخلاص…
ریاء کاری سے پناہ
مانگیں…
افضل گوروشہید رحمۃ اللہ علیہ کانفرنس کی مقبولیت اور کیڑوں مکوڑوں کا شور
شرابا…
دشمنانِ اسلام میں
کھلبلی اور بے سرو پا پروپیگنڈے کا طوفان…
بعض اخبارات کا بھیانک
کردار…
میڈیا کے بارے میں
ہمارا موقف اور طرز عمل…
حضرت صدیق اکبر
رضی اللہ عنہ کا فرمان گرامی…
صحافت کا غلط رُخ…
فحاشی کا پھیلائو…جھوٹ کا فروغ…
اہل صحافت کی چال
بازیاں… خبر فروشی کا مکروہ دھندا…
ٹی وی پر آنا کوئی کمال نہیں…
اپنے عملِ جہاد کو میڈیا سے بچائیں…
نظریہ پاکستان کے
دعویدار اخبارات کا غلط طرز عمل…
معتدل
اللہ
تعالیٰ اور اس کے پیارے بندوں کے درمیان ایک
خاص اور خفیہ تعلق ہوتا ہے… اُس خاص تعلق کا نام ہے’’اخلاص‘‘…
سُبْحَانَ ﷲِ
وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ ﷲِ الْعَظِیْم
بس بھائیو اور
بہنو! بڑا خوش نصیب ہے وہ مسلمان جسے’’اخلاص‘‘ کی دولت نصیب ہو جائے… اچھا یہاں ایک
دعاء یاد کر لیں… جی ہاں! ریاکاری سے حفاظت کی دعاء… صبح شام اہتمام سے پڑھ لیا
کریں…
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ
اَعُوْذُبِکِ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیْئًا وَّاَنَا اَعْلَمُ بِہٖ وَ
اَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا اَعْلَمُ بِہ
آسان ترجمہ یہ
کہ… یا اللہ جان بوجھ کر شرک اور ریاکاری کرنے سے آپ کی
پناہ چاہتا ہوں اور جو بھولے چوکے سے بے علمی میں ہو جائے اُس پر معافی مانگتاہوں…
برادر محترم جناب
محمد افضل گوروشہید رحمۃ اللہ علیہ کی
مؤقر کتاب’’ آئینہ‘‘ ماشاء اللہ خوب چل رہی ہے… اللہ تعالیٰ اُن سب کو جزائے خیر عطاء فرمائے جو اپنے
مظلوم اور قابل فخر شہید بھائی کاپیغام مسلمانوں تک پہنچانے کی محنت کر رہے ہیں…’’آئینہ‘‘
کی تقریب رونمائی کی شعاعیں بھی… الحمدﷲ دور دورتک پھیل رہی ہیں…
اجتماع کو اگرچہ
کئی دن گزر چکے مگر ماشاء اللہ اجتماع کے بیانات گونج رہے ہیں… اورنظمیں لہک رہی
ہیں… جب زمین پر بارش برستی ہے وہاں پھل
پھول اُگ آتے ہیں… سبزہ بھی ہر طرف نگاہوں کو خوش کرتا ہے… مگر اس کے ساتھ کیڑے
مکوڑے اور زہریلے سانپ بھی باہر آجاتے ہیں… افضل شہید رحمۃ اللہ علیہ کا اجتماع بھی بارش کی طرح تھا… بہت سے مسلمانوں
نے جہاد کو سمجھا،بہت سے بانصیب افراد نے
جہاد کا عزم کیا… اور بہت سے افراد جہاد میں نکلنے کے لئے مکمل تیار ہو گئے…
اجتماع نے تحریک کشمیر میں ایک نیا جذبہ اٹھایا ہے… ان تمام مثبت نتائج کے ساتھ…
زہریلے سانپ اور کیڑے مکوڑے بھی تیزی سے نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں… لاہور سے لے
کر دہلی تک کالے سانپ ایک ہی سُر میں پھنکار رہے ہیں… اور دشمنان اسلام کی صفوںمیں
کھلبلی مچ گئی ہے… پہلے ایک انگریزی اخبار نے جہاد اور جماعت کے خلاف زہر اگلا…
اور پھر امن کی آشا والے اخبار نے بھی اپنا ’’ترشول‘‘ بلند کر دیا… صحافت اور میڈیا
کے بارے میں ہمارا مؤقف الحمدﷲ ’’اعتدال‘‘ پر مبنی ہے… اور وہ یہ کہ ان لوگوں سے
نہ دوستی نہ دشمنی… ہم ان کے ذریعہ اپنا پیغام اُمت تک پہنچانے کے قائل نہیں ہیں
اور نہ ہی… آج تک ہم نے ایک پیسہ ان حضرات کی ناز برداری پر خرچ کیا ہے… ہم چھوٹے
لوگ ہیں… مگر چھوٹے اپنے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں، اس لئے بڑوں کا حوالہ دینے میںکوئی
حرج نہیں… اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہوتا
ہے کہ ہم خود کو بڑوں کے برابر سمجھتے ہیں… حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ایک خاص مقولہ ہے:
’’اسمعت من ناجیت‘‘
’’یعنی میں تو اُس کو سناتا ہوں جس کے لئے میں
عمل کرتا ہوں‘‘
جہاد کا کام بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہے… اور وہی جہاد مقبول ہوتا ہے
جو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور اعلاء کلمۃ اللہ کے
لئے ہو… آج کل کی’’صحافت‘‘ ایک انتہائی غلط رخ پر چل پڑی ہے…
میڈیا اور صحافت
کا اصل کام یہ تھا کہ وہ سچی خبریں ڈھونڈتے… اور پھر ان میں سے وہ خبریں جو انسانیت
کے لئے مفید ہوتی اُن کو چھاپتے… قرآن مجید نے اس بارے میں کئی بہت اونچے اصول
تلقین فرمائے ہیں… آپ قرآن مجید میں غور کریں گے تو آپ کو جا بجا مثبت صحافت کے
کئی اصول چمکتے دمکتے نظر آئیں گے… سورہ نور کو لے لیجئے… وہ لوگ جو انسانوں میں
فحاشی اور بے حیائی پھیلاتے ہیں اُن کو سخت تنبیہ کی گئی… آج کونسا اخبار اس
انسانی اور اخلاقی جرم سے خالی ہے؟… فنکاروں اوراداکاروں اور بدکاروں کی رنگین
تصاویر اور اُن کی خبریں اور اُن کے برے اعمال کی تشہیر آخر کس مقصد سے کی جاتی
ہے؟… خیر یہ ایک تفصیلی موضوع ہے اور آج اسے چھیڑنے کا ارادہ نہیں ہے… آج کی
صحافت ذاتی تشہیر اور تجارت کا ذریعہ بن چکی ہے… صحافی ہر اچھی اور بری خبر کے پیچھے
پڑے رہتے ہیں… اور ایسی خبریں نمایاں طور پر شائع کرتے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میںطرح
طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں… اکثر صحافی پیسے کے پیچھے اس قدر تیزی سے دوڑ رہے ہیں
کہ… اُن کے نزدیک اسلام اور کفر تک میں کوئی فرق نہیں رہتا… وہ ایسی خبروں کی تلاش
میں رہتے ہیں جن سے عالم کفر خوش ہو اور پھر وہ ان صحافیوں کو طرح طرح کے انعامات
اور اپنے ملکوں میں اقامت کے ویزے دے…کافی پہلے کی بات ہے… میں ایک ایسی مجلس میں
پھنس گیا جہاں بہت سے صحافی تھے… ان میں سے بعض ایک زبردستی مجھ سے ایسا بیان
دلوانا چاہتے تھے جس میں بلاوجہ بعض کفریہ ممالک کے لئے دھمکی ہو… اس پر میں نے ایک
صحافی سے کہا کہ آپ بار بار کیوں اصرار کر رہے ہیں کہ میں فلاںملک کو ضرور دھمکی
دوں؟… وہ کہنے لگا مولانا! آپ کا کیا جاتا ہے؟ آپ دھمکی دیں گے تویہ بیان دور
دور تک چلے گا اور بکے گا اور ہمیں اپنے بچوں کے لئے چند سو ڈالر مل جائیں گے…
ہمارے ملک کے بعض صحافی خود مجاہدین کو چھیڑتے ہیں، تنگ کرتے ہیں اور اُن کے خلاف
طرح طرح کی جھوٹی رپورٹیں لگاتے ہیں… مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس طرح سے وہ امریکہ، انڈیا
اور دیگر ممالک کی خوشنودی حاصل کریں گے… اسلام کے خلاف کام کرنے والے تھنک ٹینکس
کو اپنی طرف متوجہ کر کے اُن سے مال بٹوریں گے… اور اگر مجاہدین نے انہیں کوئی
دھمکی یا جواب دیا تو اسے ٹیپ کر کے فوراً یورپ کے کسی ملک کو پناہ کی درخواست دے
دیں گے کہ… ہماری جان کو سخت خطرہ ہے… دوسری طرف ہمارے لیڈروں نے صحافت اور صحافیوں
کو اپنی مجبوری بنا لیا ہے… ہر مشہور شخص اپنے لئے ایک پریس سیکرٹری رکھتا ہے… بڑی
پارٹیاں اپنے لئے کالم نگار خریدتی ہیں… جلسوں اور جلوسوں کی کوریج کے لئے ٹی وی چینلوں
کی منتیں کی جاتی ہیں اور اُن کے ناز اٹھائے جاتے ہیں… سیاسی پارٹیاں یہ سب کچھ
کرتیں تو اتنا بُرا نہ سمجھا جاتا مگر اب تو دین کا کام کرنے والے… اور جہاد کی
بات کرنے والے بھی ہروقت صحافیوں کی منتیں ترلے کرتے نظر آتے ہیں… آخر یہ سب کچھ
کرنے سے کیا ملتا ہے؟… آپ کام کریں آپ کا کام مضبوط ہوگا تو میڈیا خود ہی مجبور
ہو کر آپ کی خبریں لگائے گا… ایسی جماعتیں جو میڈیا سے دور رہتی ہیں اُن کی خبریں
کئی کئی دنوںتک ذرائع ابلاغ پر چھائی رہتی ہیں… اور اگر خبریں نہ بھی آئیں اور
کام ہوتا رہے تو اس میں آخرت کا بھی بھلا ہے اور دنیا کا بھی… اور اگر خبریں آتی
رہیں اور کام کچھ نہ ہو تو اس سے کسی کو دنیا اور آخرت میں کیا ملے گا؟… ٹی وی یا
میڈیا پر نام آنا تو کوئی عزت اور کمال کی بات نہیں ہے… ایسے ایسے گندے اور غلیظ
لوگ میڈیا پر بھرپور کوریج پاتے ہیں جن کے ساتھ کوئی مسلمان اپنا نام لکھنا بھی
کبھی گوارہ نہیں کر سکتا… یاد رکھیں… آج کا مروجہ میڈیا عالم کفر اور صہیونیت کے
قبضے میں ہے… آج کے صحافی بے عقیدہ، بے عمل اور غیروں کے لئے کام کرنے والے افراد
ہیں… آج کا میڈیا جہاد کو مٹانے اور ختم کرنے کے مشن پر گامزن ہے… اس لئے دین کی
سلامتی اسی میں ہے کہ میڈیا سے دور رہا جائے… میڈیا سے بے پرواہ رہا جائے… میڈیا
کو کم سے کم دیکھا، سنا اور پڑھا جائے… اور خالص اسلامی صحافت کو اپنے حلقوں میں
فروغ دیا جائے… اردو اخبارات میں کالم لکھنے والے اکثر لوگ گمراہ اور بدعمل ہیں…
اور ان میں سے کئی ایک باقاعدہ بکے ہوئے لوگ ہیں… ان کے کالم پڑھنے سے دل پر سیاہی،
مایوسی اور کفر کے دھبے لگنے کا خطرہ ہوتا ہے… میری آپ سب سے عاجزانہ درخواست ہے
کہ اپنے ایمان کی قدر جانیں اور اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے میڈیا، کالم نگاروں
اور میڈیائی دانشوروں سے دور رہیں… باقی رہا ہمارے خلاف میڈیا کا لکھنا تو الحمدﷲ
ایک رتی کے دانے برابر نہ کوئی فکر ہے اور نہ اس کا کچھ غم… اگر کوئی صحافی ہمارے
خلاف کوئی رپورٹ چلا کر اس انتظار میں ہے کہ ہم اسے دھمکی دیں گے تو وہ اس سے مایوس
ہو جائے… اور اگر کوئی اس انتظار میں ہے کہ ہم اسی اخبار میں تردیدی بیان جاری کریں
گے تو وہ بھی اپنا انتظار ختم کر کے نئی رپورٹ تیار کرے… ہم الحمدﷲ اپنے کام سے
مطمئن ہیں اور مکمل شرح صدر کے ساتھ یہ کام کر رہے ہیں… ہمارے دشمنوں نے ہمیں
پھانسیاں دیںتو الحمدﷲ کام نہیں رکا آپ کی رپورٹیں پھانسیوں سے زیادہ سخت نہیں ہیں…
نوائے وقت اور دی نیشن جیسے اخبارات پر تھوڑا سا افسوس ضرور ہوتا ہے کہ ایک طرف
نظریہ پاکستان کے بلند بانگ دعوے، جہاد اکبر کے غلغلے… انڈیا تک ٹینک لے جانے کا
عزم… اور دوسری طرف انڈیا کے مقاصد پورے کرنے کے لئے ان مجاہدین کے خلاف پروپیگنڈہ
جن سے انڈیا… آپ کی بنسبت زیادہ خوف کھاتا ہے… آپ تو معلوم نہیں کس دن ٹینک پر بیٹھ
کر انڈیا جائیں گے یہ مجاہدین ہتھیار اٹھاکر انڈیا جاتے ہیں اور الحمدﷲ فاتح بن کر
واپس آتے ہیں یا جام شہادت پی جاتے ہیں… والحمدﷲ رب العالمین
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا ﷲ محمد
رسول ﷲ
٭٭٭
ماشاء اللہ لا
قوۃ الا ب اللہ
تمام نعمتوں کی
حفاظت کا ذریعہ… قرآنی کلمۂ شکر: ماشاء اللہ لاقوۃ الاباللہ
وسطی افریقہ… نئی
ظلم گاہ اور جہاد کا نیا محاذ…
مسلمان مظلومانہ
موت اختیار کرنے کی بجائے فدائیوں والا راستہ اپنائیں…
آیت مبارکہ کا
معنیٰ اور معارف… تفسیری اقوال…
دنیاوی قوتوں کی
بے بسی…
نعمتوں کی حفاظت
کے لیے آیت مبارکہ کے ورد کا معمول بنائیں…
جہاد کو آگے
بڑھائیں… دعوت اور جہاد کا تلازم…اسلامی دعوت کا صحیح منہج…
جہاد ابھی پیچھے
ہے… آگے لے کر بڑھنا ہے…جہاد کو کوئی نہیں روک سکتا…
بچپن سے اب تک
کتنے محاذ بنتے دیکھے…جہاد کی ترقی کی خوبصورت منظر کشی…
جہادی محنت کرنے
والے شکر کریں… ناشکری اور مایوسی کو قریب نہ آنے دیں…
ماشاء اللہ لا
قوۃ الا ب اللہ
اللہ
تعالیٰ جو چاہے تو ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مددکے سوا کوئی طاقت نہیں
مَا شَائَ اللہُ
لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
جہاد کا نیا محاذ
اوپر جو آپ نے
پڑھا وہ قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ کا حصہ اور مفہوم ہے، ایک بار پھر محبت سے
پڑھ لیں:
مَا شَائَ اللہُ
لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
ایک تصویر پر
اچانک نظر پڑی اور پھر نظر بھیگ گئی… ایک شخص اپنے ہاتھ میں ایک کٹی ہوئی انسانی
پنڈلی لے کر اُسے اپنے دانتوں سے نوچ رہا تھا… میڈیا والے دھڑا دھڑ فوٹو کھینچ رہے
تھے وہ پنڈلی کا گوشت کھاتے ہوئے کہہ رہا تھا… میں پاگل کتا ہوں، میں اسی طرح
مسلمانوں کا گوشت کھاؤں گا… منظر وسطی افریقہ کا تھا، پنڈلی ہمارے ایک مسلمان
محمدی بھائی کی تھی… اور اُسے نوچنے چبانے والا ویٹی کن کے پاپا کا مُرید ایک کالا
صلیبی، عیسائی تھا… آہ امتِ مسلمہ!!! آہ ہمارے مظلوم مسلمان بھائی اور بہنیں!… ویٹی
کن کا پاپا امن امن کے جھوٹے گیت گاتا پھرتا ہے، مغربی دنیا مسلمانوں کو دہشت گرد
کہتی ہے… اور پھر یہی لوگ ہمارے مسلمان بھائیوں کو مارتے ہیں، کاٹتے ہیں، جلاتے ہیں…
اور اب کھاتے بھی ہیں…
ان شاء اللہ اب
وسطی افریقہ پر بادل گرجیں گے، بجلیاں کڑکیں گی، موت برسے گی اورالجہاد، الجہاد کے
دلکش نعرے گونجیں گے… ہاں! کسی کو ا س بات میں شک نہیںہونا چاہئے کہ… مسلمانوں کے
ساتھ جب یہ سلوک کیا جائے گا تو ساری دنیا’’امن‘‘ کو ترسے گی…اے مسلمانو! مظلومیت
اور بے کسی کی موت مرنے کی بجائے… بہادروں اور فدائیوں والی موت کے گلے میں بانہیں
ڈال دو… ہم کب تک مرثیے روتے رہیں گے… وہ دیکھو! مکہ میں حضرت آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم … مکمل مسلح جنگی لباس میں فاتحانہ داخل ہو رہے ہیں… ارے کبھی تو اپنے
محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ لباس
بھی پہن لیا کرو…
مَا شَائَ اللہُ
لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
دل میں اُتاریں
یہ جو قرآن پاک
کے روشن الفاظ ہیں، ان کو دل میں اتاریں
مَا شَائَ اللہُ
لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
یہ الفاظ دل میں
اُتریں گے تو روشنی ہوجائے گی… خوف کے چوہے، بزدلی کے گیدڑ اور حرص و لالچ کے کتے
دل سے بھاگ جائیں گے… پھر وجد کے ساتھ پڑھیں:
مَا شَائَ اللہُ
لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
یہ سورۃ الکہف کی
آیت ۳۹
کا ایک حصہ ہے… اس کے تین ترجمے ملاحظہ فرمائیں
ترجمہ لاہوری:حضرت
مولانااحمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ یوں
ترجمہ کرتے ہیں!
١ جو
اللہ تعالیٰ چاہے تو ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے سوا کوئی طاقت نہیں
ترجمہ محمودی:
حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ اس طرح
سے ترجمہ فرماتے ہیں!
٢ جو
چاہے اللہ ، سو ہو، طاقت نہیں مگر جو دے اللہ
ترجمہ شاہی: آخر
میں اردو ترجموں کا امام… حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ!
٣ جو
چاہا اللہ کا، کچھ زور نہیں مگر دیا اللہ کا
اب ترجمہ ذہن میں
رکھ کر یقین کے ساتھ پڑھیں:
مَا شَائَ اللہُ
لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
حدیث شریف میں آیا
ہے کہ جو شخص اپنی کوئی بھی نعمت دیکھ کرپڑھے:
مَا شَائَ اللہُ
لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
تو موت کے سوا کوئی
آفت اس نعمت کو اس سے نہیں چھین سکتی
مَا شَائَ اللہُ
لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
بس طاقت صرف’’
اللہ ‘‘ کی ہے اور اللہ تعالیٰ جسے طاقت دے وہی طاقت والا ہے… اے
مسلمانو! اسے دل میں بٹھا لو… امریکہ، انڈیا، اسرائیل، سائنس، ٹیکنالوجی اور ایٹم
بم کا خوف دل سے نکال دو… اللہ تعالیٰ جو چاہے وہی ہوتا ہے…
یہ سب بے بس، بے
کس اور بے چارے ہیں… ان میں تو اتنی بھی’’طاقت‘‘ نہیں کہ سچا کلمہ پڑھ سکیں… ان میں
تو اتنی قوت بھی نہیں کہ اپنے رب اور مالک کو پہچان سکیں…
ان میں اتنی سی
صلاحیت بھی نہیںکہ چاند یا سورج کا رخ موڑ سکیں یا اُن کے طلوع و غروب کے اوقات
بدل سکیں… ان میں تو اتنی طاقت بھی نہیں کہ پانی کا ایک قطرہ بنا سکیں… ان میں تو
اتنا زور نہیں کہ مردہ کو زندہ کر سکیں… یا اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کسی زندہ کو مُردہ کر سکیں…
یہ جن کو مارنا چاہتے ہیں وہ بھرپور زندگی جی رہے ہیں اور یہ جن کو بچانا چاہتے ہیں
اُن کے تابوت روز اٹھ رہے ہیں…
مَا شَائَ اللہُ
لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
آیتِ مبارکہ کا
ورد
بات آگے بڑھانے
سے پہلے یہ گزارش ہے کہ اس آیت مبارکہ کو بھی اپنا ورد بنا لیں
مَا شَائَ اللہُ
لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
اہل علم فرماتے ہیں
کہ یہ قرآنی الفاظ:
’’مفتاح زیادۃ الخیر فی الدنیا و دوام النعمۃ
فیھا‘‘
دنیا میں زیادہ خیر
پانے کی چابی اور نعمتوں کے برقرار رہنے کا ذریعہ ہیں…
ہم روز اپنے بُرے
اعمال کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں… کتنے زندہ دل، مُردہ
ہو گئے، کتنے شب بیدار غافل ہو گئے… کتنے بہادرمجاہد دنیا کی حقارتوں میں پھنس
گئے… کتنے شان والی نمازی، سجدوں کی حلاوت کھو بیٹھے، کیسے پُرنور ذاکر گناہوں کی
دلدل میں دھنس گئے… کتنے خوش خرام چہرے، غموں اور اداسیوں میں ڈھل گئے، کیسی قابل
رشک صحتیں بیماریوں میں روندی گئیں… کیسے متحرک دین کے کارکن ادنی دھندوں میں گم
ہو گئے… ہائے کاش ہم اپنی ہر نعمت کودیکھ کر فوراً ان نعمتوں کے دینے والے کو یاد
کر لیا کریں اور اس کا بہترین طریقہ ہے:
مَا شَائَ اللہُ
لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ، مَا شَائَ اللہُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
جہاد آگے
آج کا اصل عنوان
ہے… افریقہ کا جہاد کہ وہاں ظلم بہت بھونک رہا ہے… یاد رکھیں ایک زمانے تک جہاد
اُمت مسلمہ کے آگے آگے تھا… قرآن مجید کی روشن آیات نے ہمیں سمجھایا اور حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں…
خون میں اپنا مقدس چہرہ تر کر کے سکھایا کہ ہم مسلمان جہاد فی سبیل اللہ کو
اپنے آگے آگے رکھیں… یوں اُمت مسلمہ کمزوری سے اور مسلمان ظلم سے بچے رہیں گے…
ہمیں حکم دیا گیاکہ ہم اپنے گھروں میں نہ بیٹھیں بلکہ کلمہ طیبہ:
’’لاالہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ‘‘
کی دعوت لیکر دنیا
بھر میں پھیل جائیں… ہم یہ دعوت لیکر جب جائیں تو’’مسلّح‘‘ جائیں اور اس سب سے قیمتی
کلمے کو اپنی سب سے قیمتی چیز یعنی ’’جان‘‘ پر رکھ کر جائیں…
پھر جو مان لے اور
دل کے یقین کے ساتھ پڑھ لے:
لا الہ الا ﷲ محمد
رسول ﷲ
وہ ہمارا بھائی
ہے… وہ گورا ہو یا کالا، مشرقی ہو یا مغربی… اور جو نہ مانے اُس کے لئے جزیہ ہے یا
قتال… ہم زبردستی کسی کو مسلمان نہیں بناتے مگر اسلام کے دشمنوں کو طاقتور بھی نہیں
رہنے دیتے… اور کفر کو ایسا پُرکشش نہیں بننے دیتے کہ لوگ بھاگ بھاگ کر کافر بننے
لگیں…یہ ہے اصل ترتیب جو قرآن پاک لیکر آیا ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ
اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاس
مگر ہم آج اپنی
نااہلی کی وجہ سے اس ترتیب سے محروم ہیں… ہم خود نکل پڑتے تو یوں ہر جگہ سے دھتکار
کر نہ نکالے جاتے، ہم خود لڑ پڑتے تو یوں ہم پر لڑائیاں گرائی نہ جاتیں… ہم کلمہ
کو جان پر رکھ کر آگے بڑھتے تو کلمہ خود ہمارے دل اورجان میں اُتر جاتا… اور زمین
و آسمان کی ساری مخلوق ہماری نصرت کے لئے مسخر کر دی جاتی… یہ اصل ترتیب ان شاء اللہ پھر لوٹے گی… مگر افسوس کہ آج ہم اس سے محروم ہیں
اِنَّا لِلہِ
وَاِنَّا اِلَیْہٖ رَاجِعُون…وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
جہاد پیچھے
وہ دیکھو! اُحد کے
میدان میں حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا خون مبارک رخسار سے بہہ کر داڑھی مبارک کو
سرخ کر رہا ہے… اس مقدس خون پر ہم سب کا خون فدا…اے مسلمانو! اس منظر کے بعد کیا
جہاد کو کسی اوردلیل کی ضرورت ہے؟؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کیا یہ منظر سوچ کر بھی
جہاد سمجھ میں نہیں آتا؟… یاد رکھیں!اسلام کے پہلے غزوہ کے بعد سے لیکر آج تک
جہاد ایک دن کے لئے بھی نہیں رکا…ہاں!جس جہاد کو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ
وسلم نے اپنا لہو مبارک دیا ہے اُسے کوئی
نہیں روک سکتا… اس لئے جہاد ہر زمانے میں جاری رہا… تاریخ کے اوراق اُسے محفوظ رکھ
سکے یا نہیں… اس تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں… مجاہدین ہر دور میں موجود رہے… جہاد کی
دعوت، جہاد کی تیاری، اور کارروائیوں کا تعاقب کہ جیسے ہی موقع ملے جنگ شروع… یہ ہیں
جہاد کے جاری رہنے کی صورتیں… ہاں! کسی زمانے جہاد زیادہ وسیع اور طاقتور رہا اور
کسی زمانے بہت کم مسلمان اس سعادت سے ہمکنار ہوئے… ہم تاریخ میں جھانکے بغیر اپنے
زمانے پر آتے ہیں… اور اس میں پہلے اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں کہ الحمدﷲ ہمارے
زمانے میں جہاد فی سبیل اللہ موجود ہے، ممکن ہے، میسر ہے، مؤثر ہے اور فاتح
ہے…
مَا شَائَ اللہُ
لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ وَالْحَمْدُ
لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن
مگر یہ جہاد ابھی
آگے آگے نہیں، پیچھے پیچھے ہے… پیچھے کا مطلب یہ کہ آج جہاں بھی ظلم بھونکتا
ہے، جہاد وہاں للکارتا ہواپہنچ جاتاہے… آج کل ظلم کا پاگل کتا وسطی افریقہ اور
برما میں دانت دکھا رہا ہے… ان شاء اللہ دنیا دیکھ لے گی کہ اُمت مسلمہ کی کلمے والی
ماؤں کے حلال بیٹے… ضرور ان علاقوں میں جہاد فی سبیل اللہ کی
آسمانی بجلیاں بن کر گریں گے…
مَا شَائَ اللہُ
لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
بچپن سے اب تک
ہم جب چھوٹے تھے
تو اپنے بڑوں سے… اوراپنی مساجد میں یہ دعاء سنتے تھے:
’’یا اللہ ! فلسطین کے مسلمانوں کی مدد
فرما‘‘
پھر جب تھوڑے بڑے
ہوئے تو فلسطین کے ساتھ افغانستان بھی جڑ گیا…
’’یا اللہ ! فلسطین اور افغانستان کے مسلمانوں کی مدد
فرما‘‘
پھر آگے چل کر اس
دعاء کی فہرست میں ناموں کا اضافہ ہوتا چلا گیا…
بوسنیا، تاجکستان،
کشمیر، چیچنیا… پھر عراق، شام، لیبیا اور اب وسطی افریقہ اور برما… فہرست طویل ہوتی
جارہی ہے… اور اگر ہمیں حالات کا مکمل ادراک ہو تو یہ فہرست اور بھی لمبی ہوجائے…
تھائی لینڈ، فلپائن،ایتھوپیا، صومالیہ، اریٹریا، سنکیانگ… اور معلوم نہیں کہاں کہاں
کے کلمہ گو مسلمان مظلوم ہیں… مسلمان اگر واقعی سچا مسلمان ہو تو وہ نہ دعاء سے
تھکتا ہے اور نہ جہاد سے اکتاتا ہے…
مسلمان کے دل میں
کلمہ طیبہ:
لا الہ ال اللہ محمد رسول ﷲ
کا تروتازہ درخت
قائم ہوتا ہے… اور اس درخت کے بارے میں قرآن مجید کا یہ فیصلہ ہے کہ یہ درخت ہر
آن نئے پھل دیتا رہتا ہے…
اللہ
تعالیٰ کا مسلمانوں پر انعام دیکھیں
کہ…دشمنان اسلام جہاں بھی ظلم کا نیا اڈہ کھولتے ہیں، انہیں وہاں چند ہی دن بعد
جہاد کے تھپڑوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے… اور پھر وہ چیخنے چلانے لگتے ہیں کہ… دہشت
گرد آگئے، ارھابی آگئے، انتہا پسند آگئے… وہ دیکھو! کہاں کہاں سے آگئے…
مَا شَائَ اللہُ
لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
مَا شَائَ اللہُ
لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
شکر ادا کریں
مجاہدین نہ آسمان
سے گرتے ہیں اور نہ زمین سے اگتے ہیں… یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے جہاد کی مسلسل محنت
کو جاری فرما دیا ہے… جہاد کی یہ مسلسل محنت ہر طرف اپنا رنگ دکھا رہی ہے… حیرانی
اس پر ہوتی ہے کہ جہاد کی عالی شان محنت کرنے والے افراد ہر وقت بجھے بجھے اور پریشان
نظر آتے ہیں… جبکہ جمہوریت وغیرہ کی لاحاصل اور فضول محنتوں میں خود کو کھپانے
والے اپنی کامیابیوں پر ناز کرتے ہیں… حالانکہ جہاد کی محنت نے الحمدﷲ زمین کا رنگ
اور اس کا نقشہ بدل دیا ہے… اور اب روزآنہ ہزاروں افراد کفر چھوڑ کر اسلام میں
داخل ہورہے ہیں… اور دنیا مسلمانوں کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے…
جہادی محنت کرنے
والے افراد اگرچہ اپنے تھانے کے ایس ایچ او کو فون کر کے… فخر محسوس نہیں کر سکتے…
مگر ان کی مسلسل محنت ہی دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کو عزت اور غلبے کے راستے پر
لاتی ہے… تب وہ برائلر مرغی کی طرح مرنے کی بجائے شیر بن کر لڑتے اور جیتے ہیں…
اور یہی مسلسل محنت دور دراز علاقوں تک جہادی محاذ کھلواتی ہے… جہادی محنت کا اصل
بدلہ تو ان شاء اللہ ’’جنت‘‘ ہے… مگر اس کے ثمرات دنیا میں بھی ہر
طرف نظر آرہے ہیں… پھر مایوسی کیوں؟ پریشانی کیوں؟ عدم تحفظ جیسی فضول بات کیوں؟…
کہاں شہادت کا شوق اور کہاں’’عدم تحفظ‘‘ جیسا بزدلانہ لفظ… ارے بھائیو! اگر تمہیں
اپنی اس مبارک محنت کی حقیقت نظر آجائے تو پھر اپنی زندگی کے اس وقت سے نفرت ہونے
لگے جو نیند اور گپ شپ میں ضائع ہو جاتا ہے… قرآن مجید کو دیکھو، حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم کے لہو مبارک کو دیکھو!
اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھو… اور اس محنت کی
قدر کرکے اس پر شکر اداکرو…
وَالْحَمْدُلِلہِ
رَبِّ الْعَالَمِیْن، مَا شَائَ اللہُ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول اللہ
اللّٰھم صل علیٰ سیّدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول اللہ
٭٭٭
مقابلۂ ُحسن
دورد شریف… ہر عمل
کا حسن…
اور ہر جمعرات کو
جماعت میں مقابلہ حسن ہوتا ہے…
ایک مبارک مہم کے
احوال… ایک خطرناک فتنے کی نشاندہی…
دنیا سے بے رغبتی
اور حسن خاتمہ کی دعاء…
جمعۃ المبارک کے
اعمال کی طرف توجہ اور مقابلہ ٔحسن…
دنیا کے فتنے اور
جمعۃ المبارک کے اعمال سے ان کا علاج…
مال کا فتنہ… ایک
سخت ترین فتنہ…
جب دنیا کا حملہ
باربار ہوتا ہے… کوئی انسان غافل نہ ہو…
حبمال کا
حملہ،سامری جادوگر کے حملے سے خوفناک…
حب مال کا علاج…
حب مال سخت ترین گناہ…
دُشمنانِ اسلام کی
تین کوششیں…
حب مال سے حفاظت
کا کم سے کم درجہ…
مضاربت کے نام پر
لوگوں کو لوٹنے والے…
ہم اللہ تعالیٰ کے
علاوہ کسی سے سوال نہ کریں…
مقابلۂ ُحسن
اللہ
تعالیٰ اپنا فضل فرما کرہم سب کے دلوں سے
دنیا کی محبت دور فرما دے…
اَللّٰھُمّ
زَھِّدْنَا فِی الدُّنْیَا وَأَحْسِنْ خَاتِمَتَنَا
تعجب ہے اُن
لوگوںپر
ایک روایت میں آیا
ہے:
اُن لوگوںپر تعجب
ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والے گھر…یعنی آخرت کو مانتے ہیں مگر محنت اور بھاگ دوڑ
فنا ہونے والے گھر یعنی دنیا کے لئے کرتے ہیں…
ہاں! بے شک دنیا
وہی جمع کرتا ہے جو عقل سے محروم ہے، اور دنیا کی خاطر وہی دشمنی کرتا ہے جو علم
سے خالی ہے اور دنیا کے بارے میں ایک دوسرے سے وہی حسد کرتے ہیں جو ناسمجھ ہیں اور
دنیا کی خاطر وہی محنت کرتے ہیں جو یقین سے محروم ہیں…
الحمدﷲ رب العالمین
کئی ہفتے سے جمعۃ
المبارک کے اعمال کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے… جمعرات کو’’مکتوب‘‘ جاری ہوتا ہے
اور مسلمانوں کو پکارتا ہے کہ’’سیّد الایام‘‘ دنوں کے امام یعنی جمعہ کے دن کو
سمجھو اور قیمتی بناؤ…درود شریف کی کثرت، جمعہ نماز کے لئے جلد مسجد پہنچنا، سورۃ
الکہف کی تلاوت اور دیگر سنتیں… اس دوران ایک مقابلہ بھی منعقد ہوتا ہے جسے
’’مقابلہ حُسن‘‘ کا نام دیا گیا ہے… بے شک درود شریف اور سلام شریف کی کثرت سے
مسلمان کو ہر چیز میں’’حسن‘‘ نصیب ہوتا ہے… ایمان میں بھی مزید حُسن آجاتا ہے اور
اعمال میں بھی… اور درود شریف کی خوشبو سے روح کی بدبو اور کثافت دور ہوجاتی ہے…
الحمدﷲ یہ مقابلہ خوب جارہا ہے… کئی افراد ماشاء اللہ بیس
ہزار سے زائد درود وسلام کی اطلاع بھیجتے ہیں تودل بہت خوش ہوتا ہے… جمعۃ المبارک
کی نماز کے لئے جلدی مسجد پہنچنے کی بھی کئی حضرات ہمت کر رہے ہیں… آج کل فتنے ہی
فتنے ہیں… ان فتنوں کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جمعۃ المبارک کے دن اور جمعۃ المبارک
کے اعمال میںخاص تأثیر رکھی ہے… دنیا اور مال کی محبت انسان کو بے عقل اور بے
وقوف بنا دیتی ہے… جو مال سے محبت رکھتاہو اس کی عقل میں اندھیراچھا جاتاہے… الحمدﷲ
درود شریف کی محنت سے جو روشنی اور خوشبو دل و دماغ اور ارواح میں آرہی ہے اُس کی
موجودگی میں’’حبّ دنیا‘‘ کے فتنے کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے… ان شاء اللہ
بڑا فتنہ، بڑا
گناہ
ارشاد فرمایا:
ہر اُمت کے لئے ایک
فتنہ ہے اور میری اُمت کا فتنہ مال ہے…(ترمذی)
فتنہ… یعنی سخت
آزمائش میں ڈالنے والی چیز… یہ کوئی معمولی لفظ نہیں فتنہ ایسی چیز ہے جس کے خوف
سے حضرات انبیاء علیہم السلام بھی روتے
اور پناہ مانگتے تھے حالانکہ انہیں کسی فتنہ سے کوئی خطرہ نہیں تھا… مال ہماری اس
اُمت کا کڑا امتحان ہے… ہم اپنے اندر جھانکیں اور دائیں بائیں دیکھیں تو مال کا
فتنہ سانپ کی طرح پھن اٹھائے پھنکار رہا ہے…اکثر لوگ کسی نہ کسی طرح اس فتنے کی زد
میں آکر اپنا دین اور اپنی آخرت برباد کر رہے ہیں… مال، مال، مال، پیسہ ، پیسہ،
پیسہ بس یہی سوچ ہے، یہی فکر ہے، یہی کامیابی کا معیار، یہی محبت اور دوستی کا معیار
ہے… اسی کی خاطر جینا ہے، اسی کی خاطر مرنا ہے… نہ حلال، حرام کا فرق نہ چاروں طرف
اٹھتے ہوئے جنازوں پر نظر… عزت بھی مال کی اورغیرت بھی مال کی… وہ چیز جسے حضرت
آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے گندگی اور
غلاظت سے بدتر قرار دیا وہ آج ہمارے سروں کاتاج ہے… دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر سے بھی زیادہ گھٹیا
ہے… جب کوئی انسان اس دنیا سے محبت کرتا ہے تو وہ بھی بے وقعت، بے عزت اور گھٹیا
ہو جاتا ہے… جو شخص صبح اس حال میں اٹھے کہ اس کے دل میں دنیا کی فکر ہو تو اُس پر
چار مصیبتیں مسلط کر دی جاتی ہیں… وہ سارا دن پریشانی، غم اور بے اطمینانی میں
گذارتا ہے… اور اس کا دل ہر طرح کے نور اور قوّت سے محروم رہتا ہے…
حملہ
بار بار ہوتا ہے
لوگ سمجھتے ہیں کہ
ہم نے نماز ادا کرلی، زکوٰۃ دے دی، جہاد کر لیا، روزہ رکھ لیا اور وظائف کر لئے تو
اب شیطان ہم پر دنیا کی محبت کا زہریلا حملہ نہیں کرے گا… ایسا نہیں ہے… نیک
لوگوںپر’’حبّ دنیا‘‘ کا حملہ زیادہ ہوتا ہے اور بار بار ہوتا ہے… اور شیطان اس
کوشش میں لگا رہتا ہے کہ ان’’سعادت مندوں‘‘ یعنی خوش نصیبوں کو’’شقی‘‘ یعنی بدبخت،
بدنصیب اور جہنمی بنا دے… جب انسان کے دل میں دنیا کی محبت آتی ہے تووہ لمبے لمبے
اور دور دور کے منصوبے بناتا ہے… جب دور دور کے منصوبے بنتے ہیں توموت کی یاد بھول
جاتی ہے… جب موت کی یاد بھولتی ہے تو دل سخت ہو جاتا ہے… اور جب دل سخت ہوجاتا ہے
تو آنکھیں خشک ہوجاتی ہیں… وہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے نہیں
روتیں… اور آنکھوں کا خشک ہونا شقاوت یعنی محرومی اور بدنصیبی کی علامت ہے…
’’یا اللہ! شقاوت سے ہم سب کی حفاظت فرما‘‘
دنیا کی محبَّت کا
حملہ ہر نیک مسلمان پر روز ہوتا ہے اور بار بار ہوتا ہے… اور یہ حملہ معمولی نہیں
ہوتا بلکہ ماہر ترین جادوگروں کے جادو سے بھی زیادہ تیز اور خطرناک ہوتا ہے… اور جیسے
جیسے انسان موت کے قریب ہوتا ہے یہ حملہ سخت ہوتا جاتا ہے کہ… اب کچھ تو اپنی دنیا
کا بھی سوچو، کچھ تو اپنی زندگی بھی سنوار لو، کچھ تو اپنے بچوں کے لئے بھی بنا
جاؤ… ایک جادوگر گذرا ہے’’سامری‘‘ جس کا تذکرہ قرآن مجید میں ہے… ایسا خطرناک
جادو گر کہ جس نے ایک حملے سے بنی اسرائیل کو ایمان سے شرک پر گرا دیا… اور ایسا
گناہ کروایا کہ ستر ہزار افراد کے خون سے وہ گناہ دُھل پایا…
اس اُمت پر’’حب دنیا‘‘
کا حملہ سامری کے جادو سے بھی زیادہ خطرناک اور تیز ہوتا ہے… اس لئے کبھی اس بات
سے مطمئن نہ ہوںکہ اب مجھ پر ’’حبّ دنیا‘‘ کا حملہ نہیں ہوگا… ہم سب اپنے دل کا ہمیشہ
جائزہ لیں کہ اس میں دنیا کی محبت گھس تو نہیں گئی… اور ہر دن اور ہر نماز اور ہر
عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگا کریں کہ… یا اللہ! اپنے فضل سے ہمیں حبّ دنیا
اور حبّ مال سے بچائیے… خوب محتاج بن کر دعاء کریں… صبح شام سورۂ ’’اَلْھٰکُمُ
التَّکَاثُرُ‘‘ کم از کم تین بار پڑھیں… یَاخَبِیْرُیَا
آخِر کا زیادہ ورد کریں… دنیا پرستوں کی صحبت سے دور رہیں موت کو یوں یاد کریں کہ
بس ابھی آئی… اور مال کے بارے میں شریعت کے احکامات معلوم کریں اور اُن کو سختی
سے اپنے عمل میں لائیں… مجاہدین خاص طور پر اس کی فکر کریں کیونکہ اُن پر حب دنیا
کا حملہ عام نیک لوگوں سے بھی زیادہ ہوتا ہے…
آج کل دبئی میں
کچھ لوگ اپنے مثالی مرکز سے کٹ کر کرزئی حکومت سے مذاکرات کر رہے ہیں…اُن کا ماضی
اور اب اُن کا حال دیکھ کر دل خوف سے کانپنے لگتا ہے… یا اللہ! زندگی کے آخری دن
پچھلے دنوں سے اچھے بنا دیجئے… اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرما دیجئے…
سخت ترین گناہ
قرآن مجید اول تا
آخر… حبّ دنیا کی مذّمت سے بھرا ہوا ہے… پوری پوری سورتیں صرف یہی مسئلہ سمجھاتی
ہیں کہ… دنیا کے دھوکے میں نہ پھنسو اورآخرت کی فکر اور محنت کرو… سورۃ الکہف جو
جمعہ کے دن پڑھی جائے تو اگلے جمعہ تک دل کو نور سے بھر دیتی ہے… وہ عجیب عجیب طریقوں
سے دنیا کی محبت سے روکتی ہے… وہ ہمیں سکھاتی ہے کہ تمہاری ٹوٹی ہوئی کشتی تمہارے
لئے بہتر ہے کہ وہ تمہیں قزاقوں سے بچاتی ہے… نئی کشتی کی فکر میں نہ پڑو ورنہ
مارے جاؤ گے… وہ ہمیں سمجھاتی ہے کہ اولاد کی وجہ سے دنیا کی محبت میں نہ پڑو بعض
اولاد ایسی ہوتی ہے جو تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا مستحق بنا سکتی ہے… اور نیکی
کر کے اس کا معاوضہ طلب نہ کرو… اور نیکی کرنے والوں کی اولاد کے لئے اللہ پاک رزق
کی حفاظت کا خود بندوبست فرماتے ہیں… سورۃ الکہف ہمیں جلتے اور اجڑتے ہوئے باغات
دکھاتی ہے… اوراصحاب کہف کی ہجرت کے قصے سناتی ہے… وہ نوجوان جنہوں نے دنیا کی ترقی
اور اُس کے عیش و آرام کو چھوڑا تو کیسی عظیم الشان نعمتوں اور کامیابیوں کے
مستحق بن گئے… الغرض یہ قرآن پا ک کا خاص موضوع ہے… وہ ہمیں قارون کا انجام اور
فرعون و ہامان کی تباہی بھی دکھاتا ہے… اورقوم عاد کی سائنسی ترقی کو برباد ہوتے
ہوئے بھی دکھاتا ہے… دراصل’’حبّ دنیا‘‘ دل میں ہو تو نہ ایمان مضبوط جگہ پکڑتا ہے…
اور نہ جہاد کی ٹھیک توفیق ملتی ہے… اور نہ انسان کے ارادے بلند ہو سکتے ہیں… ایک
حکایت میں تو یہاں تک آیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا گیا:
’’اے موسیٰ! دنیا کی محبت پر مائل نہ ہوں،کیونکہ
دنیا کی محبت سے بڑا کبیرہ گناہ اور کوئی نہیں ہے ‘‘
حضرت فضیل بن عیاض
رحمۃ اللہ علیہ بڑے ولی اور صاحب علم گزرے ہیں، وہ فرماتے ہیں:
تمام شرور کو ایک
گھر میں بند فرما دیا گیا ہے اور اُس گھر کی چابی دنیا کی محبت ہے… یعنی جسے دنیا
کی محبت کا مرض لگ گیا اب وہ ہر شر میں مبتلا ہو جائے گا… اور تمام خیروں کو ایک
گھر میں بند کر دیا گیا ہے اور اس گھر کی چابی ’’زُہد‘‘ ہے… یعنی دنیا سے بے رغبتی…
پس جو دنیا سے بے رغبت ہو جائے گا اُسے ان شاء اللہ ہر خیر مل جائے گی…
آج اس بات کی سخت
ضرورت ہے کہ… قرآن پاک کی وہ آیات جو’’حبّ دنیا‘‘ کی مذمت کرتی ہیں… انہیں ہم
خود بھی بار بار پڑھیں، اپنے اہل اولاد کو بھی سنائیں اور مسلمانوں تک بھی… اُن کی
روشنی پہنچائیں… کیونکہ مال کی محبت کا سیلاب ایک خطرناک سونامی کی شکل میں
مسلمانوں کو تباہ اور کمزور کررہا ہے… اور دشمنان اسلام کی تین کوششیں ہیں:
١ مال
کی ضرورت بہت بڑھا دی جائے
٢ مالداروں
کو پُرکشش بنا کر لوگوں کا آئیڈیل بنا دیا جائے
٣ حلال
حرام کا فرق مٹا دیا جائے… مسلمان حرام کھائے گا تو کسی کام کا نہیں رہے گا
آپ باریکی سے غور
کریں کہ ان تین چیزوں پر کس طرح سے محنت کی جارہی ہے… چنانچہ آج انسان کی ضروریات
اتنی بڑھا دی گئی ہیں کہ ہر انسان مزید مال کا خود کو محتاج سمجھتا ہے… پھر وہ مال
اُسے بھیک مانگ کرملے، سؤال کر کے ملے یا حرام طریقے سے ملے وہ خود کو مجبور سمجھتا
ہے کہ میں اور کیا کروں؟مثلاً مہنگا علاج تو میں نے ضرور کرانا ہے… یا بچوں کے ولیمے
اور شادی کی دعوتیں میں نے ضرور کرنی ہیں…
ایسے حالات میں جب
کہ مسلمان مال کے پیچھے اندھا دھند دوڑ رہے ہیں انہیں قرآن پاک کے احکامات… اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ اور سیرت طیبہ سنانے کی ضرورت
ہے… اور جہاد کی دعوت اس کا سب سے بہترین علاج ہے… بشرطیکہ دعوت دینے والے خود اس
عظیم فتنے سے دور ہوں…
کم از کم حفاظت کا
درجہ
اللہ تعالیٰ نے دنیا
میں کوئی ایسا’’فتنہ‘‘ پیدا نہیں فرمایا جس سے بچنا ناممکن ہو…’’ حبّ دنیا‘‘ سے بھی
بچا جا سکتا ہے، بس فکر کی ضرورت ہے… اور اس میں کم ازکم درجہ یہ ہے کہ ہم اللہ
تعالیٰ کا نام کسی کو لوٹنے اور مال بٹورنے کے لئے استعمال نہ کریں… دینداری کے لبادے
میں، جہاد کے لبادے میں، علم دین کے لبادے میں لوگوں کو لوٹنا ایسا جرم ہے، جس کی
شدّت بہت سخت ہے…
آج کئی لوگوں نے
دینی بھیس اپنا کر لوگوں کو’’مضاربت‘‘ میں لوٹ لیا… ہائے کاش وہ اللہ تعالیٰ کے
نام اور دینی نسبت کی اس قدر گستاخی کی جرأت نہ کرتے… اسی طرح جو مال دین کے نام
پر، اللہ تعالیٰ کے نام پر اجتماعی طور پر جمع کیا گیا ہو اس میں ہر گز خیانت نہ
کریں اور اُسے کبھی اپنے ذاتی مقاصد کے لئے خرچ نہ کریں…مجاہد کسی سے چندہ لینے
جائے… اور پھر بعد میں اُسی فرد سے اپنی ذاتی حاجات کے لئے سؤال کرے… یہ کتنا
بُرا عمل ہے؟ اے مسلمانو!رزق مقدرہوچکا اور اس میں کسی حیلے بہانے اور تعارف سے نہ
کمی ہو سکتی ہے نہ زیادتی… ایک آدمی بھیک مانگے اور کہے اے لوگو! میری مدد کرو… یہ
اگر ضرورت مند نہیں ہے تو گناہ گارہوگا… اور دوسرآدمی بھیک مانگے… اس میں بار بار
اللہ رب العزت کا نام لے کہ… اللہ گواہ ہے میری یہ حالت ہے وہ حالت ہے… یہ اگر
ضرورت مند نہیں تو بڑا مجرم ہے اس نے سؤال کا گناہ بھی کیا اور اللہ رب العالمین
کے عظیم نام کو بھی غلط استعمال کرنے کی گستاخی کی…
بھائیو! اور بہنو!
ہم کسی سے بھی سؤال نہ کریں… نہ کسی مالدار سے، نہ کسی جماعت سے، نہ کسی ٹرسٹ سے…
ہم صرف اللہ تعالیٰ سے مانگا کریں تو ہمارے ایمان میں بہار اور نکھار آجائے… حضرت
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:
دنیا کی محبت ہر
برائی کی جڑ ہے…
یا اللہ! امان، یا
اللہ! امان، یا اللہ! حب دُنیا سے امان…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیّدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
معطی بھی وہی…
رزّاق بھی وہ
حب مال کی جڑ
کاٹنے والا جملہ…
حب دنیا سے بچائو
کا مکمل نصاب سمجھانے والی تحریر…
دنیا کی محبت، دُنیا
کی تنگی، دنیا کا فتنہ… سب خطرناک…
ایک عقلمند شخص
کاقابل تقلید قصہ…
توقع صرف اللہ
تعالیٰ سے رکھی جائے…دنیا سے ہرگز نہیں…
جس سے طمع ہو اس
کے لیے کیا کیا جائے؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک چشم کشا فرمان…
حبِ دُنیا کے
موضوع کی وسعت واہمیت…
حبِ دُنیا سے
بچائو کا جامع نصاب…
دینی دعوت دینے
والوں کے لیے ایک رہنما اصول…
معطی بھی وہی…
رزّاق بھی وہ
اللہ
تعالیٰ دنیا کی محبت، دنیا کے فتنے اور دنیا
کی تنگی سے میری اور آپ سب کی حفاظت فرمائے… آمین…
١ دنیا
کی محبت بھی خطرناک… دل کو مُردہ کرنے والی…
٢ دنیا
کا فتنہ بھی خطرناک… دل کو غافل کرنے والا…
٣ دنیا
کی تنگی بھی خطرناک… دل کو لوگوں کا محتاج بنانے والی…
ایک قصّہ
ایک نیک اور
مالدار شخص نے اپنا قصہ لکھا ہے کہ… ایک دن میرا دل بہت بے چین ہوا… ہر چند کوشش کی
کہ دل بہل جائے، پریشانی کا بوجھ اُترے اور بے چینی کم ہو، مگر وہ بڑھتی ہی گئی…
بالآخر تنگ آکر باہر نکل گیا اور بے مقصد اِدھر اُدھر گھومنے لگا، اسی دوران ایک
مسجد کے پاس سے گذراتو دیکھا کہ دروازہ کھلا ہے… فرض نمازوں میں سے کسی کا وقت نہیں
تھا، میں بے ساختہ مسجد میں داخل ہوا کہ وضو کر کے دو چار رکعت نماز ادا کرتاہوں،
ممکن ہے دل کو راحت ملے… وضو کے بعد مسجد میں داخل ہوا تو ایک صاحب کو دیکھا… خوب
رو رو کر گڑ گڑا کر دعاء مانگ رہے ہیں اور کافی بے قرار ہیں… غور سے ان کی دعاء سنی
تو قرضہ اتارنے کی فریاد میں تھے… اُن کو سلام کیا، مصافحہ ہوا، قرضہ کا پوچھا…
بتانے لگے کہ آج ادا کرنے کی آخری تاریخ ہے اپنے مالک سے مانگ رہا ہوں… اُن
کاقرضہ چند ہزار روپے کا تھا وہ میں نے جیب سے نکال کر دے دیئے… ان کی آنکھوں سے
آنسوچھلک پڑے…اور میرے دل کی بے چینی سکون میں تبدیل ہو گئی… میں نے اپنا وزیٹنگ
کارڈ نکال کر پیش کیا کہ آئندہ جب ضرورت ہو مجھے فون کر لیں… یہ میرا پتا ہے اور یہ
میرا فون نمبر… انہوں نے بغیر دیکھے کارڈ واپس کر دیا اور فرمایا… نہ جناب! یہ نہیں…
میرے پاس اُن کا پتا موجود ہے جنہوں نے آج آپ کو بھیجا ہے… میں کسی اور کا پتا جیب
میں رکھ کر اُن کو ناراض نہیں کر سکتا…
سُبْحَانَ اللہِ
وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْم
تھوڑا سا غور
فرمائیں
اللہ تعالیٰ ہی
ہمارے اور تمام جہان کے رب ہیں… یعنی پالنے والے ہیں… وہی سب کے رزّاق ہیں، وہی
معطی ہیں یعنی عطاء فرمانے والے… ہم ماں کے پیٹ میں تھے تواللہ تعالیٰ نے ہمیں روزی
دی… ہم چلنے پھرنے سے معذور معصوم بچے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں روزی دی… ہم نے
مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے… مگرہم یہ سب کچھ کتنا جلدی بھول
جاتے ہیں… کوئی ہمیں کچھ مال دے توہم اس کا نام پتا بہت احتیاط سے محفوظ کرلیتے ہیں…
اور اپنی کئی توقعات اُس سے وابستہ کر لیتے ہیں… ہمارادل بھکاری کے پیالے کی طرح
دنیا داروں کے سامنے منہ کھولے رہتا ہے کہ فلاں ہمیں یہ دے اور فلاںہمیں وہ دے…
حالانکہ دنیاکے انسان فانی ہیں، آج ہیں کل نہیں ہوں گے… اُن کا دل بھی چھوٹا
اورہاتھ بھی تنگ… ہم جب کسی سے مانگیں گے تو وہ ہم سے نفرت کرے گا… ہم اللہ تعالیٰ
سے مانگیں گے تو وہ ہم سے محبت فرمائے گا… ہم جب دنیا والوں سے یہ توقع رکھیں گے کہ
وہ ہمیں دیںتو وہ لوگ ہم سے ڈریں گے، ہم سے بھاگیں گے اور ہم سے چھپیں گے… لیکن
اگر ہم اللہ تعالیٰ سے امید اور توقع رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا پیار عطاء
فرمائے گا اور ہمارے دل کو اپنے اور زیادہ قریب فرمالے گا… جو کہتا ہے یا اللہ! میں
صرف آپ کا فقیر… اللہ تعالیٰ اُسے کسی اور کا فقیر اور محتاج نہیں بناتے حضرت سیّدنا
موسیٰ علیہ السلام نے دو بچیوں کے جانوروں کو پانی پلایا… پھر؟
ثُمَّ تَوَلّٰی
اِلَی الظِّلِّ
پھر پیٹھ پھیر کر
ایک درخت کے نیچے جا بیٹھے… ہاں!جب کسی پر احسان کرو تو پھر اپنا چہرہ بھی اس کی
طرف اس امید میں نہ کرو کہ وہ شکریہ ادا کرے، وہ بدلہ دے، وہ دعاء دے بس فوراً اُس
سے پیٹھ اور دل پھیر کر اپنے رب کے پاس آبیٹھو:
رَبِّ اِنِّیْ
لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْر
موسیٰ علیہ السلام
فرما رہے ہیں… یا اللہ! آپ کی طرف سے
آنے والی خیر کا فقیر اور محتاج ہوں…
دل جب خالص اللہ
تعالیٰ سے جڑا ہو… اور کسی کی طرف خیال نہ ہو تو پھر ایک خیر نہیں ہزاروں خیریں
خود چل کر آتی ہیں…
فَجَآئَ تْہُ
اِحْدٰھُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآئٍ
خیر خود آگئی…
کھانا، ٹھکانا، شادی، انصار اور بہترین معاشرہ سب کچھ ایک آن میں مل گیا… اسی لئے
تو آج جب سے کالم لکھنے کا ارادہ کیا یہ الفاظ زبان پر بار بار آرہے ہیں:
معطی بھی وہی،
رزاق بھی وہ
بھائیو! اور
بہنو!… کسی سے سؤال نہیں، کسی سے توقع اور غرض نہیں، کسی کا پتا اور فون نمبر نہیں…
بس ایک اللہ، بس ایک اللہ، بس ایک اللہ…
اَلْمُعْطِی
ھُوَاللّٰہ، اَلرَّزَاقُ ھُوَاللّٰہ، اَلرَّبُّ ھُوَاللّٰہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان
وہ شخص جس نے
مالدار آدمی کا کارڈ واپس کر دیا کتنا عقلمند تھا؟ اُس نے اپنے اور اپنے رب کے
درمیان پردہ آنا گوارہ نہ کیا… جب ضرورت پڑے توجہ کسی مالدار کی طرف چلی جائے اور
اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جائے… یہ کتنی محرومی کی بات ہے… مالدار کا فون کبھی کھلا
کبھی بند… جبکہ اللہ تعالیٰ کا رابطہ ہروقت کھلا اور وہ ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ
قریب… مالدار کا موڈ کبھی ٹھیک کبھی خراب، جبکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہمیشہ کھلا:
بَلْ یَدٰہُ
مَبْسُوْطَتٰنِ
مالدار مر گیا تو
اب فون ملانے سے کیا ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ حیٌّ اور قیوم
ارے بھائیو! ایمان
والے کو تو حاجت پیش آتی ہی اس لئے ہے کہ وہ بار بار
’’یا ربِّ، یا ربِّ، یا ربِّ‘‘
پکارے… اس کی حاجت
پوری ہونے میں بعض اوقات تأخیر اس لئے ہوتی ہے کہ اُس کے نامۂ اعمال میں مزید
دعاء اورمزید آہ وزاری لکھی جائے… ورنہ مالک کے خزانوں میں کیا کمی ہے… مگر جب
بندہ مانگ رہا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کو اچھا لگتا ہے… اور یہ مانگنا اُس بندے کے
لئے آخرت کا سرمایہ بن جاتا ہے… ہم کسی مالدار سے مانگیں گے تو ہمارا چہرہ بگڑ
جائے گا اور ہم اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے تو ہماراچہرہ روشن ہو جائے گا…
مالدارلوگوں کی
عادت ہوتی ہے کہ وہ آپ سے کہہ دیں گے… جناب! جب ضرورت ہو مجھے بتادیجئے گا…
حالانکہ وہ ہماری ہر ضرورت پوری نہیں کر سکتے… اگر ہم خدانخواستہ اُن کو اپنی
ضرورت بتانے لگیں تو وہ دو چار بار کے بعد اپنا فون نمبر ہی بدل لیں گے… آخر وہ
بھی انسان ہیں، اُن کو اپنے مال سے محبت ہوتی ہے… اُن کی بھی اپنی ضرورتیں ہوتی ہیں…
اُن سے اور بھی بہت سے لینے والے ہوتے ہیں… توپھر اُن کے ایک جملے سے… ہماری
توقعات کا رُخ اللہ ربّ العالمین سے ہٹ کر اُن کی طرف کیوں مُڑ جاتا ہے؟… جبکہ
اللہ ربّ العالمین نے ہمیں فرمایا ہے کہ مجھ سے جب چاہو مانگو… میرے خزانے بے شمار
ہیں… اور اللہ تعالیٰ جس کو جتنا بھی دیں اُن کے ہاں کمی نہیں آتی… آج سے ایک
معمول بنا لیں… ضرورت کے وقت جب ہماری توجہ اللہ تعالیٰ سے ہٹ کر کسی انسان کی طرف
جائے تو ہم فوراً اپنے لئے اور اس انسان کے لئے استغفار شروع کردیں…
اَللّٰھُمَّ
اغْفِرْلِیْ وَلَہٗ
یااللہ! میری بھی
مغفرت فرما،اس کی بھی مغفرت فرما… یا اللہ! مجھے بھی معاف فرما اور اُسے بھی معاف
فرما… ان شاء اللہ اس عمل کی برکت سے ہم ’’ اِشراف‘‘ کے گناہ سے بچ جائیں گے…
مالدار بے چارے تو مصیبت میں ہوتے ہیں وہ کسی کو دس بار دیں مگرگیارہویں بار نہ دے
سکیں تو سامنے والا اُن سے ناراض ہوجاتا ہے… اُن کو بددعائیں دیتا ہے… اُن کے دس
بار دیئے ہوئے کو بھول کر اُن سے نفرت کرنے لگتاہے کیونکہ’’حبّ دنیا‘‘ نے لوگوں کو
اندھا کر دیا ہے… ایسے اندھیرے ماحول میں ہم یہ روشنی پالیں کہ جو ہم پر احسان کرے
ہم اُس کے لئے دعاء کریں، آئندہ اُس سے مزید کی توقع نہ رکھیں اور اگر دل میں
توقع آئے تو ہم اُس کے لئے استغفار کا ہدیہ بھیجیں یوں ہم اُسے دینے والے بن جائیں
گے… اور اللہ تعالیٰ کو اُوپر کا ہاتھ… یعنی دینے والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے زیادہ
پسند ہے…
حضرت علی رضی اللہ عنہ … زاہدوں کے امام ہیں، آج اُن کے
کئی مبارک فرامین نقل کرنے تھے مگر کالم کی جگہ مختصر ہے تو بس ایک ہی فرمان پر
اکتفا کرتے ہیں… اللہ کرے وہ میرے اور آپ سب کے دل میں اُتر جائے…
حضرت ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کشف المحجوب میں لکھتے ہیں:
ایک شخص حضرت علی
رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور
کہنے لگا کہ اے امیر المؤمنین! مجھے کوئی وصیت کیجئے، آپ نے فرمایا:
تم اپنے اہل و
اولاد میں مشغول ہونے کو(یعنی ان کی خاطر دنیا جمع کرنے کو) اپنا سب سے بڑا اور
اہم کام نہ بناؤ… کیونکہ اگر تمہارے اہل و اولاد اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں سے ہیں
تو اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا، اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کے
دشمنوں میں سے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے دشمنوں میں مشغول ہونا اور ان کی فکر کرنا
تمہارے لئے کسی بھی طرح درست نہیں… (کشف المحجوب، ص: ۱۱۳)
ایک جامع نصاب
’’حبّ دنیا‘‘ سے حفاظت کا موضوع بڑا اہم اور
بہت مفصل ہے… اوراسے بار بار دُھرانے کی ضرورت ہے… کیونکہ جن لوگوں کے دل میں
آخرت کی فکر ہوتی ہے انہیں پر’’حبّ دنیا‘‘ کا زیادہ حملہ ہوتا ہے… حضرت ابو سلیمان
الدارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’جب آخرت دل میں ہو تو دنیا وہاں حملہ آور
ہوتی ہے تاکہ آخرت کو دل سے نکال دے… لیکن جب دنیا دل میں ہو تو آخرت اُس پرحملہ
آور نہیں ہوتی… کیونکہ دنیا کمینی ہے اور آخرت معزز ہے…‘‘
حبّ دنیا کا مکمل
موضوع کسی ایک کالم میں نہیں آسکتا… بس آج ہم سب ایک نصاب یاد کر لیں اور ساری
زندگی اُس سے غافل نہ ہوں… یہ نصاب ان شاء اللہ ہمیں دنیا کی محبت میں اندھا ہونے
سے بچانے کا ذریعہ بن سکتا ہے
١ حبّ
دنیا سے حفاظت کی ہمیشہ دعاء بہت عاجزی کے ساتھ مانگنے کا معمول رہے…
٢ حرام
مال قطعاً نہ کمائیں، نہ لیں…
٣ کسی
بھی انسان سے ہرگز سؤال نہ کریں…
٤ کسی
بھی انسان سے ’’اِشراف‘‘ نہ رکھیں یعنی دل میں اُس سے کچھ لینے، کچھ ملنے کی لالچ
اور توقع نہ ہو…
٥ مال
میں اِسراف و تبذیر نہ کریں… نہ حرام پرخرچ کریں، نہ حلال میں ضرورت سے زیادہ لگائیں…
٦ مال
میں بخل نہ کریں…خصوصاً زکوٰۃ اور دیگر شرعی حقوق ادا کرنے میں
٧ امانت
اور اجتماعی اموال میں ہرگز خیانت نہ کریں…
بس یہ ہے مختصر
اور جامع نصاب… اللہ تعالیٰ میرے لئے بھی اس پرعمل آسان فرمائے اور آپ کے لئے بھی…
دینی،جہادی دعوت دینے
والوں کے لئے
اگرلوگوں کی مالی
حاجات پوری کرنے سے لوگ ہدایت پر آتے تو اللہ تعالیٰ حضرات انبیاء علیہم السلام کو زمین کے خزانے دے کر بھیجتے… وہ
لوگوں کو مال دیتے اور لوگ دین پر آجاتے… مگر مال سے دین پر کوئی نہیں آتا… مال
سے گمراہی تو پھیلائی جا سکتی ہے، اسلام اور جہاد کو نہیں پھیلایا جا سکتا … آپ
لوگوں کو دین کی اور جہاد کی دعوت دیں… یہی آپ کے لئے اور اُن کے لئے کامیابی کا
راستہ ہے… اگرآپ ریلیف کے کاموں کو بھی ساتھ لگا کر دعوت چلائیں گے تو…لینے والے
مزید کی توقع کریں گے اورجن کو نہیں ملے گا وہ آپ سے اور آپ کی دعوت سے نفرت کرنے
لگیں گے… ریلیف اور خدمت خلق کا کام دین کا ایک الگ شعبہ ہے… اُس شعبہ کے بھی بہت
فضائل ہیں… مگر وہ ایمان اور جہاد کی دعوت کے برابرنہیں… ایمان اور جہاد کی دعوت
بہت بڑی چیز اور بڑی عظیم نعمت ہے… حضرات انبیاء علیہم السلام نے یہ دعوت دی اورلوگوں کو جان و
مال کی قربانی میں لگایا… جب لوگ دنیا سے کٹ کر جان ومال کی قربانی پر آگئے تو
اللہ تعالیٰ نے دنیا بھی اُن کے قدموں میں ڈال دی… کسی کے ساتھ نیکی کرنا، خدمت
خلق کرنا ان کاموں سے کوئی بھی مسلمان کسی کو روکنے کا تصور نہیں کر سکتا… مگر ان
کاموں کو ایمان اور جہاد کی برحق دعوت کے ساتھ خلط کرنے سے … وہ عظیم دعوت کمزور
ہوتی ہے… اپنی توجہ ایمان، اقامت صلوٰۃ اور جہاد کی دعوت اورعمل پررکھیں… اپنا مال
جہادپرلگائیںاور اپنے ذاتی مال سے مسلمانوں کی جو حاجت پوری کر سکتے ہوں وہ کریں…
حبّ دنیا کے فتنے سے خود بھی بچیں اور مسلمانوں کو بھی بچنے کی دعوت دیں… دین کی
خاطر خود بھی جان و مال کی قربانی دیں اور مسلمانوں کو بھی اس قربانی پرلائیں… بس
جلد ہی ہم زمین کے نیچے ایک ایسی جگہ ہوں گے جہاں نہ کوئی تکیہ ہوگا اور نہ کوئی
نرم لحاف… ہمارے پاس جو کچھ ہے یہ اُن کا تھا جو مر گئے… پھر ہم مرجائیں گے اور یہ
سب کچھ پیچھے والوں کا ہو جائے گا… اور ہم خالی ہاتھ قبرمیں ہوں گے… وہاں جو کچھ
کام آسکتا ہو بس اسی کی ہم سب فکر اورمحنت کریں…
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا
الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
٭٭٭
مقصود
مومن کا مقصودِاصلی
اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت ہے… دُنیا نہیں…
حضرات اُمہات
المؤمنین lکی
حیاتِ طیبہ کے سبق آموز
گوشوں سے کامیابی
کے راستے روشناس کراتی تحریر…
ہدایت کی دعاء
مانگیں… ہدایت پر ثبات کی دعاء مانگیں…
دنیا کی محبت دلوں
کو اندھا کرنے والا عمل…
دنیا کی بدلتی
حالت… ایک عبرت انگیز قصّہ…
حبّ دنیا سے بچانے
والی ایک دعاء…
دُنیا کی مثال…
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان گرامی…
حضرات اُمہات
المؤمنین l کی آزمائش اور ان کا جواب…
حبِ دُنیا نے تمام
کاموں کوتباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے…
مقصود
اللہ
تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلائے
اَللّٰھُمَّ
اھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم
اللہ
تعالیٰ ہمیں ایمان پر ثابت قدمی نصیب
فرمائے
اَللّٰھُمَّ یَا
مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوْبَنَا عَلیٰ دِیْنِک
اللہ
تعالیٰ ہم سب کو گمراہی سے بچائے
رَبَّنَا لَا
تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً
اللہ
تعالیٰ ہم سب کو تفرقے، نفاق اور برے
اخلاق سے بچائے
اَللّٰھُمَّ
اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنَ الشِّقَاقِ وَالنِّفَاقِ وَسُوْئِ الْاَخْلَاق
ایک شخص پہلے بہت
نیک تھا مگر پھر اس کی حالت بدل گئی… وہ گناہ اور گمراہی میں جا گرا کسی نے ایک
’’صاحب علم‘‘ سے پوچھا یہ کیسے ہو گیا؟ انہوں نے فرمایا: یہ شخص ہدایت پر ثابت قدمی
کی دعاء نہیں مانگتا ہوگا… اور یہ شخص ہدایت کے بعد گمراہی آنے سے حفاظت کی دعاء
نہیں مانگتا ہو گا… اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے… وہ مانگنے والوں سے محبت
فرماتا ہے اور نہ مانگنے والوں سے ناراض ہوتا ہے… ہدایت پر ہونا کسی کا ذاتی کمال
نہیں، جب انسان اپنی کسی خوبی کو اپنا ذاتی کمال سمجھنے لگتا ہے تو وہ خوبی اس کے
لئے وبال بن جاتی ہے…
اَللّٰھُمَّ
اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ وَرَحْمَتِکْ
اندھے دل
حضرت ابراہیم بن
ادھم رحمۃ اللہ علیہ بڑے بزرگ، نامور صوفی
اور مقبول مجاہد گذرے ہیں، وہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اے میرے بھائی!دنیا کی محبت چھوڑ دو، کیونکہ
دنیا کی محبت انسان کو اندھا اور بہراکر دیتی ہے‘‘
جی ہاں! دنیا کے
مال کی محبت، دنیا کی عزت کی محبت… حبّ مال اور حب جاہ انسان کے دل کو اندھا کر دیتی
ہے… روز اٹھتے جنازے نظر نہیں آتے… اپنے سفید ہوتے ہوئے بال نظر نہیں آتے… سامنے
منہ پھاڑے قبر نظر نہیں آتی… قرآن پاک کی آیات نظر نہیں آتیں… اور کان ایسے بہرے
ہو جاتے ہیں کہ کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی… ایک میٹھی دعاء یاد کر لیں… یہ دعاء
مشہور محدث حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ
علیہ مانگا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ
زَھِّدْنَا فِی الدُّنْیَا وَوَسِّعْ عَلَیْنَا فِیْھَا
یا اللہ ! ہمیں دنیا سے زہد اور بے رغبتی عطاء
فرمائیے اور ہمارے لئے دنیا میں وسعت عطاء فرمائیے…
دنیا کے بدلتے رنگ
عرب کا ایک مشہور
قبیلہ تھا… بڑا مالدار اور سردار… مگر پھر اچانک دنیا نے آنکھیں پھیر لیں اور
بھکاری بنا دیا… اس خاندان کی ایک عورت حضرت سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے
دربار میں حاضر ہوئی، آپ رضی اللہ عنہ نے
حالات پوچھے تو اس نے کہا:
وہ ایک شام تھی جب
ملک عرب کا ہر شخص ہم سے محبت کرتا تھا اور ہم سے ڈرتا تھا… مگر جب صبح ہوئی تو یہ
حالت تھی کہ ہم ملک عرب کے ہر شخص کے محتاج تھے اور اس سے ڈرتے تھے…
بینا نسوس الناس فی
کل بلدۃ
3
اذا نحن فیھم سوقۃ
نتنصّفُ
فاُف لدنیا لایدوم
نعیمھا
3
تقلب تارات بنا
وتصرف
’’ایک وقت تھا جب ہم سب کے سردار تھے… مگر
پھر اچانک ہم بری طرح سے حقیر ہو گئے… اُف ہو اس دنیا پر کہ اس کی نعمتیں ہمیشہ نہیں
رہتیں… ہر دن ان کا رنگ بدلتا رہتا ہے…‘‘
اسی
لئے تو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا کو ’’ملعونۃ‘‘ فرمایا…
حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں’’لعنت‘‘ کے لفظ
کا استعمال بہت کم اور خاص تھا… جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے’’حب دنیا‘‘ پر لعنت بھیج دی تو ’’حب دنیا‘‘
کا کوئی مریض اب کہاں رحمت پا سکتا ہے… ہائے مال، ہائے عہدہ، ہائے عزت، ہائے ناموری
کرنے والے ہائے ہائے ہی پکارتے ہیں… دنیا کی زیب و زینت اور چمک دمک پر کوئی منافق
ہی مرتا ہے… قرآن پاک نے سمجھایا:
’’مزین کر دی گئیں لوگوں کے لئے دنیا کی
خواہشات یعنی عورتیں، بیٹے، سونا، چاندی، گھوڑے، مویشی اور کھیتی…‘‘
یا اللہ! رحم … ہم
نے آج کل میں ہی اس ظالم دنیا کو چھوڑنا ہے… اس کی محبت سے ہماری حفاظت فرما… ایک
میٹھی دعاء یاد کر لیجئے:
اَللّٰھُمَّ
صَغِّرِ الدُّنْیَا بِاَعْیُنِنَا وَعَظِّمْ جَلَالَکَ فِی قُلُوْبِنَا،
اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَرْضَاتِکَ وَثَبِّتْنَا عَلیٰ دِیْنِکَ وَطَاعَتِک
’’یا اللہ! دنیا کو ہماری آنکھوں میں حقیر
بنا دیجئے اور اپنے جلال کو ہماری آنکھوں میں بڑا یعنی عظیم بنا دیجئے، یا اللہ!
ہمیں اپنی رضاوالے اعمال کی توفیق عطاء فرمائیے اور ہمیں اپنے دین اور اپنی اطاعت
پر ثابت قدمی عطاء فرمائیے…‘‘
حساب، عقاب، عتاب
سیّدنا حضرت علی
المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے کسی نے دنیا کے بارے میں پوچھا تو ارشاد فرمایا:
دنیا تو ایسی چیز
ہے جس کے حلال میں حساب ہے…یعنی حلال کا بھی حساب دینا ہوگا… اور اس کے حرام میں
عقاب یعنی اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے اور اس کے شک والے مال میں عتاب ہے…
دُنیا کی محبت
انسان کے دل میں’’وھن‘‘ بزدلی اور نفاق پیدا کرتی ہے… اور انسان کو ہمیشہ فکر اور
پریشانی میں مبتلا کرتی ہے… دُنیا کے طالب کو خریدنا آسان، گمراہ کرنا آسان،
ڈرانا آسان… اور راہ مستقیم سے ہٹانا آسان…
ایک میٹھی مسنون
دعاء یاد کر لیجئے:
اَللّٰھُمَّ لَا
تَجْعَلِ الدُّنْیَا اَکْبَرَ ہَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا
یا اللہ! دنیا کو
ہماری بڑی فکر اور ہمارے علم کا مبلغ نہ بنائیے…
کافر دنیا سے اپنی
خواہشات پوری کرتا ہے… جبکہ منافق دنیا کو اپنی عزت اور ظاہری ٹیپ ٹاپ پر لگاتا
ہے… اور دونوں کے نزدیک آخرت کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا…
فتنہ اور آزمائش
ہم نے مرتے دم تک
اسی دنیا میں رہنا ہے… اور حکم یہ ہے کہ دنیا میں دل نہ لگاؤ…
ہمارے اندر طرح
طرح کی ضرورتوں کے خانے ہیں… کھانے کی ضرورت، پینے کی ضرورت، جسمانی ضرورتیں… رہنے
کی ضرورت، وغیرہ وغیرہ…
گویا دنیا کے دریا
میں ہمیں ڈال دیا گیا ہے… اور ساتھ حکم فرمایا گیا ہے کہ اس میں ڈوبنا نہیں… ہمارے
چاروں طرف دنیا کے پجاری… ہرطرف مالداروں کی ظاہری عزت اور ٹیپ ٹاپ…مگر ہمیں حکم دیا
گیا کہ ہم نے ان کی طرف رشک اور پسند کی نظر سے دیکھنا تک نہیں… ہمارے چاروں طرف
دنیا کی زیب و زینت مگر ہمیں حکم کہ تم نے اس دنیا کو ملعون سمجھنا ہے… ہاں بے شک
آزمائش ہے… ہاں!بے شک امتحان ہے… مگر اسی آزمائش اور امتحان میں کامیابی پر ہی
جنت ملتی ہے… انسان نہ اپنی مرضی سے مالدار ہوسکتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے غریب …
مال جو قسمت میں لکھا ہے وہ مل کر رہے گا… مگر یہ مال ہم نے جیب میں رکھنا ہے یادل
میں… یہ ہمیں اچھی طرح سمجھا دیا گیا… آزمائش کے اس میدان میں… نہ ہی اللہ تعالیٰ
نے ہمیں اکیلا چھوڑا اور نہ ہی ہمارے محسن آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں لاوارث کھڑا کیا… قرآن پاک کامیاب
مالداروں کے حالات بھی سناتا ہے اور ناکام مالداروں کے بھی… کامیاب مالدار وہ تھے
جن کے پاس دنیا تھی مگر اُن کے دل دنیا کی محبت سے پاک تھے… اور ناکام مالدار وہ
جو دنیا کو دل میں بسا بیٹھے تھے… بالآخر دنیا اُن کو لے ڈوبی… قرآن پاک ہمیں
کامیاب غریبوں کے حالات بھی سناتا ہے اور ناکام غریبوں کے بھی…
کامیاب غریب وہ
جنہوں نے… دنیا کو اپنا مقصود نہیں بنایا… اور ناکام غریب وہ جو دنیا میں مالدار
بننے کو ہی اپنی کامیابی سمجھ بیٹھے…
قرآن پاک نے
ہمارے سامنے منافقین کو کھڑا کر دیا… ان کی ایک ایک بُری عادت سمجھا دی… مال کے
بھوکے، جاہ ، زیب و زینت اور دنیاوی عزت کے بھوکے… قرآن مجید نے ہمیں چند خواتین
دکھائیں… وہ روئے زمین کی خوش بخت ترین عورتیں تھیں… عرش سے اُن کے لئے سلام آتا
تھا… وہ بڑے بڑے خاندانوں کی شہزادیاں تھیں… وہ ظاہری اور باطنی ہر خوبی میں دنیا
کی تمام عورتوں سے فائق تھیں…
ان میں سے کوئی بھی
کسی معمولی گھرانے میں نہیں پلی بڑھی تھیں… مگر پھر قدرت نے ان کو حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرمبارک میں لا
بسایا… یہاں فاقے تھے، پیوند زدہ کپڑے تھے اور تین تین دن تک ٹھنڈے رہنے والے
چولہے تھے…
جنت کی حوروں سے زیادہ
افضل اور زیادہ مقام والی ہماری ان ماؤں نے ایک بار اپنے خرچے میں اضافے کا جائز
مطالبہ کر دیا… انہوں نے نہ کوٹھیاں مانگیں اور نہ طرح طرح کے لباس… انہوں نے نہ
جائیداد مانگی اور نہ سونے کے زیورات… بس اتنا کہ کم از کم کھانا تو دو وقت کا پورا
مل جائے… مگر جواب کیا ملا؟ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے روٹھ کر مسجد شریف میں مقیم ہوگئے…
یا اللہ! خیر…
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی…
اور پھر ربّ تعالیٰ نے بھی صاف اعلان فرما دیا… سورۂ احزاب کھول کر دیکھ لیجئے…
اے نبی! ان سے
پوچھ لیجئے کہ دنیا چاہئے یا اللہ اور رسول؟
ان پاکیزہ ہستیوں
کے دل اونچے تھے، شیطان ان میں یہ ضد نہ ڈال سکا کہ وہ اتنا ہی عاجزی سے پوچھ لیتیں!!
یا اللہ! ہم نے
کون سی دنیا مانگی تھی کہ اتنا سخت فیصلہ کہ… اگر دنیا چاہئے تو حضرت آقا مدنی
صلی اللہ علیہ وسلم کچھ سامان دے دیںگے
مگر اُس سامان کے ساتھ طلاق بھی ہوگی… مگر وہ تو باسعادت تھیں، عقلمند تھیں ہماری
وہ مائیں فوراً پکار اٹھیں
ہمیں اللہ چاہئے…
ہمیں رسول اللہ چاہئیں
بس اللہ، بس اللہ،
بس اللہ… اور بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم دنیا نہیں، دنیا نہیں، دنیا نہیں…
سبحان اللہ! اُن
کے گھر پھر بس گئے… اور دنیا اور آخرت میں
حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا قرُب نصیب ہو گیا…
بس اسی واقعہ سے
ہم اندازہ لگالیں کہ… اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی کیا قیمت ہے… اور دنیا کی محبت
کا کیا انجام ہے؟…
آہ!
آج دنیا کی محبت نے ہمارے دلوں کو ویران کر دیا… ہمارے گھروں کو اجاڑ دیا…
ہماری جماعتوں کو
غیبت، تفرقے اور رسہ کشی کا بازار بنا دیا… ہائے کاش ہم سورہ انفال کی ابتدائی چند
آیات ہی سمجھ کر پڑھ لیں اور دل میں اتار لیں تو… ہمارا جہاد کتنا مبارک، کتنا
طاقتور، کتنا خوشبودار ہو جائے… حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب مال غنیمت پر
تھوڑی سی آپس میں بات چیت کی تو قرآن پاک نے کیسی واضح تنبیہ فرمائی… مال،مال کی
باتیں چھوڑو، اگر تم واقعی ایمان والے ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرو، آپس کے معاملات
درست کرو… اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو… ساتھ ساتھ اجتماعی اموال کی
نزاکت، امانت اور احتیاط کا مسئلہ بھی سمجھا دیا… حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین بڑے اونچے لوگ تھے… ان کے
پاس دنیا میں جو کچھ تھا وہ سارا انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے لگا دیا… تب
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اُن کے قدموں میں ڈال دیا… مگر پھر بھی دنیا اُن کے قدموں
میں ہی رہی اُن کے دلوں میں کوئی جگہ نہ بنا سکی… یا اللہ! ہمارے دلوں میں بھی نور
اور روشنی عطاء فرمادیجئے
اَللّٰھُمَّ
اجْعَلْ فِی قُلُوْبِنَا نُوْرَا… اَللّٰھُمَّ اجْعَل لَّنَا نُوْرَا
لا الہ الا ﷲ، لا
الہ الا ﷲ، لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا ﷲ محمد
رسول ﷲ
٭٭٭
مقامِ عبرت
دُنیاملعون ہے…
لعنتی دُنیا کے فتنے سے خبردار کرتی ایک روشن تحریر…
ایک مسنون دُعا…
دُنیا ملعون ہے…
ہم دُنیا کے نہیں، اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں…
دُنیا کی محبت
رکھنے والے لوگ اللہ تعالیٰ سے اختلاف کے مجرم…
سچے ایمان والے
دُنیا میں ہمیشہ رہیں گے…
حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایمان کا بنیادی جزء ہے…
حبِ دُنیا اس سے
محروم کردیتی ہے…حبِ دُنیا ناگہانی آفت…
حبِ دُنیا کی
علامات اور علاج…
حرف ’’میم‘‘ سے
شروع ہونے مضامین کا سلسلہ… ایک عشقیہ کاوش
مقامِ عبرت
اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام روحانی اور جسمانی امراض
سے شفاء عطاء فرمائے…
اَللّٰھُمَّ
اِنَّا نَسْئَلُکَ الصِّحَّۃَ وَ الْعِفَّۃَ وَالْاَمَانَۃَ وَحُسْنَ الْخُلُق
بُرے نام سے اللہ
تعالیٰ کی پناہ
دنیا اور مال کے
لالچی کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے
معلوم ہے کیا نام دیا ہے؟
’’عبدالدرھم، عبدالدینار‘‘
درہم اور دینار کا
بندہ اور غلام… اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر لعنت فرمائی ہے:
لُعِنَ عبدالدینار،
لعن عبدالدرھم(ترمذی)
لعنت کے معنیٰ ہیں…
اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہونا… دراصل لالچ اورایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو
سکتے…لالچ ہو گی تو ایمان دل سے روٹھ جائے گا… اور جب دل میں ایمان نہیں ہوگا تو ایسے
دل پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل نہیں ہوگی…اسی لئے کہتے ہیں کہ’’حبِ دُنیا‘‘ہی وہ
چیز ہے جس نے جہنم کو آباد کرنا ہے… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں فرمادیاکہ!!
الا ان الدنیا
ملعونۃ (ترمذی)
خوب اچھی طرح سن
لو کہ دنیا ملعون ہے… ہاں دنیا میں جو کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہو وہ رحمت والا ہے…
مگر انسان بہت تیزی سے حبّ دنیا کی طرف گرتا ہے…
بَلْ تُؤْثِرُوْنَ
الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا
ہاں تم دنیا کی
زندگی کو ترجیح دیتے ہو… حالانکہ آخرت بہترین اور باقی رہنے والی ہے… ہم سب کو
بہت دعاء اور بہت فکر کرنی چاہئے کہ یہ بُرا لقب ہمارا نہ ہو۔
عبدالدینار،
عبدالدرھم
بلکہ ہمارا نام،
ہمارا لقب اور ہمارا مقام یہ ہونا چاہئے
عبداللہ،
عبدالرحمٰن… جی ہاں! ہم دنیا اور مال کے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں…
اَللّٰھُمَّ
اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُک
ہم سب کہہ دیں…
یَا رَبِّ اَنَا
عَبْدُک… یا اللہ میں آپ کا بندہ ہوں، میں آپ کا غلام ہوں… حبِ دُنیا سے توبہ
کرتا ہوں، حبِ دُنیا سے آپ کی پناہ مانگتاہوں…
بے شک دنیاجارہی
ہے…بے شک آخرت آرہی ہے… حدیث شریف میں آیا ہے کہ کچھ لوگ دنیا کے بیٹے ہیں… اور
کچھ لوگ آخرت کے بیٹے…
کچھ دنیا سے پیار
کرتے ہیں… اور کچھ آخرت سے محبت رکھتے ہیں… آج سے سو سال پہلے والے سب لوگ دنیا
سے جا چکے… کہاں گئے اُن کے اموال؟ کہاں گئے اُن کے عہدے اور کہاں گئے اُن کے عیش
و آرام؟… دنیا کے بیٹے! اپنی ماں سے محروم ہوگئے… جبکہ آخرت کے بیٹے اپنی پیاری
ماں کی گود میں جا بسے…
نعوذ باللّٰہ،
اللّٰہ تعالیٰ سے اختلاف
’’حبِ دُنیا ‘‘ کے نقصانات بے شمار ہیں… ایک
بڑا اور خطرناک نقصان یہ کہ دنیا سے محبت رکھنے والے اور اپنے دل میں دنیا کی عظمت
رکھنے والے لوگ نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ سے اختلاف کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ نے دنیا
کو حقیر اور ذلیل قرار دیا… اللہ تعالیٰ نے دنیا کو مچھر کے پر سے بھی زیادہ بے
وقعت قرار دیا… قرآن مجید میں جابجا اُن لوگوں کی مذمت فرمائی جو دنیا کو اپنا
مقصود اور مطلوب بناتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بار بار سمجھایا کہ
دنیا کی زندگی کے دھوکے میں نہ پڑو، دنیا کی چمک دمک کی طرف نہ دیکھو… کفار کی دنیوی
ترقی کی طرف نہ دیکھو… مگرہم ان تمام فرامین کو پس پشت ڈال کر دنیا سے محبت کریں…
دنیا کی مالداری اور چمک دمک کو کامیابی سمجھیں… اور بار بار کفار کے حوالے دیں کہ
وہ ہم سے کتنا آگے نکل گئے… وہ چاند پر پہنچ گئے، وہ کامیاب ہوگئے… کیا یہ اپنے
رب تعالیٰ سے اختلاف کرنا نہیں ہے؟ یادرکھیں! دنیا کی محبت مسلمانوں کے لئے دنیا
اور آخرت کی’’ذلت‘‘ ہے… اسی کو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’وھن‘‘ کے نام سے بیان فرمایا ہے اور
مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ… جب تم’’وھن‘‘ میں مبتلا ہو جاؤ گے… یعنی دنیا کی
محبت میں جا پڑو گے اور دنیا کو اپنا مقصود بنالوگے تو ایسے ذلیل ہو جاؤگے کہ دنیا
کی دوسری قومیں تم سے کھیلیں گی اور تمہیں نوچ نوچ کر کھائیں گی… مسلمانوں کی عزت
اور غلبہ’’جہاد‘‘ میں ہے اور جہاد کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ’’ حبّ دنیا‘‘ ہے…
دنیا کی محبت ایک مسلمان کو جہاد میں نہیں آنے دیتی… کیونکہ جہاد میں ہجرت ہے،
مال کی قربانی ہے، جان کی قربانی ہے… اور جب کوئی مسلمان’’حبّ دنیا‘‘ کی پہلی
رکاوٹ توڑ کر جہاد میں آجاتا ہے تو پھر’’حبّ دنیا‘‘ کا دوسرا گڑھا منہ پھاڑ دیتا
ہے… مال کا شوق، عہدے کا شوق، ناموری اور شہرت کا شوق … تب بہت سے لوگ اس میں جا
گرتے ہیں… صحیح حدیث میں وہ افراد جن کے ذریعہ سب سے پہلے جہنم کی آگ کو بھڑکایا
جائے گا ان میں’’شہید‘‘ بھی ہے… جہاد میں جان لٹانے والا شہید… مگر اس کے دل پر دنیا
میں بہادرلقب، ناموری اور شہرت کی نیت چھائی ہو گی… وہ بھی ناکام ہو جائے گا… پس
جہاد جیسے عظیم فریضے پر آنے کے لئے بھی’’حبّ دنیا‘‘ سے لڑنا پڑتا ہے… اور پھر
جہاد میں آنے کے بعد اپنے جہاد کی قبولیت کے لئے بھی’’حبّ دنیا‘‘ سے لڑنا پڑتا
ہے… اسی لئے تو حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ ہی
’’جہاد اکبر‘‘ ہے… کیونکہ اس میں مجاہدہ ہی مجاہدہ ہے… ایک مجاہدے کے بعد دوسرا
مجاہدہ… اور ساتھ جان و مال کی قربانی بھی…
مقام ِعبرت
الحمدللہ آج کے
زمانے میں بھی سچے مسلمان موجود ہیں اور ان شاء اللہ تاقیامت موجود رہیں گے…
سچے مسلمان کی ایک
بڑی نشانی!!
’’حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا ہے‘‘
یہ ایمان کی لازمی
علامت ہے… الحمدللہ آج بھی ایسے مسلمان موجود ہیں جو حضرت آقا مدنی صلی اللہ
علیہ وسلم کی عزت، حرمت اور ناموس پر اپنی
جان کے ٹکڑے کروانا اپنی سعادت سمجھتے ہیں… ایسے سچے مؤمن بھی موجود ہیں جو حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنا
سارا مال خرچ کر سکتے ہیں… اور ایسے بھی موجود ہیں کہ خواب میں حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کی ایک مبارک جھلک دیکھنے
کے لئے طرح طرح کے جتن، وظیفے اور عمل کرتے ہیں اور بڑے بڑے صدقات دیتے ہیں…
بالاکوٹ کے ایک مقبول اللہ والے بزرگ حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحب نوراللہ مرقدہ سے
ملنے تشریف لائے… اور یہ کہہ کر بلک بلک کررونے لگے کہ حضرت! مجھے حضور اقدس صلی
اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت نہیں
ہوتی… حضرت نے انہیں یہ درود شریف بتایا
’’صَلّٰی اللہُ عَلٰی النَّبِیِّ الْاُمِّی‘‘
الحمدللہ جمعۃ
المبارک کے درود سلام والے’’مقابلہ حسن‘‘ میں شریک کئی افراد نے اطلاع دی ہے کہ
انہیں اس مقابلہ کے دوران خواب میں یہ نعمت نصیب ہوئی ہے… الحمدللہ آج بھی ایسے
مسلمان موجود ہیں جنہیں اگر کہا جائے کہ زمانہ سمیٹ کر آپ کو حضور اقدس صلی اللہ
علیہ وسلم کے دور میں لے جایا جائے گا اور
آپ صرف ایک نماز رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ادا کر سکیں گے… مگر اس کے بدلے
آپ کو اپنا تمام مال دینا ہوگا اور اس نماز کے فوراً بعد موت کو قبول کرنا ہو گا
تو وہ فوراً راضی ہو جائیں گے… مگر اب ایک بھیانک منظر دیکھیں… یہ منظر اگر ہمیں یاد
رہے تو ہمیں’’حبّ دنیا‘‘ سے انتہائی نفرت ہو جائے… کچھ اشخاص تھے جن کا شمار رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے میزبان قبیلے’’انصار‘‘
میں ہوتا تھا… انصار کے فضائل آپ نے سن رکھے ہوں گے… یہ لوگ دن رات جنت سے بھی زیادہ
لذیذ سعادتوں کے قریب تھے… وہ جب چاہتے حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں حاضر ہوتے… یہ روزآنہ پانچ نمازیں
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں
ادا کرتے تھے… ان کے پاس موقع تھا کہ جب چاہتے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے لئے استغفار اور دعاء کرواتے… ان کی
آنکھیں ماہتاب نبوت کو براہ راست دیکھتی تھیں… اور اُن کے کان حضرت آقا مدنی صلی
اللہ علیہ وسلم کی پُراثر شیریں آواز
مبارک کو سنتے تھے… یہ لوگ ہر طرح سے ایمانی، دینی اور روحانی نعمتوں کے قریب تھے…
وہ چاہتے تو احسان مانتے اور قدر کرتے… مگر’’حبّ دنیا‘‘ کا کینسر اُن کے دلوں کو
مسخ کر چکا تھا… ہم جب سورۃ التوبہ کی اُن آیات پر پہنچتے ہیں جہاں ان ظالموں کی
ایک بڑی گستاخی کا تذکرہ ہے تو دل خوف سے کانپنے لگتا ہے…
یا اللہ رحم! کیا
کوئی انسان مال اور دنیا کی لالچ میں اتنا بھی گر سکتا ہے؟ ہوا یہ کہ حضرت آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں
کچھ مال آیا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
وہ تقسیم فرما دیا یہ ظالم افراد بھی ان میں شامل تھے جنہیں مال ملا… مگر وہ جتنا
چاہتے تھے اتنا نہ ملا پس اُن کے دل کا حرص اور اندر کا نفاق کالے سانپ کی طرح سر
اٹھا کر پھنکارنے لگا…
یہ گندے منہ بنا
کر مجلس سے اٹھے اور فوراً اُن افراد کو جمع کرکے جو ان بد نصیبوں کی بات سنتے
تھے… غیبت کاناپاک بازارکھول کر بیٹھ گئے… اور غیبت بھی کس کی؟ کہتے ہوئے زبان
لرزتی ہے… غیبت اور وہ بھی حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی اور الزام یہ کہ مال کی تقسیم میں انصاف نہیں
ہوتا… اور نعوذ باللہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق مال تقسیم نہیں
فرماتے:
استغفراللہ،
استغفراللہ، استغفراللہ
اندازہ لگائیں، دنیا
کی لالچ اور مال کی محبت انسان کو کتنا ذلیل اور کتنا کمینہ بنادیتی ہے… ایک طرف
وہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام تھے… جو حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر جان، مال، گھر، وطن سب کچھ قربان کر
رہے تھے…اور ہر وقت اس تاک میں رہتے تھے کہ ہمیں مزید جان و مال لگانے کا موقع
ملے… اور دوسری طرف یہ بدنصیب تھے جن کو حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مال عطاء فرمایا، مگر اُن کے دل کی حرص
کم نہ ہوئی… بے شک مال کی محبت اوردُنیا کی محبت انسان کو اندھا، بہرہ اور محروم
بنا دیتی ہے…
اَللّٰھُمَّ
اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ حُبِّ الدُّنْیَا وَنَعُوْذُبِکَ مِنَ الْوَھْنِ
وَالْحِرْمَان
تجربہ کر لیں
انسان کو پتہ نہیں
چلتا کہ وہ کب’’حبِ دُنیا ‘‘ کی بیماری کا شکار ہوا… اور حبِ دُنیا کی بیماری بہت خطرناک اور بڑی وسیع ہے… نشے میں
مدہوش شخص کو یہ یاد نہیں رہتا کہ وہ نشے میں ہے…
حضرت یحییٰ بن
معاذ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
دُنیا شیطان کی
شراب ہے، پس جو اس شراب کے نشے میں آگیا اسے قبر میں جا کر ہی ہوش آئے گا…
ہاں دوصورتیں ہیں…
ایک یہ کہ انسان قبرستان جائے اور مردوں کے پاس بیٹھ کر غور وفکر کرے…یا اُن لوگوں
کی صحبت میں جائے جو حبّ دُنیا سے دور ہیں…
یہاں چند باتیں
ضروری ہیں:
١ ہم
خود کو حبّ دنیا سے محفوظ نہ سمجھیں…
٢ ہم
دوسروں کو نہ دیکھیں کہ کون حبّ دنیا کا مریض ہے؟ ایک تو اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں
بلکہ نقصان ہی نقصان ہے… اوردوسرا یہ کہ حبّ دنیا ایک چھپی ہوئی بیماری ہے کوئی بھی
کسی کے بارے میں درست فیصلہ نہیں دے سکتا… ایک شخص دس روٹیاں کھاتا ہے مگر وہ اللہ
تعالیٰ کے ہاں’’زاہد‘‘ لکھا ہوا ہوتا ہے… اور دوسرا دو روٹیاں کھاتا ہے مگر وہ
اللہ تعالیٰ کے ہاں’’حریص‘‘ شمار ہوتا ہے… وجہ یہ ہے کہ اس آدمی کی بھوک اور صحت
پندرہ روٹیاں کھانے کی ہے وہ دس کھاتا ہے اورپانچ صدقہ کرتا ہے… اور دل میں حرص نہیں
رکھتا… جبکہ دوسرے کی بھوک اور صحت ایک روٹی کی ہے مگر وہ دوسری حرص کی وجہ سے پیٹ
میں ٹھونس لیتا ہے… اکثر مالدار حبّ دنیا کے مریض ہوتے ہیں لیکن ایسے مالدار بھی ہیں
جن کے پاس بہت مال ہے مگر وہ حبّ دنیا سے محفوظ ہیں… اور ایسے غریب بھی ہیں جن کے
پاس دنیا نہیں مگر وہ حبّ دنیا میں دنیا داروں سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں… اس لئے
دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں…
٣
کسی بڑے سے بڑے آدمی کے حرام کھانے سے وہ حرام ہمارے لئے حلال نہیں ہوجاتا… عالم،
بزرگ، مجاہد ، خطیب … سب انسان ہیں اور سب پر حبِ دُنیا کا حملہ ہو سکتا ہے… اب
اُن کی حبِ دُنیا کو دلیل بنا کر اپنے لئے
اس مرض کو جائزسمجھنا ایک بڑا خسارہ ہے… شیطان ایک انسان کو پہلے اس بات پر لاتا
ہے کہ فلاں اتنا کھا گیا، فلاں اتنا لوٹ گیا… وہ بار بار مال میں خیانت کے تذکرے
زباں پر لاکر پھریہ ترغیب دیتا ہے کہ… جب دوسرے لوگ حرام کھا رہے ہیں تو تم بھی
تھوڑا سا کھالو، جب اتنے بڑے لوگ باز نہیں آتے تو تمہیں تقویٰ کی کیا ضرورت ہے؟
ایسے حالات میں خود کو سنبھالنا چاہئے کہ ہر شخص
سے خود اس کی اپنی ذات کا سؤال ہوگا… مجھے اپنی حالت درست کرنی چاہئے کیونکہ میں
نے اکیلے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے…
٤
حبِ دُنیا کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ…دل میں مال کی عظمت ایسی آجائے کہ انسان کو
صرف مالدار لوگ ہی اچھے لگتے ہوں اور غریبوں مسکینوں سے اسے گھن آتی ہو… یہ وہ
مقام ہے جہاں سے آدمی کفر اورنفاق کی طرف گر سکتا ہے… کیونکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ
کفار کو زیادہ دولت اورعیش دیتے ہیں… اورقرآن مجید کی سورۃ الزخرف میں تو یہاں تک
سمجھایا ہے کہ اگر تمام لوگوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ
کافروں کو اور زیادہ مال دیتا یہاں تک کہ ان کے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں تک
سونے چاندی کی ہو جاتیں…
٥ ہم
اس بات کا درد لیکر کہ واقعی ہمارے اندر یہ موذی مرض… ’’حبّ دنیا‘‘ موجود ہے دو
رکعت نماز ادا کریں… اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں کہ وہ ہمیں اس مرض سے نجات
عطاء فرمائے… خوب رو رو کر دعاء کرنے کے بعد ہم یہ یقین باندھ لیں کہ آج مغرب تک
میں نے ضرور مرجانا ہے… پس ساری زندگی خراب کی اب چندگھنٹے پورے اخلاص سے آخرت کی
دائمی زندگی کی تیاری کرلوں… پھر مغرب تک کلمہ طیبہ اور استغفار میں لگے رہیں اور
دائیں بائیں کچھ توجہ نہ کریں… مغرب کے وقت موت آگئی تو اچھی ہوگی اور موت نہ آئی
تو ہم اپنے دل کو دیکھیں گے کہ کئی بڑے بڑے بوجھ اتر گئے… پہاڑوں جیسے کئی بھاری
مسائل حل ہو گئے اور بہت سی پریشانیاں دور ہو گئیں… دراصل دنیا کی محبت ہی وہ بوجھ
ہے جو ہمیں مایوس اورویران کر دیتا ہے…
مقامات
کچھ عرصہ پہلے
اچانک یہ خیال آیا کہ… رنگ و نور کے مضامین کا عنوان’’میم‘‘ سے شروع کیا جائے…
ہمارے محبوب آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی’’ میم‘‘ سے شروع ہوتا ہے… ارادہ
تھا کہ چالیس مضامین’’میم‘‘ والے عنوان سے آجائیں… مگر الحمدللہ برکت ہو گئی رنگ
و نور کی ساتویں جلد میں بھی کئی مضامین’’میم‘‘ والے آگئے… اور اس کے بعد یہ
پچاسواں مضمون بھی… اسی اہتمام کے ساتھ آرہا ہے…یہ بس ایک ذوق تھا اور ایک جنون…
اور کچھ بھی نہیں… عشق کا دعویٰ نہیں مگر خواہش بہت ہے…
اَللّٰھُمَّ صَلِّ
عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّم
اب ان پچاس مضامین
کی کتاب تیار ہو رہی ہے… اوریہ اس کا آخری مضمون ہے اورکتاب کا نام ہے’’مقامات‘‘…
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور نافع بنائے…آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اللہ،
لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللّٰھم صل علیٰ سیدنا
محمد والہ وصحبہ
وبارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ
محمد رسول اللہ
٭٭٭